Tag: village

  • نوجوان کا پائلٹ بنتے ہی بزرگوں کے لیے انوکھا تحفہ

    نوجوان کا پائلٹ بنتے ہی بزرگوں کے لیے انوکھا تحفہ

    نئی دہلی: بھارتی نوجوان نے پائلٹ بننے کے بعد اپنے گاؤں کے بزرگوں کو انوکھا تحفہ پیش کر کے ایک نئی مثال قائم کردی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت کے شہر جالندھر کے گاؤں سارنگ پور سے تعلق رکھنے والے ویکاس جیانی نے پائلٹ بنتے ہی نہ صرف اپنے بچپن کا خواب پورا کیا بلکہ گاؤں کے بزرگوں کا بھی دیرینہ خواب پورا کردیا۔

    ویکاس نے پائلٹ کا امتحان پاس کیا اور پہلی پرواز کے کامیاب تجربے کے بعد اپنے گاؤں کے 22 معمر افراد کو فضائی سفر کروایا، مسافروں میں 90 سالہ خاتون مسافر بھی تھیں جبکہ دیگر کی عمریں 70 برس سے زائد تھیں۔

    بھارتی نوجوان نے گاؤں کے تمام بزرگوں کو اپنے خرچے پر نئی دہلی مدعو کیا اور پھر انہیں بھارتی دارالحکومت سے امرتسر تک کا ہوائی سفر کروایا جس کے بعد تمام معمر افراد نے گولڈن ٹیمپل، جلیاں، والہ باغ سمیت دیگر علاقوں کا دورہ بھی کیا۔

    بھارتی نوجوان کے اس تحفے پر گاؤں کے تمام بزرگ بہت خوش نظر آئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ معاشی تنگ دستی کے باعث انہوں نے کبھی جہاز کے سفر کا تصور بھی نہیں کیا تھا البتہ ویکاس نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔

    بھارتی نوجوان کے والد کا کہنا تھا کہ ’میرے بیٹے کو بچن سے ہی یقین تھا کہ ایک ایسا دن آئے گا جب وہ جہاز ضرور اڑائے گا، ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ویکاس کامیاب پائلٹ بن گیا‘۔

    بملا بی بی جو 90 برس کی ہیں اُن کا کہنا تھا کہ میں نے جہاز پہلی بار دیکھا اور آج بیٹھنے کا اتفاق بھی ہوا، پہلے بھی کئی لوگوں نے امید دلائی تھی مگر وہ پورا نہیں کرسکے البتہ ہمارے بچے نے اس خواب کو پورا کروایا۔

    گاؤں کے دیگر بزرگوں کا کہنا تھا کہ ویکاس ہمیشہ بڑوں کا ادب و احترام کرتا ہے، اُس نے ہم سے وعدہ کررکھا تھا کہ پائلٹ بننے کے بعد سب سے پہلے ہمیں آسمانوں کی سیر کروائے گا۔

  • برطانیہ: چاقو بردار شخص کے حملے میں نوجوان ہلاک

    برطانیہ: چاقو بردار شخص کے حملے میں نوجوان ہلاک

    لندن : برطانیہ میں نامعلوم چاقو بردار شخص کے حملے میں زخمی ہونے والا نوجوان اسپتال منتقل کرنے کے دوران زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے گاؤں کاؤنٹی دُرہم کی پولیس نے چاقو کے وار سے قتل ہونے والے شہری کی ہلاکت کی تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے 25 سالہ نوجوان کو حراست میں لے لیا یے۔

    دُرہم پولیس کا کہنا تھا کہ پولیس کو اتوار کے روز کال موصول ہوئی کہ دُرہم گاؤں کے گریگ سن اسٹریٹ پر ایک 25 سالہ شخص چاقو زنی کی واردات میں شدید زخمی حالت میں ملا ہے جو بعد میں ہلاک ہوگیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ متاثرہ شخص کو شدید زخمی حالت میں قریبی اسپتال منتقل کیا جارہا تھا، تاہم وہ جانبر نہیں ہو سکا۔ پولیس تاحال متاثرہ شخص کی شناخت پتہ لگانے میں ناکام ہے۔

