Tag: war against terror

  • دنیا کے 180 ممالک میں دولاکھ سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں

    دنیا کے 180 ممالک میں دولاکھ سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں

    وانشگٹن:ٹرمپ انتظامیہ نے کانگریس کو دی گئی خفیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے‘امریکا کے دو لاکھ سے زائد فوجی اس وقت دنیا کے 180 ممالک میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا میں عالمی قوانین کی پاسداری پر سب سے زیادہ زور دینے والا ملک امریکہ خود کسی بھی ملک کے سرحدی قوانین کو خاطر میں نہیں لاتا ہے۔

    حال ہی میں برطانیہ میں سابق روسی جاسوس کے قتل کے بعد امریکا نے روس پر عالمی قوانین کی خلاف کا الزام عائد کیا تھا اوراس بات پرزور دیا تھا کہ یقینی بنایا جائے کہ روس آئندہ کسی بھی ملک کے سرحدی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔  دوسری جانب امریکا خود کتنے ہی ممالک کے سرحدی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔

    اکتوبر 2017 میں نائیجریا میں ایک حملے دوران 4 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے، ہلاک ہونے والے امریکی فوجی افریقی ملک مالی کی سرحد پرہونے والی ایک کارروائی میں شامل تھے۔

    نائیجریا میں امریکی فوجیوں کا مارا جانا امریکا کے لیے کسی بڑے جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ اس بات کا شاید ہی کسی کو علم ہو کہ امریکا نائیجریا میں بھی آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔

    دنیا کے سب سے طاقتور سمجھے جانے والے ملک امریکا کے 180ممالک میں 2لاکھ سے زائد فوجی مختلف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ تاہم، ان میں سے صرف سات ممالک ایسے ہیں جہاں امریکی فوجی کسی نہ کسی حوالے سے فعال کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

    صومالیہ

    سن 1993 کے تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد بھی امریکا کے 300 سے زائد فوجی صومالیہ میں سرگرم شدت پسند تنظیم الشباب کے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس وقت الشباب کے سربراہ محمد فرح عیدید کو پکڑنے کے لیے آپریشن کررہے ہیں۔

    صومالیہ

    امریکا کو آپریشن کے آغاز میں ہی واضح ہوگیا تھا کہ صومالیہ میں فوجی آپریشن مشکلات کا شکار ہوگا۔ اس مہم کے دوران اب تک18 امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔

    افغانستان

    امریکا سن2001 میں تباہ ہونے والا ورلڈ ٹریڈ ٹاور

    امریکا نے افغانستان میں 11 ستمبر سن 2001 میں ورلڈ ٹرید ٹاور پر ہونے والے حملوں کو بہانہ بنا کر افغان سرزمین پرالقائدہ، طالبان اور دیگر جنگجؤ گروہوں کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے اپنے فوجیوں کو بیھجا تھا۔

    افغانستان

    امریکا کو افغانستان میں طالبان، القائدہ، اور حقانی نیٹ ورک کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکا کو افغانستان میں طویل جنگ لڑنا پڑی جو ابھی تک جاری ہے۔ افغانستان میں اس بھی 13،329 امریکی فوجی موجود ہیں۔

    شام

    شام

    عراق کے بعد شام کی سرزمین کو امریکا نے اپنی کارروائی کے لیے منتخب کیا اور سن 2017 میں امریکا کی زیر قیادت بین الاقوامی فورسز نے انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کی غرض سے شام پرحملہ کیا تھا جوآج بھی جاری ہے شام میں 1500 سے زائد امریکی فوجی آج بھی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔

    عراق

    امریکا نے کیمیائی ہتیھاروں کو جوازبنا کرعراقی حکومت کے خلاف حملوں جنگ شروع کی تھی صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد امریکا نے داعش کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

    عراق

    سرزمین عراق امریکی جنگ کے بعد سے عدم استحکام کا شکار ہے اوراب دولت اسلامیہ کو ملک بھرمیں تشدد کا سبب کہا جاتا ہے۔ عراق میں تاحال امن وامان کی صورت حال خراب ہے اورامریکی فوجی بڑی تعداد میں وہاں موجود ہیں۔

    یمن

    کانگریس کو بیجھی گئی ڈونلڈ ٹرمپ کی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یمن جنگ میں حوثی باغیوں کے خلاف امریکی فوجی موجود ہیں سعودی عرب کی قیادت میں جاری آپریشن میں فورسز کو مدد فراہم کررہے ہیں۔

    یمن

     

    یہ مدد صرف فوجی سطح پر نہیں بلکہ انٹیلی جنس کی معلومات فراہم کرنے کی سطح پر بھی ہے۔

    لیبیا

    لیبیا

    لیبیا میں سابق صدر کرنل معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے بد امنی پھیلی ہوئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کانگریس کو بھیجی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی فوجی لیبیا میں نام نہاد تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف برسرپیکار ہے۔ البتہ یہاں امریکی فوجیوں کی تعاد کم ہے۔

    نائیجریا

    افریقی ملک نائیجریا میں امریکا کے تقریباً 500 فوجی سرگرم ہیں جو اکتوبرسن 2017 میں میں چار امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دولت اسلامیہ کے خلاف مہم میں حصّہ لینے نائیجریا آئے تھے۔

    نائیجریا

    امریکا میں ان فوجیوں کی اموات کے بارے میں بھی بحث بھی جاری ہے۔ مغربی افریقی ملک نائیجر میں امریکی فوجیوں کی موجودگی بہت سے لوگوں کے لیے ایک نئی بات تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیےسوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • دہشتگردی کے بعد امن کی جانب گامزن پاکستان معجزے سے کم نہیں، برطانوی اخبار

