Tag: verdict

  • ملزم 2 سال کی قید کاٹ کر جیل سے رہا، اپیل کا فیصلہ 18 سال بعد سنا دیا گیا

    ملزم 2 سال کی قید کاٹ کر جیل سے رہا، اپیل کا فیصلہ 18 سال بعد سنا دیا گیا

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں منشیات رکھنے پر گرفتار ملزم 2 سال کی قید کاٹ کر جیل سے رہا ہوگیا، سزا کے خلاف دائر کی گئی اس کی اپیل پر آج 18 سال بعد فیصلہ سنا دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ نے 2 سال کی سزا کے خلاف اپیل پر 18 سال بعد فیصلہ سنا دیا، عدالت نے ملزم شاہ محمد کی 2 سالہ سزا کے خلاف اپیل عدم پیروی پر مسترد کردی۔

    ملزم محمد شاہ کو چاکیواڑہ پولیس نے 12 گرام ہیروئن رکھنے پر 2003 میں گرفتار کیا تھا، ملزم کے وکیل کا کہنا ہے کہ ملزم شاہ محمد مسلسل غیر حاضر ہے اور رابطے میں نہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے اپیل کو طویل عرصہ زیر التوا نہیں رکھا جاسکا، اس طرح کی درخواستوں سے عدالتوں کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے، ملزم شاہ محمد 22 اپریل 2006 کو سزا مکمل کر کے رہا ہوچکا ہے۔

  • منی لانڈرنگ کیس میں ملزم کو 24 سال قید، 50 لاکھ روپے جرمانہ

    منی لانڈرنگ کیس میں ملزم کو 24 سال قید، 50 لاکھ روپے جرمانہ

    راولپنڈی: صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کی عدالت میں منی لانڈرنگ کیس میں ملزم کو 24 سال قید اور 50 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی، عدالت نے منی لانڈرنگ سے بنائی گئی جائیداد بھی ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسپیشل جج سینٹرل راولپنڈی شوکت کمال ڈار کی عدالت میں منی لانڈرنگ کیس کا فیصلہ سنایا گیا۔

    جرم ثابت ہونے پر ملزم اسامہ علی کو امیگریشن آرڈیننس کے تحت 24 سال قید اور 50 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

    ملزم پر درج ایک اور مقدمے میں 7 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی اور ساتھ ہی منی لانڈرنگ سے بنائی گئی جائیداد بھی ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

    اسامہ علی کے خلاف سال 2020 اور 2021 میں مقدمات درج کیے گئے تھے، ملزم نے کینیڈا امیگریشن کا جھانسہ دے کر 4 کروڑ 81 لاکھ 6 ہزار روپے ہتھیائے تھے۔

  • سعودی عدالت کا غیر ملکی ملازمین کے حق میں بڑا فیصلہ

    سعودی عدالت کا غیر ملکی ملازمین کے حق میں بڑا فیصلہ

    ریاض: سعودی عدالت نے غیر ملکی ملازمین کے حق میں بڑا فیصلہ دے دیا، مذکورہ غیر ملکی ملازمین نے مقامی کمپنی کے خلاف اجتماعی مقدمہ دائر کیا تھا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق ریاض لیبر کورٹ نے 10 ممالک کے 149 کارکنان کے حق میں ایک کمپنی کے خلاف فیصلہ دے دیا اور کمپنی کو 28 ملین ریال کے مالی مطالبات ادا کرنے کا حکم جاری کردیا گیا۔

    مذکورہ غیر ملکی ملازمین نے 21 اپریل 2022 کو اجتماعی مقدمہ دائر کیا تھا، انہوں نے متعلقہ کمپنی سے تنخواہ دلانے، چھٹیوں کا محنتانہ ادا کروانے اور اینڈ آف سروس ( نہایۃ الخدمۃ) واجبات کا مطالبہ کیا تھا۔

