Tag: Violence against Women

  • ’’ہمیں ہمارا مرد نہیں مارے گا تو کون مارے گا؟‘‘

    ’’ہمیں ہمارا مرد نہیں مارے گا تو کون مارے گا؟‘‘

    خواتین پر تشدد یا ہراسمنٹ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے، بہت سی خواتین اپنا گھر بچانے کیلئے اس ظلم کو تو برداشت کرتی ہیں لیکن آواز نہیں اٹھاتیں۔

    عورتوں کی اس خاموشی کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس طرح کے تشدد کو معاشرے میں بڑی حد تک  نارمل سمجھا جاتا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ملک میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات سے متعلق ایس ایس پی اے آئی جی جنرل کرائم شہلا قریشی نے تفصیلی گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کی سروے رپورٹ کے مطابق 59 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ ہمیں ہمارا مرد نہیں مارے گا تو کون مارے گا؟ بدقسمتی سے ہماری شرح خواندگی کی وجہ سے ہراسمنٹ یا گھریلو تشدد ہونا معمول کی بات ہے پر آگاہی کی بہت ضرورت ہے۔

    اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اے آر وائی نیوز کے کرائم رپورٹر کامل عارف کا کہنا تھا کہ ہراسمنٹ کی بہت سی اقسام ہیں بدقسمتی سے اب صرف خواتین ہی ہراسمنٹ کا شکار نہیں ہوتی اس میں مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دماغی طور پر بیمار اور کند ذہن ہیں، جو بچوں کے ساتھ جنسی ذیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

    ہراسمنٹ کے جرم کی سزا کے حوالے سے سوال پر شہلا قریشی نے بتایا کہ عام طور پر ہراسمنٹ کے الزام کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ہراسمنٹ کے مجرم کیخلاف اگر کوئی ٹھوس ثبوت مل جائے تو اس پر پاکستان پینل کوڈ کے اندر سیکشن 509 کا اطلاق ہوتا ہے جس کی سزا 3 سال کی سزا اور 5لاکھ روپے جرمانہ ہے۔

    واضح رہے کہ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 47 فیصد پاکستانی خواتین گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔

    این سی ایچ آر کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تشدد کا سلسلہ شادی کے بعد چلتا رہتا ہے، جس کا اکثر خاتمہ طلاق پر ہی ہوتا ہے۔

  • خاتون کو کوڑے مار کر بہیمانہ تشدد، ویڈیو نے دل دہلا دیئے

    خاتون کو کوڑے مار کر بہیمانہ تشدد، ویڈیو نے دل دہلا دیئے

    پٹنہ : بھارت میں خاتون پر ہونے والے تشدد نے لوگوں کے دل دہلا دیئے، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو دیکھ کر لوگ بھی خوفزدہ ہوگئے۔

    بھارتی ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں تشدد کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے اس کے حق میں آواز بلند کردی، پولیس کو بھی ایکشن لینا پڑگیا۔

    سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک شخص گھوڑے کو مارنے کیلئے استعمال ہونے والے کوڑے سے ایک عورت کو مارتا اور گالیاں دیتا نظر آرہا ہے، خاتون کو بھاگنے کو بھی کہا جارہا ہے۔

    اس ویڈیو کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ مذکورہ خاتون کو کوڑے سے مارنے والا نوجوان علاقے کی بااثر شخصیت کا رشتہ دار ہے۔ جو ابھے پٹیل بیلدور تھانہ علاقہ کے پنسلوا گاؤں کا رہنے والا ہے۔

    ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس حکام نے نوٹس لیتے ہوئے بیلدور پولیس اس معاملہ میں قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا جس کے بعد ملزم کیخلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق گاؤں کا ایک نوجوان یوپی کی لڑکی سے شادی کرکے اسے گاؤں لے آیا۔ اس کے بعد لڑکا دوبارہ کسی دور دراز علاقے میں مزدوری کرنے چلا گیا۔ اس دوران وہ خاتون گاؤں میں ہی رہ رہی تھی، تفتیش میں واضح ہوگا کہ نوجوان نے خاتون پر س طرح بے رحمانہ تشدد کیوں کیا؟۔

