Tag: امریکی انتخابات

  • امریکی انتخابات: ریما اور ان کے شوہر نے کسے ووٹ دیا؟

    امریکی انتخابات: ریما اور ان کے شوہر نے کسے ووٹ دیا؟

    پاکستان کی شہرت یافتہ اداکارہ ریما نے امریکی صدارتی انتخابات 2024 میں اپنا ووٹ کاسٹ کردیا۔

    اداکارہ ریما نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے شوہر کے ہمراہ تصاویر شیئر کی ہیں ساتھ ہی انہوں نے اسٹوریز پر بھی تصاویر شیئر کی جن میں انہیں ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

    اداکارہ نے اپنی پوسٹ کے کیپشن میں بتایا کہ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ امریکی صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈال دیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے یو ایس الیکشن، ووٹ 2024 کے ہیش ٹیگ کا بھی اضافہ کیا ہے۔

    اس تصاویر پر مداحوں نے اداکارہ نے کمنٹس سیکشن پر سوالوں نے انبار لگا دیے، صارفین نے ایک جانب ان سے سوال کیا کہ ریما نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا یا کملا ہیرس کو؟

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Reema khan (@iamreemakhan)

    تاہم اداکارہ نے یہ تو بتا دیا کہ انہوں نے اپنے شوہر ڈاکٹر طارق کے ہمراہ امریکی صدارتی انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے کسے ووٹ دیا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا کے صدارتی الیکشن کے نتائج آ چکے ہیں اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکا کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی منشور میں جنگوں کے خاتمے پر زور دیا اور کہا کہ اقتدار میں آ کر وہ جنگوں کے خاتمے کے لیے کردار ادا کریں گے۔

  • امریکی انتخابات، سیکورٹی کے غیر معمولی اقدامات

    امریکی انتخابات، سیکورٹی کے غیر معمولی اقدامات

    امریکی صدارتی الیکشن میں فیصلے کی گھڑی آ گئی اورملک کے نئے صدر کے انتخاب کے لیے آج پولنگ ہوگی، ایسے میں امن و امان اور الیکشن عملے پر تشدد کے خدشات سے نمٹنے کے لیے غیرمعمولی سیکیورٹی اقدامات کئے گئے ہیں۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی انتخابات کے سلسلے میں واشنگٹن، ریاست اوریگان اور نیواڈا میں نیشنل گارڈ کو فعال کردیا گیا ہے جبکہ خطرات پر نظر رکھنے کے لیے ایف بی آئی نے کمانڈ پوسٹ قائم کردی ہے۔

    امریکا بھر میں ایک لاکھ کے قریب پولنگ اسٹیشنز پر سیکیورٹی اقدامات انتہائی سخت کئے گئے ہیں، جبکہ پولنگ عملے کے لیے خصوصی مسلح ٹیمیں تعینات ہیں۔ الیکشن عملے کی سیکیورٹی کے لیے ایک ہزار Panic Buttons منگوالیے گئے ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق امریکی انتخابات کے دوران غلط معلومات سے الیکشن عملے، ورکرز اور ان کے خاندانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    سائبر سیکیورٹی چیف کا کہنا ہے کہ بیرونی مخالفتین پہلے سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر جھوٹی افواہیں پھیلانے میں مصروف ہیں، غلط معلومات کا ایک آتش فشاں ہے۔

    واضح رہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے 47 ویں صدر کے لیے الیکشن کا میدان سج گیا ہے اور آج پولنگ ہوگی۔ دنیا کے واحد سپر پاور ملک کا درجہ حاصل ہونے کے باعث دنیا بھر کی نظریں امریکا کے صدارتی الیکشن پر لگی ہوئی ہیں۔

    ڈیموکریٹ کی جانب سے موجودہ نائب صدر کاملا ہیرس اور ری پبلیکن کی جانب سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ امیدوار ہیں۔ دونوں امیدواروں نے جم کر انتخابی مہم چلائی، ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کی اور اپنی قیادت میں امریکا کو بام عروج پر پہنچانے کے دعوے کیے۔

    کاملا اور ٹرمپ دونوں میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ تاہم امریکی ووٹرز نے کس امیدوار کے وعدوں پر یقین کیا اور کس پر اعتماد کیا یہ کل نتیجہ آنے کے بعد پتہ چل جائے گا۔

    امریکی صدارتی انتخابات: زمین کے ساتھ آج خلا میں بھی ووٹ ڈالا جائے گا!

    امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ کا سب سے پہلے آغاز پاکستانی وقت کے مطابق آج سہ پہر تین بجے ریاست ورمونٹ میں ہوگا۔ 6 مختلف ٹائم زون کے باعث پولنگ کا آغاز اور اختتام الگ الگ وقتوں پر ہوگا۔

  • امریکی انتخابات 2024: اعداد و شمار کے آئینے میں

    امریکی انتخابات 2024: اعداد و شمار کے آئینے میں

    واشنگٹن : امریکہ کے سال 2024 کے صدارتی انتخابات کو مختلف عددی پہلوؤں سے سمجھا جاسکتا ہے، جن میں سات اہم ریاستیں، الیکٹورل کالج کے ووٹ، بیلٹ پر موجود امیدوار اور لاکھوں ووٹر شامل ہیں۔

    امریکی صدارتی الیکشن میں عوام اپنے صدر کا براہ راست انتخاب نہیں کرتے بلکہ الیکٹورل کالج کو ووٹ دیتے ہیں، یہی الیکٹورل کالجیٹ صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔

    آج ہونے والے انتخابات میں متعدد آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں، جن میں رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر خصوصی طور پر میڈیا کی توجہ حاصل کررہے ہیں۔

    صدارتی انتخاب

    ان صدارتی انتخابات کو اگر مختلف اعداد کے حوالے سے دیکھا جائے تو صورت حال کچھ اس طرح سامنے آئے گی۔

    دو

    امریکا کی صدارت حاصل کرنے کا اصل مقابلہ اس بار دو مضبوط سیاسی حریفوں اور مرکزی امیدواروں ڈیموکریٹ کی کاملہ ہیرس اور ریپبلکن کے ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہے۔

    پانچ

    5نومبر امریکا میں صدارتی انتخابات کا دن ہے جس کا انعقاد روایت کے مطابق نومبر کے پہلے منگل کو کیا جاتا ہے۔

    سات

    امریکا میں مجموعی طور پر 50 ریاستیں ہیں اور ان میں سات ریاستیں ایسی ہیں جو کسی ایک جماعت کی حمایت میں واضح نہیں ہیں یعنی یہاں کسی ایک جماعت کو واضح برتری حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں “سوئنگ ریاستیں” کہا جاتا ہے۔ یہ ریاستیں انتخابی نتائج کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔

    Trump

    کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں امیدوار ایریزونا، جارجیا، مشیگن، نیواڈا، نارتھ کیرو لائنا، پنسلوانیا، اور وسکونسن میں اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے میں مصروف ہیں تاکہ فتح حاصل کی جاسکے ان ریاستوں میں معمولی فرق سے بھی جیت ہار کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔

    Electoral College

    34 اور 435

    انتخابات کے دن امریکی رائے دہندگان نہ صرف اگلے صدر کا انتخاب کریں گے بلکہ کانگریس کے ارکان کے انتخابات بھی عمل میں آئیں گے۔

    سینٹ کی چونتیس نشستیں اور ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز کی تمام 435 نشستیں بھی انتخابات کے لیے دستیاب ہوں گی۔

    ہاؤس کے ارکان دو سال کی مدت کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں اور اس وقت ریپبلکن پارٹی کے پاس اکثریت ہے، جبکہ ڈیموکریٹس اپنی طاقت بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔

    سینیٹ میں 100 میں سے 34 نشستیں 6سال کے لیے ہیں اور یہاں ریپبلکن جماعت ڈیموکریٹس سے اکثریت واپس لینے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

