Tag: Vaccination

  • خناق کے کیسز میں ہوشربا اضافہ، بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    خناق کے کیسز میں ہوشربا اضافہ، بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    کراچی سمیت اندرون سندھ خناق کے کیسز اور اس سے بچوں کی اموات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس سے بچاؤ کیلئے ہر ممکن اقدامات کی ضرورت ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں پروفیسر ڈاکٹر شوبھا لکشمی نے بتایا کہ خناق ایک موسمی بیماری ہے جس کی ویکسین موجود ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ خناق ایک سنگین بیکٹریل انفیکشن ہے، جو عام طور پر ناک اور گلے کی نالیوں کی متاثر کرتا ہے۔ یہ سائنو بیکٹیرم کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    سائنو بیکٹریم خناق انفیکشن ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ ٹشوز کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس میں زہریلے مادے خارج ہوتے ہیں جو خون کے دھاروں میں شامل ہوتے ہیں۔

    مریض کے گلے میں خراش ہوتی ہے، غدود کے بڑھ جانے سے گلے میں سوجن پیدا ہوتی ہے جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ ایک موٹی سرمئی رنگ کی جھلی گلے یا ٹانسلز کو ڈھانپتی ہے جس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    ڈاکٹر شوبھا کا کہنا تھا کہ یہ بیماری مریض کو ہاتھ لگانے یا اس کے کھانسنے اور چھینکنے سے بھی پھیلتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس بیماری پر قابو پانے کیلیے ویکسی نیشن کی کوریج بہتر بنانے کی ضرورت ہے، حفاظتی ٹیکوں سے ہی اس بیماری سے بچاؤ ممکن ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر کسی بچے کی کھانسی تین دن تک نہیں رک رہی یا اس کے تالو میں سفید رنگ کی جھلی پیدا ہوجاتی ہے تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں، اس کے علاوہ اگر کسی بچے کو ویکسین نہیں لگی تو فوراً بوسٹر ویکسین لازمی لگوائیں۔

  • پھیپھڑوں کے کینسر سے بچاؤ کا سب سے آسان طریقہ

    پھیپھڑوں کے کینسر سے بچاؤ کا سب سے آسان طریقہ

    تمباکو نوشی کو پھیپھڑوں کے کینسر میں اہم کردار ادا کرنے والوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے جو باقاعدگی سے سگریٹ پیتے ہیں۔

    امریکا کی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے مطابق امریکا میں کینسر یا سرطان کے سبب ہونے والی ہر چار اموات میں سے ایک کی وجہ پھیپھڑوں کا کینسر ہوتی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کنسلٹنٹ پلمونولوجسٹ ڈاکٹر سیف اللہ نے پھیپھڑوں کے کینسر کی وجوہات اور اس سے بچاؤ سے متعلق ناظرین کو اہم معلومات فراہم کیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ بیماری کسی بھی عمر کے افراد کو متاثر کرسکتی ہے۔ اس لیے پھیپھڑوں کے کینسر کے متعلق معلومات حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔

    اس آلودہ زدہ ماحول سے خود کو بچانے کیلئے کیا کیا جائے کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کے ایام میں آلودگی کافی حد تک ختم ہوچکی تھی لوگ ماسک پہن رہے تھے جس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے لیکن جیسے ہی کورونا ختم ہوا چہروں سے ماسک اتر گئے پھر سے وہی روٹین شروع ہوگئی اور بیماریوں نے پھیلنا شروع کردیا۔

    ڈاکٹر سیف اللہ کا کہنا تھا کہ بچوں کی ویکسینیشن لازمی کروائیں اور کینسر سے بچنے کیلیے ہر عمر کے افراد کو مخصوص قسم کی نیوموکوکل اور انفلوئنزا ویکسین لازمی لگوانی چاہیے۔