    برطانوی پولیس کا خیال ہے کہ ہلاک ہونے والے نوجوان پر ذاتی دشمنی کی بنا پر حملہ کیا گیا ہے، کمیونٹی کے دیگر افراد کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پولیس نے 25 سالہ نوجوان کے ساتھ ساتھ ایک 25 سالہ خاتون کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے شبے میں گرفتار کیا گیا ہے۔


    مزید پڑھیں : برطانیہ میں دہرے قتل کی واردات: مقتولہ پولیس کو مدد کے لیے بلاتی رہ گئی


    یاد رہے کہ چار روز قبل برطانوی دارالحکومت لندن میں 22 سالہ رنیم اودیہہ اور ان کی 49 سالہ والدہ کو سولی ہل کے ے علاقے میں چاقو کے وار کرکے شدید زخمی کیا گیا تھا، تاہم دونوں خواتین موقع پر ہی دم توڑ گئی تھیں۔

    برطانوی محکمہ پولیس کے سراغ رساں کا کہنا ہے کہ مس اودیہہ نے پولیس کو متعدد کالز کی، اور جس دوران پولیس انہیں ٹریس کرکے ان تک پہنچی تو یہ سانحہ پیش آچکا تھا ۔

  • نائجیریا: مسلح افراد کا گاؤں پر حملہ، بچوں سمیت 45 افراد ہلاک

    نائجیریا: مسلح افراد کا گاؤں پر حملہ، بچوں سمیت 45 افراد ہلاک

    ابوجا : نائجیریا کی ریاست گواسکا کے گاؤں میں مسلح جرائم پیشہ گروہ نے حملہ کرکے بچوں اور عورتوں سمیت 45 افراد کو ہلاک کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق براعظم افریقہ کے وسط میں واقع مسلم اکثریتی ملک نائجیریا کی ریاست گواسکا کے ایک گاؤں کاڈونا میں اتوار کی شام ڈاکوؤں نے حملہ کردیا، ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 45 افراد کو ہلاک کردیا جن میں بچے بھی شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ علاقائی حکومت نے کاڈونا میں متاثرہ افراد کی امداد کے لیے مقامی پولیس طبی خدمات انجام دینے والے عملے کو فوری طور پر روانہ کردیا تھا۔

    پولیس ترجمان مختار علی کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کا تعلق ہمسایہ ریاست زام فارا سے ہے جو راہزنی، اغواء برائے تعاون جیسی وارداتوں میں ملوث ہی۔

    مختار علی نے میڈیا کو بتایا کہ جرائم پیشہ عناصر تین گھنٹے تک متاثرہ گاؤں کا میں خودکار اسلحہ لے کر دندناتے پھرے اور عام افراد کو قتل کرکے ان کے گھروں کو آگ لگاتے رہے۔

    پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے خصوصاً ان افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گولیوں کا نشانہ بنایا جو ’جو اپنا دفاع خود کرو‘ کی مہم چلارہے تھے۔

    ضلعی حکومت نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ مذکورہ مسلح گروہوں سے نمٹنے کے لیے مستقل طور پر علاقے میں آرمی کو تعینات کردیا گیا ہے۔ تاکہ عام افراد کے قتل عام کو روکا جاسکے۔

    خیال رہے کہ نائجیریا کی ایک اور ریاست جنوارا میں ایک ہفتہ قبل ہی مذکورہ گروہ نے کوئلے کی سرنگوں میں کام کرنے والے 14 افراد کو قتل کیا تھا۔

    یاد رہے کہ نائجیریا گذشتہ کئی برسوں سے سیکیورٹی بحران کا شکار ہے، اس سے قبل نائجیریا میں آئے روز داعش سے منسلک دہشت گرد تنظیم بوکوحرام نے عام شہریوں کو قتل اور اغواء کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا تھا۔ سیکیورٹی اداروں نے بوکوحرام پر کسی حد تک قابو پایا ہے تو ڈاکوؤں کے مسلح گروپ سر اٹھانے لگے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بھارت کا ایسا گاؤں جہاں ہر گھر کے باہر قبر موجود ہے

