Tag: water

  • بھارت میں پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے لڑائیاں اور اموات

    بھارت میں پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے لڑائیاں اور اموات

    نئی دہلی : بھارت میں 16 کروڑ سے زائد لوگ صاف پانی سے محروم ہیں اور یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے، پانی کا بحران انتہائی غیر منصفانہ ہے‘ امیر طبقے کو کوئی فرق نہیں پڑتابس غریب کو جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دو کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل بھارت کے گنجان آباد دارالحکومت نئی دہلی میں بد ترین خشک سالی امیر اور غریب طبقے کے درمیان پہلے سے موجود عدم مساوات کو مزید بڑھا رہی ہے۔

    میڈیا ذرائع کا کہنا تھا کہ مرکزی دہلی کے وسیع و عریض گھروں اور لگڑری اپارٹمنٹس میں رہنے والے سیاستدان، سرکاری ملازمین اور کاروباری افراد پائپ لائن کے ذریعے مہینہ بھر اپنے واش رومز اور کچن کے استعمال کے علاوہ گاڑیاں دھونے، کتے نہلانے اور گھر کے باغیچے کو سیراب کرنے کے لیے لامحدود پانی صرف 10 سے 15 ڈالرز میں خرید سکتے ہیں۔

    دوسری طرف کچی آبادیوں یا مرکزی شہر کے گردونواح میں آباد نسبتاً غریب طبقے کی کالونیوں میں رہنے والوں کو محدود مقدار میں پانی لینے کے لیے روزانہ مشقت کرنا پڑتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس طقبے کو پانی کی سپلائی پائپ لائن سے نہیں بلکہ ٹینکرز کے ذریعے کی جاتی ہے اور دن بدن پانی کی کم ہوتی سپلائی کے ساتھ اس کی قیمت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارت میں پانی کا بحران انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ دہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں امیر طبقے کو اس بحران سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ غریب عوام کو پانی کے حصول کی خاطر روزانہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔

    بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ سمیت زیادہ تر قانون سازوں کی سرکاری رہائش گاہیں مرکزی دہلی میں ہی ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ مودی کو پانی کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر ایک بڑے پروگرام کا اعلان کرنے میں کئی سال لگے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہناتھا کہ دہلی کے مرکزی سرکاری ضلع اور آرمی کنٹونمنٹ کے علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہر رہائشی کو تقریباً 375 لیٹر پانی ملتا ہے جبکہ سنگم وہار کے ضلعے کے ہر رہائشی کے حصے میں یومیہ صرف 40 لیٹر پانی آتا ہے۔

    خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ کنوؤں سے نکال کر یہ پانی شہر میں سرکاری ادارے دہلی واٹر بورڈ کی زیر نگرانی ٹینکرز کے ذریعے سپلائی کیا جاتا ہےلیکن مقامی رہائشی کہتے ہیں کہ پانی کے کچھ کنوؤں پر جرائم پیشہ گینگز اور مقامی سیاستدانوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے قبضہ کر رکھا ہے، ان گینگز کا غیر قانونی طور پر پانی کے پرائیویٹ ٹینکرز بیچنے میں بھی بڑا کردار ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ سب ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب دہلی نے رواں سال جون میں خشک سالی کا 26 سالہ ریکارڈ توڑا ہے اور 10 جون کو یہاں 48 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔

    برطانوی سماجی تنظیم ’واٹر ایڈ‘ کے مطابق بھارت میں لگ بھگ 16 کروڑ سے زائد لوگ (آبادی کا 12 فیصد) صاف پانی سے محروم ہیں اور یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

  • درد مند کسان پیاسے جانوروں کو بچانے کے لیے کوشاں

    درد مند کسان پیاسے جانوروں کو بچانے کے لیے کوشاں

    آسٹریلیا میں پایا جانے والا گلہری کا ہم شکل جانور کوالا موسمیاتی تغیرات اور سخت گرمی کے باعث پیاس کے ہاتھوں بے حال ہے، ایسے میں ایک کسان ان معصوم جانوروں کی پیاس بجھانے کے لیے کوشاں ہے۔