    538

    الیکٹورل کالج جو کہ امریکی صدارتی انتخابات کا ایک بالواسطہ نظام ہے، مجموعی طور پر 538 الیکٹرز پر مشتمل ہے۔

    Electoral works

    ہر ریاست کو الیکٹرز کی تعداد ریاست کے آبادی کے لحاظ سے ایوان نمائندگان میں موجود نشستوں اور دو سینیٹرز کی تعداد کے حساب سے دی جاتی ہے۔

    مثال کے طور پر کم آبادی والی ریاست ورمونٹ کے پاس صرف 3 الیکٹرل ووٹ ہیں جبکہ زیادہ آبادی والی ریاست کیلیفورنیا کے پاس 54 ووٹ ہیں۔ 50 ریاستوں میں مجموعی طور پر 538 الیکٹرز ہیں۔

  • امریکی انتخابات، کس امیدوار کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے؟

    امریکی انتخابات، کس امیدوار کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے؟

    امریکا کی پانسہ پلٹنے والی چند اہم ریاستوں میں امریکا کے ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن کاملا ہیرس سے بہتر ہوگئی ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ بات نیویارک ٹائمز اور Siena College کے سروے میں سامنے آئی ہے۔

    نیویارک ٹائمز اور Siena College کے سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسقاط حمل کے معاملے کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن سن بیلٹ پانسہ پلٹنے والی ریاستوں میں بہتر ہوگئی ہے۔

    سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ امریکی انتخابات میں سابق صدر ٹرمپ ایری زونا، جارجیا اور شمالی کیرولائنا میں کاملا ہیرس کے مقابلے میں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔

    شمالی کیرولائنا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت 49 فیصد اور کاملا ہیرس کی مقبولیت 47 فیصد ہے۔

    اسی طرح امریکی انتخابات کے ابتدائی مرحلے میں جارجیا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت 49 اور کاملا ہیرس کی مقبولیت 45 فیصد ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ایری زونا میں مقبولیت 50 فیصد جبکہ کاملا ہیرس کی 45 فیصد ہے۔

    دوسری جانب امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کاملا ہیرس کا کہنا ہے کہ ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو اکتوبر میں مباحثے کی تجویز قبول کرنی چاہیے۔

    اگر صدارتی الیکشن ہار گیا تو؟۔۔ ٹرمپ کا اہم اعلان

    کاملا ہیرس نے کہا کہ ہمارے درمیان ایک اور مباحثہ ہونا چاہیے، حریف مباحثے سے بچنے کے لئے بہانے ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔

  • پیوٹن نے گزشتہ امریکی انتخابات سے متعلق بڑا دعویٰ کر دیا

    پیوٹن نے گزشتہ امریکی انتخابات سے متعلق بڑا دعویٰ کر دیا

    اسکو: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے پچھلے امریکی انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے دیا۔

    روئٹرز کے مطابق منگل کو روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ امریکی انتخابات میں پوسٹل ووٹنگ کے ذریعے دھاندلی کی گئی تھی۔

    روسی صدر نے دعویٰ کیا کہ امریکا میں بیلٹ پیپرز 10 ڈالرز کے عوض خریدے گئے، انھوں نے کہا ’’پچھلے امریکی انتخابات میں پوسٹل ووٹنگ کے ذریعے جعل سازی کی گئی، انھوں نے دس ڈالر میں بیلٹ خریدے، انھیں بھرا، اور مبصرین کی نگرانی کے بغیر میل باکس میں ڈال دیے، اور بس۔‘‘

    روئٹرز نے اپنی رپورٹ میں پیوٹن کے مخالفین کے حوالے سے خود روسی انتخابات پر بھی سوال اٹھایا ہے، لکھا کہ پیوٹن کے مخالفین کا کہنا ہے کہ روس میں مارچ میں ہونے والے انتخابات کوئی حقیقی انتخابات نہیں ہیں، کیوں کہ صدر پیوٹن کا کوئی حریف میدان میں نہیں ہے، اور اہم حریف الیکسی ناوالنی 30 سال سے زیادہ جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں، جب کہ ناوالنی کے مطابق ان پر لگے الزامات جھوٹے ہیں۔

