Tag: US SUPREME court

  • صدر ٹرمپ کو محکمہ تعلیم سے کھلواڑ کا مکمل اختیار مل گیا

    صدر ٹرمپ کو محکمہ تعلیم سے کھلواڑ کا مکمل اختیار مل گیا

    سپریم کورٹ نے امریکی صدر کے حق میں ایک اور بڑا فیصلہ دے دیا، عدالت نے صدر ٹرمپ کی انتطامیہ کو محکمہ تعلیم کو محدود کرنے کی اجازت دے دی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے مقامی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کی انتطامیہ کو محکمہ تعلیم کو محدود کرنے کی اجازت دے دی۔

    خبر ایجنسی کے مطابق مقامی عدالت کے جج نے ٹرمپ کا محکمہ تعلیم کو محدود کرنے کے حکم نامے کو معطل کردیا تھا اورمحکمہ تعلیم سے نکا لے گئے چودہ سو ملازمین کو بحال کردیا تھا۔

    اس عدالتی فیصلے سے صدر ٹرمپ کو ایک اور قانونی کامیابی ملی ہے، تاہم سپریم کورٹ کے تین لبرل ججوں نے مذکورہ فیصلے کی مخالفت کی۔

    رپورٹ کے مطابق 21ڈیموکریٹک اٹارنی جنرلز، اسکول ڈسٹرکٹس اور اساتذہ کی یونینز نے عدالت کو خبردار کیا تھا کہ اگر محکمہ تعلیم کو بند یا محدود کیا گیا تو اس کے بنیادی کام متاثر ہوں گے۔

    مزید پڑھیں : امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف خطرے کی گھنٹی بجادی

    یاد رہے کہ امریکی عدالت کے ایک جج نے جبری ملک بدری کے معاملے میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ دے دیا۔

    فیڈرل جج جیمز بواسبرگ نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے تارکین وطن سے متعلق ان کے حکم کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کی ہے۔ عدالتی حکم عدولی پر انتظامیہ توہین عدالت کے مقدمے کا سامنا کرسکتی ہے۔

  • امریکی سپریم کورٹ کا ایک اور فیصلہ، ٹرمپ انتطامیہ کو بڑا جھٹکا

    امریکی سپریم کورٹ کا ایک اور فیصلہ، ٹرمپ انتطامیہ کو بڑا جھٹکا

    واشنگٹن : امریکی سپریم کورٹ کا ایک اور بڑا فیصلہ سامنے آگیا، جس میں کہا گیا ہے کہ وینزیلا کے زیرحراست مبینہ گینگ ارکان کو ملک بدر نہیں کیا جائے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو امیگریشن کی تحویل میں وینزویلا کے زیرحراست افراد کو ملک بدر کرنے سے عارضی طور پر روک دیا۔

    امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے یہ حکم وینزویلا کے تارکین وطن کی جانب سے دائر مداخلت کی استدعا پر جاری کیا گیا تھا۔

    ججوں نے ایک مختصر غیر دستخط شدہ فیصلے میں کہا کہ حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس عدالت کے اگلے حکم تک وینزویلا کے کسی بھی زیر حراست شخص کو امریکا سے نہ نکالا جائے۔

    قدامت پسند جسٹس کلیرنس تھامس اور سیموئل الیٹو نے جاری کیے گئے فیصلے سے اختلاف کیا۔ دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

    رپورٹ کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ صدر ٹرمپ کے قانونی اختیار پر شہری حقوق کی تنظیم کی دائر اپیل پر سماعت کے بعد سنایا گیا۔

    درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ انہیں عدالتی جائزے کے بغیر جبری بے دخلی کا سامنا ہے، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تارکین وطن گینگ کے اراکین ہیں اور عدالتی فیصلے کے خلاف آخری کامیابی وائٹ ہاؤس ہی کی ہوگی۔

    یاد رہے کہ ٹرمپ پہلے ہی جنگی قانون کے تحت تارکین وطن کو ایل سلواڈور کی جیل بھیج چکے ہیں
    جنگی قانون کے تحت صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ دشمن ملکوں کے شہریوں کو ملک بدر کرسکتے ہیں۔

    اس حوالے سے امریکی قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 1798سے اب تک یہ قانون جنگ کے دوران 3 بار استعمال ہوچکا ہے، تاہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے آئینی بحران کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے۔

