Tag: vladimir putin

  • ’کوئی روسی تو ایسا ہو جو پیوٹن کو قتل کر دے‘

    ’کوئی روسی تو ایسا ہو جو پیوٹن کو قتل کر دے‘

    واشنگٹن: سینئر امریکی سینیٹر لنزی گراہم نے روسیوں سے پیوٹن کے قتل کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جمعرات کی شام ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے قریبی ساتھی رہنے والے امریکی سینیٹر لنزی گراہم نے کہا کہ روس میں کوئی تو ایسا ہو جو صدر ولادیمیر پیوٹن کو جان سے مار دے۔

    فاکس نیوز ٹی وی سے گفتگو میں لنزی گراہم کا یوکرین پر روسی حملے کے حوالے سے کہنا تھا یہ سب کیسے ختم ہوگا اب؟ روس ہی میں کسی کو آگے آنا ہوگا جو اس شخص کو منظر سے ہٹائے۔

    لنزی گراہم نے انٹرویو کے بعد اپنی ٹوئٹس میں بھی اس مؤقف کو دہرایا، انھوں نے لکھا کہ اس مسئلے کو اگر کوئی حل کر سکتا ہے تو وہ صرف روسی ہی ہیں۔ انھوں نے رومن حکمران جولیس سیزر کے قاتل کا حوالہ دیتے ہوئے استفسار کیا ‘کیا روس میں کوئی بروٹس ہے؟’

    لنزی گراہم سابقہ امریکی صدارتی امیدوار بھی ہیں، انھوں نے ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ کیا روسی فوج میں ‘کوئی زیادہ کامیاب کرنل سٹافنبرگ’ موجود ہے؟ واضح رہے کہ یہ اس جرمن افسر کی طرف اشارہ تھا جس کا بم 1944 میں ایڈولف ہٹلر کو مارنے میں ناکام ہو گیا تھا۔

    لنزی گراہم کا کہنا تھا کہ آپ یہ سب کر کے اپنے ملک اور دنیا کو عظیم خدمات فراہم کر سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ لنزی گراہم بیس سال سے زیادہ عرصے تک کانگریس میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔

  • روسی صدر ولاد میر پیوٹن کے موبائل فون پر سائبر حملہ

    روسی صدر ولاد میر پیوٹن کے موبائل فون پر سائبر حملہ

    ماسکو : روسی صدر ولاد میر پیوٹن کے موبائل فون پر سائبر حملے میں ہیکرز نے پیوٹن کی شہریوں کے ساتھ براہ راست ٹیلی فون پر گفتگو کو نشانہ بنایا، روس کی مواصلاتی کمپنی نے سائبر حملے کی تصدیق کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روسی صدر ولادمیر پیوٹن کے موبائل فون پر سائبر حملہ کیا گیا ، جس میں ہیکرز نے پیوٹن کی شہریوں کے ساتھ براہراست ٹیلی فون پر گفتگو کو نشانہ بنایا۔

    صدر پیوٹن کے ساتھ سالانہ مکالمہ کو روسی چینلز کے ذریعہ نشر کیا جاتا ہے، جس میں عام طور پر روسی صدر پورے ملک سے روسی شہریوں کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔

    اس سال چار گھنٹے تک جاری رہنے والے مکالمے میں مواصلاتی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور زیادہ پریشانی اُس وقت دیکھی گئی جب دور دراز کے علاقوں سے کالز موصول ہوئیں۔

    روس کی مواصلاتی کمپنی نے سائبر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    یاد رہے جون کے اوائل میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ پوتین کے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں سائبر سیکیورٹی ایک اہم موضوع تھا، بعد ازاں ا مریکہ کے صدر جو بائیڈن اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان جنیوا میں ملاقات ہوئی تھی ، جس کے بعد دونوں صدور نے اپنی پریس بریفنگ میں متعدد موضوعات پر گفتگو کی جس میں انسانی حقوق، جوہری ہتھیار اور سائبر سکیورٹی وغیرہ بھی شامل تھے۔

    صدر پوتن نے کہا تھا کہ روس نے امریکہ کو مبینہ سائبر حملوں کے متعلق ’تفصیلی معلومات فراہم‘ کی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ نے اب تک اس پر جواب نہیں دیا ہے۔

    روسی صدر کا کہنا تھا کہ سائبر سکیورٹی دونوں ممالک کے لیے اہم ہے اور اُنھوں نے حال ہی میں امریکہ میں ایک تیل کی پائپ لائن سسٹم اور روس میں ایک طبی نظام پر سائبر حملے کی جانب اشارہ کیا۔

