Tag: Vaccine

  • اٹلی میں کرونا ویکسین کی تیاری کے سلسلے میں پیش رفت

    اٹلی میں کرونا ویکسین کی تیاری کے سلسلے میں پیش رفت

    روم: اٹلی میں کرونا ویکسین کی تیاری کے سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے، ایک امریکی کمپنی نے دوا ساز کمپنی کے ساتھ ویکسین کی تیاری میں مدد کے لیے اشتراک کر لیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق اٹلی میں واقع امریکی گروپ کیٹالینٹ (Catalent) کے ایک پروڈکشن پلانٹ نے کو وِڈ 19 کے لیے ویکسین کی تیاری کے سلسلے میں مدد دینے کے لیے دوا ساز کمپنی جانسن اینڈ جانسن (J&J) کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔

    پیر کو اٹلی کے وزیر صحت رابرٹو سپیرانزا نے روم سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود قصبے اناگنی میں واقع پلانٹ کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ جس ویکسین پر جانسن اینڈ جانسن کام کر رہی ہے، وہ یہیں اس پلانٹ پر مکمل ہوگی۔

    کرونا وائرس: یورپ نے ویکسین بننے سے قبل ہی خرید لی

    اٹلی میں ممکنہ ویکسین تیار کرنے کا یہ منصوبہ دونوں امریکی کمپنیوں کے مابین موجود معاہدے کی توسیع ہے، واضح رہے کہ اپریل میں امریکی کمپنی کیٹالینٹ نے جے اینڈ جے کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ویکسین کی شیشی کی بھرائی اور اس کی پیکیجنگ سروسز امریکی ریاست انڈیانا کے شہر بلومنگٹن میں واقع پلانٹ میں ہونی تھی۔

    اٹلی کے وزیر صحت نے کہا ہے کہ اب ویکسین کی تیاری کا پورا عمل اٹلی ہی میں ہوگا۔

    امریکی گروپ کیٹالینٹ، آسٹرا زینیکا (برطانوی سویڈش فارماسیوٹیکل کمپنی) کے لیے بھی کرونا ویکسین کے سلسلے میں شیشی بھرائی اور فنشنگ کی خدمات فراہم کر رہا ہے، یہ گروپ وبا کے دوران ویکسین کے کروڑوں ڈوز کی تیاری کے مراحل میں اپنی خدمات فراہم کرے گا۔

  • امریکا میں بنائی جانے والی ویکسین تیاری کے قریب

    امریکا میں بنائی جانے والی ویکسین تیاری کے قریب

    واشنگٹن: امریکا میں کرونا وائرس کے خلاف تیار کی جانے والی ویکسین کے ٹرائل میں شامل رضا کار ایک اور ٹرائل میں شامل ہوں گے جس کے بعد ویکسین کی اثر انگیزی کا تعین کیا جاسکے گا۔

    یہ ویکسین امریکی بائیو ٹیک کمپنی ماڈرینا کی تیار کردہ ہے جس کے ٹرائل میں شامل 30 ہزار رضا کار ایک اور لیٹ اسٹیج ٹرائل میں شامل ہوں گے، جبکہ کچھ رضا کار ایسے ہوں گے جو اس مرحلے میں پہلی بار شامل ہوں گے۔

    وائٹ ہاؤس کی کرونا ٹاسک فورس کے رکن ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا کہنا ہے کہ رواں سال موسم سرما کے اختتام یا سنہ 2021 کے اواخر تک ہم جان جائیں گے کہ کیا ہم ایک محفوظ اور مؤثر ویکسین حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں؟

    امریکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرانسز کولنز کا بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامہ ویکسین ایکسلریشن پروگرام کے تحت سال کے آخر تک ایک محفوظ اور مؤثر ویکسین تیار کرنے میں کامیاب رہے گی۔

    دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی پر امید ہیں کہ امریکا جلد ہی کرونا وائرس کی ویکسین تیار کر لے گا۔

    امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے کمشنر اسٹیفن ہان کے مطابق ایف ڈی اے نے 4 مختلف ویکسینز کے لیے کلینیکل ٹرائلز کی اجازت دے دی ہے، 2 ویکسینز کے ٹرائلز جولائی میں شروع ہو جائیں گے۔

