Tag: Variant

  • اینڈرائیڈ فون استعمال کرنے والوں کیلئے خطرے کی گھنٹی

    اینڈرائیڈ فون استعمال کرنے والوں کیلئے خطرے کی گھنٹی

    کیلیفورنیا : اگر آپ اینڈرائیڈ اسمارٹ فونز استعمال کرتے ہیں تو بری خبر یہ ہے کہ سیکیورٹی ماہرین نے موک ہاؤ نامی اینڈرائیڈ میلویئر کے ایک نئے ویریئنٹ کی نشان دہی کی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ ویریئنٹ صارف کی کسی سرگرمی کے بغیر ہی متاثرہ ڈیوائس میں خرابی پیدا کردیتا ہے۔

    رواں ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں میکیفی لیبز کا کہنا تھا کہ روایتی موک ہاؤ کو اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے لازمی تھا کہ صارف اس کو انسٹال کریں اور لانچ کریں لیکن اس نئے متغیر کو اس قسم کے کسی فعل کی ضرورت نہیں ہوتی۔

    mobile

    ان کا کہنا ہے کہ جب ایپ انسٹال کی جاتی ہے اس کی نقصان دہ سرگرمیاں خودبخود ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

    میلویئر کی اس کمپین میں فرانس، جرمنی، بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا کے اینڈرائیڈ صارفین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ موک ہاؤ ایک اینڈرائیڈ پر مبنی موبائل میلویئر ہے جس کا تعلق مبینہ طور رومنگ مینٹس سے ہے۔

    اس سائبر حملے کی چین جعل ساز لنکس کے حامل ایس ایم ایس سے شروع ہوتی ہے۔ جب اینڈرائیڈ ڈیوائس سے لنک پر کلک کیا جاتا ہے تو میلویئر ہدف کو معلومات چوری کرنے والے پیجز پر بھیج دیتا ہے جیسے کہ اگر آئی فون سے کلک کیا گیا ہے تو ایپل آئی کلاؤڈ لوگ اِن پیچ کی نقل جیسے پیج پر بھیج دیا جائے گا۔

    Phone

    متعدد فیچرز کے حامل موق ہاؤ میلویئر میٹا ڈیٹا، کونٹیکٹس، ایس ایم ایس میسجز سے خفیہ معلومات چرانے کے ساتھ مخصوص نمبروں پر سائلنٹ موڈ پر کال کرنے، وائی فائی کھول بند کرنے جیسے کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    جولائی 2022 میں سیکوئیا کی تفصیلات کے مطابق ایک کمپین نے فرانس میں کم از کم 70 ہزار ڈیوائسز کو ہیک کیا تھا۔

  • کورونا کا نیا وائرس کیوں پھیلا، عالمی ادارہ صحت نے اہم وجہ بتا دی

    کورونا کا نیا وائرس کیوں پھیلا، عالمی ادارہ صحت نے اہم وجہ بتا دی

    جنیوا: ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم نے کہا ہے کہ تعطیلات کے اجتماعات اور عالمی سطح پر اثر انداز  ہونے والا نیا جے این ون ویرینٹ نے دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ ہے۔

    جنیوا میں ایک ورچوئل پریس بریفنگ میں ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے بتایا کہ گزشتہ ماہ دسمبر میں کورونا وائرس سے تقریباً 10 ہزار اموات رپورٹ ہوئی، جب کہ اسپتالوں میں داخل ہونے اور آئی سی یوز میں پچھلے مہینے کے مقابلے میں 42 فیصد اضافہ ہوا۔

    صحت ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ زیادہ تر کورونا کے مریض یورپ اور امریکہ میں ہیں، انہوں نے کہا دوسرے ممالک کیسز ریکارڈ نہیں کر رہے ہیں دیگر ممالک کو بھی اس کی نگرانی کرنی چاہیے۔