  • روسی صدر پیوتن نے امریکا پر بڑا الزام عائد کردیا

    روسی صدر پیوتن نے امریکا پر بڑا الزام عائد کردیا

    ماسکو : روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ عالمی سیاست میں استحکام بہت ضروری ہے لیکن ممالک کے اندرونی معاملات میں امریکی یکطرفہ مداخلت سے عالمی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔

    پیر کو نشر ہونے والے این بی سی کے ساتھ انٹرویو کے دوران جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آیا وہ بدھ کے روز جنیوا میں اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے ملاقات کے دوران دنیا میں استحکام کے مطالبے کی حمایت کریں گے؟

    جس کے جواب میں صدر پیوتن نے کہا کہ بین الاقوامی امور میں یہ مسئلہ سب سے اہم ہے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا ہمارے امریکی شراکت داروں کی طرف سے عالمی استحکام کا قیام وہ چیز ہے جو ہم نے حالیہ برسوں میں نہیں دیکھی ہے۔

    روسی صدر نے اگزشتہ روز دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ اگرچہ واشنگٹن مسلسل بین الاقوامی ہم آہنگی کی ضرورت پر بات کرتا ہے لیکن امریکا نے حالیہ برسوں میں اس مقصد کے لئے شاید ہی کوئی مثبت کردار ادا کیا ہو۔

    این بی سی کی جانب سے انٹرویو لینے والے میزبان نے روسی صدر سے دریافت کیا کہ بائیڈن پہلے بھی روس پر بہت زیادہ عدم استحکام اور غیر متوقع صورت حال پیدا کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں، اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟

    جس کے جواب میں صدر پیوتن نے کہا کہ ماسکو بھی امریکی خارجہ پالیسی کے اثرات پر تشویش رکھتا ہے۔ روسی صدر نے حوالہ دیتے ہوئے سال 2011میں مشرق وسطیٰ کے بیشتر علاقوں میں انتشار پھیلانے سمیت لیبیا کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے پر واشنگٹن کے کردار کو بیان کیا۔

    صدر پوتن نے کہا کہ جب میں نے شامی صدر بشار الاسد کے اقتدار سے دستبردار ہونے کی صورت میں شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں امریکی عہدیداروں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے کہ اس کے بعد شام کا کیا ہوگا۔

    روسی صدر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نہیں جانتے کہ بشار الاسد کے جانے کے بعد کیا ہوگا تو ابھی وہاں شام میں جو موجودہ صدر ہے اسے آپ کیوں تبدیل کرںا چاہتے ہیں؟ روسی صدر نے کہا کہ اگر امریکا اور اس کے اتحادی اسد کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہو جاتے تو شام دوسرا لیبیا یا دوسرا افغانستان بن سکتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ روس نے 2015 میں دمشق کی درخواست کے بعد تنازعہ میں شام کی حکومت کی حمایت کی ہے۔

    روسی صدر پیوتن نے دعویٰ کیا کہ بالآخر یہ ثابت ہوگیا کہ یہ امریکہ کا یکطرفہ پن ہے اور واشنگٹن کی خواہش ہے کہ وہ دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرے جو بین الاقوامی میدان میں عالمی استحکام کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا اس طرح عالمی استحکام حاصل نہیں ہوتا. انہوں نے مزید کہا کہ جنگ و جدل یا خون ریزی کی بجائے صرف بات چیت ہی عالمی سلامتی اور امن کو یقینی بنا سکتی ہے۔

  • امریکی اور روسی صدور آمنے سامنے آگئے، شدید اختلافات

    امریکی اور روسی صدور آمنے سامنے آگئے، شدید اختلافات

    واشنگٹن : نئے امریکی صدر جوبائیڈن اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان پہلے ہی ٹیلیفونک رابطے میں مختلف امور پر شدید اختلافات سامنے آ گئے۔

    ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق ٹیلی فونک رابطے کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب سے امریکی انتخابات کے دوران روسی سائبر حملے، روس کے اپوزیشن رہنما کی گرفتاری اور انہیں زہر دینے سمیت یوکرین میں روسی جارحیت پر بات کی اور کہا کہ امریکا روسی جارحیت کے خلاف یوکرین کی حمایت کرتا ہے۔

