Tag: Vitamin D

  • وٹامن ڈی : آنکھوں کی بینائی کیلیے کتنا ضروری ہے؟

    وٹامن ڈی : آنکھوں کی بینائی کیلیے کتنا ضروری ہے؟

    وٹامن ڈی اور ​کیلشیم مضبوط ہڈیوں اور صحت عامہ کے لئے بہت ضروری ہے، انسان کو روزانہ وٹامن ڈی اور کیلشیم کی کتنی خوراک درکار ہوتی ہے۔

    کیلشیم کی ہی طرح وٹامن ڈی بھی ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے ضروری ھے، وٹامن ڈی کو ” سن شائن” وٹامن بھی کہتے ہیں۔

    وٹامن ڈی ایک ضروری ہارمون کی قسم ہے جو کیلشیم کے جذب میں مدد دیتا ہے، مضبوط ہڈیوں اور دانتوں کے لیے ضروری ہے، مدافعتی نظام کو سہارا دیتا ہے اور موڈ کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    اس کا اہم ترین ذریعہ سورج کی روشنی ہے، لیکن یہ کچھ خوراکوں اور سپلیمنٹس سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، وٹامن ڈی کی کمی ہڈیوں کی کمزوری، مدافعتی نظام کی خرابی اور دیگر صحت کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔

    وٹامن ڈی کی کمی کی عام علامات میں تھکاوٹ، ہڈیوں اور پٹھوں میں درد یا کمزوری، موڈ میں تبدیلیاں (جیسے ڈپریشن)، بال گرنا، اور کمزور مدافعتی نظام شامل ہیں، شدید کمی کی صورت میں، بالغوں میں آسٹیومالیشیا (ہڈیوں کا نرم ہونا) اور بچوں میں رکٹس (ہڈیوں کا جھکنا) ہو سکتا ہے۔

    انسان کی صحت کیلئے وٹامنز بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اگر جسم کو مطلوبہ مقدار میں وٹامنز میسر نہ ہوں تو صحت کے پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔

    تاہم ایک نئی تحقیق میں اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی ہماری بینائی کے لیے بھی خطرات پیدا کرسکتی ہے۔

    طیی ویب سائٹ ہیلتھ لائن کے مطابق متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی سے جہاں دیگر مسائل ہوسکتے ہیں، وہیں آنکھوں کی بیماری میکولر ڈجنریشن (macular degeneration)بھی ہوسکتی ہے۔

    مذکورہ بیماری اگرچہ زائد العمری میں عام ہوتی ہے، تاہم اس سے وٹامن ڈی کی وجہ سے ادھیڑ عمر اور یہاں تک کے نوجوان بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

    اس مسئلے کے دوران متاثرہ شخص کا وژن یا ںظر بلر ہوجاتی ہے، اسے تمام چیزیں غیر واضح یا دھندلی دکھائی دیتی ہیں اور مذکورہ مسئلہ مسلسل رہنے سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

    اگرچہ میکولر ڈجنریشن مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوسکتی ہے اور اس کا کوئی مستند علاج بھی دستیاب نہیں، تاہم وٹامن ڈی کی کمی بھی اس کا ایک سبب ہے اور متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وٹامن ڈی کی اچھی مقدار اس بیماری سے بچا سکتی ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق اگرچہ وٹامن ڈی کی مناسب مقدار سے میکولر ڈجنریشن بیماری کو ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری ہوسکتی ہے۔

    علاوہ ازیں میکولر ڈجنریشن دیگر وٹامنز جن میں وٹامن ای، وٹامن اے، زنک، وٹامن سی، کوپر اور لیوٹین کی کمی سے بھی ہوسکتی ہے، تاہم وٹامن ڈی کی کمی سے اس کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

    عام طور پر وٹامن ڈی کو انسانی جسم سورج کے درجہ حرارت سے حاصل کرتا ہے لیکن اس باوجود جسم کو وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار نہیں مل پاتی، اس لیے ماہرین صحت وٹامن ڈی سے بھرپور پھل اور سبزیاں کھانے سمیت وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کھانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