  • خواتین پر تشدد، وزیر اعلیٰ سندھ نے 7 افسران کو معطل کر دیا

    خواتین پر تشدد، وزیر اعلیٰ سندھ نے 7 افسران کو معطل کر دیا

    کراچی: شہر قائد میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران خواتین پر تشدد پر وزیر اعلیٰ سندھ نے 7 افسران کو معطل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے غازی گوٹھ میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران خواتین پر تشدد کرنے پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 7 افسران کو معطل کر دیا ہے۔

    معطل افسران میں ڈی ایس پی، ایس ایچ او سچل، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہشام مظہر، اسسٹنٹ کمشنر گلزار ہجری ندیم قادر، مختیارکار گلزار ہجری جلیل بروہی، تپہ دار گلزار ہجری عاشق تنیو، انچارج اینٹی انکروچمنٹ ایسٹ محمد احمد شامل ہیں۔

    تشدد میں ملوث افسران کے خلاف ایکشن سچل غازی گوٹھ آپریشن کے بعد ڈپٹی کمشنر ایسٹ کی رپورٹ پر کیا گیا، شروع میں ڈی ایس پی اور ایس ایچ او سچل کو معطل کیا گیا تھا، اب پانچ مزید افسران کو معطل کیا گیا ہے۔

    چیف سیکریٹری سندھ سہیل راجپوت کی جانب سے معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا، سندھ حکومت نے کمشنر محمد اقبال میمن کو انکوائری افسر مقرر کر کے 3 دن میں رپورٹ طلب کر لی۔

    نوٹیفکیشن میں کمشنر کراچی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اینٹی انکروچمنٹ کے آپریشن اور افسران کے کردار پر تفتیش کریں، اور ملوث افسران کا کردار رپورٹ میں واضح کریں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ انکوائری رپورٹ کے بعد ملوث افسران کے خلاف مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی، کمشنر کراچی کی جانب سے تین روز میں انکوائری مکمل کر کے رپورٹ جمع کرائی جائے گی۔

  • خواتین پر تشدد کے خاتمے کا دن: لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھریلو تشدد کا جن بے قابو

    خواتین پر تشدد کے خاتمے کا دن: لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھریلو تشدد کا جن بے قابو

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، کرونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن نے خواتین پر گھریلو تشدد میں اس قدر اضافہ کردیا کہ اقوام متحدہ نے اسے تاریک وبا قرار دیا ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا یا جنسی طور پر ہراساں کرنا، ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے، غیرت کے نام پر قتل، کم عمری کی یا جبری شادی، وراثت سے محرومی، تیزاب گردی اور تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا نہ صرف خواتین بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

    اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اس میں چند مزید اقسام، جیسے غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، (جس کے واقعات ملک بھر میں عام ہیں) اور خواتین کو تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

    گزشتہ برس خواتین پر تشدد کے حوالے سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں گھر کو ہی خواتین کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں 50 ہزار خواتین اپنے ہی گھر میں اپنوں ہی کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے کے بعد قتل ہوئیں۔

    ان خواتین کے خلاف پرتشدد اور جان لیوا کارروائیوں میں ان کے خاوند، بھائی، والدین، پارٹنرز یا اہل خانہ ملوث تھے۔

    کرونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن نے خواتین کے لیے گھر کو مزید غیر محفوظ بنا دیا۔ گزشتہ 8 ماہ کے دوران کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کی وجہ سے مردوں نے گھروں پر رہنا شروع کیا تو گھریلو تشدد میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین اپنے پرتشدد شوہر یا پارٹنرز کے ساتھ گھروں میں قید ہوگئیں اور ان کے لیے کوئی جائے فرار نہیں بچی۔

    صرف برطانیہ میں گھریلو تشدد کے سبب ہاٹ لائن پر مدد مانگنے والوں کی تعداد میں 120 فیصد اضافہ ہوا، امریکا میں یہ شرح 20 فیصد زیادہ رہی۔