    یوکرین کی جنگ انتہائی مشکل ہوچکی ہے، نیٹو سربراہ کا اعتراف

    مخالفین کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ کے استعمال سے حکام آسانی کے ساتھ صدر پیوٹن کے حق میں ووٹ میں ہیرا پھیری کر سکتے ہیں، اور اس کی چھان بین بھی نہیں کی جا سکے گی۔

  • قریبی ساتھی نے بھی ٹرمپ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا

    قریبی ساتھی نے بھی ٹرمپ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا

    واشنگٹن: ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، اٹارنی جنرل ولیم بار نے کہا ہے کہ صدارتی انتخابات میں بڑے پیمانے پر فراڈ کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔

    تفصیلات کے مطابق اٹارنی جنرل ولیم بار نے ایک بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوؤں کے برعکس کہا ہے کہ صدارتی انتخابات 2020 میں دھاندلی کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔

    اٹارنی جنرل ولیم بار نے کہا کہ ایسے کوئی ثبوت نہیں جن کی بنیاد پر انتخابات کے نتائج کو تبدیل کیا جا سکے، ان کا کہنا تھا کہ اب تک ایسے ثبوت نہیں ملے جو نتائج پر اثر انداز ہو سکیں، محکمہ انصاف اور ہوم لینڈ کی تحقیقات میں دھاندلی کے شواہد نہیں ملے۔

    ولیم نے کہا اطلاعات تھیں کہ دھاندلی ہوئی ہے، اور مشینز خراب کی گئیں، مگر ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ واضح رہے کہ اٹارنی جنرل ولیم بار صدر ٹرمپ کے قریبی اور با اعتماد ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔

    وفاقی عدالت نے ٹرمپ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا

    یاد رہے کہ چند دن قبل صدر ٹرمپ کی قانونی ٹیم کو ایک اور بڑا دھچکا پہنچا تھا جب ریاست پنسلوانیا میں انتخابات کے نتائج کے خلاف صدر ٹرمپ کی اپیل مسترد کر دی گئی، فلا ڈیلفیاکی فیڈرل کورٹ نے ٹرمپ کے وکلا کی اپیل مسترد کرے ہوئے کہا کہ دھاندلی کے الزامات کے شواہد ہونا ضروری ہیں، وکلا نہیں ووٹرز صدر کا انتخاب کرتے ہیں، انتخابی نتائج کو دوباہ جانچنا بے کار ہے۔

    اس پر صدر ٹرمپ کے وکلا نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

  • امریکی انتخابات کوئی بھی جیتے پاکستان کو فرق نہیں پڑتا، اسد مجید خان

    امریکی انتخابات کوئی بھی جیتے پاکستان کو فرق نہیں پڑتا، اسد مجید خان

    واشنگٹن: امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید خان کا کہنا ہے کہ امریکی انتخابات کوئی بھی جیتے پاکستان کو فرق نہیں پڑتا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران پاک امریکا تعلقات، افغانستان کی صورتحال پرگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔

    اسد مجید خان نے کہا کہ مائیک پومپیو نے افغانستان میں امن کوششوں پر پاکستان کو سراہا۔پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے خیالات میں ہم آہنگی ہے۔

    انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتخابات کوئی بھی جیتے پاکستان کو فرق نہیں پڑتا،امریکا کی مقامی سیاست پاکستان پر اثر انداز نہیں ہوگی۔

    واضح رہے کہ تین نومبر کو امریکی ووٹرز اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کو مزید 4 سال کے لیے وائٹ ہاؤس میں رہنا چاہیے یا نہیں۔

    ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ٹرمپ کو ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی جانب سے چیلنج ہے، جو بائیڈن اگرچہ 1970 کی دہائی سے امریکی سیاست کا حصہ ہیں مگر ان کی بڑی وجہ شہرت براک اوباما کا نائب صدر ہونا ہے۔

  • انتخابات میں روسی مداخلت کا معاملہ، ٹرمپ کے مواخذے کا مطالبہ سامنے آگیا

    انتخابات میں روسی مداخلت کا معاملہ، ٹرمپ کے مواخذے کا مطالبہ سامنے آگیا

    واشنگٹن: امریکا میں صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق رپورٹ سامنے آنے کے بعد ڈیموکریٹس نے صدر ٹرمپ کے مواخذے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی سپیشل قونصل رابرٹ ملر کے پہلی بار عام ریمارکس کے بعد امریکی کانگریس میں تین سرکردہ ڈیموکریٹس پارٹی کے ارکان نے صدر ٹرمپ کے مواخذے کا مطالبہ کیا ہے۔

    صدر ٹرمپ کے دعوے کے برعکس بدھ کے روز رابرٹ ملر نے کہا تھا کہ ان کی تحقیقات کے مطابق صدر ٹرمپ انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام سے بری نہیں ہوئے۔

    رابرٹ ملر کو دو ہزار سولہ کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا، مواخذے کے معاملے نے ڈیموکریٹک پارٹی کو منقسم کر دیا ہے اور ایوان نمائندگان میں سپیکر نینسی پلوسی کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    مگر اب رابرٹ ملر کے ریمارکس کے بعد صدارتی نامزدگی کے خواہشمند تین مزید ڈیموکریٹکس نے صدر ٹرمپ کے مواخذے کا مطالبہ کیا ہے۔

    اس طرح ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے نامزدگی کے خواہشمند تئیس امیدواروں میں سے مواخذے کا مطالبہ کرنے والوں کی تعداد دس ہوگئی ہے۔

    ان تین ڈیموکریٹک امیدواروں میں کوری بکر، کرسٹِن گِلیِبرانڈ اور پیٹی بیٹیگائگ شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مواخذے کی کارروائی فوری طور پر شروع ہو جانی چاہیئے۔

    انتخابات میں روسی مداخلت کا معاملہ، ٹرمپ نے رپورٹ ایک بار پھر مسترد کردی

    یاد رہے کہ گذشتہ ماہ امریکا میں صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق میولر رپورٹ سامنے آئی تھی، جس میں روس کا امریکی انتخابات میں مداخلت کا انکشاف ہوا تھا، تاہم صدر ٹرمپ نے رپورٹ مسترد کردی تھی۔

  • امریکی پارلیمانی انتخابات میں بھی روس مداخلت کرسکتا ہے: انٹیلی جنس

    امریکی پارلیمانی انتخابات میں بھی روس مداخلت کرسکتا ہے: انٹیلی جنس

    واشنگٹن: امریکی انٹیلی جنس نے امریکا میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بھی روسی مداخلت کا عندیہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں 2016 میں صدارتی انتخابات ہوئے تھے جس میں روس کی مداخلت کرنے کے شواہد سامنے آئے تھے تاہم اب 2018 کے امریکی پارلیمانی انتخابات میں بھی روسی مداخلت کا خطرہ ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا کے انٹیلی جنس ڈائریکٹر ’ڈین کوٹس‘ نے روس پر امریکی پارلیمانی انتخابات اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے ماسکو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ انتخابات میں چند ماہ ہی باقی ہیں جبکہ روس مداخلت کے لیے اپنی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے، جس کا مقصد انتخابی سرگرمیوں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونا ہے۔

    ڈین کوٹس کا کہنا تھا کہ اب ہم بھی وسیع پیمانے پر اقدامات کر رہے ہیں، اور روس کو کسی صورت اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ان کی سازشوں پر نظر رکھی جارہی ہے۔


    ٹرمپ کا امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے معاملے پر تحقیقات روکنے کا مطالبہ