    کوالا کو بھالو کی نسل سے سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک کیسہ دار (جھولی والا) جانور ہے اور کینگرو کی طرح اس کے پیٹ پر بھی ایک جھولی موجود ہوتی ہے جہاں اس کے نومولود بچے پرورش پاتے ہیں۔

    کوالا کی بنیادی خوراک یوکلپٹس (درخت) کے پتے ہیں جو ان کے جسم کو نہ صرف توانا رکھتا ہے بلکہ ان کے جسم کو درکار پانی کی بے تحاشہ ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔ تاہم موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث یوکلپٹس کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔

    یوکلپٹس کے تازہ پتوں میں پرانے پتوں کی نسبت زیادہ نمی ہوتی ہے لہٰذا کوالا بہت شوق سے یوکلپٹس کے تازہ پتے کھاتے ہیں۔

    تاہم اس درخت کی پیداوار میں کمی سے ایک تو تازہ پتوں کی بھی کمی واقع ہورہی ہے، دوسری جانب کلائمٹ چینج کے اثرات کے باعث نئے یوکلپٹس کے پتے پہلے کی طرح ترو تازہ اور نمی سے بھرپور نہیں ہوتے جو کوالا کی پیاس بجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ کوالا کے لیے ایک سنگین صورتحال ہے جس کی وجہ سے یہ جانور پیاس کی شدت سے مر رہے ہیں۔ ان کے مطابق آسٹریلیا کے جنگلات میں اب 1 لاکھ سے بھی کم کوالا رہ گئے ہیں۔

    دوسری جانب موسم گرما کی شدت میں اضافہ اور ہیٹ ویوز بھی ان معصوم جانوروں کے لیے مزید زحمت ثابت ہوتا ہے اور اس موسم میں ان کی اموات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ایک کسان روبرٹ نے ان جانوروں کے لیے پانی کے ذخائر بنانے شروع کردیے ہیں۔ اس کسان نے یونیورسٹی آف سڈنی کے اشتراک سے اسٹیل کے بڑے برتن میں پانی رکھنا شروع کیا ہے جس میں پانی کی فراہمی ایک الیکٹرک موٹر کے ذریعے رواں رہتی ہے۔

    وہ بتاتے ہیں کہ بعض اوقات کوالا اتنے پیاسے ہوتے ہیں کہ گھنٹوں تک پانی پیتے رہتے ہیں۔ پانی کے یہ ذخائر درختوں کے قریب نصب کیے جارہے ہیں۔

    دوسری جانب کوالا کے لیے پانی رکھنے کے حوالے سے آگاہی مہمات بھی چلائی جارہی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جارہا ہے، کہ ’اگر ان معصوم جانوروں کو پانی نہ ملا تو یہ پلک جھپکتے میں غائب (معدوم) ہوجائیں گے‘۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کوالا کو لاحق ان خطرات کے باعث یہ معصوم جانور سنہ 2050 تک معدوم ہوسکتا ہے۔

  • عالمی یوم آب: ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم

    عالمی یوم آب: ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم

    آج دنیا بھر میں عالمی یوم آب منایا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق سنہ 2025 تک پاکستان خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے، اس وقت ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔

    پانی کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو یہ دن منایا جاتا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں زراعت اور پینے کے لیے زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر) استعمال کیا جاتا ہے جس کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے۔ پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔

    ملک میں استعمال ہونے والا 80 فیصد پینے کا پانی یہی زیر زمین پانی ہے جو زمین سے پمپ کیا جاتا ہے، اسی طرح زراعت کے لیے بھی ملک بھر میں 12 لاکھ ٹیوب ویل زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔ اس بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ہر سال زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر نیچے چلی جاتی ہے۔

    دوسری جانب ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے، ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔

    اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور سنہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی شروع کی جانی چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق میدانی اور صحرائی علاقوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکے جانے کی سخت ضرورت ہے۔

