امریکی محکمہ خارجہ نے کئی ممالک میں سفارتی مشنز (قونصل خانے) بند کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ نے مختلف ممالک میں تعینات کئی مقامی ملازمین کو فارغ کرنے کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کرلی ہے۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ موسم گرما تک کئی ممالک میں قونصل خانے بند کرنے کا منصوبہ بنالیا گیا ہے۔
محکمہ خارجہ کے اقدام سے سلامتی کے امور میں رکاوٹ کا خدشہ ہونے کے سبب سی آئی اے حکام کو تشویش لاحق ہوگئی ہے کیونکہ چین نے عالمی سطح پر اپنی سفارتی موجودگی کو وسعت دی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا میں غیر قانونی امیگرینٹس کے داخلے کے ذمہ دار غیر ملکی سرکاری افسران کیخلاف ٹرمپ انتظامیہ نے ویزا پابندیوں کی نئی پالیسی کا اعلان بھی کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پابندیوں کا اطلاق آئندہ ہفتے سے ہوگا، ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی سے ممکنہ طور پر افغانستان اور پاکستان کے لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔
کابینہ ارکان کوہدایت کی گئی ہے کہ وہ انہی بنیادوں کو سامنے رکھتے ہوئے بارہ مارچ تک ان ملکوں کی فہرست پیش کریں جہاں سے لوگوں کے سفر پر جزوی یا مکمل پابندی لگانی چاہیے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ جن اہلکاروں کے امریکی ویزا پر پابندی کی پالیسی کااعلان کیا گیا ہے ان میں امیگریشن اور کسٹمز حکام، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر تعینات اہلکار اور ایسے دیگر اہلکار شامل کیے گئے ہیں جو غیرقانونی امیگرینٹس کو امریکا بھیجنے میں سہولت کاری کرتے ہیں۔
وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ یہ اقدام پہلے سے موجود اُس پالیسی میں اضافہ ہے جس کا دائرہ سن دوہزار چوبیس میں بڑھایا گیا تھا اور اس میں نجی سیکٹر کے وہ افراد شامل کیے گئے تھے جولوگوں کے غیرقانونی طورپر امریکا جانے کیلیے سفری سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انکشاف کیا ہے کہ یوکرین کے صدر واشنگٹن آکر معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنا چاہتے ہیں۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق واشنگٹن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یوکرین کے لیے امن دستوں کی ضرورت پیش آئے گی۔
امریکی صدر نے کہا کہ یورپ امریکی کاروباری اداروں کو سزا دینے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکس استعمال کرتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ نے امریکا میں تانبے کی درآمدات پر نئے ٹیکس کی تحقیقات کا حکم بھی جاری کردیا ہے۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے ہیلتھ کیئر اخراجات میں شفافیت کے حکم نامے سمیت کئی دیگر پر دستخط کردیے ہیں۔
اس سے قبل امریکی صدر نے فاکس نیوز کے ساتھ ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ غزہ سے متعلق منصوبہ سازگار ہے لیکن اس کی سفارش نہیں کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ ”تھوڑا حیران”ہیں کہ اردن اور مصر نے غزہ پر ”قبضہ”کرنے اور فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے ان کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔
ٹرمپ نے کہا میں آپ کو بتاؤں گا کہ اس منصوبے کا طریقہ کیا ہے مجھے لگتا ہے یہ وہ منصوبہ ہے جو واقعی کارآمد ہے لیکن میں اسے مسلط نہیں کر رہا ہوں میں صرف بیٹھ کر اس کی سفارش کرنے جا رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اور پھر امریکہ اس سائٹ کا مالک ہوگا، وہاں کوئی حماس نہیں ہوگی، اور وہاں ترقی ہوگی اور آپ ایک صاف ستھرے علاقے دوبارہ شروع کریں گے۔
عرب لیگ نے اردن اور مصر کے اس مؤقف کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا ہے جس میں فلسطینی عوام کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو سختی سے مسترد کیا گیا ہے۔
یہ مؤقف عرب ممالک کے فلسطینیوں کے تاریخی اور قانونی حقوق کے تحفظ کے عزم کی عکاسی کرتا ہے اور عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کی حمایت کے لیے مشترکہ کوششوں کو مزید مضبوط بناتا ہے۔