  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کو غیر ملکی امدادی تنظیموں کو ادائیگی روکنے کی اجازت نہیں دی

    امریکی عدالت نے ٹرمپ کو غیر ملکی امدادی تنظیموں کو ادائیگی روکنے کی اجازت نہیں دی

    واشنگٹن : امریکی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو غیر ملکی امدادی تنظیموں کو رقم کی ادائیگی روکنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر دنیا بھر میں چلنے والے انسانی ہمدردی کے منصوبوں پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسے میں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے ٹرمپ کے فیصلے کو روک دیا گیا ہے۔

    امریکی سپریم کورٹ نے ضلعی جج امیر علی کے اس حکم کو برقرار رکھا، جس میں انتظامیہ کو امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور محکمہ خارجہ کے کنٹریکٹرز اور گرانٹ وصول کنندگان کو ان کے ماضی کے کام کی ادائیگی فوری طور پر کرنے کا کہا گیا تھا۔

    جج علی کے حکم کے مطابق انتظامیہ کو 26 فروری تک فنڈز جاری کرنے کا کہا گیا تھا، جس کی مجموعی رقم تقریباً 2 ارب ڈالر بتائی گئی ہے جس کی مکمل ادائیگی میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

    چیف جسٹس جان رابرٹس اور ان کی ساتھی ایمی کونی بیرٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے امریکی عدالت کے 3 لبرل ممبران کے ساتھ اکثریتی فیصلہ دیا، جبکہ کنزرویٹو جسٹس سیموئل علیٹو، کلیرنس تھامس، نیل گورسچ اور بریٹ کاوانوف نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر نے 20 جنوری کو اپنے عہدے پر فائز ہونے کے پہلے دن تمام غیر ملکی امداد کو 90 دن کے لیے روکنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔

    امریکی صدر نے اپنے سب سے بڑے عطیہ دہندہ اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی سربراہی میں جنگی اقدامات کا آغاز کیا ہے تاکہ امریکی حکومت کے بڑے حصے کو کم یا ختم کیا جا سکے۔

    سب سے زیادہ توجہ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) پر مرکوز ہے، جو دنیا بھر میں امریکی انسانی امداد کی تقسیم کی بنیادی تنظیم ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ہزاروں غیر ملکی ملازمین کو واپس بلا لیا اور غیر ملکی امداد منجمد کردی۔

  • تارکین وطن کے خلاف ٹرمپ کی پالیسی کے حق میں عدالتی فیصلہ، بائیڈن انتظامیہ کو دھچکا

    واشنگٹن: تارکین وطن کے خلاف ٹرمپ کی پالیسی کے حق میں عدالتی فیصلہ آ گیا، جس سے بائیڈن انتظامیہ کو دھچکا لگا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سرحدی پالیسی پر حکم امتناع میں توسیع کر کے بائیڈن انتظامیہ کو دھچکا لگا دیا۔

    امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ کی سرحدی پالیسی برقرار رکھنے کے حق میں حکم امتناع جاری کر دیا ہے، 9 میں سے 5 ججوں نے حمایت اور 4 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

    صدر بائیڈن نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کراتے ہوئے امیگریشن اصلاحات پر زور دیا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ٹائٹل 42 بارڈر پالیسی کے تحت غیر دستاویزی تارکین وطن کو ملک بدر کیا جاتا ہے، بائیڈن انتظامیہ کی نرمی کے باعث تارکین وطن کی تعداد بڑھ گئی تھی۔

    سپریم کورٹ بارڈر پالیسی پر مقدمے میں فریقین کے دلائل آئندہ سال فروری میں سنے گی۔

  • سابق امریکی صدر ٹرمپ کو الیکشن ہارنے کے بعد ایک اور بڑا جھٹکا

    سابق امریکی صدر ٹرمپ کو الیکشن ہارنے کے بعد ایک اور بڑا جھٹکا

    واشنگٹن : امریکی سپریم کورٹ نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کی ٹیکس ریکارڈ خفیہ رکھنے کی درخواست مسترد کردی ، درخواست مسترد ہونے کے بعد استغاثہ سابق صدر کا ٹیکس ریکارڈ حاصل کرسکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق امریکی صدر ٹرمپ کو الیکشن ہارنے کے بعد ایک اور جھٹکا لگا ، امریکی سپریم کورٹ نے ٹیکس ریکارڈ خفیہ رکھنے کی درخواست مسترد کردی۔

