Tag: wazir mansion

  • وزیرمینشن: قائد اعظم کی سب سے اہم یادگار

    وزیرمینشن: قائد اعظم کی سب سے اہم یادگار

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح کا 142 واں یومِ پیدائش منایا ہے۔ قائد اعظم 25 دسمبر 1876 کو جس گھر میں پیدا ہوئے، اس کا نام وزیرمینشن ہے اوریہ کراچی کے علاقے کھارادرمیں واقعہ ہے۔

    قائد اعظم کے والد جناح پونجا آ پ کی ولادت سے تقریباً ایک سال قبل گجرات سےکراچی آکرآباد ہوئے ، وزیرمینشن کی پہلی منزل انہوں نے کرائے پرلی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال یہاں گزارے، قائد اعظم کے تمام بہن بھائیوں کی ولادت بھی اسی عمارت میں ہوئی۔

    سن 1953 میں حکومت پاکستان نے عمارت کو اس کے مالک سے خرید کر باقاعدہ قومی ورثے کا درجہ دیا گیا، اس کی زیریں منزل کو ریڈنگ ہال جبکہ پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا اور 14 اگست 1953 کو عوام کے لئے کھول دیا گیا۔

    ‘ایک گیلری کا اضافہ اس وقت کیا گیا جب 1982 میں قائد اعظم کی ایک اور بہن شیریں جناح نے مزید کچھ نوادرات ’قائد اعظم ریلکس کمیشن کے حوالے کیں۔

    دو منزلوں پر مشتمل گیلریوں میں قائداعظم کا فرنیچر ، انکے کپڑے ، انکی اسٹیشنری ، انکی ذاتی ڈائری اور انکی دوسری بیوی رتی بائی کے استعمال کی اشیا کی نمائش کی گئی ہے۔ سب سے اہم اثاثہ جو وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں وہ قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جن کی مدد سے وہ مقدمات کی پیروی کرتے تھے

    یہ عمارت 2003 سے 2010 تک تزئین و آرائش کے لئے بند رہی۔

    میوزم کے عملے میں سے ایک شخص نے بتایا کہ 1992میں جب نیلسن منڈیلا پاکستان تشریف لائے تو وہ یہاں بھی آئے تھے لیکن بدقسمتی سے مہمانوں کی کتاب جس میں انکے دستخط تھے وہ گم ہوچکی ہے۔

    قائد اعظم کے یوم ِ پیدائش پر انکی جائے ولادت پرآنے والوں کی نا ہونے کے برابر تعداد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں قائد اعظم اوران سے منسلک تمام چیزوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ قصہ ِ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔

  • وزیرمینشن: قائدِاعظم کی سب سے اہم یادگار

    وزیرمینشن: قائدِاعظم کی سب سے اہم یادگار

    آج ملک بھرمیں بانی ِ پاکستان محمد علی جناح کا 138 واں یوم ولادت منایاجارہا ہے، قائد اعظم 25 دسمبر 1876 کو جس گھر میں پیدا ہوئے، اس کا نام وزیرمینشن ہے اوریہ کراچی کے علاقے کھارادرمیں واقعہ ہے۔

    قائد اعظم کے والد جناح پونجا آپکی ولادت سے تقریباً ایک سال قبل گجرات سےکراچی آکرآباد ہوئے ، وزیرمینشن کی پہلی منزل انہوں نے کرائے پرلی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال یہاں گزارے، قائد اعظم کے تمام بہن بھائیوں کی ولادت بھی اسی عمارت میں ہوئی۔

    سن 1953 میں حکومت پاکستان نے عمارت کو اس کے مالک سے خرید کر باقاعدہ قومی ورثے کا درجہ دیا گیا، اسکی زیریں منزل کو ریڈنگ ہال جبکہ پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا اور 14 اگست 1953 کو عوام کے لئے کھول دیا گیا۔

    ‘ایک گیلری کا اضافہ اس وقت کیا گیا جب 1982 میں قائد اعظم کی ایک اور بہن شیریں جناح نے مزید کچھ نوادرات ’قائد اعظم ریلکس کمیشن کے حوالے کیں۔

