Tag: White House

  • شمالی کوریا معاملہ، صدر ٹرمپ کا تقریباً مسئلہ حل کرنے کا دعویٰ

    شمالی کوریا معاملہ، صدر ٹرمپ کا تقریباً مسئلہ حل کرنے کا دعویٰ

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے شمالی کوریا سے متعلق جوہری ہتھیاروں کا جو معاملہ تھا اسے تقریباً حل کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال 12 جون کو شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان سے سنگاپور میں اہم ملاقات کی تھی جس کے بعد یہ اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ سنگاپور میں ان کی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ملاقات میں شمالی کوریا کے مسئلے کا زیادہ تر حصہ حل ہو چکا ہے۔


    اب شمالی کوریا سے کسی قسم کا جوہری خطرہ نہیں، ڈونلڈ‌ ٹرمپ


    وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار ختم کردے گا، اس پر شمالی کوریا کام کر رہا ہے جلد اہم خبر سامنے آئے گی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل امریکی تاریخ میں کبھی شمالی کوریا سے اچھے تعلقات نہیں رہے، لیکن اب میں نے ایسا کر دکھایا ہے، جلد نتائج قوم کے سامنے آجائیں گے۔


    ٹرمپ کا شمالی کوریا کے جنرل کو انوکھا سلیوٹ


    خیال رہے کہ دو دن قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ گذشتہ دنوں شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے ساتھ ملاقات نے دنیا کو جوہری آفت سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا، اب شمالی کوریا سے کسی قسم کا جوہری خطرہ نہیں ہے۔

    واضح‌ رہے کہ ٹرمپ نے 12 جون کو سنگاپور کے جزیرے سینتوزا میں شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان سے تاریخی ملاقات کی تھی اس موقع پر دونوں‌ ملکوں‌ کے درمیان اہم دستاویز پر دستخط بھی کئے گئے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • کم جونگ ان کو وائٹ ہاؤس ضرور بلاؤں گا: امریکی صدر

    کم جونگ ان کو وائٹ ہاؤس ضرور بلاؤں گا: امریکی صدر

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کو وقت آنے پر وائٹ ہاؤس ضرور بلاؤں گا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے سنگاپور میں شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر نجی ٹی وی کے صحافی نے ڈونلڈ ٹرمپ سے سوال کیا کہ کیا آپ کم جونگ ان کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دیں گے؟

    جواب میں امریکی صدر نے بڑے پرجوش انداز میں کہا کہ ’کیوں نہیں، کم جونگ ان بہت ذہین اور باصلاحیت انسان ہیں انہیں میں وائٹ ہاؤس ضرور بلاؤں گا، ہماری ون ٹو ون ملاقات بہت خوشگوار رہی جلد نتائج نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں اداے کے مطابق اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے ایک خاص قسم کے معاہدے پر دست خط بھی کیے جسے اب تک میڈیا کے سامنے پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی دونوں ممالک کی جانب سے پبلک کیا گیا ہے۔


    امریکی صدراورشمالی کوریا کے رہنما کی تاریخی ملاقات


    صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ شمالی کوریا اب ایسا نہیں جیسا پہلے تھا، کم جونگ ان نے اپنی پوزیشن بھی تبدیل کی ہے جس سے ہمارے تعلقات کو تقویت ملے گی۔

    اس موقع پر شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کا کہنا تھا کہ ہم ماضی کو بھلا کر ایک نیا سفر شروع کرنا چاہتے ہیں، دنیا اب بڑی تبدیلی کی توقع کر رہی ہے، امید ہے ہم ایک بار پھر جلد ساتھ بیٹھیں گے۔

    خیال رہے کہ سنگاپور کے جزیرے سینٹوسا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جنوبی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن کے درمیان ون آن ون ملاقات جزیرہ سینٹوسا کے کیپیلا ہوٹل میں ہوئی۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر اور شمالی کوریا کے سربراہ نے ملاقات کے آغاز میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور فوٹوسیشن بھی ہوا، اس موقع پر دونوں سنجیدہ نظر آئے لیکن بات چیت ہوئی تو چہروں پرمسکراہٹ بھی آگئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکا نے افغان امن عمل میں پاکستان سے مدد مانگ لی

