Tag: Vaccine

  • یورپ میں کورونا ویکسین وائرس پر قابو نہ پاسکی، عالمی ادارہ صحت

    یورپ میں کورونا ویکسین وائرس پر قابو نہ پاسکی، عالمی ادارہ صحت

    جنیوا : عالمی ادارہ صحت نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ بدقسمتی سے اب ویکسین بھی یورپ میں وائرس کو نہیں روک پا رہی۔

    اطلاعات کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی کے سربراہ ڈاکٹر مائیکل ریان نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یہاں بہت سی ویکسین دستیاب ہوں لیکن ویکسین کی تقسیم یکساں نہیں رہی۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ویکسین کی مناسب فراہمی کے باوجود یورپ میں کورونا وائرس کے انفیکشن کے کیسز میں 50 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے اور یورپ وبا کا مرکز بن رہا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی کے سربراہ ڈاکٹر مائیکل ریان نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یہاں بہت سی ویکسین دستیاب ہوں لیکن ویکسین کی تقسیم یکساں نہیں رہی۔

    انہوں نے یورپی حکام سے ویکسینیشن کے خلا کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے کہا کہ جن ممالک نے اپنی 40 فیصد آبادی کو ویکسین لگائی ہے انہیں اب روکنا چاہیے اور ایسے ترقی پذیر ممالک کو ویکسین کا عطیہ دینا چاہیے جو اپنے شہریوں کو ویکسین کی پہلی خوراک اب تک نہیں دے سکے ہیں۔

    اس سے قبل عالمی ادارہ صحت کے علاقائی دفتر کے سربراہ ڈاکٹر ہنس کلوگ نے ​​کہا تھا کہ یورپ اور وسطی ایشیا کے 53 ممالک خطے میں کورونا وائرس کی ایک اور لہر کے خطرے سے دوچار ہیں یا پہلے ہی وبا کی نئی لہر کا سامنا کر رہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ کورونا کیسز کی تعداد دوبارہ بڑھ کر ریکارڈ سطح کے قریب پہنچ گئی ہے، خطے میں انفیکشن کے پھیلاؤ کی رفتار انتہائی تشویشناک ہے۔

  • کووڈ ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کم مؤثر

    کووڈ ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کم مؤثر

    کرونا وائرس کی نئی اقسام سے ویکسین کی افادیت کم ہوتی دکھائی دی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ میو قسم، ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپانی ماہرین کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم میو ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتی ہے۔

    ٹوکیو یونیورسٹی کے شعبہ میڈیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ساتو کے کی زیر قیادت گروپ نے اپنی تحقیق دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع کی ہے۔

    ماہرین نے میو کی خصوصیات کا حامل ایک وائرس مصنوعی طور پر تیار کیا اور فائزر بیون ٹیک ویکسین لگوا چکنے والے افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کے خلاف اس کی حساسیت کا جائزہ لیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ تبدیل شدہ وائرس میو، اصل وائرس کے مقابلے میں ان کے خلاف 9.1 گنا زیادہ مزاحم تھا، گویا ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز اس کے خلاف کم مؤثر تھیں۔

    گروپ کا کہنا ہے کہ ویکسین کے اینٹی باڈی بنانے کے علاوہ بھی مختلف اثرات ہوتے ہیں، اور ویکسین کی تاثیر کم ہونے کا جائزہ لینے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • بھارتی شراکت سے تیار کووڈ ویکسین کے ایک ملک میں استعمال کی منظوری

    بھارتی شراکت سے تیار کووڈ ویکسین کے ایک ملک میں استعمال کی منظوری

    امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی اور اس کے شراکت دار سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کو انڈونیشیا میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری دے دی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق نووا ویکس اور اس کے شراکت دار سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کو پہلے ملک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری حاصل ہوگئی ہے۔

    کمپنیوں کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا کہ انڈونیشیا میں ان کی کووڈ 19 ویکسین کو استعمال کی منظوری حاصل ہوئی۔

    خیال رہے کہ نووا ویکس کی جانب سے برطانیہ، بھارت، آسٹریلیا، فلپائن اور یورپین میڈیسن ایجنسی کے پاس بھی ویکسین کی منظوری کے لیے درخواستیں جمع کروائی جا چکی ہیں۔

