Tag: WHo report

  • لوگوں کی اوسط عمر میں کمی آنے لگی، لیکن کیوں؟

    لوگوں کی اوسط عمر میں کمی آنے لگی، لیکن کیوں؟

    کورونا وائرس کے جان لیوا حملوں کے باعث دنیا بھر میں لاکھوں افراد نہ صرف موت کا تر نوالہ بن گئے بلکہ زندہ رہ جانے والے لوگوں کی اوسط عمر کیلیے بھی خطرہ بن گیا ہے۔

    اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کوویڈ 19 کے سبب دنیا بھر میں اوسط عمر میں 1.8 برس کی کمی آئی ہے جبکہ اس بیماری کے باعث جنم لینے والے اندیشوں اور پریشانیوں نے صحت مند زندگی کے دورانیے کو 6 ہفتے کم کر دیا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے عالمی طبی صورتحال پر رواں برس کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کوویڈ 19 وبا نے دنیا بھر میں زندگیوں اور مجموعی صحت و بہبود کو بری طرح متاثر کیا اور غیرمتعدی بیماریوں سے ہونے والی شرح اموات میں کمی سے حاصل ہونے والے بیشتر فوائد ضائع ہوگئے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کوویڈ 19 کے بعد ضروری طبی خدمات کو پوری طرح بحال نہیں کیا جاسکا۔ اندازے کے مطابق سال 2030 تک ایک کروڑ 11 لاکھ طبی کارکنوں کی کمی ہوگی اور خاص طور پر ڈبلیو ایچ او کے افریقہ اور مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں یہ کمی واضح طور پر محسوس کی جائے گی۔

    health

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ رواں سال دنیا کے کم از کم 3 ارب لوگوں کی صحت میں بہتری لانے کے لیے ڈبلیو ایچ او کے ہدف سے متعلق پیشرفت کا جائزہ بھی لیا گیا ہے جس کے مطابق اس سمت میں مجموعی ترقی کو خطرات لاحق ہیں جن سے بچنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ قابل انسداد بیماریوں سے ہلاک ہو رہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے لیے طبی خدمات تک رسائی میں مشکلات حائل ہیں اور ان حالات میں ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہنگامی طور پر عزم کے ساتھ اور جوابدہی کا احساس لے کر ضروری اقدامات کرے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال مزید 1.4 ارب لوگوں کی صحت میں بہتری آئی جبکہ اس حوالے سے ایک ارب کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ اس بہتری میں تمباکونوشی میں کمی، فضائی معیار میں بہتری اور پانی، صحت و صفائی اور نکاسی آب کی سہولیات تک بہتر رسائی کا اہم کردار تھا۔

    ضروری طبی خدمات اور ہنگامی طبی حالات میں مدد پہنچانے کے حوالے سے پیش رفت میں کمی دیکھی گئی۔ گزشتہ سال مالی مشکلات کے بغیر ضروری طبی خدمات تک رسائی پانے والوں کی تعداد میں صرف 431 ملین کا اضافہ ہوا اور تقریباً 637 ملین مزید لوگوں کو ہنگامی طبی حالات میں پہلے کی نسبت زیادہ بہتر تحفط میسر آیا۔

  • اوسط عمر میں کمی کی کیا وجہ ہے؟ عالمی ادارہ صحت کا انکشاف

    اوسط عمر میں کمی کی کیا وجہ ہے؟ عالمی ادارہ صحت کا انکشاف

    دنیا بھر میں لوگوں کی اوسط عمر میں دو سال کی کمی واقع ہوئی ہے، یہ بات عالمی ادارہ صحت نے اپنے حالیہ بیان میں بتائی۔

    عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار 2024″ کی رپورٹ کے مطابق براعظم امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کورونا وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہیں۔

    صحت کی عالمی تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں دنیا بھر میں متوقع عمر میں تقریباً 2 سال کی کمی واقع ہوئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں اوسط عمر میں بہتری اور پیش رفت کورونا وبا کے دوران منفی طریقے سے متاثر ہوئی ہے۔

