Tag: usiran

  • سعودی عرب کا ایران کے خلاف سیکورٹی کونسل کے نام خط

    سعودی عرب کا ایران کے خلاف سیکورٹی کونسل کے نام خط

    ریاض: سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں خطے کے اندر ایرانی سرگرمیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عالمی ادارے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تہران کے تباہ کن رویے کو لگام دے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارے کے نام لکھے خط میںسعودی عرب نے ایران کی غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے خطے کی صورتحال انتہائی خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔

    خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ایران خطے میں اپنی پراکیسز کو مسلسل مدد وتعاون فراہم کر رہا ہے جس سے دونوں ملکوں کی سلامتی، استحکام اور عالمی منڈیوں کو تیل کی ترسیل کو گزند پہنچنے کا اندیشہ ہے۔سعودی عرب نے سیکیورٹی کونسل اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایران سے متعلق ٹھوس موقف اپنائیں۔

    خط میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جنگ روکنے کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں جائیں۔سعودی عرب، ایران پر الزام عاید کرتا ہے کہ وہ حوثی ملیشیا کی مدد کر کے یمن سمیت متعدد عرب ملکوں کے استحکام کو گزند پہنچا رہا ہے۔

    ان باغیوں کو بیلسٹک میزائل اور ڈرون طیاروں جیسے آلات حرب دیئے جا رہے ہیں جنہیں وہ سعودی عرب کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔یاد رہے دو روز قبل بھی سعودی عرب کی ائر ڈیفنس یونٹس نے حوثیوں کے ذریعے آپریٹ کیا جانے والا بغیر پائلٹ ڈرون طیارہ نجران میں مار گرایا تھا۔

  • ایران نے ایس 300 میزائل خلیجِ فارس میں منتقل کردیے

    ایران نے ایس 300 میزائل خلیجِ فارس میں منتقل کردیے

    تہران: ایران نےخلیجِ عربی میں امریکی جنگی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے ایس 300 میزائل ، خلیج فارس کے کنارے پر منتقل کردیے ، یہ علاقہ خاص دفاعی نوعیت کا حامل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر ایران کے قابلِ ذکر حلقوں کی جانب سے پوسٹ کیے جانے والے وڈیو کلپ میں ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے فضائی دفاعی میزائل سسٹم ایس-300 کی بیٹریز کو خلیج فارس کے کنارے واقع علاقوں میں منتقل کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

    وڈیو کلپس میں میزائل اور فوجی ساز و سامان سے بھرے عسکری ٹرک بوشہر صوبے کے علاقے عسلویہ جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ علاقہ ایران کے جنوب میں خلیج فارس کے مقابل واقع ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایرانی فضائیہ کے سربراہ عزیز نصیر زادہ نے پیرکے روز دھمکی دی کہ امریکا کی جانب سے دھمکائے جانے کے جواب میں خطے کے ممالک کے دارالحکومتوں پر بمباری کی جائے گی اورخلیج فارس میں تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا۔ کہا جارہا ہے کہ ایران کی اس مشق سے امریکا اور کئی خلیجی ریاستیں تحفظات کا شکار ہو گئی ہیں۔ اس عمل سے خطے میں جاری کشیدگی کو مزید ہوا ملے گی۔

    نصیر زادہ نے بوشہر، بندر عباس اوراصفہان میں فضائی اڈوں کے دورے کے دوران ایرانی ہوابازوں پرزور دیا کہ وہ اپنی اس قیادت کی پیروی کریں جنہوں نے عراق کے ساتھ جنگ میں اپنی جانیں قربان کردیں اور اس دوران غیر وابستہ تحریک کے سربراہ اجلاس سے قبل عراقی دارالحکومت بغداد پر کاری ضرب لگائی۔

    دوسری جانب ایرانی عہدے داران حالیہ حملوں میں براہ راست ملوث ہونے کی تردید کر رہے ہیں۔ ان حملوں میں حوثی ملیشیا کی جانب سے امارات کے علاقائی پانی میں تیل کے ٹینکروں کو نشانہ بنائے جانے اور تیل کی سعودی تنصیبات پر حملہ کیے جانے کے علاوہ بغداد میں امریکی سفارت خانے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

