Tag: USA

  • کرونا وائرس: امریکی عوام خیراتی اداروں اور مفت کھانے کے محتاج ہوگئے

    کرونا وائرس: امریکی عوام خیراتی اداروں اور مفت کھانے کے محتاج ہوگئے

    واشنگٹن: کرونا وائرس نے پوری دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ایسے میں بڑی بڑی معیشتیں بھی اس سے خاصا متاثر ہوئی ہیں، امریکا میں بھی بھوک اور بے روزگاری میں شدید اضافہ ہوگیا ہے۔

    امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ملک میں حکومت اور مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے مفت راشن پیکجز اور فوڈ پیکٹس تقسیم کیے جارہے ہیں جنہیں لینے کے لیے لوگوں کی لمبی قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔

    ایسی ہی ایک تنظیم فیڈنگ امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس 5 کروڑ سے زائد امریکی بھوک کے خطرے کا شکار ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کے آغاز کے بعد سے صرف 2 ماہ کے اندر ملک بھر میں 3 کروڑ 60 لاکھ افراد بے روزگار
    ہوچکے تھے۔ اس وقت امریکا میں لاکھوں گھرانے خیراتی اداروں کی جانب سے ملنے والی امداد پر اپنا گھر چلا رہے ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست ٹیکسس میں روزانہ 10 ہزار افراد خوارک تقسیم کرنے والے فوڈ بینکس کے باہر قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ فلوریڈا میں ان فوڈ بینکوں سے خوراک کے حصول کے لگنے والی گاڑیوں کی قطاریں کئی میل طویل ہو جاتی ہیں۔

    فیڈنگ ساؤتھ فلوریڈا نامی تنظیم کو اپنے وسائل کی طلب میں 600 فیصد اضافے کا سامنا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پورے امریکا میں 200 کے قریب فوڈ بینک کام کرتے ہیں جو ہر برس 4.3 ارب ڈالرز کا کھانا فراہم کرتے ہیں۔

    ریاست پنسلوینا کے جنوبی مغربی علاقے میں 11 کاؤنٹیز میں کام کرنے والے خیراتی ادارے گیرٹر پٹس برگ کمیونٹی فوڈ بینک کے اہلکار برائن گولش کا کہنا ہے کہ ہمارے فوڈ بینک میں امدادی خوراک حاصل کرنے کے لیے آنے والوں کی تعداد میں 500 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ وہ مارچ اور اپریل کے 2 ماہ کے دوران عام حالات میں 5 سے 6 لاکھ ڈالرز خوراک کی تقسیم پر خرچ کرتے تھے لیکن اس برس مارچ اور اپریل میں انہوں نے 17 لاکھ ڈالرز خرچ کیے ہیں۔

    خیال رہے کہ امریکا اس وقت کرونا وائرس سے متاثر ترین ملک ہے جہاں کوویڈ 19 کے مجموعی کیسز کی تعداد 1 کروڑ 36 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے جبکہ 2 لاکھ 72 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔

  • امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا فیصلہ، عملدر آمد مؤخر

    امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا فیصلہ، عملدر آمد مؤخر

    واشنگٹن: امریکی حکام نے ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی کے فیصلے پر عملدر آمد مؤخر کر دیا، امریکی عدالت نے ایپ پر پابندی کے فیصلے کو مؤخر کرنے کا حکم دیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکی حکومت نے ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی کے فیصلے پر عملدر آمد مؤخر کر دیا ہے، امریکی حکام کے مطابق وہ ایک امریکی عدالت کی جانب سے ٹک ٹاک کے حق میں دیے گئے فیصلے کی پاسداری کریں گے۔

    اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ کے حکام مقبول ایپ پر پابندی لگانے کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں، ان کا الزام ہے کہ ٹک ٹاک کا اپنی ملکیتی چینی کمپنی بائیٹ ڈانس کے ذریعے چینی حکام سے تعلق ہے اور اس طرح ٹک ٹاک صارفین کا ڈیٹا چین حاصل کر سکتا ہے۔