    ریاض لیبر کورٹ نے 12 مئی 2022 کو 119 ملازمین اور پھر 21 شوال مطابق 22 مئی کو باقی ماندہ 30 ملازمین کے مطالبات نمٹائے تھے۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب میں لیبر کورٹس ملازمت کے معاہدوں، محنتانوں، حقوق اور ڈیوٹی کے دوران زخمی ہوجانے والے کارکنان کے لیے معاوضے کے مقدمات نمٹاتی ہیں اور ملازم کے خلاف آجر کی تادیبی کارروائی کے مسائل کا تصفیہ کرتی ہیں۔

    سعودی وزارت انصاف آجروں اور اجیروں کو لیبر کورٹس سے آن لائن (ناجز) کے ذریعے مقدمات دائر کرنے کا موقع فراہم کیے ہوئے ہے۔

  • اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہباز تتلہ قتل کیس کا فیصلہ سنادیا گیا

    اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہباز تتلہ قتل کیس کا فیصلہ سنادیا گیا

    لاہور کی مقامی عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل شہباز تتلہ قتل کیس کا فیصلہ سنادیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج شبیر راجہ کی جانب سے کیس پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا گیا، جس کے تحت مرکزی ملزم ایس ایس پی مفخرعدیل پر جرم ثابت ہونے ہر عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

    عدالت نے دو شریک ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا، شریک ملزمان میں اسد سرور اور عرفان علی شامل تھے۔

    وکیل مدعی فرہاد شاہ نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ ملزمان نے بہیمانہ طریقے سے شہباز تتلہ کو قتل کیا اور قتل کے بعد ملزمان نے لاش تیزاب کے ذریعے تلف کی تھی، ملزمان کے خلاف فروری دو ہزار بیس میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ 10 فروری 2020 کو شہباز تتلہ قتل کیس کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ 14 اکتوبر 2020 کو شہباز تتلہ قتل کیس کے ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی۔

    سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل شہبازتتلہ قتل کیس میں قید ایس ایس پی مفخر عدیل کو ملازمت سے برطرف کیا جاچکا ہے۔

  • 14 سالہ بچی سے زیادتی کیس کا فیصلہ

    14 سالہ بچی سے زیادتی کیس کا فیصلہ

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 14 سالہ بچی سے زیادتی کے ملزم کو 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی، ملزم پر 2 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن غربی کی عدالت نے 14 سالہ بچی سے زیادتی کے کیس کا فیصلہ سنا دیا۔

    عدالت نے جرم ثابت ہونے پر ملزم خلیل کو 10 سال قید کی سزا سنا دی، عدالت نے ملزم خلیل پر 2 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کرنے کا حکم دیا ہے۔

    عدالت نے ضمانت پر رہا ملزم کو فوری گرفتار کر کے جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل لاہور ہائیکورٹ نے 6 سالہ بچی سے زیادتی کے کیس میں قرار دیا تھا کہ جنسی زیادتی کے کیسز میں میڈیکل رپورٹس اور ڈی این اے پازیٹو نہ بھی ہوں تو ملزم کو متاثر فرد کے بیان پر سزا ہوسکتی ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ اکثر کیسز میں ڈی این اے کے لیے مواد ناکافی ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جرم نہیں ہوا۔

    فیصلے کے مطابق میڈیکل رپورٹس اور ڈی این اے پازیٹو نہ بھی ہو تو ملزم کو ریپ کا شکار فریق کے بیان پر سزا ہو سکتی ہے۔

  • سانحہ بلدیہ کیس کا فیصلہ 22 ستمبر کو سنایا جائے گا

    سانحہ بلدیہ کیس کا فیصلہ 22 ستمبر کو سنایا جائے گا

    کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت میں سانحہ بلدیہ کیس کا فیصلہ 22ستمبر کو سنایا جائے گا ، خوفناک آتشزدگی میں 260 کے قریب ملازمین جل کر خاکستر ہوگئے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت میں سانحہ بلدیہ کیس کی سماعت ہوئی ، ملزمان رحمان بولا اور زبیر چریا کو جیل سے پیش کیا گیا جبکہ رؤف صدیقی، عمر حسن قادری، ڈاکٹرعبدالستار سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے، رینجرز پراسیکیوٹر اورملزمان کے وکلا بھی عدالت میں موجود تھے۔

