Tag: Vaccine

  • آکسفورڈ ویکسین سے خون گاڑھا ہونے کے مزید کیسز رپورٹ

    آکسفورڈ ویکسین سے خون گاڑھا ہونے کے مزید کیسز رپورٹ

    کوپن ہیگن: ڈنمارک میں آکسفورڈ کی کووڈ ویکسین کا استعمال مزید 3 ہفتے کے لیے روک دیا گیا، ویکسین کے استعمال سے خون گاڑھا ہونے اور لوتھڑے بننے کی شکایات پر تحقیقات جاری ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ڈنمارک میں خون گاڑھا ہونے اور خون کے لوتھڑے بننے کے غیر معمولی کیسز اور کووڈ ویکسین کے درمیان ممکنہ تعلق سے مزید تحقیقات کے باعث ایسٹرا زینیکا ویکسین کا استعمال مزید 3 ہفتے کے لیے روک دیا گیا۔

    ڈنمارک ان ابتدائی یورپی ممالک میں شامل تھا جنہوں نے رواں ماہ ایسٹرا زینیکا سے متعلق خون گاڑھا ہونے کے خدشے کی بنیاد پر ویکسین کا استعمال روک دیا تھا۔

    اکثر ممالک جنہوں نے ایسٹرا زینیکا پر عارضی پابندیاں لگائی تھیں اب انہوں نے یورپی یونین کے ڈرگ واچ اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تجاویز کے بعد ویکسین کا دوبارہ استعمال شروع کردیا ہے۔

    لیکن ڈنمارک کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ 2 مقامی کیسز میں ویکسین اور انتہائی غیر معمولی بیماری کے مابین تعلق کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتے، وہ اس حوالے سے یورپ میں رپورٹ ہونے والے دیگر کیسز کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔

    ڈینش ہیلتھ اتھارٹی کے ڈائریکٹر سورین بروسٹرم نے ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ کووڈ 19 ویکسین ایسٹرا زینیکا کے مزید استعمال سے متعلق ہمارا حتمی فیصلہ غیر یقینی کا شکار ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کئی تحقیق ہوچکی ہیں لیکن ہم ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے لہٰذا ہم نے ویکسین کے استعمال میں معطلی کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اگر 3 ہفتوں بعد ایسٹرا زینیکا کے دوبارہ استعمال کی منظوری نہیں دی گئی تو ڈنمارک میں ویکسی نیشن کا عمل 4 ہفتوں کی تاخیر کا شکار ہوجائے گا۔

    یاد رہے کہ ڈنمارک میں ایسٹرا زینیکا کا استعمال روکنے سے قبل لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ افراد کو یہ ویکسین لگائی جا چکی تھی، ڈنمارک میں 5 لاکھ افراد کو فائزر / بائیو این ٹیک ویکسین اور 37 ہزار افراد کو موڈرنا کی ویکیسن لگائی جا چکی ہیں۔

    گزشتہ ہفتے یورپی میڈیسن ایجنسی اور عالمی ادارہ صحت نے ایسٹرا زینیکا کو محفوظ قرار دیا تھا۔

  • کرونا ویکسین: امیر اور غریب ممالک کے درمیان گہری خلیج

    کرونا ویکسین: امیر اور غریب ممالک کے درمیان گہری خلیج

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس ویکسین کی فراہمی کے حوالے سے امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہنم کا کہنا ہے کہ امیر ممالک میں استعمال کی جانے والی کووِڈ 19 ویکسین کی تعداد اور بین الاقوامی کووِڈ 19 ویکسین گلوبل فراہمی پروگرام کوویکس کی طرف سے غریب ممالک کو فراہم کردہ ویکسین کی تعداد کے درمیان خلیج ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع ہو رہی ہے۔

    جنیوا میں عالمی ادارہ صحت کے مرکزی دفتر سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا تاہم انہوں نے کہا کہ اپنے تمام شہریوں کو ویکسین لگانے کے لیے بعض ممالک کے درمیان حقیقی معنوں میں مقابلہ ہو رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس جب ہم پسماندہ ممالک پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہاں ابھی ویکسین مہم شروع ہی نہیں ہو سکی۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جنوبی کوریا خوشحال ملک ہونے کے باوجود ویکسین بنانے والوں کے ساتھ دو طرفہ سمجھوتے کرنے کے بجائے گلوبل ویکسین فراہمی پروگرام کوویکس کی طرف سے فراہم کی جانے والی ویکسین کا منتظر ہے۔

