Tag: village

  • انگلینڈ کے گاؤں میں پراسرار آواز کی بازگشت، مقامی افراد پریشان

    انگلینڈ کے گاؤں میں پراسرار آواز کی بازگشت، مقامی افراد پریشان

    لندن: انگلینڈ کے ایک گاؤں میں مقامی افراد کو عجیب و غریب آواز سنائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا سونا مشکل ہوگیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق انگلینڈ میں ویسٹ یارکشائر کے قریب ہیلی فیکس کے علاقے ہوم فیلڈ کے گاؤں میں ایک عجیب اور پراسرار آواز لوگوں کو سنائی دے رہی ہے۔

    مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی یہ آواز ہوتی تو دھیمی ہے لیکن مسلسل اس آواز سے بعض اوقات بڑی پریشانی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اب تک اس کی وجہ یا یہ کہاں سے آتی ہے معلوم نہیں ہوسکا ہے، یہ آواز بہت تیز نہیں ہوتی لیکن اس سے ان کی نیند اور موڈ ضرور خراب ہوجاتا ہے۔

    بتایا جا رہا ہے کہ یہ آواز تمام مقامی لوگ تو نہیں سن سکے ہیں لیکن جنہوں نے اسے سننے کا دعویٰ کیا ہے ان کے مطابق اس سے ان کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

    انگلش دیہات میں سنی جانے والی اس آواز سے متعلق شہ سرخیاں گزشتہ سالوں کے دوران اخبارات میں لگ چکی ہیں لیکن اب تک یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ آواز کہاں سے آتی ہے۔

    مقامی حکام نے اس حوالے سے تحقیقات کیں اور اس مقصد کے لیے ایک آزاد کنسلٹنٹ کا تقرر بھی کیا لیکن یہ پراسراریت ختم نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔

  • سجاول: مضر صحت کھانے سے 100 سے زائد افراد بے ہوش

    سجاول: مضر صحت کھانے سے 100 سے زائد افراد بے ہوش

    سجاول: صوبہ سندھ کے ضلع سجاول کے ایک نواحی گاؤں میں مضر صحت کھانے سے 100 سے زائد افراد بے ہوش ہوگئے، ڈسٹرکٹ ڈسپنسری میں سہولتوں کا فقدان ہونے کے باعث درختوں پر لٹکا کر مریضوں کو ڈرپس لگائی جارہی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع سجاول کے ایک نواحی گاؤں میں مضر صحت کھانے سے 100 سے زائد افراد بے ہوش ہوگئے، متعدد بچے، خواتین اور بزرگ شہریوں کی حالت فوڈ پوائزن کا شکار ہو کر غیر ہوگئی۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ زائرین کی جانب سے بریانی تقسیم کی گئی، جس سے فوڈ پوائزن ہوا۔

    ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) سجاول نے مختلف علاقوں سے میڈیکل ٹیمیں روانہ کردی ہیں۔

    ڈسٹرکٹ ڈسپنسری میں سہولتوں کا فقدان ہونے کے باعث درختوں پر لٹکا کر مریضوں کو ڈرپس لگائی جارہی ہیں۔

  • ایسا گاؤں جہاں جانے کیلئے اپنڈکس کا آپریشن کرانا ضروری، لیکن کیوں؟؟

    ایسا گاؤں جہاں جانے کیلئے اپنڈکس کا آپریشن کرانا ضروری، لیکن کیوں؟؟

    دنیا کے سب سے سرد مقام بر اعظم انٹارکٹیکا میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے کہ جہاں رہنے یا سیر کرنے یا کیلئے یہ شرط عائد ہے کہ آپ کو اپنا اپینڈکس نکالنا پڑتا ہے اس کے بغیر آپ وہاں قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔

    انٹارکٹیکا میں ایک بستی ہے جس میں ایک اسکول ، ایک پوسٹ آفس اور متعدد مکانات ہیں۔ یہ علاقہ دوسرے دیہات کی طرح ہی ہے لیکن صرف ایک فر ق ہے وہ یہ کہ کسی بھی شخص کو اس علاقے کے اندر جانے کے لئے اپنڈکس کی سرجری ضرور کروانی ہوگی۔