    عدالت نے استفسار کیا کیاعدالت لواحقین کے لیے ملزمان پرجرمانہ عائد کرسکتی ہے ؟ جس پر ملزمان کے وکلا نے کہا سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر ورثا کو جرمانہ دیا جاچکا ہے، دی گئی رقم دیت نہیں معاوضے کی تھی ، معاوضہ انشورنس کمپنی اور حکومت کی جانب سے ادا ہوا، عدالت چاہے تو ملزمان پر جرمانہ عائد کرسکتی ہے۔

    پراسیکیوٹررینجرز نے عدالت کو بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کی جانب سے معاوضہ انسانی ہمدردی کی بنیادپردیاگیا ، اے ٹی سی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پرعمل کی پابند نہیں۔

    عدالت نے سوال کیا عدالت کوبتایاجائےکتنی لاشوں کاپوسٹ مارٹم ہوا؟ تفیشی افسر نے بتایا 259لاشوں کاپوسٹ مارٹم کیا گیا تھا، کچھ انسانی عضاالگ تھے ان کا بھی پوسٹ مارٹم کیا گیا۔

    دوران سماعت وکلا کے دلائل مکمل عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور کہا اےٹی سی کی جانب سے سانحہ بلدیہ کا فیصلہ 22 ستمبر کو سنایا جائے گا۔

    بلدیہ فیکٹری کیس رحمان بھولا، زبیرچریااوردیگرملزمان نامزدہیں جبکہ حماد صدیقی اور علی حسن قادری اشتہاری ہیں۔

    فروری 2017 میں اس کیس میں ایم کیو ایم رہنما رؤف صدیقی، رحمان بھولا، زبیر چریا اور دیگر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ کیس میں 768 گواہوں کے نام شامل ہیں، جن میں 400 سے زائد گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے۔

    یاد رہے کہ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون میں 11 ستمبر 2012 کو خوفناک آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا، جس میں 260 کے قریب ملازمین جل کر خاکستر ہوگئے تھے۔

    بعد ازاں سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ فیکڑی میں آتشزدگی کا واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر بلدیہ فیکٹری کو آگ لگائی گئی۔

    عبدالرحمان بھولا نے اپنے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ اس نے حماد صدیقی کے کہنے پر ہی بلدیہ فیکٹری میں آگ لگائی تھی۔

  • پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

    پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

    اسلام آباد: سابق صدر و آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کےخلاف آئین شکنی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ 169 صفحات پر مشتمل ہے۔

    عدالت نے فیصلے کی کاپی میڈیا کو نہ دینے کا حکم دیا، بعد ازاں پرویز مشرف اور وزارت داخلہ کے نمائندوں کو فیصلے کی کاپی فراہم کردی گئی۔ دونوں نمائندے تفصیلی فیصلے کی کاپی لے کر خصوصی عدالت سے روانہ ہوگئے۔

    پرویز مشرف کو سزا سنانے والے خصوصی عدالت کا بینچ جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل تھا۔

    تفصیلی فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟

    تفصیلی فیصلے میں خصوصی عدالت کے جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ موجود ہے، جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ میں پرویز مشرف کو بری کر دیا۔

    اپنے اختلافی نوٹ میں انہوں نے لکھا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44 صفحات پر مشتمل ہے۔

    بینچ کے بقیہ 2 ججز جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا حکم دیا ہے۔ سزائے موت کا حکم 3 میں سے 2 ججز کی اکثریت پر دیا گیا۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جمع کروائے گئے دستاویزات واضح ہیں کہ ملزم نے جرم کیا۔ ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبے کے بغیر ثابت ہوتے ہیں۔ ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔

    خیال رہے کہ 17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے آئین شکنی کیس میں محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے سابق صدر و سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔

    عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔

    سابق صدر پرویز مشرف اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور شدید علیل ہیں۔ وہ اپنے کیس کی پیروی کے لیے ایک بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