    امریکی صدر کی پریس سیکرٹری جین پاسکی نے بتایا کہ صدر جو بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ اگر روس کی جانب سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو بھرپور طریقے سے اپنا دفاع کیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دونوں ممالک کے صدور کی جانب سے پہلے ہی ٹیلی فونک رابطے میں مختلف معاملات پر اختلافات سامنے آنے کے بعد یہ چیز تو واضح ہو گئی ہے کہ امریکا اور روس کے تعلقات میں گزشتہ دور حکومت کی طرح سرد مہری برقرار ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق صدر جو بائیڈن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو روس کے خلاف سخت ایکشن نہ لینے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ جو بائیڈن روس کے خلاف سخت رویہ رکھیں گے۔

  • روسی صدر نے ایٹمی پروگرام سے متعلق دنیا کو بڑا پیغام دے دیا

    روسی صدر نے ایٹمی پروگرام سے متعلق دنیا کو بڑا پیغام دے دیا

    ماسکو : روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی ایٹمی طاقت کو مزید مضبوط کیا جائے گا، اس میں جدت لاکر ملکی سلامتی اور تحفظ کو تقویت دیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ملک کی جوہری طاقت کو جدید اور مزید مستحکم بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش بروئے کار لائی جائے گی۔

    اپنے بیان میں ولادیمیر پوتن نے روس کے نئے جوہری پروگرام اور روسی افواج کو جدید قسم نے میزائل اور طیارے حوالے کیے جانے سے متعلق ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان دفاعی منصوبوں پر عمل کیے جانے کے نتیجے میں روس اسٹرٹیجک جوہری طاقت میں جدید ترین ہتھیاروں کا تناسب 82فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ملک کی ایٹمی طاقت ہماری دفاعی سلامتی کی بنیاد اور ضمانت ہے جو عالمی استحکام میں بھی مؤثر واقع ہوئی ہے اور اس قسم کی طاقت کے تحفظ سے نہ صرف جنگ بلکہ ہر طرح کا دباؤ ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    روس کے صدر ولادی میر پوتن نے مزید کہا کہ سرحدوں کے قریب نیٹو افواج کی موجودگی میں اضافے جیسے عوامل پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ نیٹو افواج نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پھیلاؤ کے موقع پر فوجی نقل و حرکت میں کمی کیے جانے سے متعلق روس کی تجویز پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔

    یاد رہے کہ روس کے صدر ولادی میر پوتن کو نوبل امن ایوارڈ کے لئے بھی نامزد کیا گیا ہے، اس حوالے سے روسی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ صدر پوتن کو 2021 نوبل امن ایوارڈ کے لئے روسی مصنف سرگے کومکوف کی طرف سے نامزد کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پوتن کی نامزدگی کا مراسلہ 9 ستمبر کو نوبل کمیٹی کو پیش کیا گیا اور اس کے بعد امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی کا اعلان کیا گیا۔

  • چین کے ساتھ روس کی ذہنی ہم آہنگی ہے، ولادی میر پیوٹن

    چین کے ساتھ روس کی ذہنی ہم آہنگی ہے، ولادی میر پیوٹن

    بیجنگ : روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کا کہنا ہے کہ شاندارمشترکہ مستقبل کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بیجنگ میں دوسرے ون بیلٹ اینڈ روڈ فورم 2019 کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایجنڈے پر بامعنی اور مؤثرعملدرآمد ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ لوگوں میں باہمی آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں۔

    روسی صدر نے کہا کہ دوسرے ملکوں کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کیا جانا چاہیئے۔

    ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ چین کے ساتھ روس کی ذہنی ہم آہنگی ہے، مالیاتی اور کرنسی پالیسیوں کے استحکام کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ فورم علاقائی اور عالمی ترقی کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے، شاندارمشترکہ مستقبل کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

    ولادی میر پیوٹن نے مزید کہا کہ دہشت گردی اورانتہاپسندی کے خاتمے کے لیے عالمی کوششوں کی ضرورت ہے۔

    ترقی کے لیے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا چاہتے ہیں، چینی صدر

    اس سے قبل چینی صدر نے دوسرے ون بیلٹ اینڈ روڈ فورم 2019 کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تجارت کے فروغ کے لیے آزاد تجارتی معاہدوں کی ضرورت ہے، بیلٹ اینڈ روڈ فورم تمام شریک ملکوں کو یکساں موقع فراہم کرتا ہے۔

  • اُن اور پیوٹن کا دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات قائم کرنے کا عزم

    اُن اور پیوٹن کا دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات قائم کرنے کا عزم

