Tag: Vaccine

  • کرونا وائرس ویکسین سب سے پہلے کسے دی جائے گی؟ عالمی ادارہ صحت کا اہم بیان

    کرونا وائرس ویکسین سب سے پہلے کسے دی جائے گی؟ عالمی ادارہ صحت کا اہم بیان

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈ روس ایڈہنم کا کہنا ہے کہ اب تک 172 ممالک کرونا وائرس کی فراہمی یقینی بنانے والی مہم سے منسلک ہوچکے ہیںِ، کرونا وائرس ویکسین کی فراہمی سب سے پہلے طبی عملے کو بنائی جانی ضروری ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق پوری دنیا میں تیار کی جانے والی کرونا وائرس ویکسین کو جلد اور کم قیمت میں تمام ممالک تک پہنچانے کے لیے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی قائم کردہ ویکس فیسلیٹی سے 172 ممالک منسلک ہوگئے۔

    ڈبلیو ایچ او کی اس مہم میں ویکسین تیار کرنے والے 9 مینو فیکچررز بھی اس سے منسلک ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹید روس کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتہ انہوں نے تمام 194 رکن ممالک کو خط تحریر کر کے ان سے کوویکس فیسلیٹی سے منسلک ہونے کی درخواست کی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ انہیں یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ اب تک 172 ممالک کوویکس گلوبل ویکسین فیسیلیٹی کے ساتھ منسلک ہوچکے ہیں۔

    ٹیڈ روس کا کہنا تھا کہ ویکسین کی تیاری کے فوراً بعد اس کی سپلائی محدود رہے گی، اسی وجہ سے پوری دنیا میں پہلے یہ یقینی بنایا جائے کہ جو لوگ اس کے خلاف فرنٹ لائن پر ہیں، انہیں یہ پہلے مہیا کئی جائے۔

    ان کے مطابق طبی عملے کو سب سے پہلے ویکسین دی جانی چاہیئے کیونکہ وہ وبا کے خلاف فرنٹ لائن پر رہ کر کئی زندگیاں بچا رہے ہیں اور پورے طبی نظام کو مستحکم رکھے ہوئے ہیں۔

    ٹیڈ روس کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعد ازاں 65 برس سے زائد عمر کے لوگوں اور کسی بیماری سے متاثرہ لوگوں کو بھی ترجیح دینی چاہیئے، اس کے بعد جب سپلائی میں اضافہ ہوگا تو دیگر افراد کو ویکسین دی جانی چاہیئے۔

  • کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے چین کا اہم اقدام

    کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے چین کا اہم اقدام

    بیجنگ: چین نے کووڈ 19 کی ویکسین کے حوالے سے ضوابط جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ویکسینز کی افادیت کی شرح کم از کم 50 فیصد ہو اور وہ کرونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت 6 ماہ تک برقرار رکھے تب ہی اس کی منظوری دی جائے گی۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق چین کے سینٹر فار ڈرگ ایولوشن (سی سی ڈی ای) کا تجویز کردہ مسودہ سامنے آیا ہے جس میں کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے ضوابط دیے گئے ہیں۔

    چین نے کہا ہے کہ کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے ویکسینز کی منظوری اسی صورت میں دی جائے گی جب ان کی افادیت کی شرح کم از کم 50 فیصد اور کرونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت 6 ماہ تک برقرار رکھ سکے گی۔

    اگرچہ اس میں ویکسین کی کم از کم افادیت 50 فیصد قرار دی گئی ہے مگر ویکسینز کے لیے جو ہدف مقرر کیا گیا ہے وہ 70 فیصد آبادی کے لیے مؤثر ہونا ہے۔

    مسودے کے مطابق ویکسینز کے ہنگامی استعمال کے لیے کم از کم افادیت کی شرح رکھی گئی ہے اور ان میں ایسی ویکسین بھی شامل ہوگی جس کا کلینیکل ٹرائل مکمل نہ ہوا ہو مگر افادیت کو دیکھتے ہوئے اس کے استعمال کی منظوری دے دی جائے گی۔

    ویکسین کی افادیت کے حوالے سے چینی گائیڈ لائنز میں عالمی ادارہ صحت اور یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ہدایات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

    سی سی ڈی ای کے مطابق اس معیار کا تعین عالمی ادارہ صحت کی ہدایات اور 50 سے زائد ماہرین اور 37 سائنسی ٹیموں سے مشاورت کے بعد کیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ چین میں 4 کرونا ویکسینز کلینیکل ٹرائلز کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔

  • کرونا وائرس کی ویکسین کب تیار ہوگی اور کب دستیاب ہوگی؟

    کرونا وائرس کی ویکسین کب تیار ہوگی اور کب دستیاب ہوگی؟

    کرونا وائرس کی ویکسین کے حوالے سے حوصلہ افزا خبریں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں، چین اور روس نے مقامی طور پر تیار کردہ ویکسین کا استعمال شروع کردیا ہے۔

    تاہم اس حوالے سے کچھ تحفظات اور سوالات بھی سامنے آرہے ہیں، ذیل میں ہم نے ایسے ہی کچھ سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

    ویکسین کے مؤثر ہونے کے بارے میں کب تک علم ہوسکے گا؟

    اس وقت دنیا بھر میں درجن بھر ادارے کرونا وائرس کی ویکسین پر کام کر رہے ہیں جبکہ ہزاروں شرکا پر ویکسینز کے ٹرائلز یا انسانی آزمائش کی جارہی ہے، ان ٹرائلز کے نتائج سال رواں کے آخر تک حتمی طور پر سامنے آجائیں گے جس سے علم ہوسکے گا کہ کون سی ویکسین کتنی مؤثر اور محفوظ ہے۔

    ان سب میں سب سے جلد بننے والی ویکسین سوئیڈش برطانوی فارما سیوٹیکل کمپنی ایسٹرا زینیکا کی ہوسکتی ہے جس کی اسٹڈی اسی ماہ مکمل ہوجانے کی امید ہے۔

    دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی کرونا وائرس ٹاسک فورس کے رکن اور امریکی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا کہنا ہے کہ امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی ماڈرینا کی ویکسین کے فیصلہ کن نتائج نومبر یا دسمبر تک آجائیں گے۔

    ان کے علاوہ بقیہ تمام ویکسینز اس کے بعد آئیں گی۔

    جس طرح سے ویکسینز کے ٹرائلز جلدی جلدی نمٹائے جارہے ہیں، تو کیا ویکسین کے مضر اثرات کے بارے میں بھی مکمل طور پر اسٹڈی کی جارہی ہے؟ ماہرین اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

    ٹیکسس کے نیشنل اسکول آف ٹراپیکل میڈیسن کے ڈین پیٹر ہوٹز کا کہنا ہے کہ کسی بھی ویکسین کو مکمل طور پر محفوظ ثابت ہونے کے لیے سنہ 2021 کے وسط تک کا عرصہ درکار ہے۔

    ویکسین کی پہلی کھیپ کب تیار ہوگی؟

    ویکسین بنانے میں مصروف ادارے اس حوالے سے بھی کام کر رہے ہیں کہ جیسے ہی ان کی ویکسین کو استعمال کی منظوری مل جائے، وہ اس کی زیادہ سے زیادہ خوراکیں بنانے پر کام شروع کردیں۔

    ان میں سے کچھ اداروں کو امریکی حکومت کے پروگرام آپریشن ریپ اسپیڈ کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

    ڈاکٹر فاؤچی کو امید ہے کہ سنہ 2021 کے آغاز تک ویکسین کی لاکھوں خوراکیں دستیاب ہوسکتی ہیں اور سال کے اواخر تک ان کی تعداد اربوں تک پہنچ سکتی ہے۔

    ماڈرینا، ایسٹرا زینیکا اور فائزر انک سمیت متعدد کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ ویکسین کی ایک ارب خوراکیں تیار کرسکتی ہیں، گویا 2021 کے آخر تک ہر ویکسین کی اربوں خوراکیں دستیاب ہوں گی۔

    کرونا وائرس کی ویکسین ہمیں کب تک مل سکے گی؟

    کرونا وائرس کی ویکسین ممکنہ طور پر سال رواں کے آخر یا اگلے برس کے آغاز تک تیار ہوجائے گی اور اس کی پہلی کھیپ امیر ممالک کو جائے گی اور وہاں پر ان افراد کو دی جائے گی جو کرونا وائرس کے خطرے کا زیادہ شکار ہیں۔

    اس میں مختلف بیماریوں کا شکار افراد، ہیلتھ ورکرز اور عسکری اہلکار شامل ہیں۔ کینیڈا، جاپان، برطانیہ اور امریکا نے اس حوالے سے اپنے شہریوں کو لائن اپ کرنا شروع کردیا ہے۔

