Tag: wajid zia

  • واجد ضیاء نے آئی جی ریلوے پولیس کا چارج سنبھال لیا

    واجد ضیاء نے آئی جی ریلوے پولیس کا چارج سنبھال لیا

    اسلام آباد : پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے انسپکٹرجنرل ریلوے پولیس کا چارج سنبھال لیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے آئی جی ریلوے پولیس کا چارج سنبھالا تو ڈی آئی جی آپریشنز شارق جمال خان نے انہیں ریلوے پولیس کے مختلف امور پر بریفنگ دی۔

    اس موقع پر آئی جی ریلوے پولیس واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ریلوے پولیس کی بہتری کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کروں گا۔

    پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء آئی جی ریلوے تعینات


    یاد رہے کہ 19 دسمبر کو پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والے واجد ضیاء کو آئی جی ریلوے پولیس تعینات کیا گیا تھا۔

    اسٹیبلشمنٹ ڈویژن احکامات کے مطابق گریڈ 21 کے افسر واجد ضیاء کو آئی جی پاکستان ریلوے پولیس تعینات اور سابق آئی جی ریلوے مجیب الرحمان کو فوری طور پراسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    واجد ضیاء اس سے قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے میں فرائض انجام دے رہے تھے۔

  • العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی

    العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کی۔

    خواجہ حارث نے سماعت کے دوران سوال کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے آڈٹ بیورو کے کسی حکام سے رابطے کی کوشش کی؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ آلڈرآڈٹ رپورٹ ان اسٹیٹمنٹ کی بنیاد پر ہے جن کا آڈٹ بیورونے نہیں کیا۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ حسین نواز سے متعلق آڈٹ رپورٹ مالی سال 2010 سے 2014 تک کی ہے، جس شخص نے رپورٹ تیارکی اس کا نام اوردیگرتفصیل رپورٹ میں درج ہے۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کب آپریشنل ہوئی جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ ریکارڈ دیکھ کرجواب دے سکتا ہوں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جواب دینے کے لیے سی ایم اے اورحسین نوازکا بیان دیکھنا پڑے گا۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں متفرق درخواست جمع کرائی گئی تھی جس کے مطابق اایچ ایم ای 2006 کے آغازمیں قائم ہوئی۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش کے مطابق ایچ ایم ای کب قائم ہوئی؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی نے اس حوالے سے ایم ایل اے لکھا تھا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ الدار آڈٹ رپورٹ ایچ ایم ای کے 15-2010 کے اکاؤنٹس پرمبنی ہے، ایچ ایم ای کے آڈیٹڈ اکاؤنٹس کی تفصیلات مانگنا ضروری نہیں سمجھا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ سعودی حکام کو31 مئی 2017 کوصرف ایک ایم ایل اے لکھا گیا جس کا جواب نہیں ملا۔

    خواجہ حارث اورپراسیکیوٹر نیب کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    عدالت میں سماعت کے دوران خواجہ حارث نے کہا کہ جرح کر رہا ہوں دونوں پراسیکیوٹرز آپس میں بات نہ کریں، آپ دوران جرح بات مت کریں، اس سے میں ڈسٹرب ہوتا ہوں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجھے عدالت کہے تومیں نہیں پوچھوں گا، آپ ڈکٹیٹ نہ کریں، عدالت نے نیب پراسکیوٹر کو دوران جرح بات نہ کرنے کی ہدایت کردی۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ علم میں ہے کمپنیز آرڈیننس 1984 کو 2017 کمپنیز ایکٹ نے تبدیل کیا؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ نہیں میرے علم میں نہیں ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ علم میں ہے پارٹنر شپ ایکٹ 1969 چل رہا ہے؟ جس پرجے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ جی یہ میں جانتا ہوں۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ پتہ ہے کمپنیز ایکٹ کمپنی کواورپارٹنر شپ ایکٹ پارٹنرشپ کوڈیل کرتا ہے؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ میں ایکسپرٹ نہیں ہوں۔

    پراسیکیوٹر نیب نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پارٹنرشپ ایکٹ 1969 نہیں 1932 ہے ٹھیک کرلیں جس پر نوازشریف کے وکیل آپے سے باہر ہوگئے اور اپنے معاون وکیل کو جھاڑ پلا دی۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ وہ آپ کو پاگل بنا رہے ہیں اور آپ پاگل بن رہے ہیں۔

    بعد ازاں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، خواجہ حارث کل بھی واجد ضیا پر جرح جاری رکھیں گے۔

    نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

    احتساب عدالت میں گزشتہ سماعت پر سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے اعتراض ریکارڈ کرائے تھے۔

    عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی گئی تھی۔

    نوازشریف کےخلاف ریفرنسزکی سماعت 6 ہفتوں میں مکمل کرنےکا حکم

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتساب عدالت کو نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزاورفلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید 6 ہفتے کی مہلت دی تھی۔

  • شریف خاندان کےخلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت 9 جولائی تک ملتوی

    شریف خاندان کےخلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت 9 جولائی تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت 9 جولائی تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی رخصت کے باعث ملک ارشد نے کیس کی سماعت کی۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرسابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جج محمد بشیرکی موجودگی میں جرح آگے بڑھانا چاہتے ہیں جس پرمعزز جج نے ریمارکس دیے کہ اعتراض نہیں، گواہ موجود ہے چاہیں توآج جرح کرلیں۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ ایک کیس کا فیصلہ آنے والاہے صورت حال تبدیل ہوجائے گی۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت 9 جولائی تک ملتوی کردی۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ روز واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ 13 مئی 2017 کو قطری شہزادے حماد بن جاسم کو پہلا خط لکھا اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کو کہا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ قطری شہزادے کو کہا گیا تھا کہ وہ متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ آکر اپنے خط کی تصدیق کریں۔

    نوازشریف کے وکیل نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ آپ نے دستاویزات کا ذکر نہیں کہ کون سی دستاویزات لائیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے متعلقہ ریکارڈ کا لفظ استعمال کیا۔

    خیال رہے کہ احتساب عدالت نے 29 جون کو شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو 3 جولائی کو طلب کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں واجد ضیاء کا بیان قلمبند