  • صاف شفاف پانی کے اس جھانسے میں نہ آئیں

    صاف شفاف پانی کے اس جھانسے میں نہ آئیں

    اگر آپ گھر سے باہر کسی پرفضا مقام پر جاتے ہیں تو کسی جھیل یا ندی کا پانی دیکھتے ہوئے اسے ضرور پینا چاہتے ہوں گے، یہ سوچتے ہوئے کہ یہ پانی ہر قسم کی آلودگی سے پاک اور نہایت شفاف ہے۔

    تاہم یہ خیال آپ کو سخت خطرات میں بھی مبتلا کرسکتا ہے۔ عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ چونکہ اس قسم کے پانی میں معدنیات زیادہ مقدار میں ہوتے ہیں جو فلٹرڈ پانی پینے والا ہمارا جسم برداشت نہیں کرسکتا، لہٰذا ہم مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، تاہم یہ خیال بھی غلط ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پانی آپ کے روزمرہ کے پانی سے زیادہ آلودہ ہوتا ہے کیونکہ یہ فلٹر بھی نہیں کیا جاتا۔

    امریکا میں ایک واٹر کمپنی ’لائیو واٹر‘ ایسا ہی پانی فروخت کرتی ہے اور کمپنی کا کہنا ہے کہ اس پانی میں کسی شے کی آمیزش نہیں کی جاتی۔

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پانی میں مضر صحت بیکٹریا موجود ہوتے ہیں جو آپ کو ڈائریا میں مبتلا کرسکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں اس طرح کا کھلا پانی جانور بھی پینے اور نہانے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے بعد اس میں مزید مضر صحت اجزا کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق شہروں میں دستیاب عام گراؤنڈ واٹر بھی اس زمرے میں آتا ہے، پینے کے پانی کو پینے سے قبل اچھی طرح فلٹر کرنا ضروری ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ پانی میں ذرا سی آلودگی بھی مختلف بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے، امریکا میں دنیا کا محفوظ ترین ڈرنکنگ واٹر سسٹم موجود ہے اس کے باوجو ہر سال 40 لاکھ سے زائد افراد پانی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

  • شیر خوار بچوں کو پانی پلانا خطرناک ہوسکتا ہے

    شیر خوار بچوں کو پانی پلانا خطرناک ہوسکتا ہے

    یوں تو ہر انسان کو دن بھر میں زیادہ سے زیادہ سے پانی پینے کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم شیر خوار بچوں کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا کہ 6 ماہ سے کم عمر بچوں کو پانی پلانا نہایت خطرناک ہوسکتا ہے اور یہ بعض اوقات ان کی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جب ہم بہت زیادہ پانی پی لیتے ہیں تو یہ خون میں شامل ہونا شروع ہوجاتا ہے جس سے خون میں موجود نمک یا سوڈیم کی سطح کم ہونی شروع ہوجاتی ہے۔

    جب خون میں سوڈیم کی سطح بے حد کم یعنی تقریباً فی گیلن کے حساب سے 0.4 اونس ہوجائے تو جسم ہائپونیٹرمیا کا شکار ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: شیر خوار بچوں کے لیے شہد سخت نقصان دہ

    اس کیفیت میں جسم کے خلیات اضافی پانی کو اپنے اندر جذب کر کے سوڈیم کی سطح معمول پر لانے کی کوشش کرتے ہیں، نتیجتاً جسم کے خلیات غبارے کی طرح پھول جاتے ہیں جس سے الٹی، متلی اور عضلات میں کھنچاؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

    یہ کیفیت ایتھلیٹس میں نہایت عام ہوتی ہے کیونکہ وہ بہت زیادہ اور مسلسل پانی پیتے ہیں۔

    ایسی صورت میں پانی دماغ کے خلیات تک بھی پہنچ سکتا ہے جس کے بعد دماغ کے خلیات بھی پھول جاتے ہیں اور کھوپڑی پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے دماغ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ موت واقع ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔

    تاہم پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایک مکمل بالغ جسم میں پانی کی زیادتی سے موت کا امکان نہایت کم ہوتا ہے البتہ شیر خوار بچے اس صورتحال کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بہت زیادہ گرم کپڑے پہنانا ننھے بچوں کے لیے مہلک

    بچوں کے گردے چونکہ مکمل طور پر نشونما نہیں پائے ہوتے لہٰذا انہیں پلائے جانے والے پانی کی تمام مقدار گردوں میں فلٹر ہونے کے بجائے خون میں شامل ہوجاتی ہے اور یوں چند اونس پانی بھی ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    صرف براہ راست پانی ہی نہیں بلکہ اگر بچوں کو پلائے جانے والے فارمولہ دودھ میں بھی پانی کی مقدار زیادہ ہو تو یہی صورتحال پیش آسکتی ہے۔

    ایسی صورت میں ضروری ہے کہ فوری طور پر بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے جو انہیں خون میں سوڈیم کی مقدار معمول پر لانے کے لیے مختلف مائع جات استعمال کرواتے ہیں۔

  • سولر پینل سے بجلی کے ساتھ ساتھ پانی کی بھی پیداوار

    سولر پینل سے بجلی کے ساتھ ساتھ پانی کی بھی پیداوار

    سولر پینل سورج کی روشنی اور حرارت سے بجلی پیدا کرتے ہیں اور توانائی کی ضروریات پوری کرتے ہیں، تاہم حال ہی میں ایک منصوبے میں شمسی پینلز نے پانی بنانے کا کام بھی کیا۔

    تجرباتی طور پر کیے جانے والے اس منصوبے کو بل گیٹس اور جیف بیزوس کی جانب سے 1 ارب ڈالر کا فنڈ حاصل ہوچکا ہے۔

    اس منصوبے میں شمسی پینلز ہوا سے نمی کشید کرتے ہیں اور انہیں استعمال کے قابل پانی میں تبدیل کردیتے ہیں۔

    حاصل کردہ پانی نہایت صاف اور پینے کے قابل ہے۔ 2 شمسی پینل سے 10 لیٹر تک صاف پانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ ہوا سے پانی کشید کرنے کا خیال نیا نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں جیسے جیسے آبی ذخائر میں کمی واقع ہورہی ہے ویسے ویسے پانی حاصل کرنے کے متبادل طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں اور ہوا سے پانی کشید کرنا بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    اس وقت دنیا کے کئی حصوں میں چھوٹے پیمانے پر اس تکینیک کے ذریعے مختلف منصوبے مقامی آبادی کی آبی ضروریات کو پورا کرر ہے ہیں۔

    ایسی ہی ایک منصوبہ واٹر سیر نامی ٹربائن بھی ہے، دن کے 24 گھنٹے کام کرنے والی یہ ٹربائن فضا میں موجود پانی لے کر اسے پینے کے قابل بناتی ہے اور اس کے لیے اسے کسی قسم کی بجلی، توانائی، یا کیمیکلز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

    اس کے زمین کے اوپر لگے بلیڈز ہوا کی طاقت سے گھومتے ہیں اور ہوا کو زمین کے اندر نصب چیمبر میں دھکیلتے ہیں۔ یہ چیمبر مٹی میں دبا ہوتا ہے اور ٹھنڈی مٹی کی وجہ سے خاصا سرد ہوتا ہے۔

    یہ اپنے اندر موجود گرم ہوا کو بھی ٹھنڈا کردیتا ہے اور اس میں موجود پانی قطروں کی صورت میں چیمبر کی دیواروں پر جم جاتا ہے۔

    یہ ٹربائن ہوا چلنے یا نہ چلنے دونوں صورتوں میں کام کرتی ہے اور روزانہ 37 لیٹرز پانی فراہم کرتی ہے۔