    ٹک ٹاک کے امریکا میں 10 کروڑ سے زائد صارفین ہیں، ایپ کو فیڈرل کامرس ڈیپارٹمنٹ کے اس اعلان سے مہلت ملی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی جج کے حکم کے بعد ایپ پر پابندی کے فیصلے پر عملدر آمد مؤخر کیا جا رہا ہے۔

    امریکی کامرس ڈپارٹمنٹ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ محکمہ عدالتی فیصلے کی پاسداری کر رہا ہے اور پابندی کے فیصلے پر عملدر آمد مزید عدالتی حکم تک نہیں گا، مذکورہ عدالتی فیصلے کے خلاف امریکی حکومت نے اپیل بھی دائر کر رکھی ہے۔

    وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک کو پابندی سے بچنے کے لیے امریکی ملکیتی کمپنی بننا ہوگا جس کے شیئرز امریکی سرمایہ کاروں کے پاس ہو۔

    دوسری جانب ٹک ٹاک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اس مسئلے کے حل کی امید ہے جس میں امریکا کے سیکیورٹی خدشات کو دور کیا جا سکے، اگرچہ ہم ان خدشات سے اتفاق نہیں رکھتے۔

    بائیٹ ڈانس اور ٹک ٹاک نے آئی ٹی فرم اوریکل اور ریٹیلر چین وال مارٹ کے ساتھ مل کر ایک نئی کمپنی قائم کرنے کی تجویز بھی دی ہے جس میں اوریکل ٹیکنالوجی پارٹنر اور وال مارٹ بزنس پارٹنر ہوں گے، تاہم اس ڈیل پر ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

  • امریکا: شادی کی تقریب سے متعدد علاقوں میں کرونا وائرس پھیل گیا

    امریکا: شادی کی تقریب سے متعدد علاقوں میں کرونا وائرس پھیل گیا

    واشنگٹن: امریکا میں ایک شادی کی تقریب متعدد علاقوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بن گئی، مذکورہ تقریب کی وجہ سے 177 افراد وائرس کا شکار جبکہ 7 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا کی شمال مشرقی ریاست میئن کے مضافات میں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کرنے والے 177 افراد کرونا وائرس کا شکار ہوگئے جن میں سے 7 ہلاک ہوگئے۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق شادی کی تقریب اگست کے اوائل میں ہوئی تھی جس میں 50 افراد کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 65 افراد شریک ہوئے، چرچ میں تقریب کے بعد مہمانوں کو عشائیہ دیا گیا۔

    10 روز بعد تقریب میں شریک 2 درجن سے زائد افراد کا کرونا ٹیسٹ مثبت آگیا جس کے بعد سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) نے تفتیش بھی شروع کردی۔

    سی ڈی سی کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام افراد شادی کی تقریب میں شریک نہیں ہوئے تھے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ تقریب سے ریاست کے کئی علاقے کرونا وائرس کے مرکز بن گئے اور اسی طرح اس علاقے میں 370 کلومیٹر دور ایک جیل میں بھی 80 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔

    رپورٹ کے مطابق اس جیل کا گارڈ بھی شادی کی تقریب میں شریک تھا۔

    اسی علاقے میں واقع ایک چرچ میں بھی 10 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ہلاک ہونے والے 6 افراد اور 39 متاثرین مذکورہ قصبے سے 160 کلو میٹر دور نرسنگ ہوم میں تھے۔

    ٹاؤن کونسل کے سربراہ کوڈی مک ایون کا کہنا ہے کہ ہم نے جب وبا پھیلنے کی خبر سنی ہم پریشان ہوگئے، جیسے جیسے وبا پھیلتی گئی ہم نے قصبے کو مکمل طور پر دوبارہ بند کردیا۔

    واقعے کے بعد شہریوں کی جانب سے بھی شدید غصے کا اظہار کیا گیا اور مذکورہ مقام کے منتظمین پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا جبکہ حکام نے مذکورہ ہوٹل کا لائسنس بھی منسوخ کردیا۔

    خیال رہے کہ کرونا وائرس کیسز کے لحاظ سے امریکا دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ امریکا میں اب تک کرونا وائرس سے ہونے والی اموات 2 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہیں۔

