Tag: vampire

  • برام اسٹوکر کا "ڈریکولا” دہشت کی ایک لازوال داستان

    برام اسٹوکر کا "ڈریکولا” دہشت کی ایک لازوال داستان

    دنیا بھر میں کروڑوں فلمی شائقین ڈراؤنی فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر سال ایسی متعدد فلموں کو ریلیز کیا جاتا ہے، ان میں ’ڈریکولا‘ کے موضوع پر بننے والی فلمیں زیادہ نمایاں ہیں، جسے دیکھ کر ناظرین کے جسم میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔

    ڈريکولا یا ڈراکیولا دنيا کا وہ سب سے خوفناک ناول ہے جسے آئرستانی مصنف بريم اسٹوکر نے 100برس قبل تحریر کیا تھا اور یہ کردار سو سال سے بھی زائد تاريکی اور خوف کی دنيا پر آج بھی حکومت کر رہا ہے، اس موضوع پر کئی مشہور فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

    زیر نظر مضمون میں ڈریکولا کے موضوع پر بنائی جانے والی فلموں پر بات کی گئی ہے، کہ یہ کردار کس نے کیسے اور کب تخلیق کیا؟ یہ آئیڈیا اتنا کامیاب ہوا کہ دیکھنے والے آج بھی ایسی فلموں کو ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں اور کچھ لوگ تو ان باتوں اور کرداروں کو حقیقت بھی تسلیم کر بیٹھتے ہیں۔

    Dracula

    ڈریکولا درحقیقت ایک ایسی بد روح کا نام ہے جو انسانوں کا خون پیتی اور جس کا خون پیتی وہ خون کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتا ہے اور مرنے کے بعد وہ بھی دوسرے انسانوں کا خون پینے لگتا ہے۔

    ڈریکولا کے کردار کی مقبولیت کی بنا پر متعدد مصنفین نے اس کو بنیاد بنا کر اپنی اپنی کہانیاں لکھی ہیں لیکن اس کردار کے اصل خالق بریم اسٹوکر ہی ہیں۔ یہ ناول 1897ء میں لکھا گیا تھا اور بریم اسٹوکر کی وجہ شہرت بھی یہی ناول بنا۔

    Dracula

    برام اسٹوکر کا کلاسیکی ناول "ڈریکولا”، خوفناک کہانیوں کا ایک شاہکار ہے، اس کی کشش کا راز اس کے ماورائی عناصر، نفسیاتی گہرائیاں، اور تاریخی پس منظر کے بہترین امتزاج میں پوشیدہ ہے اور آج بھی اپنی جگہ ایک کلاسک کے طور پر برقرار ہے۔

    "ڈریکولا” اپنے کرداروں کی نفسیاتی گہرائیوں میں جھانکتا ہے۔ جوناتھن ہارکر، لوسی ویسٹینرا، اور مینا مرے سب ویمپائر کے اثر میں آتے ہیں اور ان کے خوف اور کمزوریاں بے نقاب ہوتی ہیں۔ یہ ناول خواہشات، جنون اور غیر قابو شدہ جذبات کی تباہ کن طاقت جیسے موضوعات کو اجاگر کرتا ہے۔

    "ڈریکولا” 19ویں صدی کے آخری سالوں میں لکھا گیا تھا یہ ناول اس دور کے معاشرتی اور ثقافتی مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ وکٹورین دور حکومت صنعتی ترقی، سماجی تبدیلیوں اور روایتی اقدار کے زوال سے بھرا ہوا تھا۔ مخلوق اور ممنوعہ خواہشات کی علامت ویمپائر اُس دور کے ثقافتی خدشات سے بھی ہم آہنگ تھا۔

     Bram Stoker's Dracula

    "ڈریکولا” کا عوامی ثقافت پر بھی بہت گہرا اثر ہے، ویمپائر ادب، فلم اور ٹیلی ویژن میں ایک مقبول کردار بن چکا ہے۔ اسٹوکر کا یہ ناول بے شمار موافقتوں اور تشریحات کا باعث ہے، جس نے اصل کہانی میں نئی جہتیں شامل کی ہیں۔