    ان کا مزید کہنا تھا کہ روس جیسے ہمارے حریف ممالک نہ صرف انتخابی عمل میں مداخلت کرتے ہیں بلکہ وہ امریکا کو تقسیم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

    یاد رہے کہ نومبر 2016 میں ہونے والے صدارتی انتخاب سے قبل ماہ اکتوبر میں امریکی حکومت نے روس پر ڈیموکریٹک پارٹی پر سائبر حملوں کا الزام عائد کیا تھا۔

    واضح رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما بھی اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت کرنے پر روس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

  • امریکی انتخابات میں روسی مداخلت، مائیکل فلن  کا عدالت میں اعترافِ جرم

    امریکی انتخابات میں روسی مداخلت، مائیکل فلن کا عدالت میں اعترافِ جرم

    واشنگٹن : ٹرمپ انتظامیہ کے سابق قومی سیکیورٹی ایڈوائزر مائیکل فلِن نے اعتراف کر لیا ہے کہ انہوں نے امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کے حوالے سے ایف بی آئی اہلکاروں سے جھوٹ بولا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن واشنگٹن کی عدالت میں پیش ہوئے، ٹرمپ انتظامیہ کے سابق قومی سیکیورٹی ایڈوائزر مائیکل فلِن نے اعتراف جرم کیا کہ جنوری میں ایف بی آئی کے تحقیقات کاروں سے روسی سفیر سے ملاقات پر غلط بیانی کی۔

    مائیکل فلن نے امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کے حوالے سے ایف بی آئی اہلکاروں سے جھوٹ بولا تھا۔

    مائیکل فلن کا کہنا ہے کہ روسی حکام سے رابطوں کی ہدایت ٹرمپ نے صدارت سنبھالنے سے پہلے دی تھی اور اس کا مقصد شام میں داعش کے خلاف لڑائی میں مل کر کام کی کوشش کرنا تھا۔


    مزید پڑھیں : امریکی انتخاب میں روسی مداخلت، ٹرمپ کی انتخابی مہم کے انچارج سمیت3افراد پرفردجرم عائد


    جھوٹ بولنے پر ٹرمپ انتظامیہ کےسابق قومی سیکیورٹی ایڈوائزرپر فرد جرم عائد کردی گئی جبکہ جھوٹ بولنے کے اعتراف پر فلن کو 5برس تک قید کی سزا ہوسکتی ہے ۔

    اس سے قبل امریکی صدارتی انتخاب میں روسی مداخلت صدرٹرمپ کی انتخابی مہم کے سابق انچارج پال مینافرٹ سمیت تین افراد پرفردجرم عائد کی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس 29 دسمبر کو ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے سے قبل سابق فوجی جنرل فلن اور روسی سفیر کے مابین ملاقات ہوئی، ٹرمپ ٹاور میں ہونے والی ملاقات میں امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر بھی موجود تھے۔


    مزید پڑھیں : ڈونلڈ ٹرمپ کےقومی سلامتی کےمشیرعہدے سےدستبردار


    خیال رہے کہ مائیکل فلن کو عہدے پر تعیناتی کے ایک ماہ بعد فروری میں برطرف کردیا گیا تھا۔

    امریکی سینیٹ اور کانگریس نے بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی مائیکل فلن کے روس سے تعلقات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

    امریکی سینیٹ اور کانگریس نے مائیکل فلن پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے امریکی پابندیوں کے بارے میں روسی حکام سے بات چیت کی۔

    یاد رہے کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب سے قبل ماہ اکتوبر میں امریکی حکومت نے روس پر ڈیموکریٹک پارٹی پر سائبر حملوں کا الزام عائد کیا تھا۔

    مریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے جنوری میں کہا تھا کہ روس نے صدرڈونلڈ ٹرمپ کوانتخاب میں کامیابی دلانے کے لئے صدارتی انتخاب میں مداخلت کی، روس نے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوارہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم ہیک کی اوران کی ای میلز جاری کیں تاکہ ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کونقصان پہنچایا جا سکے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