    انہوں نے خبردار کیا کہ اگرچہ کورونا کی وبا اب عالمی صحت کی ہنگامی صورتحال نہیں ہے لیکن یہ وائرس اب بھی پھیل رہا ہے، بدل رہا ہے جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ رہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی عہدیدار ماریا وان کرخوف نے بتایا کہ کووڈ 19 کا جے این ۔ون ویریئنٹ اب دنیا میں سب سے نمایاں ہے، دنیا بھر میں فلو، رائنو وائرس اور نمونیا سمیت سانس کی بیماریوں میں اضافہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہوا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کے اہلکار تجویز کرتے ہیں کہ لوگ جب ممکن ہو ویکسی نیشن کروائیں، ماسک پہنیں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جن مقامات پر وہ موجود ہیں وہ اچھی طرح سے ہوادار ہوں۔

    عالمی ادارہ صحت کے ایک اور عہدیدار ڈاکٹر مائیکل ریان نے کہا ہے کہ ویکسینز کسی کو انفیکشن ہونے سے نہیں روک سکتیں، لیکن یہ یقینی طور پر لوگوں کے اسپتال میں داخل ہونے کی صورتحال یا موت کے امکانات کو نمایاں طور پر کم کر رہی ہیں۔

  • اومیکرون کی نئی قسم سب سے زیادہ پھیلنے والی قرار

    اومیکرون کی نئی قسم سب سے زیادہ پھیلنے والی قرار

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا اومیکرون کی نئی قسم ایکس بی بی 1.5 کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے واضح کیا ہے کہ کرونا اومیکرون کی نئی قسم ایکس بی بی 1.5 اب تک کی سب سے تیزی سے پھیلنے والی قسم ہے، تاہم یہ لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    ایکس بی بی 1.5 اومیکرون کی قسم ایکس بی بی ون سے تبدیل شدہ قسم ہے جو چند ماہ سے دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    اس وقت ایکس بی بی 1.5 کی قسم سب سے زیادہ امریکا میں پھیل رہی ہے، تاہم یہ قسم دنیا کے دیگر 29 ممالک میں بھی موجود ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے عہدیداروں کے مطابق اب تک کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایکس بی بی 1.5 تیزی سے پھیلنے والی اومیکرون کی نئی قسم ہے مگر ڈیٹا سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہ قسم لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    ساتھ ہی ادارے نے واضح کیا کہ جلد ہی ایکس بی بی 1.5 کے اثرات اور اس کے کیسز کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جاری کی جائے گی مگر دستیاب ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم میں مبتلا افراد زیادہ بیمار نہیں ہو رہے۔

    ساتھ ہی ڈبلیو ایچ او کے عہدیداروں نے کرونا سے ہونے والی انتہائی کم اموات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ممکنہ طور پر نئی قسم سے بھی اموات کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا، کیوں کہ کرونا سے بچاؤ کے اقدامات کام کر رہے ہیں۔

    ادارے کے عہدیداروں کے مطابق اب تک ایکس بی بی 1.5 کے کیسز 29 ممالک میں رپورٹ ہو چکے ہیں، تاہم یہ قسم سب سے زیادہ امریکی ممالک میں پھیل رہی ہے اور امریکا میں ہر ہفتے اس کے کیسز میں دگنا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایکس بی بی 1.5 اومیکرون کی دو قسموں یعنی ایکس بی بی اور ایکس بی بی ون کی تبدیل شدہ قسم ہے۔ ایکس بی بی اور ایکس بی بی ون کے کیسز پاکستان میں بھی رپورٹ ہو چکے ہیں، تاہم تاحال پاکستان میں ایکس بی بی 1.5 کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

    اس وقت دنیا بھر میں ایکس بی بی کی تینوں اقسام کے علاوہ چین میں بی بی ایف سیون کی قسم بھی پھیل رہی ہے۔

    بی بی ایف سیون اومیکرون کی پہلے سے موجود بی اے 5.2.1.7 اور بی اے فائیو قسموں کی تبدیل شدہ قسم ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں اومیکرون کی متعدد قسمیں سامنے آ چکی ہیں، جن میں عام قسمیں درج ذیل ہیں۔