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں واجد ضیاء کا بیان قلمبند

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تکل ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا بیان قلمبند کرلیا گیا جس پرجرح کل کی جائے گی۔

    واجد ضیاء نےعدالت کو بتایا کہ ملزمان کوفنانشل اسٹیٹمنٹ اوردیگردستاویزات فراہم کرنے کا کہا، ہل میٹل سے متعلق مانگا گیا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ حسین نوازاورہل میٹل کی بھیجی گئی رقوم پرمبنی ٹیبل تیارکیا، 8.9 ملین ڈالرحسین نوازاورہل میٹل میں 2010 سے 2015 میں بھیجے گئے، یہ رقم نوازشریف کوبھیجی گئی۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ 88 فیصد منافع حسین نوازنے اس عرصہ میں نوازشریف کوبھجوایا، بطور تحفہ بھیجی گئی رقم منافع اورنقصان سے مطابقت نہیں رکھتی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ 2015 میں کمپنی کو1.5ملین ڈالرکا نقصان ہوا، 1.5ملین ڈالرکے نقصان کے باوجود2.1 ملین نوازشریف کوبھیجے گئے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ حسن نوازنے بیان میں کہا 2015میں 8 لاکھ پاؤنڈ حسین نوازسے لیے، اس وقت کمپنی خسارے میں تھی، جےآئی ٹی اس نتیجہ پرپہنچی 8 فیصد منافع نوازشریف کوگیا۔

    دوسری جانب احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں ملزمان کے بیان قلمبند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، بعدازاں عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ روز سابق وزیراعظم نوازشریف کےاکاؤنٹ کی ٹرانزکشنزکا اصل ریکارڈ اور جاری چیکس کی تفصیلات نجی بینک منیجرنورین شہزادی نے عدالت میں پیش کیں تھی۔

    العزیزیہ ریفرنس: مریم نواز، حسن، حسین نےجعلی دستاویزات جمع کرائے‘ واجد ضیاء

    دوسری جانب جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ شواہد کے مطابق مریم، حسن، حسین نے جعلی دستاویزات جمع کرائے، لندن فلیٹس کی خریداری و دیگر کاروبارکی دستاویزات جعلی نکلیں۔

    شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کی مدت سماعت میں توسیع

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے 9 مئی کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو ایک ماہ کا وقت دیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے نوازشریف اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد احتساب عدالت کوٹرائل مکمل کرنے کی تاریخ میں 9 جون تک کی توسیع کردی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • العزیزیہ ریفرنس: اگراعتراض ہمارا حق نہیں توپھر یہاں رہنےکا بھی ہمیں حق نہیں‘ خواجہ حارث

    العزیزیہ ریفرنس: اگراعتراض ہمارا حق نہیں توپھر یہاں رہنےکا بھی ہمیں حق نہیں‘ خواجہ حارث

    اسلام آباد: احتساب عدالت نے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت پیرتک ملتوی کردی ۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف احتساب عدالت میں موجود ہیں جبکہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا بیان آج بھی ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

    واجد ضیاء نے احتساب عدالت میں نواز شریف کے مریم نواز  نام جاری کردہ  بینک چیکوں کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ 14 اگست 2016 کونواز شریف نے ایک کروڑ95 لاکھ کاچیک دیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ 13جون 2015 کو نواز شریف نے مریم نوازکو 12ملین کا چیک دیا جبکہ 3 نومبر 2015 کونواز شریف نے مریم کو 2کروڑ88لاکھ کا چیک دیا۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یکم نومبر 2015 کو نواز شریف نے مریم نواز کو 65 لاکھ کا چیک دیا، 10مئی 2015 کو نواز شریف نے مریم کو10کروڑ50 لاکھ کا چیک دیا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ 21نومبر 2015 کو نواز شریف نے مریم نواز کو 18 لاکھ کا چیک دیا، 28جون 2015 کونواز شریف نے 3 کروڑ41 لاکھ 30ہزار625 کا چیک دیا۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ 15 مارچ 2015 کو نواز شریف نے مریم کوایک کروڑ 30 لاکھ کا چیک دیا جبکہ 6 فروری 2015 کو نواز شریف نے 6 کروڑ80 لاکھ کا چیک دیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ 4 ستمبر 2015 کو نواز شریف نے مریم نواز کو2 کروڑ 29 لاکھ کا چیک دیا، 21 مئی 2015 کو نواز شریف نے مریم نواز کو 20 لاکھ کا چیک دیا۔

    شریف خاندان کی ٹرانزیکشن کا چارٹ احتساب عدالت میں پیش کرتے ہوئے واجد ضیاء نے کہا کہ شریف فیملی نے 50 کروڑ،44 لاکھ 30ہزار625 روپے منتقل کیے، شریف فیملی نے یہ رقم ایک دوسرے کومنتقل کی۔

    جے آئی ٹی سربراہ کے بیان پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے سوالات کیے جس پرنیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جو میٹیریل آیا، جن پر تفتیش ہوئی، وہ ہم جمع نہ کرائیں؟۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ ہم یہ جمع نہ کرائیں، جن چیزوں پر ریفرنس بنا وہ چیزیں تو جمع ہوں گی، دولائن کا بیان آتا ہے تو چھ لائن کا اعتراض آجاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم آج بیان مکمل کر سکتے ہیں لیکن یہ ہونے نہیں دے رہے، ایک فقرے پر یہ 10لائن کا اعتراض کرتے ہیں، یہ ہمارا بیان خراب کرتے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آپ بیان نہ ریکارڈ کرائیں بس ان کا اعتراض لکھ لیں، یہ جرح کے اندر سب کچھ پوچھ سکتے ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ اسی لیے کہا تھا کہ واجد ضیاء کا بیان ایک ہی دفعہ کرلیں، اس دفعہ یہ سوچ کر آئے ہیں کہ ہم نے یہ کرنا ہے، اعتراض کرنا ہمارا حق ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ اگراعتراض ہمارا حق نہیں تو پھر یہاں رہنے کا بھی ہمیں حق نہیں ہے، میری ذمہ داری ہے اعتراض اٹھاوں گا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ یہ جیسے لکھوا رہے ہیں، حسن، حسین، مریم تینوں ملزم لگ رہے ہیں، واضح کرنا چاہتا کون ملزم ہے کون نہیں اور کون گواہ ہے۔