    امریکی عدالت کے اس فیصلہ کے بعد استغاثہ ٹیکس ریکارڈ حاصل کرسکےگا اور سابق صدر کیخلاف مبینہ ٹیکس فراڈ کی تحقیقات کی جاسکیں گی، ڈونلڈ  ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میںڈیموکریٹس کے مطالبے کے باوجود ریکارڈ خفیہ رکھا تھا۔

    سابق صدر نے عدالت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ڈیموکریٹس کے خلاف مہم جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

    یاد رہے گذشتہ سال صدارتی انتخابات سے قبل امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ 10 سالوں کے دوران بلکل بھی ٹیکس ادا نہیں کیا یا پھر نا ہونے کے برابر ٹیکس کی ادائیگی کی۔

    امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے کہا تھا کہ دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 میں صدر منتخب ہونے کے بعد صرف 750 ڈالر ٹیکس ادا کیا تھا۔

    میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے صدارتی روایات کو پامال کرتے ہوئے اپنی ٹیکس تفصیلات بھی عام کرنے سے انکار کردیا ہے۔

  • امریکہ میں اسقاط حمل سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

    امریکہ میں اسقاط حمل سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

    واشنگٹن : امریکی سپریم کورٹ نے اہم مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے دیا، وہائٹ ہاؤس کی جانب سے فیصلے پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے ریاست لوزیانا کے اسقاط حمل سے متعلق ایک قانون کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
    چیف جسٹس جان رابرٹس سمیت4ججز نے لوزیانا ریاست کے قانون کیخلاف فیصلہ دیا جبکہ4ججز کی جانب سے قانون کی حمایت میں فیصلہ سامنے آیا۔

    کنزرویٹو سمجھے جانے والے چیف جسٹس جان رابرٹس کا اقدام کچھ لوگوں کے لیے حیران کن تھا جنہوں نے چار لبرل ججوں کے ساتھ مل کر کثرت رائے سے یہ فیصلہ دیا۔

    دوسری جانب اسقاط حمل کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے جبکہ وائٹ ہاؤس نے سپریم کورٹ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

    صدرٹرمپ کی انتظامیہ اسقاط حمل کے عمل کیخلاف ہے، اس حوالے سے ترجمان وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ریاستی حکومتوں کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے۔

    جسٹس اسٹیفن برائر نے کہا کہ لوزیانا کا قانون غیرآئینی ہے، اسقاط حمل کی مخالفت پر ڈاکٹروں نے مریضوں کو داخل کرنے سے انکار کیا۔

    سپریم کورٹ کے جج اسٹیفن برائر نے لکھا کہ ججوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ لوزیانا کا قانون غیر آئینی ہے۔ لوزیانا کا قانون اسقاط حمل کروانے والوں پر اسی طرح بوجھ بڑھاتا ہے جیسے ٹیکساس کا قانون کرتا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ لوزیانا کا قانون ہماری نظیروں کے مطابق قائم نہیں رہ سکتا، یہ فیصلہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ قدامت پرست امریکا میں اسقاط حمل کے حق کو ختم کروانا چاہتے ہیں۔

    واضح رہے کہ امریکامیں ہرسال8لاکھ اسقاط حمل کے کیسز ہوتے ہیں، ہاؤس اسپیکرنینسی پلوسی نے لوزیانا کے قانون کو ڈریکونین قانون قرار دے دیا، نینسی پلوسی کا کہنا ہے کہ لوزیانا کا قانون خواتین کی آزادی ختم کرنے کے مترادف ہے۔

  • ٹرمپ ڈاکا پروگرام ختم نہیں کرسکتے، امریکی سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    ٹرمپ ڈاکا پروگرام ختم نہیں کرسکتے، امریکی سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    نیو یارک : امریکی سپریم کورٹ نے ڈاکا پروگرام کے حق میں فیصلہ دے دیا، صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ عدالت سے خوفناک اور سیاسی نوعیت کے فیصلے آ رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ امریکا آئے بچوں سے متعلق پروگرام ڈاکا کو ختم نہ کرنے کا فیصلہ دے دیا۔

