Tag: US

  • سابق امریکی صدر ٹرمپ کا کیا گیا ایک اور فیصلہ واپس لے لیا گیا

    سابق امریکی صدر ٹرمپ کا کیا گیا ایک اور فیصلہ واپس لے لیا گیا

    واشنگٹن: امریکا میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک اور فیصلہ واپس لے لیا گیا، امریکا ممکنہ طور پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کا دوبارہ حصہ بننے جارہا ہے۔

    امریکا ممکنہ طور پر اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم، یونیسکو میں واپس شامل ہونے کا اعلان کرنے جارہا ہے جسے اس نے 5 سال پہلے چھوڑ دیا تھا۔

    سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں امریکا کو اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے سے اس بنیاد پر نکالنے کا فیصلہ کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف متعصبانہ رویہ رکھتا ہے۔

    ٹرمپ انتظامیہ نے اس وقت اپنا اسرائیل نواز مؤقف واضح طور پر ظاہر کیا، اور 2018 میں باضابطہ طور پر دستبردار ہوگیا۔

    امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے ہی 8 جون کو یونیسکو کو ایک خط روانہ کر دیا ہے جس میں دوبارہ شمولیت کے منصوبے کی اطلاع دی گئی ہے۔

    امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت، بین الاقوامی تعاون کو ترجیح دیتے ہوئے، پہلے ہی ایسے متعدد اداروں میں دوبارہ شامل ہو چکی ہے جن سے امریکا، ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں دستبردار ہو گیا تھا۔

  • الیکشن ایک بار پھر جیتنے والا ہوں: ٹرمپ

    الیکشن ایک بار پھر جیتنے والا ہوں: ٹرمپ

    جارجیا: سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن جیتنے والے ہیں اس لیے انھیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، انھوں نے امریکی جوہری راز باتھ روم میں چھپانے کے الزام کو مضحکہ خیز قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اوپر فرد جرم میں لگائے گئے الزامات کو مضحکہ خیز اور بے بنیاد قرار دے دیا ہے، انھوں نے جارجیا کے ریپبلکنز کنونشن میں بائیڈن انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا میں الیکشن ایک بار پھر جیتنے والا ہوں اس لیے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، امریکی عوام دھاندلی کرنے والوں کو آئندہ الیکشن میں مزہ چکھائے گی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے جارجیا میں کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فرد جرم ایف بی آئی اور محکمہ انصاف کی انتخاب میں مداخلت کے مترادف ہے، کبھی ہار نہیں مانوں گا اور اپنے مشن سے باز نہیں آؤں گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ حساس دستاویزات کو جاسوسی ایکٹ کی بجائے صدارتی ریکارڈ ایکٹ کے تحت آنا چاہیے تھا۔

    واضح رہے کہ ٹرمپ کے خلاف جاسوسی سمیت متعدد الزامات کی عدالتی تحقیقات جاری ہیں، دوسری طرف الیکشن کے حوالے عوامی رائے عامہ کے جائزے میں ٹرمپ بدستور سرفہرست ہیں۔

    ٹرمپ کو 100 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے

    امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مجموعی طور پر 37 الزامات کا سامنا ہے، اگر ان پر یہ الزامات ثابت ہوتے ہیں تو انھیں 100 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ پر لگائے گئے الزامات میں جوہری پروگرام کی معلومات غیر قانونی طریقے سے حاصل کرنے، جاسوسی، خفیہ دستاویزات کی مِس ہینڈلنگ اور دیگر سنگین الزامات شامل ہیں۔

  • ٹرمپ کو 100 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے

    ٹرمپ کو 100 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے

    واشنگٹن: امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مجموعی طور پر 37 الزامات کا سامنا ہے، اگر ان پر یہ الزامات ثابت ہوتے ہیں تو انھیں 100 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سینتیس الزامات کا سامنا ہے جن میں جوہری پروگرام کی معلومات غیر قانونی طریقے سے حاصل کرنے کا الزام بھی شامل ہے۔

    رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کو جاسوسی، خفیہ دستاویزات کی مِس ہینڈلنگ اور دیگر سنگین الزامات کا بھی سامنا ہے، اگر ان پر تمام الزامات ثابت ہوئے تو انھیں سو سال قید ہو سکتی ہے۔

    اسپیشل پراسیکیوٹر جیک اسمتھ نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ دستاویزات کیس کا تیز رفتار ٹرائل ہونا چاہیے۔ اسمتھ نے اس بات پر زور دیا کہ ٹرمپ اور ان کے معاون والٹ ناؤٹا کو اپنی بے گناہی کا گمان ہے، انھوں نے کہا کہ وہ عوامی مفادات اور مدعا علیہان کے حقوق کے مطابق تیز ٹرائل کا مطالبہ کریں گے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر خفیہ دستاویزات کی تحقیقات میں فرد جرم عائد کی گئی ہے، ٹرمپ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’بدعنوان بائیڈن انتظامیہ کی ہدایت پر مجھ پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔‘‘

  • امریکا میں الیکٹریشن کی 10 لاکھ ملازمتیں

    امریکا میں الیکٹریشن کی 10 لاکھ ملازمتیں

    امریکا کو اپنے ماحولیاتی مقاصد کے لیے 10 لاکھ الیکٹریشن درکار ہیں۔

    ری وائرنگ امریکا کے مطابق امریکا کو 2035 تک کاربن آلودگی سے پاک بجلی کے منصوبے کے تحت سولر پینل نصب کرنے، الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ اسٹیشن بنانے اور ہیٹنگ پمپ لگانے کے لیے 10 لاکھ الیکٹریشن درکار ہیں۔

    بیورو آف لیبر کے اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں امریکا میں ایک الیکٹریشن کی سالانہ تنخواہ تقریبا 60 ہزار ڈالر سے زیادہ تھی، اور دیگر تمام شعبوں میں یہ تنخواہ 45 ہزار ڈالر کے قریب تھی، جب کہ ماہر الیکٹریشن اس سے بھی زیادہ کماتے ہیں۔

    امریکا میں بجلی کا کام کرنے والے لوگ زیادہ تر مرد ہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف 2 فی صد الیکٹریشن خواتین ہیں، تاہم بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس شعبے کو کام کرنے والوں کی شدید کمی کا سامنا ہے، کیوں کہ اب امریکا ایندھن کی بجائے گاڑیوں اور عمارات کو بجلی سے چلانے پر کام کر رہا ہے۔

    ریوائرنگ امریکا سے تعلق رکھنے والے محقق سیم کیلیش کا کہنا ہے کہ آنے والی دہائی میں الیکٹریشن کے شعبے میں سالانہ 80 ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی۔ واضح رہے کہ انفلیشن ریڈکشن ایکٹ کے تحت امریکا میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو فروغ دینے اور گھروں کو بجلی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کو بھی اس شعبے میں لا کر کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔

  • انوکھے پراسرار جانور کو دیکھ کر پارک انتظامیہ پریشان

    انوکھے پراسرار جانور کو دیکھ کر پارک انتظامیہ پریشان

    امریکا کے ایک وائلڈ لائف پارک میں کیمرے کی آنکھ نے ایک پراسرار اجنبی جانور قید کرلیا جسے پارک کی انتظامیہ شناخت نہ کرسکی اور لوگوں کی مدد لینے پر مجبور ہوگئی۔

    جنوبی ٹیکسس کے وائلڈ لائف پارک کی انتظامیہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک جانور کی تصویر پوسٹ کی۔

    پوسٹ میں لکھا گیا کہ یہ تصویر رات کے اندھیرے میں کھینچی گئی اور اسے دیکھ کر ہم اپنا سر کھجانے پر مجبور ہوگئے کیونکہ ہم اس جانور کو شناخت نہیں کر پا رہے۔

    انہوں نے لکھا کہ کیا یہ کوئی نئی قسم کا جانور ہے؟ یا پھر کوئی پارک کا رینجر بھیس بدل کر وہاں موجود ہے؟

