Tag: usiran

  • ايران سے لاحق خطرہ فی الحال ٹل گيا ہے: امریکا

    ايران سے لاحق خطرہ فی الحال ٹل گيا ہے: امریکا

    لندن: امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ ایران سے لاحق خطرہ اگرچہ ختم نہیں ہوا، مگر فی الحال ٹل گیا ہے.

    ان خیالات کا اظہار امريکا کی قومی سلامتی کے مشير جان بولٹن نے اپنے ایک بیان میں کیا.

    ان کا کہنا تھا کہ ايران سے لاحق خطرہ ابھی پوری طرح ختم نہيں ہوا ، ایسا کہنا قبل از وقت ہوگا، البتہ واشنگٹن کے فوری اقدامات کی وجہ سے يہ خطرہ بہ ہرحال ٹل ضرور گيا ہے۔

    امريکا کی قومی سلامتی کے مشير نے يہ بيان برطانوی دارالحکومت لندن ميں میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے دیا.

    بولٹن نے امريکی صدر کے حاليہ بيان کا‌ حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امريکا ايران ميں اقتدار کی تبديلی کی پاليسی پر عمل پيرا نہيں۔

    مزید پڑھیں: سعودی تیل بردار بحری جہازوں پر حملے میں ایران ملوث ہے: امریکا کا دعویٰ

    البتہ انھوں نے سب کچھ صیح ہونے کے تاثر کو رد کرتے ہوئے محتاط انداز میں‌ کہا کہ اسی ماہ سعودی تنصيبات پر حملوں ميں ايران ملوث ہو سکتا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران ایران اور امریکا میں‌ اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے اور یہ خیال کیا جارہا تھا کہ امریکا ایران پر حملہ کرسکتا ہے.

    اسی ضمن میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔

  • حزب اللہ نے عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکرکو قتل کی تحریری دھمکی دے دی

    حزب اللہ نے عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکرکو قتل کی تحریری دھمکی دے دی

    بغداد:عراقی حزب اللہ ملیشیا کے عناصر کی جانب سے چند روز قبل عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد الحلبوسی کو قتل کی دھمکی دی گئی ہے۔ دھمکی کا سبب امریکی ایرانی تنازع کے حوالے سے الحلبوسی کا موقف ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق مذکورہ عناصر کی جانب سے بھیجے گئے دھمکی آمیز خط پر عراقی حزب اللہ کا لوگو اور مہر موجود تھی۔الحلبوسی کے سکریٹری کی گاڑی کو دارالحکومت بغداد کی ایک سڑک پر روکا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ وہ یہ خط ذاتی طور پر عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے حوالے کرے۔

    گاڑی روکنے والا شخص ابو حیدر کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہ عراقی حزب اللہ ملیشیا کی قیادت میں شامل ہے۔اس سے قبل عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر یہ باور کرا چکے ہیں کہ ان کا ملک ایک بار پھر امریکا اور ایران کے درمیان بحران کے حل کے لیے ثالثی بننے کے لیے تیار ہے۔

    الحلبوسی نے واضح کیا کہ بغداد اپنے طور پر واشنگٹن اور تہران کے درمیان وساطت کار کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے مگر فریقین میں سے کسی نے سرکاری طور پر اس کا مطالبہ نہیں کیا۔

    یا درہے کہ دو روز قبل ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف سرکاری دورے پر عراق پہنچے تھے ، اس دوران دیگر اعلٰی عہدیداروں کے علاوہ عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی سے بھی ملاقات کی۔

    عراق کے سرکاری عہدیداروں سے ملاقات کے موقع پر امریکا کے ساتھ تنازعے کے خطے پر پڑنے والے اثرات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عراق امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تصور کیا جاتا ہے، علاوہ ازیں عراق میں دہشت گردی کے خاتمے بالخصوص داعش کے خاتمے کے لیے امریکی فوج عراقی سرزمین پر موجود ہے۔

  • امریکا سے مذاکرات نہیں کریں گے، آیت اللہ خامنہ ای کا دوٹوک جواب

    امریکا سے مذاکرات نہیں کریں گے، آیت اللہ خامنہ ای کا دوٹوک جواب

    تہران : آیت اللہ خامنہ ای نے ایران امریکا تناؤ سے متعلق کہا ہے کہ امریکا سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں تاہم یورپی اور دیگر ممالک سے مذاکرات میں کوئی مسئلہ نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سیّد علی خامنہ ای نے دوٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ ایران امریکا کے ساتھ کسی قسم کے کوئی مذاکرات نہیں کرے گا۔

