Tag: Variants

  • کرونا وائرس کی نئی اقسام زیادہ متعدی کیوں ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی اقسام زیادہ متعدی کیوں ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی اقسام ڈیلٹا اور ایلفا اصل قسم سے زیادہ متعدی تصور کی جاتی ہیں، اور اب ماہرین نے اس کی وجہ دریافت کرلی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں ایسی میوٹیشن کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کرونا وائرس کی ایلفا قسم دیگر اقسام سے بہت زیادہ متعدی کیوں ہے۔

    کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہرین نے تحقیق میں دریافت کیا کہ ایک غیر واضح میوٹیشن نے وائرس کے ساختی جسم کو اس طرح تبدیل کیا جس کے نتیجے میں وہ زیادہ متعدی ہوگئی۔

    آر 20 ایم نامی میوٹیشن ڈیلٹا کو منفرد بناتی ہے جس کے نتیجے میں وائرس اپنے میزبان خلیات میں اپنے جینیاتی کوڈ کو وائرس کی پرانی اقسام کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ انجیکٹ کرتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے اوریجنل وائرس کا ایک فرضی ورژن تیار کیا جس میں آر 203 ایم میوٹیشن کا اضافہ کیا گیا، اس کے بعد مشاہدہ کیا گیا کہ کس طرح تدوین شدہ قسم لیبارٹری میں پھیپھڑوں کے خلیات پر اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کا موازنہ اوریجنل وائرس سے کیا گیا۔

    تحقیقی ٹیم یہ دریافت کرکے حیران رہ گئی کہ آر 203 ایم پرانی اقسام کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ایم آر این اے خلیات میں پھیلا دیتی ہے۔

    اس دریافت کی تصدیق کے لیے انہوں نے حقیقی کرونا وائرس میں آر 203 ایم کا اضافہ کیا جس کے نتیجے میں وہ اوریجنل وائرس سے 51 گنا زیادہ متعدی ہوگیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ان شبہات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کرونا کی قسم ڈیلٹا میں اسپائیک پروٹینز سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے۔ آر 203 ایم سے کووڈ کی وہ پروٹین کوٹنگ بدل گئی جو اس کے جینوم کے ارگرد ہوتی ہے، اس کو این پروٹین بھی کہا جاتا ہے۔

    یہ پروٹین جسم میں داخل ہونے کے بعد وائرس کے استحکام اور اخراج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    اس تحقیق میں کرونا کی دیگر اقسام میں بھی این پروٹینز کی تبدیلیوں کو دیکھا گیا اور دریافت ہوا کہ وہ بھی خلیات کو متاثر کرنے میں اوریجنل وائرس سے زیادہ بہتر کام کرتی ہیں۔

  • کرونا وائرس کی نئی اقسام: فیس ماسک کی افادیت کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    کرونا وائرس کی نئی اقسام: فیس ماسک کی افادیت کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    کرونا وائرس سے بچنے کے لیے سماجی دوری اور فیس ماسک کا استعمال نہایت ضروری ہے، اور حال ہی میں ایک اور تحقیق نے اس کی تصدیق کی ہے۔

    حال ہی میں برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق فیس ماسک کا استعمال نئے کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔

    برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی، آکسفورڈ یونیورسٹی اور کوپن ہیگن یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں فیس ماسک کے اثرات کا جائزہ 6 براعظموں میں لیا گیا۔

    فیس ماسک کا استعمال کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اہم ترین رکاوٹ کا کردار ادا کرتا ہے اور تجرباتی تحقیقی رپورٹس کے مطابق اس سے کسی کے بات کرنے سے بننے والے ذرات یا ہوا میں موجود ذرات کی روک تھام ہوتی ہے۔

    تاہم اب تک اس وبائی بیماری کے پھیلاؤ پر اس اثر کا وبائی ڈیٹا کو مدنظر رکھ کر جائزہ نہیں لیا گیا تھا۔

    تحقیقی ٹیم نے فیس ماسک کے اثرات کا تجزیہ کیا جو اپنی طرز کا سب سے بڑے سروے بھی ہے جس میں 2 کروڑ افراد اور 6 براعظموں کے 92 خطوں کے ڈیٹا کو دیکھا گیا۔