بیجنگ: اینٹ کا جواب پتھر سے، یا ’جیسے کو تیسا‘ کے مصداق چین کا جوابی ٹیرف آج سے امریکا پر لاگو ہو گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکی مصنوعات پر چین کے درآمدی ٹیکس کا اطلاق آج پیر سے ہو گیا ہے، چینی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی کوئلے اور مائع قدرتی گیس پر 15 فی صد سرحدی ٹیکس لگایا گیا ہے۔
امریکی خام تیل، زرعی مشینری اور بڑے انجن والی کاروں پر 10 فی صد ٹیرف عائد ہوگا، گزشتہ ہفتے امریکا نے چین کی تمام درآمدی مصنوعات پر 10 فی صد ٹیرف عائد کیا تھا۔
ایک دوسرے پر اضافی ٹیرف لاگو کرنے کے اقدامات سے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ بڑھ گئی ہے، لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کی پرواہ نہیں ہے، اس لیے انھوں نے مزید ممالک پر محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔
واضح رہے کہ اتوار کو ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکا میں تمام اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر 25 فی صد ٹیرف عائد کریں گے، جس کا مکمل اعلان آج پیر کو کیا جائے گا۔ سپر باؤل کے لیے جاتے ہوئے ایئر فورس ون پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ دوسری اقوام پر باہمی محصولات کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں، تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کس کو نشانہ بنایا جائے گا۔
گزشتہ ہفتے چینی حکام نے ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی گوگل کی اجارہ داری کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کیا تھا، اور ڈیزائنر برانڈز کیلون کلین اور ٹومی ہلفیگر کے امریکی مالک PVH کو بیجنگ کی ’ناقابل اعتماد ادارے‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ چین نے 25 نایاب دھاتوں پر برآمدی کنٹرول بھی نافذ کر دیا ہے، جن میں سے کچھ بہت سی برقی مصنوعات اور فوجی ساز و سامان کے اہم اجزا ہیں۔
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محصولات بڑھانے کے لیے عالمی تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز چین، کینیڈا اور میکسیکو پر اضافی ٹیرف کے الگ الگ صدارتی حکم ناموں پر دستخط کر دیے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق میکسیکو اور کینیڈا کی درآمدات پر منگل سے 25 فی صد اور چین پر 10 فی صد ٹیرف نافذ ہوگا، امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اضافی ٹیرف غیر قانونی تارکین وطن اور منشیات کی آمد کے باعث لگایا گیا ہے اور یہ ’امریکیوں کی حفاظت‘ کے لیے ضروری ہے۔
تاہم تیل، قدرتی گیس اور بجلی سمیت کینیڈا سے درآمد کی جانے والی توانائی پر 10 فی صد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ کسی کے لیے کوئی استثنا نہیں ہے، کسی ملک نے ٹیرف پر ردعمل دیا تو اس سے نمٹنے کی بھی تیاری کر لی گئی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق ٹرمپ کے اقدام سے امریکا میں مقیم کینیڈین سخت پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں، مشیگن کے شہر ڈیٹرائٹ میں امریکیوں نے بڑھتی ہوئی قیمتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ماہرین اقتصادیات خبردار کر رہے ہیں کہ ان محصولات کے نتیجے میں تجارتی جنگ چھڑ سکتی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی ایمرجنسی کا اعلان انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ اور نیشنل ایمرجنسی ایکٹ کے تحت کیا ہے، یہ قوانین امریکی صدر کو بحرانوں سے نمٹنے کے لیے پابندیاں عائد کرنے کے وسیع اختیارات کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔
تاہم دوسری طرف اقتصادی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ بڑے امریکی تجارتی شراکت داروں کے ساتھ ایک نئی تجارتی جنگ امریکا اور عالمی نمو کو تباہ کر دے گی، جب کہ صارفین اور کمپنیوں، دونوں کے لیے قیمتیں بڑھنے کا سبب بن جائے گی۔
آگ اور برف (پانی) ایک دوسرے کے مخالف عناصر ہیں لیکن امریکا میں ان متضاد عناصر نے ایک ہی وقت میں لاکھوں افراد کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