    لاس اسٹرالز انٹارکٹیکا کا وہ علاقہ ہے جہاں کا درجہ حرارت منفی 60تک بھی پہنچ جاتا ہے، اس علاقے میں جانا بھی انتہائی دشوار ہے، اس کے لیے سمندر میں600میل کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔

    اس راستے میں ہوا اور برف کے اتنے شدید اور خطرناک طوفان آتے ہیں کہ جان تک خطرے میں پڑجاتی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ وہاں جانے کیلئے یہ کڑی شرط ہے کہ آپ کو اپنا اپنڈکس نکلوانا پڑے گا۔

    گاؤں میں داخلے لیے اتنی کڑی شرط لگانے کا مقصد یہ ہے کہ وہاں سے سینکڑوں میل دور تک کسی مریض کیلئے کوئی اسپتال یا فرسٹ ایڈ دینے کیلئے بھی کوئی طبی مرکز ہی نہیں ہے۔ لہٰذا وہاں جانے کیلئے اپنڈکس نکلوانا لازمی امر ہے۔

  • عمان: ریت میں گم ہوجانے والی وادی کے آثار ظاہر

    عمان: ریت میں گم ہوجانے والی وادی کے آثار ظاہر

    مسقط: عمان میں ریت میں دبی ایک وادی کے آثار دوبارہ ظاہرہ ہونے کے بعد اس کے احیا کی کوششیں کی جارہی ہیںِ، مقامی سیاح بڑی تعداد میں اس وادی کو دیکھنے پہنچ گئے ہیں۔

    مقامی میڈیا کے مطابق سلطنت عمان کا قریہ وادی المر 30 برس قبل ریت کے طوفان تلے دب گیا تھا، پرانے باشندوں اور قدیم آبادیوں کے شائقین ٹنوں ریت تلے دبے قریے کے احیا کی کوشش کر رہے ہیں۔

    وادی المر قریے میں موجود بعض مقامات کی دیواریں اور چھتیں نظر آرہی ہیں، باقی ماندہ حصہ ریت کے تلے آنکھوں سے اوجھل ہوچکا ہے۔

    وادی المر قریہ عمان کے جنوب مشرقی صوبے جعلان بنی بوعلی کی تحصیل میں واقع ہے، یہ دارالحکومت مسقط سے 400 کلو میٹر دور ہے، نظروں سے اوجھل قریوں تک رسائی بے حد مشکل ہے اور وہاں جانے کے لیے کوئی سڑک نہیں ہے۔

    عمانی باشندے سالم العریمی نے بتایا کہ وہ اس جگہ کے رہائشی تھے، یہ 30 برس قبل ریت کے طوفان کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔ ریت کی یلغار کا مسئلہ سلطنت عمان تک ہی محدود نہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں ریت کا طوفان بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا رہتا ہے۔

    وادی المر قریے کے باشندوں کے لیے ریت کے طوفان کے بعد اپنے قریے میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ اس کے کئی اسباب تھے، اس کا محل وقوع ملک کی آبادی سے الگ تھلگ ہے۔ یہاں پانی و بجلی کا نیٹ ورک نہیں۔ یہاں کے باشندے جانوروں کی افزائش پر گزارا کیا کرتے تھے۔ ان کے سامنے وہاں سے چلے جانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

    العریمی نے بتایا کہ قریے کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ کئی لوگ اپنے بال بچوں کو لے کر آس پاس کے قریوں میں منتقل ہوگئے تھے تاہم کئی ریت کے طوفان میں دب کر ہلاک ہوگئے۔

    ان دنوں قریے کے پرانے باشندوں اور سیر سپاٹے کے شائقین کے ذہنوں میں اس قریے کی یاد ستانے لگی ہے، یہ لوگ اس قریے کے آثار دیکھنے کے لیے وہاں پہنچ رہے ہیں اور خیمے لگا کر چہل قدمی اور کوہ پیمائی کا شوق کر رہے ہیں۔