    انڈونیشیا میں یہ ویکسین سیرم انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے تیار کر کے کوو ویکس کے نام سے فراہم کی جائے گی، نووا ویکس نے بتایا کہ انڈونیشیا کو ویکسین کی پہلی کھیپ جلد فراہم کردی جائے گی۔

    انڈونیشین حکومت کے مطابق پروٹین پر مبنی ویکسین کی 2 کروڑ خوراکیں 2021 میں موصول ہوں گی۔

    نووا ویکس اور سیرم انسٹی ٹیوٹ نے ایک ارب 10 خوراکیں عالمی ادارہ صحت کے زیر تحت کام کرنے والے ادارے کوو ویکس کو فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

    ویکسین کی فراہمی کا سلسلہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایمرجنسی استعمال کی منظوری کے بعد 2021 میں ہی شروع ہوجائے گی اور یہ سلسلہ 2022 میں بھی جاری رہے گا۔

    گزشتہ ماہ نووا ویکس اور سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے عالمی ادارہ صحت میں اس ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری کے لیے درخواست جمع کروائی تھی۔

    اس کا مقصد کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں اس ویکسین کو فراہم کرنا ہے کیونکہ امریکا اور یورپ میں پہلے ہی فائزر، موڈرنا، جانسن اینڈ جانسن اور ایسٹرا زینیکا ویکسینز کو عام استعمال کیا جارہا ہے۔

    خیال رہے کہ ویکسین کے انسانی ٹرائل کے آخری مرحلے میں دریافت کیا گیا تھا کہ یہ ویکسین کرونا وائرس کی اوریجنل قسم سے ہونے والی بیماری سے 96 فیصد تک تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    امریکا اور میکسیکو میں 30 ہزار افراد پر آخری مرحلے کے ٹرائل کے ڈیٹا کے مطابق این وی ایکس کو وی 2373 نامی یہ ویکسین بیماری کی معتدل اور سنگین شدت سے 100 فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے جبکہ اس کی مجموعی افادیت 90.4 فیصد ہے۔

  • کرونا ویکسین کی افادیت کچھ ماہ میں کم ہوجاتی ہے

    کرونا ویکسین کی افادیت کچھ ماہ میں کم ہوجاتی ہے

    کووڈ 19 کی ویکسی نیشن اس بیماری سے تحفظ کے لیے نہایت ضروری ہے تاہم اب ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ویکسی نیشن کے کچھ ماہ بعد اس کی افادیت میں کمی ہوجاتی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق میں پتہ چلا کہ کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا کے خلاف ہر عمر کے افراد میں ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد بننے والی مدافعت چند ماہ میں گھٹ جاتی ہے۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع تحقیق میں اسرائیل میں 11 سے 31 جولائی کے دوران کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    اسرائیل کے تمام شہریوں کی فائزر سے ویکسی نیشن جون 2021 سے مکمل ہوگئی تھی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ 60 سال یا اس سے زائد عمر کے ایسے افراد جن کی ویکسی نیشن جنوری 2021 میں ہوئی تھی، ان میں کووڈ کا خطرہ مارچ میں ویکسی نیشن کرانے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح 2021 کے آغاز میں ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں مارچ یا اپریل میں ویکسین استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں بیماری کا خطرہ زیادہ دریافت ہوا۔

    اس سے قبل اکتوبر 2021 کے آغاز میں مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں بھی عندیہ دیا گیا تھا کہ فائزر / بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین سے بیماری کے خلاف ملنے والے تحفظ کی شرح ویکسی نیشن مکمل ہونے کے 2 ماہ بعد گھٹنا شروع ہوجاتی ہے، تاہم بیماری کی سنگین شدت، اسپتال میں داخلے اور اموات کے خلاف ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔

  • بریسٹ کینسر ویکسین کے پہلے ٹرائل کا اعلان

    بریسٹ کینسر ویکسین کے پہلے ٹرائل کا اعلان

    دنیا بھر کی خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کی روک تھام کے لیے تیار کی گئی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا اعلان کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے کلیو لینڈ کلینک نے 26 اکتوبر 2021 کو ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کی روک تھام کرنے والی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا اعلان کیا ہے۔