    اب تک امریکا میں کرونا وائرس کے 69 لاکھ 25 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں سے فعال کیسز کی تعداد 25 لاکھ 30 ہزار 876 ہے۔ ملک میں زیر علاج 14 ہزار 179 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے جبکہ ملک میں 41 لاکھ 91 ہزار 894 مریض صحتیاب ہو چکے ہیں۔

  • امریکا میں وائرس کی موجودگی کے حوالے سے پریشان کن تحقیق

    امریکا میں وائرس کی موجودگی کے حوالے سے پریشان کن تحقیق

    واشنگٹن: کرونا وائرس نے دنیا بھر کے طبی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، حال ہی میں امریکا میں وائرس کی موجودگی کے حوالے سے ایک پریشان کن تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    جرنل آف میڈیکل انٹرنیٹ ریسرچ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس امریکا میں دسمبر کے آخر میں پھیلنا شروع ہوچکا تھا۔ مقامی سطح پر پھیلنے والے کیسز فروری کے آخر میں سامنے آئے تھے مگر اپریل میں بتایا گیا تھا کہ یہ بیماری وہاں جنوری میں پہنچ چکی تھی۔

    امریکا میں کووڈ 19 کا پہلا مصدقہ کیس جنوری میں اس وقت آیا تھا جب ووہان سے واشنگٹن آنے والے ایک شخص میں 19 جنوری کو اس کی تشخیص ہوئی۔

    تاہم مذکورہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ درحقیقت یہ بیماری وہاں اندازے سے پہلے پھیلنا شروع ہوچکی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 22 دسمبر سے امریکا کے مختلف طبی مراکز اور اسپتالوں میں نظام تنفس کی بیماری کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔

    تحقیق میں شامل محقق ڈاکٹر جو آن ایلمور کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ریکارڈ کا جائزہ اس وقت لینا شروع کیا جب مارچ میں ان کے طبی مرکز کے پریشان مریضوں کی جانب سے مسلسل ای میلز کی گئیں۔

    یہ مریض مسلسل پوچھ رہے تھے کہ کیا جنوری میں جو انہیں کھانسی تھی وہ کووڈ 19 کی وجہ سے تو نہیں تھی۔ اس پر کیلیفورنیا یونیورسٹی کی وبائی امراض کی ماہر نے تحقیق کا آغاز کیا۔

    محققین نے دسمبر 2019 سے فروری 2020 کے دوران نظام تنفس کے کیسز میں اضافے کو دیکھا جبکہ اس دوران کھانسی کے بارے میں انٹرنیٹ سرچز بھی بڑھ گئیں۔

    انہوں نے اس دریافت کا موازنہ گزشتہ 5 سال کے ریکارڈز سے کیا تو دریافت ہوا کہ عام معمول کے مقابلے میں کھانسی کی شکایت کے ساتھ آنے والے مریضوں کی شرح میں 50 فیصد اضافہ ہوا، یعنی اوسطاً عام حالات کے مقابلے میں ایک ہزار زیادہ مریض علاج کے لیے آئے۔

    اسی طرح نظام تنفس کی شکایت کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہونے والے افراد کی تعاد کی شرح میں بھی گزشتہ 5 سال کے مقابلے میں دسمبر 2019 سے فروری 2020 کے دوران اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ کیسز ممکنہ طور پر فلو کے تھے جبکہ دیگر کی وجوہات الگ تھیں، مگر اس دورانیے میں اتنے زیادہ میں کیسز قابل توجہ ضرور ہیں۔

    محققین کو توقع ہے کہ اس تحقیق سے کووڈ 19 کے ریئل ٹائم ڈیٹا کو دکھایا جاسکے گا اور ماہرین کے لیے مستقبل میں امراض کو پھیلنے سے روکنے یا اس کی رفتار سست کرنے میں مدد مل سکے گی۔

  • سعودی عرب: امریکا سے تعلیم یافتہ نوجوان چائے کا اسٹال لگانے لگا، حکام کا نوٹس

    سعودی عرب: امریکا سے تعلیم یافتہ نوجوان چائے کا اسٹال لگانے لگا، حکام کا نوٹس

    ریاض: سعودی عرب میں امریکا سے تعلیم یافتہ نوجوان کی چائے کا اسٹال لگانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، وزارت افرادی قوت نے نوٹس لے کر نوجوان کو اسناد سمیت طلب کر لیا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق امریکا سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر سعودی نوجوان کی ابہا میں چائے کی دکان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بے حد وائرل ہورہی ہے۔