    محمد الغنبوصی نے بتایا کہ اس جگہ کے مکانات ابھی تک موجود ہیں، ان کی تعمیر میں پتھر استعمال ہوئے تھے جس کی وجہ سے مکانات متاثر نہیں ہوئے۔ یہاں 30 مکانات تھے ان میں 150 افراد سکونت پذیر تھے اور مسجد بھی تھی۔

    محمد العلوی نے بتایا کہ چند برس قبل جب اس قریے کے کچھ نشانات ابھر کر سامنے آئے تو میری والدہ نے وہاں جانے کی خواہش ظاہر کی تھی، وہ وہاں پہنچ کر پرانی یادیں تازہ کرکے زارو قطار رونے لگی تھیں۔

    راشد العامری نے بتایا کہ جب وہ اپنے دو دوستوں کے ہمراہ قریے پہنچے یہ دیکھ کر بے حد عجیب سا لگا کہ قریہ تو نظروں سے اوجھل ہی ہے تاہم ریت کا طوفان کس قدر طاقتور تھا کہ اس کے نشانات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔

  • اٹلی کا خوبصورت قصبہ جہاں رہنے کے لیے حکومت گھر اور خطیر رقم فراہم کرے گی

    اٹلی کا خوبصورت قصبہ جہاں رہنے کے لیے حکومت گھر اور خطیر رقم فراہم کرے گی

    اٹلی میں معمر افراد کی آبادی میں اضافے کے بعد اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ نوجوانوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہو، اس مقصد کے لیے دنیا بھر سے لوگوں کو ایک یورو میں خالی مکانات دینے کی پیشکش کی جاتی ہے، جس کا مقصد وہاں کی آبادیوں میں اضافہ کرنا ہے۔

    اٹلی کے اکثر مقامات پر ہزاروں گھر خالی پڑے ہیں جو بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا حل اکثر مختلف قسم کی پرکشش آفرز کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ مکان کی تزئین نو ایک مخصوص وقت میں کرنے کی شرط بھی عائد کی جاتی ہے۔

    سنہ 2017 میں اٹلی کے خطے پولیا میں واقع قصبے کینڈیلا میں لوگوں کو بسنے پر 2 ہزار یورو دینے کی پیشکش کی گئی۔

    اب اس سے بھی بہتر پیشکش آبروزو میں واقع گاؤں سانتو اسٹیفنو ڈی سیشنو کی جانب سے کی گئی ہے، جو وہاں بسنے اور کاروبار شروع کرنے والے افراد کو رقم دینے کے ساتھ رہنے کے مکانات کے کرائے میں بھی معاونت فراہم کرے گا۔

    وہاں کے میئر فابیو سانٹاویسا کا کہنا ہے کہ ہم کسی کو کچھ بھی نہیں فروخت کر رہے، یہ کوئی کاروباری قدم نہیں، ہم بس اپنے گاؤں کی رونق بحال کرنا چاہتے ہیں۔

    اس کی شرط ہے کہ خواہشمند افراد کو اٹلی کا شہری ہونا چاہیئے یا شہری بننے کی قانونی اہلیت ہو اور 40 سال یا اس سے کم عمر ہو۔

    یہ پہاڑی گاؤں سطح سمندر سے 1250 فٹ بلندی پر واقع ہے، جہاں اس وقت صرف 115 افراد مقیم ہیں، جن میں سے نصف معمر جبکہ محض 20 سے کم 13 سال سے کم عمر ہیں۔

    ٹاؤن کونس کی جانب سے وہاں منتقل ہونے والے نئے رہائشیوں کو 3 سال تک ہر ماہ ایک مخصوص رقم دی جائے گی۔

    مجموعی طور پر ہر سال 8 ہزار یورو (15 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) دیئے جائیں گے، جبکہ کاروبار کے لیے 20 ہزار یورو (37 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) یکمشت دیے جائیں گے۔

    ان کو رہائش کے لیے ایک جائیداد بھی ملے گی جس کا علامتی کرایہ لیا جائے گا، تاہم یہ علامتی کرایہ کتنا ہوگا، اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں۔ میئر کے مطابق تمام درخواستوں کا تجزیہ کرنے کے بعد مالیاتی تفصیلات کا تعین کیا جائے گا۔

