Tag: Vogue

  • دپیکا پڈوکون کو فلموں میں ناکامی کا ڈر کیوں تھا؟

    دپیکا پڈوکون کو فلموں میں ناکامی کا ڈر کیوں تھا؟

    معروف بالی ووڈ اداکارہ دپیکا پڈوکون کا کہنا ہے کہ کیریئر کے شروع میں انہیں ڈر تھا کہ اپنے لہجے کی وجہ سے وہ فلموں میں ناکام ہوجائیں گی۔

    حال ہی میں ایک انٹرویو میں دپیکا پڈوکون نے انکشاف کیا کہ کیریئر کے آغاز میں انہیں ان کے جنوبی بھارتی لہجے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا اور انہیں خدشہ تھا کہ انہیں ان کے بولنے کے انداز کی وجہ سے مسترد کردیا جائے گا۔

    دپیکا پڈوکون کی پیدائش اگرچہ یورپی ملک ڈنمارک میں ہوئی، تاہم ان کے والدین کا تعلق بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک سے ہے۔ ان کے والدین انڈو آرین نسل کے ہیں اور ان کا تعلق بنگلورو سے ہونے کی وجہ سے دپیکا پڈوکون کے بول چال میں بھی وہاں کا اثر ہے۔

    دپیکا نے سنہ 2007 میں انہوں نے شاہ رخ خان کے ساتھ اوم شانتی اوم سے اپنے بولی ووڈ کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

    دپیکا پڈوکون کے مطابق انہیں شک تھا کہ ان کے لہجے کی وجہ سے انہیں اہمیت نہیں دی جائے گی اور جنوبی بھارتی لہجے کی وجہ سے ان کا بالی وڈ کیریئر آگے نہیں بڑھے گا۔

    اداکارہ نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ انہوں نے فلم انڈسٹری میں کبھی صنفی تفریق کا سامنا نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے کبھی مرد و خاتون کا موازنہ کیا اور نہ اس مسئلے کو اہمیت دی۔

    اداکارہ نے ہالی ووڈ میں مختلف نسلوں اور طبقات سے تعلق رکھنے والی افراد کو کاسٹ کیے جانے کے معاملے پر بھی بات کی اور کہا کہ ابھی ہالی ووڈ میں مختلف نسل اور خطوں کے لوگوں کو کاسٹ کرنے یا انہیں مواقع دیے جانے کا معاملہ ابتدائی سطح پر ہے۔

    ان کے مطابق کسی بھی سیاہ فام یا ایشیائی شخص کو کسی ہالی ووڈ فلم میں کاسٹ کرنے یا انہیں موقع دینے کو مختلف نسل اور طبقات کے لوگوں کو اہمیت دینا نہیں کہا جا سکتا۔

  • مہاجر کیمپ میں پیدا ہونے والی مسلمان ماڈل ووگ کے سرورق پر جلوہ گر

    مہاجر کیمپ میں پیدا ہونے والی مسلمان ماڈل ووگ کے سرورق پر جلوہ گر

    افریقہ کے مہاجر کیمپ میں پیدا ہونے والی حلیمہ عالمی فیشن میگزین ووگ کے سرورق کی زینت بن گئیں، وہ ووگ کے سرورق پر جلوہ گر چند باحجاب ماڈلز میں سے ایک ہیں۔

    حلیمہ عدن کینیا کے ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئیں، ان کے خاندان کا تعلق صومالیہ سے تھا جو سنہ 1992 میں ملک میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران اس وقت ہجرت پر مجبور ہوا جب فسادات کے دوران ان کا گھر جلا دیا گیا۔

    حلیمہ اسی پناہ گزین کیمپ بستی میں پلی بڑھیں جہاں 2 لاکھ کے قریب افراد کیمپوں میں رہائش پذیر تھے۔

    حلیمہ کے بچپن میں ہی اس کے والدین کسی طرح امریکا میں داخل ہوگئے اور امریکی ریاست منی سوٹا میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرلیا۔ یہاں سے حلیمہ نے اپنی شناخت کا سفر شروع کیا اور سنہ 2016 میں وہ مس منی سوٹا مقابلے کی پہلی امیدوار بنیں جس نے حجاب اور برکنی کے ساتھ تمام ایونٹس میں حصہ لیا۔

    بعد ازاں حلیمہ نے ماڈلنگ شروع کردی، ماڈلنگ کے دوران بھی انہوں نے اپنی شناخت یعنی حجاب نہیں چھوڑا اور جلد ہی وہ اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔

    وہ بتاتی ہیں کہ جب 2016 میں انہوں نے پہلی بار برکنی کے ساتھ مقابلہ حسن کے لیے ریمپ پر واک کی تو امریکیوں کو تو اعتراض ہوا ہی، لیکن ان کی اپنی افریقی کمیونٹی نے بھی سخت ناراضگی کا اظہار کیا جن کا کہنا تھا کہ مسلمان لڑکیوں کو ماڈلنگ نہیں کرنی چاہیئے۔

    لیکن حلیمہ اپنی دھن کی پکی نکلیں، وہ تنقید کو ذرا بھی خاطر میں نہ لائیں اور اپنا سفر جاری رکھا۔ آج وہ دنیا بھر میں مختلف فیشن شوز میں حجاب کے ساتھ ماڈلنگ کرتی ہیں۔

    حلیمہ کہتی ہیں کہ انہیں دوہری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ایک تو وہ سیاہ فام تھیں، پھر مسلمان بھی تھیں۔ ’لیکن میں اپنی ہم عمر لڑکیوں کے لیے ایک مثال بننا چاہتی تھی کہ وہ کچھ بھی کرسکتی ہیں‘۔

    وہ بتاتی ہیں کہ مہاجر کیمپ میں رہتے ہوئے وہ زندگی کی ناپائیداری کو کسی دوسرے انسان کی نسبت زیادہ سمجھ سکتی ہیں، ’آپ سے کبھی بھی کچھ بھی چھن سکتا ہے، آپ کا گھر، آپ کے پیارے یا آپ کی کوئی بھی عزیز شے۔ صرف وہی آپ کے ساتھ رہے گا جو آپ نے سیکھا اور سمجھا‘۔

    حلیمہ کہتی ہیں کہ کینیا کا یہ مہاجر کیمپ ان کا فخر ہے، کیونکہ آج وہ جو بھی ہیں اسی کیمپ کی وجہ سے ہیں۔

    وہ لوگوں کو پیغام دیتی ہیں، ’یہ آپ کی ذمہ داری ہے اور پہلی ترجیح ہونی چاہیئے، کہ آپ اپنا بیسٹ ورژن دنیا کے سامنے پیش کریں‘۔

  • فیشن میگزین ’ووگ‘نے امریکی صدرکی اہلیہ کو’نا اہل‘ قراردے دیا

    فیشن میگزین ’ووگ‘نے امریکی صدرکی اہلیہ کو’نا اہل‘ قراردے دیا

    نیویارک:امریکی خاتون اول اور سابق ماڈل میلانیا ٹرمپ یوں تو آئے دن عالمی اخبارات، جرائد اور میگزین کی توجہ کا مرکز رہتی ہیں اور ان کی تصاویر سرورق پر بھی شائع ہوتی ہیں۔لیکن وائٹ ہاؤس میں آئے ہوئے 2 سال گزر جانے کے باوجود وہ شہرہ آفاق فیشن میگزین ’ووگ‘ کے سرورق کی زینت نہیں بنیں۔

    نشریاتی ادارے ’فاکس نیوز‘ کے مطابق حال ہی میں ووگ کی ایڈیٹر ان چیف 69 سالہ اینا وانتور کی جانب سے دیے گئے انٹرویو کے بعد میلانیا ٹرمپ اور ووگ کی ایڈیٹر ان چیف کے درمیان سرد جنگ شروع ہوئی۔اینا وانتور نے دراصل امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی صحافی کرسٹین امانپور کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ان سیاسی خواتین کو ہی ’ووگ‘ کے سرورق کی زینت بناتی ہیں جن کا کوئی اہم کردار ہوتا ہے۔

    اگرچہ ماضی میں میلانیا ٹرمپ 2005 میں ’ووگ‘ کے سرورق کی زینت بن چکی ہیں، تاہم امریکی صدر کی اہلیہ ہونے کے ناتے اب تک ’ووگ‘ میں ان کی تصاویر سرورق پر شائع نہ ہونے پر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں۔

    سی این این کی صحافی نے ووگ کی ایڈیٹر ان چیف سے سوال کیا تھا کہ وہ سیاسی خواتین اور سماجی رہنماوں کو فیشن میگزین کے سرورق کی زینت کیوں بناتی ہیں؟صحافی کے سوال پر اینا وانتور کا کہنا تھا کہ اگر آپ کا سوال سابق امریکی خاتون اول مشعل اوباما اور ہلیری کلنٹن کو سرروق کی زینت بنائے جانے پر ہے تو میں واضح کردوں کہ انہوں نے متعدد مسائل پر اہم کردار ادا کیا۔