    دہشتگردی کے بعد امن کی جانب گامزن پاکستان معجزے سے کم نہیں، برطانوی اخبار

    لندن : برطانیہ کے اخبار نے اعتراف کیا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیت چکا ہے ، میں پاک فوج کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے امن کی بحالی کو معجزہ قراردیا ہے۔

    برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ پاک فوج نے دنیا کے خطرناک علاقوں سے دہشتگردوں کا نکال دیا ہے، پاک فوج کی کامیاب کارروائیوں نے ثابت کیا کہ دہشتگردی کوشکست دی جاسکتی ہے، بڑے پیمانے پردہشتگردی کے بعد امن کی جانب گامزن پاکستان معجزے سے کم نہیں۔

    رپورٹ کے مطابق شکست خوردہ دہشتگرد پاکستانی عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں، نائن الیون کے بعدشمالی وزیرستان القاعدہ اورکالعدم طالبان کا گڑھ تھا لیکن پاک فوج کی کارروائیوں میں بہت سے دہشتگرد ہلاک اور فرار ہوچکے ہیں جبکہ وانا چھوڑ کر جانے والے شہری اب اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔

    برطانوی اخبار نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ ایک وقت میں مغربی ایجنسیاں پاکستان کے ٹوٹنے کی پیشگوئی کرتی تھیں لیکن پاکستان نے ثابت کر دیا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے اور یہ ایک معجزہ ہے۔

    پاک فوج کی کامیابی کی مثال دیتے ہوئے اخبار نے کہا کہ چند سال قبل کراچی خطرناک شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر تھا لیکن اب بتیسویں نمبر پر آگیا ہے۔

    رپورٹ میں شمالی وزیرستان  سے متعلق کہا گیا ہے کہ کسی زمانے میں برطانیہ، امریکا اور دنیا کے مختلف حصوں میں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کے مرکز تباہ اور دہشت گرد مارے جاچکے ہیں، میران شاہ سے دہشت گرد نکل کر افغانستان فرارہوچکے ہیں۔

    برطانوی اخبار کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج نے بھاری قیمت چکائی ہیں، شمالی وزیرستان کا علاقہ ایک عشرے سے زائد عرصے تک عالمی دہشت گردی کا اہم مرکز رہا ہے، امریکا اور برطانیہ کی افغانستان میں یلغار کے بعد اس پہاڑی علاقے کی محفوظ بیس سے طا لبا ن اور القاعدہ جنگجوؤں نے دنیا بھر میں حملے کیے ہیں جن میں زیادہ تر حملوں کا نشانہ برطانیہ رہا۔

     

  • ستمبر 11 کی جنگ اپنے آخری دور میں داخل ہوگئی

    ستمبر 11 کی جنگ اپنے آخری دور میں داخل ہوگئی

    نائن الیون سے قبل انسانی تاریخ کو قبل ازمسیح اور بعد از مسیح میں تقسیم کیا جاتا تھا لیکن سانحہ نائن الیون ایک ایسا واقعہ تھا جس نے انسانی تاریخ کو ایک نیا موڑدیا اوردنیا کو جنگوں کی ایک نئی آگ میں جھونک دیا، آج اس واقعے کو 14 سال بیت چکے ہیں لیکن ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی راکھ میں دبی چنگاریاں آج بھی اس دنیا کو تپش دے رہی ہیں۔

    ستمبر 9، 2001 ایک ایسا دن تھا کہ جب امریکا میں موجود دنیا کی بلند ترین عمارت سےاغوا کئے گئے دو طیارے ٹکرادئیے گئے جس کے سبب تین ہزارافراد سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

    جب صبح آٹھ بج کرچھیالیس منٹ پرنیویارک میں موجود دنیا کی بلند ترین عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو دہشتگردوں نے اپنا شکار بنایا اور دو مغوی طیاروں کو یکے بعد دیگرے عمارت جو کہ دراصل 110 منزلہ دو ٹاوروں پر مشتمل تھی ان سے ٹکرا دیا۔

    اس انسانیت سوز سانحے میں تین ہزارامریکی اورغیر ملکی باشندے مارے گئے جبکہ چھ ہزارسے زائد افراد زخمی ہوئے اورمالی نقصان کا تخمینہ دس ارب ڈالر لگایا گیا۔

    اس واقعے کے فوری بعد دنیا بھرتشویش کی لہردوڑ گئی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہربھی محسوس ہوئی، واقعے کے ردعمل میں امریکہ میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو کہ کئی سال تک جاری رہا۔

    امریکہ نے واقعے کا ذمے دارالقائدہ رہنماء اسامہ بن لادن کو ٹہراتے ہوئے افغانستان پربمباری شروع کردی جس کے بعد جنگ کا دائرہ عراق اورپاکستان کے سرحدی علاقوں تک پھیلا دیا گیا۔

    افغانستان اور عراق میں لڑی جانے والی اس جنگ کے نتیجے میں دونوں ممالک میں وہاں قائم حکومتیں ختم ہوگئی، افغانستان میں طالبان کا دورِ حکومت ختم ہوا تو دوسری جانب عراق میں صدام حسین کی آمریت کا خاتمہ ہوا۔

    پاکستان وہ ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی پاکستان کے 50 ہزارسے زائد شہریوں نے اس جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے جبکہ100 ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان برداشت کیا ہے۔

    پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں پر حتمی اور فیصلہ کن ضرب لگانے کے لئے پاک فوج کی جانب سے جانب سے آپریشن ضربِ عضب جاری ہے جس کے سبب پاکستانی میں گزشتہ 14 سالوں سے جاری دہشت گردی کی لہراب دم توڑرہی ہے۔

    ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے مقام پر امریکہ میں ایک نئی عماعت تعمیر کی گئی ہے جس کا نام ’’ون ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘‘ رکھا گیا ہے۔