    سابق وزیراعظم وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اس ریفرنس میں مریم نواز نہ ملزم ہے نہ گواہ، بس میرا یہ اعتراض ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کیا ہم ان کی مرضی کا بیان کرائیں، یہ کہتے ہیں لمبا بیان نہ کرائیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ میاں شریف نے 1974میں گلف اسٹیل مل قائم کی، 1978 میں75 فیصد شیئرز مسٹر ایلی کوفروخت کا فیصلہ کیا گیا، شیئرزکی فروخت کا مقصد بینک قرض کی ادائیگی تھا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ ایلی اسٹیل مل میں25 فیصد شیئرزطارق شفیع کے نام رہے جبکہ 1980 میں25 فیصد شیئرزایلی کو فروخت کیے گئے، 25 فیصدشیئرز12ملین میں فروخت ہوئے۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ 12ملین درہم سے قطری شاہی خاندان کےساتھ سرمایہ کاری کی گئی، بتایا گیا 2006 میں لندن فلیٹس کی ملکیت منتقل ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کا جےآئی ٹی نے بیان قلمبند کیا اوران کے بیان میں تضاد اورسنگین غلطیوں کی نشاندہی کی جبکہ طارق شفیع گلف اسٹیل کے قرض کی دستاویزات پیش نہ کرسکے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ طارق شفیع وضاحت کرنے میں بھی ناکام رہے اور وہ نہیں بتاسکے دوسرے شراکت دار محمد حسین کا کیا کردارتھا۔

    استغاثہ کے گواہ نے عدالت کو بتایا کہ طارق شفیع ایلی سے ملنے والی رقم کے جمع کرانے کی رسید نہ دے سکے، فہد بن جاسم کوکیش رقم کے طارق شفیع کے بیان میں تضاد ہے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ طارق شفیع کی طرف سے فہدبن جاسم کو دی گئی رقم کا جائزہ لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ فہد بن جاسم نے 12ملین درہم کی رقم وصول نہیں کی۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ متفرق درخواست کےساتھ طارق شفیع کا بیان حلفی جمع کرایا جو ان کمپنیزکی فروخت اورقائم کرنے کوواضح کرتا ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے عدالت کو بتایا کہ طارق شفیع کو12ملین کی رقم 6 اقساط میں ملی تھی جبکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کس ذرائع سے یہ رقم ملی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ حسن حسین نوازنے طارق شفیع کا ایک اوربیان حلفی جمع کرایا، دوسرے بیان حلفی میں طارق شفیع نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 12 ملین کیش ملے۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ طارق شفیع نے 12 ملین 6 اقساط میں فہد بن جاسم کودیے۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت پیرکی صبح ساڑھے9 بجے تک ملتوی کردی

    احتساب عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔


    خواجہ حارث اورنیب پراسیکیوٹرکے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ہرفقرے پراعتراض نہ اٹھائیں، ہم بھی جواب دیں گے بیان بہت لمبا ہوجائے گا، اپنا اعتراض لکھ لیں بعد میں اس پربحث کرلیں، درست ہو یاغلط آپ نے ہربات پراعتراض کرنا ہے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میری قانونی ذمہ داری ہے کہ اعتراض بنتا ہےتو اٹھاؤں جس پرنیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اس طرح سے بیان ریکارڈ نہیں ہوسکتا۔


    شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کی مدت سماعت میں توسیع

    یاد رہے کہ دو روز قبل سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو ایک ماہ کا وقت دیا تھا۔

    عدالت عظمیٰ نے نوازشریف اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد احتساب عدالت کوٹرائل مکمل کرنے کی تاریخ میں 9 جون تک کی توسیع کردی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • احتساب عدالت نےالعزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

    احتساب عدالت نےالعزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

    اسلام آباد : مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا بیان قلمبند کیا گیا۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے بتایا کہ 20اپریل کوایڈیشنل ڈائریکٹرایف آئی اے کے طورپرکام کررہا تھا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ سنایا، عدالت عظمیٰ نے گلف اسٹیل کے قیام، فروخت، واجبات سے متعلق سوالات پوچھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ سرمایہ قطرسے کیسے برطانیہ، سعودی عرب گیا؟ یہ بھی سوال شامل تھا، سپریم کورٹ نے پوچھا قطری شہزادے حماد بن جاسم کا خط افسانہ تھا یا حقیقت اور حسین نوازکی جانب سے والد کوکروڑوں کے تحائف سے متعلق سوال کیے گئے۔

    واجد ضیاء نے نے عدالت کو بتایا کہ یہ وہ سوال ہیں جن سے متعلق تفتیش کرنی تھی جبکہ لندن فلیٹس سے متعلق بھی سوالات پوچھے گئے، برطانیہ میں کمپنی کا سوال پوچھا گیا جوریفرنس سے متعلق نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تفتیش کرنی تھی نوازشریف اثاثوں کے مالک ہیں یا بےنامی دار، جےآئی ٹی کو60 دنوں میں حتمی رپورٹ کی ہدایات دی گئیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ عدالتی حکم پرجے آئی ٹی کے ناموں کوحتمی شکل دی گئی، مجھے جےآئی ٹی سربراہ اور دیگر5 افراد کوبطورممبرشامل کیا، 10جولائی2017 کوجے آئی ٹی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی۔


    خواجہ حارث اورنیب پراسیکیوٹرکے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہرفقرے پراعتراض نہ اٹھائیں، ہم بھی جواب دیں گے بیان بہت لمبا ہوجائے گا، اپنا اعتراض لکھ لیں بعد میں اس پربحث کرلیں، درست ہو یاغلط آپ نے ہربات پراعتراض کرنا ہے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میری قانونی ذمہ داری ہے اعتراض بنتا ہے تو اٹھاؤں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اس طرح سے بیان ریکارڈ نہیں ہوسکتا۔

    واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ جےآئی ٹی نے یواے ای اورسعودی عرب کوایم ایل ایزبھجوائے، صرف یواے ای نے ایم ایل ایزکا جواب دیا جبکہ سعودی عرب سے ایم ایل ایزکا کوئی جواب نہیں آیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جمع درخواستوں کے تجزیے سے کام شروع کیا، درخواست گزارکی درخواست اورملزمان کی متفرق درخواستوں کا جائزہ لیا۔