    ایران کے سپریم لیڈر نے اپنے پیغام میں کہا کہ امریکا سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، یہ نقصان دہ ہوں گے، تاہم ایران کو یورپی اور دیگر ممالک سے مذاکرات میں کوئی مسئلہ نہیں۔

    آیت اللہ خامنہ ای نے یہ بھی واضح کیا کہ یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات میں بھی انقلاب کے مرکزی پہلوﺅں پر بات نہیں کی جائے گی کیونکہ انقلاب کے پہلووں پر مذاکرات کا مطلب دفاعی صلاحیتوں سے دستبرداری ہے اور ایران اپنی فوجی صلاحیتوں پر مذاکرات نہیں کرے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس سے پہلے ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ امریکا پابندیاں اٹھالے اور دباﺅ نہ ڈالے تو بات ہوسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں : جنگ ہوگی نہیں اور مذاکرات ہم نہیں کریں گے، سپریم لیڈر سیّد علی خامنہ ای

    اس سے قبل  ایرانی سپریم لیڈر سیّد علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان آمنا سامنا کسی فوجی مڈ بھیڑ کے بجائے دراصل عزم کا امتحان ہے۔

     سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کا ملک کے اعلیٰ افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تناؤ کے باوجود تہران اور واشنگٹن کے درمیان جنگ نہیں ہو گی اور مذاکرات ہم نہیں کریں گے

  • سعودی تیل بردار بحری جہازوں پر حملے میں ایران ملوث ہے: امریکا کا دعویٰ

    سعودی تیل بردار بحری جہازوں پر حملے میں ایران ملوث ہے: امریکا کا دعویٰ

    ابوظہبی: امریکا کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی تیل بردار بحری جہازوں پر حملے میں ایران ملوث ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے مشیر قومی سلامتی کا کہنا ہے کہ اس بات میں تقریباً کوئی شک نہیں رہا کہ امریکا کو تیل فراہمی پر مامور سعودی بحری جہازوں پر حملے میں ایران ملوث ہے، خلیج عمان میں سعودی تیل بردار بحری جہازوں پر نامعلوم سمت سے حملے کی تحقیقات کے لیے 5 ممالک کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں امریکا بھی شامل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اسی سلسلے میں وہ متحدہ عرب امارات کے سرکاری دورے پر ہیں جہاں وہ امیر ابوظہبی سمیت اہم حکام سے ملاقات کریں گے۔ امریکا کے مشیر قومی سلامتی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قابل اعتماد ساتھی جان بولٹن نے ابوظہبی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خلیج عمان میں سعودی عرب کے تیل بردار بحری جہازوں کو ایران کی بحری آبدوزوں نے نشانہ بنایا۔

    مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے مزید کہا کہ تیل بردار سعودی بحری جہازوں پر حملہ آور ملک کے حوالے سے امریکا میں کسی کے زہن میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کیا آپ لوگوں میں سے کوئی ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ یہ حملہ نیپال نے کیا ہو؟ اور اس کا جواب ہوگا ہرگز نہیں۔

    انہوں نے کہاکہ خلیج عمان میں سعودی تیل بردار بحری جہازوں پر نامعلوم سمت سے حملے کی تحقیقات کے لیے 5 ممالک کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں امریکا بھی شامل ہے اور اسی سلسلے میں وہ متحدہ عرب امارات کے سرکاری دورے پر ہیں جہاں وہ امیر ابوظہبی سمیت اہم حکام سے ملاقات کریں گے۔

    امریکا نے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے 12 شرائط عائد کر دیں

    واضح رہے کہ ایران کے جوہری توانائی معاہدے کی بعض شقوں سے دستبردار ہونے اور خلیجی ممالک سے تیل کی سپلائی روکنے کی دھمکی دینے کے بعد 12 مئی کو خلیج عمان میں 4 تیل بردار بحری جہازوں پر حملہ کیا گیا تھا جن میں سے دو سعودی جہاز تھے تاہم ایران نے اس حملے میں ملوث ہونے کے الزام کو مضحکہ خیز قرار دیا تھا۔

  • امریکا نے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے 12 شرائط عائد کر دیں

    امریکا نے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے 12 شرائط عائد کر دیں

    واشنگٹن : امریکی حکام نے ایران کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ٹھوس معلومات موجود ہیں کہ ایران کسی بھی وقت امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن، ایران کے ساتھ مشروط طور پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ وزارت خارجہ کے مطابق مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تہران کو امریکا کی 12 شرائط پوری کرنا ہوں گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اگر ایران ان شرائط پر عمل درآمد میں؟ سنجیدہ ہے تو تہران کے ساتھ بات چیت کی جا سکتی ہے۔

    امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ واشنگٹن، تہران پر دباﺅ بڑھانے کی حکمت عملی اور مہم جاری رکھے گا۔

    خیال رہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ طے پائے جوہری سمجھوتے سے علاحدگی کے اعلان کے بعد تہران کے ساتھ بات چیت کے لیے 12 شرائط عاید کی تھیں۔

    امریکا کی جانب سے عائد کردہ شرایط درج ذیل ہیں۔

    پہلی شرط جوہری اسلحہ کی تیاری روکنا، دوسری شرط عالمی معائنہ کاروں کو جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینا، تیسری جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت والے میزائلوں کی تیاری بند کرنا، چوتھی جوہری ہتھیار تیاری کی سابقہ کوششوں کو سامنے لانا۔

    امریکا نے پانچویں شرط یہ عائد کی کہ دہشت گرد تنظیموں بالخصوص حزب اللہ، حماس اور اسلامی جہاد کی مدد بند کرنا، چھ یمن میں شیعہ مذہب کے حوثی باغیوں کی مدد ترک کرنا، سات شام میں موجود اپنی فوج واپس بلانا۔

    آٹھویں شرط یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کی مدد بند کرنا، نویں القاعدہ کے رہنماؤں کی میزبانی ختم کرنا، دسویں شرط پڑوسی ملکوں کے لیے خطرہ نہ بننے کی ضمانت دینا، گیارویں ایران میں موجود تمام امریکیوں کو رہا کرنا، جبکہ بارویں شرط سائبر حملے بند کرنا۔

    خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے خطے میں موجود امریکی مفادات کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو اسے مہلک حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دھمکی اس وقت دی جب امریکا نے خطے میں ایران کی طرف سے کسی بھی جارحیت کے پیش نظر اپنی فوج اور جنگی ہتھیار تعینات کیے ہیں۔

    امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس بات کی ٹھوس معلومات موجود ہیں کہ ایران کسی بھی وقت امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

  • ٹرمپ نے مزید فوج مشرق وسطیٰ بھیجنے کی منظوری دے دی

    ٹرمپ نے مزید فوج مشرق وسطیٰ بھیجنے کی منظوری دے دی

    واشنگٹن : جنگ کی تیاریوں کے تناظر میں ایران کی طرف سے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں بھی سامنے آئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد واشنگٹن نے اپنی فوج مشرق اوسط ارسال کی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق اوسط میں اضافی فوج کی تعیناتی کی بھی منظوری دی ہے۔

    دوسری جانب جنگ کی تیاریوں کے تناظر میں ایران کی طرف سے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں بھی سامنے آئی ہیں۔ ایران نے امریکا کے ساتھ جنگ بندی کے لیے ثالثوں کے ذریعے کوششیں شروع کی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے خطرے کے پیش نظر خطے کے ممالک بھی حرکت میں آئے ہیں۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق اس وقت عراق، سلطنت آف اومان، قطر، ایشیائی ممالک میںجاپان نے امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کم کرنے لیے لیے ثالثی کی کوششیں شروع کی ہیں مگر دونوںملکوں کے درمیان مذاکرات کی راہ میں امریکا کہ وہ 12 شرائط حائل ہیں جن کا اعلان ٹرمپ انتظامیہ کئی ماہ قبل کر چکی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھاکہ امریکا نے ان شرائط کے ذریعے ایران کو مذاکرات کی طرف لانے کی کوشش کی تھی مگر تہران کے غیر لچک دار رویے کے باعث واشنگٹن کو جوہری سمجھوتے سے علاحدگی اور ایران پر پہلے والی پابندیوں کی بحالی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ایرانی قیادت بھی سفارتی کوششیں کر رہی ہے۔

    صدر حسن روحانی اور ان کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف خطے میں؟ جنگ کا خطرہ ٹالنے کے لیے مزید وقت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی برادری اور امریکا کی طرف سے ایران پر دباﺅ میں کمی لانے کی سفارتی کوشش کے باوجود ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے خطے میں جارحانہ کارروائیوں کی دھمکیاں جاری ہیں۔

    پاسداران انقلاب خطے میں موجود اپنی حامی ملیشیاﺅں کو متحرک کرنے اور انہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے منظم کر رہا ہے۔