    ماہرین نے ماضی کے تحقیقی کام کا بھی تجزیہ کیا۔

    انہوں نے ایک تکنیک کو استعمال کرکے فیس ماسک پہننے اور فیس ماسک کے استعمال کی پابندی کے اثرات کا ان خطوں میں کیسز کی تعداد سے موازنہ کیا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر کسی خطے میں سب لوگ فیس ماسک کا استعمال کریں تو کووڈ 19 کے کیسز کی شرح میں 25 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فیس ماسک کے لازمی استعمال کی پابندی لوگ بتدریج کرتے ہیں اور کیسز کی تعداد سے کسی علاقے میں فیس ماسک پہننے کی شرح کی پیشگوئی بھی کی جاسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اس وقت جب فیس ماسک کا استعمال گھٹ رہا ہے اور ان کو پہننے کی پابندی بھی بتدریج ختم ہورہی ہے، اس وقت ہماری تحقیق سے تصدیق ہوتی ہے کہ کسی آبادی میں فیس ماسکس کووڈ 19 کی روک تھام میں اہم اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    اس تحقیقی ٹیم کا کام ابھی جاری ہے اور اب کرونا وائرس کی نئی اقسام پر فیس ماسک کے اثرات کا تجزیہ کیا جارہا ہے جبکہ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ کس قسم کے ماسکس کو پہننا بیماری سے زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے۔

  • کیا ویکسین کرونا وائرس کی نئی اقسام سے بھی تحفظ دے سکے گی؟

    کیا ویکسین کرونا وائرس کی نئی اقسام سے بھی تحفظ دے سکے گی؟

    واشنگٹن: کرونا وائرس کی نئی اقسام نے اب تک بننے والی ویکسینز کی اثر انگیزی پر تحفظات کھڑے کردیے تھے اب حال ہی میں ایک اور تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی نئی اقسام جو امریکی ریاست کیلی فورنیا، ڈنمارک، برطانیہ، جنوبی افریقہ، جاپان اور برازیل میں دریافت ہوئی ہیں، سائنسدانوں کی جانب سے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ویکسینز ان کے خلاف کس حد تک مؤثر ہیں۔

    حال ہی امریکا میں اس حوالے سے ہونے والی ایک طبی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔

    میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی، میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور ہارورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ برازیل اور جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی اقسام فائزر اور موڈرنا کی کووڈ ویکسینز سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کو کم مؤثر بناسکتی ہیں۔

    تحقیق میں ماہرین نے دیکھا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز وائرس کی اصل قسم اور نئی اقسام پر کس حد تک مؤثر طریقے سے کام کرتی ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ جب ہم نے نئی اقسام پر وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی تو دریافت کیا کہ جنوبی افریقی قسم اینٹی باڈیز کے خلاف 20 سے 40 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔

    اسی طرح برازیل اور جاپان میں دریافت 2 اقسام پرانی قسم کے مقابلے میں اینٹی باڈیز کے خلاف 5 سے 7 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اینٹی باڈیز وائرس کو سختی سے جکڑ کر انہیں خلیات میں داخل ہونے سے روکتی ہیں، جس سے بیماری سے تحفظ ملتا ہے۔

    مگر یہ عمل اسی وقت کام کرتا ہے جب اینٹی باڈی کی ساخت وائرس کی ساخت سے مثالی مطابقت رکھتی ہو، اگر وائرس کی اس جگہ کی ساخت مختلف ہو جہاں اینٹی باڈیز منسلک ہوتی ہیں، یعنی کرونا وائرس کا اسپائیک پروٹین، تو اینٹی باڈیز اسے مؤثر طریقے سے شناخت اور ناکارہ بنانے سے قاصر ہوجاتی ہیں۔

    اسی کے لیے ویکسین کے خلاف وائرس کی مزاحمت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق جنوبی افریقہ کی 3 اقسام ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت کرتی ہیں اور ان سب کے اسپائیک پروٹین کے مخصوص میں ایک جیسی 3 میوٹیشنز موجود ہیں، جو ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ نئی اقسام کی جانب سے اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت قابل تشویش ضرور ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ویکسینز مؤثر نہیں۔

  • کرونا وائرس میں ہونے والی تبدیلیاں: ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    کرونا وائرس میں ہونے والی تبدیلیاں: ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    لندن: ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس میں آنے والی نئی تبدیلیاں ویکسین کی اثر انگیزی کو کم کرسکتی ہیں، ماہرین کے مطابق وائرس کی تبدیلیوں پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

    حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی اقسام موجودہ ویکسینز اور مخصوص مونوکلونل اینٹی باڈیز طریقہ علاج کی افادیت کو کم کرسکتی ہیں اور ان سے کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں دوبارہ بیماری کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج نووا واکس ویکسین کے ٹرائل کے نتائج پر مبنی ہیں۔