    وٹامن ڈی سے بھرپور سپلیمنٹس میں ایکٹو وٹامن ڈی ہوتی ہے جو کہ اس کی کمی کو فوری طور پر مکمل کرنے میں مددگا ثابت ہوتی ہیں۔

  • جسم کیلیے وٹامن ڈی کیوں ضروری ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    جسم کیلیے وٹامن ڈی کیوں ضروری ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    سورج کی روشنی سے مفت حاصل ہونے والا وٹامن ڈی ہمارے جسم کے لیے بالخصوص ہڈیوں کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے لیکن اس کی کمی سے ہڈیاں ہی نہیں بلکہ دل کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں ایسے جینیاتی شواہد کو شناخت کیا گیا جو دل کی شریانوں کے امراض اور وٹامن ڈی کی کمی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    درحقیقت ایسے افراد میں وٹامن ڈی کی مناسب مقدار والے افراد کے مقابلے میں امراض قلب کا خطرہ دگنا سے زیادہ ہوتا ہے، عالمی سطح پر دل کی شریانوں سے جڑے امراض یا سی وی ڈی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔

    اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی دل کی صحت پر منفی کردار ادا کرتی ہے اور اس پر توجہ دے کر دل کی شریانوں کے امراض کے عالمی بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ وٹامن ڈی کی بہت زیادہ کمی کا مسئلہ بہت کم افراد کو ہوتا ہے مگر معتدل کمی کی روک تھام کرکے دل کو منفی اثرات سے بچانا بہت ضروری ہے، بالخصوص ایسے افراد جو چار دیواری سے باہر سورج کی روشنی میں زیادہ گھومتے نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہم وٹامن ڈی کو غذا بشمول مچھلی، انڈوں اور فورٹیفائیڈ غذاؤں اور مشروبات سے حاصل کرسکتے ہیں، مگر غذا وٹامن ڈی کے حصول کا زیادہ اچھا ذریعہ نہیں اور صحت بخش غذا سے بھی عموماً وٹامن ڈی کی کمی دور نہیں کی جاسکتی۔

    ان کا کہنا تھا کہ سورج کے ذریعے وٹامن ڈی کا حصول مفت اور آسان ہے اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر روزانہ سپلیمنٹ کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

  • صبح کی دھوپ کس بیماری کا بہترین علاج ہے؟ تحقیق میں اہم انکشاف

    صبح کی دھوپ کس بیماری کا بہترین علاج ہے؟ تحقیق میں اہم انکشاف

    جسم میں وٹامن ڈی کی کمی کو پورا کرنے کیلیے صبح کی دھوپ سے بہتر کوئی قدرتی ذریعہ نہیں، لیکن اس کے مزید فوائد بھی ہیں لیکن کیا آپ ان سے واقف ہیں؟

    زیرنظر مضمون میں صبح کی دھوپ اور اس کے زبردست فوائد اور اسے حاصل کرنے کے طریقوں سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے، جس پر عمل کرکے آپ صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔

    ہر شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ وٹامن ڈی ہمارے جسم کے لیے ضروری ہے اور اس وٹامن کے حصول کا بہترین ذریعہ سورج ہے اگر صبح سویرے کی پہلی دھوپ میں ٹہلا جائے تو یہ سب سے بہترین ذریعہ ہے، لیکن آج کی تیز رفتار زندگی میں لوگوں کو صبح کی دھوپ میں ٹہلنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ملتا اور یہ بات ہمارے جسم پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

    اس حوالے سے بھارتی ڈاکٹر دیویا گپتا کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی ہڈیوں کی صحت کو برقرار رکھتا ہے، وزن کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے، قوت مدافعت کو بڑھاتا ہے، اعصابی نظام کے لیے بھی کافی مفید ہے اور دماغی الجھن سے نجات دلاتا ہے۔