    کچھ ویکسینز ایسی بھی ہیں جن کی 2 خوراکیں ایک ماہ کے وقفے سے دینی ہوں گی، اور دوسری خوراک لینے کے بعد ہی مذکورہ شخص ویکسی نیٹد قرار پا سکے گا۔

    پوری دنیا کو کرونا وائرس کی ویکسین کب ملے گی؟

    کرونا وائرس کی ویکسین کا انتظار ان ترقی پذیر ممالک کو کرنا پڑ سکتا ہے جنہوں نے تاحال اس کی خریداری کی ڈیل نہیں کی۔ پیٹر ہوٹز کا کہنا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کرونا وائرس ویکسین ترقی پذیر ممالک تک بہت دیر سے پہنچے گی۔

    گاوی کے نام سے قائم کیا جانے والا ایک ویکسین الائنس (جو ترقی پذیر ممالک تک ویکسین پہنچانے کے لیے قائم کیا گیا ہے) 2 ارب خوراکوں کی ڈیل کرنا چاہتا ہے، اگر وہ اس میں کامیاب رہتا ہے تو ترقی پذیر ممالک کی اس 20 فیصد آبادی کے لیے ویکسین حاصل کرلی جائے گی جو کرونا وائرس کے خطرے کا زیادہ شکار ہیں۔

    اسی طرح سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا بھی ویکسین کو غریب اور ترقی پذیر ممالک کے لیے مقامی طور پر مینو فیکچر کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

    کیا چینی ویکسین پوری دنیا کو مل سکے گی؟

    چینی حکومت نے کچھ تجرباتی ویکسینز کو استعمال کرنے کی منظوری دے دی ہے اور وہ یہ کام کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔

    تاہم فی الحال یہ ویکسین چین سے باہر استعمال نہیں ہوسکے گی کیونکہ مغربی ممالک اس ویکسین کے مقامی ٹرائلز کرنا چاہیں گے جس میں وقت لگے گا، ان ٹرائلز کے انعقاد پر کام کیا جارہا ہے۔

    روسی ویکسین کا استعمال

    روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اعلان کیا ہے کہ روس کرونا وائرس ویکسین کی ریگولیٹری منظوری دینے والا پہلا ملک بن چکا ہے، ویکسین کی انسانی آزمائش کو فی الحال 2 ماہ سے بھی کم کا عرصہ گزرا ہے اور اس کا حتمی مرحلہ ابھی باقی ہے۔

    ماہرین اس ویکسین کے استعمال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، ایک روسی بزنس مین نے اعلان کیا ہے کہ وہ سال رواں کے آخر تک اس ویکسین کی بڑے پیمانے پر مینو فیکچرنگ شروع کردیں گے۔

  • امریکی کمپنی کو کرونا ویکسین کی تیاری کے لیے مزید رقم موصول

    امریکی کمپنی کو کرونا ویکسین کی تیاری کے لیے مزید رقم موصول

    امریکی بائیو ٹیک کمپنی ماڈرینا کا کہنا ہے کہ انہیں امریکی حکومت کی جانب سے اضافی فنڈنگ موصول ہوئی ہے جس کی بدولت وہ اپنی کرونا وائرس ویکسین کی تیاری کا آخری مرحلہ جلد مکمل کرسکیں گے۔

    ماڈرینا کو اپریل میں امریکی فیڈرل ایجنسی سے 483 ملین ڈالر کی فنڈنگ موصول ہوئی تھی، اس وقت ماڈرینا کی ویکسین اپنی تیاری اور آزمائش کے پہلے مرحلے میں تھی۔

    ادارے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا کہنا ہے کہ ابتدائی مرحلوں سے حاصل شدہ ڈیٹا سے اندازہ ہورہا ہے کہ ویکسین نہ صرف کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال کو کنٹرول کرنے میں مدد دے گی بلکہ مستقبل میں بھی کسی وبا کے خلاف مؤثر کردار ادا کرے گی۔

    اب تک ماڈرینا کو امریکی حکومت کی جانب سے955 ملین ڈالر کی فنڈنگ موصول ہوچکی ہے۔

    ماڈرینا کا کہنا ہے کہ وہ فی الوقت ویکسین کی سالانہ 500 ملین ڈوزز بناسکتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ سنہ 2021 کے آغاز سے 1 ارب ڈوزز سالانہ بناسکیں گے۔