    بھارت کا ایسا گاؤں جہاں ہر گھر کے باہر قبر موجود ہے

    نئی دہلی: مُردوں کو عموماً دفنانے کے لیے قبرستان لے جایا جاتا ہے لیکن بھارت میں ایک ایسا انوکھا گاؤں ہے جہاں مردوں کو گھر کے باہر ہی دفنا دیا جاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی بھارتی ریاست آندھرا پردیش میں ’کونڈا کرنول‘ نامی ایسا گاؤں ہے جہاں قبرستان موجود نہیں جس کے باعث لوگ مرنے والے افراد کو اپنے گھر کے اطراف یا پھر صحن میں دفنا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اب تک سینکڑوں کی تعداد میں مردہ دفنائے جاچکے ہیں۔

    بھارتی ریاست آندھرا پردیش میں واقع یہ گاؤں ضلع ہیڈ کوارٹر سے 66 کلو میٹر کے فاصلے پر گونے گنڈل تحصیل کی پہاڑی پر آباد ہے، جہاں ہر گھر کے باہر دو سے تین افراد مدفون ہیں، جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔

    اس گاؤں میں ’مالاداسری برادری‘ کے تقریباً 150 خاندان آباد ہیں، جو اپنے روز مرہ کی ضروریات کے حوالے سے گھر سے نکلتے ہیں تو اپنے عزیز واقارب کی قبروں سے ہوکر گزرتے ہیں، اور اپنے مذہبی روایات کے مطابق ان کی پوجا بھی کرتے ہیں۔

    مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ یہ قبریں ان کے رشتہ داروں اور آباؤں اجداد کی ہیں جن کی وہ روزانہ پوجا کرتے ہیں، ان پر نذرانے چڑھاتے ہیں اور اپنے مخصوص رسم و رواج کی پابندی بھی کی جاتی ہے، علاوہ ازیں گھر کے افراد گھر میں پکنے والا کھانا اس وقت تک نہیں چھوتے جب تک انھیں پہلے قبر پر نذر نہیں کیا جاتا۔

    خیال رہے کہ اس گاؤں میں لوگوں کو قبرستان کی سہولت موجود نہیں ہے، مقامی آباد کاروں نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اگر وہ انہیں قبرستان کے لیے ایک جگہ مختص کر دیں تو وہ اپنے عزیزوں کو گھر کے بجائے قبرستان میں دفنائیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    کراچی: آپ کے گھر کے پیچھے ایک خوبصورت، صاف ستھرا، نیلا سمندر بہتا ہو، تو آپ کو کیسا لگے گا؟

    کراچی جیسے شہر میں جہاں سال کے 10 مہینے گرمی، اور اس میں سے 6 مہینے شدید گرمی ہوتی ہو، ایسی صورت میں تو یہ نہایت ہی خوش کن خیال ہے۔

    اور اگر آپ اس سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکتے ہوں، تو پھر آپ کو اس جگہ سے کہیں اور جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن ایسا آپ سوچتے ہیں، اس سمندر کنارے رہائش پذیر افراد نہیں۔۔

    کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سومار گوٹھ کا پہلا منظر تو بہت خوبصورت لگتا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، گاؤں کی پشت پر بہتا صاف ستھرا نیلا سمندر، لیکن جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے ہیں اور لوگوں سے ملتے ہیں، تو بھوک اور غربت کا عفریت پوری طرح سامنے آتا جاتا ہے۔

    صرف 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں میر بحر (مچھلی پکڑنے والے) ذات کے لوگ آباد ہیں۔ ان کا بنیادی پیشہ مچھلی پکڑنا اور اسے بیچ کر اپنی روزی کمانا ہے۔ لیکن گاؤں کی رہائشی 45 سالہ حمیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو مچھلی کھائے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔

    ’ہم ترس گئے ہیں مچھلی کھانے کے لیے، جتنی بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے وہ ہم بیچ دیتے ہیں۔ اس رقم سے تھوڑا بہت گھر کا سامان آجاتاہے جس سے پیٹ کی آگ بجھا لیتے ہیں۔ مچھلی کھانے کی عیاشی کدھر سے کریں‘۔

    گاؤں والے سمندر سے جو مچھلی پکڑتے ہیں اسے 20 سے 30 روپے فی کلو بیچتے ہیں۔ شہروں میں یہی مچھلی 400 سے 500 روپے کلو بکتی ہے۔ شہر لے جا کر بیچنے کے سوال پر حمیدہ بی بی نے بتایا کہ گاؤں سے شہر آنے جانے میں اتنا کرایہ خرچ ہوجاتا ہے کہ 500 کلو مچھلی کی فروخت بھی کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ لہٰذا وہ گاؤں کے اندر ہی اسے بیچتے ہیں۔