    بی اے ون ۔ بی اے ٹو ۔ بی اے تھری ۔ بی اے فور ۔ بی اے فائیو

    بی اے ۔4 ۔ بی اے ۔5 ۔ بی اے ۔3

    بی کیو ون ۔ بی کیو 1۔1 ۔ ایکس ای

    بی اے 12۔2 ۔ بی اے 75۔2 ۔ بی اے 2۔75۔2 ۔ بی بی ایف سیون

    ایکس بی بی ۔ ایکس بی بی ون ۔ ایکس بی بی 1.5

  • ایچ آئی وی ایڈز کی نئی قسم دریافت

    ایچ آئی وی ایڈز کی نئی قسم دریافت

    مغربی یورپی ملک نیدر لینڈز یا ہالینڈ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں کئی دہائیوں سے ایچ آئی وی کی ایک متعدی قسم پھیل رہی تھی۔

    رپورٹ میں بتایا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے یورپ میں ایچ آئی وی وائرس پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ نیدر لینڈز میں مہلک وائرس کی ایک متعددی قسم کئی دہائیاں قبل ہی پھیلنا شروع ہوئی۔

    ماہرین نے مختلف یورپی ممالک کے ایچ آئی وی وائرس کے شکار مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو انہیں 17 ایسے کیسز ملے جو کہ باقی ایچ آئی وی مریضوں سے مختلف تھے۔

    مذکورہ 17 میں سے دو مریضوں کا تعلق یورپ کے مختلف ممالک سے تھا جبکہ بقیہ 15 مریض نیدر لینڈز کے تھے اور ان میں ایچ آئی وی کی ایک ہی قسم کی تشخیص ہوئی تھی۔

    سائنس دانوں نے بعد ازاں نیدر لینڈز کے تمام ایچ آئی وی مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو انہیں 109 مریض ایسے ملے جو ایک ہی طرح کے متعددی وائرس کا شکار ہوئے تھے۔

    ماہرین کو معلوم ہوا کہ 109 افراد 1990 سے سال 2000 کے درمیان ایچ آئی وی کی امریکا اور یورپ میں پائی جانے والی عام قسم بی کی ذیلی قسم جسے سائنسدانوں نے وی بی کا نام دیا ہے، سے متاثر ہوئے۔

    ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ ایچ آئی وی کی مذکورہ قسم سے متاثر ہونے والے افراد کا مدافعتی نظام دیگر اقسام کے مقابلے زیادہ کمزور پڑ جاتا ہے، تاہم ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ مذکورہ قسم کا ایچ آئی وی کا عام ادویات سے بھی علاج ممکن ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ نیدر لینڈز میں دریافت ہونے والی ایچ آئی وی کی نئی قسم 2010 کے بعد کم متعدی ہونا شروع ہوئی اور اب وہ پہلے جیسی خطرناک نہیں رہی۔

    سائنسدانوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایچ آئی وی کی نئی قسم کا دریافت ہونا خطرے کی بات نہیں، دنیا بھر میں مذکورہ مرض کی بھی کئی قسمیں ہیں اور ہر خطے میں الگ قسم پائی جاتی ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پہلی بار ایچ آئی وی جسے (ہیومن امیونیو ڈیفی شنسی وائرس) کہتے ہیں، اسے 1980 کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں دریافت کیا گیا تھا۔

    اس سے قبل بھی مذکورہ وائرس دنیا میں موجود تھا مگر میڈیکل سائنس کے فقدان کی وجہ سے اس کی تشخیص نہیں ہو سکی تھی۔

    مذکورہ وائرس خطرناک موذی مرض ایڈز یعنی (اکوائرڈ امیونٹی ڈیفی شنسی سنڈروم) کا سبب بنتا ہے، جس میں 10 سال کے اندر ہی انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    عام طور پر ایچ آئی وی کی تشخیص کے بعد ادویات سے مریض کا وائرس ایڈز میں تبدیل نہیں ہوتا، تاہم بعض اوقات احتیاط نہ کرنے اور مکمل علاج نہ کروانے پر ایچ آئی وی کا مریض ایڈز کا شکار بن جاتا ہے۔

    ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز کو عام طور پر لوگ ایک ہی چیز سمجھ لیتے ہیں، تاہم حقیقت میں ایچ آئی وی میں مبتلا ہونا ایڈز کا مریض بن جانا نہیں ہوتا۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کیسے سامنے آئی؟

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کیسے سامنے آئی؟

    10کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے بارے میں ابھی بہت سی معلومات ہونا باقی ہیں تاہم حال ہی میں اس کے ارتقا کے بارے میں ایک تحقیق کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کا ارتقا عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے وائرس کے جینیاتی مواد کے ایک حصے کے ذریعے ہوا۔

    امریکی بائیو میڈیکل کمپنی اینفرینس کی اس تحقیق کے ابتدائی نتائج سے عندیہ ملا ہے کہ کرونا کی یہ نئی قسم ممکنہ طور پر اسی وجہ سے سابقہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہوسکتی ہے۔

    تحقیق میں موجود ڈیٹا سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون میں جینیاتی مواد نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک اور انسانی کرونا وائرس ایچ کوو 229 ای سے مماثلت رکھتا ہے۔

    ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اومیکرون کا ارتقا کسی ایسے فرد کے اندر ہوا جو کووڈ کے ساتھ ساتھ ایچ کوو 229 ای سے بیک وقت متاثر تھا۔

    انہوں نے کہا کہ اومیکرون کا جینیاتی سیکونس کرونا وائرس کی سابقہ اقسام میں نظر نہیں آتا بلکہ وہ عام نزلہ زکام والے وائرس اور انسانی جینوم کا امتزاج ہے۔ اس جینیات کے مواد کے باعث اومیکرون خود کو زیادہ انسانی دکھانے والی قسم بن گئی جس کے باعث اس کے لیے انسانی مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونا آسان ہوا۔

    تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ممکنہ طور پر اس سے وائرس کو زیادہ آسانی سے پھیلنے میں مدد ملی، مگر ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے یا سنگین بیماری کا باعث بن سکتی ہے یا نہیں۔

    ماہرین نے کہا کہ ان سوالات کے جواب جاننے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

    اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پھیپھڑوں اور نظام ہاضمہ کے خلیات میں سارس کوو 2 اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کرونا وائرسز بیک وقت رہ سکتے ہیں۔

    ایک ہی میزبان خلیے میں 2 مختلف وائرسز میں اس طرح کے تعلق کے بعد وہ اپنی نقول بناتے ہوئے ایسی نئی نقول تیار کرتے ہیں جن کا کچھ جینیات مواد یکساں ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ نئی میوٹیشن کسی ایسے فرد میں ہوئی ہوگی جو دونوں وائرسز سے متاثر ہوگا اور اس دوران کوو 2 نے دوسرے وائرس کے جینیاتی سیکونس کو اٹھا لیا ہوگا۔

    اس طرح کے جینیاتی سیکونسز انسانوں میں نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک کورونا وائرس ایچ کوو 229 ایس میں متعدد بار ظاہر ہوا ہے جبکہ ایچ آئی وی وائرس میں بھی ایسا ہوتا ہے۔

  • کووڈ ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کم مؤثر

    کووڈ ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خلاف کم مؤثر

    کرونا وائرس کی نئی اقسام سے ویکسین کی افادیت کم ہوتی دکھائی دی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ میو قسم، ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپانی ماہرین کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم میو ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتی ہے۔

    ٹوکیو یونیورسٹی کے شعبہ میڈیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ساتو کے کی زیر قیادت گروپ نے اپنی تحقیق دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع کی ہے۔

    ماہرین نے میو کی خصوصیات کا حامل ایک وائرس مصنوعی طور پر تیار کیا اور فائزر بیون ٹیک ویکسین لگوا چکنے والے افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کے خلاف اس کی حساسیت کا جائزہ لیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ تبدیل شدہ وائرس میو، اصل وائرس کے مقابلے میں ان کے خلاف 9.1 گنا زیادہ مزاحم تھا، گویا ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز اس کے خلاف کم مؤثر تھیں۔