    بریسٹ کینسر کی اس قسم کے خلاف ہارمون یا ٹارگٹڈ ادویات کام نہیں کرتیں، اب تک بریسٹ کینسر کی اس خطرناک قسم کی روک تھام کے لیے ویکسینز کی تیاری لیبارٹری اور جانوروں تک محدود تھی، مگر اب انسانوں پر ٹرائل اہم ترین پیشرفت ہے۔

    اس ٹرائل میں ایسی خواتین کو شامل کیا جائے گا جو ابتدائی مرحلے میں ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر سے نجات پاچکی ہیں مگر اس کے دوبارہ لوٹنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔

    ماہرین کو توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں زیادہ خطرے سے دو چار صحت مند افراد کو شامل کیا جائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ طویل المعیاد بنیادوں پر ہمیں توقع ہے کہ یہ ایک مؤثر ویکسین ثابت ہوگی جس کے استعمال سے صحت مند خواتین بریسٹ کینسر کی اس جان لیوا قسم کا شکار ہونے سے بچ سکیں گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ بریسٹ کینسر کی وہ قسم ہے جس کے خلاف علاج سب سے کم مؤثر ہیں۔

    ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کا سامنا کینسر کی اس قسم کا سامنا کرنے والی 12 سے 15 فیصد خواتین کو ہوتا ہے اور تشخیص کے بعد ایک چوتھائی کے قریب مریض 5 سال کے اندر ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    ٹرائل میں شامل رضا کاروں کو یہ ویکسین 3 خوراکوں میں استعمال کروائی جائے گی جس میں ایک ایسی دوا شامل ہے جو اس قسم کا خطرہ بڑھانے والے ایک مخصوص پروٹین کے خلاف مدافعتی نظام کو متحرک کرے گی۔

    ہر خوراک میں 2 ہفتے کا وقفہ ہوگا اور آغاز میں چند خواتین کو کم مقدار کی خوراک دی جائے گی جس کے بعد ان کی مانیٹرنگ کی جائے گی اور پھر مقدار اور خواتین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔

    ٹرائل میں 18 سے 24 ایسی خواتین کو شامل کیا جائے گا جو گزشتہ 3 برسوں کے دوران ابتدائی مرحلے میں کینسر کو شکت دے چکی ہوں گی۔

    ماہرین کے مطابق ایک بار ہم تعین کرلیں کہ کتنی مقدار میں ویکسین دی جانی چاہیئے، اس کے بعد ہم مدافعتی نظام پر اس کے اثرات کی جانچ پڑتال کریں گے، جس سے یہ تعین کرنے میں مدد ملے گی ویکسین کتنی کارآمد ہے۔

    اس حوالے سے تحقیق ستمبر 2022 تک مکمل ہونے کا امکان ہے اور اس کے لیے فنڈز امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے فراہم کیے جائیں گے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ویکسین کی یہ حکمت عملی ممکنہ طور پر دیگر اقسام کی رسولیوں پر بھی کام کرسکتی ہے، اگر ٹرائل کامیاب ہوا تو اس سے بالغ افراد میں کینسر کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکے گی۔

  • کرونا وائرس کے خلاف ایک اور نئی ویکسین، حوصلہ افزا نتائج

    کرونا وائرس کے خلاف ایک اور نئی ویکسین، حوصلہ افزا نتائج

    پیرس: فرانسیسی دوا ساز کمپنی والنیوا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی ویکسین کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین کرونا کی تمام اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق والنیوا کی جانب سے اپنی ویکسین کے تیسرے ٹرائل کے جاری اعداد و شمار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ویکسین اینٹی باڈیز بنانے میں 95 فیصد تک کام کرتی ہے۔

    کمپنی کے مطابق تیسرے مرحلے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ والنیوا ویکسین کرونا کی تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہے اور ٹرائل کے دوران کوئی بھی مریض نہ تو وبا کا شکار ہوا اور نہ ہی کسی کو ویکسین کے برے اثرات کی وجہ سے اسپتال لے جانا پڑا۔

    کمپنی کا دعویٰ ہے کہ والنیوا ویکسین بھی برطانوی کمپنی کی ویکسین ایسٹرا زینیکا جتنی مؤثر ہے جب کہ اس کے منفی اثرات باقی ویکسینز کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