  • مزیدار اسٹرا جو بچوں کو پانی پینے پر مجبور کردیں

    مزیدار اسٹرا جو بچوں کو پانی پینے پر مجبور کردیں

    موسم چاہے کوئی بھی ہو، جسم کو پانی درکار ہوتا ہے، خصوصاً موسم گرما میں تو اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ تاہم بچوں کو پانی پلانا ایک مشکل مرحلہ ہوسکتا ہے کیونکہ پانی ان کے لیے بہت بورنگ چیز ہوسکتی ہے۔

    تاہم اب ایسے اسٹرا تیار کرلیے گئے ہیں جو پانی کو ذائقہ دار بنا کر بچوں کو اسے مزے سے پینے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

    میجک اسٹرا نامی کمپنی نے مختلف فلیورز سے تیار کردہ اسٹرا پیش کیے ہیں۔

    یہ اسٹرا جب پانی کے گلاس میں ڈال کر پیے جاتے ہیں تو یہ پانی کا ذائقہ تبدیل کردیتے ہیں۔ یہ اسٹرا پینا کولاڈا، چیری کولا اور رس بیری لیمونڈ کے فلیورز میں پیش کیے گئے ہیں۔

    ان میں 5 گرام چینی شامل کی جاتی ہے جبکہ ان میں مختلف میٹھی گولیاں بھی شامل کی جاتی ہیں جو پانی کو مٹھاس سے بھردیتی ہیں۔

    ان اسٹراز کو بنانے کا مقصد نہ صرف بچوں بلکہ ان بڑوں کو بھی پانی پینے کی طرف مائل کرنا ہے جو اس ضروری شے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

    یہ کمپنی دودھ پینے کے لیے بھی مزیدار فلیورڈ اسٹرا تیار کر رہی ہے جو بچوں کے لیے دودھ کو ان کی پسندیدہ شے میں تبدیل کردیں گے۔

  • پانی پیتے ہوئے یہ غلطیاں تو نہیں کرتے؟

    پانی پیتے ہوئے یہ غلطیاں تو نہیں کرتے؟

    ہر انسان کو ایک مخصوص مقدار میں پانی پینے کی ضرورت ہوتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی پیتے ہوئے ہم بعض اوقات کچھ غلطیاں کرجاتے ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں وہ غلطیاں کیا ہیں۔

    مرغن کھانے کے بعد پانی پینا

    مرغن غذاؤں پر مشتمل کھانا کھانے کے بعد پانی پینے سے گریز کریں۔ اس وقت پیا جانے والا پانی غذا کو ہضم کرنے والے گیسٹرک جوس کے اثر کو کم کردیتا ہے جس سے غذا ہضم ہونے میں مشکل پیش آتی ہے۔

    علاوہ ازیں انسولین کی سطح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ایک ساتھ بہت سارا پانی پینا

    ایک وقت میں بہت سارا پانی پی لینا تھوک کو پتلا کردیتا ہے جس سے غذا کو ہضم کرنے کا عمل آہستہ ہوجاتا ہے۔ ایک وقت میں 60 سے 90 ملی لیٹر پانی پئیں اور آہستہ آہستہ پئیں۔

    صبح اٹھ کر پانی نہ پینا

    کئی گھنٹوں کی نیند کے بعد ہمارے جسم کو اپنی توانائی بحال کرنے کے لیے فوری طور پر کچھ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اور پانی بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    نیند میں ہمارا جسم خشک ہوجاتا ہے اور بیدار ہونے کے بعد فوری طور پر اسے ہائیڈریشن فراہم کرنا ضروری ہے لہٰذا صبح اٹھنے کے بعد ایک گلاس پانی ضرور پئیں۔

    سونے سے پہلے پانی نہ پینا

    رات بستر پر جانے سے قبل ایک گلاس پانی پینا اپنی عادت بنا لیں۔ یہ نیند کے دوران جسم کو ڈی ہائیڈریشن سے بچائے گی جبکہ پانی نہ پینے کی صورت میں دن بھر آپ سستی اور غنودگی محسوس کریں گے۔