    عمر

    رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ 2020 اور 2021 میں براعظم امریکہ میں اموات کی سب سے نمایاں وجہ کورونا وائرس کی وبا تھی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی بحرالکاہل کے ممالک کوویڈ 19 کی وبا کے پہلے دو سالوں میں اس وائرس سے کم سے کم متاثر ہوئے۔

    بیان میں نوٹ کیا گیا کہ 2019-2021 میں کوویڈ 19 وبا کے باعث متوقع عمر میں 1.8 سال کی کمی آتے ہوئے اوسطاً 71.4 سال تک ہوگئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادہانوم گیبریئسس نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کوویڈ 19 کی وبا نے صرف 2 سال میں متوقع عمر میں صورتحال کا رخ بدل دیا ہے۔

    انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے تمام ممالک کو عالمی وبا کے معاہدے پر متفق ہوجانا چاہیے۔

  • کینسر نے دو سال میں کتنے افراد کی جان لی؟

    کینسر نے دو سال میں کتنے افراد کی جان لی؟

    سال 2022میں دنیا بھر میں کینسر کے ایک اندازے کے مطابق 20 ملین نئے کیسز سامنے آئے ہیں تو مبینہ طور پر 9.7 ملین لوگ اس بیماری سے جان بحق ہوئے ہیں۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اور بین الاقوامی ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر نے 4 فروری کو کینسر کے عالمی دن کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2022 دنیا بھر میں تخمینے کے مطابق کینسر کے 20 ملین نئے کیسز اور 9.7 ملین اموات واقع ہوئی ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2022 میں کینسر کی تشخیص اور اگلے 5 سالوں میں زندہ رہنے والے افراد کی تخمینہ تعداد 53.5 ملین تھی اور 2050 میں کینسر کے 35 ملین سے زیادہ نئے کیسز کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر کینسر کا بوجھ تیزی سے بڑھ رہا ہے، رپورٹ میں یاد دلایا گیا کہ تمباکو، الکحل اور موٹاپا ، فضائی آلودگی اور ماحولیاتی خطرہ کینسر کے کیسز کے پیچھے اہم عوامل ہیں ۔

  • ملیریا بے قابو : عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی

    ملیریا بے قابو : عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی

    پاکستان میں ملیریا کی انفیکشن اور اموات میں تیزی سے اضافہ ہوگیا ہے، ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے تباہ کن سیلاب کے بعد ملیریا کے کیس چار گنا بڑھ کرسولہ لاکھ ہوگئے۔

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں ملیریا کا عالمی دن آج بروز (منگل )کو منایا جارہا ہے جس میں ملیریا کی روک تھام اور اس میں کمی کے لئے کی جانے والی کوششوں کو فروغ دینے اور لوگوں کو اس سے بچاؤ کیلئے آگاہی فراہم کی جائے گی۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان اور میں موسمیاتی تبدیلی سے ملیریا اور اموات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے سربراہ پیٹر سینڈز کے مطابق گزشتہ سال تباہ کن سیلاب سے پاکستان میں ملیریا کے کیس چار گنا بڑھ کر سولہ لاکھ ہوگئے۔

    ایڈز، تپِ دق اور ملیریا پر قابو پانے کی کوشش کرنے والے گلوبل فنڈ کے سربراہ کے مطابق ہر منٹ میں ایک بچہ اس بیماری سے مرجاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ خطرہ پانچ سال سے کم عمر بچوں اور حاملہ خواتین کیلئے ہے، جن کی موت بڑی حد تک بیماری کی تاخیر سے تشخیص اورعلاج نہ ہونے سے ہوتی ہے۔

    سینڈز کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کا شکار ملکوں میں ملیریا کا مسئلہ بھی سنگین ہے۔ اس سال چوکس رہنا ہوگا۔ اگرملیریا بدترہونے جا رہا ہے، تو اس کے تدارک کیلئے کام کرنا ہوگا۔

    اس حوالے سے ماحولیاتی ایجنسی کا کہنا ہے کہ یورپ میں فضائی آلودگی سے سالانہ بارہ سو بچے ہلاک ہورہے ہیں۔

