Tag: US

  • افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا، افغان مترجمین کا کیا ہوگا؟

    افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا، افغان مترجمین کا کیا ہوگا؟

    واشنگٹن: افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے تناظر میں وہاں موجود امریکا کے لیے مترجم کا کردار ادا کرنے والے افغانوں کی حفاظت کا مسئلہ سامنے آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان سے فوجی انخلا سے قبل امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے کچھ افغان مترجمین اور دیگر افراد کو نکالنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔

    نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ کچھ افغان باشندوں کو محفوظ مقامات پر بھیج دیا جائے گا، کیوں کہ وہ اپنی امریکی ویزا درخواستوں پر کارروائی کا انتظار کر رہے ہیں۔

    تاہم امریکی عہدے داروں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا ہے کہ مذکورہ افغان شہری کہاں انتظار کریں گے، اور یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ آیا کسی تیسرے ملک نے انھیں قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، یا نہیں۔

    واضح رہے کہ امریکی حکومت کے لیے کام کرنے کی وجہ سے ہزاروں افغانوں کو دھمکیوں کا سامنا ہے، ان افغان شہریوں نے خصوصی نقل مکانی ویزا کے لیے درخواستیں جمع کروائیں ہیں۔

    سابق افغان مترجمین اکھٹے ہو کر کابل میں نیٹو اور امریکی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (فوٹو اے پی)

    ایک سینئر امریکی ریپبلکن قانون ساز نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ خطرے سے دوچار افغانوں کے انخلا میں ان کے کنبوں کے افراد بھی شامل ہوں گے، جن کی مجموعی تعداد 50 ہزار تک ہے۔

    روئٹرز کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا یہ فیصلہ افغانستان میں بحران کے احساس کو تیز کرنے کا سبب بن سکتا ہے، کیوں کہ ابھی ایک دن قبل ہی (جمعے کو) بائیڈن نے واشنگٹن میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی ہے، جس کا مقصد فوجی انخلا کے باوجود افغانستان کے ساتھ پارٹنر شپ کے احساس کو اجاگر کرنا تھا۔

    خیال رہے کہ قانون سازوں کے ایک گروپ نے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا تھا، کہ وہ ان افغانوں کا تحفظ یقینی بنائیں جنھوں نے امریکا کے لیے ترجمانی کے فرائض انجام دیے، کیوں کہ ملک میں سیکیورٹی کی صورت حال بگڑگئی ہے۔

    وائٹ ہاؤس میں تقریر کے بعد سوالات کا جواب دیتے ہوئے بائیڈن نے واضح کیا تھا کہ افغانستان میں جنھوں نے ہماری مدد کی تھی انھیں ہم پیچھے نہیں چھوڑیں گے، انھیں بھی ان لوگوں کی طرح خوش آمدید کہا جائے گا جنھوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ہماری مدد کی۔

    امریکی نمائندے مائیک مک کال نے روئٹرز کو بتایا کہ انخلا کرنے والوں میں تقریباً 9 ہزار ترجمان شامل ہیں، جنھوں نے خصوصی امیگریشن ویزے کے لیے اہل خانہ سمیت درخواستیں دی ہیں، اور جو ممالک انھیں وصول کریں گے ان میں ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر اور کویت شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران امریکی حمایت یافتہ افغان افواج اور طالبان کے مابین لڑائی میں شدت آ چکی ہے، طالبان علاقوں پر پھر سے کنٹرول حاصل کرنے لگے ہیں، پینٹاگون کے مطابق افغانستان کے 419 ضلعی مراکز میں طالبان کا کنٹرول 81 پر ہے۔

  • امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل سست کرنے کا عندیہ دے دیا

    امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل سست کرنے کا عندیہ دے دیا

    واشنگٹن: طالبان کے حملوں کے تناظر میں امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل سست کرنے کا عندیہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ طالبان کی کارروائیوں اور انھیں حاصل ہونے والے فوائد کے باعث افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا عمل سست کیا جا سکتا ہے۔

    پیر کے روز جان کربی نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن برقرار رہے گی، تاہم انخلا کے عمل کو صورت حال کی مناسبت سے ترتیب دیا جائے گا، کیوں کہ طالبان کی جانب سے اضلاع پر حملوں اور پُر تشدد کارروائیوں کے بعد صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔

    ترجمان نے کہا ہم ہر ایک دن کا مسلسل بغور جائزہ لے رہے ہیں، کہ صورت حال کیا ہے، ہمارے پاس کیا کچھ ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں، ہمیں مزید کن ذرائع کی ضرورت ہے اور ہم نے افغانستان سے نکلنے کے لیے کیا رفتار رکھنی ہے، یہ تمام فیصلے مطلوبہ وقت پر کیے جائیں گے۔

    امریکی افواج کا انخلا: افغان اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر قائل کرنے والے درجنوں عمائدین گرفتار

    واضح رہے کہ افغانستان میں 20 سال تک القاعدہ کے خلاف لڑنے اور حکومت کو طالبان سے لڑائی میں مدد کے بعد صدر جو بائیڈن نے فوجیوں کے انخلا کا حکم دیا ہے، جو تقریباً آدھا مکمل ہو چکا ہے۔

    پینٹاگون افغانستان میں اپنے کئی اہم اڈے حکومتی افواج کے حوالے کر چکا ہے، اور مختلف ساز و سامان سے لدے سیکڑوں کارگو جہاز بھی ہٹا چکا ہے، تاہم جان کربی کے مطابق امریکی افواج طالبان سے لڑائی میں افغان فوجیوں کی مدد کرتی رہیں گی۔

    جان کربی نے واضح کیا کہ جوں جوں واپسی کا عمل تکمیل کے قریب پہنچے گا، افغان فورسز کی مدد کا یہ سلسلہ کم ہوتا جائے گا اور اس کے بعد دستیاب نہیں ہوگا۔

  • کیا کرونا وائرس کا آغاز امریکا سے ہوا؟

    کیا کرونا وائرس کا آغاز امریکا سے ہوا؟

    بیجنگ/لندن: متعدی امراض کے ایک چینی ماہر نے آخر کار وہ سوال اٹھا دیا ہے، چین میں کرونا وائرس کے ماخذ کے حوالے سے متعدد عالمی رپورٹس کے بعد جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق متعدی امراض کے ایک چینی ماہر نے کہا ہے کہ کو وِڈ 19 کے ماخذ کی تحقیق کا اگلا مرحلہ امریکا میں ہونا چاہیے، کیوں کہ امریکا نے لوگوں میں وائرس کی جلد تشخیص میں سست روی کا مظاہرہ کیا۔

    ادھر ایک امریکی طبی سائنس دان نے امریکی ٹی وی میزبان جان اسٹیورٹ کے بیان کو سائنس دانوں پر حملہ قرار دیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ نیا کرونا وائرس حادثاتی طور پر ایک لیبارٹری سے خارج ہوا تھا۔

    چینی ماہر ژینگ گوآنگ نے بیجنگ سے شائع ہونے والے اخبارگلوبل ٹائمز سے گفتگو میں وجہ بتائی کہ امریکا میں پوری دنیا سے زیادہ حیاتیاتی لیبارٹریز موجود ہیں، اس لیے حیاتیاتی ہتھیاروں کے حوالے سے بھی امریکا کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔

    گلوبل ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور فرانس جیسے ممالک میں مزید سائنسی شواہد سامنے آئے ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ باضابطہ طور پر وائرس کی تصدیق سے پہلے ہو سکتا ہے کہ ان ممالک میں کرونا وائرس کے کیسز موجود ہوں، نیز اس طرح کے شواہد کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

    دوسری طرف نیشنل اسکول آف ٹراپیکل میڈیسن کے ڈین اور ٹیکساس چلڈرن ہاسپٹل سینٹر برائے ویکسین ڈویلپمنٹ کے شریک ڈائریکٹر، ڈاکٹر پیٹر ہوٹیز نے ٹی وی میزبان اسٹیورٹ اور دیگر کو یہ پُرزور مشورہ دیا ہے کہ وہ کرونا وائرس کے ماخذ پر بات کرتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں۔

    امریکی ٹی وی میزبان جان اسٹیورٹ نے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ کو وِڈ نائنٹین ایک لیب سے حادثاتی طور پر خارج ہوا تھا، تاہم ہوٹیز نے اس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگ حقیقت پر تفریحی اقدار کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن ایسی باتوں سے بہت زیادہ نقصان پہنچتا ہے، کیوں کہ کرونا وائرس پر کام کرنے والے میرے سمیت بہت سے دوسرے سائنس دان اسے اپنے اوپر ایک حملہ خیال کرتے ہیں۔