    سخت ورزش کے دوران بہت زیادہ پانی پینا

    سخت ورزش کرتے ہوئے بہت سارا پانی پینے سے گریز کریں، یہ آپ کو سر درد، متلی اور چکر میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    مصالحہ دار اشیا کا اثر ختم کرنے کے لیے

    کوئی تیز اور مصالحہ دار شے کھانے کے بعد ہم اس کی جلن زائل کرنے کے کے لیے پانی پیتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں پانی پینا ان مالیکیولز کو اور تیز کرتا ہے جو ہماری زبان پر جلن پید ا کرتے ہیں؟

    یعنی آپ جتنا زیادہ پانی پئیں گے اتنی ہی جلن محسوس کریں گے، اس کے برعکس ایسے موقع پر دودھ پینا جلن کی شدت کو کم کرسکتا ہے۔

  • کینجھر تباہ ہوچکی ہے اسے سنبھالنے کی ضرورت ہے: گورنر سندھ

    کینجھر تباہ ہوچکی ہے اسے سنبھالنے کی ضرورت ہے: گورنر سندھ

    کراچی: گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ کینجھر تباہ ہوچکی ہے اسے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ ابھی بھی وقت ہے مل کر تمام معاملات صحیح کر سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ سندھ میں پانی کی قلت ہے، بارشیں نہ ہوئی تو مزید پریشانی ہوگی، کینجھر تباہ ہوچکی ہے اسے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔

    گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ وفاق کا کام ہے وہ پورا کر رہا ہے صوبے کو پورا پانی مل رہا ہے، سندھ کو ڈیمز بنانے تھے، پانی پر توجہ نہیں دی گئی۔ ابھی بھی وقت ہے مل کر تمام معاملات صحیح کر سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ملک بھر میں قائم غیر قانونی ہائیڈرنٹس مسمار کردیے جائیں گے

    انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کے فور کے لیے پوری فنڈنگ کی۔

    سابق صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کنفیوژن کا شکار ہیں، ان پر لاتعداد الزامات ہیں۔ ’انہوں نے جو بات کہی وہ افسوسناک ہے، زرداری بتائیں انہیں کون لایا، بی بی کی شہادت پر سیاست چمکائی‘۔

    گورنر کا کہنا تھا کہ طاقتور کا احتساب ہونے لگا ہے۔ ’ہم سے 100 دن کا حساب مانگنے والوں نے 70 سال میں کچھ نہیں کیا‘۔

  • آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کا آسان طریقہ

    آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کا آسان طریقہ

    دنیا بھر میں پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور عالمی اداروں کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں بلند شرح اموات کی بڑی وجہ آلودہ پانی پینا ہے۔

    تاہم پاکستان میں پایا جانے والا ایک عام درخت آلودہ پانی کو بغیر کسی کیمیائی عمل کے صاف کر کے اسے پینے کے قابل بنا سکتا ہے۔

    یہ درخت مورنگا کا درخت ہے جسے سوہانجنا بھی کہا جاتا ہے۔ سوہانجنا ایشیا اور افریقہ دونوں خطوں میں پایا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سوہانجنا کے بیجوں کو پیس کر پانی میں شامل کردیا جائے تو یہ پانی میں موجود آلودگی کو کافی حد تک ختم کرسکتا ہے۔

    پانی کو صاف کرنا سوہانجنا کی کئی خصوصیات میں سے ایک ہے۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 2 ارب افراد کو میسر پینے کا پانی انسانی فضلے سے آلودہ ہے، پینے کے لیے بالکل ناقابل استعمال اس پانی سے ہر سال 5 لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    سوہانجنا کے درخت صوبہ پنجاب میں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جبکہ ماہرین نباتات کے مطابق یہ درخت اندرون سندھ کے علاقوں کے لیے بھی موزوں ہے۔

    یہ حیران کن درخت قحط اور خشک سالی کے موسم میں بھی اگ سکتا ہے اور سخت ترین موسمی حالات میں بھی بہت تیزی سے نشونما پاتا ہے۔