  • سب سے زیادہ خودکشیاں کس ملک میں ہوتی ہیں؟ ڈبلیو ایچ او کا ہوشرُبا انکشاف

    سب سے زیادہ خودکشیاں کس ملک میں ہوتی ہیں؟ ڈبلیو ایچ او کا ہوشرُبا انکشاف

    جنیوا : عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ دنیا میں اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ خود کشی کے واقعات افریقہ میں پیش آتے ہیں۔

    خودکشی اپنی جان لینے کا ایک سفاکانہ عمل ہے، ایک تحقیق کے مطابق خودکشی موت کی 10ویں بڑی وجہ ہے جو ہر سال لاکھوں لوگوں کی موت کا سبب بنتی ہے۔

    اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں دنیا بھر میں رونما ہونے والے خود سوزی و خودکشی کے اعداد و شمار کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔

    خودکشی  کرنے کی وجوہات

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خود کشی کرنے کے واقعات کی معلومات سے آگاہی حاصل کی تو یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ افریقہ وہ خطہ ہے جہاں یہ شرح 11 فیصد تک ہے جو کہ عالمی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔

    رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ افریقہ میں 5 لاکھ افراد کے لیے ایک ماہر نفسیات ہے جو کہ عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق 100گنا کم ہے۔

    خودکشی کی وجہ بننے والے عوامل

    خودکشی کا رویہ اپنانے سے کیا مراد ہے؟

    خود کشی کے رویے سے مراد اپنی زندگی کو ختم کرنے سے متعلق بات کرنا یا کوشش کرنا ہے، خوکشی کے خیالات اور طرز عمل کو نفسیاتی ایمرجنسی سمجھا جاتا ہے۔

    اگر آپ یا آپ کا کوئی جاننے والا اس قسم کے خیالات کا اظہار کررہا ہے تو آپ کو فوری طور پر کسی قابل ماہر نفسیات سے رابطے کی ضرورت ہے۔

    خودکشی کا رویہ اپنانے والے عوامل

    وہ عوامل جو خودکشی کی وجہ بن سکتے ہیں

    عام طور پر خودکشی کرنے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی ایسے کئی عوامل ہیں جو خودکشی کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں جیسے کہ ڈپریشن دماغی صحت کے خطرے کا ایک سب سے بڑا عنصر ہے۔

    خودکشی کا رویہ اپنانے والے عوامل

    اس کے علاوہ ناکامی اور ناامیدی چاہے کسی بھی قسم کی ہو آیا یہ محبت میں ناکامی ہو یا کرئیر میں انسان میں مایوسی کا سبب بنتی ہے۔

    خود کشی کے دیگر عوامل میں بچپن میں کسی بھی قسم کی زیادتی یا صدمہ کا شکار ہونا بھی شامل ہے ایسے افراد بھی خودکشی کرنے کی کوشش میں ملوث پائے گئے ہیں۔

  • منکی پاکس مزید پھیل گیا : سیکڑوں کیسز رپورٹ،  ڈبلیو ایچ او نے خبردار کردیا

    منکی پاکس مزید پھیل گیا : سیکڑوں کیسز رپورٹ، ڈبلیو ایچ او نے خبردار کردیا

    جنیوا : دنیا کے مختلف ممالک میں اب تک منکی پاکس کے780 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں، زیادہ تر مریض یورپی ممالک میں سامنے آئے ہیں، ماہرین کے مطابق اس بیماری سے ہر شخص کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 13 مئی سے 2 جون تک 27 غیر مقامی ممالک کے لوگوں میں منکی پاکس کے کم ازکم 780 کیسز کی نشاندہی ہوئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ13 مئی اور 2 جون 2022 تک27 ممالک میں ڈبلیوایچ او کے ذریعہ منکی پاکس کے 780 کیسز کی تصدیق یا شناخت کی گئی ہے جو منکی پاکس وائرس کے لئے مقامی ممالک نہیں ہیں۔”

    اس طرح، 29 مئی سے مزید 523 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے، جب تنظیم نے257 تصدیق شدہ کیسز کے ساتھ وبائی صورتحال کے بارے میں اپنی آخری اپ ڈیٹ جاری کی تھی، نئے اعداد و شمار وائرس کے واقعات میں 203 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    منکی پاکس، تصویر آئی اے این ایس