    ایرانی پاسداران انقلاب کے نائب سربراہ علی فدوی کا کہنا ہے کہ پاسداران اپنی کارروائیوں کو موجودہ سطح سے زیادہ بڑھا سکتی ہے۔

    دوسری جانب امریکی طیارہ بردار جنگی جہاز ابراہم لنکن نے پیر کے روزسے بحیر ہ عرب میں مشقوں کا آغاز کر دیا ہے ۔ کچھ دن قبل بھی امریکی ابراہم لنکن ایئرکرافٹ کیریئر کے ساتھ امریکی میرین کورپس کے تعاون مشقتین کی گئی تھیں جن کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ امریکا کسی بھی قسم کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے اعلان اور ایران پر پابندی کے دوبارہ نفاذ کے بعد ایرانی معیشت بحران کا شکار ہوگئی ہے، جس سے دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے ہیں۔

    ایران امریکی صدر کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی تجویز کو مسترد کرچکا ہے اور اس سلسلے میں ایرانی قیادت کا کہنا تھا کہ امریکی جارحیت ناقابلِ قبول ہے۔

  • ایران باز نہ آیا تو اس کا سامنا ایک بڑی فوج سے ہوگا، ٹرمپ کی ایک بار پھر دھمکی

    ایران باز نہ آیا تو اس کا سامنا ایک بڑی فوج سے ہوگا، ٹرمپ کی ایک بار پھر دھمکی

    واشنگٹن : امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پرایران کو خبردار کیا ہے کہ اگراُس نے مشرق وسطٰی میں امریکی مفادات کیخلاف جارحانہ اقدام کیا تو اس کا سامنا ایک بڑی فوج سے ہوگا ۔

    تفصیلات کے مطابق پینسلوانیاروانگی سے قبل وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا اگرایران نے مشرق وسطٰی میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے پیش قدمی کو تو اس کا سامنا ایک بڑی فوج سے ہوگا۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش تھی ایران کیساتھ معاملات مذاکرات کے زریعے حل ہو، ایران رضامند ہوتواب بھی ایران سے مذاکرات کے لئے تیارہیں۔

    گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران ایک طویل عرصے سے مسئلہ بنا ہوا ہے اور اوباما کا تہران کے ساتھ کیا جانے والا جوہری معاہدہ بھیانک تھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا میں ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا مگر میں جوہری ایران یا ہمیں دھمکیاں دینے والا ایران بھی نہیں چاہتا ہوں، امریکی پابندیوں نے ایرانی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔

    مزید پڑھیں : ایران کو جوہری ہتھیاروں کا حامل نہیں دیکھنا چاہتے، امریکی صدر

    واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر نے ایران کوصفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا اگر ایران لڑنا چاہتا ہے تو بتادے، وہ ایران کا آخری دن ہوگا۔

    ایران کی طرف سے امریکا کو دھمکانے کے بعد امریکی فوج کی بڑی تعداد، جنگی بحری بیڑہ اور لڑاکا طیارے بھی خلیجی ملکوں میں تعینات کردئیے گئے ہیں۔

    دوسری جانب ایران کا کہنا ہے کشیدگی کوبڑھانا نہیں چاہتے۔

    خیال رہے امریکا کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے بھی ایران کو متنبہ کیا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کی جارحیت سے باز رہے، بصورت دیگر سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

  • امریکا ایران کو باقاعدہ دھمکیاں دینے پراترآیا

    امریکا ایران کو باقاعدہ دھمکیاں دینے پراترآیا

    واشنگٹن /تہران:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سخت الفاظ میں ایران کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان لڑائی ہوئی تو ایران تباہ ہو جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ٹویٹر پر اپنے پیغام میں امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ کو دوبارہ دھمکانے سے گریز کیا جائے اوراگر ایران جنگ چاہتا ہے تو یہ باقاعدہ طور پر ایران کا خاتمہ ہو گا۔امریکی صدر کی جانب سے یہ پیغام ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات کشیدگی کی نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔

    امریکہ نے رواں ماہ کے دوران خلیج فارس میں مزید جنگی جہاز اور طیارے تعینات کیے ہیں۔صدر ٹرمپ اس سے قبل ایران سے جنگ کے امکانات کو رد کرتے رہے ہیں تاہم یہ ٹویٹ ان کے رویے میں تبدیلی کی عکاسی کر رہی ہے۔