    انہوں نے کہا ہے کہ ایسٹرا زینیکا کی کووڈ 19 ویکسین نے امریکا میں جاری تیسرے مرحلے کے دوران 79 فیصد کامیابی دکھائی ہے، اس ویکسین کی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ یہ خون میں لوتھڑے بننے کے خطرے میں اضافہ نہیں کرتی۔

    اس دوران عالمی ادارہ صحت کی نائب ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ماریانگیلا سیمانو نے کہا کہ افریقہ میں کسی بھی ملک نے ایسٹرا زینیکا کو مسترد نہیں کیا۔

    اس ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات کے خاتمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر چیز معمول پر آگئی ہے، براعظم افریقہ میں کسی بھی ملک نے ایسٹرا زینیکا کو رد نہیں کیا۔

  • اب لوگ اپنی عمر نہیں چھپا سکتے: کرونا ویکسین لگواتے ہوئے بشریٰ انصاری کی دلچسپ گفتگو

    اب لوگ اپنی عمر نہیں چھپا سکتے: کرونا ویکسین لگواتے ہوئے بشریٰ انصاری کی دلچسپ گفتگو

    کراچی: معروف اداکارہ بشریٰ انصاری کووڈ 19 کی ویکسین لگانے پہنچیں تو دلچسپ انداز میں تبصرے کیے اور کہا کہ لوگ اب مزید نہیں چھپا سکیں گے کہ وہ 60 سال کے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق معروف پاکستانی اداکارہ بشریٰ انصاری کرونا وائرس ویکسین لگوانے پہنچیں اور اس موقع کی ویڈیو انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر شیئر کی۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انہیں ویکسین لگائی جارہی ہے۔ اس دوران وہ کہتی نظر آرہی ہیں کہ میں یہ سب کو بتانا چاہتی ہوں کہ یہ ویکسین ہم سب کے لیے بے حد ضروری ہے۔

    بشریٰ دلچسپ انداز میں کہتی ہیں کہ آج سے پہلے سینیئر سٹیزن ہونے کا اتنا مزہ کبھی نہیں آیا جتنا اب آرہا ہے۔

    وہ مزید کہتی ہیں کہ اب تک جو لوگ مان نہیں رہے تھے کہ وہ 60 سال کے ہوگئے انہیں اب ماننا پڑے گا، لوگ اب دوڑ دوڑ کر مان رہے ہیں کہ تاکہ ویکسین لگوائی جاسکے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Bushra Bashir (@ansari.bushra)

    ویکسین لگانے کے بعد انہوں نے ڈاکٹر کا شکریہ بھی ادا کیا۔

    خیال رہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسی نیشن مہم ملک بھر میں جاری ہے، پہلے مرحلے میں فرنٹ لائن ورکرز بشمول طبی عملے، ہیلتھ ورکرز اور ڈاکٹرز کو ویکسین لگائی گئی۔

    دوسرے مرحلے میں ملک بھر میں 60 برس سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگائی جارہی ہے۔

  • کووڈ 19 ویکسین: پہلی بار بچوں پر ٹرائل شروع

    کووڈ 19 ویکسین: پہلی بار بچوں پر ٹرائل شروع

    کرونا وائرس نے درمیانی اور بڑی عمر کے افراد کو خاصا متاثر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب تک جتنی ویکسینز بنائی گئیں انہیں اسی عمر کے افراد پر آزمایا گیا، اب کووڈ ویکسین کا بچوں پر ٹرائل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی کمپنی موڈرنا نے 6 سے 12 سال تک کے بچوں پر کووڈ 19 ویکسین کا ٹرائل شروع کردیا ہے، کمپنی کی جانب سے اس ٹرائل میں 6 ہزار 750 بچوں کو شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

    کمپنی کے سی ای او اسٹیفن بینسل نے ایک بیان میں بتایا کہ ہم ایم آر این اے 1273 کووڈ ویکسین کا ٹرائل امریکا اور کینیڈا میں صحت مند بچوں پر شروع کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بچوں پر ہونے والی اس تحقیق سے اس عمر کی آبادی میں کووڈ 19 ویکسین کی افادیت اور محفوظ ہونے کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بالغ افراد کے مقابلے میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے، مگر وہ اس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں اور وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں۔