    اب تک ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد نے اس کے لیے درخواستیں دی ہیں مگر کونسل فی الحال صرف 5 جوڑوں کو منتخب کرے گی اور بتدریج اس تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔

  • بھارت میں توہم پرستی: "کرونا” کے مکینوں کو ذلت و رسوائی ملنے لگی

    بھارت میں توہم پرستی: "کرونا” کے مکینوں کو ذلت و رسوائی ملنے لگی

    نئی دہلی : بھارت میں کرونا کا نام دہشت کی علامت بن گیا، توہم پرستی میں مبتلا لوگ کرونا نامی گاؤں کے لوگوں سے دور رہ کر ان سے نفرت کا برتاؤ کرنے لگے۔

    تفصیلات کے مطابق ریاست اترپردیش کے ضلع سیتا پور میں گاؤں کے لوگ ان دنوں شدید کرب اور پریشانی میں مبتلا ہیں ان کا قصور صرف یہ ہے کہ ان کے گاؤں کا نام ہی کرونا ہے۔

    گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ان دنوں جب ہم کہیں جاتے ہیں اور لوگوں پتہ چلتا ہے کہ کرونا گاؤں سے ہیں تو وہ لوگ ہم سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے فاصلہ اختیار کرنے لگتے ہیں، اس کے علاوہ پولیس والے بھی ہم سے بدسلوکی کرتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ کہ یہ وائرس جب سے بھارت پہنچا ہے تبھی سے انہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، گاؤں سے باہر آنے سے ہمارے لوگ خوفزدہ ہیں، جب ہم لوگوں کو کہتے ہیں کہ ہم کرونا سے ہیں، تو وہ ہم سے بچتے ہیں کیونکہ اس گاؤں کا نام ‘کرونا’ وائرس سے مماثلت رکھتا ہے۔

    واضح رہے کہ سیتا پور ضلع ہیڈکوارٹر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں کرونا گاؤں کے باشندے ابھی تک اس وائرس سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔

  • معمولی جھگڑے نے پورے گاؤں کو میدان جنگ بنا دیا، متعدد ہلاک

    معمولی جھگڑے نے پورے گاؤں کو میدان جنگ بنا دیا، متعدد ہلاک

    قازقستان کے ایک گاؤں میں معمولی جھگڑے نے خونریز فسادات کی شکل اختیار کرلی، ہولناک تصادم میں 8 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ متعدد گھروں کو آگ لگا دی گئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فسادات قازقستان اور کرغزستان کی سرحد پر واقع ایک گاؤں میں ہوئے۔ واقعے کا آغاز ایک معمولی جھگڑے سے ہوا جس نے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    تقریباً 400 کے قریب افراد آپس میں اور پولیس سے متصادم ہوگئے، بعد ازاں درجنوں گھروں کو آگ لگا دی گئی۔

    موقع پر موجود چند افراد نے ویڈیوز بنا کر مختلف میسیجنگ ایپس پر شیئر کیں جو تیزی سے پھیل گئیں اور پولیس فوراً حرکت میں آئی۔ اس دوران قریبی گاؤں سے بھی کئی افراد وہاں پہنچے اور تصادم کا حصہ بنے۔

    خونریز تصادم میں اب تک 8 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ان گنت زخمی ہوگئے ہیں۔ مشتعل افراد نے درجنوں گھروں، عمارتوں اور گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی جس کے بعد مذکورہ مقام میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔

    مشتعل افراد نے پولیس پر بھی حملہ کیا جبکہ کچھ افراد نے فائرنگ بھی کی جس سے 2 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، بعد ازاں نیشنل گارڈز کے دستوں نے موقع پر پہنچ کر صورتحال کو قابو میں کیا۔

    قازقستان کے صدر نے معاملے کی فوری تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ذمہ داران، اور جھگڑے کو بڑھاوا دینے والے افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ واقعے میں متاثر ہونے والے، زخمیوں اور ہلاک افراد کے لواحقین کا بھرپور خیال رکھا جائے۔

  • فلپائنی خاتون کا پلاسٹک کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے انوکھا اقدام

    فلپائنی خاتون کا پلاسٹک کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے انوکھا اقدام

    منیلا: فلپائن کے دارالحکومت کے مضافات میں واقع ایک گاؤں نے پلاسٹک سے جنم لینے والے کچرے کا انوکھا حل نکال لیا.