  • یورپی یونین کا کرونا ویکسین کے حوالے سے بڑا فیصلہ

    یورپی یونین کا کرونا ویکسین کے حوالے سے بڑا فیصلہ

    برسلز: یورپی یونین کی کوشش ہے کہ وہ کرونا وائرس کی ویکسین کو 40 ڈالر سے کم قیمت میں حاصل کرے اور اس کے لیے یونین عالمی ادارہ صحت کی سربراہی میں کرونا ویکسین کے لیے قائم کردہ اتحاد سے خریداری کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

    یورپی یونین کے 2 آفیشلز کے مطابق یونین دوا ساز کمپنیوں سے 40 ڈالرز سے بھی کم قیمت میں ویکسین حاصل کرنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔

    یورپی یونین اس بات کا حامی ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین تمام ممالک کو یکساں طور پر فراہم کی جائے تاہم اس کی کوشش ہے کہ اس موقع پر یورپی ممالک کو ترجیح دی جائے۔

    یونین کے ایک آفیشل کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے کوویکس (عالمی طور پر ویکسین کی تیاری کا مکینزم) کے ذریعے ویکسین کے حصول سے قیمتوں میں اضافہ ہوگا جبکہ اس کی ترسیل میں تاخیر ہوگی۔

    مذکورہ آفیشل کے مطابق کوویکس میکینزم کے ذریعے ویکسین پیشگی طور پر خریدنی ہوگی، اور امیر ممالک کے لیے ویکسین کی ممکنہ قیمت کا ٹارگٹ 40 ڈالر رکھا گیا ہے، تاہم یورپی یونین اپنے میکنزم کے تحت ویکسین اس سے کم قیمت میں خرید سکتی ہے۔

    یونین ممکنہ ویکسین کی ادائیگی اپنے ایمرجنسی سپورٹ انسٹرومنٹ کے 2 ارب یورو کے فنڈ سے کرے گی۔

    خیال رہے کہ دو روز قبل امریکی حکومت نے فائزر اور جرمن بائیوٹک کمپنی کے ساتھ 2 ارب ڈالرز کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کووڈ 19 کی ویکسین کے لیے قیمت کا معیار طے کیا تھا۔

    صنعتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے قیمتوں کے معیار طے ہونے کا دباؤ دیگر مینو فیکچررز پر بھی پڑے گا کہ وہ بھی یہی قیمتیں مقرر کریں۔

    یہ معاہدہ 5 کروڑ امریکیوں کے لیے ویکسی نیشن کا موقع فراہم کرے گا اور فی امریکی کو ویکسین 40 ڈالر میں پڑے گی، یا اتنے میں جتنے میں وہ سالانہ طور پر فلو ویکسین خریدتے ہیں۔

  • کرونا ویکسین کتنے کی ملے گی؟ عالمی معیار کا تعین ہو گیا

    کرونا ویکسین کتنے کی ملے گی؟ عالمی معیار کا تعین ہو گیا

    واشنگٹن: امریکا نے کرونا وائرس ویکسین کی قیمت کے لیے عالمی معیار کا تعین کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی حکومت نے بدھ کو فائزر اور جرمن بائیوٹک کمپنی کے ساتھ 2 ارب ڈالرز کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کو وِڈ 19 کی ویکسین کے لیے قیمت کا معیار طے کر لیا ہے۔

    صنعتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے قیمتوں کے معیار طے ہونے کا دباؤ دیگر مینوفیکچررز پر بھی پڑے گا کہ وہ بھی یہی قیمتیں مقرر کریں۔

    یہ معاہدہ جو ایک منظور ہونے والی ویکسین پر منحصر ہوگا، 5 کروڑ امریکیوں کے لیے ویکسی نیشن کا موقع فراہم کرے گا اور فی امریکی کو ویکسین 40 ڈالر میں پڑے گی، یا اتنے میں جتنے میں وہ سالانہ طور پر فلو ویکسین خریدتے ہیں۔

    معاہدے میں دوا ساز کمپنیوں کے فائدے کے حصول کا بھی خیال رکھا گیا ہے کیوں کہ وہ مہلک وائرس سے لوگوں کو بچانے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں جس سے اب تک 6 لاکھ 37 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