    اس سے قبل فائزر نے بھی فروری میں اعلان کیا تھا کہ وہ 5 سال یا اس سے زائد عمر کے بچوں پر ایک کووڈ ویکسین کی آزمائش کرے گی جبکہ آکسفورڈ / ایسٹرا زینیکا نے بھی 6 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل کی جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا ہے۔

    اسی طرح جانسن اینڈ جانسن بھی نومولود سے لے کر 18 سال کی عمر کے بچوں پر ایک سنگل ڈوز کووڈ ویکسین کی آزمائش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

  • موڈرنا کی ایک اور ویکسین پر تحقیق شروع

    موڈرنا کی ایک اور ویکسین پر تحقیق شروع

    واشنگٹن: امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی موڈرنا نے کرونا وائرس کے خلاف ایک اور ویکسین کی تحقیق شروع کردی، موڈرنا کی پہلی کووڈ ویکسین گزشتہ دسمبر میں امریکا میں استعمال کے لیے منظور کی گئی تھی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی موڈرنا نے ایک اور نئی کووڈ 19 ویکسین کی تحقیق کا آغاز کردیا ہے جس کو فریزر کے بجائے عام فریج میں محفوظ کیا جاسکے گا۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ پہلے رضا کار کو اس نئی ویکسین کی خوراک استعمال کروا کے تحقیق کا آغاز کیا گیا۔

    کمپنی کے مطابق اس نئی ویکسین کی تقسیم آسان ہوگی بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں، جہاں سپلائی چین کے مسائل سے ویکسین مہمات متاثر ہوتی ہیں۔ ابتدائی تحقیق میں اس نئی ویکسین ایم آر این اے 1283 کے محفوظ ہونے اور افادیت کا تجزیہ کیا جائے گا۔

    یہ ویکسین صحت مند بالغ افراد کے 2 گروپس کو استعمال کروائی جائے گی، جن میں سے ایک گروپ کو سنگل ڈوز اور دوسرے کو 28 دن کے وقفے میں 2 خوراکوں کا استعمال کروایا جائے گا۔

    موڈرنا نے اس نئی ویکسین کو موجودہ کووڈ ویکسین کے بوسٹر شاٹ کے طور پر بھی مستقبل قریب میں آزمانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔

    خیال رہے کہ موڈرنا کی پہلی کووڈ ویکسین 1273 کو دسمبر میں امریکا میں استعمال کے لیے منظوری دی گئی تھی۔

    اس کے آخری مرحلے کے ٹرائل کے حتمی نتائج میں بتایا گیا تھا کہ یہ ویکسین کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے میں 94 فیصد تک مؤثر ہے اور ٹرائل میں جن افراد کو اس کا استعمال کروایا گیا، ان میں سے کوئی بھی بیماری کی سنگین شدت کا شکار نہیں ہوا۔

  • عالمی ادارہ صحت کا آکسفورڈ ویکسین کے حوالے سے مشورہ

    عالمی ادارہ صحت کا آکسفورڈ ویکسین کے حوالے سے مشورہ

    عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ایسٹرا زینیکا ویکسین کا استعمال جاری رکھا جائے، مختلف ممالک میں ویکسین کے استعمال کے بعد خون میں لوتھڑے جمنے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ فی الحال مختلف ممالک ایسٹرا زینیکا کی کرونا ویکسین کا استعمال جاری رکھیں۔

    دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے ایسٹرا زینیکا ویکیسن کا استعمال معطل کرنے کے بعد پیر کو عالمی ادارہ صحت کے چیف سائنسدان سومیا سوامیناتھن نے مشورہ دیا ہے کہ وہ فی الحال ایسٹرا زینیکا ویکسین کا استعمال جاری رکھیں۔

    سومیا سوامیناتھن کا کہنا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلے۔

    خیال رہے کہ ایسٹرا زینیکا کی ویکسین کو ایسے کچھ ممالک میں روک دیا گیا ہے جہاں اس ویکسین کے استعمال کے بعد کچھ افراد میں خون میں لوتھڑے بننے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق ادارے کے ویکسین سیفٹی کے ماہرین ایسٹرا زینیکا کے ڈیٹا کو دیکھ رہے ہیں۔

    پیر کو جرمنی، فرانس، اٹلی، ڈنمارک، ناروے، آئس لینڈ، تھائی لینڈ اور نیدر لینڈز نے بھی کرونا وائرس کی ویکسین آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا کے استعمال کو معطل کردیا ہے۔