    تفصیلات کے مطابق قصبے میں مقیم رونیلا ڈاریکو کی تحریک پر شہری کچرا چن چن کر ان تک پہنچانے لگے.

    رونیلا کو قصبے میں ’’انوائرمینٹل آنٹی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، سڑک سے گزرتے ہوئے پلاسٹک شاپر  چننے کی عادت کی وجہ سے انھیں یہ عرفیت ملی.

    رونیلا چاہتی تھیں کہ ان کا قصبے پلاسٹک سے پاک ہوجائے، انھوں نے انفرادی حیثیت میں‌ کام کیا، مگر خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی، تب انھوں‌نے ایک انوکھا راستہ تلاش کیا.

    رونیلا نے اعلان کر دیا کہ جو  بھی  ان کے پاس ایک کلو پلاسٹک لائے گا، اسے آدھے کلو چاول بدلے میں‌دیے جائیں گے.

    اس خبر نے عوام کے لیے تحریک کا کام کیا اور لوگ شہر بھر سے پلاسٹک اکٹھا کرکے ان کے پاس لانے لگے.

    مزید پڑھیں: مردان میں غلط جگہ کچرا پھینکنے پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد

    پروگرام کی شہرت جلد دور دور تک پھیل گئی. شہری گھر اور اطراف کا کچرا جمع کرکے خوشی خوشی جمع کرانے پہنچنے لگے، ماحولیات کو آلودگی سے بچانے کی اس مہم کی بھرپور پذیرائی ملی ہے.

    سوال یہ ہے کیا کہ اس انوکھے منصوبے کا اطلاق کراچی میں کیا جاسکتا ہے؟ اس بارے میں‌ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا.

  • شادی کرنی ہے تو پانی کا ٹینکر لاؤ، گاؤں باسیوں نے انوکھی شرط عائد کردی

    شادی کرنی ہے تو پانی کا ٹینکر لاؤ، گاؤں باسیوں نے انوکھی شرط عائد کردی

    نئی دہلی : بھاکھری گاؤں کی واحد جھیل سوکھ چکی ہے جس کے باعث رہائشیوں نے شادی کی شرط پانی کا ٹینکر رکھ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت کے زیادہ تر علاقوں میں شادی کی تاریخ کا تعین عام طور پر پنڈت کرتے ہیں لیکن بھارت کا ایک گاﺅں ایسا ہے جہاں شادی کی تاریخ پانی کے ٹینکر کی بنیاد پر طے ہوتی ہے، یہ جگہ شمالی گجرات میں انڈیا پاکستان کی سرحد پر آباد آخری انڈین گاوُں ہے۔

    بھارتی ٹی وی کے مطابق بھاکھری گاوُں کی واحد جھیل سوکھ چکی ہے اور اب انسان اور جانور دونوں کے پینے کے لیے پانی نہیں ہے لیکن جھیل کے کنارے کھڑا سالوں پرانا ایک درخت خشک سالی کے درمیان اس گاوُں میں ہونے والی شادیوں کا گواہ ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گذشتہ کافی عرصے سے یہاں شادی کا سیزن اور خشک سالی لگ بھگ ایک ساتھ آتے ہیں اور شادیوں میں پانی کے لیے ٹینکرز پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

    بھاکھری گاوُں کے پیرا بھائی جوشی نے کہا کہ شادی ہو تو یہاں سے 25 کلومیٹر دور سے پانی کے ٹینکر لانے پڑتے ہیں۔