    امریکا نے افغان امن عمل میں پاکستان سے مدد مانگ لی

    واشنگٹن: امریکا کو خطے میں پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا، افغان امن عمل میں ایک بار پھر پاکستان سے مدد مانگ لی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈو مور کا مطالبہ کرنے والے کو ہوش آگیا، امریکا نے خطے میں پاکستان کی اہمیت ایک بار پھر تسلیم کرتے ہوئے افغان امن عمل میں مزید تعاون کا مطالبہ کردیا۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نائب معاون لیزا کرٹس نے کہا ہے کہ افغان امن مذاکرات میں پاکستان کا تعاون ضروری ہے، اگر پاکستان کا تعاون نہیں ہوگا تو امن عمل کسی صورت ممکن نہیں ہوسکتا۔

    کیزا کرٹس کا کہنا تھا کہ امن عمل میں پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا اور افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کے خدشات پرتوجہ دینا ہوگی۔


    افغانستان: عید کی آمد، طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کردیا


    امریکی صدر کے نائب معاون کا مزید کہنا تھا کہ امریکا مذاکرات میں شامل ہوگا لیکن افغان حکومت کی نمائندگی نہیں کرے گا، افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے کوششوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے عید الفطر کے موقع پر تین دن کے لیے جنگی بندی کا اعلان کیا گیا ہے، اس جنگ بندی کا اطلاق صرف مقامی فوجیوں کے لیے ہوگا جبکہ نیٹو اور امریکی فوج نے کوئی کارروائی کی تو طالبان اس کا جواب دیں گے۔

    واضح رہے کہ افغان حکومت نے بھی دو روز قبل عید الفطر کی آمد کے پیش نظر طالبان کے خلاف کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا تاہم ساتھ میں یہ بھی واضح کیا کہ اگر کسی بھی مسلح گروہ کی جانب سے دہشت گردی کی گئی تو سیکیورٹی ادارے بھرپور جواب دیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پہلی بار افطار ڈنر

    امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پہلی بار افطار ڈنر

    واشنگٹن : امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی مرتبہ افطار ڈنر کا اہتمام کیا، جس میں مسلمان ممالک کے سفیروں، اعلی امریکی حکام اور وزیروں نے شرکت کی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پہلی بار افطار ڈنر کا اہتمام کیا ، افطار ڈنر میں امارات، اردن، مصر، تیونس، عراق، قطر، بحرین، مراکش، الجزائر اور لبییا کے سفیروں نے شرکت کی۔

    افطار ڈنر میں معمول سے ہٹ کر صدر ٹرمپ نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی، تقریب سے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور آپ سب حاضرین کو رمضان مبارک ہو، آج کی تقریب میں ہم سب دنیا کے عظیم ترین مذاہب کی ایک مقدس روایت کا اہتمام کر رہے ہیں، مسلمان پورے دن پر محیط روزے کے اختتام پر افطار کرتے ہیں، جو ماہ مبارک رمضان کے دوران روحانیت کی عکاسی کرتا ہے۔

    ٹرمپ کا کہنا تھا امریکا اور اسلامی ممالک مل کر دنیا کو محفوظ مستقبل دے سکتے ہیں۔

    دوسری جانب افطار کے موقع پر مسلمانوں کی تنظیموں نے ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا اور مغرب کی نماز وائٹ ہاؤس کے باہرادا کی۔

    مظاہرین کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کا مسلمانوں پر پابندی لگا کر دعوت افطار دینا دکھاوے کے سوا کچھ نہیں جبکہ مظاہرین نے نئی امریکی پالیسیوں کو یکطرفہ اور مسلمان دشمن قرار دیتے ہوئے پناہ گزینوں پر پابند ی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

    یاد رہے گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو رمضان کی مبارکباد دیتے ہوئے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا تھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا خصوصی پیغام میں کہنا تھا کہ رمضان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح مسلمان امریکا میں مذہبی ہم آہنگی بڑھا رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ برس ٹرمپ نے امریکی صدور کی جانب سے مسلم برادری کے لیے افطار کا اہتمام کرنے کی ایک طویل روایت سے انحراف کرتے ہوئے افطار نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکی صدر رواں ہفتے افطار ڈنر کی میزبانی کریں گے

    امریکی صدر رواں ہفتے افطار ڈنر کی میزبانی کریں گے

    واشنگٹن: امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے ماہ صیام کی مناسبت سے وائٹ ہاؤس میں افطار ڈنر کا احتمام اور میزبانی کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وائٹ ہاؤس کی یہ روایت ہے کہ وہ ہر سال ماہ صیام کے موقع پر افطار ڈنر کا اٖحتمام کرتا ہے اور مسلم ممالک کے اہم رہنماؤں کو اس دعوت پر مدعو کرتا ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گذشتہ سال اس دعوت کا احتمام نہیں کیا گیا تھا۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی صدر افطار ڈنر کا احتمام رواں ہفتے 13 جون کو کریں گے تاہم وائٹ ہاؤس کی جانب سے اب تک مہمانوں کی فہرست جاری نہیں کی گئی، ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے یہ پہلی بار ہوگا کہ وہ افطار ڈنر کی میزبانی کریں گے۔