    لیکن گاؤں والے آج کل اس سے بھی محروم ہیں۔ سمندر میں بلند لہروں کی وجہ سے 4 مہینے (مئی تا اگست) مچھیرے سمندر میں نہیں جا سکتے اور بقول حمیدہ بی بی یہ 4 مہینے ان کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔

    ’گاؤں سے باہر کے لوگ آ کر ان دنوں میں تھوڑا بہت راشن دے جاتے ہیں جس سے کسی حد تک گزارہ ہوجاتا ہے‘۔

    پچھلے کچھ عرصے سے انہی دنوں میں رمضان آرہا ہے جس سے گاؤں والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ’افطار میں کبھی کچھ کھانے کو ہوتا ہے، کبھی صرف پانی سے روزہ کھولتے ہیں‘، حمیدہ بی بی نے بتایا۔

    ’ان دنوں میں کھانے پینے کی اتنی مشکل ہوجاتی ہے کہ ہم بچوں کو بھی روزہ رکھواتے ہیں تاکہ وہ سارا دن کچھ نہ مانگیں‘۔

    ماہ رمضان میں جہاں لوگوں کی غذائی عادات تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ رمضان میں صحت مند غذا کھاتے ہیں، اس گاؤں کے لوگ اپنی روزمرہ غذا سے بھی محروم ہیں۔ ’کبھی کبھار مہینے میں ایک آدھ بار گوشت، یا پھل کھانے کو مل جاتا تھا، لیکن پابندی کے موسم میں تو ان چیزوں کے لیے ترس جاتے ہیں۔ کبھی کوئی آکر دال، آٹا دے جاتا ہے تو اسی سے گزارا کرتے ہیں‘۔

    گاؤں میں ایک بہت بڑا مسئلہ پانی کا بھی ہے۔ سمندر کنارے واقع یہ گاؤں پینے کے پانی سے محروم ہے۔ حمیدہ بی بی نے بتایا کہ وہ لوگ پانی نہ ہونے کے باعث کئی کئی ہفتہ نہا نہیں پاتے۔ پانی سے روزہ کھولنے کے لیے بھی بعض دفعہ پانی نہیں ہوتا۔

    گاؤں میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کاریتاس‘ کے پروجیکٹ ہیڈ منشا نور نے اس بارے میں بتایا کہ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انہوں نے پہلے ہینڈ پمپس لگوانے کا سوچا۔ لیکن ان ہینڈ پمپس سے سمندر کا کھارا پانی نکل آیا۔ چنانچہ اب وہ پانی ذخیرہ کرنے والے ٹینکس پر کام کر رہے ہیں۔

    سومار گوٹھ قومی اسمبلی کے حلقہ 239 میں آتا ہے جو پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا حلقہ ہے۔ وہ 2008 کے الیکشن میں یہاں سے فتح یاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ قادر پٹیل الیکشن کے بعد تو کیا آتے، وہ تو کبھی ووٹ مانگنے بھی یہاں نہیں آئے۔

    ان کی جانب سے کچھ لوگ آکر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں، اور پھر وڈیرے کے حکم پر گاؤں والوں کو قادر پٹیل کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔

    ’ہمیں کبھی کسی نے پوچھ کر نہیں دیکھا، نہ کوئی حکومت کا کارندہ، نہ کوئی این جی او کبھی ادھر آئی‘، حمیدہ بی بی نے اپنے پلو سے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا۔ ’ان 4 مہینوں میں ہم فاقے کرتے ہیں۔ کبھی پانی بہت چڑھ جاتا اور سمندر کنارے واقع ہمارے گھر ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن کوئی مدد کو نہیں آتا۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں‘۔

    گاؤں کے لوگ یوں تو سارا سال ہی غربت کا شکار رہتے ہیں، مگر ان 4 مہینوں میں ان کی حالت بدتر ہوجاتی ہے اور وہ امید نہ ہونے کے باوجود فشریز ڈپارٹمنٹ، حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

  • ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ٹھٹھہ کا شہر گھارو ہے۔ اس مسافت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جن میں سے ایک، 370 لوگوں کی آبادی پر مشتمل گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو بھی ہے۔ ان دو شہروں کے بیچ میں واقع اس گاؤں میں جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کئی صدیوں پیچھے آگئے ہیں۔

    پاکستان کے ہر پسماندہ گاؤں کی طرح یہاں نہ پانی ہے نہ بجلی، نہ ڈاکٹر نہ اسپتال۔ معمولی بیماریوں کا شکار مریض شہر کے ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ گاؤں میں اسکول کے نام پر ایک بغیر چھت والی بوسیدہ سی عمارت نظرآئی۔ اندرجھانکنے پرعلم ہوا کہ یہ گاؤں کے آوارہ کتوں کی پناہ گاہ ہے۔

    یہاں موجود بیشتر گاؤں تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جان کر حیرت ہوتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے زیادہ ترباسیوں کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اپنی زندگی میں ایک بار بجلی کا چمکتا ہوا بلب دیکھنا ہے۔

    یہاں کی عورتوں کے مسائل بھی الامان ہیں۔ سر شام جب مہمانوں کو چائے پیش کی گئی تو گاؤں کے تمام مردوں نے تو ان کا ساتھ دیا لیکن خواتین چائے سے دور ہی رہیں۔ ’ہم شام کے بعد چائے یا پانی نہیں پیتے۔‘ پوچھنے پر جواب ملا۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ ان کے گاؤں یا خاندان کی کسی قدیم روایت کا حصہ ہے جو صرف خواتین پر لاگو ہوتا ہے لیکن غربت سے کملائے ہوئے چہرے کے اگلے جملے نے میرے خیال کی نفی کردی۔ ’ہم رات کو رفع حاجت کو باہر نہیں جاسکتے۔ اندھیرا ہوتا ہے اور گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ رات کو اکثر سانپ یا کوئی کیڑا مکوڑا کاٹ لیتا ہے اوریوں رات کو رفع حاجت کے لیے جانے کی پاداش میں صبح تک وہ عورت اللہ کو پیاری ہوچکی ہوتی ہے‘۔

    اب میرا رخ خواتین کی طرف تھا۔ ’میری ایک بہن کو کوئی بیماری تھی۔ وہ سارا دن، ساری رات درد سے تڑپتی رہتی۔‘ایک نو عمر لڑکی نے اپنے چھوٹے بھائی کو گود میں سنبھالتے ہوئے بتایا۔ ’پیسہ جوڑ کر اور سواری کا بندوبست کر کے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے بتایا کہ اسے گردوں کی بیماری ہے‘۔


    پنتیس سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔


    دراصل گاؤں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ مرد و خواتین رفع حاجت کے لیے کھلی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ خواتین ظاہر ہے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد جب سناٹا ہوتا ہے دو وقت ہی جا سکتی ہیں۔

    مجھے بھارت یاد آیا۔ پچھلے دنوں جب بھارت میں خواتین پر مجرمانہ حملوں میں اچانک ہی اضافہ ہوگیا، اور ان میں زیادہ تر واقعات گاؤں دیہاتوں میں رونما ہونے لگے تو صحافی رپورٹ لائے کہ زیادہ تر مجرمانہ حملے انہی دو وقتوں میں ہوتے ہیں جب خواتین رفع حاجت کے لیے باہر نکلتی ہیں۔ کیونکہ اس وقت سناٹا ہوتا ہے اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک اکیلی عورت بھلا ایسے دو یا تین افراد کا کیا بگاڑ سکتی ہے جن پر شیطان سوار ہو اور وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں۔

    اس کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر دیہاتوں میں باتھ رومز تعمیر کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ نہ صرف سماجی اداروں بلکہ حکومت نے بھی اس طرف توجہ دی لیکن اب بھی بہرحال وہ اپنے مقصد کے حصول سے خاصے دور ہیں۔

    ہم واپس اسی گاؤں کی طرف چلتے ہیں۔ باتھ رومز کی عدم دستیابی کے سبب خواتین میں گردوں کے امراض عام ہیں۔

    گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو کا دورہ دراصل چند صحافیوں کو ایک تنظیم کی جانب سے کروایا گیا تھا جو ان گاؤں دیہاتوں میں شمسی بجلی کے پینلز لگانے، گھروں میں ہینڈ پمپ لگوانے اور گاؤں والوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کے لیے مدد اور سہولیات فراہم کرتی ہے۔ گو کہ گاؤں اور اس کے باشندوں کی حالت زار کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید ان کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوں گی لیکن اس تنظیم اور اس جیسی کئی تنظیموں اور اداروں کی معمولی کاوشوں سے بھی گاؤں والوں کی زندگی میں انقلاب آرہا تھا۔

    یہیں میری ملاقات خورشیدہ سے ہوئی۔ 35 سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا اور جب وہ گفتگو کر رہی تھی تو اپنے پر اعتماد انداز کی بدولت وہاں موجود لوگوں اور کیمروں کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔

    چونکہ ذہانت اور صلاحیت کسی کی میراث نہیں لہذاٰ یہاں بھی غربت کے پردے تلے ذہانت بکھری پڑی تھی جو حالات بہتر ہونے کے بعد ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ خورشیدہ بھی ایسی ہی عورت تھی جو اب اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کا بھرپور استعمال کر رہی تھی۔

    تمام مرد و خواتین صحافیوں کے سامنے وہ اعتماد سے بتا رہی تھی۔ ’ہم پہلے گھر کے کام بھی کرتے تھے جس میں سب سے بڑا اور مشکل کام پانی بھر کر لانا ہوتا تھا۔ گاؤں کا کنواں بہت دور ہے اور سردی ہو یا گرمی، چاہے ہم حالت مرگ میں کیوں نہ ہوں اس کام کے لیے ہمیں میلوں کا سفر طے کر کے ضرور جانا پڑتا تھا۔ گھر کے کاموں کے بعد ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے تھے جس سے معمولی ہی سہی مگر اضافی آمدنی ہوجاتی تھی۔ یہ سارے کام ہمیں دن کے اجالے میں کرنے پڑتے تھے۔ اندھیرا ہونے کے بعد ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے سوائے دعائیں مانگنے کے کہ اندھیرے میں کوئی جان لیوا کیڑا نہ کاٹ لے‘۔

    میں نے اس زندگی کا تصور کیا جو سورج ڈھلنے سے پہلے شروع ہوجاتی تھی اور سورج ڈھلتے ہی ختم۔ بیچ میں گھپ اندھیرا تھا، وحشت تھی، سناٹا اور خوف۔ مجھے خیال آیا کہ ہر صبح کا سورج دیکھ کر گاؤں والے سوچتے ہوں گے کہ ان کی زندگی کا ایک اور سورج طلوع ہوا اور سورج کے ساتھ ان کی زندگی میں بھی روشنی آئی۔ ورنہ کوئی بھروسہ نہیں اندھیرے میں زندگی ہے بھی یا نہیں۔

    خورشیدہ کی بات جاری تھی۔ ’ جب سے ہمارے گھر میں بجلی آئی ہے ہم رات میں بھی کام کرتے ہیں۔ اجالے کی خوشی الگ ہے۔ گھروں میں بھی اب ہینڈ پمپ ہیں چنانچہ پانی بھرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ گئی۔ جو وقت بچتا ہے اس میں ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے ہیں جس سے گھر کی آمدنی میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے اور ہماری زندگیوں میں بھی خوشحالی آئی ہے‘۔

    بعد میں خورشیدہ نے بتایا کہ اس نے اپنی کمائی سے ایک موبائل فون بھی خریدا جس سے اب وہ انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ اس انٹرنیٹ کی بدولت وہ اپنے ہنر کو نئے تقاضوں اور فیشن کے مطابق ڈھال چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے رابطے بھی وسیع کر لیے ہیں اور چند ہی دن میں وہ اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے ملبوسات بیرون ملک بھی فروخت کرنے والی ہے۔

     میں نے اپنا اکاؤنٹ بھی کھلوا لیا ہے شہر کے بینک میں۔‘خورشیدہ کی آواز میں آنے والے اچھے وقت کی امید تھی۔ ’گاؤں میں بہت ساری لڑکیاں میرے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ جنہیں سلائی کڑھائی نہیں آتی ہم انہیں بھی سکھا رہے ہیں اور بہت جلد ایک مکان خرید کر ہم باقاعدہ اپنا ڈسپلے سینٹر بھی قائم کریں گے‘۔