    پیانگ یانگ/ماسکو : شمالی کوریا کے رہنما اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے درمیان اہم ملاقات ہوئی، ملاقات کے دوران روسی صدر کا کہنا تھا کہ جزیرہ نما کوریا میں مثبت پیشرفت کی حمایت کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن ان دنوں روس کے تاریخی دورے شہر ولادیوسٹوک میں پہنچ ہیں، جہاں انہوں نے صدر ولادی میر پیوٹن سے بھی اہم ملاقات کی، ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات اورعالمی امورپرتبادلہ خیال کیا۔

    کریملن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے سربراہوں نے جوہری ہتھیاروں کے ختم یا کرنے پر گفتگو کی، لیکن کم جونگ اُن امریکا سے مذاکرات میں ناکامی کے بعد روسی حمایت کی توقع کررہے تھے۔

    روسی صدر کا کہنا تھا کہ ’شمالی کوریائی رہنما کے دورہ روس کے حوالے سے بہت پُر امید ہیں، روس باہمی دلچسپی کے ساتھ کورین پیننسولا کے معاملے کا حل نکال سکتے ہیں‘۔

    دوسری جانب کم جونگ اُن کا کہنا تھا کہ ’مجھے امید ہے کہ موجودہ ملاقات دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے حوالے خوشگوار ثابت ہوگی، ہماری دوستی طویل اور تاریخی ہے جو مزید مضبوط ہوگی‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کم جونگ ان روس کے اہم تاریخی دورے پر اپنی مسلح ٹرین کے ذریعے گزشتہ روسی شہر ولادیوسٹوک پہنچے تھے جہاں ان کا پُر تپاک استقبال کیا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ کم جانگ ان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے روس کا پہلا دورہ ہے، دونوں ملکوں کے درمیان آخری سربراہی ملاقات 8 سال قبل ہوئی تھی جب کم جانگ اُن کے والد کم جانگ اِل نے اس وقت کے روسی صدر دیمیتری میدویدیف سے ملاقات کی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ روس کے شمالی کوریا سے نسبتاً اچھے تعلقات ہیں اور ماسکو، پیانگ یانگ حکومت کو خوراک اور دیگر امداد بھی دیتا آیا ہے۔

  • شمالی کوریائی سربراہ کم جونگ تاریخی دورے پر روس پہنچ گئے

    شمالی کوریائی سربراہ کم جونگ تاریخی دورے پر روس پہنچ گئے

    پیانگ یانگ : شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان تاریخی دورے پر روس پہنچ گئے جہاں وہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے اہم ملاقات کریں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق شمالی کورین رہنما نے روس کا دورہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی دعوت پر کیا ہے، اطلاعات ہیں کہ دونوں رہنماﺅں کی ملاقات(کل) جمعرات کو ہو گی، سربراہی ملاقات کا باضابطہ اعلان روس کی طرف سے کیا گیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہناہے کہ کم جونگ ان روسی صدر اہم تاریخی دورے پر  اپنی مسلح ٹرین کے ذریعے روسی شہر ولادیوسٹوک پہنچے ہیں جہاں ان کا پُر تپاک استقبال کیا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ شمالی کوریائی رہنما آئندہ روز ولادی میر پیوٹن سے جوہری ہتھیاروں سے متعلق معاملات پر ملاقات کریں۔

    کم جونگ اُن کا کہنا ہے کہ مجھے امید ہے کہ روس کا یہ دورہ کامیاب سود مند ثابت ہوگا، ’مجھے امید ہے کہ صدر پیوٹن سے ملاقات کے دوران کورین پیننسولا پر بھی گفتگو ہوگی‘۔

    واضح رہے کہ کم جانگ ان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے روس کا پہلا دورہ ہے، دونوں ملکوں کے درمیان آخری سربراہی ملاقات 8 سال قبل ہوئی تھی جب کم جانگ اُن کے والد کم جانگ اِل نے اس وقت کے روسی صدر دیمیتری میدویدیف سے ملاقات کی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ روس کے شمالی کوریا سے نسبتاً اچھے تعلقات ہیں اور ماسکو، پیانگ یانگ حکومت کو خوراک اور دیگر امداد بھی دیتا آیا ہے۔

    روسی میڈیا نے بتایا کہ ان اور پوٹن کی ملاقات مشرقی ساحلی شہر ولادی ووستک میں ممکن ہے، یہ شہر شمالی کوریا کی سرحد سے قریب ہے۔

    یہ روسی سرزمین پر دونوں رہنماؤں کی پہلی ملاقات ہوگی، برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ ملاقات جمعرات کو ہوسکتی ہے.