    انہوں نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے ایف بی آر، ایس ای سی پی سے ریکارڈ جمع کیا، جےآئی ٹی نے متعلقہ افراد کے بیانات بھی قلمبند کیے، طارق شفیع، نوازشریف، شہبازشریف، حسن اورحسین نوازکے بیانات قلمبند کیے۔

    واجد ضیاء نے عدالت میں الدارآڈٹ بیورورپورٹ کی کاپی پیش کرتے ہوئے کہا کہ آڈٹ بیورو کی رپورٹ 2010 سے 2014 تک ہے جبکہ رپورٹ کی کاپی سی ایم اے 432 کے ساتھ منسلک ہے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ کاپیاں گواہ نے خود تیارنہیں کیں، واجد ضیاء نے کہا کہ حسین نوازکی طرف سے رپورٹ 2010 سے 2015 تک کی تھی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نوازاس عدالت میں پیش ہی نہیں ہوئے، استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسین نوازسے منسوب بیان اس عدالت میں قابل قبول شہادت نہیں ہے، حسین نوازکی فراہم کردہ کاپی والیم 6 میں شامل ہے۔

    کیویوای ہولڈنگ لمیٹڈ کی تصدیق شدہ کاپیاں مارچ 2008کی اسٹیٹمنٹ اور13 مئی 2017 کوسیکرٹری خارجہ کولکھا گیا خط عدالت میں پیش کیا گیا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اصل خط نہیں پیش کیا گیا، یہ کاپی ہے، واجد ضیاء نے جواب دیا کہ 15مئی 2017 کوخط سے بتایا گیا آپ کا خط پہنچا دیا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ وزارت خارجہ کے افسرآفاق احمد نے خط پہنچ جانے کا بتایا، آفاق احمد نےعدالت میں اس سے متعلق بیان نہیں دیا، سیکرٹری خارجہ سے خط کی باقاعدہ ڈیلیوری رپورٹ مانگی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ 18مئی 2017 کوآفاق احمد نے مجھے دوسراخط بھیجا، 18مئی کے خط کی تصدیق شدہ کاپی پیش کردی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ آفاق احمد گواہ کے طورپرپیش ہوئے خط کا ذکرنہیں کیا جبکہ پیش کی گئی کاپی سے یہ واضح نہیں ہوتا یہ آفس کاپی ہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ 24 مئی 2017 کو ہی سیکرٹری خارجہ کو بھی خط لکھا جبکہ 30 مئی 2017 کے خط کی کاپی پہلے پیش کرچکا ہوں۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران قطری شہزادے کا11جون 2017 اور 26 جون 2017 کا خط عدالتی ریکارڈ کاحصہ بنا دیا گیا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ کوریئرسروس کا اصل لفافہ بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، 6 جولائی2017 کا قطری شہزادے کا خط عدالتی ریکارڈ کاحصہ بنا دیا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے کہا کہ 4 جولائی کا خط رپورٹ کا حصہ نہیں مگراصل موجود ہے۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور مسلم لیگ ن کے قائد کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔


    شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کی مدت سماعت میں توسیع

    خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو ایک ماہ کا وقت دیا تھا۔

    عدالت عظمیٰ نے نوازشریف اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد احتساب عدالت کوٹرائل مکمل کرنے کی تاریخ میں 9 جون تک کی توسیع کردی تھی۔

    یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 8 مئی کو ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو 10 مئی کو العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈریفرنس ،مریم نواز کے وکیل امجدپرویز کی واجدضیا پر جرح کل بھی جاری رہے گی

    ایون فیلڈریفرنس ،مریم نواز کے وکیل امجدپرویز کی واجدضیا پر جرح کل بھی جاری رہے گی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں ایون فیلڈریفرنس میں مریم نواز کے وکیل امجدپرویز کی واجدضیا پر جرح کل بھی جاری رہے گی، سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی، سابق وزیراعظم نوازشریف اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

    مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر جرح دوران جرح واجد ضیاء اور امجد پرویز کے درمیان مکالمہ ہوا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ 5 مئی 2017 کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کسی بھی متعلقہ شخص کو بلاسکتی ہے، جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ تصدیق کے لیے جے آئی ٹی کو نہیں کہا، واجد ضیاء نے کہا کہ ایک سوال خاص طور پر سپریم کورٹ نے اٹھایا نیلسن اور نیسکول کا اصل بینیفشل مالک کون ہے۔

    واجدضیا نے پوچھا کہ آپ کون سی ٹرسٹ ڈیڈ کےبارےمیں پوچھ رہےہیں، مریم صفدرکی ٹرسٹ ڈیڈ یا سی ایم اے کے ساتھ والی ٹرسٹ ڈیڈ، جس پر امجد پرویز نے کہا آپ کی مرضی جس کےبارےمیں بھی بتادیں، واجدضیا کا کہنا تھا کہ آپ مجھ سے ایک ایک کرکے سوال پوچھیں تاکہ وضاحت ہو،آپ لکھوادیں مریم نوازکی طرف سے ٹرسٹ ڈیڈجمع کرائی گئی۔

    مریم نواز کے امجد پرویز نے کہا کیوں لکھواؤں ٹرسٹ ڈیڈمریم نوازکی طرف سےجمع کرائی گئی، جس واجد ضیا کا کہنا تھا بدقسمتی سے یہ ٹرسٹ ڈیڈاصلی نہیں ہے، واضح کریں آپ کون سی ٹرسٹ ڈیڈ کاپوچھ رہےہیں، 2فروری کی ٹرسٹ ڈیڈپرمریم نوازکےدستخط موجودہیں، ٹرسٹ ڈیڈ پر کیپٹن(ر) صفدر ، حسین نواز، وقاراحمداورجرمی فری مین کے دستخط بھی ہیں۔

    واجدضیا کا کہنا تھا کہ مریم نواز،کیپٹن(ر)صفدر،جرمی فری مین کوتحقیقات میں شامل کیا، جرمی فری مین کوکوئس سلیسٹرکےذریعےتحقیقات میں شامل کیاگیا، جس پر  امجد پرویز  نے سوال کیا کہ مریم اور صفدر نے بتایا 2فروری2006کو ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کیے؟