    انتظامیہ نے لوگوں سے کہا کہ وہ اس جانور کی شناخت میں ان کی مدد کریں۔

    اس تصویر نے لاکھوں لوگوں کی توجہ حاصل کرلی اور لوگوں نے اس پر مختلف آرا دیں۔

    بعض لوگوں نے اسے بلی اور شیر کی نسل کا ایک جانور قرار دیا جبکہ بعض نے علاقے میں پائے جانے والے ایک چوہے کا نام لیا۔

    کچھ افراد نے کہا کہ یہ ممکنہ طور پر کوئی دوغلی نسل کا جانور ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دو علیحدہ نسل کے جانور ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔

    بعد ازاں پارک انتظامیہ نے اسے امریکی بیجر سے قریب ترین قرار دیا، یہ جانور جسے بجو کہا جاتا ہے زمین کھودنے کا خاص ماہر ہے اور یہ عموماً رات کے وقت بے حد فعال ہوتا ہے۔

  • اجے بنگا ورلڈ بینک کے بلامقابلہ صدر بننے کے قریب

    اجے بنگا ورلڈ بینک کے بلامقابلہ صدر بننے کے قریب

    واشنگٹن: اجے بنگا ورلڈ بینک کے بلامقابلہ صدر بننے کے قریب ہیں، انھیں فروری کے آخری عشرے میں امریکی صدر جو بائیڈن نے نامزد کیا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی نژاد اجے بنگا ورلڈ بینک کے بلا مقابلہ صدر بن سکتے ہیں، ورلڈ بینک چلانے کے لیے ماسٹر کارڈ کے سابق سی ای او کا انتخاب بائیڈن نے کیا تھا۔

    اجے بنگا کے عالمی بینک کے سربراہ کے طور پر انتخاب تقریباً یقینی ہو گیا ہے، کیوں کہ اس عہدے کے لیے کسی اور نے اپنا دعویٰ پیش نہیں کیا۔

    غریبی سے لڑنے والی 189 ممالک کی تنظیم کے موجودہ صدر ڈیوڈ مالپاس نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ وہ اپریل 2024 میں اپنی پانچ سالہ مدت ختم ہونے سے تقریباً ایک سال قبل جون میں اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے، ڈیوڈ مالپاس کو سابق امریکی صدر ٹرمپ نے نامزد کیا تھا۔

    اجے بنگا اس وقت پرائیویٹ ایکویٹی فرم جنرل اٹلانٹک کے وائس چیئرمین ہیں، جن کا 30 سال سے زیادہ کا کاروباری تجربہ ہے، انھوں نے ماسٹر کارڈ اور امریکن ریڈ کراس، کرافٹ فوڈز اور ڈاؤ انکارپوریشن کے بورڈز میں مختلف ذمہ داریاں بھی ادا کی ہیں۔

    اجے بنگا بھارت میں پیدا ہونے والے پہلے شخص ہیں جنھیں ورلڈ بینک کے صدر کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ 23 فروری کو انھیں نامزد کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ بنگا کو ہمارے وقت کے انتہائی ضروری چیلنجوں بشمول موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پبلک پرائیویٹ وسائل کو متحرک کرنے کا اہم تجربہ ہے۔

    واضح رہے کہ عالمی بینک پر دباؤ ہے کہ وہ غریب ممالک کو بھاری قرضوں میں ڈبائے بغیر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے منصوبوں کی مالی مدد کرے۔

    ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سربراہان کا انتخاب روایتی طور پر یورپ سے کیا جاتا ہے، تاہم اس روایت کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں، کہا جا رہا تھا کہ ان دونوں تنظیموں میں سے کسی ایک کا سربراہ ترقی پذیر ممالک میں سے ہونا چاہیے۔

  • امریکا کے 2 بڑے بینک دیوالیہ ہوگئے، اسٹاک مارکیٹس میں مندی

    امریکا کے 2 بڑے بینک دیوالیہ ہوگئے، اسٹاک مارکیٹس میں مندی

    واشنگٹن: امریکا کے 2 بڑے بینک دیوالیہ ہوگئے جس کے بعد اسٹاک مارکیٹس میں بھی مندی دیکھی جارہی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا شدید بینکنگ بحران کی زد میں آگیا ہے، شرح سود بڑھنے سے امریکا کے 2 بینک دیوالیہ ہوگئے۔