    برام اسٹوکر کا شاہکار ناول "ڈریکولا” اپنی خوفناک کہانی، نفسیاتی تجزیے اور تاریخی پس منظر کے شاندار امتزاج کی بدولت آج بھی کلاسک مانا جاتا ہے۔

  • ترک صدر نے نیتن یاہو کو ویمپائر قرار دے دیا

    ترک صدر نے نیتن یاہو کو ویمپائر قرار دے دیا

    انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے نیتن یاہو کو سائیکوپیتھ اور ویمپائر قرار دے دیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ترکیہ کے مرکزی شہر انقرہ میں پارٹی اجلاس سے خطاب میں کرتے ہوئے ترک صدر اردوان نے کہا کہ روز فلسطینی شہدا کی لاشیں سڑکوں پر بکھری ہوتی ہیں، نیتن یاہو ایک سائیکو پیتھ اور ویمپائر ہے، جو خون پر پلتا ہے۔

    انھوں نے کہا اسرائیلی دہشت گرد فلسطینیوں کی حرمت کو پامال کر رہے ہیں، بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہے، لوگوں کو خیموں میں جلایا جا رہا ہے، ایسے میں مسلم دنیا کب متحد ہوگی؟

    رجب طیب اردوان نے سوال اٹھایا کہ او آئی سی ان مظالم کے خلاف کب مؤثر پالیسی اپنائے گی؟ اسرائیل صرف غزہ کے لیے خطرہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔

    غزہ میں قتل عام پر اسرائیل کے خلاف مشترکہ کارروائی کرنے اور مظالم رُکوانے میں ناکامی پر انھوں نے اسلامی تعاون تنظیم کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

    انھوں نے امریکا اور یورپی ممالک کے سربراہان پر بھی تنقید کی، اور کہا ’’اے امریکی ریاست، اس کا خون اسرائیل کے ساتھ ساتھ تمھارے ہاتھوں پر بھی ہے، تم بھی اس نسل کشی کے برابر ذمہ دار ہو، اے یورپی ریاست اور سربراہان حکومت، تم اسرائیل کی اس نسل کشی، بربریت اور ویمپائر جیسے عمل میں پارٹی ہو، کیوں کہ تم خاموش ہی رہے۔‘‘

  • خون آشام ویمپائر نہیں ہوں: شہزاد رائے کا جوان کہنے والوں کو جواب

    خون آشام ویمپائر نہیں ہوں: شہزاد رائے کا جوان کہنے والوں کو جواب

    معروف گلوکار شہزاد رائے نے اپنی عمر پر حیرت کا اظہار کرنے والے مداحوں کو دلچسپ جواب دے دیا۔

    شہزاد رائے کے مداح اکثر اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے چہرے پر بڑھتی عمر کے کوئی اثرات نظر نہیں آرہے بلکہ اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جوان ہوتے جارہے ہیں۔

    اب حال ہی میں انہوں نے ٹویٹر پر اپنی پرفائل پکچر تبدیل کی جس کے بعد ایک بار پھر اسی نوعیت کے تبصروں کا طوفان آگیا۔

    ایک مداح نے ان کے ساتھ اپنی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ میں اس دوران گنجا اور بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری پیٹھ میں بھی درد رہنے لگا ہے، لیکن آپ ویسے کے ویسے ہی ہیں، یہ کیا جادو ہے۔

    اس پر شہزاد رائے نے جواب دیا کہ میں 44 سال کا ہوں، اکثر لوگ 44 سال کی عمر میں بھی جوان دکھائی دیتے ہیں، میں کوئی خون آشام (ویمپائر) نہیں ہوں۔

    گلوکار نے لکھا کہ بوڑھا ہونا قدرتی ہے، لیکن بڑا ہونا آپ کا اپنا انتخاب ہے۔

    ان کے اس ٹویٹ پر دیگر مداحوں نے مزید دلچسپ جوابات دیے۔

    خیال رہے کہ ماضی کے معروف گلوکار شہزاد رائے آج کل فلاحی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور ملک بھر میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔

  • ویمپائر : بچوں کو قتل کرکے خون پینے والے درندے کو علاقہ مکینوں نے مار ڈالا

    ویمپائر : بچوں کو قتل کرکے خون پینے والے درندے کو علاقہ مکینوں نے مار ڈالا

    نیروبی : کمسن بچوں کو قتل کرکے ان کا خون پینے کے الزام میں سزا یافتہ قیدی جیل سے فرار ہونے کے بعد بھی سزا سے نہ بچ سکا مشتعل علاقہ مکینوں نے سفاک درندے کو گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔

    کینیا کے علاقے کاموکنجی میں بچوں کا خون پینے والا "ویمپائر” جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، مجرم جیل سے فرار ہوگر اپنے گھر آگیا تھا،  20سالہ سفاک درندے کو گزشتہ ماہ دس بچوں کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بیس سالہ ملزم مسٹن میمو وانگالا کو عدالت میں پیشی پر لے جایا جانا تھا، تاہم جب جیل حکام کو پتہ چلا کہ وہ یہاں موجود ہی نہیں تو ان کے ہوش اڑ گئے۔

    Masten Milimo Wanjala, 20, (pictured) who was dubbed a vampire after confessing to the killings of ten children and sucking the blood out of at least one has escaped from prison in the Kenyan capital of Nairobi

    جیل حکام نے فرائض میں غفلت برتنے پر ڈیوٹی پر تعینات تین افسران کو معطل کرکے حراست میں لے لیا، نیروبی کے گورنر مائیک سونکو نے ملزم کی نشاندہی کرنے والے شخص کیلئے بھاری انعام کا اعلان کیاتھا۔

    تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایک عینی شاہد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ وہ جیل سے بھاگ کرمبینہ طور پر اپنے والدین کے گھر واپس آیا تھا اور بعد میں علاقے کے مشتعل افراد نے اس کا گلا گھونٹ کر مارڈالا۔

    مقامی تھانے کے پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ وہ نیروبی سے اپنے گاؤں تک کیسے سفر کرنے میں کامیاب رہا، یہ علاقیہ مکین ہیں جنہوں نے پہلے اس کی شناخت کی اور پولیس کو اطلاع دینے کے بجائے خود ہی اسے جان سے مارنے کا قدم اٹھایا۔

    واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں کینیا کی پولیس نے کمسن بچوں کا خون پینے والا ایک ملزم گرفتار کیا تھا، جس نے  دو بچوں کو قتل کرنے کے بعد ان کا خون  پینے کا اعتراف کیا۔

    کینیا کے فوجداری انویسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ کے مطابق دوبچوں کی لاشیں دارالحکومت نیروبی کے جنگلات سے ملی تھیں۔ تحقیقات کے بعد بیس سالہ ملزم مسٹن میمو وانگالا کو دو بچوں کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    بچوں کا قاتل یہ جرم پانچ سال سے کرتا آ رہا ہے جب اس کی عمر 16سال تھی۔ اس نے مختلف موقعوں پر مزید آٹھ افراد کو بھی قتل کیا جن میں سے بیشتر کی لاشیں تاحال نہیں مل سکیں۔

    کینیا میں ہونے والے اس وہشت ناک اور ناقابل یقین واقعے نے سوشل میڈیا صارفین میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی ہے، اس واقعے نے مشہور افسانوی کردار’ڈریکولا‘ کی یاد تازہ کردی، لوگوں کی جانب سے سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

  • خود کو ڈریکولا سمجھنے والی لڑکی کو روسی پولیس نے گرفتار کرلیا

    خود کو ڈریکولا سمجھنے والی لڑکی کو روسی پولیس نے گرفتار کرلیا

    ماسکو : روسی پولیس نے خود کو ڈریکولا کہنے والی لڑکی کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا تھا، عدالت نے لڑکی کو ایک شخص پر حملے کے جرم میں ڈھائی برس قید کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق روس کے شہر نووسی برسک کی رہائشی 22 سالہ الیکٹرینا ٹرسکایا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ڈریکولا ہے اور اس نے خون پینے کے لیے ایک اپنے دوست پر خاقو سے حملہ کردیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ لڑکی ٹیلی ویژن پر دکھایا جانے والا پروگرام ’دی ویمپائر ڈائریز‘ کو انہماک سے دیکھتی تھی بارہا مذکورہ پروگرام دیکھنے کے باعث لڑکی خود کو ڈریکولا تصور کرنے لگی۔