  • امریکا میں کرونا وائرس کب پھیلا؟ نیا انکشاف

    امریکا میں کرونا وائرس کب پھیلا؟ نیا انکشاف

    واشنگٹن: امریکی طبی ماہرین نے کہا ہے کہ کرونا وائرس دسمبر 2019 میں امریکا میں پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں کو وِڈ 19 بہت پہلے پھیلنا شروع ہو گیا تھا، سی ڈی سی نے خون کے ہزاروں نمونوں کی جانچ کے بعد اس خیال کو تقویت عطا کی ہے کہ کرونا وائرس 2020 سے قبل پھیلنا شروع ہو چکا تھا۔

    بیماریوں کے کنٹرول مرکز CDC اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ نے اس سلسلے میں نئے تحقیقی مطالعے کیے، اداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال 24 ہزار امریکیوں سے لیے جانے والے خون کے نمونوں کے جامع جائزے کے نتیجے میں کو وِڈ 19 کی دسمبر 2019 میں ملک کے بعض علاقوں میں موجودگی کے بارے میں یقین قوی ہوتا جا رہا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا میں سرکاری طور پر پہلا تصدیق شدہ کرونا وائرس کیس 19 جنوری 2020 کو سامنے آیا تھا۔

    سی ڈی سی کی اہم محقق نتالی تھورنبرگ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمارے ان تحقیقی مطالعات میں ایک تواتر رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی درستگی کا بہت امکان ہے، اور قوی احتمال ہے کہ کرونا وائرس ہمارے علم میں آنے سے بہت پہلے پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔

    خیال رہے کہ نیا کرونا وائرس 2019 کے اواخر میں چین کے شہر ووہان سے پھوٹا تھا، اور 15 جنوری کو ووہان سے امریکا واپس لوٹنے اور واشنگٹن کے ایک کلینک میں زیر علاج رہنے والے امریکی کو ملک میں کرونا وائرس کا پہلا کیس قبول کیا جاتا ہے۔

    دوسری طرف اس تجزیے کو بھی قطعی نہیں سمجھا جا رہا ہے، چند امریکی ماہرین کو ابھی بھی اس سے متعلق شک ہے، تاہم وفاقی صحت حکام اس ٹائم لائن کو قبول کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوتے جا رہے ہیں، جس کے تحت نئے کرونا وائرس کے چند کیسز اس وقت امریکا میں واقع ہو چکے تھے جب دنیا ابھی چین سے پھوٹتے اس خطرناک وائرس سے واقف بھی نہ ہوئی تھی۔

  • بائیڈن انتظامیہ کا ایک اور قدم، پاکستانی نژاد لینا خان کو اہم ذمہ داری سونپ دی

    بائیڈن انتظامیہ کا ایک اور قدم، پاکستانی نژاد لینا خان کو اہم ذمہ داری سونپ دی

    واشنگٹن: بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر سخت تنقید کرنے والی پاکستانی نژاد لینا خان امریکی ٹریڈ کمیشن کی سربراہ مقرر ہو گئیں، لینا خان کی تقرری کی منظوری امریکی سینیٹ نے دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی تارک وطن گھرانے کے ہاں پیدا ہونے والی لینا خان امریکا کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) کی سربراہ منتخب کر لی گئیں، لینا خان کی تقرری پر گوگل اور امیزون نے تبصرے سے انکار کیا ہے جب کہ ایپل اور فیس بک نے استفسار پر خاموشی اختیار کی۔

    لینا خان کولمبیا کے لا اسکول میں پڑھاتی ہیں، وہ ہاؤس جوڈیشری کمیٹی کے اینٹی ٹرسٹ پینل کا حصہ رہیں، اس پینل نے مارکیٹ پر تسلط جمانے کے لیے الفابیٹ (گوگل، فیس بک، امیزون، ایپل کا مالک ادارہ) کی کوششوں پر طویل رپورٹ مرتب کی تھی۔

    32 سالہ لینا ایم خان لندن میں مقیم پاکستانی جوڑے کے ہاں 1989 میں پیدا ہوئیں، ان کے والدین 2 دہائیاں قبل امریکا منتقل ہوئے تو اس وقت لینا خان کی عمر 11 برس تھی۔