    گروپ کا کہنا ہے کہ ویکسین کے اینٹی باڈی بنانے کے علاوہ بھی مختلف اثرات ہوتے ہیں، اور ویکسین کی تاثیر کم ہونے کا جائزہ لینے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم مزید تبدیل ہورہی ہے

    بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم مزید تبدیل ہورہی ہے

    نئی دہلی: بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم ڈیلٹا کی ایک اور ذیلی قسم سامنے آگئی جسے کے 417 این کا نام دیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بھارت میں تیزی سے پھیلنے والے کورونا وائرس کے ڈیلٹا قسم کے 40 کے لگ بھگ کیسز سامنے آنے کے بعد مرکزی حکومت نے ریاستوں سے کہا ہے کہ شہریوں کے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کروائے جائیں۔

    کرونا وائرس کی تبدیل شدہ شکل رکھنے والی یہ قسم نہایت تیزی سے پھیلتی ہے اور اس کو انڈیا میں ڈیلٹا پلس کا نام دیا گیا ہے، اس کا پہلا کیس رواں ماہ کی 11 تاریخ کو پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے رپورٹ کیا تھا۔

    کرونا وائرس کی اس تبدیل شدہ قسم کو ڈیلٹا ویرینٹ کی ذیلی نسب سمجھا جاتا ہے جو سب سے پہلے انڈیا میں سامنے آئی اور پروٹین میوٹیشن کے تحت صورت بدلی اس کو کے 417 این کا نام دیا گیا۔

    اس تبدیل شدہ وائرس کا بِیٹا ویرینٹ پہلی بار جنوبی افریقا میں بھی سامنے آیا تھا۔

    بعض سائنسدان اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ وائرس کی میوٹیشن ڈیلٹا ویرینٹ کے دیگر موجود فیچرز کے ساتھ مل کر اس کو زیادہ تیزی سے پھیلنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

    انڈیا کے محکمہ صحت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کے 417 این وائرس کی نوعیت ریسرچ میں دلچسپی کا باعث ہے کیونکہ یہ بِیٹا ویرینٹ میں بھی موجود ہے جو قوت مدافعت سے متلق پہلے ہی رپورٹ ہو چکا ہے۔

    انڈیا کے ایک نمایاں وائرولوجسٹ شاہد جمیل نے بتایا کہ یہ تبدیل شدہ شکل کا وائرس اینٹی باڈیز کے مؤثر ہونے میں کمی لانے کے لیے جانا جاتا ہے۔

    ڈیلٹا ویریئنٹ کرونا وائرس کے 16 جون تک کم از کم 197 کیسز سامنے آچکے ہیں جو دنیا کے 11 ملکوں میں رپورٹ کیے گئے، ان ممالک میں برطانیہ، کینیڈا، انڈیا، جاپان، نیپال، پولینڈ، پرتگال، روس، سوئٹزرلینڈ، ترکی اور امریکا شامل ہیں۔

    بدھ کو بھارتی حکام نے بتایا کہ اس ویرینٹ کے 40 کیسز تین ریاستوں مہاراشٹر، کیرالہ اور مدھیہ پردیش میں سامنے آئے تاہم ان کے تیزی سے پھیلاؤ کے حوالے سے کوئی حقائق سامنے نہیں آئے۔

    برطانیہ نے کہا ہے کہ اس تبدیل شدہ وائرس کے پانچ کیسز 26 اپریل کو رپورٹ کیے گئے تھے اور یہ افراد ایسے لوگوں سے ملے تھے جنہوں نے نیپال اور ترکی کا سفر کیا تھا۔

    برطانیہ اور بھارت میں تبدیل شدہ شکل والے وائرس سے تاحال کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں کی گئی۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ وہ اس ویرینٹ کو ڈیلٹا ویرینٹ کے ایک حصے کے طور پر ٹریک کر رہا ہے اور اس کے ساتھ وائرس کے دیگر ویرینٹس پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے جن کی میوٹیشن ہوئی ہے۔