    گواہ واجد ضیا نے کہا کہ مریم نوازکی حدتک یہ بات درست ہےانہوں نےبیان میں بتایاتھا، کیپٹن(ر)صفدرکےبیان سےمتعلق دستاویزدیکھ کرجواب دوں گا۔

    دوران سماعت پرویز رشید اور مشاہدحسین سید روسٹرم کے قریب کھڑےہوگئے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کیا کہ کسی ٹرائل میں ایسا نہیں ہوتا وزیر کھڑے ہو کرکمنٹ کرتے رہیں۔

    ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ دیتے ہوئے احتساب عدالت نےنواز شریف اورمریم نواز کو جانے کی اجازت دےدی۔

    سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو امجد پرویز نے واجد ضیاء سے پوچھاآپ کے سامنے جو لوگ پیش ہوئے سب نے ٹرسٹ ڈیڈ پر اپنے دستخط کی تصدیق کی جس پر واجد ضیا نے جواب دیا، مریم نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے کہا انہوں نے دو فروری دو ہزار چھ کو ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کئے، کیپٹن ر صفدر کو دستخط کرنے کی تاریخ یاد نہیں تھی، کیپٹن ر صفدر نے یہ ضرور کہا کہ سال دوہزار چھ تھا، جب دستخط کئے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ کیپٹن ر صفدر نے جے آئی ٹی کو بیان میں بتایا کہ ٹرسٹ ڈیڈ 2006میں قائم کی گئی تاہم تاریخ یاد نہیں، جے آئی ٹی نے کیپٹن ر صفدر کو ٹرسٹ ڈیڈ دکھائی تھی، کیپٹن ر صفدر نے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی کو بطور ٹرو کاپی تصدیق کی، کیپٹن ر صفدر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کن جائیدادوں سے متعلق ہے، کیپٹن ر صفدر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کن جائیدادوں سے متعلق ہے۔

    گواہ واجد ضیا نے مزید بتایا کہ کیپٹن ر صفدر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ مریم نواز نے جے آئی ٹی کو دو ٹرسٹ ڈیڈ پیش کیں ایک ٹرسٹ ڈیڈ نیلسن اور نیسکول اور دوسری کومبر سے متعلق تھی، ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں مریم صفدر نے کلیم کیا کہ یہ اوریجنل ہے کیا۔

    امجدپرویز نے سوال کیا کہ آپ نے مریم صفدر سے کنفرنٹ کرایا کہ یہ اوریجنل نہیں نوٹرائزڈ کاپی ہے، جس پر واجد ضیا نے کہا کہ مریم نواز سے ٹرسٹ ڈیڈ کے اصل ہونے سے متعلق پوچھا تھا کہ مریم نواز نے پیش کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ کے اصلی ہونے کی تصدیق کی جے آئی ٹی نے مریم نواز کا 161 کا بیان قلمبند کیا۔ جے آئی ٹی نے طلبی کے سمن پر مریم نواز کو اصل دستاویزات لانے کا کہا تھا کہ مریم نواز نے جے آئی ٹی کے سمن پر پیش ہونے کے بعد یہ ڈیڈ پیش کی مریم نواز کے بیان اور جے آئی ٹی کے بیان پر تبصرے میں لفظ ری کنفرم نہیں لکھا۔

    واجد ضیا نے بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ نہیں لکھا کہ مریم صفدر کو ٹرسٹ ڈیڈ پر کنفرنٹ کرایا، جے آئی ٹی کو رابرٹ ریڈلے کی پہلی رپورٹ واٹس ایپ پر 4 جولائی 2017کو موصول ہوئی۔ مریم نواز کو 5جولائی 2017کو پیشی کے دوران ریڈلے کی رپورٹ پر کنفرنٹ نہیں کرایا، ریڈلے کی رپورٹ پر کنفرنٹ نہ کرانے کی وجہ مریم نواز کی پیش کی گئی۔ ڈیڈز کی ساخت مختلف ہونا تھی کوئسٹ سالیسٹر کو ٹرسٹ ڈیڈ کی واضح کیم اسکین کاپیاں بھجوائی گئیں۔

    گواہ نے مزید کہا کہ فرانزک تجزیے کے لیے کوئسٹ سالیسٹر نے ڈیڈز ریڈلے کو بھجوائیں۔ ریڈلے کی رپورٹ پر کمنٹ نہیں کرسکتا یہ بات درست نہیں کہ رابرٹ ریڈلے فونٹ آئیڈنٹیفکیشن ایکسپرٹ نہیں تھے، جے آئی ٹی نے خدمات لینے سے پہلے رابرٹ ریڈلے کی سی وی دیکھی تھی مریم نواز سے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی وصول کرنے کے بعد ٹیزر میمو تیارنہیں کیا۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ میرے حوالے کی اس کے بعد مریم نواز کا انٹرویو شروع کیا گیا، ٹرسٹ ڈیڈ بھجوانے کے لیے اسپیشل کوریئر استعمال کیا گیا، ٹرسٹ ڈیڈ بھجوانے کے لیے برگیڈیئر ر نعمان کی خدمات لی تھیں، یہ معلوم نہیں کہ ٹرسٹ ڈیڈ کا پارسل لندن کون لے کر گیا تھا، جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ لندن پہنچانے والے کا بیان قلمبد نہیں کیا۔

    امجد پرویز نے سوال میں پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ رابرٹ ریڈلے نے اپنی رپورٹ کے ساتھ کا پیمانہ بھی مقرر کیا، جس پر واجد ضیاء نے جواب دیارابرٹ ریڈلے کی دوسری رپورٹ 3 ذرائع سے ملی 8جولائی کو واٹس ایپ، 9 جولائی کو ای میل، دس جولائی کو ہارڈ کاپی ملی کوئسٹ سولسٹر نے ای میل کے زریع بھجوائی، ہارڈ کاپی پاکستان ہائی کمیشن کے زریع آئی ہائی کمیشن سے رپورٹ پاکستان لانے کیلئے برگیڈیئر نعمان نے مدد کی۔