    ماہرین صحت کے مطابق یہ اٹل حقیقت ہے کہ کینسر کے مریضوں میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ بیماری، سرجری کے بعد کی پیچیدگیوں ، معالج کے مدافعتی نظام پر اثرات )کیموتھراپی ،کورٹیسون ، تابکاری تھراپی ، پیوند کاری اور غذائیت کی کمی وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

  • پنجاب میں بچوں کی کرونا ویکسی نیشن جاری

    پنجاب میں بچوں کی کرونا ویکسی نیشن جاری

    لاہور: صوبہ پنجاب میں بچوں کی کرونا وائرس کے خلاف ویکسی نیشن کی جارہی ہے، اب تک 5 لاکھ بچوں کو ویکسین لگا دی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر نے صوبہ پنجاب کے 5 اضلاع میں بچوں کی کرونا ویکسی نیشن کے اعداد و شمار جاری کردیے گئے۔

    محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر کا کہنا ہے کہ لاہور، ملتان، راولپنڈی، بہاولپور اور اوکاڑہ میں 5 لاکھ 59 بچوں کو ویکسین لگائی گئی۔

    سیکریٹری صحت ڈاکٹر ارشاد احمد کے مطابق ان اضلاع میں روزانہ بچوں کی ویکسی نیشن کا ہدف 8 لاکھ 7 ہزار ہے، 6 روزہ مہم میں 48 لاکھ بچوں کی کرونا ویکسی نیشن کی جائے گی۔

    ڈاکٹر ارشاد کا کہنا تھا کہ 5 سے 12 سال عمر کے بچوں کو کووڈ ویکسین لگائی جارہی ہے۔

  • سعودی عرب: 90 فیصد افراد کرونا وائرس کے خلاف مکمل ویکسی نیٹڈ

    سعودی عرب: 90 فیصد افراد کرونا وائرس کے خلاف مکمل ویکسی نیٹڈ

    ریاض: سعودی عرب میں ویکسی نیشن کے اہل 90 فیصد افراد کو کرونا وائرس ویکسین کی دونوں خوراکیں دی جاچکی ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں سیکریٹری صحت عامہ ڈاکٹر ہانی عبد العزیز جوخدار کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں 90 فیصد لوگوں نے کرونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لے لی ہیں۔

    سیکریٹری صحت کا کہنا تھا کہ سنہ 2021 کے دوران طبی مشاورت کرنے والوں کی تعداد 11 ملین تک پہنچ گئی جبکہ 2019 میں ان کی تعداد 3 ملین تھی۔

    انہوں نے کہا کہ تطمن کلینکس سے 50 لاکھ سے زائد افراد نے رجوع کیا، مملکت بھر میں 239 تطمن کلینکس قائم ہیں۔ اب تک 65 ملین سے زیادہ کرونا ویکسین کی خوراکیں دی جاچکی ہیں اور 90 فیصد نے کم از کم دونوں خوراکیں لے لی ہیں۔

  • ملک میں 43 فیصد آبادی کی کرونا ویکسی نیشن مکمل

    ملک میں 43 فیصد آبادی کی کرونا ویکسی نیشن مکمل

    اسلام آباد: ملک بھر کے 15 کروڑ 36 لاکھ 15 ہزار 747 شہری کرونا ویکسی نیشن کے اہل ہیں جن میں سے 12 کروڑ 60 لاکھ 87 ہزار 515 شہریوں کی مکمل اور جزوی ویکسی نیشن ہو چکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع وزارت صحت نے ملک بھر میں ہونے والی کرونا ویکسی نیشن کے اعداد و شمار جاری کردیے، 43 فیصد ملکی آبادی کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں ویکسی نیشن کی اہل 64 فیصد آبادی کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے جبکہ مکمل و جزوی ویکسی نیشن کروانے والے افراد کی شرح 82 فیصد ہوچکی ہے۔

    ذرائع کے مطابق ویکسی نیشن کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہلے جبکہ صوبہ پنجاب دوسرے نمبر پر ہے، اسلام آباد کی 81 فیصد جبکہ پنجاب کی 70 فیصد اہل آبادی کی ویکسی نیشن ہوچکی ہے۔