    والنیوا کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ویکسین کا تیسرا آزمائشی پروگرام ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ برطانیہ میں کرونا کی خطرناک قسم ڈیلٹا عروج پر تھی۔

    کمپنی کے مطابق ویکسین لگوانے والے کسی بھی شخص میں کرونا کی تشخیص نہیں ہوئی جب کہ ان میں اینٹی باڈیز بننے کی گنجائش 95 فیصد تک بڑھ گئی تھی۔

    کمپنی نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی ویکسین میں ان ایکٹویٹ کی پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین میں پہلے سے ہی مردہ کرونا وائرس شامل ہے جو کہ انسانی جسم میں داخل ہوکر وائرس کی پیدائش کو ناکام بناتا ہے۔

    کمپنی کے مطابق یہی ٹیکنالوجی پولیو اور فلو ویکسین میں استعمال کی جاتی رہی ہے۔

    اہم ترین ٹرائل کے حوصلہ افزا نتائج آنے کے بعد کمپنی جلد ہی برطانوی حکومت کو ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت کی درخواست دے گی جب کہ کمپنی یورپین یونین کے ڈرگ ریگولیٹر ادارے کو بھی درخواست دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

    کمپنی کو امید ہے کہ برطانوی حکومت ڈیٹا کی بنیاد پر رواں برس کے اختتام یا پھر 2022 کے آغاز تک ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے گی جب کہ یورپین یونین مارچ 2022 تک ویکسین کے استعمال کی اجازت دے گا۔

  • کرونا ویکسی نیشن: ڈیلٹا وائرس سے موت کا خطرہ 90 فیصد کم

    کرونا ویکسی نیشن: ڈیلٹا وائرس سے موت کا خطرہ 90 فیصد کم

    دنیا بھر میں کووڈ 19 کے خلاف ویکسی نیشن جاری ہے، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ ویکسی نیشن کروانے سے کرونا وائرس کی سب سے خطرناک قسم ڈیلٹا سے موت کا خطرہ 90 فیصد کم ہوجاتا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اسکاٹ لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ویکسی نیشن سے کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا سے بیمار ہونے پر موت کا خطرہ 90 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    ایڈنبرگ یونیورسٹی کی جانب سے جاری ڈیٹا کے لیے پورے اسکاٹ لینڈ میں کووڈ سرویلنس ٹول کو استعمال کیا گیا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ ڈیلٹا سے موت کا خطرہ کم کرنے کے لیے فائزر / بائیو این ٹیک ویکسین 90 فیصد جبکہ ایسٹرا زینیکا ویکسین 91 فیصد تک مؤثر ہے۔

    تحقیق کے لیے ان افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی تھی مگر بعد ازاں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی۔

    یہ پہلی تحقیق ہے جس میں ثابت ہوا کہ پورے ملک میں ویکسی نیشن کرونا کی قسم ڈیلٹا سے متاثر ہونے پر موت سے بچانے کے لیے کس حد تک مؤثر ہے۔

    اس تحقیق میں یکم اپریل سے 27 ستمبر کے دوران اسکاٹ لینڈ کے 54 لاکھ افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ایک لاکھ 15 ہزار افراد میں کووڈ 19 کی تصدیق پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے ہوئی اور 201 مریض ہلاک ہوئے۔

    ڈیٹا کے مطابق اس عرصے میں اسکاٹ لینڈ میں موڈرنا ویکسی نیشن کرانے والے کوئی فرد کووڈ کے باعث ہلاک نہیں ہوا، ماہرین کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے کووڈ سے موت کی روک تھام کے حوالے سے موڈرنا کی افادیت کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں۔

    اب تک اسکاٹ لینڈ میں 87.1 فیصد بالغ افراد کی کووڈ ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے اور 50 سال سے زائد عمر کے تمام افراد کو تیسری خوراک فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جبکہ طبی عملے اور مختلف طبی مسائل کے شکار جوان افراد کو بھی بوسٹر ڈوز فراہم کیا جائے گا۔

    ماہرین نے بتایا کہ دنیا کے متعدد مقامات میں ڈیلٹا قسم کو غلبہ حاصل ہوچکا ہے اور سابقہ اقسام کے مقابلے میں یہ قسم اسپتال میں داخلے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، تو نتائج سے یہ یقین دہانی خوش آئند ہے کہ ویکسی نیشن موت سے بچانے کے لیے کتنی مؤثر ہے۔