    ویکسینز کے لیے دیگر معاہدوں کے برعکس امریکی حکومت سے فائزر اور جرمن BioNTech تب تک رقم وصول نہیں کریں گی جب تک ان کی تیار کردہ ویکسین وسیع سطح پر کلینکل ٹرائلز میں محفوظ اور مؤثر ثابت نہ ہوں، جس کے بارے میں توقع ہے کہ رواں ماں یہ ٹرائلز شروع ہو جائیں گے۔

    امریکا اور دیگر حکومتوں نے اس سے قبل بھی کو وِڈ 19 ویکسین کی تیاری کے لیے معاہدے کیے ہیں، لیکن یہ پہلا معاہدہ ہے جس میں تیار شدہ ویکسین کی مخصوص قیمت کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ سینٹر فار میڈیسن پبلک انٹرسٹ کے شریک بانی اور صدر پیٹر پٹس کا کہنا ہے کہ فلو کی ویکسین کی اوسط قیمت 40 ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

    میجوہو بائیو ٹیکنالوجی کے تجزیہ کار ومل دیون کا کہنا تھا کہ محفوظ اور مؤثر ہونے کے سلسلے میں جو دیگر بڑی تجرباتی ویکسینز سامنے آئیں گی، ان کے لیے بھی مذکورہ قیمت سے کوئی بہت زیادہ قیمت رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔

    خیال رہے کہ امریکی حکومت نے فائزر اور بائیو این ٹیک کی ویکسین کے ٹیکوں کی 100 ملین (دس کروڑ) خوراکیں اس قیمت پر خریدنے پر اتفاق کیا ہے جو 39 ڈالر فی ویکسین بنے گی، اور یہ دو خوارکوں پر مبنی ہوگی، یعنی فی خوراک کی قیمت 19.50 ڈالر پڑے گی۔

    ماہرین صحت کا خیال ہے کہ اس وبا کو توڑنے کے لیے ایک مؤثر ویکسین کی ضرورت تو ہے جس نے پوری دنیا میں معیشتوں کو متاثر کیا ہے، لیکن یہ بھی ضرورت ہے کہ یہ ویکسین اربوں لوگوں کے لیے دستیاب ہو، اور دوا ساز اداروں پر اس حوالے سے کافی دباؤ ہے کہ وہ عالمی سطح پر صحت کے بحران کے دوران بڑا منافع کمانے سے گریز کریں۔

    ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ فی شخص ویکسین اگر 40 ڈالر پڑتی ہے تو اس سے دوا تیار کرنے والی کمپنیاں بلاشبہ منافع کمائیں گی، اور چند علاقوں میں تو گراس منافع 60 سے 80 فی صد کے درمیان ہوگا، گراس منافع (گراس مارجن) میں ریسرچ اور تیاری کی لاگت شامل نہیں ہوتی، جس کے بارے میں امریکی کمپنی فائزر کا کہنا ہے کہ ان کی ویکسین کے لیے یہ لاگت 1 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

  • کرونا وائرس کی ویکسین اگلے ماہ دستیاب ہوگی؟

    کرونا وائرس کی ویکسین اگلے ماہ دستیاب ہوگی؟

    ماسکو: روسی حکام کا کہنا ہے کہ روس میں کرونا وائرس ویکسین کی تیاری حتمی مراحل میں پہنچ گئی ہے اور یہ اگلے ماہ عوامی استعمال کے لیے فراہم کردی جائے گی۔

    روسی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ ویکسین کے کلینکل ٹرائلز جاری ہیں اور ٹرائلز کا تیسرا مرحلہ مکمل ہونے سے قبل ہی اسے عام افراد کے لیے فراہم کردیا جائے گا۔

    وزیر کا کہنا ہے کہ ویکسین کے وسیع پیمانے پر استعمال کی منظوری دیے جانے کے بعد ویکسین کی مزید کلینکل ریسرچ بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہے گی۔

    حکومتی ادارے رشین ڈائریکٹ انویسٹمنٹ فنڈ کی چیف ایگزیکٹو کرل دیمتری کا کہنا ہے کہ ویکسین کے کلینکل ٹرائلز کا تیسرا مرحلہ 3 اگست سے شروع ہوگا جس میں ہزاروں رضا کار شرکت کریں گے۔

    ان کے مطابق مقامی طور پر اس ویکسین کی 3 کروڑ ڈوزز تیار کی جائیں گی، لیکن چونکہ متعدد ممالک اس ویکسین کی تیاری میں دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں تو بین الاقوامی اشترک سے اس کی 17 کروڑ سے زائد ڈوزز تیار کی جاسکیں گی۔