    اینا وانتور کا کہنا تھا کہ مشعل اوباما اور ہلیری کلنٹن سمیت سینیٹر کمالا ہارس کو فیشن میگزین کے سرورق کی زینت اس لیے بنایا گیا تھا کیوں کہ انہوں نے خواتین کے مسائل سمیت دیگر اہم معاملات میں اپنا کردار ادا کیا اور ایک مثال قائم کی۔

    فیشن میگزین کی ایڈیٹر کے مطابق عالمی سیاسی رہنما اور سماجی کارکنان دنیا بھر کی خواتین کے لیے رول ماڈل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ووگ کے سرورق کی زینت بنایا جاتا ہے۔ساتھ ہی اینا وانتور نے کہا تھا کہ میلانیا ٹرمپ کو اس لیے اب تک ووگ کے سرورق کی زینت نہیں بنایا گیا، کیوں کہ انہوں نے کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا اور وہ فیشن میگزین کی اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔

  • معروف میگزین نے امریکی صحافی کی تصویر پاکستانی اداکارہ کے نام سے شائع کردی

    معروف میگزین نے امریکی صحافی کی تصویر پاکستانی اداکارہ کے نام سے شائع کردی

    واشنگٹن : معروف امریکی جریدے نے فروری کے میگزین میں مسلمان امریکی صحافی نور التاجوری کی تصویر پاکستانی اداکارہ کے نام سے شائع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں مقیم 24 سالہ مسلم صحافی نور التاجوری کی تصویر امریکا کے معروف فیشن میگزین ’ووگ‘ نے شائع کی لیکن تفصیلات میں پاکستانی اداکارہ نور بخاری تحریر کردیں۔

    مسلم صحافی نور التاجوری کا کہنا ہے کہ میں ووگ میگزین میں اپنی تصویر شائع ہونے پر بہت خوش اور پُرجوش تھی لیکن اپنی تصویر پر پاکستانی نور بخاری کا نام دیکھا تو حیران رہ گئی۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر مسلم صحافی نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں نور التاجوری کو میگزین کے صفحے پلٹتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور جیسے ان کی تصویر سامنے آتی ہے نور صحافی کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔

    View this post on Instagram

    I’m SO heartbroken and devastated. Like my heart actually hurts. I’ve been waiting to make this announcement for MONTHS. One of my DREAMS of being featured in American @VogueMagazine came true!! We finally found the issue in JFK airport. I hadn’t seen the photo or the text. Adam wanted to film my reaction to seeing this for the first time. But, as you can see in the video, I was misidentified as a Pakistani actress named Noor Bukhari. My name is Noor Tagouri, I’m a journalist, activist, and speaker. I have been misrepresented and misidentified MULTIPLE times in media publications – to the point of putting my life in danger. I never, EVER expected this from a publication I respect SO much and have read since I was a child. Misrepresentation and misidentification is a constant problem if you are Muslim in America. And as much as I work to fight this, there are moments like this where I feel defeated.

    A post shared by Noor Tagouri نور التاجوري (@noor) on

    نور التاجوری اپنی تصویر دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’بے ہوش نہ ہوجاؤ‘ تاہم جیسے ہی انہوں نے میگزین میں‌ اپنی تصویر سے متعلق غلط معلومات دیکھی تو کہا ’یہ کیا مذاق ہے‘۔

    نور التاجوری نے کہا ’میں بہت دنوں سے اس لمحے کا انتظار کررہی تھی، ووگ میں تصویر شائع ہونا میرا خواب تھا جو پورا ہوا لیکن میرا نام نور التاجوری ہے، نور بخاری نہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ میگزین میں غلط معلومات شائع ہونے کے معاملے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھرپور حمایت کی جارہے ہے۔

    مسلم صحافی کا کہنا تھا کہ امریکا میں مسلم کمیونٹی کی غلط شناخت ایک بڑا مسئلہ ہے، میڈیا اس سے قبل بھی مجھ سے متعلق غلط معلومات فراہم کرچکا ہے، جس کے باعث میری زندگی کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔’

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکی میڈیا گزشتہ برس اورلینڈ میں واقع نائٹ کلب فائرنگ کرنے والے دہشت گرد کی اہلیہ کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

    دوسری جانب میگزین کا کہنا ہے کہ ووگ کو نور التاجوری کی غلط معلومات فراہم کرنے پر افسوس ہے، ہم مستقبل میں اپنا کام مزید سنجیدگی سے کریں، نور التاجوری کی تصویر پر نور بخاری کی معلومات شائع کرنے پر معذرت خواہ ہیں۔