  • ایک اور ویکسین کی آزمائش کامیاب

    ایک اور ویکسین کی آزمائش کامیاب

    فرینکفرٹ: جرمنی کی بائیو ٹیک فرم بائیو این ٹیک اور امریکی فارماسیوٹیکل کمپنی فائزر کی تیار کردہ ویکسین کی مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے۔

    فائزر کی تیار کردہ ویکسین دنیا بھر میں اس وقت تیاری اور ٹیسٹ کے مراحل میں موجود 17 ویکسینز میں سے ایک ہے، ان ویکسینز میں ماڈرینا، کین سینو بائیو لوجکس اور انوویو کی بنائی گئی ویکسین شامل ہے۔

    بائیو این ٹیک کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی ویکسین 24 صحت مند افراد پر ٹیسٹ کی اور 28 دن بعد ان کے جسم میں کرونا وائرس کے خلاف وہ اینٹی باڈیز پیدا ہوئیں جو کرونا سے صحتیاب مریضوں کے خون میں پیدا ہوتی ہیں۔

    مذکورہ افراد کو اس ویکسین کی 2 خوراکیں 3 ہفتے کے اندر دی گئیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کے نتائج سے ثابت ہوا کہ ان کی تیار کردہ ویکسین قوت مدافعت میں اضافے کے لیے معاون ثابت ہو رہی ہے۔

    اس سے قبل انوویو کی تیار کردہ ویکسین ٹیسٹ کے نتائج بھی جاری کیے گئے تھے، انسانی آزمائش کے دوران ویکسین محفوظ اور مؤثر ثابت ہوئی۔

    کمپنی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ویکسین نے 36 میں سے 34 صحت مند رضا کاروں میں قوت مدافعت میں اضافہ کیا۔

    کمپنی نے بتایا کہ جن صحت مند رضا کاروں پر ویکسین کی آزمائش کی گئی ہے ان کی عمریں 18 سے 50 سال کے درمیان تھیں، تاہم کمپنی نے مزید تفصیل بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس آزمائش کا مکمل ڈیٹا بعد میں میڈیکل جنرل میں شائع کیا جائے گا۔

  • کرونا وائرس: یورپ نے ویکسین بننے سے قبل ہی خرید لی

    کرونا وائرس: یورپ نے ویکسین بننے سے قبل ہی خرید لی

    روم: امریکی بائیو فارما سیوٹیکل کمپنی ایسٹرا زینیکا نے یورپی ممالک کو کرونا وائرس کی ویکسین فروخت کرنے کا معاہدہ کرلیا، ویکسین تاحال تیاری کے مراحل میں ہے۔

    امریکی بائیو فارما سیوٹیکل کمپنی ایسٹرا زینیکا نے کرونا وائرس کے خلاف اپنی ممکنہ ویکسین کی فروخت کا معاہدہ کرلیا، معاہدہ یورپی ممالک کے ساتھ کیا گیا ہے جس کے تحت کمپنی ویکسین کی 40 کروڑ سے زائد خوراکیں یورپ کو فراہم کرے گی۔

    خیال رہے کہ یورپی ممالک فرانس، جرمنی، اٹلی اور نیدر لینڈز نے ایک انکلوژو ویکسین الائنس بنا رکھا ہے جس کا مقصد ہے کہ ویکسین بنتے ہی اسے جلد از جلد تمام رکن ممالک کے لیے حاصل کیا جائے۔

    یورپ کے علاوہ بھی دنیا کے کئی ممالک ویکسین بننے سے قبل ہی اسے خریدینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

    کمپنی ویکسین کی مینوفیکچرنگ میں اضافے پر غور کر رہی ہے، اس کی فراہمی ممکنہ طور پر سنہ 2020 کے آخر تک شروع ہوجائے گی۔

    ایسٹرا زینیکا اس ویکسین کی 2 ارب خوراکیں بنانے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ امریکا کی جانب سے مزید 10 کروڑ خوراکیں بنانے کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی ادائیگی کا معاہدہ پہلے ہی طے پاچکا ہے۔