    28 جنوری کو کمپنی نے اپنی ویکسین کے ٹرائل کے نتائج جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ ویکسین برطانیہ میں ٹرائل کے دوران لگ بھگ 90 فیصد تک مؤثر رہی تھی مگر جنوبی افریقہ میں یہ افادیت محض 49.4 فیصد رہی تھی، جہاں بیشتر کیسز نئی قسم بی 1351 کے تھے۔

    محققین نے بتایا کہ ہماری تحقیق اور نئے کلینکل ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس اس سمت کی جانب سفر کر رہا ہے جو اسے موجودہ ویکسینز اور طریقہ علاج سے بچنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر وائرس کا پھیلاؤ تیز رفتاری سے جاری رہا اور اس میں مزید میوٹیشنز ہوئیں تو ہمیں مسلسل کرونا وائرس کی تبدیلیوں کو نظر میں رکھنا ہوگا، جیسا انفلوائنزا وائرس کے ساتھ ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اس خیال کو دیکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ جس حد تک جلد ممکن ہو وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جائے، تاکہ وہ اپنے اندر مزید تبدیلیاں نہ لاسکے۔

  • کرونا وائرس کے انوکھے کیس نے ماہرین کو پریشان کردیا

    کرونا وائرس کے انوکھے کیس نے ماہرین کو پریشان کردیا

    برازیلیا: برازیل میں 2 ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں کرونا وائرس کی 2 اقسام سے ایک ہی وقت میں متاثر ہونے کا انکشاف ہوا ہے، 2 اقسام کا ایک دوسرے سے ملنا وائرس کی نئی اقسام کے بننے کا باعث بنتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برازیل کے سائنسدانوں نے ایسے 2 کیس رپورٹ کیے ہیں جو بیک وقت کرونا وائرس کی 2 مختلف اقسام سے بیمار ہوئے۔ اس تحقیق کے نتائج آن لائن جاری کیے گئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر 2 اقسام سے بیک وقت بیمار ہونے سے بیماری کی شدت پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے اور دونوں مریض اسپتال میں جائے بغیر صحت یاب ہوگئے، ویسے تو یہ صرف 2 کیسز ہیں مگر یہ پہلی بار ہے کہ جب کرونا وائرس کی 2 اقسام سے بیک وقت متاثر کیس کو رپورٹ کیا گیا۔

    اس سے قبل سائنس دانوں نے نظام تنفس کے دیگر امراض جیسے انفلوائنزا کی مختلف اقسام سے بیک وقت متاثر ہونے کو ضرور ریکارڈ کیا ہے۔

    متاثر ہونے والے دونوں مریضوں میں کرونا وائرس کی 2 مختلف اقسام کو دریافت کیا گیا تھا جو برازیل میں کافی عرصے سے گردش کر رہی تھیں اور ان کا جینیاتی مواد ایک دوسرے سے مختلف تھا۔

    اس دریافت سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کرونا وائرس بہت تیزی سے نئی میوٹیشنز کو اپنالیتا ہے، کیونکہ کرونا وائرسز اپنے جینیاتی سیکونس میں بڑی تبدیلیوں سے گزرتے ہیں۔

    جب اس کی 2 اقسام ایک خلیے کو بیک وقت متاثر کرتی ہیں تو وہ ایک دوسرے سے اپنے جینوم کے بڑے حصوں کا تبادلہ کرسکتی ہیں اور ایک مکمل نیا سیکونس تیار کرسکتی ہیں۔

    آسان الفاظ میں 2 اقسام کا ایک دوسرے سے ملنا ہی اس وائرس کی نئی اقسام کے بننے کا باعث بنتا ہے۔

    مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وائرس کی 2 اقسام ایک خلیے کو بیک وقت متاثر کریں، ورنہ ایک فرد متعدد اقسام سے متاثر ہو مگر ان کا آپس میں رابطہ نہ ہو تو نئی قسم بننے کا امکان نہیں ہوگا۔

  • امریکا میں کرونا وائرس کی نئی اقسام دریافت، ماہرین تشویش میں مبتلا

    امریکا میں کرونا وائرس کی نئی اقسام دریافت، ماہرین تشویش میں مبتلا

    واشنگٹن: دنیا بھر میں کرونا وائرس کی نئی اقسام دریافت ہورہی ہیں، امریکا میں حال ہی میں اس وائرس کی 7 نئی اقسام دریافت ہوئی ہیں جس سے ماہرین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا میں کرونا وائرس کی 7 نئی اقسام دریافت ہوئی ہیں جس نے سائنسدانوں کو فکرمند کردیا ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر زیادہ متعدی ہوسکتی ہیں۔