    چند دن قبل ہی امریکی صدر نے اپنے مشیروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ایران پر امریکی دباو لڑائی کی شکل اختیار کرے۔گزشتہ جمعرات کو جب صحافیوں نے ان سے دریافت کیا تھا کہ آیا امریکہ ایران سے جنگ کرنے جا رہا ہے تو ان کا جواب تھا کہ وہ پرامید ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔صرف امریکہ کی جانب سے ہی بلکہ ایران نے بھی بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود جنگ کے امکانات کو رد کیا تھا۔

    ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ان کا ملک جنگ کا خواہشمند نہیں ہے۔جواد ظریف کا کہنا تھا کہ کوئی جنگ نہیں ہو گی کیونکہ ہم جنگ نہیں چاہتے اور کوئی اس فریبِ نظر کا شکار بھی نہیں ہے کہ وہ خطے میں ایران کو چھیڑ سکتے ہیں۔

    حالیہ کشیدگی کا آغاز ایران کی جانب سے 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد معطل کرنا بنی۔ ایران نے یورینئم کی افزودگی دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی بھی دی۔ یہ یورینیئم جوہری ری ایکٹر کا ایندھن اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہو سکتا ہے۔

    امریکہ نے خلیج میں ’یو ایس ایس ابراہام لنکن‘ بحری بیڑے کو خطے میں تعینات کیا ہے اور مشرق وسطیٰ میں ایک لاکھ 20 ہزار فوجی بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ادھر امریکہ نے عراق سے سفارتی عملے کو نکلنے کے احکامات جاری کیے ہیں جس کی وجہ امریکی فوج کی جانب سے خطے میں امریکی مفادات کو خطرہ بتایا جا رہا ہے۔

    اس حوالے سے جرمنی اور نیدرلینڈ کے فوجیوں کا بھی کہنا ہے کہ انہوں نے عراق میں جاری عسکری ٹریننگ پروگرام معطل کر دیے ہیں۔

  • ایرانی حملے کا خدشہ، امریکا نے بحیرہ عرب میں فوجی مشق کا آغاز کردیا

    ایرانی حملے کا خدشہ، امریکا نے بحیرہ عرب میں فوجی مشق کا آغاز کردیا

    بحیرہ عرب : امریکا ایران کشیدگی کے باعث دو روز سے بحیرہ عرب میں جنگی مشقیں جاری ہیں، جواد ظریف کا کہنا ہے کہ ایران نے امریکی صدر کے ساتھ مذاکرات کی تجویز مسترد کر دی‘امریکی جارحیت ناقابل قبول ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد امریکا نے بحیرہ عرب میں ایرانی خدشات کا سامنا کرنے کے لیے فوجی مشق کا آغاز کردیا۔

    امریکی نیوی کا کہنا ہے کہ خلیج فارس میں غیر ظاہر شدہ ایرانی خدشات کے پیش نظر تعینات فضائی طیاروں سے لیس بحری بیڑے کے ساتھ انہوں نے بحیرہ عرب میں مشقیں کیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ مشقیں اور تربیت امریکی ابراہم لنکن ایئرکرافٹ کیریئر کے ساتھ امریکی میرین کورپس کے تعاون سے کی گئی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکا کسی بھی قسم کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    ان کے مطابق اس مشق میں خلیج فارس میں تعینات امریکی ففتھ فلیٹ کے 2 گروہوں نے شرکت کی۔امریکی نیوی کے مطابق 2 روز تک ہونے والی ان مشقوں میں فضا سے فضا میں حملوں کی تربیت کی گئی۔

    خیال رہے کہ امریکا نے رواں ماہ ایران پر نئی معاشی پابندیوں کے فوری بعد مشرق وسطیٰ میں طیارہ بردار جہاز اور بی 52 بمبار طیارے تعینات کیے تھے۔

    یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے اعلان اور ایران پر پابندی کے دوبارہ نفاذ کے بعد ایرانی معیشت بحران کا شکار ہوگئی ہے، جس سے دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے ہیں۔