    ویکیسن کے تجرباتی مراحل جاری ہیں اور کمپنی کے ترجمان کے مطابق یہ رواں برس موسم خزاں کے اختتام تک مکمل ہوجائیں گے۔

  • ایسی ویکسین جو مستقبل میں آنے والی ’تمام وباؤں‘ کو روک سکتی ہے

    ایسی ویکسین جو مستقبل میں آنے والی ’تمام وباؤں‘ کو روک سکتی ہے

    کمبوڈیا میں مچھر کے تھوک سے بنائی جانے والی ویکسین کو، انسانی آزمائش کے حیران کن نتائج کے بعد کامیاب قرار دیا جارہا ہے۔

    5 سال قبل امریکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشیئس ڈیزیز کی ایک محقق جیسیکا میننگ نے مچھر کے تھوک سے ویکسین بنانے کا خیال پیش کیا تھا۔

    جیسیکا کا خیال تھا کہ مچھر کے تھوک میں موجود پروٹین ایک طاقتور ویکسین ثابت ہوسکتا ہے اور یہ ویکسین ایسی بیماریوں کے خلاف مزاحمت پیدا کرسکتی ہے جو کسی کیڑے سے انسان میں منتقل ہوتی ہیں جیسے ملیریا، ڈینگی، چکن گونیا، زیکا، زرد بخار، ویسٹ نائل وغیرہ۔

    گزشتہ 5 سال سے جیسیکا کے اپنی ٹیم کے ساتھ اس منصوبے پر کام کرنے کے بعد اب دا لینسٹ نامی جریدے میں اس تحقیق، اور اس ویکسین کے پہلے انسانی ٹرائل کے نتائج شائع کیے گئے ہیں۔

    ویکسین کے انسانی ٹرائل سے علم ہوا ہے کہ یہ ویکسین نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اس کی بدولت انسانی جسم میں خلیات اور اینٹی باڈیز فعال ہوئیں جنہوں نے مختلف بیماریوں کو حملہ آور ہونے سے روکا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کے کام کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ یہ انسانی جسم کے اندر جا کر قوت مدافعت کو اس پروٹین سے آگاہ کرے گی جو مچھر کے کاٹنے کی صورت میں جسم میں داخل ہوتا ہے اور بیماری پیدا کرتا ہے۔

    اس طرح قوت مدافعت اس پروٹین سے مطابقت کرلے گی اور مچھر کا کاٹا اس کے لیے بے اثر ہوجائے گا۔

    مائیکل مک کرین نامی ایک محقق کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق نہایت اہم ہے اور طب کی دنیا میں ایک اہم پیشرفت ثابت ہوگی۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق مچھر بلاشبہ ایک خطرناک ترین جانور ہے جو انسانوں کو سنگین امراض میں مبتلا کردیتا ہے۔ مچھر کے کاٹے سے پیدا ہونے والی بیماری ملیریا ہر سال دنیا بھر میں 4 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔

    یہ اموات زیادہ تر غریب ممالک میں ہوتی ہیں جہاں طبی سہولتوں کا فقدان، دواؤں اور ویکسینز کی عدم دستیابی تشویشناک صورتحال اختیار کرچکی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ویکسین نہایت کم قیمت ہوسکتی ہے جس کے باعث غریب ممالک میں بھی اس کی دستیابی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔

  • کرونا وائرس کی ممکنہ ویکسین کے حوالے سے اہم پیش رفت

    کرونا وائرس کی ممکنہ ویکسین کے حوالے سے اہم پیش رفت

    بیجنگ: چین میں تیار کی جانے والی کرونا وائرس کی ایک ممکنہ ویکسین کے بندروں پر بہتر نتائج سامنے آئے ہیں، ویکسین کے انسانوں پر ٹرائلز جاری ہیں۔

    بیجنگ کے انسٹی ٹیوٹ آف بائیولوجیکل پروڈکٹس کے ماہرین کی تیار کردہ اس ویکسین کی مختلف جانوروں پر آزمائش کی گئی جن میں بندر بھی شامل تھے۔