    گزشتہ روز ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے پرویز مشرف نے فیصلے پر رد عمل میں کہا تھا کہ مجھے ان لوگوں نے ٹارگٹ کیا جو اونچے عہدوں پر فائز اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو مشکوک سمجھتا ہوں، ایسے فیصلے کی مثال نہیں ملتی جہاں دفاع کا موقع نہیں دیا گیا۔ کیس میں قانون کی بالا دستی کا خیال نہیں رکھا گیا۔

    پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ وہ جج جنہوں نے میرے زمانے میں فوائد اٹھائے وہ کیسے میرے خلاف فیصلے دے سکتے ہیں۔ اس کیس کو سننا ضروری نہیں تھا، اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد کروں گا۔

  • درگاہ میں 20 افراد کا قتل: ملزمان کو 20 بار سزائے موت کا حکم

    درگاہ میں 20 افراد کا قتل: ملزمان کو 20 بار سزائے موت کا حکم

    سرگودھا: انسداد دہشت گردی عدالت نے درگاہ میں 20 افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والے متولی عبد الوحید اور اس کے 3 ساتھیوں کو 20، 20 بار سزائے موت کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سرگودھا کی انسداد دہشت گردی عدالت نے درگاہ میں 20 افراد کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔ درگاہ کے متولی و مرکزی ملزم پیر عبد الوحید اور اس کے 3 ساتھیوں کو 20، 20 بار سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے۔

    عدالت نے چاروں ملزمان کی جائیداد ضبط کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔

    مذکورہ واقعہ اپریل 2017 میں پیش آیا تھا، جب یکم اپریل کو سرگودھا کے نواحی علاقے چک نمبر 95 شمالی میں درگاہ کے متولی عبد الوحید نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر خواتین سمیت 20 افراد کو لاٹھی اور چاقوؤں کے وار سے قتل کردیا تھا۔

    پیر کے ہاتھوں قتل ہونے والے تمام افراد اس کے مرید تھے جنہیں جعلی پیر نے نشہ آور دوا پلانے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا تھا۔

    حکام کے مطابق واقعہ خالصتاً ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھا۔ متولی نے درگاہ پر اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے لیے لوگوں کو قتل کیا۔ وہ اس سے پہلے درگاہ کے سجادہ نشین کو بھی قتل کر چکا ہے۔

    ابتدا میں کوئی بھی ملزم کے خلاف بیان دینے کو تیار نہیں تھا جس کی وجہ سے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا، تاہم بعد ازاں 20 افراد میں سے کئی کے ورثا سامنے آئے اور مقدمے میں فریق بننے پر رضا مندی ظاہر کی۔

    دوران حراست ملزم نے متعدد بار بیانات بدلے اور کہا کہ اس نے اللہ کی رضا کے لیے ملزموں کے لیے قتل کیا۔

    تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ زمین کا جھگڑا نہیں تھا، گدی نشنی کا جھگڑا تھا۔ حسد اور رقابت سے معاملہ یہاں تک پہنچا، واقعے کی وجہ مریدوں کا جعلی پیر پر اندھا اعتماد تھا۔

  • کوہستان ویڈیو اسکینڈل: 3 مجرمان کو عمر قید، 5 باعزت بری

    کوہستان ویڈیو اسکینڈل: 3 مجرمان کو عمر قید، 5 باعزت بری

    ایبٹ آباد: کوہستان ویڈیو اسکینڈل میں 5 لڑکیوں کے قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، عدالت نے 3 مجرموں ساحر، صبیر اور عمر خان کو عمر قید کی سزا سنا دی، 5 ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان میں غیرت کے نام پر 5 لڑکیوں کے قتل کیس کی سماعت بشام کی مقامی عدالت میں ہوئی۔ عدالت نے قتل میں ملوث 3 مجرموں ساحر، صبیر اور عمر خان کو عمر قید کی سزا سنادی۔