    امریکا کا سگنچر بینک بھی دیوالیہ ہوچکا ہے جبکہ سیلیکون ویلی بینک جمعہ کو دیوالیہ ہو گیا تھا۔

    بینکوں کے دیوالیہ ہونے کا سن کر عوام بینکوں سے اپنے ڈپازٹس نکلوانے کے لیے دوڑ پڑے، افرا تفری کی صورتحال دیکھ کر امریکی صدر بائیڈن کو قوم سے خطاب کرنا پڑا۔

    امریکی صدر نے اپنے خطاب میں عوام کو یقین دلایا کہ کوئی بحران نہیں ہے۔

    دوسری جانب بینکنگ انڈسٹری میں بحران کے بعد اسٹاک مارکیٹس میں بھی مندی دیکھی جارہی ہے۔

  • امریکا: قیدی 28 سال بعد بے گناہ قرار

    امریکا: قیدی 28 سال بعد بے گناہ قرار

    واشنگٹن: امریکا میں ایک شخص کو عدالت نے 28 سال بعد بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست میسوری میں لامر جانسن نامی شہری نے بے گناہ ہوتے ہوئے اٹھائیس سال جیل میں گزارے، آخرکار عدالت نے انھیں باعزت طور پر بری کر دیا۔

    جانسن لامر کو قتل کے جرم میں قید کی سزا دی گئی تھی، انھیں 1994 میں مارکس بوائیڈ نامی شہری کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اکتوبر 1994 میں جانسن کے گھر کے سامنے والے پورچ پر 2 نقاب پوشوں نے فائرنگ کر کے مارکس بوائیڈ کو قتل کر دیا تھا، جس کے بعد جانسن کو گرفتار کیا گیا۔

    جانسن نے اپنے دفاع میں بارہا کہا کہ جب حملہ ہوا تو وہ گھر پر نہیں تھے، تاہم عدالت میں انھیں قاتل تسلیم کیا گیا، اب ایک اور قیدی نے اعتراف کر لیا ہے کہ اس نے فل کیمپبل نامی شخص کے ساتھ مل کر بوائیڈ کو گولی ماری تھی۔

    اس اعتراف کے بعد ہی جانس کے رہا ہونے کی راہ ہموار ہوئی، سماعت کے بعد جج ڈیوڈ میسن نے فیصلے میں کہا کہ 50 سالہ لامر جانسن کو شواہد کی بنیاد پر بے قصور پایا گیا، عدالت نے انھیں منگل کو سینٹ لوئس کے کمرہ عدالت سے باعزت طور پر رہا کر دیا۔

    رپورٹس کے مطابق اٹارنی کم گارڈنر نے گزشتہ برس ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں جانسن کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ منگل کی سماعت کے بعد لامر جانسن کی قانونی ٹیم نے ریاست کے اٹارنی جنرل کے دفتر پر انھیں اتنے سالوں تک جیل میں رکھنے پر تنقید کی۔

  • صدر بائیڈن کے گھر پر چھاپے میں مزید خفیہ دستاویزات برآمد

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن کے گھر پر چھاپے میں مزید خفیہ دستاویزات برآمد ہو گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی محکمہ انصاف کو بائیڈن کے گھر کی تلاشی میں مزید کلاسیفائیڈ دستاویزات ملی ہیں، 6 خفیہ دستاویزات بائیڈن کے بطور سینیٹر اور اوباما دور میں بطور نائب صدر کام کرنے سے متعلق ہیں۔

    امریکی صدر کے ایک وکیل نے ہفتے کی رات ایک بیان میں کہا کہ امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے جمعہ کے روز ولمنگٹن، ڈیلاویئر میں صدر جو بائیڈن کے گھر کی ایک نئی تلاشی میں چھ مزید آئٹمز ملی ہیں، جن میں نہایت خفیہ دستاویزات بھی شامل ہیں۔

    وکیل باب باؤر کے مطابق کچھ خفیہ دستاویزات اور ’دیگر مواد‘ امریکی سینیٹ میں بائیڈن کے دور سے متعلق ہیں، جہاں انھوں نے 1973 سے 2009 تک ڈیلاویئر کی نمائندگی کی۔ باؤر نے کہا کہ دیگر دستاویزات 2009 سے 2017 تک اوباما انتظامیہ میں نائب صدر کے طور پر ان کے دور کی تھیں۔