    ماہرین نے دیکھا کہ اس ویکسین نے بندروں، چوہوں اور خرگوشوں میں اینٹی باڈیز کو متحرک کیا اور ان اینٹی باڈیز نے وائرس کو خلیوں کو متاثر کرنے سے روک دیا۔

    اس ویکسین کی انسانی آزمائش بھی جاری ہے اور 1 ہزار انسانوں پر اس ویکسین کے ٹرائلز کیے جارہے ہیں۔

    یہ چین میں تیار کی جانے والی کرونا وائرس کی پانچویں ویکسین ہے جو اپنے ٹرائلز کے مراحل میں ہے، چین کے علاوہ مختلف ممالک میں تقریباً 100 کے قریب ویکسینز تیاری اور ٹرائلز کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق چین کے طبی حکام نے کرونا ویکسینز کے حوالے سے گائیڈ لائنز پر مبنی مسودہ بھی تیار کر لیا ہے۔

    اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چین ستمبر ہی میں ویکسین متعارف کروا دے گا اور اس طرح دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا۔

    ڈیلی ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر چین ویکسین تیار کرنے میں امریکا سے بازی لے گیا تو چینی معیشت کی بحالی کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی، صدر ٹرمپ کی ویکسین کی تیاری کے تیز رفتار منصوبوں کو بھی اس سے دھچکا پہنچے گا۔

    رپورٹ میں اس امکان کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ چین تیار کردہ ویکسینز ایسی صورت میں بھی متعارف کروا سکتا ہے جب یہ ابھی کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے میں ہی ہوں۔

    چین کووڈ 19 کی ویکسینز اور علاج کے لیے اب تک 4 ارب یو آن خرچ کر چکا ہے، رواں ہفتے چینی وزیر اعظم لی چیانگ نے مزید رقم خرچ کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

  • سارس وائرس کی ویکسین بنانے والی کمپنی نے کرونا وائرس کی ویکسین بھی تیار کرلی

    سارس وائرس کی ویکسین بنانے والی کمپنی نے کرونا وائرس کی ویکسین بھی تیار کرلی

    واشنگٹن: ویکسین بنانے والی امریکی کمپنی نووا ویکس نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے کرونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار کرلی ہے جس کے کلینیکل ٹرائلز جلد شروع کردیے جائیں گے۔

    کمپنی نے سوموار کے روز اعلان کیا کہ انہوں نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ویکسین تیار کرلی ہے اور اس کی انسانی آزمائش جلد آسٹریلیا میں شروع کردی جائے گی۔

    کمپنی کے مطابق ویکسین کے نتائج جولائی 2020 میں سامنے آئیں گے۔

    کمپنی کے صدر اسٹینلے سی ایرک کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کے کلینل ٹرائلز اس مرض کے خلاف جنگ میں ایک اہم کامیابی سمجھے جائیں گے۔

    یہ کمپنی اس سے قبل سارس وائرس کی ویکسین بھی تیار کر چکی ہے، اس کمپنی کے علاوہ ایک اور امریکی کمپنی ماڈرینا اور ایک جرمن کمپنی بائیو این ٹیک بھی کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

    نووا ویکس کی بنائی گئی ویکسین ایک سب یونٹ (ایک اہم جز پر مشتمل) ویکسین ہے جو وائرس کے پروٹین کی نقول جسم کے اندر داخل کر دیتی ہے اور یوں وائرس کے خلاف قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔

    ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کے دوران 18 سے 59 سال کے 130 صحت مند افراد کو یہ ویکسین دی جائے گی۔

    کمپنی نے گزشتہ ہفتے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اگر ان کی ویکسین کامیاب ہوجاتی ہے تو انہیں 388 ملین ڈالر کے عطیات موصول ہوں گے۔

    دوسری جانب چین میں تیار کی گئی کرونا وائرس ویکسین کی کامیاب آزمائش کرلی گئی تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین اس وائرس کو مکمل طور پر بے اثر نہیں کر سکے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کے اثر سے مذکورہ افراد کے جسم میں اینٹی باڈیز تو پیدا ہوگئیں لیکن ابھی یہ بات دعوے کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ یہ ویکسین کوویڈ 19 کو مکمل طور پر ختم کر پائے گی یا نہیں۔