    سندھ میں 59 فیصد، بلوچستان میں 57 فیصد، پختونخواہ میں 54 فیصد، آزاد کشمیر میں 50 فیصد اور گلگت بلتستان میں 48 فیصد اہل آبادی کی ویکسی نیشن مکمل ہوگئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک بھر کے 15 کروڑ 36 لاکھ 15 ہزار 747 شہری ویکسی نیشن کے اہل ہیں جن میں سے 12 کروڑ 60 لاکھ 87 ہزار 515 شہریوں کی مکمل اور جزوی ویکسی نیشن ہو چکی ہے۔

  • کورونا کی نئی قسم اومیکرون مزید شدت سے سامنے آگئی

    کورونا کی نئی قسم اومیکرون مزید شدت سے سامنے آگئی

    کورونا وائرس کی بہت زیادہ تیزی سے پھیلنے والی قسم اومیکرون جس کو بی اے ون بھی کہا جاتا ہے، اب دنیا بھر میں لگ بھگ تمام کوویڈ کیسز کا باعث بن رہی ہے۔

    مگر سائنسدانوں کی جانب سے اومیکرون کی ذیلی قسم یا جینیاتی طور پر اس سے ملتی جلتی ایک اور قسم بی اے ٹو کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔

    اب ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بی اے ٹو اومیکرون تیزی سے تو پھیلتی ہے مگر اس سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی شدت بھی زیادہ ہوتی ہے جبکہ کوویڈ 19 سے بچاؤ کے چند اہم ہتھیاروں کےخلاف مزاحمت کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

    جاپان میں لیبارٹری تجربات کے دوران دریافت ہوا کہ بی اے ٹو ممکنہ طور پر کوویڈ 19 کی سابقہ اقسام بشمول ڈیلٹا کی طرح بہت زیادہ بیمار کرسکتی ہے۔

    اومیکرون کی طرح بی اے ٹو ویکسینز سے پیدا ہونے والی مدافعت سے کافی حد تک بچنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے مگر بوسٹر ڈوز سے بیماری کا امکان 74 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ نئی قسم چند ٹریٹمنٹس بشمول مونوکلونل اینٹی باڈی کے خلاف بھی مزاحمت کرسکتی ہے۔

    بی اے 2 میں بھی بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں اور اس میں ایسی درجنوں جینیاتی تبدیلیاں موجود ہیں جو اسے اوریجنل اومیکرون قسم سے مختلف بناتی ہیں اور ایلفا، بیٹا، گیما اور ڈیلٹا اقسام بھی مختلف بناتی ہیں۔

    ٹوکیو یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بی اے ٹو کو اومیکرون کی قسم تصور نہ کیا جائے اور اس پر باریک بینی سے نظر رکھی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ شاید آپ جانتے ہوں کہ بی اے ٹو کو اسٹیلتھ اومیکرون بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کی نوعیت پی سی آر ٹیسٹوں میں ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اس کی شناخت کے لیے ایک اضافی قدم اور سیکونس کی ضرورت ہوتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ بی اے ٹو کی شناخت پہلی چیز ہے جس کو متعدد ممالک کو اپنانا چاہیے خیال کیا جاتا ہے کہ بی اے ٹو اومیکرون کے مقابلے میں 30 سے 50 فیصد زیادہ متعدی ہے اور اب تک اس کے کیسز 74 ممالک میں دریافت وچکے ہیں۔

    امریکا میں 4 فیصد نئے کووڈ کیسز بی اے ٹو کا نتیجہ ہیں مگر یہ کم از کم 10 ممالک میں بالادست قسم ہے مگر حقیقی دنیا میں اس سے ہونے والی بیماری کی شدت کے حوالے سے شواہد ملے جلے ہیں، جن ممالک میں یہ نئی قسم پھیل رہی ہے وہاں ہسپتالوں میں داخلے کی شرح کم ہورہی ہے۔