    ایران امریکی صدر کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی تجویز کو مسترد کرچکا ہے اور اس سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امریکی جارحیت ناقابلِ قبول ہے۔

  • ایران نے اگر جنگ کی راہ اختیار کی تو سعودی عرب بھرپور جواب دے گا: عادل الجبیر

    ایران نے اگر جنگ کی راہ اختیار کی تو سعودی عرب بھرپور جواب دے گا: عادل الجبیر

    ریاض: سعودی وزیرمملکت برائے خارجہ عادل الجبیر کا کہنا ہے کہ ایران نے اگر جنگ کی راہ اختیار کی تو سعودی عرب بھرپور جواب دے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے وزیرممکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے ایرانی حکام کو خبردار کیا کہ سعودی عرب خطے میں جنگ نہیں چاہتا لیکن کسی بھی قسم کی جارحیت کی گئی تو ایران کو منہ توڑ جواب دیں گے۔

    ملکی دارالحکومت ریاض میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایران کا مشرقی وسطیٰ میں امن کے قیام کے لیے کوئی کردار نہیں، بلکہ دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔

    سعودی حکام نے عالمی اداروں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کی تخریب کاری اور دہشت گردی کے فروغ دینے والی پالیسی کے خلاف کارروائی کرے۔

    خلیج ممالک اور پورا مشرق وسطیٰ اس وقت سخت کشیدگی کی لپیٹ میں ہے، امریکا اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی نے خطے میں ایک نئی جنگ کی کیفیت پیدا کردی ہے۔

    دوسری جانب سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خطے کی تازہ صورت حال کے تناظر اور خلیج کو درپیش خطرات کے تدارک کے لیے خلیج تعاون کونسل اور عرب لیگ کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔

    شاہ سلمان نے خلیج کونسل اور عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس طلب کرلیے

    یاد رہے کہ چند روز قبل متحدہ عرب امارات کی الفجیرہ بندرگاہ کے قریب دو سعودی، ایک اماراتی اور ایک نارویجن بحری جہاز پر حملے کیے گئے تھے، اس کے بعد سعودی عرب میں تیل پائپ لائنوں کو اڑانے کے لیے ڈرون سے حملہ کیا گیا تھا۔

  • سعودی ولی عہد اور امریکی وزیرخارجہ کے درمیان رابطہ، ایران تنازعے پر گفتگو

    سعودی ولی عہد اور امریکی وزیرخارجہ کے درمیان رابطہ، ایران تنازعے پر گفتگو

    ریاض: سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا اس دوران ایران تنازعے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی ولی شہزادہ محمد اور مائیک پومپیو کا علاقائی صورتحال پربات چیت ہوئی، دونوں رہنماﺅں کے درمیان سیکیورٹی اور استحکام کو مضبوط بنانے سے متعلق کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ ٹیلی فون پر علاقائی صورت حال بشمول سیکیورٹی اور استحکام کو مضبوط بنانے سے متعلق کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

    اس امر کا اعلان اتوار کے روز سعودی وزارت اطلاعات نے ایک ٹویٹ پیغام میں کیا۔ یہ اعلان سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے خلیجی اور عرب ملکوں کے سربراہوں کو مکہ میں ایک ہنگامی اجلاس میں شرکت کی دعوت کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا۔

    ممکنہ ہنگامی اجلاس میں خادم الحرمین الشریفین نے خلیجی اور عرب قیادت کو مملکت اور متحدہ عرب امارات میں ہونے والے حالیہ حملوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

    خلیج ممالک اور پورا مشرق وسطیٰ اس وقت سخت کشیدگی کی لپیٹ میں ہے، امریکا اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی نے خطے میں ایک نئی جنگ کی کیفیت پیدا کردی ہے۔

    شاہ سلمان نے خلیج کونسل اور عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس طلب کرلیے

    یاد رہے کہ چند روز قبل متحدہ عرب امارات کی الفجیرہ بندرگاہ کے قریب دو سعودی، ایک اماراتی اور ایک نارویجن بحری جہاز پر حملے کیے گئے تھے، اس کے بعد سعودی عرب میں تیل پائپ لائنوں کو اڑانے کے لیے ڈرون سے حملہ کیا گیا تھا۔