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران گھریلو تشدد میں اضافے کو دیکھتے ہوئے کئی ممالک نے اس حوالے سے اقدامات کیے ہیں، ارجنٹینا میں فارمیسیز کو خواتین کے لیے ’محفوظ جگہ‘ قرار دیتے ہوئے وہاں گھریلو تشدد کی شکایات رپورٹ کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    فرانس کے ہوٹلز میں ان خواتین کے لیے ہزاروں کمرے مختص کیے گئے ہیں جو پرتشدد مردوں کی وجہ سے گھر جانے سے خوفزدہ ہیں۔ اسپین میں بھی ان خواتین کو لاک ڈاؤن سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جو گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔

    کینیڈا اور آسٹریلیا میں کووڈ 19 کے بحالی فنڈ میں تشدد کا شکار خواتین کے لیے بھی بڑا حصہ مختص کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہم کرونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ گھریلو تشدد کی ایک اور تاریک وبا کی زد میں ہیں۔

  • خواتین پر تشدد کے بارے میں معاشرتی سطح پر سوچنا ہوگا: صدر مملکت

    خواتین پر تشدد کے بارے میں معاشرتی سطح پر سوچنا ہوگا: صدر مملکت

    اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے خلاف قانون موجود ہے لیکن عملدر آمد کی ضرورت ہے، ہمیں معاشرتی سطح پر اس مسئلہ پر سوچنا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر ایوان صدر میں تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب میں آسکر ایوارڈ یافتہ فلمساز شرمین عبید چنائے سمیت اہم شخصیات نے شرکت کی۔

    صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس مسئلے پر قانون ہے لیکن عملدر آمد کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں معاشرتی سطح پر اس مسئلہ پر سوچنا ہوگا۔ ایسے مسائل پر عوام میں آگاہی انتہائی ضروری ہے۔

    وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین پر تشدد سے متعلق تحریک انصاف کی پالیسی واضح ہے، حکومت نے خواتین پر تشدد سے متعلق سخت اقدامات کیے۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وزیر اعظم نے وزیر قانون کی زیر صدارت خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ معاشرے سے اس برائی کے خاتمے کے لیے آگاہی کو بڑھانا ہوگا۔

  • خواتین پر تشدد کے خاتمے کا دن: مقبوضہ کشمیر میں خواتین بدترین جنسی تشدد کا شکار

    خواتین پر تشدد کے خاتمے کا دن: مقبوضہ کشمیر میں خواتین بدترین جنسی تشدد کا شکار

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں اس وقت خواتین بھارتی فوجیوں کی جانب سے بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ خود بھارت بھی خواتین کے لیے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا یا جنسی طور پر ہراساں کرنا، ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے، غیرت کے نام پر قتل، کم عمری کی یا جبری شادی، وراثت سے محرومی، تیزاب گردی اور تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا نہ صرف خواتین بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

    رواں برس خواتین پر تشدد کے حوالے سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں گھر کو ہی خواتین کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں 50 ہزار خواتین اپنوں ہی کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے کے بعد قتل ہوئیں۔

    ان خواتین کے خلاف پرتشدد اور جان لیوا کارروائیوں میں ان کے خاوند، بھائی، والدین، پارٹنرز یا اہل خانہ ملوث تھے۔

    پاکستان میں گھریلو تشدد

    پاکستان میں بھی گھریلو تشدد خواتین کی فلاح و بہبود کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

    خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاونڈیشن کے مطابق سنہ 2013 میں ملک بھر سے خواتین کے خلاف تشدد کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 7 ہزار 8 سو 52 ہے۔

    پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سنہ 2014 میں 39 فیصد شادی شدہ خواتین جن کی عمریں 15 سے 39 برس کے درمیان تھی، گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔

    کمیشن کی ایک اور رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں 1 ہزار سے زائد خواتین کے قتل ریکارڈ پر آئے جو غیرت کے نام پر کیے گئے۔

    دوسری جانب ایدھی سینٹر کے ترجمان کے مطابق صرف سنہ 2015 میں گزشتہ 5 برسوں کے مقابلے میں تشدد کا شکار ہو کر یا اس سے بچ کر پناہ لینے کے لیے آنے والی خواتین میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔

    اوسطاً پاکستان میں ہر سال 5 ہزار خواتین گھریلو تشدد کے باعث جبکہ لاکھوں معذور ہوجاتی ہیں۔ علاوہ ازیں بے شمار خواتین ذہنی دباؤ یا اہلخانہ کی جانب سے مذموم کارروائیوں کے بعد اپنے بہترین کیریئر کے مواقعوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں جبکہ سماجی طور پر بھی کٹ کر رہنے پر مجبور کردی جاتی ہیں۔