    اس نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بی اے ٹو اوریجنل اومیکرون کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اپنی نقول خلیات میں بناتی ہے جبکہ یہ بہت تیزی سے خلیات کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔

    ایسا کرنے سے وائرس کو اومیکرون کے مقابلے میں خلیات کے زیادہ برے مجموعے بنانے کا موقع ملتا ہے، ڈیلٹا بھی اس حوالے سے بھی کافی بہترین کام کرنے والی قسم ہے اور پھیپھڑوں کے لیے اسے تباہ کن بنانے والی بھی یہ ایک وجہ ہے۔

    تحقیق کے دوران جب چوہوں کو اومیکرون اور بی اے ٹو سے بیمار کیا گیا تو بی اے ٹو سے وہ زیادہ بیمار ہوئے اور پھیپھڑوں کے افعال زیادہ بدتر ہوگئے۔

    نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اومیکرون کی طرح بی اے ٹو بھی ویکسینیشن کرانے والے افراد کے خون میںموجود اینٹی باڈیز سے گزر سکتی ہے اور اس بیماری سے پہل ےمتاثر ہونے والے افراد میں موجود اینٹی باڈی کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔

    مگر اچھی خبر یہ ہے کہ جو افراد حال ہی میں اومیکرون سے متاثر ہوئے اور ان کی ویکسینیشن ہوچکی تھی تو ان کو اس نئی قسم سے زیادہ بہتر تحفظ حاصل ہوجاتا ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور بائیو ریکسیو پر جاری کیے گئے۔

  • حاملہ ماؤں کی کووڈ ویکسی نیشن بچوں کے لیے بھی فائدہ مند

    حاملہ ماؤں کی کووڈ ویکسی نیشن بچوں کے لیے بھی فائدہ مند

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایسے نومولود بچے جن کی ماؤں نے حمل کے دوران کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے ویکسی نیشن کروائی ہوتی ہے، ان میں پیدائش کے بعد بیماری سے اسپتال داخلے کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    یہ پہلی تحقیق ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسی نیشن سے نہ صرف حاملہ خواتین کو تحفظ ملتا ہے بلکہ ان کے نومولود بچوں کو بھی بیماری کے اثرات سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

    یو ایس سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جن خواتین نے حمل کے دوران موڈرنا یا فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کیں، ان کے بچوں میں پیدائش کے 6 ماہ بعد تک کووڈ 19 سے اسپتال میں داخلے کا خطرہ کم ہوگیا۔

    سی ڈی سی کے شعبہ اطفال کی سربراہ ڈاکٹر ڈانا مینی ڈالمین نے بتایا کہ سی ڈی سی ڈیٹا میں حقیقی دنیا کے شواہد فراہم کیے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حمل کے دوران کووڈ 19 کا استعمال خواتین کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کو بھی کم از کم 6 ماہ تک تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر ان بچوں میں ماں میں بیماری کے خلاف لڑنے والی اینٹی باڈیز منتقل ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جب خواتین حمل کے دوران کووڈ ویکسین استعمال کرتی ہیں تو ان کے جسم میں بیماری سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور یہ اینٹی باڈیز آنول کی نالی کے خون میں بھی موجود ہوتی ہیں۔

    تحقیق کے مطابق اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس طرح اینٹی باڈیز بچوں میں منتقل ہوتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہمیں معلوم تھا کہ اس طرح بچوں میں اینٹی باڈیز منتقل ہوتی ہیں مگر اس تحقیق سے قبل اس کو ثابت کرنے والا ڈیٹا ہمارے پاس نہیں تھا۔