    سپریم کورٹ کے ڈاکا پروگرام پر اکثریتی فیصلے میں5ججز نے حمایت اور چار نے مخالفت کی، چیف جسٹس جان رابرٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے متاثرین کے تحفظ پر توجہ نہیں دی۔

    دوسری جانب مریکی سپریم کورٹ کے ڈاکا پروگرام کے حق میں فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کیلئے بڑا دھچکا ثابت ہوا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فیصلے کیخلاف پھٹ پڑے، انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٰٹر پر پیغام میں سپریم کورٹ پر کڑی تنقید کی اور حق میں فیصلے کیلئے مزید ججز کی تعیناتی کا عندیہ دے دیا۔

    صدر ٹرمپ نے ٹویٹر پیغام میں امریکی شہریوں سےسوال کیا کہ عدالت سے خوفناک اور سیاسی نوعیت کے فیصلے آ رہے ہیں، کیا آپ کو ایسا لگتا ہے عدالت مجھے پسند نہیں کرتی؟

    انہوں نے کہا کہ پالیسیوں کے تحفظ کیلئے سپریم کورٹ میں مزید ججز کی ضرورت ہے، یکم ستمبر کو سپریم کورٹ کے نئے ججز کی نامزدگی کیلئے فہرست جاری کروں گا۔،

    واضح رہے کہ ا ڈاکا پروگرام امریکا میں مقیم تارکین وطن کے ساڑھے چھ لاکھ بچوں کو بیدخلی سے تحفظ فراہم کرتا ہے،
    اوباما دور میں جاری ڈاکا پروگرام سے ساڑھے6لاکھ بچے استفادہ کررہے ہیں۔

  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا : سپریم کورٹ سے بھی تارکین وطن پر پابندی کی درخواست مسترد

    ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا : سپریم کورٹ سے بھی تارکین وطن پر پابندی کی درخواست مسترد

    واشنگٹن : امریکی سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تارکین وطن پر پابندی کی درخواست مسترد کردی، عدالت نے وفاقی جج کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار پر ہزمیت کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی سپریم کورٹ نے بھی وفاقی جج کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو میکسیکو سے امریکہ میں داخل ہونے والے غیر قانونی تارکینِ وطن کے داخلے پر پابندی لگانے سے روک دیا۔

    واضح رہے کہ رواں سال 4 اپریل کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا عزم کیا تھا کہ ملک کے جنوب میں واقع میکسکو کی سرحد کی حفاظت کے لیے وہ امریکی فوج تعینات کریں گے۔

    امریکی صدر نے اس سے قبل غیر قانونی تارکین وطن کے معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے شمالی امریکہ کے آزاد تجارت کے معاہدے ’نافٹا‘ کو بھی ختم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

    مزید پڑھیں: تارکینِ وطن پر پابندی، وفاقی جج نے ٹرمپ کا حکم نامہ معطل کردیا

    بعد ازاں عدالت کی جانب سے پناہ گزینوں سے متعلق نئے قوانین کی بحالی کی درخواست رد کی گئی تھی، وفاقی جج نے ٹرمپ کے تارکین وطن سے متعلق احکامات پرعمل درآمد رکوا دیا تھا۔

    وفاقی جج کے فیصلے کے خلاف امریکی صدر نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، ٹرمپ نے عدالت سے غیرقانونی تارکین وطن پر پابندی بحال کرنے کی اپیل کی تھی لیکن اب سپریم کورٹ نے بھی ٹرمپ کے فیصلے کو ناقابل عمل قرار دیا ہے۔

  • نامزد جج پر جنسی ہراساں کرنے کاالزام، ٹرمپ کے  کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز

    نامزد جج پر جنسی ہراساں کرنے کاالزام، ٹرمپ کے کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز

    نیویارک: سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کے فیصلے پر امریکا کے کئی شہروں میں صدرٹرمپ کیخلاف دوبارہ احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوگیا ، نامزدجج پر جنسی ہراساں کرنے کاالزام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے کئی شہروں میں سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کے فیصلے پر امریکی صدر کے خلاف عوام ایک بار پھر سڑکوں پرنکل آئی۔