    بیان میں کہا گیا ہے کہ "2 جون تک، غیر مقامی ممالک میں موجودہ منکی پاکس کے قہر سے منسلک کوئی موت نہیں ہوئی ہے، حالانکہ مقامی ممالک سے کیسز اور اموات کی اطلاع جاری ہے۔”

    منکی پاکس کیا ہے؟
    منکی پاکس دراصل ایک ایسا وائرس ہے جو بنیادی طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ منکی پاکس، وائرس کے ’پاکس وائری ڈائے‘ (Poxviridae) فیملی سے تعلق رکھتا ہے، اس فیملی کو مزید 2 ذیلی خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں 22 پرجاتیاں ہیں اور مجموعی طور پر اس فیملی میں وائرس کی 83 اقسام ہیں۔

    مزید پڑھیں : منکی پاکس کی ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقلی کیسے ؟ 

    اس فیملی سے تعلق رکھنے والے وائرس میں "اسمال پاکس” یعنی چیچک بھی شامل ہے اور علامات میں قریب ترین ہونے کی وجہ سے منکی پاکس کو اس کا کزن بھی کہا جاتا ہے۔

  • طویل اوقات تک کام کرنے والے موت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، عالمی ادارہ صحت

    طویل اوقات تک کام کرنے والے موت کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، عالمی ادارہ صحت

    جنیوا : عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ کام کے طویل اوقات سے سالانہ بنیادوں پر ہزاروں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ریسرچ رپورٹ ایک اہم جریدے انوائرمینٹل انٹرنیشنل میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں کام کے طویل اوقات سے انسانی صحت کو پہنچنے والے نقصانات کو موضوع بنایا گیا ہے۔

    اس رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہےکہ طویل اوقات کے انسانی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات اتنے شدید ہو سکتے ہیں کہ ان سے متاثرہ انسان اپنی جان سے ہاتھ تک دھو بیٹھتا ہے۔

    عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق اقتصادی عدم اطمینان کی وجہ سے کئی لوگوں کو طویل اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے اور یہ صورت حال عالمی وبا کورونا کے ایام میں خاص طور پر زیادہ دیکھی گئی ہے۔

    ریسرچ رپورٹ کے مطابق کام زیادہ کرنے کے اوقات کی وجہ سے انسانوں کو مختلف عوارض کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں عارضہٴ قلب خاص طور پر اہم ہے۔ سال 2016 میں کام کے طویل اوقات کی وجہ سے دنیا بھر میں سات لاکھ پینتالیس ہزار افراد اپنی زندگی سے محروم ہو گئے تھے۔

    ان میں سے زیادہ تر کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک اور ہیٹ اسٹروک ہے۔ یہ اضافہ سال 2000 کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ ہے۔ریسرچ میں واضح کیا گیا ہے کہ دنیا میں کام کے زیادہ اوقات کا سامنا کرنے والی آبادی نو فیصد ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے شعبہ انوائرنمنٹ اور کلائمیٹ چینج و صحت کی ڈائریکٹر ماریا نائرا کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں پچپن گھنٹے کام کرنے سے صحت کے شدید مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے لیے عام لوگوں تک بنیادی معلومات پہچانا اور ورکرز کی صحت کا تحفظ بھی بہت ضروری ہے۔

    عالمی ادارہٴ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس آڈہانوم گیبرائسس کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران لوگوں کے کام کی ہیت میں بڑی تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور کئی اداروں میں کمپیوٹر یا ٹیلی ورکنگ نے معمول کی صورت اختیار کرلی ہے۔

    گبرائسس کے مطابق اس نئی صورت حال نے کام کے مقام اور گھر میں فرق مٹا دیا ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اور اداروں کو اپنے ورکرز کی صحت کو مقدم سمجھنا چاہیے جب کہ ورکرز کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ زندگی کے سامنے روزگار کی کوئی اہمیت نہیں اور بہتر ہے کہ کام اس طرح کیا جائے کہ ہارٹ اٹیک یا اسٹروک سے محفوظ رہا جائے۔