    خیال رہے کہ مذکورہ ویکسین روسی وزارت دفاع کے ادارہ برائے وبائی امراض اور مائیکرو بائیولوجی نے تیار کی ہے اور شخانوف یونیورسٹی اس کے کلینکل ٹرائلز کر رہی ہے۔

    ویکسین ٹرائلز کے پہلے مرحلے کو کامیاب قرارد دیتے ہوئے ماہرین نے کہا تھا کہ ویکسین انسانی استعمال کے لیے محفوظ ہے۔

    چند روز قبل برطانیہ، امریکا اور کینیڈا کی حکومتوں کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ روسی خفیہ ایجنسی کرونا وائرس کی ویکسین بنانے والے اداروں کی تحقیق کو ہیک کر رہی ہے اور اس کے ذریعے اپنی ویکسین بنا رہی ہے۔

    اس حوالے سے روسی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی ویکسین مغربی ممالک میں بنائی جانے والی ویکسین سے زیادہ جدید ہے اور وہ اپنی ویکسین کی ٹیکنالوجی بخوشی دیگر ممالک کے ساتھ شیئر کریں گے۔

    یاد رہے کہ روس کرونا وائرس کیسز کے حوالے سے چوتھے نمبر پر ہے، اب تک ملک میں کوویڈ 19 کے پونے 8 لاکھ مصدقہ کیسز سامنے آئے ہیں اور ساڑھے 12 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔

  • کرونا وائرس کی 2 ویکسینز کو امریکی ادارے کی جانب سے اعزاز مل گیا

    کرونا وائرس کی 2 ویکسینز کو امریکی ادارے کی جانب سے اعزاز مل گیا

    واشنگٹن: کرونا وائرس کی 2 عدد ویکسینز کو امریکی ادارے ایف ڈی اے کی جانب سے فاسٹ ٹریک کا اسٹیٹس دے دیا گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق جرمنی بائیو ٹیک کمپنی BioNTech اور امریکی فارماسیوٹیکل فائزر (Pfizer) کو 2 تجرباتی کرونا وائرس ویکسینز کے لیے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے فاسٹ ٹریک کا درجہ دیا گیا۔

    یہ دو ویکسینز BNT162b1 اور BNT162b2 ان 4 جدید ترین ویکسینز میں سے ہیں جو مذکورہ دونوں کمپنیاں تیار کر رہی ہیں، فاسٹ ٹریک ایک ایسا پروسیس ہے جو خطرناک بیماریوں کے علاج اور روک تھام کے لیے نئی ادویہ اور ویکسینز کی تیاری کے عمل کو سہولت فراہم کرتا ہے اور ان کے جائزے کے عمل کو تیز تر کرتا ہے۔

    مذکورہ ویکسینز کو یہ حیثیت پہلے اور دوسرے مرحلے کے تجربات کے ابتدائی ڈیٹا کی بنیاد پر دی گئی ہے، یہ تجربات اس وقت امریکا اور جرمنی میں جاری ہیں، ان کمپنیوں نے یکم جولائی کو ویکسین BNT162b1 کے لیے فیز 1 اور فیز 2 کا ڈیٹا جاری کیا تھا، خیال رہے کہ BNT162 پروگرام کے تحت فی الوقت 4 تجرباتی ویکسینز پر کام ہو رہا ہے، ان میں سے ہر ایک منفرد مرکب (mRNA) کی حامل ہے اور ان کا ٹارگٹ اینٹی جن بھی الگ ہے۔

    فائزر کے ایک سینئر وائس پریذیڈنٹ پیٹر ہونِگ نے میڈیا کو بتایا کہ ایف ڈی اے کی جانب سے ان 2 ویکسینز کو فاسٹ ٹریک کی حیثیت دینے کے فیصلے کا مطلب ہے کہ SARS-CoV-2 کے خلاف ایک مؤثر اور محفوظ ویکسین کی تیاری کی کوششوں میں ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ BNT162 کیٹیگری کی ویکسینز کلینکل تجربات سے گزر رہی ہیں، دنیا میں اس کی تقسیم کی منظوری فی الحال نہیں دی گئی ہے، ریگولیٹری کی جانب سے منظوری کی شرط کے ساتھ کمپنیوں کو یہ توقع ہے کہ ان ویکسینز کے اگلے تجرباتی مرحلے کا آغاز رواں ماہ کے آخر میں ہو جائے گا۔ اگر جاری تجربات کامیاب رہے اور ویکسین کو ریگولیٹری منظوری مل گئی تو اندازے کے مطابق یہ کمپنیاں 2020 کے اختتام تک 10 کروڑ ڈوز جب کہ 2021 کے اختتام تک 1 ارب 20 کروڑ ڈوز تیار کر لیں گی۔

  • کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے بل گیٹس کا اہم بیان

    کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے بل گیٹس کا اہم بیان

    مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے علاج کے لیے ادویات اور ویکسینز، ان کی زیادہ قیمت ادا کرنے والے ممالک کے بجائے ان ممالک کو دی جائے جو غریب اور ضرورت مند ہیں۔

    ایک کوویڈ 19 کانفرنس سے آن لائن خطاب کے دوران بل گیٹس کا کہنا تھا کہ اگر ہم ادویات اور ویکسینز کو ضرورت مند ممالک کے بجائے ان ممالک کو دیں گے جو ان کی زیادہ بولی لگائیں گے تو ہمیں مزید طویل اور جان لیوا وبا کا سامنا ہوگا۔

    بل گیٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسے لیڈرز کی ضرورت ہے جو ادویات اور ویکسینز کی منصفانہ فراہمی کے مشکل ترین فیصلے کرسکیں۔

    خیال رہے کہ بل گیٹس کرونا ویکسین کی تیاری کے لیے 75 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔

    بل گیٹس کی جانب سے کروڑوں ڈالرز کا یہ تعاون دراصل ویکسین کی 30 کروڑ ڈوز کی ترسیل سے متعلق ہے، جس کی پہلی کھیپ متوقع طور پر 2020 کے آخر تک روانہ کی جائے گی۔

    اس سلسلے میں سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے ساتھ لائسنس کے لیے ایک الگ معاہدہ بھی کیا گیا ہے جس کے تحت متوسط اور اس سے کم آمدن والے ممالک کو ایک ارب ڈوز بھیجے جائیں گے، جبکہ 40 کروڑ ڈوز 2021 سے قبل سپلائی کیے جائیں گے۔

    بل گیٹس اس سے قبل کرونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار کرنے کے لیے فیکٹریوں کی تعمیر پر اربوں ڈالرز خرچ کرنے کا بھی اعلان کرچکے ہیں۔

  • کرونا وائرس: پودے سے بنائی جانے والی ویکسین تیاری کے مراحل میں

    کرونا وائرس: پودے سے بنائی جانے والی ویکسین تیاری کے مراحل میں

    دنیا کی سب سے بڑی ویکسین بنانے والی برطانوی فارما سیوٹیکل کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن (جی ایس کے) کرونا وائرس کی ممکنہ ویکسین کے لیے اپنی ویکسین بوسٹر ٹیکنالوجی فراہم کر رہی ہے۔

    دنیا بھر میں ویکسین بنانے کی دوڑ میں شامل اداروں کی طرح جی ایس کے اپنی ویکسین بنانے کے بجائے مختلف اداروں کے ساتھ ویکسین بنانے میں انہیں مدد فراہم کر رہا ہے۔

    جی ایس کے نے جن اداروں کے ساتھ اشتراک کیا ہے ان کی تعداد 7 ہے جن میں فرانسیسی فارماسیوٹیکل کمپنی صنوفی اور چینی بائیو فارما سیوٹیکل کمپنی کلوور شامل ہیں۔ کینیڈین بائیو ٹیکنالوجی کمپنی میڈیکیگو بھی اس فہرست میں شامل ہے۔

    میڈیکیگو ایک پودے کے ذریعے ویکسین تیار کر رہی ہے اور جی ایس کے اپنی ویکسین بوسٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے اس ویکسین کی کارکردگی بڑھانے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔

    جی ایس کے کا کہنا ہے کہ مذکورہ ویکسین اگلے سال کے نصف تک تیار ہوجائے گی جبکہ سال 2021 کے آخر تک اس کی 10 کروڑ ڈوزز تیار ہوجائیں گی، ویکسین کے ٹرائلز اسی ماہ سے شروع ہوجائیں گے۔

    خیال رہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے تاحال کسی ویکسین یا دوا کی حتمی منظور نہیں دی گئی، تاہم اب تک دنیا بھر میں 19 ویکسینز اپنی تیاری اور ٹرائلز کے مرحلے میں ہیں۔