    واپسی کے سفر میں ہمارے ساتھ موجود صحافی عافیہ سلام نے بتایا کہ گاؤں کی عورتوں کے لیے پانی بھر کر لانا ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں، عورتوں کا کام ہے اور اسے ہر صورت وہی کریں گی۔ بعض حاملہ عورتیں تو راستے میں بچے تک پیدا کرتی ہیں اور اس کی نال کاٹ کر اسے گلے میں لٹکا کر پھر سے پانی بھرنے کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں۔

    مجھے خیال آیا کہ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو، غربت ہو، جہالت ہو، کوئی قدرتی آفت ہو، یا جنگ ہو ہر صورت میں خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ جنگوں میں خواتین کے ریپ کو ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے دور کے ظالم و جابر بادشاہوں اور قبائلی رسم و رواج کا دور ہو یا جدید دور کی پیداوار داعش اور بوکو حرام ہو، خواتین کو ’سیکس سلیوز‘ (جسے ہم جنسی غلام کہہ سکتے ہیں) کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا رہا۔

    جنگوں میں مردوں کو تو قتل کیا جا سکتا ہے یا زخمی ہونے کی صورت میں وہ اپاہج ہوسکتے ہیں۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی جرائم انہیں جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی طور پر بری طرح متاثر کرتے ہیں اور ان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کسی عورت پر پڑنے والے برے اثرات اس کے پورے خاندان کو متاثر کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد جب امن مذاکرات ہوتے ہیں تو اسی صنف کی شمولیت کو انتہائی غیر اہم سمجھا جاتا ہے جو ان جنگوں سے سب زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

  • مبارک ولیج : جہاں قدرتی حسن اورغربت صدیوں سے ساتھ رہتے ہیں

    مبارک ولیج : جہاں قدرتی حسن اورغربت صدیوں سے ساتھ رہتے ہیں

    کراچی اوراس سے ملحقہ ساحلی علاقے یقیناً قدرتی حسن اوردولت سے مالامال ہیں یہاں کے دلفریب نظارے سیر کے لئے آنے والون کی نگاہوں کو خیرہ کردیتے اور واپس لوٹ کروہ کئی دن تک اسی خمارمیں مبتلا رہتے لیکن اس دولت کے اصل مالک یعنی یہاں کے مقامی افراد کس طرح کی زندگی گزارتے ہیں اگر کوئی صاحب دل ان کی ویران آنکھوں اور بے رونق گھروں میں جھانک کردیکھے تو شائد کئی دن سکون کی نیند سونا پائے۔

    پاکستان کی فشنگ انڈسٹری کی پشت یقیناً ساحلی بستیوں پرصدیوں سے آباد مچھیروں کے خاندان ہیں لیکن ملکی معیشت میں بھرپور حصہ ڈالنے والے یہ ماہی گیر کس طرح کسمپرسی اورغربت کی زندگی گزارتے ہیں اس کا اندازہ کراچی سے ملحقہ ساحلی بستی مبارک ولیج کے ایک دورے سے بخوبی ہوجاتا ہے۔

    کراچی سے لگ بھگ 30 کلومیٹرکے فاصلے پرواقع ساحلی بستی مبارک ولیج کے آبادی تقریباً چارہزارنفوس پرمشتمل ہے اوراس کے مکین پاکستان کے سب سے ترقی یافتہ شہر کے پڑوس میں آباد ہونے کے باوجود زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کی ٹیم نے مقامی ماہی گیروں کے حالاتِ زندگی جاننے کے لئے جب اس بستی کا دورہ کیا تو اندازہ ہوا کہ یہاں صورتحال اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے جتنی سمجھی جاتی ہے۔

    مبارک ولیج کے اس دورے کے دوران اندازہ ہوا کہ زندگی انتہائی مشکل ہے ، مقامی آبادی کے گھر کچے بنے ہوئے ہیں اور سیلاب یا طوفانی ہواوٗں کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، یہ بستی زندگی کا بنیادی جزو سمجھی جانے والی سہولیت یعنی بجلی اور پانی سے یکسرمحروم ہے اور سمندر کنارے آبادمقامی افراد کی ضروریاتِ زندگی کا دارو مدار شہر سے آنے والے پانی کے ٹینکر (جوانتہائی مہنگا ہے) اوردوردرازواقع گنتی کے چند میٹھے پانی کےکنووٗں پرہے۔