  • ایران امریکا کشیدگی، عمان ثالث کا کردار ادا کرے گا

    ایران امریکا کشیدگی، عمان ثالث کا کردار ادا کرے گا

    تہران : ایرانی حکومت اور دوسرے اداروں کے درمیان مذاکرات کی نوعیت پر اختلافات مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اگرچہ ایرانی وزارت خارجہ نے امریکا کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ مذاکرات کی تردید کی ہے مگر حالیہ سرگرمیاں ایرانی دعوے کی نفی کرتی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ یہ کوششیں اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ ایران، امریکیوں کے ساتھ بات چیت کے لیے حالات سازگار بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاہم اب تک مذاکرات میں اگر کوئی چیز رکاوٹ رہی ہے تو وہ ایرانی حکومت اور دوسرے اداروں کے درمیان مذاکرات کی نوعیت پر اختلافات ہیں۔

    ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقجی نے سلطنت آف عمان کے دورے کے دوران ان خبروں کی سختی سے تردید کی جن میں کہا گیا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔

    ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے بھی تہران میں سوموار کے روز ایک بیان میں کویتی نائب وزیر خارجہ خالد الجاراللہ کے اس دعوے کی تردید کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان پس چلمن مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔

    عباس موسوی کا کہنا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو رہے ہیں۔ خبر رساں اداروں نے کویتی عہدیدار کے نام منسوب ایک بیان میں کہا تھا کہ 20 مئی کو عمانی وزیر خارجہ کے دورہ ایران سے تہران اور واشنگٹن کے درمیان مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔

    خیال رہے کہ سلطنت آف عمان نے سنہ 2013ء میں امریکا اور ایران کے درمیان تہران کے متنازع جوہری پروگرام پر مذاکرات شروع کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان ہی کی کوششوں کے نتیجے میں ایران اور چھ عالمی طاقتیں 2015ء کو ایک معاہدے پر متفق ہوئی تھیں۔

    عمانی وزیر خارجہ کے دورہ ایران کے چند روز بعد ایرانی نائب وزیر خارجہ مسقط پہنچے، گذشتہ جمعرات کو امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان مورگان اورٹیگاس نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ امریکا نے ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکراتی کوششیں شروع کی ہیں۔

    مزید پڑھیں : ایران امریکا کشیدگی، سیّد حسن اللہ کی امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی

    تاہم دوسری جانب عراق کے وزیر خارجہ محمد عبدالحکیم نے اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ بغداد امریکا اور ایران کے درمیان ثالثی کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے تاہم انہوں نے دونوں حریف ملکوں کے درمیان ہونے والی کسی قسم کی بات چیت کی تفصیل بیان نہیں کی۔

  • ایرانی وزیرخارجہ کا دورہ عراق، عدم جارحیت کے علاقائی معاہدے کی تجویز

    ایرانی وزیرخارجہ کا دورہ عراق، عدم جارحیت کے علاقائی معاہدے کی تجویز

    تہران: ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے دورہ عراق کے موقع پر عدم جارحیت کے علاقائی معاہدے کی تجویز پیش کی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا اور ایران کے درمیان شدید کشیدگی ہے، جبکہ ایرانی وزیرخارجہ ایسے موقع پر عراق پہنچے جہاں انہوں نے تنازعہ پر عراقی حکمران سے تبادلہ خیال کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ نے عراقی حکام کے ساتھ اپنی حالیہ تعمیری ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے عراق میں عدم جارحیت کے علاقائی معاہدے کی تجویز دی ہے۔

    محمد جواد ظریف نے جو عراق کے دورے پر ہیں ایک ٹوئیٹ میں عراق کے وزیراعظم، صدر مملکت، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور وزیر خارجہ کے ساتھ اپنی تعمیری ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عراق کے دورے پر عدم جارحیت کے علاقائی معاہدے کی تجویز دی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عراق امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تصور کیا جاتا ہے، علاوہ ازیں عراق میں دہشت گردی کے خاتمے بالخصوص داعش کے خاتمے کے لیے امریکی فوج عراقی سرزمین پر موجود ہے۔

    ایرانی وزیرخارجہ ایک ایسے موقع پر عراق پہنچے، جب صرف دو روز پہلے ہی امریکا نے مشرق وسطیٰ میں تعینات اپنی افواج کی تعداد میں اضافے کا اعلان کر دیا تھا۔

    امریکا سے شدید تنازعہ، ایرانی وزیرخارجہ عراق پہنچ گئے

    قبل ازیں ایرانی وزیر خارجہ نے امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایران نے حسن سلوک پر مبنی اقدامات اٹھائے لیکن اب ہم وعدہ نہ نبھانے والوں سے مذاکرات نہیں کریں گے‘۔