    تشدد کے دیرپا اثرات

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ مستقل تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کئی نفسیاتی عارضوں و پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    تشدد خواتین کی جسمانی صحت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور وہ بلڈ پریشر اور امراض قلب سے لے کر ایڈز جیسے جان لیوا امراض تک کا آسان ہدف بن جاتی ہیں۔

    دوسری جانب ذہنی و جسمانی تشدد خواتین کی شخصیت اور صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور انہیں ہمہ وقت خوف، احساس کمتری اور کم اعتمادی کا شکار بنا دیتا ہے جبکہ ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بھی ختم کردیتا ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی بدترین حالت زار

    گزشتہ 113 دن سے لاک ڈاؤن کا شکار مقبوضہ کشمیر اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے جہاں رابطے کے تمام ذرائع بند ہیں۔

    مقبوضہ کشمیر میں کشمیری خواتین بھارتی فوجیوں کی جانب سے بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ رپورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آتے ہیں۔

    کشمیر میں بھارتی فوجی جدوجہد آزادی کو دبانے کے لیے خواتین کی عصمت دری کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ خواتین سے زیادتی و بے حرمتی کی تمام تر رپورٹس کے باوجود دنیا کشمیر کے معاملے میں آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔

  • وہاڑی : پولیس کے ٹارچر سیل کا انکشاف، خاتون پر بہیمانہ تشدد، وزیراعلیٰ کا نوٹس

    وہاڑی : پولیس کے ٹارچر سیل کا انکشاف، خاتون پر بہیمانہ تشدد، وزیراعلیٰ کا نوٹس

    وہاڑی : وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے وہاڑی تھانے میں خاتون پر ہونے والے تشدد کا سختی سے نوٹس لے لیا، واقعہ میں ملوث انچارج سی آئی اے سمیت چار پولیس اہلکاروں کو معطل کرکے ان کیخلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایک بار پھر پنجاب پولیس کا نجی ٹارچر سیل برآمد ہوگیا پھر ایک کمزور پر تشدد کیا گیا، وہاڑی میں اہلکاروں نے چوری کے الزام میں غریب خاتون کو حراست میں لیا.

    وہاڑی کے تھانہ لڈن میں پولیس نے چوری کے الزام میں ظہوراں بی بی نامی خاتون کو نجی ٹارچر سیل میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں زخمی حالت میں گھر کے باہر پھینک گئے تھے.

    مذکورہ خاتون کو اس نجی ٹارچر سیل میں صرف مار پیٹ اور شدید تشدد کا نشانہ ہی نہیں بنایا گیا بلکہ بجلی کے تاروں سے جھٹکے بھی دیئے گئے۔

    خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ اہلکاروں نے اسے برہنہ کرکے بھی تشدد کیا۔ متاثرہ عورت کو تشویش ناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔

    اطلاع ملنے پر وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار نے واقعے ک اسختی سے نوٹس لیا اور آر پی او ملتان سے اڑتالیس گھنٹے میں رپورٹ طلب کرلی۔

    انہوں نے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف محکمانہ اور قانونی کارروائی کا حکم بھی دیا۔۔ عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس کو اپنا قبلہ درست کرنا پڑے گا۔

    پولیس حکام نے انچارج سی آئی اے امجد خان، سب انسپکٹر طاہر چوہان، اے ایس آئی حاجی یونس اور ایک پولیس اہلکار کو معطل کردیا ہے۔

  • معروف باکسر خواتین پر تشدد کرنے والوں کو خاک چٹانے کے لیے میدان میں آگئیں

    معروف باکسر خواتین پر تشدد کرنے والوں کو خاک چٹانے کے لیے میدان میں آگئیں

    اسپین کی معروف باکسر میریم گتریز نے باکسنگ کے ساتھ سیاست میں بھی زور آزمائی شروع کردی، ان کا سیاست میں آنے کا مقصد خواتین کے خلاف ناانصافیوں اور تشدد کا خاتمہ ہے۔