    گواہ نے بتایا یہ بات ہم نے رپورٹ میں نہیں لکھی صرف یہ بتایا کے رپورٹ ملی ہے، جتنی باتیں آپ پوچھ رہے ہیں ہم لکھتے تو سو والیم بنتے بریگیڈئیر نعمان جے آئی ٹی ممبر تھے، اس لیئے بیان ریکارڈ نہیں کیا، برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سٹاف نے رابرٹ ریڈلے رپورٹ کی ہارڈ کاپی وصول کی۔ جس شخص نے رپورٹ وصول کی اسکا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔

    واجد ضیا نے عدالت میں مذید بتایا کہ چین آف کسٹڈی سے متعلقہ افراد کے جے آئی ٹی نے بیان نہیں لئے، چین آف کسٹڈی والی بات جے آئی ٹی نے رپورٹ میں درج نہیں کی، سپریم کورٹ میں ریڈلے رپورٹ کی ای میل والی رپورٹ جمع کرائی۔

    امجد پرویز نے پوچھاجے آئی ٹی نے لکھا کہ ہم ای میل والی رپورٹ لگا رہےہیں اور اصل دستاویزات 10 جولائی سے 22جولائی تک کس کے قبضے میں تھیں ؟ جس پر واجد ضیا نے بتایاہم نے لکھا تھا ہم رپورٹ لگا رہے ہیں رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ موصول ہونے کا ذکر ڈائری میں درج نہیں کیا۔ دوسری رپورٹ موصول ہونے تک والیم چار کی بائنڈنگ ہو چُکے تھی۔ فرانزک رپورٹ سپریم کورٹ میں بھی جمع کرائی جے آئی ٹی رپورٹ کے ساتھ اصل دستاویزات نہیں دیں۔ صرف کاپیاں لگائیں یہ دستاویزات جے آئی ٹی کے ایک لاکر میں رکھے گئے۔

    مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے گواہ واجد ضیاء سے مزید پوچھا فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی جے آئی ٹی نے کب خالی کی؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا، جولائی کے آخر میں اکیڈمی خالی کی گئی، جے آئی ٹی کے لاکر میں دستاویزات رکھی گئیں چابیوں کا ایک سیٹ تھا، جو میرے پاس تھا۔ 22 جولائی کو تمام دستاویزات جو سپریم کورٹ کے قبضے میں چلی گئیں، اصل دستاویزات رجسٹرار آفس میں جمع کرائی گئیں، ڈپٹی رجسٹرار نے وصولی کے دستخط کیئے جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ جمع ہونے تک کس ایم ایل اے جواب وصول نہیں ہواتھا۔

    امجد پرویز نے پوچھا کیا کہ رابرٹ کو جے آئی ٹی براہ راست خدمات حاصل نہیں کر سکتی تھیں، واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ رابرٹ ریڈلے کی براہ راست خدمات حاصل کی جاسکتی تھیں۔ وقت کا مسئلہ تھا، دائرہ اختیار سے متعلق علم نہیں تھا۔

    امجد پرویز نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی دفتر خارجہ کے زریع بھی رابرٹ ریڈلے کی خدمات لے سکتی تھی، یہ ممکن تو ہو سکتا تھا مگر وہی وقت کا مسئلہ تھا، بہت زیادہ وقت لگ سکتا تھا۔

    واجد ضیاء نے عدالت میں مزید بتایا کہ کوئسٹ سولسٹر راجہ اختر میرے کزن ہیں کوئسٹ سولسٹر نے جے آئی ٹی کی ہدایت جیریمی فری مین باکس کو ای میل بھیجی۔

    امجد پرویز نے نے عدالت میں کہا کہ نیب پراسیکیوٹر گواہ کے منہ میں میرا سوال ڈال رہے، راجہ اختر کو کتنی رقم دی گئی، واجد نے جس پر جواب دیا کہ راجہ اختر کی سی وی اور پروفائل قبضہ میں نہیں لیں اور نہ ہی جے آئی ٹی رپورٹ کے ساتھ منسلک کی، اینٹیلی جنس کے دو لوگوں نے راجہ اختر کی مکمل چھان بین کی۔

    عدالت نےایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی کل بھی امجد پرویز جرح جاری رکھیں گے۔

    اس سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مسلسل 10 روز کے دوران جرح مکمل کی جب کہ واجد ضیاء نے 6 سماعتوں کے دوران اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔

    یاد رہے کہ نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ضمنی ریفرنس میں اہم انکشافات سامنے آئے تھے، جن کے مطابق نواز شریف ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے اصل ملک ہیں جبکہ نواز شریف نے اپنے بچوں کے نام پر جائیدادیں خریدی اور مریم، حسین نے جے آئی ٹی کے سامنے جعلی دستاویزات پیش کیں۔

    خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر ایوان فیلڈ، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز میں پہلے ہی فرد جرم عائد ہوچکی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • واجد ضیاء کوکہنا پڑا نوازشریف کی تنخواہ کےبارےمیں ثبوت نہیں‘ نوازشریف

    واجد ضیاء کوکہنا پڑا نوازشریف کی تنخواہ کےبارےمیں ثبوت نہیں‘ نوازشریف

    اسلام آباد : مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کا کہنا ہے کہ حقائق چھپانے کی بھرپورکوشش کی گئی مگروکیل نے پکڑلیے، جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کوکہنا پڑا نوازشریف کی تنخواہ کے بارے میں ثبوت نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ یہ کیس فراڈ ہے صرف نوازشریف سے انتقام لینے کا مقدمہ ہے۔

    نوازشریف کا کہنا تھا کہ واجد ضیاء کے بیان سے چیزیں نکلیں، ایک طرح سے ہمیں سرٹیفیکیٹ دیا گیا، جس بات پرسپریم کورٹ نے نااہل کیا اس کا ثبوت ہی نہیں ہے، ہم تو یہ کہتے ہیں یہ کیس ہے کیا جس میں اب تک کچھ ظاہر نہیں ہوا۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کا کہنا تھا کہ واٹس ایپ پرجے آئی ٹی کے 6 ہیرے تلاش کیے گئے تھے جبکہ جے آئی ٹی کے 3 ممبران ہمارے سیاسی مخالفین میں سے ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ میں کوئی پاکستان کےمخالف کام تونہیں کررہا تھا، جے آئی ٹی میں انٹیلی جنس اداروں کو کیوں شامل کیا گیا تھا۔