  • کرونا وائرس ویکسین دوسرے ملتے جلتے وائرسز سے تحفظ میں بھی معاون

    کرونا وائرس ویکسین دوسرے ملتے جلتے وائرسز سے تحفظ میں بھی معاون

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی ویکسینز سے اس سے ملتے جلتے وائرسز سے بھی تحفظ ملتا ہے۔

    نارتھ ویسٹرن میڈیسن کی تحقیق کے نتائج سے عالمی کرونا وائرس ویکسینز تیار کرنے میں مدد مل سکے گی جو مستقبل میں وبائی امراض کی روک تھام کرسکیں گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے قبل یہ واضح نہیں تھا کہ کسی ایک کرونا وائرس سے متاثر ہونا دیگر کرونا وائرسز سے تحفظ فراہم کرتا ہے یا نہیں، تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔

    کرونا وائرسز کی 3 بنیادی اقسام انسانوں میں امراض کا باعث بنتی ہیں جن میں سارس کوو 1، سارس کوو 2 (کووڈ کا باعث بننے والی قسم) اور تیسری مرس ہے، مگر اس سے ہٹ کر عام نزلہ زکام کا باعث بننے والی اقسام بھی ہیں۔

    تحقیق میں کووڈ 19 ویکسینز کا استعمال کرنے والے افراد کے پلازما پر جانچ پڑتال کی گئی۔ ماہرین نے دریافت کیا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز سے سارس کوو 1 اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرس سے بھی تحفظ ملتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ماضی میں کرونا وائرسز سے ہونے والی بیماری سے بھی دیگر اقسام سے ہونے والے انفیکشنز سے تحفظ مل سکتا ہے۔

    تحقیق کے دوران چوہوں کو کووڈ 19 ویکسینز استعمال کر کے انہیں عام نزلہ زکام والے کرونا وائرس سے متاثر کیا تو دریافت ہوا کہ انہیں جزوی تحفظ ملا جو زیادہ ٹھوس نہیں تھا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی اقسام 70 فیصد سے زیادہ حد تک ملتی جلتی ہیں تو اس سے چوہوں کو تحفظ ملنے کی وضاحت ہوتی ہے، اگر ان کا سامنا کرونا وائرسز کی بالکل مختلف اقسام سے ہوتا تو ویکسینز سے زیادہ تحفظ نہیں ملتا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے یونیورسل کرونا وائرس ویکسین کے تصور کی دوبارہ جانچ پڑتال میں مدد مل سکے گی۔

  • امریکی ویکسینز کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    امریکی ویکسینز کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے خلاف مختلف ویکسینز استعمال کی جارہی ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ موڈرنا، فائزر اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسینز جسم میں 8 ماہ بعد بھی ٹھوس مدافعتی ردعمل برقرار رکھتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ موڈرنا، فائزر / بائیو این ٹیک اور جانسن اینڈ جانسن کووڈ 19 ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں 8 ماہ بعد بھی ٹھوس مدافعتی ردعمل موجود ہوتا ہے۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع تحقیق میں تینوں ویکسینز استعمال کرنے والے افراد کے خون کے نمونوں میں بیماری کے خلاف مدافعت کے مخصوص عناصر کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تینوں ویکسینز سے بیماری کی سنگین شدت سے ٹھوس اور دیرپا تحفظ جسم کو ملتا ہے۔

    مگر تحقیق میں ویکسینز سے اینٹی باڈیز بننے کے عمل میں فرق کا عندیہ بھی ملا، فائزر اور موڈرنا سے اینٹی باڈیز کی شرح بہت تیزی سے بڑھتی اور کم ہوتی ہے جبکہ جانسن اینڈ جانسن ویکسین سے اینٹی باڈیز کم ترین سطح سے شروع ہوتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ان میں زیادہ استحکام آتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق 8 ماہ بعد تینوں ویکسینز کا اینٹی باڈی ردعمل موازنے کے قابل ہوتا ہے۔