    میریم گتریز جنہیں اسپین میں ’دا کوئین‘ کہا جاتا ہے، یورپین لائٹ ویٹ باکسنگ چیمپیئن رہ چکی ہیں۔ رواں برس وہ میڈرڈ کے قریب ایک قصبے کی مقامی کونسل کی رکن بھی منتخب ہوئی ہیں۔

    کوئین کا مقصد خواتین پر بڑھتے تشدد کی روک تھام کرنا، ذمہ داران کو سزا دلوانا، اور خواتین کو اپنے حقوق سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔

    وہ جب 21 سال کی اور 8 ماہ کی حاملہ تھیں، تب ان کے شوہر نے ان پر بہیمانہ تشدد کیا تھا، وہ بتاتی ہیں کہ ان کے چہرے کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔

    باجود اس کے، کہ وہ باکسر تھیں، وہ اپنا دفاع کرنے اور شوہر کو منہ توڑ جواب دینے میں ناکام رہیں۔ اس واقعے کی وجہ سے انہیں پری میچور ڈلیوری سے بھی گزرنا پڑا اور انہوں نے ایک کمزور بچے کو جنم دیا۔ خوش قسمتی سے بچہ زندہ رہا اور جلد ہی صحتیاب ہوگیا۔

    اس واقعے کے بعد مریم سخت ڈپریشن میں چلی گئیں اور باکسنگ چھوڑ دی، تاہم ایک سال بعد اپنے کوچ کے اصرار پر پھر سے باکسنگ رنگ میں اتر آئیں۔

    اب وہ گزشتہ 13 سالوں سے باکسنگ کے ساتھ مختلف اسکولوں کے دورے کر رہی ہیں اور لڑکیوں کو سیلف ڈیفینس کی ٹریننگ دے رہی ہیں۔

    اسپین میں خواتین پر تشدد اور زیادتی کے واقعات عام ہیں۔ سنہ 2003 سے اب تک 1 ہزار سے زائد خواتین شوہر یا اپنے پارٹنر کے ہاتھوں قتل ہوچکی ہیں، اور یہ وہ تعداد ہے جو صرف کچھ عرصہ قبل آفیشل ریکارڈ رکھنے کے طفیل سامنے آسکی۔

    سنہ 2017 میں اسپین کی مقامی عدالتوں کو خواتین پر تشدد اور ظلم کی ڈیڑھ لاکھ سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔

    اسپین میں قائم مخلوط حکومت میں دائیں بازو کی ایک جماعت ووکس پارٹی بھی پارلیمنٹ میں 24 سیٹوں کے ساتھ موجود ہے، جن کے منشور میں صنفی امتیاز کے خلاف قوانین کا خاتمہ شامل تھا۔ اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ یہ قانون مردوں کو غیر محفوظ کر رہا ہے اور ان پر زیادتی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔

    میریم اب ورلڈ چیمپئن شپ ٹائٹل کے حصول کے ساتھ ملک میں صنفی تشدد کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔

  • خیبر پختونخوا میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے موبائل ایپلیکیشن متعارف

    خیبر پختونخوا میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے موبائل ایپلیکیشن متعارف

    پشاور: عورتوں کا عالمی دن پر آسٹریلوی حکومت کیے تعاون سے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے صوبہ خیبر پختونخوا میں موبائل ایپلیکیشن متعارف کروا دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں آسٹریلین ڈپٹی ہائی کمیشنر برک بیٹلی نے آسٹریلوی حکومت کی مدد سے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے ایک موبائل ایپلیکیشن متعارف کروائی۔

    موبائل ایپلیکیشن کا استعمال انٹرنیٹ کے ساتھ اور بغیر دونوں طریقے سے کیا جاسکتا ہے۔

    آسٹریلین ڈپٹی ہائی کمشنر برک بیٹلی نے بتایا کہ موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے خواتین آسانی سے عورتوں کے صوبائی کمیشن سے رابطہ کر سکیں گی۔

    برک بیٹلی نے کہا کہ ” خواتین پر تشدد کا خاتمہ آسٹریلوی حکومت کی خارجہ پالیسی اور امدادی پروگرام کی ترجیحات میں شامل ہیں اور اْمید کرتے ہیں کہ یہ موبائل ایپلیکیشن صوبہ خیبر پختونخوا میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرے گی اور جس سے خواتین کی حفاظت اور فلاح میں بہتری آئے گی۔