    امریکی سینیٹر الزبتھ وارن نے لینا خان کی تقرری پر ٹویٹ کرتے ہوئے اسے ’زبردست خبر‘ قرار دیا۔ سینیٹ کی جانب سے اپنی تقرری کی توثیق پر لینا خان نے ٹویٹ کیا ’میں سینیٹ کی شکرگزار ہوں۔‘

    واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن بڑی ٹیکنالوجی کمپنی کے ایک اور ناقد ٹم وو کو نیشنل اکنامک کونسل میں منتخب کر چکے ہیں۔

    اپنی ٹویٹ میں لینا خان نے کہا کہ کانگریس نے ایف ٹی سی تشکیل دیا تھا تاکہ جائز مسابقت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ صارفین، ورکرز، دیانت دارانہ تجارت کو ناجائز اور دھوکا دہی پر مبنی کاموں سے بچایا جا سکے، میں اس مشن پر عمل اور امریکی عوام کی خدمت کی پوری کوشش کروں گی۔

    لینا خان نے 2017 میں ییل لا جرنل میں ’امیزون کا اینٹی ٹرسٹ پیراڈاکس‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اینٹی ٹرسٹ کا روایتی فوکس قیمتوں پر ہے جو امیزون کی جانب سے اینٹی ٹرسٹ قوانین کی خلاف ورزیوں کی شناخت کے لیے ناکافی ہے۔

  • مذموم مقاصد کے لیے بنائی گئی پینٹاگون کی ایک بڑی خفیہ فوج کا انکشاف

    مذموم مقاصد کے لیے بنائی گئی پینٹاگون کی ایک بڑی خفیہ فوج کا انکشاف

    نیویارک: امریکا کے ہفتہ وار میگزین نیوز ویک نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پینٹاگون نے مذموم کارروائیوں کے لیے دنیا کی سب سے بڑی خفیہ فوج تشکیل دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پینٹاگون نے گزشتہ 10 برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی خفیہ فوج تشکیل دی ہے، جس نے بہت ساری مذموم کارروائیاں کیں، نیوز ویک کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کی مذمت خود امریکا کو بھی متعدد مرتبہ کرنی پڑی۔

    پینٹاگون کی بنائی اس خفیہ فوج کے حوالے سے ہفتہ وار میگزین نے ’ملٹری کی خفیہ جاسوس فوج کی اندرونی کہانی‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی، جس میں کہا گیا ہے کہ 2 سال کی تحقیقات کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اس خفیہ فوج سے اب تقریباً 60 ہزار افراد تعلق رکھتے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس خفیہ فوج کے اکثر لوگ اپنی شناخت چھپاتے ہیں، اور کسی کی نظر میں آئے بغیر کام کرتے ہیں، اور یہ سب ایک بڑے پروگرام ’سگنیچر ریڈکشن‘ کا حصہ ہیں۔

    یہ فوج سی آئی اے کے خفیہ عناصر کے حجم سے بھی 10 گنا بڑی ہے، اور یہ نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک سے باہر بھی کارروائیاں کرتی ہے، نہ صرف فوجی وردی میں بلکہ سادہ لباس میں بھی، جب کہ حقیقی زندگی میں یا آن لائن یہ لوگ کبھی خود کو نجی کاروبار اور مشاورتی ایجنسیوں میں چھپاتے ہیں اور چند نے گھریلو کمپنیاں قائم کی ہوئی ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خفیہ فوج میں دیگر کے علاوہ کارروائی کرنے والی خصوصی فوج اور فوجی انٹیلی جنس ماہرین بھی شامل ہیں، جنھوں نے کچھ خطوں میں فون ریکارڈ کرنے کی سرگرمیوں اور سوشل میڈیا پر ساز باز کرنے جیسی عوام کے علم میں موجود کارروائیاں کی ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس خفیہ دنیا کی دو سالہ تحقیقات اور بہت سارے انٹرویوز کے بعد جو منظر سامنے آیا وہ یہ ہے کہ یہ ایک مکمل بے ضابطہ سرگرمی ہے، اس پروگرام کا مجموعی حجم بھی کسی کو معلوم نہیں، نہ ہی اس خفیہ فوج کے فوجی پالیسیوں پر اثرات کو جانچا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق کانگریس نے کبھی اس موضوع پر سماعت منعقد نہیں کی، حالاں کہ یہ امریکی قوانین، جنیوا کنونشنز، فوجی طرز عمل کے ضابطے اور بنیادی احتساب کو چیلنج کرتی ہے۔