    ادھر لندن کے جینرز انسٹی ٹیوٹ آف آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ کرونا وائرس ویکسین کی انسانی آزمائش کا بھی پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہوچکا ہے۔

    یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ ویکسین کی آزمائش کے پہلے مرحلے میں 18 سے 55 سال کے افراد شریک ہوئے جبکہ دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے 10 ہزار 260 افراد کی رجسٹریشن کی آغاز کردیا گیا ہے۔

  • نئی تحقیق میں کرونا وائرس کی ویکسین کے حوالے سے خوشخبری

    نئی تحقیق میں کرونا وائرس کی ویکسین کے حوالے سے خوشخبری

    شکاگو: امریکا میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کرونا وائرس کی ویکسین کے حوالے سے مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے، ماہرین نے اسے خوشخبری قرار دیا ہے۔

    امریکا میں بندروں پر کی جانے والی 2 ریسرچز نے، جس کے نتائج جرنل سائنس میں شائع ہوئے، ماہرین میں کرونا وائرس کے خاتمے کے حوالے سے نئی امید پیدا کردی ہے۔

    ان ریسرچز سے پہلی بار سائنسی ثبوت ملا ہے کہ کرونا وائرس سے صحتیاب جسم میں اس وائرس کے خلاف حفاظتی ڈھال پیدا ہوجاتی ہے جو انہیں دوبارہ اس سے متاثر ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔

    پہلی تحقیق میں ماہرین نے 9 ایسے بندروں کا جائزہ لیا جو کرونا وائرس سے متاثر تھے۔ صحتیابی کے بعد جب ان بندروں کو دوبارہ متاثرہ بندروں کے ساتھ رکھا گیا تو وائرس ان پر بے اثر رہا اور وہ دوبارہ کوویڈ 19 کی بیماری میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہے۔

    تحقیق میں شامل ڈاکٹر ڈین کا کہنا ہے کہ ان بندروں میں اس وائرس کے خلاف قدرتی مدافعت پیدا ہوگئی جس سے وہ دوبارہ متاثر نہیں ہوئے، ‘یہ ایک نہایت حوصلہ افزا خبر ہے’۔

    دوسری تحقیق میں ماہرین نے 25 بندروں پر 6 اقسام کی ویکسینز آزمائیں اور جائزہ لیا کہ آیا ان ویکسینز کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اینٹی باڈیز کرونا وائرس کے دوسرے حملے کو روک سکتی ہیں یا نہیں۔

    اس کے بعد ان تمام بندروں اور مزید 10 جانوروں (جنہیں ویکسین نہیں دی گئی) کو کرونا وائرس سے متاثر کیا گیا۔ ماہرین نے دیکھا کہ غیر ویکسی نیٹڈ جانوروں کے پھیپھڑوں اور ناک میں وائرس شدت کے ساتھ موجود تھا۔

    تاہم ویکسین دیے جانے والے بندروں میں وائرس کم شدت کے ساتھ موجود تھا، ان میں سے 8 بندر وائرس سے مکمل طور پر محفوظ تھے۔

    ماہرین کے مطابق اس تحقیق سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آیا انسانوں میں بھی ویکسین کے یہی نتائج آئیں گے اور وہ کرونا وائرس کے دوبارہ حملے کے خلاف مدافعت پیدا کرسکیں گے، اور اگر ہاں، تو یہ مدافعت کتنے عرصے تک کے لیے ہوگی۔

    تاہم ماہرین پرامید ہیں کہ اس ڈیٹا سے اس مہلک وائرس کے خلاف مزید تحقیق میں مدد ملے گی۔

  • کرونا وائرس: تمباکو کے پتوں سے ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ

    کرونا وائرس: تمباکو کے پتوں سے ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کا علاج اور اس کی ویکسین تیار کرنے کی سر توڑ کوششیں کی جارہی ہیں، حال ہی میں سگریٹ بنانے والی ایک کمپنی نے کہا ہے کہ انہوں نے تمباکو کے پتوں سے ویکسین تیار کی ہے۔

