Tag: Ustad Barey Ghulam Ali

  • استاد بڑے غلام علی خان کو گلوکارہ فریدہ خانم کا زبردست خراج عقیدت

    استاد بڑے غلام علی خان کو گلوکارہ فریدہ خانم کا زبردست خراج عقیدت

    لاہور : ماضی کی معروف اور سنیئر گلوکارہ فریدہ خانم نے استاد بڑے غلام علی خان صاحب کی برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

    کلاسیکی موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ استاد بڑے غلام علی خان صاحب کو برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکی موسیقی کی تاریخ کا سب سے زیادہ معتبر اور معروف استاد مانا جاتا ہے۔

    ان کی 56 ویں برسی کے موقع پر پاکستان کی نامور اور غزل گائیکی کی ماہر سینئر گلوکارہ فریدہ خانم نے استاد بڑے غلام علی خان صاحب کا سکھایا ہوا ایک راگ گا کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

    ذوالقرنین فاروق88 نامی انسٹاگرام اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں گلوکارہ فریدہ خانم کو سُریلے انداز میں گاتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ دیو مالائی شخصیت رکھنے والے استاد بڑے غلام علی خان دو اپریل 1902 کو لاہور میں پیدا ہوئے، آپ کے والد علی بخش کا تعلق ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    بڑے غلام علی خان کو چھ برس کی عمر سے ہی موسیقی سے عشق ہوگیا تھا جو 66 برس کی عمر تک جاری رہا۔

    بھارتی حکومت نے انہیں ان کی بے مثال خدمات کے عوض سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ اور پدما بھوشن ایوارڈ سے نوازا، استاد بڑے غلام علی نے فلم مغلِ اعظم کیلئے بھی دو مشہور گانے گائے۔

    بعد ازاں 25 اپریل 1968 کو کلاسیکل موسیقی کے بے تاج بادشاہ حیدرآباد میں حرکت قلب بند ہونے کے باعث انتقال کرگئے۔

  • برصغیرکے عظیم موسیقاراستاد بڑے غلام علی کی سالگرہ

    برصغیرکے عظیم موسیقاراستاد بڑے غلام علی کی سالگرہ

     آج برصغیر پاک و ہند کے عظیم موسیقار استاد بڑے غلام علی خان کی سال گرہ ہے، برصغیر کے کئی نامور گلوکاروں کے شاگرد استاد بڑے غلام علی کے سروں کی شہرت پورے برصغیر میں تھی۔ 

    استاد بڑے غلام علی خان کا تعلق موسیقی کے پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ وہ 2 اپریل 1902 ء کو قصور میں پیدا ہوئے تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ تھے اور اس کے رتنوں میں شامل تھے جب کہ ان کے والد علی بخش خان اور چچا کالے خان پٹیالہ گھرانے کے مشہور موسیقار کرنیل فتح علی خان کے شاگرد تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور چچا استاد کالے خان سے حاصل کی اور پھر استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے شاگرد ہوئے۔

    جلد ہی استاد بڑے غلام علی خان کے فن کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیلنے لگی۔ انہوں نے متعدد میوزک کانفرنسوں میں شرکت کی اور اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ انہوں نے گائیکی میں اپنی ترامیم سے بہت سی خوبیاں پیدا کیں۔ ان کی آواز میں ایک گھومتا سا ارتعاش تھا اور گانے میں بافراغت گفتگو کی سی بے تکلفی تھی جو لاہور کی فصیل کے اندر رہنے والے مسلمان بے فکروں سے مخصوص ہے۔ جن لوگوں نے استاد بڑے غلام علی خان کو سنا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ تان سین‘ بیجو باورا اور نائک ہری داس سوامی کے ہم مرتبہ فنکار تھے۔

    قیام پاکستان کے بعد استاد بڑے غلام علی خان نے پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا مگر بدقسمتی سے ریڈیو پاکستان کے بڑے افسران کی بےحسی اور تحکمانہ انداز سے دلبرداشتہ ہوکر 1954ءمیں وہ بھارت منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔

    بھارت میں استاد بڑے غلام علی خان کی بڑی پذیرائی ہوئی اور انہیں بھارت کے سب سے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن کے علاوہ سردیوتا‘ سنگیت سمراٹ اور شہنشاہ موسیقی جیسے خطابات کے علاوہ ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔

    استاد بڑے غلام علی خان 23 اپریل 1968ءکو حیدرآباد (دکن) میں انتقال کرگئے جہاں وہ اپنے ایک عقیدت مند نواب مشیر یار جنگ کے پاس مقیم تھے۔ وہ حیدرآباد(دکن) ہی میں آسودہ خاک ہوئے۔