  • انتظار ختم، امریکی انٹیلیجنس نے خلائی مخلوق سے متعلق خفیہ رپورٹ جاری کر دی

    انتظار ختم، امریکی انٹیلیجنس نے خلائی مخلوق سے متعلق خفیہ رپورٹ جاری کر دی

    واشنگٹن: خلائی مخلوق کی حقیقت سے متعلق جس رپورٹ کا شدت سے دنیا بھر میں انتظار کیا جا رہا تھا، امریکی انٹیلیجنس نے وہ رپورٹ آخر کار جاری کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی انٹیلیجنس کا کہنا ہے کہ انھیں خلائی مخلوق اور ان کی فضائی ٹیکنالوجی سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملے، حکام نے کہا کہ حالیہ برسوں میں پیش آنے والے ایسے تمام واقعات بہ ظاہر کسی خلائی مخلوق کی طرف سے نہیں تھے۔

    انٹیلیجنس حکام کے مطابق ايسے تمام واقعات جن ميں کسی خلائی جہاز کو رپورٹ کيا گيا، اور جس سے نہ تو رابطہ ہو سکا، نہ ہی اس کی شناخت اور ساخت کا کوئی علم حاصل ہوا، وہ جہاز بہ ظاہر کسی خلائی مخلوق کا نہيں تھا۔

    خیال رہے کہ سازشی نظريات کے حامی لوگ اور حلقے يہ کہتے آئے ہيں کہ زمين کے علاوہ بھی کائنات میں کہيں اور زندگی موجود ہے، تاہم امریکا اس کے شواہد پر پردہ ڈال رہا ہے، اس تناظر میں امریکی انٹیلیجنس کی اس رپورٹ کا کئی حلقوں ميں بے تابی سے انتظار کيا جا رہا تھا۔

    امریکی خفیہ ایجنسیاں اڑن طشتریوں سے متعلق کیا جانتی ہیں؟ بتانے کے لیے دن کم رہ گئے

    آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ گزشتہ برس اسرائیل کے خلائی سیکیورٹی ادارے کے سابق سربراہ نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکا اور اسرائیل خلائی مخلوق سے رابطے میں ہیں، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ راز فاش کرنے والے تھے مگر انھیں روک دیا گیا۔

    ڈاکٹر حائم اشاد نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکا اور خلائی مخلوق کے درمیان معاہدے بھی ہو چکے ہیں، انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ صدر ٹرمپ کو راز افشا کرنے سے کہکشانی فیڈریشن (خلائی مخلوق کا علاقہ) نے روکا تاکہ دنیا میں ہیجان نہ پھیلے، کیوں کہ انسانیت ابھی اس کے لیے تیار نہیں۔

    اسرائیلی وزرات دفاع کی اسپیس سیکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے سابق سربراہ کے دعوے یہیں تک ہی محدود نہ تھے بلکہ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکا اور خلائی مخلوقوں کے درمیان باہمی تعاون کے معاہدے ہو چکے ہیں، جن میں مریخ میں زیر زمین بیس کا قیام بھی شامل ہے، جہاں امریکی خلا باز اور خلائی مخلوق کے نمائندے موجود ہوں گے۔

  • جرمن چانسلر و یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کون کررہا ہے؟ تہلکہ خیز انکشافات

    جرمن چانسلر و یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کون کررہا ہے؟ تہلکہ خیز انکشافات

    کوپن ہیگن : ڈینش میڈیا نے اپنی خفیہ ایجنسی پر جرمن چانسلر انجیلا مرکل و دیگر یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کےلیے امریکا سے تعاون کا الزام عائد کردیا۔

    ڈنمارک کے ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی گزشتہ کئی برسوں سے جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور جرمن صدر فرینک والٹر سمیت متعدد یورپی رہنماؤں کی جاسوسی میں ملوث ہے۔

    ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ڈینش خفیہ ایجنسی ’ڈیفنس انٹیلی جنس سروس‘ (ایف ای) کی جانب سے 2012 سے 2014 تک امریکا کی ’قومی سلامتی ایجنسی‘ (این ایس اے) کی معاونت کےلیے یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کی گئی۔