    جاپان کی اوساکا میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے محققین کے مطابق اس طریقہ کار کے تحت سورج کی 20 منٹ کی روشنی لینا بہتر ہے، صبح کی دھوپ لینے سے آپ خود کو الرٹ اور تازہ دم محسوس کریں گے۔

    اکثر لوگوں کو نیند پوری کرکے صبح جاگنے کے باوجود بے چینی، تھکاوٹ اور غنودگی کی کیفیت محسوس ہوتی ہے؟ ایسے میں اگر سورج کی شعاعوں کا سامنا کیا جائے تو اس سے آپ کا موڈ بھی ٹھیک ہوگا اور آپ اپنے اندر توانائی بھی محسوس کریں گے۔

    وٹامن ڈی سے ہمارے جسم کو پہنچنے والے بہت سے فوائد میں سے ایک ہماری ہڈیوں کو مضبوط بنانا بھی شامل ہے، چونکہ وٹامن ڈی ہماری آنتوں کے خلیوں میں جمع ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں اپنے کیلشیم کی مقدار کو بہتر طریقے سے جذب کرنے میں مدد دیتا ہے، جس کے نتیجے میں ہڈیاں صحت مند اور مضبوط ہوتی ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق سورج سے حاصل ہونے والا وٹامن ڈی جسم میں کیلشیم اور فاسفیٹ کے ہاضمے کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے جو کہ ہڈیوں، دانتوں اور پٹھوں کو مضبوط اور صحت مند بنانے میں مزید مدد کرتا ہے۔

     

  • برص کا علاج اب ناممکن نہیں رہا، جانیے کیسے؟

    برص کا علاج اب ناممکن نہیں رہا، جانیے کیسے؟

    برص یا پھلبہری کی بیماری کو انگریزی زبان میں ویٹیلیگو کہا جاتا ہے، پھلبہری قوت مدافعت کی بیماری ہے جس میں جسم کا مدافعتی نظام جلد میں روغن کے خلیوں پر حملہ کرتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں معروف ڈرماٹولوجسٹ ڈاکٹر کاشف نے برص کی وجوہات اور اس کے علاج کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ برص ایک جِلد کی بیماری ہے یہ بیماری لاحق ہونے کی صورت میں جِلد کی میلانن کم یا ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ میلانن ان پگمنٹس کو کہا جاتا ہے جن کی وجہ سے جلد میں رنگت پائی جاتی ہے۔

    ایک عام غلط فہمی :

    انہوں نے بتایا کہ یہ غلط فہمی بہت زیادہ عام ہے کہ یہ بیماری مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینے سے ہوتی ہے، جو سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

    ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ اس مرض کی وجہ سے پگمنٹس کی پیدائش اور افزائش رک جاتی ہے جس کی وجہ سے برص یا پھلبہری شدت اختیار کرنا شروع ہو جاتی ہے۔

    عمومی طور پر اس مرض کی ابتداء ایک چھوٹے سے سفید دھبے سے ہوتی ہے لیکن بعد میں یہ دھبے آہستہ آہستہ جسم کے کسی خاص حصے یا سارے جسم پر پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    یہ کیوں لاحق ہوتی ہے؟

    اس بیماری کی وجوہات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیوں لاحق ہوتی ہے۔

    یہ موروثی بیماریوں کی فہرست میں اس لیے شامل نہیں ہے کیوں کہ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے مریضوں کی فیملی میں پہلے کسی کو اور خاص طور پر والدین کو یہ بیماری لاحق نہیں ہوتی۔

    برص یا پھلہری کا علاج :

    انہوں نے بتایا کہ اس مرض کے علاج کیلئے وٹامن ڈی سے بھرپور غذاؤں کو خوراک میں لازمی شامل کرنا بہت ضروری ہے اور سپلیمنٹیشن ضروری ہے، بہترین ذرائع میں کوڈ لیور آئل شامل ہیں۔ مچھلی بشمول سالمن، ٹونا کچا دودھ اور انڈوں کا استعمال کریں۔