    نوازشریف کا کہنا تھا کہ لندن میں تحقیقات کے لیے فرسٹ کزن سے سہارا لیا گیا، لندن میں تحقیقاتی فرم کوپیسے قومی خزانے سے دیے گئے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کا کہنا تھا کہ واجد ضیاء صاحب لندن میں فرم کو پیسے دیے اس کا حساب دینا ہوگا، جے آئی ٹی سربراہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قوانین کی پابندی نہیں کی گئی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ چن چن کرلوگ لائے گئے ان سے بھی جواب پوچھے جائیں گے، ہمارے خلاف جان بوجھ کرحقائق چھپائے گئے۔

    اڈیالہ جیل میں صفائیاں ہورہی ہیں، انہیں کیسے پتہ چلا کوئی آرہا ہے‘ نوازشریف

    خیال رہے کہ اس سے قبل احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سےغیررسمی گفتگو کرتے ہوئے نوازشریف کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اڈیالہ جیل میں صفائیاں ہورہی ہیں، کیا اڈیالہ والوں کو پہلے ہی پتہ چل گیا کہ کوئی آرہا ہے؟۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: خواجہ حارث کی کیس کی تمام کارروائی ریکارڈ کرنےکی استدعا

    ایون فیلڈ ریفرنس: خواجہ حارث کی کیس کی تمام کارروائی ریکارڈ کرنےکی استدعا

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کی۔

    خواجہ حارچ نے کہا کہ 1978 میں گلف اسٹیل کے 75 فیصد شیئرز فروخت ہوئے، گلف اسٹیل کا نام حالی اسٹیل مل ہوا، کیا آپ نے اپنی تفتیش میں یہ چیزیں تصدیق کی تھیں؟۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں اس کا جواب دے دیا تھا، جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم یاد نہیں لیکن جواب اس میں درج تھا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا آپ نے معاہدے کے مندرجات کی تصدیق کی تھی یا نہیں؟ جس پر استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ فراہم دستاویزات کےعلاوہ تفتیش میں اس بات کی تصدیق نہیں کی۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا تفتیش کی کہ گلف اسٹیل مل قائم بھی ہوئی تھی یا نہیں؟ جس پر احتساب عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ سوال پوچھا جا چکا ہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ صرف دستاویزات کی حد تک جے آئی ٹی نے تفتیش کی تھی، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ تفتیش کی تھی 1978 سے 1980تک گلف اسٹیل کی بزنس ٹرانزیکشن ہوئی؟۔

    واجد ضیاء نے جواب دیا کہ طارق شفیع سے پوچھا تھا لیکن ایسی کوئی چیزسامنے نہیں آئی، دبئی اتھارٹیزکو ایم ایل اے سے متعلق لکھا تھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔

    خواجہ حارث کی کیس کی تمام کارروائی ریکارڈ کرنے کی استدعا

    سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کیس کی تمام کارروائی ریکارڈ کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کیس نہیں چلتا، واجد ضیاء پہلے کچھ کہتے ہیں بعد میں تبدیلیاں کردیتے ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیاء صاحب آپ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہربات ریکارڈ کاحصہ بنانا چاہتے ہیں تا کہ پتہ چلے کون کیا کہہ رہا ہے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ والیم 3 کے صفحہ 70 پرلگی گلف اسٹیل سے متعلق دستاویزات دیکھ لیں، یہ گلف اسٹیل کےقیام، لائسنس اور نقشے کی تصدیق سے متعلق ہے۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ان دستاویزات کی تصدیق کرائی؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ ہم نے ان کاغذات کی تصدیق نہیں کرائی بلکہ صحیح تصور کیا، فراہم دستاویزات نوٹرائزڈ اور دبئی وزارت خارجہ سے مصدقہ تھیں۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ صفحہ 88 پرلائسنس، سائٹ پلان اورنقشے کی کاپی موجود ہے، کیا آپ نے ان کو تصدیق کرایا تھا، استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ نہیں، ان کی تصدیق نہیں کرائی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ لائسنس کے تحت حالی اسٹیل کے دبئی میں عبداللہ اورپاکستان میں طارق شفیع مالک تھے، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا لائسنس کا مقصد لوہے اوراسٹیل کی پیدواراسکریپ سے کرنا تھی؟۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ دستاویزات کے مطابق یہ بات درست ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ والیم3 کے صفحے73 پرآپ نے دستاویز لگائی ہے جو بظاہر ادھوری ہے۔

    واجد ضیاء نے جواب دیا کہ نہیں یہ بات درست نہیں ہے، نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ اب اسی والیم کے صفحہ 82 پر آجائیں، کیا یہ درست ہے نامکمل صفحہ 73 کا بقیہ صفحہ 82 پرموجود ہے؟۔

    استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ یہ درست ہے کہ صفحہ 73 کابقیہ صفحہ 82 پرموجود ہے۔

    عدالت میں وقفے کے اختتام کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ کبھی نوازشریف نے کہا کہ وہ گلف اسٹیل مل کے کاروبار میں شریک رہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ انہوں نے ایسا کبھی نہیں کہا اور نہ ہی کسی اور گواہ نے یہ بات کہی ہے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ خواجہ حارظ گواہ کو کنفیوز کررہے ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ وہ واجد ضیاء کوکنفیوز نہیں کررہے بلکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ہی کنیفیوزڈ ہے۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پر مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ نیب پراسیکیوٹر جنرل اور خواجہ حارث کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے گزشتہ سماعت پر سوال کیا تھا کہ جے آئی ٹی والیم میں کتنی دستاویزات پرسپریم کورٹ کی مہرہے جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا تھا کہ ہمارے پاس کوئی ایسی دستاویزات نہیں جن پرسپریم کورٹ کی مہرہو۔

    اثاثےاثاثے کررہے ہیں، کرپشن کا الزام لگایا ہے توثابت کریں‘ نوازشریف

    یاد رہے کہ 30 مارچ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کا کہنا تھا کہ ضمنی ریفرنس بنانے کی کیا ضرورت تھی جب 3 ماہ میں کچھ نہیں نکلا، سزا دینا مقصود ہے تو میرا نام این ایل سی، ای او بی آئی میں ڈال لیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس : شریف خاندان کے خلاف سماعت 2 اپریل تک ملتوی