    مقامی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ ڈینش خفیہ ایجنسی نے امریکی انٹیلیجنس کے کہنے پر جرمنی ، فرانس ، نیدرلینڈ، سویڈن اور ناروے کے عہدیداروں سے متعلق معلومات اکٹھا کرکے امریکی ایجنسی کے حوالے کیں۔

    میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 2015 میں ڈنمارک کی حکومت کو خفیہ ایجنسی کی جانب سے جرمن چانسلر و دیگر یورپی ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی کا علم ہوگیا تھا، جس پر ڈنمارک نے 2020 میں خفیہ ایجنس کی قیادت کو برطرف کردیا۔

    واضح رہے کہ سن 2013 میں بھی جرمن چانسلر اور صدر سمیت یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کے الزامات سامنے آئے تھے۔

  • فلسطین پر اسرائیلی جارحیت ، چین  کا سلامتی کونسل میں امریکا کے دہرے معیار پر شدید ردعمل

    فلسطین پر اسرائیلی جارحیت ، چین کا سلامتی کونسل میں امریکا کے دہرے معیار پر شدید ردعمل

    بیجنگ : چین نے سلامتی کونسل میں فلسطین پر امریکا کے دہرے معیار پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا افسوس ہےامریکانےفلسطین سےمتعلق سلامتی کونسل کااعلامیہ رکوادیا ، سلامتی کونسل سےفوری جنگ بندی،سخت اقدام کامطالبہ کرتےہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چین نے سلامتی کونسل میں فلسطین پر امریکا کے دہرے معیار پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا امریکانےسلامتی کونسل میں فلسطین کیلئےایک آوازکی راہ میں رکاوٹ ڈالی ، واشنگٹن سےمطالبہ ہےوہ اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔

    چینی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ افسوس ہےامریکانےفلسطین سےمتعلق سلامتی کونسل کااعلامیہ رکوادیا، سلامتی کونسل سے فوری جنگ بندی اور سخت اقدام کامطالبہ کرتےہیں، چین دوریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کرتاہے، فلسطین اوراسرائیل کےدرمیان مذاکرات کی میزبانی کاخیرمقدم کریں گے۔

    یاد رہے غزہ پر اسرائیلی جارحیت سے متعلق سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا تھا ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سیکیورٹی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ خون ریزی، دہشت گردی اور تباہی کو روکا جائے ، فریقین دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کی میز پر آئیں۔

    اقوام متحدہ نے ثالثی کی کوششیں تیز کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارہ انہی کوششوں میں موثر طور پر شریک ہے جو غزہ میں انسانی زندگی کی بقا کے لیے نہایت ضروری ہے۔

    خیال رہے کہ ایک ہفتے سے جاری اسرائیل کی بربریت سے شہید فلسطینیوں کی تعداد 200 سے زائد ہوگئی ہے، جاں بحق افراد میں 47 بچے اور 22خواتین بھی شامل ہیں۔

  • کرونا وائرس: امریکا نے بھارت پر اہم پابندی عائد کر دی

    کرونا وائرس: امریکا نے بھارت پر اہم پابندی عائد کر دی

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے بھارت پر سفری پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا، ترجمان وائٹ ہاؤس نے اس سلسلے میں جاری بیان میں کہا ہے کہ بھارت پر فوری سفری پابندی عائد کی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ بھارت پر سفری پابندی عائد کی جا رہی ہے، جس کا آغاز 4 مئی سے ہوگا، یہ فیصلہ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کی ہدایت پر کیا گیا ہے۔

    ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق پابندی کا فیصلہ بھارت میں کرونا وبا کی شدت کے باعث کیا گیا ہے، واضح رہے کہ امریکا پہلے ہی بھارت کے لیے لیول 4 ٹریول ایڈوائزری جاری کر چکا ہے۔

    مودی کی غلط پالیسیاں: آکسیجن کے بعد ویکسین کی بھی قلت

    وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ بھارت سے امریکا آنے والی تمام پروازوں پر پابندی ہوگی، امریکی شہریوں اور مستقل رہائش کا اجازت نامہ رکھنے والوں کو 4 مئی تک کی مہلت ہوگی، اس کے بعد کسی کو بھارت سے امریکا آنے کی اجازت نہیں ہوگی، نہ ہی بھارت سے کوئی پرواز امریکا آنے دی جائے گی۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ 4 مئی تک بھارت سے آنے والے امریکیوں کو منفی کرونا ٹیسٹ رپورٹ دکھانا ہوگی۔