  • کرونا وائرس کی برطانوی قسم زیادہ خطرناک؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    کرونا وائرس کی برطانوی قسم زیادہ خطرناک؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کو خطرناک سمجھا جارہا تھا لیکن اب حال ہی میں ایک نئی تحقیق نے اس کی نفی کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117 سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع شدہ انفیکشیز ڈیزیز تحقیق میں اسپتالوں میں زیر علاج رہنے والے کووڈ 19 کے مریضوں کے ایک گروپ کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا ڈیٹا حقیقی دنیا پر مبنی ہے جس سے ابتدائی یقین دہانی ہوتی ہے کہ بی 117 سے متاثر مریضوں میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

    تحقیق میں 496 مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو نومبر اور دسمبر 2020 کے دوران برطانیہ کے اسپتالوں میں کووڈ 19 کے باعث زیر علاج رہے تھے۔

    ان میں سے 198 مریضوں میں بی 117 قسم کی تشخیص ہوئی تھی، جن میں سے 72 میں بیماری کی شدت سنگین ہوئی جبکہ گروپ کے دیگر 141 افراد (جن میں کرونا کی دیگر اقسام کو دریافت کیا گیا تھا) میں سے 53 مریضوں کو بیماری کی سنگین شدت کا سامنا ہوا۔

    بی 117 سے متاثر 31 جبکہ دیگر اقسام سے متاثر 24 مریض ہلاک ہوئے۔ جن افراد میں بیماری کی شدت زیادہ ہوئی یا ہلاک ہوئے، وہ معمر تھے یا پہلے سے کسی اور بیماری کا شکار تھے۔

    اگرچہ محققین بی 117 کے مریضوں میں بیماری کی سنگین شدت یا موت کے نمایاں خطرے کو دریافت نہیں کرسکے تاہم ان میں وائرل لوڈ کی سطح زیادہ تھی، جس سے وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کا عندیہ ملتا ہے۔

    تحقیق کے نتائج سے سابقہ تحقیق کو توقع ملتی ہے کہ برطانیہ میں دریافت یہ قسم زیادہ متعدی ہے اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • کرونا وائرس کی ناقابلِ تشخیص قسم دریافت

    کرونا وائرس کی ناقابلِ تشخیص قسم دریافت

    پیرس: فرانس میں کرونا وائرس کی ایک اور نئی قسم کو دریافت کرلیا گیا، ابھی اس بات کا علم نہیں ہوسکا کہ نئی قسم اوریجنل وائرس کے مقابلے میں زیادہ خطرنای یا متعدی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فرانس میں کرونا وائرس کی ایک ایسی نئی قسم کو دریافت کیا گیا ہے جس کو پی سی آر ٹیسٹوں میں پکڑنا بہت مشکل ہوتا ہے، ابھی یہ معلوم نہیں کہ یہ کس حد تک جان لیوا یا متعدی ہے۔

    اے آر ایس ہیلتھ سروس کے مقامی ڈائریکٹر اسٹیفن میولیز نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ لانیون کے ایک ہسپتال کے بائیولوجسٹ نے حال ہی میں درجنوں اموات پر تحقیق کے دوران اس نئی قسم کو دریافت کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ 7 افراد میں کرونا وائرس کی روایتی علامات دریافت ہوئی تھیں حالانکہ ان کے پی سی آر ٹیسٹ منفی رہے تھے، جس کے لیے ناک سے حاصل کیے جانے والے مواد کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور عموماً بہت زیادہ مستند ہوتے ہیں۔

    اسٹیفن میولیز نے بتایا کہ خون اور نظام تنفس کی گہرائی میں موجود بلغم کے مزید ٹیسٹوں سے ان مریضوں میں کووڈ کی تشخیص ہوئی، یہ سب افراد معمر اور پہلے سے مختلف امراض سے متاثر تھے۔