    دنیا کی دوسری بڑی ٹوبیکو کمپنی برٹش امریکن ٹوبیکو کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف ان کی ویکسین تیار ہوچکی ہے، ویکسین میں تمباکو کے پتوں میں موجود پروٹین شامل کیا گیا ہے جس سے ایک ٹیسٹ میں انسانی قوت مدافعت میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ جیسے ہی ان کی تیار کردہ ویکسین کو امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی منظوری ملتی ہے وہ اس کی انسانی آزمائش کے پہلے مرحلے کا آغاز کردیں گے۔

    کمپنی نے اس سے قبل اپریل میں جب ویکسین بنانے کا اعلان کیا تھا تو اسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، کمپنی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ تمباکو کے پتوں سے ویکسین تیار کر رہے ہیں اور اگر اس کی حکومت سے منظوری مل گئی تو وہ ہر ہفتے 10 سے 30 لاکھ خوراکیں تیار کرسکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے خلاف مختلف ویکسینز اور علاج کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں کورین ماہرین نے کرونا وائرس کے مرض کے لیے ایسی دوا تلاش کر لی ہے جو ریمڈسیور سے بھی زیادہ مؤثر ہے۔

    اس دوا کا نام نیفاموسٹیٹ ہے اور یہ لبلبے (پنکریاز) کے کینسر کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے، یہ بیماری روکنے والی قوی اینٹی وائرل دوا ہے۔ یہ ان 24 ادویات میں سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئی جن کا ویرو سیل کلچر کے ساتھ تجربہ کیا گیا تھا۔

    ویرو سیلز ان خلیات کا شجرہ نسب ہے جو افریقی سبز بندر کے گردے سے پیدا ہوتے ہیں، اور یہ سیل کلچرز (ٹیسٹس) میں تواتر کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں۔

  • کیا کورونا وائرس کی ویکسین کبھی تیار نہیں ہوگی؟

    کیا کورونا وائرس کی ویکسین کبھی تیار نہیں ہوگی؟

    لندن: عالمی اداراہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سینئر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر چہ اس وقت سو سے زائد ویکسین کی تجربہ گاہ میں جانچ اور آزمائش جاری‌ ہے مگر کرونا ویکسین دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے ماہر نے خبردار کیا کہ ایچ آئی وی اور ڈینگی کی بیماریوں پر بھی گزشتہ کئی سالوں سے تحقیق جاری ہے، ان میں سے کچھ انسانی آزمائش کے مرحلے میں داخل بھی ہوگئی ہیں۔

    اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس وقت سو سے زائد ویکسین پری کلینیکل ٹرائلز اوراُن میں سے چند انسانوں پر آزمائی جاچکی ہیں
    مگر خوفناک بات یہ ہے کہ ہمیں کرونا کی ویکسین کے اثرات ابھی نظر نہیں آرہے۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ نیبرو کا کہنا تھا کہ ‘چند وائرس ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم حتمی بات نہیں کرسکتے، اسی وجہ سے اُن کی ویکسین پر کام شروع نہیں ہوسکا۔

    امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کرونا کے کیسز میں ہوشربا اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے، نئی اطلاعات کے مطابق کچھ ممالک میں لاک ڈاؤن میں نرمی بھی کی گئی ہے جس سے صورت حال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں ایچ آئی وی ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں 3 کروڑ بیس لاکھ لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈینگی وائرس کی وجہ سے سالانہ چار لاکھ سے زائد اموات ہوتی ہیں۔

    کچھ ممالک میں ڈینگی سے بچنے کے لئے ایک ویکسین (ڈینگ ویکسیا) دستیاب ہے جو 9-45 سال کی عمر کے لوگوں کے لئے ہے۔

    لیکن ڈبلیو ایچ او نے سفارش کی ہے کہ یہ ویکسین صرف ایسے افراد کو دی جائے جو پہلے سے تصدیق شدہ ڈینگی وائرس کے انفیکشن میں مبتلا رہ چکے ہوں، کوویڈ19 بیماری مستقبل میں ہمارے ساتھ کئی سال رہ سکتی ہے اور معاشی طور پر لاک ڈاؤن پائیدار نہیں ہے۔