    افطاری اور سحری میں احتیاط، ماہ صیام اچھا گزاریں


    خیال رہے کہ رواں سال 15 مئی کو رمضان کی مناسبت سے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ "جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ ہمارے معاشرے کو تقویت پہنچا سکتے ہیں، یہ لوگ پاکیزہ زندگی گزارنے کے حوالے سے ایک اچھی مثال بن سکتے ہیں۔


    ماہ صیام کے موقع پر مسجدالحرام میں مفت وائی فائی کی مفت سہولت


    واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس اُس روایت پر عمل نہیں کیا تھا جس کو امریکی صدور 20 برسوں سے تھامے ہوئے ہیں، اس سے قبل بل کلنٹن کے دور سے رمضان میں وہائٹ ہاؤس کے اندر مسلمانوں کے لیے افطار ڈنر کا انعقاد کیا جا رہا ہے، علاوہ ازیں باراک اوباما اور سابق صدر بش بھی افطار ڈنر کی میزبانی کر چکے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ اور فرانسیسی صدر کی یورپ سے متعلق تجارتی معاملات پر گفتگو

    ڈونلڈ ٹرمپ اور فرانسیسی صدر کی یورپ سے متعلق تجارتی معاملات پر گفتگو

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فرانس کے صدر امانوئیل میکرون کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو ہوئی اس دوران دونوں رہنماؤں نے یورپ اور امریکا سے متعلق تجارتی معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد امریکا کی یورپ کے ساتھ تجارت میں عدم توازن پایا جاتا ہے، یورپی یونین کا موقف ہے کہ وہ ایران سے ایٹمی معاہدہ ختم کرنے کے بجائے اسے بحال رکھے تاکہ تجارتی معاملات بھی خوشگوار رہیں۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس گفتگو میں ٹرمپ نے امریکا اور یورپ کے درمیان تجارت میں پائے جانے والے عدم توازن اور بعض رکاوٹوں کو خاص طور پر موضوع بنایا اور اس کے حل کے لیے اپنی طرف سے اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔


    ٹریڈ ٹیرف: ٹرمپ کی دھمکی آمیز تجارتی پالیسیوں کا سدباب کیا جائے: لیبر پارٹی 


    وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امانوئیل میکروں پر واضح کیا کہ اس عدم توازن کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے تاکہ یورپ کے ساتھ امریکا کے تجارتی اور دیگر تعلقات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہ آئے۔

    دوسری جانب برطانیہ کی لیبر پارٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ برطانوی حکومت ٹرمپ کو اپنے ملک کے کاروباری حلیفوں کو دھمکانے کی اجازت نہ دے، ٹرمپ عالمی تجارتی سسٹم کو توڑنا چاہتے ہیں۔


    ٹرمپ کی ماحول دشمن پالیسیوں پر فرانسیسی صدر کی تنقید


    برطانیہ کے شیڈو انٹرنیشنل ٹریڈ سیکریٹری ( اپوزیشن کی جانب سے مذکورہ وزارت پر نامزد نمائندہ) بیری گارڈنر کی جانب سے کیا گیا ہے کہ برطانیہ کو ٹرمپ کے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے روکنا ہوگا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ یورپ سے المونیم اور اسٹیل کی درآمد پر امریکا کی جانب سے عائد کردہ ڈیوٹی جھوٹ پر مبنی ہے، برطانوی حکومت اور یورپین یونین کو اس معاملے میں فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • امریکی صدر اور جاپانی وزیر اعظم شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے خاتمے پر متفق

    امریکی صدر اور جاپانی وزیر اعظم شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے خاتمے پر متفق

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے پر متفق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا اس دوران دونوں رہنماؤں نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ شمالی کوریا کا جوہری ہتھیار سے دست بردار ہونا اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو ختم کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے ٹیلی فون کے ذریعے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام سے متعلق تبادلہ خیال کیا اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان پر ایٹمی پروگرام سے دست برداری کے حوالے سے ڈباؤ ڈالنے اور حکمت عملی پر بھی غور کیا گیا۔


    امریکی صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے رہنما سے ملاقات پر رضامند


    بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے سے جلد ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے، ملاقات کی تاریخ طے نہیں کی گئی البتہ رواں سال 12 جون سے قبل ملاقات ہوسکتی ہے۔

    خیال رہے کہ دو روز قبل ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ شمالی کوریا کے رہنما سے ملاقات کے حوالے سے مثبت رابطے اور بات چیت ہوئی ہے، اگر یہ ملاقات ہوئی تو 12 جن کو سنگاپور میں ہی ہوگی اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ملاقات 12 جون کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ دنوں ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما سے 12 جون کو ہونے والی ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔


    برف پگھل نہ سکی، ٹرمپ نے کم جونگ سے ملاقات ملتوی کردی


    علاوہ ازیں وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ امریکی صدر کے خط میں کہا تھا کہ کم جونگ کے حالیہ بیان کے بعد اب سنگاپور میں ہونے والی شیڈول ملاقات کا امکان بالکل بھی نہیں کیونکہ شمالی کوریا کے سربراہ نے ایک بار پھر کھلی دشمنی ظاہر کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکا کون ہوتا ہے ایران سے متعلق فیصلے کرنے والا؟ حسن روحانی

    امریکا کون ہوتا ہے ایران سے متعلق فیصلے کرنے والا؟ حسن روحانی

    تہران: ایرانی صدر حسن روحانی نے ایران سے متعلق امریکی فیصلے اور پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کون ہوتا ہے ایران کے حوالے سے فیصلے کرنے والا؟

    تفصیلات کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو نے آج ایران سے متعلق امریکا کی نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے، علاوہ ازیں مائیک پومپیو نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکا ایران پر تاریخ کی سخت ترین پابندیاں عائد کرے گا، پابندیوں کے بعد ایران کو اپنی معیشت کی بقا کا مسئلہ پڑ جائے گا۔

    ایرانی صدر حسن روحانی نے امریکی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایران سے متعلق پابندیوں کے امریکی فیصلے قبول نہیں کئے جائیں گے، تمام ممالک آزاد اور خود مختار ہیں، دیگر ممالک بھی ایران سے متعلق امریکی فیصلوں کو رد کریں گے۔


    امریکا ایران پر تاریخ کی سخت ترین پابندیاں عائد کرے گا، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو


    حسن روحانی کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے ایسے فیصلے آتے رہتے ہیں، تاہم ایرانی عوام امریکی پابندیوں کو پہلے ہی رد کر چکے ہیں، ہم ایسی دھمکیوں سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی کان دھرتے ہیں۔

    خیال رہے کہ آج امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران سے متعلق کہا تھا کہ ایران کی کسی بھی متبادل حکمت عملی سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں، ایران پر بہت زیادہ اقتصادی دباؤ بڑھائیں گے، ایرانی رہنماؤں کو ہماری سنجیدگی کے بارے میں کوئی شک نہیں ہوگا۔


    ایرانی ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے یورپ کی کوششیں ناکافی ہیں، جواد ظریف


    مائیک پومپیو نے یہ بھی کہا تھا کہ ایران خطے میں پراکسی وار کا سبب بن رہا ہے، ایران کو دھمکی آمیز رویہ ترک کرنا ہوگا، ایران نے جوہری معاہدے کے دوران مشرق وسطیٰ میں اثرورسوخ بڑھایا، ایران کو دوبارہ جوہری تجربوں کی جانب نہیں جانے دیں گے، ان کو یورینیم کی افزودگی روکنی ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • شمالی کوریا کی دھمکی پر ٹرمپ انتظامیہ بھیگی بلی بن گئی

    شمالی کوریا کی دھمکی پر ٹرمپ انتظامیہ بھیگی بلی بن گئی

    واشنگٹن: شمالی کوریا کی دھمکی پر ٹرمپ انتظامیہ بھیگی بلی بن گئی، وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکی صدر ملاقات کے لیے تاحال پر امید ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وائٹ ہاؤس سے کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن کے ساتھ ملاقات کی منسوخی کی دھمکی کے باجود ملنے کے لیے تیار ہیں۔

    خیال رہے کہ چند گھنٹے قبل شمالی کوریا نے غصے سے بھرا ایک بیان جاری کیا تھا کہ اگر امریکا جوہری ہتھیار ختم کرنے پر اصرار کرے گا تو طے شدہ ملاقات منسوخ بھی ہوسکتی ہے۔

    وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈرز کا کہنا تھا کہ اگر ملاقات ہوتی ہے تو صدر ٹرمپ اس کے لیے بالکل تیار ہیں تاہم اگر ملاقات نہیں ہوتی تو ہم زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم جاری رکھیں گے۔

    ترجمان کے مطابق جب صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ملاقات ہوپائے گی تو ان کا جواب تھا کہ ہم دیکھیں گے۔ انھوں نے کہا کہ امریکا جوہری ہتھیاروں کے خاتمے پر اصرار کرے گا۔

    ملاقات کے لیے فضا کیوں تبدیل ہوئی؟


    واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن کے مابین یہ اہم ترین ملاقات 12 جون کو ہو رہی ہے۔ کِم کی جانب سے جزیرہ نماے کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے عزم کے بعد دونوں سربراہان کے درمیان ملاقات طے ہوئی تھی۔

    شمالی کوریا کی امریکا کو صدر ٹرمپ سے ملاقات منسوخ کرنے کی دھمکی


    شمالی کوریا کی میڈیا کے مطابق ملک کے اندر اس ملاقات کے حوالے سے بڑی توقعات وابستہ کی جارہی تھیں لیکن امریکا کی جانب سے حالیہ سخت ریمارکس کے بعد مایوسی پھیلی۔

    شمالی کوریا کی جانب سے امریکی سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن کے سلسلے میں باقاعدہ طور پر بے زاری کا اظہار کیا گیا ہے، جنھوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ شمالی کوریا کو جوہری ہتھیار تلف کرنے کے معاملے میں لیبیا ماڈل کو اپنانا چاہیے۔

    لیبیا ماڈل کیا ہے؟


    جان بولٹن نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ لیبیا ماڈل امریکا کے لیے جوہری ہتھیار تلف کرنے کا قابل قبول ماڈل ہے۔ اس بیان نے پیانگ یانگ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ لیبیا کے کرنل قذافی اسی طرح جوہری پروگرام سے دست بردار ہوگئے تھے جس کے چند برس بعد باغیوں نے انھیں قتل کردیا تھا، جنھیں مغربی پشت پناہی حاصل تھی۔

    شمالی کوریا کے شدید رد عمل کے بعد جان بولٹن نے ریڈیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کا امکان ابھی زندہ ہے اور ہم نہ صرف پُرامید ہیں بلکہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف شمالی کوریا کی طرف سے نائب وزیر خارجہ کم کیگوان نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اگر امریکا یک طرفہ جوہری ہتھیاروں کے خاتمے پر زور دے گا تو ہمیں مذاکرات میں کوئی دل چسپی نہیں ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جاپان کے وزیر اعظم آج امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے

    جاپان کے وزیر اعظم آج امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے

    واشنگٹن: جاپان کے وزیر اعظم ’شنزو آبے‘ آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے جس میں دونوں ملکوں کے خطے کی صورت سمیت شمالی کوریا کے جوہری پروگرام سے متعلق تبالہ خیال کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے آج امریکی ریاست فلوریڈا میں صدر ٹرمپ کے نجی گھر میں ملاقات کریں گے، جس میں شمالی کوریا کے جوہری پروگرام سے متعلق اور خطے میں موجود خطرات کے حوالے سے تبالہ خیال کیا جائے گا۔

    جاپان کے وزیر اعظم نے امریکا دورے سے قبل اپنے جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ میں امریکہ کے ساتھ شمالی کوریا کے مسئلے اور اقتصادی اُمور پر تعاون کی حمایت کرتا ہوں، اور بتانا چاہتا ہوں کہ جاپان اور امریکہ کے درمیان مضبوط تعلقات ہمیشہ قائم رہیں گے۔

    جاپان کوغرق امریکا کو راکھ اور تاریکی میں بدل دیں گے،شمالی کوریا کی دھمکی

    خیال رہے کہ گذشتہ دنوں وزیر اعظم آبے نے جاپان کے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات کے دوران شمالی کوریا کے ایسے تمام تر میزائلوں کے خاتمے کیلئے کہوں گا جس سے کسی بھی قسم کا جاپان کو خطرہ ہو۔

    جاپان کے وزیراعظم آج پرل ہاربرکادورہ کریں گے

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے امریکا کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں، جبکہ شمالی کوریا کے جوہری پرگرام سے خطے کو خطرات ہیں، جس سے متعلق ٹرمپ سے ملاقات کے دوران تبادلہ خیال کیا جائے گا، بعد ازاں وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ صدر ٹرمپ امریکی شہریوں کے علاوہ امریکی اتحادیوں کی سلامتی کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