    تحقیق کے دوران جولائی 2021 سے جنوری 2022 کے دوران 6 ماہ سے کم عمر بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا، اس مقصد کے لیے اسپتال میں داخل ہونے والے 379 بچوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے 176 کووڈ جبکہ باقی دیگر وجوہات کے باعث طبی مراکز میں داخل ہوئے تھے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ حمل کے دوران ماں کی ویکسی نیشن بچوں کو کووڈ سے متاثر ہونے پر اسپتال میں داخلے کے خطرے سے بچانے کے لیے 61 فیصد تک مؤثر ہیں۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ویکسینز کی افادیت اس وقت 80 فیصد ہوجاتی ہے جب ماؤں نے حمل کے 21 ویں ہفتے کے بعد اور بچے کی پیدائش سے 14 دن پہلے ویکسی نیشن مکمل کی ہو۔

    اسی طرح 21 ہفتے سے قبل ویکسی نیشن کروانے والی ماؤں کے بچوں میں ویکسین کی افادیت 32 فیصد تک رہ جاتی ہے۔

    اس تحقیق میں ویکسین کے بوسٹر ڈوز کی افادیت کے ڈیٹا کو شامل نہیں کیا گیا تھا یا یہ نہیں دیکھا گیا کہ حمل سے قبل ویکسی نیشن کروانے سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ تھا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے 88 فیصد بچوں کی پیدائش ایسی ماؤں کے ہاں ہوئی تھی جن کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی تھی۔

    انہوں نے یہ انتباہ بھی کیا کہ حمل کے آغاز میں ویکسینز کی افادیت کے تخمینے کو احتیاط سے لینا چاہیئے کیونکہ تحقیق کا پیمانہ زیادہ بڑا نہیں تھا۔

  • کرونا وائرس: امارات میں 95 فیصد آبادی کی ویکسی نیشن مکمل

    کرونا وائرس: امارات میں 95 فیصد آبادی کی ویکسی نیشن مکمل

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات میں 95 فیصد سے زائد آبادی کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے مکمل طور پر ویکسی نیٹ ہوچکی ہے، کرونا وائرس کے کیسز میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔

    متحدہ عرب امارات کے حکام کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لینے والوں کی شرح 95.21 فیصد ہوگئی ہے۔

    شعبہ صحت کی ترجمان ڈاکٹر فریدہ الحوسنی نے کہا کہ حکومت صحت، نگہداشت اور علاج کی سہولتیں بڑھا کر شعبہ صحت کی صلاحیت مضبوط سے مضبوط تر کررہی ہے اور وبا کے انسداد کے لیے ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    ڈاکٹر الحوسنی نے بتایا کہ امارات میں پہلی خوراک لینے والوں کا تناسب 100 فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ دو خوراک لینے والوں کا تناسب 95.21 فیصد ہے۔

    خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات میں کرونا کے نئے کیسز مسلسل کم ہو رہے ہیں، بدھ 16 فروری کو کرونا وائرس کے 3 لاکھ 65 ہزار 306 ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 957 مثبت نکلے۔

    نئے کیسز کے کووڈ متاثرین کی کل تعداد 8 لاکھ 71 ہزار 315 تک پہنچ گئی ہے۔ کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 8 لاکھ 8 ہزار 824 ہوچکی ہے۔