    اس کے علاوہ جلد کی مجموعی صحت کے لیے کیروٹینائڈز ضروری ہیں، بیٹا کیروٹین، لیوٹین اور لیکوپین میٹھے آلو، گاجر اور ٹماٹر جیسے ذائقے دار کھانوں میں پائے جاتے ہیں۔

    بیٹا کیروٹین کینسر مخالف خصوصیات، آنکھوں کی صحت کے ساتھ لیوٹین کینسر کے کم خطرے کے ساتھ لائکوپین سے وابستہ اور جلد کو میلانوما سمیت نقصان سے بچانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

  • وٹامن ڈی کی کمی موت سے ہمکنار کرسکتی ہے

    وٹامن ڈی کی کمی موت سے ہمکنار کرسکتی ہے

    انسانی جسم کے لیے مختلف وٹامنز کے ساتھ ساتھ وٹامن ڈی بھی بہت ضروری ہے جس کی کمی مختلف طبی مسائل کا باعث بن سکتی ہے، اب حال ہی میں ماہرین نے اس کی کمی کو جلد موت کا سبب بھی قرار دیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ وٹامن ڈی کی کمی قبل از وقت موت کا سبب بن سکتی ہے۔

    یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کی ایک نئے تحقیق کے محققین کا کہنا ہے کہ صحت مند انسان کے جسم میں وٹامن ڈی کی مناسب مقدار ہونا ضروری ہے، وٹامن ڈی کی کمی جتنی شدید ہوگی، اموات کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

    وٹامن ڈی ایک اہم غذائی جز ہے جو اچھی صحت کو برقرار رکھنے اور ہماری ہڈیوں اور پٹھوں کو مضبوط اور صحت مند رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ہمارے جسم کو صحیح طریقے سے کام کرنے کے لیے وٹامن ڈی ضروری ہے، وٹامن ڈی کی کمی کی عام علامات میں تھکاوٹ، ہڈیوں کا درد، پٹھوں کی کمزوری اور موڈ میں تبدیلی کی علامات وغیرہ ہیں۔

    وٹامن ڈی کے حصول کا سب سے عام ذریعہ سورج کی روشنی ہے جبکہ بعض غذاؤں جیسے مچھلی اور انڈے میں بھی وٹامن ڈی پایا جاتا ہے۔

    تحقیق کے مصنف جوش سدر لینڈ ا کہنا ہے کہ اگرچہ آسٹریلیا کے نوجوانوں میں وٹامن ڈی کی شدید کمی پائی جاتی ہے جو دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن یہ ان لوگوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے جو صحت مند ہیں اور غذائی ذرائع سے کافی مقدار میں وٹامن ڈی حاصل نہیں کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالعہ وٹامن ڈی کی کم سطح اور شرح اموات کے درمیان تعلق کا مضبوط ثبوت فراہم کرتا ہے۔

  • جسم میں سوزش پیدا کرنے والی اہم وجہ سامنے آگئی

    جسم میں سوزش پیدا کرنے والی اہم وجہ سامنے آگئی

    برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں وٹامن ڈی کی کمی سوزش کا سبب بن سکتی ہے، تحقیق کے لیے 2 لاکھ سے زائد افراد پر تحقیق کی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دائمی سوزش کا مسئلہ کسی بھی انسان میں وٹامن ڈی کی
    کمی کے باعث ہوسکتا ہے، تاہم اس کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔

    عام طور انفلیمیشن جسے سوزش یا سوجن بھی کہا جاتا ہے ڈپریشن، زائد العمری، خراب طرز زندگی اور ناقص خوراک سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔

    تاہم حال ہی میں ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دائمی سوزش کا مسئلہ وٹامن ڈی کی قلت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔

    برطانوی ماہرین کی جانب سے تقریباً 3 لاکھ افراد پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ خون میں سی ری ایکٹر پروٹین (سی آر پی) نامی پروٹین بڑھنے اور وٹامن ڈی کی کمی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور جن افراد میں یہ مسئلہ ہوتا ہے، وہ دائمی سوزش کا شکار بن سکتے ہیں۔

    ماہرین نے 2 لاکھ 94 ہزار سے زائد افراد کے خون کے سیمپلز لینے سمیت ان کے مختلف ٹیسٹس کیے اور ان سے طرز زندگی اور خوراک سے متعلق سوالات بھی کیے۔

    مذکورہ تمام افراد سفید فام نسل سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے زیادہ افراد کے خون میں سی آر پی کی مقدار زیادہ پائی گئی اور وہ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار تھے۔

    ماہرین کے مطابق جن افراد میں سی آر پی کی زائد مقدار اور وٹامن ڈی کی کمی نوٹ کی گئی، ان افراد نے دائمی سوزش یا سوجن کا شکار ہونے کا اعتراف بھی کیا۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ یہ طے نہیں ہے کہ سی آر پی کی زائد مقدار وٹامن ڈی کی کمی کا سبب ہے، تاہم ان کا کچھ نہ کچھ آپس میں تعلق ضرور ہے۔

    ماہرین کے مطابق دائمی سوزش یا سوجن کے شکار افراد کو وٹامن ڈی سے بھرپور غذائیں یا دوائیاں دے کر انہیں مذکورہ مسئلے سے بچایا جا سکتا ہے۔

  • وٹامن ڈی کی کمی سے ایک اور خطرہ سامنے آگیا

    وٹامن ڈی کی کمی سے ایک اور خطرہ سامنے آگیا

    جسم میں وٹامن ڈی کی کمی بہت سے مسائل پیدا کرسکتی ہے اور اس کی مناسب مقدار مختلف مسائل سے بچاتی ہے، حال ہی میں اس حوالے سے ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ وٹامن ڈی کی کمی کو دور کرنے والی سپلیمنٹس لینے سے ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ماہرین کی جانب سے 1256 افراد پر 3 سال تک کی جانے والی تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ وٹامن ڈی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سپلیمنٹس لیتے ہیں ان میں نہ صرف ذیابیطس ٹائپ 2 کے ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ ان میں انسولین کی مقدار بھی بہتر رہتی ہے۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے رضا کاروں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا، جس میں سے ایک گروپ کو ماہرین نے یومیہ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ کی انتہائی کم مقدار فراہم کی، جبکہ دوسرے گروپ کو صرف سادہ گلوکوز دیا گیا۔

    ماہرین نے تحقیق کے دوران رضا کاروں کے ہر 3 ماہ کے بعد مختلف ٹیسٹ کیے، جن میں ان کے باڈی ماس انڈیکس کے علاوہ دیگر ٹیسٹ بھی شامل تھے اور ان میں ذیابیطس کو بھی چیک کیا گیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جو افراد وٹامن ڈی کی کمی کو پورا کرنے والے سپلیمنٹس لے رہے تھے ان میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کے ہونے کے امکانات 11 فیصد کم تھے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق اگرچہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد اور وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ لینے والے افراد کے نتائج میں کوئی بہت بڑا نمایاں فرق نہیں تھا، تاہم یہ دیکھا گیا کہ سپلیمنٹ لینے والے افراد میں ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے تجویز دی کہ ذیابیطس ٹائپ 2 سے بچنے کے لیے لوگ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس لے سکتے ہیں۔

  • نئی قسم کے ٹماٹر کا کامیاب تجربہ، کب دستیاب ہوں گے؟

    نئی قسم کے ٹماٹر کا کامیاب تجربہ، کب دستیاب ہوں گے؟

    برطانوی سائنس دان ایک اہم تجربہ کر کے ٹماٹر میں کافی مقدار میں وٹامن ڈی شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے، یہ کارنامہ انھوں نے ٹماٹر کی جین ایڈیٹنگ کر کے انجام دیا ہے۔