    وکیل کے مطابق محکمہ انصاف نے 12 گھنٹے تک گھر کی تلاشی لی، اور اہل کاروں نے کچھ ایسے نوٹ بھی لیے ہیں جو، بائیڈن نے بطور نائب صدر ذاتی طور پر ہاتھ سے لکھے تھے۔

    ڈیلاویئر میں بائیڈن کی رہائش گاہ سے مزید 5 حساس دستاویزات برآمد

    باؤر نے کہا کہ صدر بائیڈن نے خود مکمل تلاشی کے لیے اپنے گھر تک رسائی دی، تاکہ محکمہ انصاف ہر طرح کے ریکارڈ اور خفیہ دستاویزات تک رسائی کر سکے۔

    اٹارنی نے کہا کہ تلاشی کے دوران نہ بائیڈن اور نہ ہی ان کی اہلیہ موجود تھیں، امریکی صدر ڈیلاویئر کے ریہوبوتھ بیچ میں گزار رہے ہیں۔ تاہم تلاشی کے وقت صدر کے ذاتی اور وائٹ ہاؤس کے وکلا موجود تھے۔

    ہفتے کے روز باؤر نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا کہ ولیمنگٹن کے گھر میں یہ دستاویزات کہاں سے ملیں، پچھلی خفیہ دستاویزات گھر کے گیراج اور قریبی اسٹوریج کی جگہ سے ملی تھیں۔

    روئٹرز کے مطابق تلاش سے پتا چلتا ہے کہ وفاقی تفتیش کار بائیڈن کے قبضے سے ملنے والی خفیہ دستاویزات کی تحقیقات کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، اس ماہ امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی وکیل بھی نامزد کیا ہے۔

    یاد رہے کہ دیگر خفیہ سرکاری دستاویزات اس ماہ بائیڈن کی ولیمنگٹن رہائش گاہ سے، اور نومبر میں ایک نجی دفتر سے برآمد ہوئی تھیں، جو انھوں نے 2017 میں اوباما انتظامیہ میں نائب صدر کے طور پر اپنی مدت ختم ہونے کے بعد رکھی تھیں۔

  • 30 برس سے قید امریکی کو آخرکار مہلک انجیکشن دے کر موت کی نیند سلا دیا گیا

    ٹیکساس: بیوی کے قتل میں 30 برس سے قید سابق امریکی پولیس افسر رابرٹ فریٹا کو آخرکار مہلک انجیکشن دے کر موت کی نیند سلا دیا گیا، یہ نئے سال کی دوسری سزائے موت ہے جو امریکا میں دی گئی۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ہیوسٹن کے ایک نہایت مغرور سابق مضافاتی پولیس افسر رابرٹ فریٹا نے تقریباً 30 سال قبل نومبر 1994 میں اپنی اہلیہ فرح کو کرائے کے قاتل کے ذریعے گولی مار کر قتل کروایا تھا، جس پر اسے منگل کو آخر کار 65 سال کی عمر میں ہنٹس وِِل کے ریاستی قید خانے میں مہلک انجکشن ’پینٹو باربیٹال‘ لگا دیا گیا۔

    رابرٹ فریٹا کو جب طاقت ور سکون آور پینٹو باربیٹال کی مہلک ڈوز بازو کی نس میں دی گئی تو اس کے 24 منٹ بعد ڈاکٹر نے اسے شام 7 بج کر 49 منٹ پر مردہ قرار دے دیا۔

    موت کا انجیکشن

    موت کے کمرے میں دونوں بازوؤں میں مہلک انجیکشن دیے جانے سے قبل رابرٹ فریٹا کے روحانی مشیر بیری براؤن نے اس کے لیے 3 منٹ تک دعا کی۔ وارڈن نے رابرٹ فریٹا سے پوچھا کہ کیا وہ موت سے قبل آخری بیان دینا چاہیں گے، تو اس نے جواب میں کہا ’’نہیں۔‘‘