    حال ہی میں ہونے والی نئی تحقیق میں امریکا میں کرونا وائرس کی 7 نئی اقسام دریافت ہونے کا انکشاف کیا گیا جو مختلف ریاستوں میں نظر آئی ہیں اور ان سب میں ایک میوٹیشن مشترک ہے۔

    لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی ہیلتھ سائنس سینٹر کے وائرلوجسٹ جرمی کمیل کا کہنا ہے کہ اس میوٹیشن کے ساتھ خفیہ طور پر کچھ ہورہا ہے۔

    ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ میوٹیشن نئی اقسام کو زیادہ متعدی بنا سکتی ہیں، یا نہیں، مگر وائرس کے جین میں ہونے والی میوٹیشن سے بظاہر اسے انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد ملتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وائرسز ماحولیاتی ضروریات کے مطابق خود کو بدل سکتے ہیں، مثال کے طور پر ایچ آئی وی اس وقت نمودار ہوا جب متعدد اقسام کے وائرسز بندروں اور بن مانسوں سے انسانوں میں منتقل ہوئے۔

    ڈاکٹر جرمی نے کرونا وائرس کی نئی اقسام کو اس وقت دریافت کیا جب وہ لوزیانا میں کرونا وائرس کے نمونوں کے سیکونس بنا رہے تھے۔

    جنوری 2021 کے اختتام پر انہوں نے متعدد نمونوں میں ایک نئی میوٹیشن کا مشاہدہ کیا، اس میوٹیشن نے کرونا وائرس کی سطح پر موجود پروٹینز یعنی اسپائیک پروٹینز کو بدلا جو 12 سو مالیکولر بلڈنگ بلاکس یا امینو ایسڈز پر مبنی ہوتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ان تمام نمونوں میں ایک میوٹیشن نے 677 ویں امینو ایسڈ کو بدلا، تحقیقات کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ میوٹیشن والے تمام وائرسز میں ایک ہی لائنیج ہے۔

    بعد ازاں انہوں نے وائرسز کے جینومز ایک آن لائن ڈیٹا بیس پر اپ لوڈ کیے جس کو دنیا بھر کے سائنسدان استعمال کر رہے ہیں۔

    اگلے دن انہیں نیو میکسیکو یونیورسٹی کے ایک ماہر ڈیرل ڈومان کی ای میل موصول ہوئی، جن کی ٹیم نے اسی قسم کو اپنی ریاست میں دریافت کیا گیا تھا، جس میں یہی میوٹیشن ہوئی تھی۔ مزید تحقیقات پر ڈاکٹر جرمی اور ان کی ٹیم نے مزید 6 نئی اقسام کو دریافت کیا جن میں وہی میوٹیشن ہوئی تھی۔

    یہ کہنا مشکل ہے کہ میوٹیشن سے یہ اقسام زیادہ متعدی ہوگئی ہیں، بلکہ محققین کے خیال میں ان کے عام ہونے کی وجہ کرسمس کی تعطیلات کے دوران ملک بھر میں کیے جانے والے سفر ہوسکتے ہیں یا ریسٹورنٹس یا کارخانوں میں سپر اسپریڈرز ایونٹس اس کی وجہ ہوسکتے ہیں۔

    تاہم سائنسدان فکرمند ہیں کیونکہ میوٹیشن سے یہ خیال قابل قبول محسوس ہوتا ہے کہ اس سے وائرس کے لیے انسانی خلیات میں داخلہ آسان ہوجاتا ہے۔

  • کرونا وائرس کی نئی اقسام سے ماہرین پریشان

    کرونا وائرس کی نئی اقسام سے ماہرین پریشان

    کرونا وائرس کو دنیا کو اپنا شکار بنائے ایک سال سے زیادہ ہوچکا ہے اور اس کی ویکسین بھی تیار کی جاچکی ہے، تاہم اب اس کی نئی اقسام بھی سامنے آرہی ہیں جنہوں نے ماہرین کو پریشان کر رکھا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی کم از کم 4 نئی اقسام نے سائنسدانوں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے، ان میں سے ایک تو وہ ہے جو سب سے پہلے جنوب مشرقی برطانیہ میں سامنے ٓئی اور اب تک کم از کم 50 ممالک میں پہنچ چکی ہے۔