    ان کے مطابق شادی کے سیزن میں یہاں ایک ٹینکر کی قیمت دو ہزار ہوتی ہے اور شادی میں تین چار ٹینکر لگ جاتے ہیں جس کا خرچ آٹھ دس ہزار روپے تک آتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ شادی میں پانی کے ٹینکرز سب سے زیادہ اہم ہیں۔ شادی کے انتظامات میں سب سے پہلا کام بھی پانی کے ٹینکر کا حصول ہے کیونکہ کبھی کبھی چالیس سے پچاس کلومیٹر دور جانے پر بھی ٹینکر کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    گاوُں کے بیکھا بھائی نے کہا کہ یہ ریگستانی علاقہ ہے اور یہاں کا پانی کھارا ہوتا ہے۔ پلانے کے لیے ہی نہیں کھانا بنانے کے لیے بھی میٹھے پانی کی ضرورت پڑتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر چھوٹی شادی ہو تو پانچ ٹینکر اور اگر بڑی ہو تو دس ٹینکر پانی بھی کم پڑجاتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ انڈیا پاکستان سرحد کی جانب ایک دوسرا گاؤں جلویا ہے۔

    اس گاؤں کے نائب سرپنچ وجے سی ڈوریا کا کہنا تھا کہ ہمارے گاؤں میں اور اس علاقے کے تمام گاؤں میں شادیوں کے وقت پانی کے ٹینکرز پر ہزاروں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔یہ علاقہ دہائیوں سے خشک سالی کی زد میں ہے جو ان کے برتاؤاور ثقافت میں بھی نظر آتا ہے۔

    بھارتی خبر رساں اداروں کے مطابق گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ مسلسل خشک سالی کے سبب اب لوگ شادی کا وقت بدلنے لگے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ ہندو رسم و رواج کے مطابق شادیوں کا خاص وقت ہوتا ہے، اب وہ گرمی ختم ہونے یا بارش کی راہ دیکھتے ہیں خواہ شادی کا موسم چلا ہی کیوں نہ گیا ہو۔

  • سعودی عرب کا تاریخی گاﺅں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل

    سعودی عرب کا تاریخی گاﺅں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل

    ریاض : سعودی عرب کے تاریخی گاؤں الدرع میں قرون وسطیٰ کے دور کی یادگاروں کے ساتھ ساتھ پانچ سو سال قبل مسیح کے کھنڈرات موجود ہیں جس کے باعث اسے عالمی ورثے میں شامل کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی سعودی عرب کے علاقے الجوف میں دوم الجند کا ایک تاریخی گاﺅں الدرع اپنے تاریخی آثار قدیمہ اور قدرتی حسن کی بدولت عالمی توجہ کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باغوں اور چشموں سے بھرپور الدرع گاﺅں کو اقوام متحدہ کی سائنسی وثقافتی تنظیم یونیسکو میں شامل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ الدرع میں موجود آثار قدیمہ میں اسلام کے قرون وسطیٰ کے دور کی یادگاروں کے ساتھ ساتھ پانچ سو سول قبل مسیح کے کھنڈرات بھی موجود ہیں۔

    لہلہاتے کھیتوں اور میٹھے پانی کے چشموں کی وجہ سے مشہور الدرع گاﺅں میں پتھر کے دور کی بنی عمارتیں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کالونی کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا جا رہا ہے۔

    اہل نظر کے لیے الدرع کا علاقہ کسی تاریخی فن پارے سے کم نہیں۔ اس میں ایک ہی وقت پرانے اسلامی اور عرب ادوار کے فن تعمیر کے نمونے اور قبل مسیح کی تہذیبی یادگاریں موجودہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس گاﺅں کے تاریخی آثار کی تلاش کے لیے سعودی عرب اور اٹلی کی ایک مشترکہ ٹیم نے 2009ءسے 2016ءتک یہاں پر کھدائیاں کیں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق الدرع میں موجود مسجد عمر بن خطاب 17ھ میں تعمیر کی گئی، تاریخی قلعہ مارد اس علاقے کا لینڈ مارک ہے، پتھروں سے تیار کردہ پرانے دور کے مکانات سیاحوں اور آثار قدیمہ کے ماہرین کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