    طبی جریدے نیچر میں شائع شدہ برطانوی ماہرین کے تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ کرسپر کاس 9 جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹماٹروں کی ساخت تبدیل کر دی گئی، اب ممکنہ طور پر ٹماٹروں کو وٹامن ڈی حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے گا۔

    کرسپر کاس 9 جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجی کے تحت ماہرین نے ٹماٹروں کے پتوں میں موجود پرو وٹامن ڈی تھری کو کولیسٹرول میں تبدیل کرنے والے بیکٹیریاز کو بلاک کیا، جس کے بعد پودا ٹماٹروں میں وٹامن ڈی تھری کو منتقل کرنے لگا۔

    سائنس دانوں نے بتایا کہ اگر پودے کے پتے پرو وٹامن ڈی تھری کو کولیسٹرول میں تبدیل کرنے کی بجائے وٹامن ڈی تھری کی صورت میں پکے ہوئے ٹماٹروں میں منتقل کرتے ہیں، تو ایک ٹماٹر میں 28 گرام مچھلی یا پھر 2 انڈوں کے برابر وٹامن ڈی آ جائے گی۔

    وٹامن ڈی کی کمی سے کیا ہوتا ہے؟

    وٹامن ڈی کی کمی جہاں ہڈیوں میں درد، مسلز کے سکڑنے، جوڑوں کے مسائل اور دانتوں میں تکلیف کا سبب بنتی ہے، وہیں اس کا تعلق بانجھ پن سمیت کینسر کے امکانات سے بھی جوڑا گیا ہے۔

    دنیا بھر میں کروڑوں لوگ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں اور لوگ اس سے بچنے کے لیے فوڈ سپلیمنٹس اور دوائیاں لیتے رہتے ہیں۔

    نئے ٹماٹروں کی پیداوار

    اس کامیاب تجربے کے بعد اب برطانوی حکومت زرعی پیداوار کے قوانین میں تبدیلیاں کر کے نئے ٹماٹروں کی پیداوار کی منظوری دے گی اور دیکھا جائے گا کہ ٹماٹروں میں وٹامن ڈی تھری منتقل ہوتی ہے یا نہیں۔

    خیال رہے کہ عام طور پر دنیا بھر میں وٹامن ڈی تھری کو سورج کی روشنی یا شعاعوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور سورج کی روشنی سے ہی ٹماٹروں کے پتے وٹامن ڈی تھری حاصل کرتے رہتے ہیں مگر جب پودے میں ٹماٹر تیار ہو جاتے ہیں تو وٹامن ڈی تھری کولیسٹرول یا دیگر بیکٹیریاز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

    مگر اب سائنس دانوں نے ٹماٹر کے پتوں میں جین ایڈیٹنگ کر کے وٹامن ڈی تھری کو اپنی صورت میں ہی ٹماٹر میں موجود رہنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

    کہا جا رہا ہے کہ اگر کاشت کے دوران ٹماٹروں میں وٹامن ڈی تھری پائی گئی تو یہ میڈیکل کی تاریخ کا سب سے انوکھا تجربہ ہوگا اور لوگ ٹماٹروں کو دوائی کے طور پر بھی استعمال کرنے لگیں گے۔

  • کرونا وائرس: وٹامن ڈی کی کمی کا شکار افراد خطرے میں

    کرونا وائرس: وٹامن ڈی کی کمی کا شکار افراد خطرے میں

    مختلف جسمانی بیماریاں اور جسم میں مختلف غذائی اجزا کی کمی کووڈ 19 کا آسان شکار بنا سکتی ہے، حال ہی میں وٹامن ڈی کی کمی کے حوالے سے نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شامل تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی کرونا وائرس کی سنگین پیچیدگیوں اور موت کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