    وزارت افرادی قوت و سماجی بہبود نے ڈگری ہولڈر سعودی نوجوان کے ویڈیو کلپ کا نوٹس لیا ہے۔ مذکورہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان ابہا الخمیس روڈ پر چائے فروخت کررہا ہے۔

    ویڈیو میں نوجوان امریکا سے امتیازی پوزیشن کے ساتھ انفارمیشن سسٹم میں ماسٹرز کی ڈگری بھی دکھا رہا ہے۔

    صارفین نے اس ویڈیو پر حیرانگی، افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے وزارت محنت و سماجی بہبود سے اس ویڈیو کا نوٹس لینے کی اپیل کی تھی۔

    وزارت افرادی قوت نے سعودی نوجوان سے کہا ہے کہ وہ پہلی فرصت میں اپنی اسناد لے کر وزارت پہنچ جائے، اس کے لیے ملازمت کا بندوبست کیا جائے گا۔

    الریاض بینک نے بھی نوجوان کو ملازمت کی پیشکش کی ہے، الریاض بینک کی جانب سے کہا گیا کہ ہمارے یہاں نوجوان کی ملازمت مستقل ہوگی۔

    بینک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ہم ایسے سعودی لڑکوں اور لڑکیوں کے متلاشی ہیں جو بڑے خواب دیکھتے ہیں اور عزم و ارادے کے مالک ہیں۔ ایسے باعزم نوجوان ہی ہمارا سرمایہ ہیں۔

  • کورونا وائرس : ہائیڈروکسی کلوروکوئن کورونا مریضوں کیلئے جان لیوا بن گئی

    کورونا وائرس : ہائیڈروکسی کلوروکوئن کورونا مریضوں کیلئے جان لیوا بن گئی

    واشنگٹن : امریکہ میں کورونا وائرس کے علاج کیلئے استعمال کی جانے والی ملیریا کی دوا ہائیڈروکسی کلوروکوئن سے اب تک سو سے زائد امریکی ہلاک ہوگئے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے اس دوا کو بہترین قرار دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ میں کی جان والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رواں سال کورونا وائرس کے مریضوں کو  گمراہ کن طور پر دی جانے والی ملیریا کی دوا ہائیڈروکسی کلوروکوئن سو سے زائد مریضوں کی جان لے چکی ہے۔

    ملواکی جرنل سینٹینل کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کے جائزے کے مطابق ہائیڈروکسی کلوروکوئن لینے کے بعد 293افراد کی پہلے چھ ماہ میں ہی موت ہوئی، اس سے قبل سال 2019 کی پہلی ششماہی میں صرف 75 افراد کی جان گئی۔

    اسینٹینیل کے مطابق زیادہ تر ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اب تک جتنے لوگ کورونا وائرس سے ہلاک ہوئے ان لوگوں میں سے آدھی سے زیادہ مریضوں اموات کی وجہ ہائیڈروکسی کلوروکوئن لینا تھی۔

    جب ابتدائی تحقیقات میں بتایا گیا کہ ملیریا کی دوا ہائیڈروکسی کلوروکوئن سے اینٹی وائرل اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور متاثرہ افراد کی مشکلات کو بہتر بناسکتے ہیں تو امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اس بات کی تائید کی تھی کہ وہ کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے بہترین دوا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ کئی ہفتوں سے ملیریا کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی دوا ہائیڈروکسی کلوروکوئن کو احتیاطی طور پر کرونا کے علاج کی غرض سے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود کہ ان کا کرونا وائرس ٹیسٹ منفی آچکا ہے اور محمکہ صحت کا وفاقی ادارہ اس دوا کے مضر اثرات کے حوالے سے تنبیہ کر چکا ہے۔

     