دنیا یہ دیکھ کر حیران ہے کہ ایک طرف امریکا میں آگ کی تباہ کاریاں پھیلی ہوئی ہیں، اور دوسری طرف برفانی طوفان نے نظام زندگی کو مفلوج بنا دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی امریکا میں جنگل کی آگ اور برف تیزی سے اوورلیپ ہو رہی ہے، اور اس کے متعدد نتائج نکل سکتے ہیں، جیسا کہ برف کی تہہ میں کمی، کیوں کہ جنگل کی آگ جمع ہونے والی برف کی مقدار کو کم کر سکتی ہے اور اس سے زمین پر برف کے ٹکڑے کی لمبائی کم ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ ماہرین کے مطابق یہ ہے کہ جنگل کی آگ سے جنگل کی چھت صاف ہو جاتی ہے اور سورج کی روشنی زیادہ برف تک پہنچتی ہے اور اسے پگھلا دیتی ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس علاقے میں ہر سال موسم کے مطابق برف پڑتی ہے وہاں 1984 اور 2017 کے درمیان آتش زدگی کے واقعات میں ہر سال 9 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ 2020 اور 2021 میں کیلیفورنیا کے موسمی برف والے علاقوں میں جنگل کی آگ 2001-2019 کے اوسط کے مقابلے میں تقریباً 10 گنا بڑھ گئی ہے۔
جنوبی اور وسطی ریاستوں میں برف باری اور بارش سے نظام زندگی درہم برہم ہو چکا ہے، راستے، پروازیں اور تعلیمی ادارے بند پڑے ہوئے ہیں، ٹیکساس، اوکلاہوما، آرکنساس میں زندگی مفلوج ہو چکی ہے، جب کہ حکام نے برفانی طوفان کی مزید وارننگ بھی جاری کر دی ہے۔
ادھر امریکی شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بدترین آگ تاحال نہیں بجھائی جا سکی ہے، اور اس کے سبب 12 ہزار مکان اور عمارتیں راکھ کا ڈھیر بن گئی ہیں، 2 لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی ہے، جب کہ نقصان کا ابتدائی تخمینہ تقریباً 150 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، اور ہلاک افراد کی تعداد 11 ہو گئی ہے جس کے بڑھنے کا حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے۔
جنگلات میں لگی خوف ناک آتش زدگی کے باعث پیسیفک پے لی سیڈس کا علاقہ آگ سے بری طرح تباہ ہو چکا ہے، یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہالی ووڈ کے اے لسٹرز اور ارب پتی افراد کے گھر ہیں، بعض علاقوں میں لوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے ہیں، جس کے بعد پولیس نے پیلی سیڈس اور ایٹون کے علاقوں میں رات کے وقت کرفیو نافذ کر دیا۔
کئی دنوں بعد ہوا کا دباؤ کم ہونے پر اب فائر فائٹرز کو آگ پر قابو پانے میں کسی حد تک کامیابی ملی ہے، گورنر نیوسم نے ڈونلڈ ٹرمپ کو متاثرہ ریاست آ کر جائزہ لینے کی دعوت بھی دے دی ہے۔
صرف امریکا ہی نہیں، اس وقت برطانیہ بھی شدید سردی کی پلیٹ میں ہے، جہاں برف باری اور بارش کے بعد معمولات زندگی بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ اسکول بند، بجلی کا نظام، ایئرپورٹ، ریلویز اور لوکل ٹرانسپورٹ بھی متاثر ہے۔ لندن میں درجہ حرارت منفی 3 ڈگری جب کہ دیگر حصوں میں منفی 15 ڈگری ریکارڈ کیا گیا، اسکاٹ لینڈ میں 150 مقامات کے لیے سیلاب کی وارننگ بھی جاری کی گئی ہے۔
نائن الیون کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کے خلاف اعترافِ جرم کی کارروائی امریکی حکومت کے اعتراض کے بعد روک دی گئی۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال نائن الیون کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد سمیت دو ملزمان نے امریکی حکومت سے معاہدے کے تحت اپنے اوپر عائد کردہ الزامات کا اعتراف کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ماسٹر مائنڈ سزائے موت سے بچ جاتے اور اس کے بجائے انھیں عمر قید کی سزا سُنا دی جاتی لیکن اب امریکی حکومت کی درخواست کے بعد عدالت نے کارروائی وقتی طور پر روک دی ہے۔
درخواست میں امریکی حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگر ان ملزمان کی درخواستیں منظور کر لی گئیں تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔
تین ججز پر مشتمل پینل نے کہا کہ انھیں اس کیس پر غور کرنے اور کارروائی کو روکنے کے لیے مزید وقت درکار ہے جس کے بعد اعترافِ جرم کی کارروائی روک دی گئی۔
واضح رہے کہ گیارہ ستمبر 2001 کو امریکا پر القاعدہ کے حملوں میں لگ بھگ 3 ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے اور افغانستان اور عراق پر اس جنگ میں امریکی حملوں کا موجب بنے تھے جسے جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیا تھا۔
نائن الیون کے ملزمان کے خلاف کیسز کئی برسوں سے، مقدمے سے پہلے کے قانونی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں، جب کہ ملزم کیوبا میں گوانتانامو بے کے فوجی اڈے میں قید ہیں۔
لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں کے اسرائیلی وحشیانہ اور غیر انسانی اقدام کے بعد امریکا کو چین اور روسی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر سے خوف لاحق ہو گیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر کاروں، ٹرکوں اور بسوں میں چین اور روس میں تیار کردہ کچھ ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کے استعمال پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
امریکی وزیر تجارت گینا ریمنڈو کا کہنا تھا کہ آج گاڑیاں کیمرے، مائیکرو فون، جی پی ایس ٹریکنگ سسٹم اور انٹرنیٹ سے منسلک دیگر ٹیکنالوجیز سے لیس ہیں، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اس ڈیٹا تک رسائی رکھنے والا کوئی غیر ملکی دشمن ہماری قومی سلامتی اور خفیہ پالیسیوں کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
تاہم چین نے اس سے مختلف مؤقف پیش کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ امریکا دراصل قومی سلامتی کی آڑ چینی کمپنیوں کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنا رہا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا ’’ہم امریکا کی جانب سے قومی سلامتی کے تصور کی توسیع اور چینی کمپنیوں کے خلاف امتیازی کارروائیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘
چین نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چینی اداروں کے لیے کھلا، منصفانہ اور شفاف کاروباری ماحول فراہم کرے۔ خیال رہے کہ امریکا نے چین کے خلاف الیکٹرک گاڑیوں، بیٹریوں اور دیگر مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد کیا تھا اور سائبر سکیورٹی کے خطرے کے پیش نظر چینی ساختہ کارگو کرینوں کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن اب سافٹ ویئر سے متعلق مزید پابندیاں 2027 میں اور تین سال بعد ہارڈ ویئر میں نافذ کر دی جائیں گی۔
ماسکو: روس کے سابق صدر دیمتری میدویدیف نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بیان کے پس منظر میں کہا ہے کہ جب تک امریکا ٹوٹ نہیں جاتا، روس پر امریکی پابندیاں برقرار رہیں گی۔
روسی میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق صدر دیمتری میدویدیف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں کوئی بھی کامیابی حاصل کرے، روس پر وسیع پیمانے پر پابندیاں برقرار رہیں گی۔
ٹیلیگرام پوسٹ میں میدویدیف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے تبصرے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ماسکو کے خلاف عائد پابندیوں کو اٹھالیں گے، ایک ’آؤٹ سائیڈر‘ کے طور پر ان کی تمام ظاہری بہادری دکھانے کے باوجود ٹرمپ بہرحال اسٹیبلشمنٹ ہی کا اندرونی فرد ہے۔
یاد رہے اس ہفتے کے شروع میں ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ وائٹ ہاؤس واپس آتے ہیں تو روس پر پابندیوں کو جتنا ممکن ہو سکے ختم کریں گے۔
روسی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ دیمتری میدویدیف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے ٹوٹنے تک روس پر پابندیاں برقرار رہیں گی۔
تہران: ایران کی نئی حکومت امریکا کے ساتھ تعلقات نئے سرے سے استوار کرنے کی کوشش کرتی نظر آ رہی ہے، ایران کے وزیر خارجہ نے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ ’’امریکا کے ساتھ کشیدگی پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔‘‘
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کے نئے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واشنگٹن کے ساتھ تناؤ کم کرنے اور ایران پر لگی عالمی پابندیوں میں سہولت کے حصول کے لیے معاملات کو قابو کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
عباس عراقچی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں تہران اور واشنگٹن کے درمیان تناؤ اور دشمنی کو سنبھالنا ہوگا، تاکہ ایران پر دباؤ کم ہو اور سخت پابندیاں ختم کرنے میں مدد مل سکے۔
انھوں نے کہا ہماری خارجہ پالیسی ہے کہ دشمنی کو ختم کر کے عوام پر اس کا دباؤ کم کریں، انھوں نے مزید کہا خارجہ پالیسی میں ہمسایہ ممالک، افریقی ممالک، روس اور چین سمیت دیگر ملکوں کو ترجیح دی جائے گی۔
یورپی ملکوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ یورپی ممالک صرف اس وقت ترجیح بنیں گے جب وہ اپنی غلط اور مخالفانہ پالیسیوں سے دست بردار ہوں گے۔