  • امریکا سے شدید تنازعہ، ایرانی وزیرخارجہ عراق پہنچ گئے

    امریکا سے شدید تنازعہ، ایرانی وزیرخارجہ عراق پہنچ گئے

    بغداد: امریکا اور ایران کے درمیان شدید تناؤ تاحال برقرار ہے، جبکہ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف عراق پہنچ گئے جہاں وہ کشیدگی سے متعلق تبادلہ خیال کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف سرکاری دورے پر عراق پہنچے ہیں، اس دوران دیگر اعلٰی عہدیداروں کے علاوہ عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی سے بھی ملیں گے۔

    عراق کے سرکاری عہدیداروں سے ملاقات کے موقع پر امریکا کے ساتھ تنازعے کے خطے پر پڑنے والے اثرات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عراق امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تصور کیا جاتا ہے، علاوہ ازیں عراق میں دہشت گردی کے خاتمے بالخصوص داعش کے خاتمے کے لیے امریکی فوج عراقی سرزمین پر موجود ہے۔

    ایرانی وزیرخارجہ ایک ایسے موقع پر عراق پہنچے ہیں، جب صرف دو روز پہلے ہی امریکا نے مشرق وسطیٰ میں تعینات اپنی افواج کی تعداد میں اضافے کا اعلان کر دیا تھا۔

    قبل ازیں ایرانی وزیر خارجہ نے امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایران نے حسن سلوک پر مبنی اقدامات اٹھائے لیکن اب ہم وعدہ نہ نبھانے والوں سے مذاکرات نہیں کریں گے‘۔

    ایران امریکا تنازعہ، جاپان کا مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے ہر ممکن کوششوں کا عزم

    دوسری جانب اقوام متحدہ میں تعینات ایران کے مستقل مندوب کا گذشتہ روز کہنا تھا کہ امریکا نے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہو کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 اور دوسرے عالمی قوانین کو پاوں تلے روند دیا ہے۔

  • امریکی فوج کی موجودگی امن کے لیے خطرہ ہے، ایران

    امریکی فوج کی موجودگی امن کے لیے خطرہ ہے، ایران

    تہران : ایرانی وزیر خارجہ نے امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ایران نے حسن سلوک پر مبنی اقدامات اٹھائے لیکن اب ہم وعدہ نہ نبھانے والوں سے مذاکرات نہیں کریں گے‘۔

    تفصیلات کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ امریکہ کا اپنی فوج مشرقی وسطیٰ میں منتقل کرنا بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے، امریکہ نے خطرناک کھیل کا آغاز کر دیا ہے۔

    جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ایران نے حُسن سلوک پر مبنی اقدامات اٹھائے لیکن اب ہم وعدہ نہ نبھانے والوں سے مذاکرات نہیں کریں گے اور نہ ہی ایرانی عوام جھکیں گے جبکہ تعلقات کا سلسلہ جاری رکھنے کا ذریعہ دھمکی دینا نہیں بلکہ دوسروں کا احترام کرنا ہوتا ہے۔

    ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے غیر ملکی میڈیا کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے خطے میں بڑھتی ہوئی امریکی موجودگی انتہائی خطرناک ہے جبکہ امن اور سلامتی کے پیش نظر اسے حل کرنا چاہیے۔

    جواد ظریف نے کہا کہ جب تک امریکا جوہری معاہدے سے متعلق اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل کرنے کے ذریعے ایران کا احترام نہ کرے تب تک ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے مذاکرات نہیں کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ امریکا نے علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کو تقویت دینے کے ذریعے ایک خطرناک کھیل کا آغاز کر دیا ہے جبکہ امریکا کی جانب سے خلیج فارس میں طیارے بردار بحری بیڑے اور بمبار طیارے تعینات کرنا انتہائی خطرناک ہے۔

    ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس چھوٹے علاقے میں ان تمام فوجی ساز و سامان کو تعینات کرنا خود حادثے کا باعث بن سکتا ہے جبکہ ایران کبھی بھی دباؤ کے ذریعے مذاکرات کو نہیں مانے گا۔

    انہوں نے کہا کہ ایران سے حسن سلوک پر مبنی اقدامات اٹھائے لیکن اب ہم وعدہ نہ نبھانے والوں سے مذاکرات نہیں کریں گے اور نہ ہی ایرانی عوام جھکیں گے جبکہ تعلقات کا سلسلہ جاری رکھنے کا ذریعہ دھمکی دینا نہیں بلکہ دوسروں کا احترام کرنا ہوتا ہے۔