    عدالتی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ الیکٹرینا ٹرسکایا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ذریعے ایک شخص سے دوستی کی اور کچھ روز بعد ملاقات کا فیصلہ کیا۔

    روسی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 22 سالہ لڑکی ملاقات کے بعد متاثرہ لڑکے کے ساتھ رہنا شروع ہوگئی اور اچانک ایک روز صبح نیند سے بیدار ہونے کے بعد کہا کہ میں ڈریکولا ہوں اور لڑکے سے خون کا تقاضا شروع کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 22 سالہ لڑکی نے متاثرہ شخص پر چاقو سے حملہ کردیا لیکن نوجوان نے خود کو ڈریکولا سمجھنے والی لڑکی کا حملہ ناکام بناکر اسے ڈبوچ لیا تاہم لڑکی نے دوسرے ہاتھ سے ایک اور چاقو اٹھایا اور نوجوان کے سینے پر وار کردیا جس کے باعث متاثرہ شخص کو معمولی زخم لگا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ متاثرہ نوجوان زخمی حالت میں باہر بھاگا اور اہل محلّہ اور پولیس کو اطلاع دی، جس کے بعد پولیس لڑکی کو گرفتار کرکے لے گئی۔

    لڑکی نے دوران تفتیش پولیس کو بیان دیا کہ مذکورہ شخص وروولف یعنی ایک بھڑیا اور میرا دشمن تھا جسے میں قتل کرنا چاہتی تھی، عدالت نے شہری پر چاقو سے حملہ کرنے کے جرم میں لڑکی کو ڈھائی برس قید اور ساڑھے پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سناتے ہوئے جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

    روسی میڈیا کا کہنا تھا کہ عدالت نے جرمانے کی رقم متاثرہ شخص کو ادا کرنے کا حکم دیا۔

  • افریقی ملک ملاوی میں آدم خوروں کی موجودگی

    افریقی ملک ملاوی میں آدم خوروں کی موجودگی

    مشرقی افریقہ کے ملک ملاوی میں 5 مبینہ آدم خوروں کو ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کردیا۔ تشدد کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت نے جنوبی علاقوں میں رات کا کرفیو نافذ کردیا۔

    بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق افریقہ کا ملک ملاوی اس وقت آدم خوروں (انسانوں کو کھانے یا ان کا خون پینے والے) کی دہشت کی لپیٹ میں آگیا جب کچھ افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو دوسرے انسانوں کا خون پیتے دیکھا ہے۔

    اس افواہ کی تصدیق تو نہ ہوسکی تاہم یہ افواہ جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی اور لوگوں نے اپنے گھروں کے گرد حفاظتی باڑھ تعمیر کرلی جبکہ کچھ آدم خوروں کو مارنے کے لیے ان کی تلاش میں نکل گئے۔

    بعض اطلاعات کے مطابق یہ آدم خور پڑوسی ملک موزمبیق سے یہاں آئے۔

    گزشتہ روز ملاوی کے جنوبی علاقے میں ہجوم نے 5 مبینہ آدم خوروں کو ہلاک کردیا جس کے بعد ملک بھر میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا۔

    تشدد کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت نے متاثرہ علاقوں میں رات کا کرفیو لگا دیا۔ ملاوی کے صدرکا کہنا ہے واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ نے بھی ملاوی کے 2 اضلاع سے اپنے عملے کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت کردی ہے جبکہ موزمبیق میں فی الحال اپنی تمام امدادی کارروائیاں معطل کردی ہیں۔

    یاد رہے کہ ملاوی کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں جادو ٹونے کا رواج نہایت عام ہے۔