    خیال رہے کہ شمالی کوریا کی کم جونگ انگ کی قیادت میں‌ اپنی پالیسیاں تبدیل کرتے ہوئے شمالی کوریا سے تعلقات استوارکیے، ساتھ ہی امریکی صدر سے بھی ملاقاتیں کیں، جن کے ذریعے برف پگھلی.

  • ڈونلڈ ٹرمپ کی روسی ہم منصب کو دورہ امریکہ کی دعوت

    ڈونلڈ ٹرمپ کی روسی ہم منصب کو دورہ امریکہ کی دعوت

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی ہم منصب ولادی میرپیوٹن کو امریکہ کے دورے کی دعوت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پراپنے پیغام میں امریکی صدر کی پریس سیکریٹری سارا سینڈرز نے تصدیق کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادی میرپیوٹن کوامریکہ کے دورے کی دعوت دی ہے۔

    سارا سینڈرز نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ اس دورے کی تیاریاں پہلے ہی سے شروع ہوگئی ہیں۔

    خیال رہے کہ 4 روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میرپیوٹن کے درمیان فن لینڈ کے شہرہیلسنکی میں ملاقات ہوئی تھی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی ہم منصب سے ملاقات کے بعد بیان جاری کیا گیا تھا کہ سنہ 2016 میں امریکا کے صدراتی انتخابات میں روس نے مداخلت نہیں تھی۔

    امریکی صدر کا یوٹرن، روس سے متعلق بیان کی تردید کردی

    امریکی صدر کے اس بیان پرانہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد انہوں نے روس کی حمایت میں دیے گئے بیان کی تردید کرتے ہوئے امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کو تسلیم کیا تھا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر یوٹرن لیتے اپنے پیغام میں کہا کہ ولادی میر پیوٹن کے ساتھ ملاقات کامیاب رہی اور وہ اگلی ملاقات کا انتظار کررہے ہیں۔

    امریکی صدرکا کہنا تھا کہ وہ پیوٹن کے ساتھ دوسری ملاقات چاہتے ہیں، تاکہ پہلی ملاقات میں طے کردہ امور پرعمل درآمد کا آغاز ہو سکے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • فیفا ورلڈ کپ کے دوران دو کروڑ سے زائد سائبر حملے ہوئے: ولادی میر پیوٹن

    فیفا ورلڈ کپ کے دوران دو کروڑ سے زائد سائبر حملے ہوئے: ولادی میر پیوٹن

    ماسکو: روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ فیفا ورلڈ کپ 2018 کے دوران روس کو دو کروڑ پانچ لاکھ سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔

    کریملن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فٹ بال عالمی کپ کی میزبانی کرتے ہوئے روس پر بے پناہ سائبر حملے کیے گئے۔

    تاہم روسی صدر نے سائبر حملوں کے پیچھے موجود ذمہ دار ممالک یا افراد کے بارے میں تفصیل بتانے سے گریز کیا، انھوں نے گزشتہ روز سیکورٹی اداروں سے ملاقات کرتے ہوئے سائبر حملوں کے بارے میں بتایا۔

    سائبر حملوں کی نوعیت کے بارے میں تفصیلات معلوم نہیں ہو سکی ہیں، خیال رہے کہ فٹ بال عالمی کپ کا انعقاد 14 جون سے 15 جولائی تک روس کے 11 شہروں کے 12 اسٹیڈیمز میں ہوا۔

    ولادی میر پیوٹن کا کہنا تھا کہ سائبر حملوں کو ناکام بنانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے ہی سے ہائی الرٹ تھے، ذمہ دار اداروں نے بر وقت آگاہی، بہترین تجزیے اور کام یاب آپریشنز کے لیے پوری طاقت کا استعمال کیا۔

    فیفا 2018: فرانس دوسری بار ورلڈ چیمپئن بن گیا، کروشیا کو شکست

    واضح رہے کہ مغربی ممالک کی طرف سے روس پر متعدد بار الزامات عائد کیے جا چکے ہیں کہ اس نے انھیں سائبر حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔

    خیال رہے کہ فیفا ورلڈ کپ 2018 کا فائنل میچ کروشیا اور فرانس کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا، اس مقابلے میں فرانس نے بیس سال بعد دوسری مرتبہ فٹ بال ورلڈ کپ جیتا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