  • ڈبلیو ایچ او نے دنیا بھر کے نظام صحت کو ناکام قرار دے دیا، رپورٹ میں اہم انکشافات

    ڈبلیو ایچ او نے دنیا بھر کے نظام صحت کو ناکام قرار دے دیا، رپورٹ میں اہم انکشافات

    جینیوا : عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کا نظام صحت اس قابل نہیں کہ وہ کورونا وائرس یا دیگر متعدی بیماریوں کی روک تھام کیلئے مؤثر اقدامات کرسکے۔

    اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پینل کو تحقیق سے  پتہ چلا ہے کہ عالمی صحت نظام انتہائی متعدی بیماریوں کو روکنے کے قابل نہیں ہے۔

    اس وقت پوری دنیا کورنا وائرس کی تباہ کاریوں سے  پریشان ہے اور تمام ممالک کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ ایسی وباؤں سے نمٹنے کے لئے ان کا طبی نظام ناکافی ہے۔

    اس بات کی تصدیق اب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی کردی، ڈبلیو ایچ او کے آزاد چینل نے گزشتہ روز  دنیا بھر کو  وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ وقت میں عالمی صحت نظام نئی وباوں کو روکنے کے قابل نہیں۔

    پینل نے کہا کہ قومی اور عالمی صحت نظام کورونا وبا سے لوگوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہا ہے کیونکہ دسمبر 2019کے وسط میں نئی طرح کے نمونیا کے معاملے سامنے آئے تھے اور بین الاقوامی سطح پر اس عوامی صحت ایمرجنسی کو بہت دیر سے اعلان کیا گیا تھا۔

    عالمی ادارہ صحت کے پینل نے مزید کہا کہ کئی ممالک وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے فروری 2020میں زیادہ مؤثر طریقہ سے کام کرسکتے تھے۔

    ڈبلیو ایچ او کے ماہرین نے رپورٹ میں کہا کہ پینل کو اپنی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ اس طرح کی متعدد بیماریاں کسی بھی وقت وبا کے طور پر سامنے آسکتی ہیں۔

    پینل نے زیادہ آمدنی والے ممالک سے چھوٹے اور درمیانہ آمدنی والے 92ممالک کو ستمبر تک کم از کم ایک ارب ویکسین کی خوراک دستیاب کرانے کے عزم کا اظہار کرنے کی اپیل کی۔

    پینل نے سفارش کی اہم ویکسین تیار کرنے والے بڑے ممالک اور مینوفیکچرز کو رضاکارانہ لائسنس اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لئے اپنا مؤثر کردار ادا کرنا چاہئے۔

  • ڈبلیوایچ او کی لاک ڈاؤن کی تجویز، حکومت سندھ اور طبی ماہرین کا بڑا فیصلہ

    ڈبلیوایچ او کی لاک ڈاؤن کی تجویز، حکومت سندھ اور طبی ماہرین کا بڑا فیصلہ

    کراچی : حکومت سندھ اورطبی ماہرین نے ڈبلیوایچ اوکی رپورٹ پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے وفاق اورصوبوں کی قیادت سے رابطے کا فیصلہ کرلیا اور کہا سندھ میں کیس بڑھتےجارہے ہیں،بڑے لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کی سیاسی اور طبی قیادت نے ڈبلیوایچ او کی رپورٹ پر وفاق اورصوبوں کی قیادت سے رابطے کا فیصلہ کرلیا ، وفاق اور صوبوں کو ڈبلیو ایچ او کی تشویش پر اعتماد میں لیا جائے گا کہ آئیں ملکر ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ پر بڑا لاک ڈاؤن کریں۔

    ڈبلیوایچ اوکی رپورٹ پر حکومت سندھ اورطبی ماہرین کا تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا سندھ میں کیس بڑھتے جارہے ہیں، بڑے لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔

    حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ ڈبلیوایچ او کی رپورٹ کے مطابق سخت لاک ڈاؤن کےسواراستہ نہیں ، ہم چاہتے ہیں وفاق اور تمام صوبے مل کر ایک فیصلہ کریں۔