    تاہم ابھی تک ویکسی نیشن معطل کرنے والے ممالک میں سے کسی میں بھی ابھی تک اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ خون جمنے کے واقعات کا تعلق ویکسین کے استعمال سے ہے۔

  • پاکستان میں ویکسین کی 4 کروڑ سے زائد خوراکیں آرہی ہیں: یاسمین راشد

    پاکستان میں ویکسین کی 4 کروڑ سے زائد خوراکیں آرہی ہیں: یاسمین راشد

    فیصل آباد: صوبہ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ویکسین کی 4 کروڑ 40 لاکھ خوراکیں پاکستان آرہی ہیں، پنجاب میں کرونا ویکسی نیشن کے 114 مراکز قائم ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی کا دورہ کیا، وزیر صحت نے یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ اجلاس کی صدارت کی۔

    دوران اجلاس صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ 55 سال سے زائد عمر کے افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں، کرونا وائرس سے صوبے میں 5 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں، عوام میں ایس او پیز پر عملدر آمد کا شعور بیدار کر رہے ہیں۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ 22 نئی لیبز قائم کی ہیں، کووڈ ٹیسٹنگ کی تعداد بھی بڑھا دی ہیں۔ پنجاب میں کرونا ویکسی نیشن کے 114 مراکز قائم ہیں۔ سول اسپتال میں ویکسی نیٹرز کی تعداد بھی بڑھا دی جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے 4 کروڑ 40 لاکھ ویکسین کی خوراکیں پاکستان آرہی ہیں۔

    اپوزیشن کے حوالے سے صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر الیکشن اصلاحات کرے، اپوزیشن رہنما کے کرونا لاک ڈاؤن پر نامناسب تبصرے پر افسوس ہوا۔

  • کیا ویکسین کرونا وائرس کی نئی اقسام سے بھی تحفظ دے سکے گی؟

    کیا ویکسین کرونا وائرس کی نئی اقسام سے بھی تحفظ دے سکے گی؟

    واشنگٹن: کرونا وائرس کی نئی اقسام نے اب تک بننے والی ویکسینز کی اثر انگیزی پر تحفظات کھڑے کردیے تھے اب حال ہی میں ایک اور تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی نئی اقسام جو امریکی ریاست کیلی فورنیا، ڈنمارک، برطانیہ، جنوبی افریقہ، جاپان اور برازیل میں دریافت ہوئی ہیں، سائنسدانوں کی جانب سے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ویکسینز ان کے خلاف کس حد تک مؤثر ہیں۔

    حال ہی امریکا میں اس حوالے سے ہونے والی ایک طبی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔

    میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی، میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور ہارورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ برازیل اور جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی اقسام فائزر اور موڈرنا کی کووڈ ویکسینز سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کو کم مؤثر بناسکتی ہیں۔

    تحقیق میں ماہرین نے دیکھا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز وائرس کی اصل قسم اور نئی اقسام پر کس حد تک مؤثر طریقے سے کام کرتی ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ جب ہم نے نئی اقسام پر وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی تو دریافت کیا کہ جنوبی افریقی قسم اینٹی باڈیز کے خلاف 20 سے 40 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔

    اسی طرح برازیل اور جاپان میں دریافت 2 اقسام پرانی قسم کے مقابلے میں اینٹی باڈیز کے خلاف 5 سے 7 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اینٹی باڈیز وائرس کو سختی سے جکڑ کر انہیں خلیات میں داخل ہونے سے روکتی ہیں، جس سے بیماری سے تحفظ ملتا ہے۔

    مگر یہ عمل اسی وقت کام کرتا ہے جب اینٹی باڈی کی ساخت وائرس کی ساخت سے مثالی مطابقت رکھتی ہو، اگر وائرس کی اس جگہ کی ساخت مختلف ہو جہاں اینٹی باڈیز منسلک ہوتی ہیں، یعنی کرونا وائرس کا اسپائیک پروٹین، تو اینٹی باڈیز اسے مؤثر طریقے سے شناخت اور ناکارہ بنانے سے قاصر ہوجاتی ہیں۔

    اسی کے لیے ویکسین کے خلاف وائرس کی مزاحمت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق جنوبی افریقہ کی 3 اقسام ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت کرتی ہیں اور ان سب کے اسپائیک پروٹین کے مخصوص میں ایک جیسی 3 میوٹیشنز موجود ہیں، جو ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ نئی اقسام کی جانب سے اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت قابل تشویش ضرور ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ویکسینز مؤثر نہیں۔