    مظاہرین کی بڑی تعداد نے مین ہٹن کی گلیوں میں ٹرمپ کیخلاف احتجاجی مارچ کیا، اس موقع پر مظاہرین ٹرمپ مخالف بینرز اٹھارکھے تھے۔

    کچھ روز قبل بریٹ کیوانو پر کچھ روز قبل ایک خاتون پروفیسر نے جنسی طور پر ہراساں کرنے الزام لگایا تھا، جس کے بعد ایف بی آئی نے نامزد جج بریٹ کیوانوف کیخلاف تحقیقات شروع کردی تھی۔

    ڈاکٹر کرسٹین بلیسی فورڈ کا کہنا تھا کہ زمانہ طالب علمی میں بریٹ کیوانوف نے 36 برس قبل سنہ 1980 میں ایک تقریب کے دوران شراب نوشی کی کثرت کے باعث مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

    مزید پڑھیں : امریکی سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی ایف بی آئی نے روک دی

    فیڈرل انوسٹی گیشن بیورو کی جانب سے ریٹ کیوانوف کی تعیناتی سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی کی منظوری کے باوجود روک دی گئی تھی۔

    یاد رہے امریکی سینیٹ میں ٹرمپ کے نامزد متنازع جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری کے حوالے سے 11 ریپبلیکن اراکین سینیٹ امریکی صدر کے فیصلے پر متفق نظر آئے جبکہ 10 دیموکریٹ اراکین سینیٹ نے جج کی تعیناتی کے خلاف حق رائے دہی استعمال کیا۔

  • امریکی عدالت نے مسلمان قیدی کو داڑھی رکھنے کی اجازت دے دی

    امریکی عدالت نے مسلمان قیدی کو داڑھی رکھنے کی اجازت دے دی

     

    واشنگٹن: امریکی سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلہ دیا ہے کہ ارکنساس جیل قیدی کواسکے مذہبی عقائد کے مطابق داڑھی رکھنے سے نہیں روک سکتی۔

    داڑھی رکھنے کی درخواست عمرقید کے سزا یافتہ قیدی گریگوری ہالٹ نامی قیدی نے دی تھی جسے عبدالملک محمد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انہیں گھریلو تشدد کے الزام میں سزا ہوئی ہے۔
    ہالٹ مسلمان ہیں اوروہ چاہتے ہیں کہ وہ آدھے انچ کی داڑھی رکھیں جبکہ جیل انتظامیہ اپنے قوائد کے مطابق 0.25انچ سے زیادہ داڑھی بڑھانے کی اجازت دینے پرتیار نہیں ہے۔

    جسٹس سیموئل الیٹو نے مقدمے کا فیصلہ لکھتے ہوئے کہا کہ ’’جیل انتظامیہ کی جانب سے عائد پابند ہالٹ کے مذہبی آزادی کے حق کو مجروع کررہی ہے‘‘۔

    انہوں نے مزید لکھا کہ جیل انتطامیہ کی جانب سے عائد پابندی کے بعد قیدی کے پاس دو ہی راستے رہ جاتے ہیں کہ’’یا تووہ اپنے مذہبی عقیدے کو مجروع کرے یا پھر جیل کے قوائد کی خلاف ورزی کا خطرہ مول لے‘‘۔

    عدالت نے مقدمے کی سماعت اکتوبرمیں کی تھی۔

    امریکہ کی پچاس میں سے چالیس ریاستیں قیدیوں کو مناسب داڑھی رکھنے کی اجازت دیتی ہیں۔ ارکنساس ان دس ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں سیکیورٹی خدشات کے سبب قیدیوں کے اس حق پر پابندی ہے۔

    نو ججوں نے جیل حکام کے خدشات کو تسلیم کیا کہ قیدی اپنی داڑھی میں ہتھیاریا دیگرممنوعہ اشیاء چھپا سکتے ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ہالٹ جیسی مختصر داھی میں کوئی بھی ممنوعہ شے چھپانا کس قدر دشوار گزار کام ہے۔

    عدالت نے جیل کے قوائد میں بے ضابتگی کی نشاندہی بھی کہ’’سر کی بالوں کی لمبائی کے لئے تاحال کوئی ضابطہ وضع نہیں کیا گیا ہے‘‘۔