    اس سے قبل سنہ 2002 میں بھی یہاں آدم خوروں کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جب کچھ بچوں اور خواتین نے دعویٰ کیا کہ ایک شخص نے ان پر حملہ کر کے ان کا خون پینے کی کوشش کی۔

    بعد ازاں اس مبینہ آدم خور کو بھی ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آنتوں کے کیڑے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتے ہیں

    آنتوں کے کیڑے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتے ہیں

    کراچی (ویب ڈیسک) – صحت انسانی زندگی کا ایک ایسا معاملہ ہے جس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کچھ بیماریاں ایسی ہوتی یں جن کے آثار فوراً ظاہر ہوتے ہیں اور متاثرہ شخص کی توجہ ان کی جانب مبذول ہجاتی ہے اور مریض بر وقت علاج کرالیتا ہے لیکن ایک بیماری ایسی بھی جس کے آثار ظاہر تو ہوتے ہیں لیکن وہ اتنی معمولی نوعتیت کے ہوتے ہیں کہ مریض توجہ نہیں دیتا اور بعض اوقات بے پناہ نقصان اٹھاتا ہے۔

    آنتوں میں کیڑے ہونا ترقی پذیر ممالک میں ایک عمومی مرض ہے اور خصوصاً بچوں میں یہ مرض بکثرت پایا جاتا ہے۔ ان میں ’پن وارم ، راؤنڈ وارم اور ٹیپ وارم‘ عام اقسام ہیں۔ بظاہر معمولی نظر آنے والی یہ بیماری مریض کی زندگی کو اس طرح اجیرن کردیتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔

    پاکستان کے بیشتر علاقوں کامرطوب موسم ان کیڑوں کو سازگار ماحول فراہم کرتا ہے لیکن ان کے پھیلنے کے بے شمار ذرائع اور بھی ہیں۔ یہ پینے کے پانی میں کسی بھی قسم کی کثافت کی آمیزش سے انسانی پیٹ میں پہنچ سکتے ہیں ، سبزیوں اور پھلوں کو اگر بغیر دھوئے استعمال کیا جائے تو بھی ان کے انسانی جسم میں پہنچنے کا اندیشہ ہے ، یہ ابتدا میں ’یک خلیائی جسم‘ ہوتے ہیں لہذا یہ ناخنوں کے ذریعے منہ سے اور ہوا کے ذریعے ناک سے بھی انسانی جسم میں داخل ہونے کا راستہ بنا لیتے ہیں اور گھر سے باہر برہنہ قدم گھومنے کی صورت میں پیر کے مساموں سے انسانی جسم میں داخل ہوسکتےہیں۔

    انسانی جسم میں کیڑوں کی موجودگی کی چند بنیادی علامات ہیں جن میں اکثر و بیشتر متلی ہونا، اجابت میں بے قاعدگی، قبض رہنا، ریاح کا بدبو دار ہونا، سر یا جسم میں درد رہنا ، مستقل کمزوری یا تھکاوٹ کا شکار رہنا اور آںکھوں کے گرد سیاح حلقے شامل ہیں۔

    یہ علامات ابتدائی نوعیت کی ہیں جبکہ انتہائی نوعیت کی علامات میں پیٹ میں مستقل شدید درد ، خون کی کمی ، جسم میں زخم اور پیٹ میں کیڑوں کی کثرت کی صورت میں ظہور پذیرہوتی ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ کیڑے پیٹ میں ایک فٹ تک قامت اختیار کرلیتے ہیں اور انکی بقا کا دارومدار انسانی خون پر ہوتا ہے جس سے انسانی جسم میں کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔

    ایک محتاط سروے کے مطابق پاکستان کی ستر فیصد آبادی آنتوں میں رہنے والے ان کیڑوں کا شکار ہے لیکن ان میں سے اکثر ان کی موجودگی اور ہلاکت انگیزی سے ناواقف ہیں جبکہ حفطان ِ صحت کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر آںتوں کے کیڑوں کی افزائش کا سدِ باب کیا جاسکتا ہے، اور مرض لاحق ہوجانے کی صورت میں کسی بھی فزیشن سے دوا لے کر ابتدائی اسٹیج پر ہی ان سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