    یاد رہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کو کورونا سے زیادہ متاثر ملکوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے حکومت کو لاک ڈاؤن میں سختی اور ٹیسٹنگ صلاحیت بڑھانے کی تجویز دی ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے حکومت کو کورونا کے پھیلاؤ اور روک تھام پر چھ اقدام پر مبنی خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ لاک ڈاؤن پر مؤثر عملدرآمد کرایا جائے۔ کورونا پھیلاؤ کے حوالے سے کراچی سرفہرست، لاہور دوسرا بڑا مرکز قرار دیا گیا ہے۔

    خط میں لاک ڈاؤن میں نرمی کو کورونا پھیلاؤ کا بڑا سبب قرار دیا گیا اور حکومت پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ تشخیصی نظام کو بہتر بنانے کیلئے اپنی صلاحیت پچاس ہزار ٹیسٹ یومیہ پر لائیں۔

  • پنجاب میں‌ 40 فیصد جعلی ادویات فروخت ہو رہی ہیں، عالمی ادارہ صحت

    پنجاب میں‌ 40 فیصد جعلی ادویات فروخت ہو رہی ہیں، عالمی ادارہ صحت

    لاہور: عالمی ادارہ صحت کے مطابق پنجاب میں فِلو سے لے کر کینسر تک کی 40 فیصد جعلی ادویات سمیت نشہ آور ٹیکہ جات میں مارکیٹ میں بآسانی فروخت ہورہے ہیں۔

    اس بات کا انکشاف عالمی ادارہ صحت نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا۔ رپورٹ میں صوبہ پنجاب میں صحت کے شعبے سے میں درپیش چیلینجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فلو سے لے کر کینسر تک کی 40 فیصد ادویات جعلی فروخت ہو رہی ہیں جب کہ ممنوعہ ادویات سمیت نشہ آور ٹیکہ جات بھی مارکیٹ میں بآسانی دستیاب ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں ہر 100 میں سے صرف 2 افراد کو مفت ادویات مل رہی ہیں جب کہ پنجاب میں 2450 بنیادی مراکز صحت میں سے 50 فیصد سے زائد غیر فعال ہیں یہاں ڈاکٹرز کی کمی اور ادویات کی شدید قلت ہے۔

    یہ ہی نہیں مزید مقام شرمندگی تو یہ ہے کہ ایشیاء کے سب سے بڑے ہسپتال میو میں جہاں روزانہ دو ہزار سے زائد مریض آتے ہیں وہاں ایم آر آئی مشین تک نہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق پنجاب میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد 34 لاکھ ہو گئی ہے اور اس میں ہر سال بتدریج 2 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔

    رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صوبے میں گندا پانی پینے کے باعث ہیپا ٹائٹس میں مبتلا ہونے والے مریضوں کی تعداد 70 لاکھ سے زائد ہو گئی ہے اور اس میں سالانہ 3 لاکھ سے زائد مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔

    خواتین کی صحت کے حوالے سے بھی صوبہ پنجاب کی صورتحال غیر تسلی بخش ہے، یہاں ناقص علاج معالج کے باعث زچگی ایک لاکھ میں سے115 خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں۔

    بچوں کی صحت کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے صوبہ پنجاب کی کارگردگی کے متعلق کہا کہ چلڈرن اسپتال لاہور میں آپریشن کے منتظر بچوں کی تعداد11ہزار ہو گئی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ مہلک بیماریوں میں مبتلا بچوں کو طویل انتظار کی مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں عالم یہ ہے کہ فوری آپریشن کے مریض بچوں کو 8 سال تک کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امراضِ قلب کے حوالے سے صوبہ پنجاب کا صحت پلان حکومت پنجاب کی توجہ کا منتظر ہے، پنجاب انسیٹوٹ آف کارڈلوجی کی ایمرجنسی میں مریضوں کو انجیو گرافی کے لیے 7ماہ تک اور بائی پاس کے لیے دو سال تک کا وقت دیا جا رہا ہے۔