    یہ بھی دیکھا گیا کہ اس بستی کے مقیم افراد اس حد تک افلاس کا شکار ہیں کہ ان کی نئی نسل جو ابھی نہایت کم عمر ہے ساحل کنارے تفریح کے لئے آنے والوں سے پیسے اور کھانا مانگنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتی۔

    جب ان معصوم بچوں کوکھانافراہم کیا گیا تومحسوس ہوا کہ کھانے کے حصول میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی جدوجہد کے پیچھے صدیوں کی محرومیاں کارفرما ہیں کہ جن کے سبب یہ معصوم بچے اپنے بچپن کی اصل معصومیت ہی کھوبیٹھے ہیں۔

    بستی کے واحد اسکول کے ایک سینئراستادعبدالستارنے مقامی آبادی کی مشکلات پرروشنی ڈالتے بتایا کہ کس طرح مبارک ولیج کے مکین آج کے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

    عبدالستارنے بتایا کہ چارہزار کی اس بستی کے لئے ایک سرکاری اسکول ہے جو کہ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرتا ہے لیکن اس اسکول میں اساتذہ کی تعداد انتہائی کم ہے اور سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں۔

    انہوں نے صحت کی سہولیات کے حوالے سے جو انکشاف کیا وہ کسی کے بھی سر پر آسمان توڑدینے کے مترادف تھا کہ اتنی بڑی آبادی کے لئے ایک ڈسپنسری بھی نہیں ہے، عبدالستارکے مطابق مقامی آبادی میں اموات کی سب سے بڑی وجہ امراض قلب اور زچگی کے دوران پیچیدگی ہے، انہوں نے انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اکثر 16 سے 20 سال کی عمر میں ماں بننے والی نوجوان لڑکیاں زچگی کے مراحل میں بنیادی طبی سہولیات میسرنہ ہونے کے سبب موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں‘‘۔

    عبدالستارکراچی کے سابق ستی ناظم سید مصطفیٰ کمال کے بے حد مداح دکھائی دئیے حالانکہ انہوں نے اپنی حقیقی جذبات کا اظہار کیمرے کے سامنے نہیں کیا لیکن آف کیمرہ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’مصطفیٰ کمال یہاں کے مقامی افراد کے لئے پیر کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ یہاں نہ ہونے کے برابر جو سہولیات ہیں وہ انہیں کہ مرہونِ منت ہیں اور پاکستان بننے کے بعد سے ان کی حکومت تک مبارک ولیج میں آنے والی واحد سیاسی شخصیت ہیں‘‘۔

    مبارک ولیج کے اس بزرگ استاد کا کہنا تھا کہ یہاں تک آنے والی سڑک انہی کے حکم سے تعمیر کی گئی ہے اوراسکول میں بھی انہوں نے ہی مقامی افراد کوبحیثیت استاد بھرتی کیا اور ساحل پر انسانی جانوں کی حفاظت کے لئے لائف گارڈز تعینات کئے۔

    ساحل پر تعینات لائف گارڈ ریاض نے اے آروائی نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہاں زندگی آسان نہیں ہے، جب سیزن ہوتا ہے تو ہمیں پیسے ملتے ہیں لیکن جب سمندر بھپرا ہوا ہوتا ہے تو یہاں کوئی نہیں آتا اور اس موسم میں مچھلیاں بھی نہیں ہوتیں کہ گزارہ کیا جاسکے‘‘۔

    واضح رہے کہ حکومت فشنگ سیکٹرسے ہرسال اربوں روپے کماتی ہیں لیکن حکومتی اداروں کی جانب سے ماہی گیروں کو ہمیشہ ہی نظراندازکیا جاتا رہے اوراسی سبب ماہی گیرآج کے اس ترقی یافتہ دورمیں بھی انتہائی بدحالی کی زندگی جینے پرمجبورہیں۔

    کراچی کے ساحل سے ملحقہ مبارک ولیج پاکستان میں ماہی گیروں کی دوسری سب سے بڑی بستی ہے۔