    اس موقع پر فرنچ ہیلتھ ایجنسی کے ریجنل ڈائریکٹر ایلن تریتے نے بتایا کہ ایک امکان یہ ہے کہ وائرس نظام تنفس کے اوپر اور زیریں حصوں میں برق رفتاری سے پھیل گیا۔

    ان نمونوں کو پیرس کے پیستور انسٹی ٹیوٹ میں جینیاتی سیکونسنگ کے لیے بھیجا گیا تھا، جس کے بعد تصدیق ہوئی کہ یہ وائرس کی ایک نئی قسم ہے۔ اس دریافت کے بعد اس خطے میں ٹیسٹوں اور ٹریسنگ کا عمل بڑھا دیا گیا ہے کہ تاکہ تعین کیا جاسکے کہ یہ نئی قسم دیگر علاقوں تک پہنچی ہے یا نہیں۔

    اے آر ایس کا مزید کہنا ہے کہ ابتدائی تجزیوں میں یہ عندیہ نہیں ملا کہ یہ نئی قسم اوریجنل وائرس کے مقابلے میں زیادہ خطرنای یا متعدی ہے۔

  • برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے نیا انکشاف

    ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں موجود کرونا وائرس کی نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا اور متعدی ہے۔ ماہرین نے کرونا کی اس قسم سے اموات کی شرح کا تعین بھی کیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں سامنے آنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں 64 فیصد زیادہ جان لیوا ہے۔

    برسٹل، لنکا شائر، واروک اور ایکسٹر یونیورسٹیوں کی اس مشترکہ تحقیق میں یکم اکتوبر 2020 سے 29 جنوری 2021 کے دوران کرونا وائرس کی برطانوی قسم سے متاثر 54 ہزار مریضوں کا موازنہ اتنی ہی تعداد میں پرانی قسم سے بیمار ہونے والے افراد سے کیا۔

    ماہرین نے عمر، جنس، نسل، علاقے اور سماجی حیثیت جیسے عناصر کو مدنظر رکھ کر یقینی بنایا کہ اموات کی وجہ کوئی اور نہ ہو۔

    یہ کسی طبی جریدے میں شائع ہونے والی پہلی تحقیق ہے جس میں کرونا کی برطانوی قسم سے اموات کی شرح کا تعین کیا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی اصل قسم سے شرح اموات ہر ایک ہزار میں 2.5 تھی مگر برطانوی قسم میں یہ شرح ہر ایک ہزار میں 4.1 تک پہنچ گئی، جو 64 فیصد زیادہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی یہ نئی قسم نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے بلکہ یہ زیادہ جان لیوا بھی نظر آتی ہے۔

    اس نئی قسم کے نتیجے میں اموات کی شرح میں اضافے کی وجوہات کو مکمل طور پر واضح نہیں کیا گیا، تاہم حالیہ مہینوں میں سامنے آنے والے کچھ شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ بی 1.1.7 سے متاثر افراد میں وائرل لوڈ زیادہ ہوتا ہے، جس کے باعث وائرس نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے بلکہ مخصوص طریقہ علاج کی افادیت کو بھی ممکنہ طور پر متاثر کرسکتا ہے۔

    برطانیہ میں یہ نئی قسم سب سے پہلے ستمبر میں سامنے آئی تھی اور اس کی دریافت کا اعلان دسمبر 2020 میں کیا گیا تھا، جو اب تک درجنوں ممالک تک پہنچ چکی ہے اور امریکا میں یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں 35 سے 45 فیصد زیادہ آسانی سے پھیل رہی ہے۔

    امریکی حکام کا اندازہ ہے کہ یہ نئی قسم رواں سال مارچ میں امریکا میں سب سے زیادہ پھیل جانے والی قسم ہوگی۔

    اس نئی قسم سے لاحق ہونے والا سب سے بڑا خطرہ اس کا زیادہ تیزی سے پھیلنا ہی ہے، ایک اندازے کے مطابق یہ پرانی اقسام کے مقابلے میں 30 سے 50 فیصد زیادہ متعدی ہے، تاہم کچھ سائنسدانوں کے خیال میں یہ شرح اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