    اس تحقیق میں وٹامن ڈی کی کمی اور کووڈ 19 کی شدت اور موت کے خطرے کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی گئی، اس مقصد کے لیے اپریل 2020 سے فروری 2021 کے دوران کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کے طبی ریکارڈز کو حاصل کیا گیا۔

    ریکارڈ میں دیکھا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے سے 2 سال قبل ان کے جسم میں وٹامن ڈی کی سطح کیا تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں کووڈ سے متاثر ہونے پر سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 14 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ وٹامن ڈی کی مناسب سطح والے مریضوں میں کووڈ سے اموات کی شرح 2.3 فیصد تھی جبکہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار گروپ میں 25.6 فیصد ریکارڈ ہوئی۔

    تحقیق میں عمر، جنس، موسم (گرمی یا سردی)، دائمی امراض کو مدنظر رکھنے پر بھی یہی نتائج سامنے آئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کووڈ کے مریضوں میں بیماری کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ بڑھانے میں کردار ادا کرتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وٹامن ڈی کی صحت مند سطح کو برقرار رکھنا کرونا وائرس کی وبا کے دوران فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے، ڈاکٹر کے مشورے پر وٹامن ڈی سپلیمنٹس کا استعمال معمول بنایا جانا چاہیئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کی وبا کے دوران مناسب مقدار میں وٹامن ڈی سے اس وبائی مرض کے خلاف زیادہ بہتر مدافعتی ردعمل کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسے شواہد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ مریض میں وٹامن ڈی کی کمی کووڈ 19 کے سنگین اثرات کی پیشگوئی ہوسکتی ہے۔

  • یہ وٹامن آپ کو امراض قلب سے بچاتا ہے

    یہ وٹامن آپ کو امراض قلب سے بچاتا ہے

    ہر سال دنیا بھر سے 9.17 ملین افراد امراض قلب کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، مگر اس اہم وٹامن سے امراض قلب کا شکار ہونے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

    صحت مند زندگی کے لیے تمام وٹامن اور منرلز سے بھرپور غذا بے حد ضروری ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی امراض قلب کا باعث بن سکتی ہے۔

    وٹامن ڈی انسانی چربی میں حل پزیر ہونے والا وٹامن ہے جو غذا کے علاوہ دھوپ سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس کی دو اقسام D3 اور D2 ہیں۔ وٹامن ڈی ہڈیوں اور دانتوں کی نشوونما کے علاوہ مدافعتی نظام کو بہتر رکھتا ہے۔

    ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر کوئی شخص امراض قلب کا شکار ہے تو علاج سے قبل اس کا وٹامن ڈی لیول جان لینا چاہیے کیوں کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 32 فیصد اموات حیران کن طور پر وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

    یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں آسٹریلین سنٹر فار پریسجن ہیلتھ کی ڈائریکٹر پروفیسر ایلینا ہائپنن نے”میڈیکل نیوز ٹوڈے” کے پیش کردہ تجزیے کے نتائج کا خاکہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی بھی شخص میں وٹامن ڈی کی کمی بلڈ پریشر اور امراض قلب کے خطرات کو بڑھا سکتی ہے۔

    تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ 25 ہائیڈروکسی وٹامن ڈی سیرم عارضہ قلب کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ محققین نے یہ تجزیاتی اور تجرباتی طریقے 37 سال سے 73 سال کی عمر کے برطانوی شہریوں پر آزمائے۔

    اس تحقیق میں وٹامن ڈی کی کمی کے نقصانات کا بھی جائزہ لیا گیا اور اسے سمجھنے کے لیے "میڈیکل نیوز ٹوڈے” نے مختلف ماہرین سے رابطہ کیا۔

    ماہرین کے مطابق دل کے امراض کے خطرات کا جائزہ لینے سے قبل جسم میں وٹامن ڈی کی درست مقدار کا معلوم ہونا ضروری ہے، لوگوں کو اپنے معالج سے رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ وہ وٹامن ڈی کی کمی کے بارے میں جان سکیں۔