    خیال رہے کہ موڈرنا اور فائزر میں ایک ہی قسم کی ٹیکنالوجی ایم آر این اے پر انحصار کیا گیا ہے جبکہ جانسن اینڈ جانسن میں مختلف ٹیکنالوجی وائرل ویکٹر کا استعمال کیا گیا ہے۔

    یہ دونوں ٹیکنالوجیز مختلف اقسام کے مدافعتی ردعمل کا باعث بنتی ہیں۔

    تحقیق میں صرف اینٹی باڈیز ہی نہیں بلکہ ٹی سیلز کا بھی براہ راست موازنہ کیا گیا، ٹی سیلز مدافعتی نظام کا بہت اہم حصہ ہوتے ہیں اور اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے بعد بھی ان سے دیرپا تحفظ ملنے کا امکان ہوتا ہے۔

    تحقیق میں شامل 31 افراد نے فائزر، 22 نے موڈرنا جبکہ 8 نے جانسن اینڈ جانسن ویکسین کا استعمال کیا تھا۔

    محققین نے بتایا کہ ایم آر این اے ویکسینز کا اینٹی باڈی ردعمل 6 ماہ بعد تیزی سے کم ہوتا ہے اور 8 ماہ کے عرصے میں مزید گھٹ جاتا ہے جبکہ سنگل ڈوز جانسن اینڈ جانسن ویکسین کا ابتدائی اینٹی باڈی ردعمل کم ہوتا ہے مگر یہ ردعمل وقت کے ساتھ بڑھتا ہے اور اس میں کمی کے شواہد نہیں ملے۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ موڈرنا ویکسین کا اینٹی باڈی ردعمل فائزر کے مقابلے میں زیادہ اور دیرپا ہوتا ہے۔

    مجموعی طور پر تینوں ویکسینز سے کورونا کی مختلف اقسام کے خلاف مدافعتی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔

  • مرحومہ کلثوم نواز کی بھی جعلی ویکسینیشن انٹری سامنے آ گئی

    مرحومہ کلثوم نواز کی بھی جعلی ویکسینیشن انٹری سامنے آ گئی

    لاہور: زندہ لوگوں کے بعد مرحوم افراد کی بھی جعلی کرونا ویکسین انٹریاں ہونے لگیں، مرحومہ کلثوم نواز کی بھی جعلی ویکسینیشن انٹری سامنے آ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بعد ان کی اہلیہ مرحومہ بیگم کلثوم نواز کی بھی جعلی انٹری کا انکشاف ہوا ہے، مرحومہ کی کینسائنو ویکسین کی ڈوز کا اندراج سامنے آیا ہے۔

    مرحومہ بیگم کلثوم نواز کی ویکسین کی جعلی انٹری گزشتہ روز 5 اکتوبر کو کی گئی ہے، جب کہ ان کی ویکسین کا جعلی اندراج میلسی کے علاقے میں ہوا، بیگم کلثوم  تین سال قبل انتقال کر چکی ہیں۔

    ادھر اسحاق ڈار کا بھی جعلی اندراج سامنے آ گیاہے، اسحاق ڈار گزشتہ کئی سال سے نواز شریف کے ساتھ لندن میں مقیم ہیں، اسحاق ڈار کی جعلی ویکسین کا اندراج گزشتہ روز ملتان سے کیا گیا۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل میاں نواز شریف کا مختلف مقامات پر جعلی ویکسینیشن اندراج ہو چکا ہے، گزشتہ روز محکمہ صحت پنجاب نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے شناختی کارڈ پر ویکسینیشن کے جعلی اندراج کا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا۔

    نواز شریف کی ایک اور ویکسینیشن کا جعلی اندراج، محکمہ صحت نے ڈیٹا ڈیلیٹ کردیا

    نواز شریف کے شناختی کارڈ نمبر پر کرونا ویکسینیشن کے جعلی اندراج کی خبر منظر عام پر آتے ہی حکام نے تحقیقات شروع کر کے ملوث افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔

    محکمہ صحت پنجاب نے جعلی اندراج سے متعلق ایف آئی اے کو ایک اور درخواست لکھنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

    خیال رہے کہ لندن میں مقیم نواز شریف کی جعلی ویکسینیشن انٹری کرنے والے 2 ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں، دونوں کوٹ خواجہ سعید اسپتال کے ملازم ہیں۔