    آسٹریلین ڈپٹی ہائی کمشنر نے صوبہ خیبر پختونخوا کی 14 خواتین کو صحت، تعلیم، انصاف تک رسائی اور سائنس کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر ایوارڈ بھی تقسیم کیئے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • خواتین پر تشدد معمول کی بات، مگر کیا کبھی متاثرہ خواتین کے بارے میں سوچا گیا؟

    خواتین پر تشدد معمول کی بات، مگر کیا کبھی متاثرہ خواتین کے بارے میں سوچا گیا؟

    دنیا بھر میں آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد خواتین اور دنیا بھر میں ہر 3 میں سے 1 خاتون زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں تشدد کا نشانہ بننے والی ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا، جنسی طور پر ہراساں کرنا، بدکلامی کرنا، اور ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے تشدد کی اقسام ہیں اور یہ نہ صرف خواتین بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہیں۔

    اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اس میں چند مزید اقسام، جیسے غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، (جس کے واقعات ملک بھر میں عام ہیں) اور خواتین کو تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سالانہ سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم منظر عام پر آ پاتے ہیں۔

    خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاونڈیشن کے مطابق سنہ 2013 میں ملک بھر سے خواتین کے خلاف تشدد کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 7 ہزار 8 سو 52 ہے۔

    پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سنہ 2014 میں 39 فیصد شادی شدہ خواتین جن کی عمریں 15 سے 39 برس کے درمیان تھی، گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔

    کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں 1 ہزار سے زائد خواتین قتل ریکارڈ پر آئے جو غیرت کے نام پر کیے گئے۔

    دوسری جانب ایدھی سینٹر کے ترجمان کے مطابق صرف سنہ 2015 میں گزشتہ 5 برسوں کے مقابلے میں تشدد کا شکار ہوکر یا اس سے بچ کر پناہ لینے کے لیے آنے والی خواتین میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔

    تشدد کا شکار خواتین کی حالت زار

    ہر سال کی طرح اس سال بھی اقوام متحدہ کے تحت آج کے روز سے 16 روزہ مہم کا آغاز کردیا گیا ہے جس کے دوران خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی طور پر آگاہی و شعور اجاگر کیا جائے گا۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ مستقل تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کئی نفسیاتی عارضوں و پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    تشدد ان کی جسمانی صحت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور وہ بلڈ پریشر اور امراض قلب سے لے کر ایڈز جیسے جان لیوا امراض تک کا آسان ہدف بن جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے بنگلہ دیشی اشتہار

    دوسری جانب ذہنی و جسمانی تشدد خواتین کی شخصیت اور صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور انہیں ہمہ وقت خوف، احساس کمتری اور کم اعتمادی کا شکار بنا دیتا ہے جبکہ ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بھی ختم کردیتا ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

    تشدد واقعی ایک معمولی مسئلہ؟

    تشدد کا شکار ہونے والی خواتین پر ہونے والے مندرجہ بالا ہولناک اثرات دیکھتے ہوئے یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ایک معمولی یا عام مسئلہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے نصف سے زائد دنیا میں اسے واقعی عام مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ سوچ تشدد سے زیادہ خطرناک ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک نہایت عام بات اور ہر دوسرے گھر کا مسئلہ سمجھی جاتی ہے جسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    مزید یہ کہ انہیں یہ احساس بھی نہیں ہو پاتا کہ انہیں لاحق کئی بیماریوں، نفسیاتی پیچیدگیوں اور شخصیت میں موجود خامیوں کا ذمہ دار یہی تشدد ہے جو عموماً ان کے شوہر، باپ یا بھائی کی جانب سے ان پر کیا جاتا ہے۔

    تشدد سے کیسے بچا جائے؟

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔

    تشدد ہونے سے پہلے اسے روکا جائے۔

    ایک بار تشدد ہونے کے بعد اسے دوبارہ ہونے سے روکا جائے۔

    قوانین، پالیسیوں، دیکھ بھال اور مدد کے ذریعے خواتین کو اس مسئلے سے تحفظ دلایا جائے۔