    سزا پانے والوں پر ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام تھا۔ عدالت نے کیس میں نامزد مزید 5 ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے باعزت بری کردیا۔

    کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیا تھا؟

    کوہستان ویڈیو اسکینڈل سنہ 2012 میں سامنے آیا تھا جب ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں ایک شادی کی تقریب میں کچھ لڑکیوں کو گانا گاتے اور تالیاں بجاتے دیکھا جاسکتا تھا۔ ان لڑکیوں کے بارے میں اطلاعات موصول ہوئیں کہ ان کا تعلق کوہستان سے ہے اور انہیں قتل کردیا گیا ہے جس کے بعد سپریم کورٹ نے واقعہ کا از خود نوٹس لے لیا تھا۔

    ذرائع کے مطابق ویڈیو سامنے آنے کے بعد علاقے کے بااثر افراد پر مشتمل جرگہ بیٹھا جنہوں نے اس حرکت کو روایتی قبائلی اقدار کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مذکورہ لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ لڑکیوں کو خاندان کے افراد نے جرگے کے حکم کی پاسداری کرتے ہوئے قتل کیا۔

    از خود نوٹس لینے کے بعد سپریم کورٹ نے ڈی پی او کوہستان کو لڑکیوں کے قتل کی ایف آئی آر درج کر کے فی الفور مقدمہ کی تفتیش شروع کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ مقدمہ کی حقیقت جاننے کے لیے 3 مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں (جے آئی ٹیز) بنائیں گئیں، تاہم ہر مرتبہ دھوکہ دیا گیا۔ جے آئی ٹیز کے سامنے دھوکہ دہی کی گئی اور دوسری رشتہ دار لڑکیاں پیش کی گئیں۔

    سپریم کورٹ میں کیس کی پیروی خواجہ اظہر ایڈووکیٹ کر رہے تھے جبکہ سماجی کارکن فرزانہ باری اور کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار افضل کوہستانی مقدمہ میں مدعی تھے۔

    افضل کوہستانی کا قتل

    رواں برس مارچ میں کیس کے مدعی افضل کوہستانی کو ایبٹ آباد میں فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا تھا۔

    مقدمے کا مدعی افضل کوہستانی

    ویڈیو میں لڑکیوں کے ساتھ 2 لڑکے بھی رقص کرتے دکھائی دیے تھے جو افضل کوہستانی کے بھائی تھے، دونوں لڑکے زندہ ہیں تاہم افضل کوہستانی اور ان کے 3 دیگر بھائیوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔

    افضل کوہستانی کی قتل سے قبل ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے پولیس کے غیر مناسب رویے اور قتل کرنے کی دھمکیوں سے متعلق آگاہ کیا تھا۔

    اسی ماہ افضل کوہستانی کی بیوہ کے اغوا کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا جس کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرنے کی اطلاعات موصول ہوئیں، تاہم اس واقعے کی تصدیق نہ ہوسکی۔

  • خادم حسین رضوی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    خادم حسین رضوی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    لاہور : لاہور کی سیشن عدالت نے خادم حسین رضوی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج رائے محمد کھرل نے عبداللہ ملک کی خادم حسین رضوی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر سماعت کی ۔

    تھانہ سول لائنز کی جانب سے مقدمے کا ریکارڈ پیش کیا گیا، جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ خادم حسین رضوی کے خلاف پہلے ہی 31 اکتوبر کو مقدمہ درج کیا جا چکا ہے جس میں توڑ پھوڑ ، ہنگامہ آرائی کی دفعات شامل ہیں ۔

    درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ خادم حسین رضوی نے آسیہ کیس کے فیصلے کے بعد ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر کر کے عوام کو اکسایا اور شاہراہیں بند کر کے اربوں کی املاک کو نقصان پہنچانا گیا تحریک لبیک کا یہ عمل بغاوت کے زمرے میں آتا ہے ۔

    دائر درخواست میں استدعا کی گئی خادم حسین رضوی سمیت دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی مگر پولیس نے کارروائی نہیں کی اس لیے عدالت خادم حسین رضوی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دے۔