    ایون فیلڈ ریفرنس : شریف خاندان کے خلاف سماعت 2 اپریل تک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیرتک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء پرجرح کی۔

    خواجہ حارث کی واجد ضیاء پرجرح

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ جیری فری مین کو جے آئی ٹی نے متفقہ رائے سے سوال نامہ بھیجا تھا جس پر خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا جےآئی ٹی نے سوالنامہ بھیجنے کا فیصلہ اتفاق رائے سے کیا تھا؟۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جیری فری مین کوسوالنامہ بھیجنے پرجے آئی ٹی میں اتفاق رائے تھا، جیری فری مین سے خط وکتابت جے آئی ٹی نے براہ راست نہیں کی، خط وکتابت کے لیے برطانیہ میں سولیسٹرکی خدمات حاصل کی گئیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ مشترکہ فیصلہ کیا جیری فری مین سے براہ راست خط وکتابت نہیں ہوگی، جیری فری مین نے تصدیق کی حسن نواز نے 2 ٹرسٹ ڈیڈ پردستخط کیے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ تصدیق کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ پر2جنوری 2006 کودستخط کیے گئے، جیری فری مین اس ٹرسٹ ڈیڈ پردستخط کے گواہ ہیں، ٹرسٹ ڈیڈ کومبرکمپنی نیلسن اورنیسکول سے متعلق تھی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ دونوں ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں جیری فری مین کےآفس میں ہیں جس پر نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ آپ نے جیری فری مین کولکھا ثبوت پاکستان لائیں، بیان دیں؟۔

    جے آئی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جیری فری مین کو پاکستان آنے کا نہیں کہا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق گلف اسٹیل دبئی میں کب قائم ہوئی، تفتیش، دستاویزات کی روشنی میں گلف اسٹیل 1978 میں بنی، 1978 کے شیئرزسیل کنٹریکٹ دیکھ لیں کیا ان کی تصدیق کرائی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ گلف اسٹیل کے کنٹریکٹ کی تصدیق نہیں کرائی جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے تصدیق نہیں کرائی توکیا مندرجات کو درست مانا جائے۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے کہا کہ جےآئی ٹی نے گلف اسٹیل کے کنٹریکٹ کو درست تسلیم کی جس پر نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ 14اپریل 1980 کوحالی اسٹیل بنی مالک سے رابطہ کیا۔

    واجد ضیاء نے جواب دیا کہ گلف اسٹیل کے بعد حالی اسٹیل بنی لیکن کوئی رابطہ نہیں کیا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا اسٹیل مل کے معاہدے کے گواہ عبدالوہاب سے رابطہ کیا؟۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ نہیں گواہ عبدالوہاب سے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا، گواہ نمبر2 محمد اکرم سے رابطہ کیا لیکن وہ اس پتے پرموجود نہیں تھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ 1980کے معاہدے کے مطابق25 فیصد رقم کیش کی صورت میں وصول کی گئی، 1980 کے معاہدے کو پاکستانی قونصلرمنصورحسین نے نوٹرائزکیا تھا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا آپ نے سفارت خانے کے قونصلرمنصورحسین سے رابطہ کیا تھا؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ نہیں منصورحسین سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ رقم ادا کرنے والےعبداللہ سے ادائیگی سے متعلق بھی رابطہ نہیں کیا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ 1978 میں75 فیصد شیئرزکی رقم کتنی تھی؟۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ 75 فیصد شیئرزکی رقم 21 ملین درہم تھی، عبدالرحمان کے گلف اسٹیل خریداری، رقم ادائیگی کے بیان کاعلم نہیں ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی والیم میں کتنی دستاویزات پرسپریم کورٹ کی مہرہے جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ ہمارے پاس کوئی ایسی دستاویزات نہیں جن پرسپریم کورٹ کی مہرہو۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اسکریپ مشینری دبئی سے جدہ بھیجنے والاخط آپ نے دیکھا؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جی جے آئی ٹی نے وہ خط دیکھا تھا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جےآئی ٹی کے والیم3 میں ایک خط بھی ساتھ لگایا گیا ہے، اس خط کے مطابق اسکریپ دبئی نہیں بلکہ شارجہ سے جدہ گیا، جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ یہ بات درست ہے اسکریپ شارجہ سے جدہ گیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ خط کے مطابق وہ اسکریپ نہیں بلکہ استعمال شدہ مشینری تھی جس پرواجد ضیاء نے جواب دیا کہ یہ درست ہے اسکریپ نہیں بلکہ وہ استعمال شدہ مشینری تھی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل نے سوال کیا کہ جےآئی ٹی نے دبئی اتھارٹی کوایم ایل اے بھیجا اسکریپ کا کوئی ریکارڈ ہے؟ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جےآئی ٹی کی جانب سے ایسا کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا گیا۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیرکی صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

    قطری شہزادے کوسوالنامہ بھیجنےپرجےآئی ٹی ممبران میں اتفاق نہ تھا‘ واجد ضیاء

    خیال رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران سابق وزیراعظم کے وکیل نے سوال کیا تھا کہ آپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا کہ گواہ کوسوالنامہ نہیں بھجوانا جس پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی گواہ کوایڈوانس سوالنامہ نہیں بھیجا۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کوئی قانون بتا دیں جوایڈوانس میں سوالنامہ بھیجنے سے منع کرتا ہو جس پراستغاثہ کے گواہ نے جواب دیا تھا کہ کوئی قانون ایڈوانس میں سوالنامہ بھیجنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا تھا کہ آپ نے کبھی کسی ہائی پروفائل کیس کی تفتیش کی جس پرواجد ضیاء نے جواب دیا تھا کہ بینظیرقتل کیس، غداری کیس، وارکرائم ٹریبونل میں تفتیشی افسررہا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ آپ نے29 سال کی سروس میں پولیس رول1861 پڑھے جس پر جے آئی سربراہ نے جواب دیا تھا کہ کوئی رول ایڈوانس سوالنامہ بھیجنے کی اجازت دیتا ہے نہ روکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