  • پوری دنیا کو ویکسین کب تک لگ سکتی ہے؟

    پوری دنیا کو ویکسین کب تک لگ سکتی ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی مناسب تقسیم ہو تو سنہ 2022 تک دنیا بھر کی آبادی کو ویکسین لگ سکتی ہے، تاہم ویکسین کی 12 ارب میں سے 9 ارب ڈوزز مغربی ممالک پہلے ہی اپنے لیے مختص کرچکے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق معروف بین الاقوامی ہیلتھ کیئر ماہرین نے ایک ورچوئل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے دنیا بھر میں ویکسی نیشن کے یکساں مواقعوں کی فراہمی پر زور دیا۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ویکسین کی 12 ارب میں سے 9 ارب ڈوزز مغربی ممالک نے مختص کرلی ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا میں ویکسین کی مناسب تقسیم ہو تو سنہ 2022 تک عالمی سطح پر ویکسی نیشن کا مناسب امکان ہے۔

    سیشن کے شرکا میں سینی گال کے صدر میکی سال، ڈی پی ورلڈ کے گروپ چیئرمین اور سی ای او سلطان احمد بن سلیم، یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینرئیٹا ہولسمین فور اور عالمی ادارہ صحت کے کرونا وائرس سے متعلق خصوصی ایلچی ڈاکٹر ڈیوڈ نابارو شامل تھے۔

    شرکا نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہر کسی کو ویکسین تک یکساں رسائی حاصل ہونی چاہیئے جس کے بعد ہی سنہ 2022 تک سب کو ویکسی نیشن کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

    شرکا کے مطابق جب عالمی سطح پر خسرہ، پولیو، ایبولا اور سارس جیسی بیماریوں کے خلاف کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے تو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیوں نہیں کیا جاسکتا۔

  • کرونا ویکسین کے بعد الرجی کی شکایت: نئی تحقیق نے حوصلہ افزا خبر سنا دی

    کرونا ویکسین کے بعد الرجی کی شکایت: نئی تحقیق نے حوصلہ افزا خبر سنا دی

    کرونا وائرس کی مختلف ویکسینز لگوانے کے بعد بعض افراد میں الرجی کی شکایت سامنے آئی تاہم اب نئی تحقیق نے اس حوالے سے حوصلہ افزا پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز سے الرجی کا شدید ردعمل کبھی کبھار سامنے آسکتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے۔

    میسا چوسٹس جنرل ہاسپٹل کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایم آر این اے ویکسینز اپنی طرز کی اولین ویکسینز ہیں اور ان کی افادیت حیران کن ہے جبکہ تمام افراد کے لیے محفوظ ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ ضروری ہے کہ ان ویکسینز سے متعلق الرجک ری ایکشن کے بارے میں مستند تفصیلات جمع کی جائیں، کیونکہ یہ ویکسین پلیٹ فارم مستقبل میں وباؤں سے متعلق ردعمل کے لیے بھی بہت اہم ثابت ہوگا۔

    اس تحقیق کے دوران 52 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جن کو ایم آر این اے کووڈ ویکسین کا ایک ڈوز استعمال کروایا گیا تھا، ان میں سے 2 فیصد میں الرجی ری ایکشن نظر آیا جبکہ اینافائیلیکس کی شرح ہر 10 ہزار افراد میں 2.47 فیصد تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اینافائیلیکس کی اس شرح کا موازنہ عام بائیوٹیکس ادویات کے استعمال سے کیا جاسکتا ہے، فائزر / بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی کووڈ 19 ویکسینز کی تیاری کے لیے ایم آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا۔

    اینافائیلیکس سے مراد ایسا شدید الرجک ری ایکشن ہے جس میں مختلف علامات جیسے جلد پر نشانات، نبض کی رفتار کم ہوجانا اور شاک کا سامنا ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن سے الرجی کے ان واقعات کو شامل نہیں کیا گیا تھا جن میں لوگوں کو ویکسین کے استعمال سے قبل اینافائیلیکس کا سامنا ہوا تھا۔

    تحقیق کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ شدید الرجی کے تمام کیسز جلد صحت یاب ہوگئے اور کسی کو بھی شاک یا سانس لینے میں مدد فراہم کرنے والی نالی کا سہارا نہیں لینا پڑا۔