    یہ قسم بظاہر پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت سے لیس نظر آتی ہے، 2 اقسام جنوبی افریقہ اور برازیل میں نمودار ہوئیں جو وہاں سے باہر کم پھیلی ہیں مگر ان میں آنے والی میوٹیشنز نے سائنسدانوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ہے۔

    ایک اور نئی قسم امریکی ریاست کیلی فورنیا میں دریافت ہوئی ہے جس کے بارے میں بہت زیادہ معلومات ابھی حاصل نہیں۔ اب تک سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ نئی اقسام بیماری کی شدت کو بڑھا نہیں سکیں گی جبکہ ویکسین کی افادیت بھی متاثر نہیں ہوگی۔

    بی 1.1.7

    سائنسدانوں کی توجہ سب سے زیادہ بی 1.1.7 پر مرکوز ہے جو سب سے پہلے برطانیہ میں دریافت ہوئی تھی۔ امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے حال ہی میں خبردار کیا گیا تھا کہ اس نئی قسم کا پھیلاؤ وبا کو بدترین بناسکتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب تک جو معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی مدافعتی نظام نئی اقسام کو ہینڈل کرسکتا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ بیماری کی شدت میں اضافے یا کمی کا باعث نہیں، یہ اسپتال میں زیر علاج افراد کی تعداد یا اموات میں بھی تبدیلی نہیں لاتی، اب تک ہم نے جو جانا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا پھیلاؤ بالکل پرانی اقسام کی طرح ہے۔

    جو اقدامات اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کیے گئے ہیں وہ نئی اقسام کی روک تھام میں بھی مددگار ہوں گے، جیسے فیس ماسک کا استعمال، سماجی دوری، ہجوم میں جانے سے گریز اور اکثر ہاتھ دھونا۔

    بی 1.3.5.1

    جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی نئی قسم کو بی 1.3.5.1 یا 501Y.V2 کا نام دیا گیا ہے، جس میں میوٹیشنز برطانوی قسم سے مختلف ہیں، جس کی وجہ سے اسپائیک پروٹین کی ساخت میں زیادہ تبدیلیاں آئی ہیں۔

    ایک اہم میوٹیشن E484K سے ریسیپٹر کو جکڑنے کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے جو کہ وائرس کو خلیات میں داخل ہونے میں مدد دینے والا اہم ترین حصہ ہے۔

    اس سے وائرس کو جزوی طور پر ویکسینز کے اثرات سے بچنے میں بھی مدد مل سکتی ہے تاہم ابھی اس حوالے سے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔

    ویکسینز تیار کرنے والی کمپنیاں اور محققین کی جانب سے اس قسم کے نمونوں پر آزمائش کی جارہی ہے، تاکہ دیکھا جاسکے کہ کیا واقعی یہ قسم ویکسین کے مدافعتی ردعمل کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے یا نہیں۔

    پی 1 اور پی 2

    یہ دونوں اقسام سب سے پہلے برازیل میں نمودار ہوئی تھیں، جن میں سے پی 1 قسم کو ایک سروے میں برازیل کے شہر میناوس میں 42 فیصد کیسز میں دریافت کیا گیا اور جاپان میں بھی برازیل سے آنے والے 4 مسافروں میں اسے دیکھا گیا۔

    سی ڈی سی کے مطابق یہ نئی قسم کرونا وائرس سے بیمار ہونے والے افراد کو دوبارہ بیمار کرنے یا تیزی سے پھیلنے کی ممکنہ صلاحیت رکھتی ہے۔ اس قسم میں بھی E484K میوٹیشن کو دیکھا گیا ہے۔

    پی 2 بھی سب سے پہلے برازیل میں نظر آئی اور جنوری میں اسے 11 افراد میں دریافت کیا گیا۔

    ایل 425 آر

    یہ نئی قسم امریکی ریاست کیلی فورنیا میں نمودار ہوئی ہے جس کے بارے میں ابھی تحقیقی کام کیا جارہا ہے۔ تاہم اب تک عندیہ ملتا ہے کہ اس کے اسپائیک پروٹین میں میوٹیشن ہوئی ہے تاہم ابھی واضح نہیں کہ یہ زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے یا نہیں۔

    ایک تحقیق میں لاس اینجلس کی تحقیقی ٹیم نے نومبر کے آخر اور دسمبر میں 192 مریضوں میں سے 36 فیصد میں اس نئی قسم کو دریافت کیا، جبکہ جنوبی کیلی فورنیا میں یہ شرح 24 فیصد تھی۔