    امارات میں کرونا وائرس سے اب تک 2 ہزار 289 افراد کی اموات ہوچکی ہے۔

  • ویکسی نیشن کے بعد ورزش نہ کی تو کیا نقصان ہوگا ؟ جانیے

    ویکسی نیشن کے بعد ورزش نہ کی تو کیا نقصان ہوگا ؟ جانیے

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ورزش نہ صرف ہمیں جسمانی طور پر فٹ رکھتی ہے بلکہ کووڈ ویکسینز لگوانے کے بعد اس کی افادیت کو بھی زیادہ بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ورزش کرنے کی عادت فلو اور کووڈ 19 ویکسینز کے استعمال کے بعد ان کے اینٹی باڈی ردعمل کو بڑھاتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ویکسینیشن کے بعد ورزش کرنے سے مضر اثرات کی شدت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ تحقیق میں ویکسینشن کرانے کے فوری بعد 90 منٹ تک ورزش کے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ورزش کے نتیجے میں ویکسینشن کے 4 ہفتوں بعد سیرم اینتی باڈی کا تسلسل بڑھ گیا۔ اسی طرح جو بالغ افراد ورزش کو معمول کے مطابق جاری رکھتے ہیں ان میں فلو یا کووڈ ویکسین کا اینٹی باڈی ردعمل بھی بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں شامل لگ بھگ 50 فیصد افراد موٹاپے یا زیادہ جسمانی وزن کے حامل تھے مگر ورزش کے دوران انہوں نے دھڑکن کی رفتار صحت مند سطح پر برقرار رکھی۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس ڈائریکٹ میں شائع ہوئے۔

    درحقیقت ورزش کرنے کی عادت صرف ویکسینز کی افادیت میں ہی اضافہ نہیں کرتی بلکہ ویکسینیشن نہ کرانے پر بھی کوویڈ سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    گزشتہ سال مئی2021 میں کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو ڈیلا لانا اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کارڈیو ریسیپٹری (دل اور تنفس کے نظام) فٹنس کوویڈ19 سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ تحقیق میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ جسمانی طور پر فٹ افراد میں کوویڈ19 سے موت کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ نتائج میں ایک اور زبردست بات یہ سامنے آئی کہ ایسے تمام افراد جو جسمانی طور پر زیادہ متحرک ہوتے ہیں انہیں کوویڈ سے زیادہ بہتر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع تحقیق کے دوران یوکے بائیو بینک اسٹڈی کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جس میں 2690 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں ساری توجہ اس بات پر دی گئی ہے کہ کووڈ سے متاثر ہونے اور موت کا خطرہ جسمانی فٹنس سے کس حد تک کم ہوسکتا ہے۔

    محققین نے جسمانی فٹنس اور کووڈ سے متاثر ہونے کے خطرے کے درمیان تو کوئی نمایاں تعلق دریافت نہیں کیا، تاہم موت کے خطرے میں کمی واضح تھی۔

    تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 49 سے 80 سال کے درمیان تھیں اور ڈیٹا میں ان افراد کی فٹنس کی درجہ بندی بھی کی گئی تھی۔ محققین نے دریافت کیا کہ معتدل ورزش سے بھی کووڈ سے موت کے خطرے میں کمی آجاتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عمر کے ساتھ جسمانی سرگرمیاں کم ہوجاتی ہیں، تاہم اگر اپنی عمر کے گروپ کے مطابق فٹ ہیں تو آپ کو اس وبائی بیماری کے خلاف فائدہ ہوسکتا ہے۔

  • ایک دن میں 22 لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگانے کا ریکارڈ قائم

    ایک دن میں 22 لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگانے کا ریکارڈ قائم

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ ایک دن میں 22 لاکھ 40 ہزار افراد کو ویکسین لگانے کا ریکارڈ قائم کرلیا گیا، ملک میں ویکسین لگانے کی اہل آبادی کے 58 فیصد افراد کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ایک دن میں 22 لاکھ 40 ہزار افراد کو ویکسین لگانے کا ریکارڈ قائم کرلیا گیا۔

    اسد عمر کا کہنا تھا کہ مسلسل پچھلے 4 دن میں ہم نے ہر روز 20 لاکھ سے زائد ویکسین کی خوراکیں لگائیں۔

    انہوں نے کہا کہ ویکسی نیشن کے اہل ہر 4 میں سے 3 پاکستانیوں کو کم از کم ایک خوراک لگ چکی ہے، 58 فیصد افراد کو مکمل طور پر ویکسین لگ چکی ہے۔

    یاد رہے کہ ملک میں اب تک 11 کروڑ 52 لاکھ 38 ہزار 268 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 8 کروڑ 98 لاکھ 53 ہزار 639 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