    دو منزلوں پر مشتمل گیلریوں میں قائداعظم کا فرنیچر ، انکے کپڑے ، انکی اسٹیشنری ، انکی ذاتی ڈائری اور انکی دوسری بیوی رتی بائی کے استعمال کی اشیا کی نمائش کی گئی ہے۔ سب سے اہم اثاثہ جو وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں وہ قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جن کی مدد سے وہ مقدمات کی پیروی کرتے تھے

    یہ عمارت 2003 سے 2010 تک تزئین و آرائش کے لئے بند رہی۔

    میوزم کے عملے میں سے ایک شخص نے بتایا کہ 1992میں جب نیلسن منڈیلا پاکستان تشریف لائے تو وہ یہاں بھی آئے تھے لیکن بدقسمتی سے مہمانوں کی کتاب جس میں انکے دستخط تھے وہ گم ہوچکی ہے۔

    قائد اعظم کے یوم ِ پیدائش پر انکی جائے ولادت پرآنے والوں کی نا ہونے کے برابر تعداد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں قائد اعظم اوران سے منسلک تمام چیزوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ قصہ ِ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔

  • قائد اعظم کی رہائشگاہ کے باہر کچرے کا ڈھیر، انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت

    قائد اعظم کی رہائشگاہ کے باہر کچرے کا ڈھیر، انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت

    کراچی : بانی پاکستان کی جائےپیدائش کےسامنےکچراکنڈی بن گئی، حکومت سندھ اور شہری انتظامیہ کو خبر نہ ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت کی بے حسی کی انتہا ہو گئی،بلدیاتی اداروں کی عدم توجہ کے باعث شہر کے مختلف علاقوں میں کچرے کے ڈھیر لگ گئے۔

    کراچی میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی جائےپیدائش وزیرمینشن کے سامنے کچرا کنڈی بن گئی۔ تاریخی ورثے کے سامنے کچرے کے ڈھیرسے اٹھنے والی بدبو کوڑے کی نہیں بلکہ معاشرے کی مردہ سوچ کی ترجمانی کررہی ہے۔

    dsc_1563

    قائداعظم کی رہائش گاہ کےباہرگندگی اورکچرے کا پہاڑ کھڑاہوگیا، مگر انتظامیہ کو کسی کاڈر ہے اورنہ ہی کوئی شرم ، کراچی کے علاقے کھارادار میں واقع بانی پاکستان کے گھر کے اطراف لگے گندگی اور کچرے کے ڈھیر حکومت اور سیاستدانوں کی صفائی مہم کا حال بیان کر رہے ہیں۔

    The plaque on Wazir Mansion - Karachi_thumb[3]

    شہرمیں کچرے کے ڈھیر پر سیاست چمکانے والے سیاستدان بھی قائد اعظم محمد علی جناح کے گھرکے حال سے بے خبر ہیں۔


    Garbage heaped outside Quaid-e-Azam's residence… by arynews

    قدیم علاقے میں موجود تاریخی ورثےکے سامنے ہرآتا جاتا کچراپھینکتا رہا۔ رفتہ رفتہ کچرےکا دیو ہیکل پہاڑ بن گیا۔ مگراس کی خبر سوئی ہوئی انتظامیہ کو نہ ہوسکی۔

    نامزدمیئرکراچی وسیم اختر نے اسے حکومت سندھ کی نااہلی قراردیا ہے، جبکہ فکس اٹ کےبانی اپناٹریکٹرلیکر پہنچےاوراپنی مدد آپ کےتحت صفائی شروع کردی۔

    پاسبان ملت کےساتھ ستم ظریفی یہ کہ تاریخی ورثےکو سنبھالنے کے بجائےکوڑے کرکٹ اور گندگی کی نذرکر دیا گیا۔

    کچرےسے اٹھنےوالی یہ  تعفن زدہ بدبو کوڑے کی نہیں ہے بلکہ حکمرانوں کی مردہ سوچ کی عکاس ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت ان کے مسائل کے حل میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