  • کتے اور بلیوں کو مار کر کون پھینک رہا ہے؟ امریکی ریاست میں خوف و ہراس

    کتے اور بلیوں کو مار کر کون پھینک رہا ہے؟ امریکی ریاست میں خوف و ہراس

    اوکلاہوما سٹی : امریکہ میں کتوں اور بلیوں کو بے دردی سے مار کر کھائی میں پھینکے جانے کا انکشاف ہوا ہے، جانوروں کی لاشوں کو ڈبوں اور تھیلوں میں بند کرکے پھینکا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست کے شہر اوکلاہاما سٹی میں جانوروں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کی خبر سامنے آئی ہے، علاقے کے کچھ نامعلوم افراد گزشتہ کئی ماہ سے کتوں اور بلیوں کو بے دردی سے مار کر ان کی لاشیں ایک کھائی میں پھینک رہے تھے۔

    اس حوالے سے علاقے کی رہائشی خاتون اولیویا زین العابدین نے ہیلپ لائن 911پر کال کی جس پر انتظامیہ نے ان کی کال جانوروں کے معاملات دیکھنے والے ادارے کو منتقل کردی جس پر انہوں نے اپنی شکایت درج کروائی۔

    اولیویا زین العابدین نے متعلقہ محکمے سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں اس کا معقول جواب یا کوئی مدد موصول نہیں ہوئی ہے جس پر انہوں نے ایک مقامی ٹی وی چینل کو صورتحال سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ پچھلے ماہ پورشن آف کلاسن نزد این ڈبلیو 104 روڈ پر اپنی آنکھوں سے ان جانوروں کی لاشوں کو دیکھا جس میں ایک کتے کی کھال کو کھینچ دیا گیا تھا اور دوسرے کو دیکھ کر ایسا لگا کہ جیسے اسے ابھی ابھی مار کر ڈالا گیا ہو۔

    ٹی وی انتظامیہ نے اولیویا کی شکایت پر متعلقہ محکمے سے جب رابطہ کیا تو (او کے سی) اینیمل کنٹرول کی جانب سے انہیں بتایا گیا کہ پروگرام کو دیکھ کر فوری طور پر عملے کو مذکورہ مقام پر بھیج دیا گیا ہے۔

  • امریکہ : سفاک باپ نے زور دار تھپڑ مار کر7ماہ کے بچے کی ہڈی توڑ دی

    امریکہ : سفاک باپ نے زور دار تھپڑ مار کر7ماہ کے بچے کی ہڈی توڑ دی

    آئیووا : امریکہ میں سات ماہ کے بیٹے پر تشدد کرنے والے سفاک باپ نے پولیس کے سامنے اعتراف جرم کرلیا، ملزم کا کہنا تھا کہ میں نے غصے کی حالت میں بچے کو تھپڑ مارا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ کی ریاست آئیوا کی  ویسٹ ڈیس موئنز  پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا ہے جس نے اپنے سات ماہ کے بچے کو زرودار تھپڑ مار کر اس کی ہڈی توڑ دی تھی۔

    انیس سالہ ملزم سیزر کورونا لوپیز کے جرم کو اے کلاس قرار دیا گیا ہے، ملزم  کے اعتراف جرم کے بعد  اسے پولک کاؤنٹی جیل میں بند کردیا گیا ہے۔

    ویسٹ ڈیس موئنس پولیس کے مطابق مقامی اسپتال سے انہیں اطلاع موصول ہوئی کہ ایک سات سالہ بچے پر تشدد کر کے اسے شدید زخمی کیا گیا ہے۔

    پولیس نے موقع پر پہنچ کر معاملے کا جائزہ لیا، ڈاکٹروں نے پولیس کو بتایا کہ7 ماہ کے بچے کے دائیں کان کے پیچھے کی جانب کھوپڑی میں فریکچر ہوا ہے۔

    عدالتی بیان میں تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ویسٹ ڈیس موئنز کے 11 ویں اسٹریٹ کے 1100 بلاک میں واقع اپارٹمنٹ میں پیش آیا، کورونا لوپیز نے اپنے سات ماہ کے بچے کو جھولے کے اندر پھینکنے اور اسے زور دار تھپڑ مارنے کا اعتراف کیا ہے کہ جس سے اس کے کان کے پاس کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔

  • امریکی صدر نے عالمی عدالت کے اہلکاروں پر پابندیاں عائد کردیں

    امریکی صدر نے عالمی عدالت کے اہلکاروں پر پابندیاں عائد کردیں

    واشنگٹن : عالمی عدالت کی جانب سے امریکا کیخلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کے فیصلہ کے بعد، امریکی صدرٹرمپ نے عالمی عدالت کے اہلکاروں پر پابندیاں عائد کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجیوں، انٹیلی جنس حکام اور اسرائیل سمیت اتحادی ممالک کے خلاف جنگی جرائم پر مشتمل تحقیقات پر انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) کے اہلکاروں پر اقتصادی و سفری پابندیاں عائد کرنے کا اختیار دے دیا۔

    صدر ٹرمپ نے عالمی عدالت پر پابندیاں ایگزیکٹیو حکم نامہ کے تحت عائد کی ہیں۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکا کیخلاف تحقیقات میں شامل ہر فرد پر پابندیاں لاگو ہوسکتی ہیں۔

    واضح رہے کہ عالمی عدالت نے امریکا کیخلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا، عدالت نے اسرائیل کے فلسطینیوں پر جرائم کی تحقیقات کا بھی آغاز کیا تھا، جس پر صدر ٹرمپ نے حکم نامے میں عالمی عدالت کے اختیار کو مسترد کردیا۔

    اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیلیگ میکینی کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت کے اقدامات امریکی عوام کے حقوق پرحملہ ہیں، اپنے شہریوں، اتحادیوں کو غیر منصفانہ قانونی کارروائی سے بچائے گا۔

    علاوہ ازیں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے عالمی فوجداری عدالت کو کینگرو عدالت کا خطاب دے دیا، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے لوگوں کو کینگرو عدالت سے خطرہ ہے، اقتصادی پابندیوں کا تعین کیسز کی بنیاد پر کیا جائے گا۔

    مائیک پومپیو نے کہا کہ عالمی عدالت کے اہلکاروں پر ویزا پابندیوں میں ان کے اہل خانہ بھی شامل ہوں گے، اہلکاروں کےاہل خانہ کو امریکا میں خریداری اور تفریح کی اجاز ت نہیں دیں گے۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سابق وزیر دفاع

    ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سابق وزیر دفاع

    واشنگٹن : سابق امریکی وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، وہ خود کو ایک ذمہ دار قائد ثابت کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا، ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنے اختیارات کا ناجائز استمعال کرتے ہیں، وہ میری زندگی میں پہلے ایسے امریکی صدر ہیں جو عوام کو متحد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔

    اپنے انٹرویو میں جنرل جیمز میٹس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے اختیارات کا ناجائز استمعال کرتے ہیں۔

    انہوں نے اپنے انٹرویو میں صدر ٹرمپ کے ان اقدامات پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے جو انہوں نے گذشتہ ہفتے امریکہ میں سیاہ فام شخص کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے بعد حالات پر قابو پانے کے لیے اٹھائے ہیں۔ امریکی صدر نے مظاہرین کو دھمکی دی تھی کہ اگر پُرتشدد احتجاج ختم نہ کیا تو وہ فوج طلب کر لیں گے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس کوشش کو گزشتہ تین سال سے دیکھ رہے ہیں، اس عرصے میں ان کی غیر ذمہ دارانہ قیادت کے اثرات جھیل رہے ہیں۔ انہوں نے امریکی عوام کے اتحاد کیلئے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے نہ اس کا دکھاوا کرتے ہیں بلکہ وہ ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے بیان کے جواب میں کہا کہ جنرل جیمز میٹس بے جا اہمیت کے حامل جرنیل ہیں، مجھے ان کی سربراہی کا طریقہ یا ان کے بارے میں کچھ بھی پسند نہیں تھا۔ کئی لوگ اس سے اتفاق کرتے ہیں، میں خوش ہوں کہ جیمز میٹس اب جاچکے ہیں، صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جیمز میٹس کو برطرف کیا تھا۔

    واضح رہے کہ جیمز میٹس نے اس وقت وزارت دفاع سے استعفیٰ دیا تھا جب صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوج کے انخلا کا حکم دیا تھا وہ تب سے خاموش رہے ہیں۔

    جیمز میٹس ایک ریٹائرڈ جرنیل ہیں جنہوں نے دسمبر2019 میں استعفیٰ دیا تھا اور ان کے بارے میں خیال تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں۔