    جیسے ہی مہلک دوا خون میں دوڑنے لگی تو فریٹا نے آنکھیں بند کر دیں اور ایک گہرا سانس لیا اور پھر 6 بار زور سے خراٹے لیے، اور اس کے بعد اس کا جسم ساکت ہو گیا۔

    استغاثہ کا کہنا ہے کہ فریٹا نے کرائے پر قاتل کے حصول کا منصوبہ ترتیب دیا، جس میں ایک مڈل مین، جوزف پریسٹاش نے شوٹر ہاورڈ گائیڈری کی خدمات حاصل کیں، جس نے 33 سالہ فرح کو ہیوسٹن کے مضافاتی علاقے اٹاسکوکیٹا میں اس کے گھر کے گیراج میں سر میں دو گولیاں ماریں، اس وقت رابرٹ فریٹا میسوری سٹی کے پبلک سیفٹی افسر تھے۔

    واضح رہے کہ منگل کی صبح ایک ہنگامی سماعت کے بعد ڈسٹرکٹ جج کیتھرین ماؤزی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکام کا موت دینے کے لیے جس دوا کا استعمال کرنے کا ارادہ ہے وہ قانونی طور استعمال نہیں کی جا سکتی، جس کی وجہ سے سزا رک گئی، تاہم اسی دن ٹیکساس کی اعلیٰ عدالت نے ماؤزی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس سزا پر عمل کرنے کا حکم دیا، ریاستی سپریم کورٹ نے مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مہلک انجکشن کے استعمال کی اجازت دے دی۔

    دراصل رابرٹ فریٹا نے موت کی سزا کے منتظر متعدد دیگر قیدیوں کے ساتھ مل کر آخری لمحات میں عدالت میں اپیل دائر کی تھی، جس میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ معیاد ختم ہونے والی مہلک دوا ’پینٹو باربیٹال‘ کا استعمال ایک ظالمانہ سزا ہوگی اس لیے امریکی آئین کے تحت اس کے استعمال پر روک لگنی چاہیے۔

    رابرٹ فریٹا پر الزام

    رابرٹ فریٹا 1994 ہی سے بیوی کے قتل کے الزام میں جیل میں تھا، قانونی دستاویزات کے مطابق میاں اور بیوی میں طلاق اور اپنے تین بچوں کی تحویل کے حوالے سے تلخ لڑائی چل رہی تھی، عدالتی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ رابرٹ فریٹا نے اس وقت اپنے بہت سے دوستوں اور جاننے والوں سے درخواست کی کہ وہ اسے مار ڈالیں یا کسی ایسے شخص کے بارے میں بتائیں، جو اسے قتل کر سکتا ہو۔

    فریٹا نے اپنے جم کے ایک ساتھی سے رابطہ کیا، جس نے ایک کرائے کے قاتل کی خدمات فراہم کیں، امریکی میڈیا کے مطابق فریٹا نے اس شخص کو اپنی بیوی کے قتل کے لیے ایک ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔

    سزائے موت

    فریٹا کو پہلی بار 1996 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن 2007 میں ایک تکنیکی وجہ سے اس فیصلے کو ختم کر دیا گیا تھا، پھر دوسری سماعت کے بعد 2009 میں اسے پھر سے سزائے موت سنائی گئی۔ اس کے وکلا نے متعدد اپیلیں دائر کیں تاہم وہ سب ناکام ہوئیں۔

    پینٹو باربیٹال

    امریکا میں موت کی سزا کے لیے مہلک انجیکشن پینٹو باربیٹال استعمال کیا جاتا ہے، جس کی سپلائی بہت کم ہو گئی ہے کیوں کہ اکثر دوا ساز کمپنیوں نے سزائے موت کے لیے استعمال کی وجہ سے اس کی پیداوار کو نہایت محدود کر دیا ہے، اور سزائے موت کے دوران اس کے سائیڈ افیکٹس بھی سامنے آئے جس کی وجہ سے موت کے لیے اس کے استعمال کر پابندی کی عدالتی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

    رواں برس کے ابھی محض 12 دن گزرے ہیں اور رابرٹ فریٹا امریکا میں سزائے موت کی سزا پانے والا دوسرا قیدی بن گیا ہے۔