Tag: WHO

  • کورونا وائرس : عالمی ادارہ صحت کی دنیا کے امیر ممالک سے درد مندانہ اپیل

    کورونا وائرس : عالمی ادارہ صحت کی دنیا کے امیر ممالک سے درد مندانہ اپیل

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبریسس نے کورونا ویکسین کی سودے بازی کی مخالفت کرتے ہوئے پوری دنیا میں اس کی یکساں تقسیم پر زور دیا۔

    ڈبلیو ایچ او نے کورونا ویکسین کی سپلائی کے سلسلے میں امیر ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ غریب اور پسماندہ ترین ملکوں تک کورونا کی ویکسین کو پہنچانے میں اس کی مدد کریں۔

    جنیوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کے تقسیمِ ویکسین نظام ’کووَیکس‘ نے ویکسین کی دو کروڑ خوراکوں کا معاہدہ کیا ہے لیکن امیر ممالک دو طرفہ سودے کرکے ویکسین کی اضافی سپلائی کررہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ میں ان ممالک سے اپیل کرتا ہوں جن کو وافر مقدار میں ویکسین مہیا ہیں، وہ فوراً کووَیکس کو بھی ویکسین مہیا کروائیں۔ اب تک 42 ممالک نے ویکسینشن کا عمل شروع کردیا ہے جن میں 36 اعلیٰ آمدنی اور چھ متوسط آمدنی والے ممالک شامل ہیں۔

    ٹیڈروس گیبریسس نے مزید کہا کہ ویکسین ساز کمپنیاں اور امیر ممالک ویکسین کے سلسلے میں دو طرفہ سودے کرنا بند کریں اور زیادہ سے زیادہ ویکسین بنانے اور اس کی یکساں تقسیم پر زور دیں۔

    امیر ممالک نے شروعات میں ہی کئی ویکسین خریدی ہیں اس سے ممکنہ طور پر تمام ملکوں کے لیے ویکسین کی قیمت بڑھ جائے گی جس سے انتہائی غریب اور پسماندہ ممالک کو ویکسین نہیں مل پائے گی۔

  • عالمی ادارہ صحت نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    عالمی ادارہ صحت نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل میں کرونا وائرس سے کہیں بدترین وبائیں ہمیں اپنا نشانہ بنا سکتی ہیں، ہم ان وباؤں کے لیے تیار نہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ بدترین وبا ابھی آنا باقی ہے اور ہمیں عالمی سطح پر اس کی تیاری کے لیے سنجیدہ ہونا چاہیئے۔

    عالمی ادارہ صحت کے شعبہ ایمرجنسیز کے سربراہ مائیکل ریان نے 28 دسمبر کو پریس بریفننگ کے دوران کہا کہ کرونا وائرس کی وبا خواب غفلت سے جگانے کی کال ہے۔

    یہ بریفنگ عالمی ادارے کی جانب سے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا ایک سال مکمل ہونے پر کی گئی تھی۔ ایک سال کے عرصے میں دنیا بھر میں کرونا وائرس سے 18 لاکھ کے قریب اموات ہوچکی ہیں جبکہ 8 کروڑ سے زائد کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔

    مائیک ریان کا کہنا تھا کہ یہ وبا بہت سنگین تھی، یہ دنیا بھر میں برق رفتاری سے پھیل گئی اور ہماری زمین کا ہر حصہ اس سے متاثر ہوا، مگر ضروری نہیں کہ یہ بڑی وبا ہو۔

    انہوں نے زور دیا کہ اگرچہ یہ وائرس بہت متعدی ہے اور لوگوں کو ہلاک کر رہا ہے، مگر اس سے ہلاکتوں کی موجودہ شرح دیگر ابھرتے امراض کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ ہمیں مستقبل میں اس سے بھی زیادہ سنگین وبا کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے سینیئر مشیر بروس ایلورڈ نے بھی خبردار کیا کہ اگرچہ دنیا میں کرونا وائرس کے بحران کے لیے سائنسی طور پر بڑی پیشرفت ہوئی ہے، مگر اس سے یاد دہانی ہوتی ہے کہ ہم مستقبل کے وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت وائرس کی دوسری اور تیسری لہر کا سامنا کر رہے ہیں اور اب بھی ہم اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ادہانم نے توقع ظاہر کی کہ کووڈ 19 کی وبا سے دنیا کو مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے میں مدد ملے گی۔

  • دنیا کب تک کرونا وائرس سے مکمل طور پر محفوظ ہوجائے گی؟

    دنیا کب تک کرونا وائرس سے مکمل طور پر محفوظ ہوجائے گی؟

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی میں کرونا وائرس کے خلاف اجتماعی مدافعت سال 2021 کے آخر تک ناممکن ہے، کرونا ویکسین کے تمام آبادی تک پہنچنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی چیف سائنسدان ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ دنیا کو کرونا ویکسینز کی فراہمی کے دوران آئندہ 6 ماہ تک محتاط رہنا ہوگا کیونکہ آبادی کے بڑے حصے کی ویکسی نیشن کے لیے وقت درکار ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ ہم اختتام کے آغاز کی جانب بڑھ رہے ہیں اور سرنگ کے دہانے پر روشنی کی کرن دیکھ سکتے ہیں، تاہم ابھی بھی ہمیں سرنگ سے گزرنا ہوگا اور آئندہ چند ماہ بہت اہم ہوں گے۔

    ڈاکٹر سومیا سوامی کا کہنا تھا کہ ویکسینز سے ابتدا میں بہت کم افراد کو تحفظ مل سکے گا جو زیادہ خطرے سے دو چار ہیں جبکہ تمام آبادی تک اس کے پہنچنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ کچھ ممالک میں آبادی کی سطح میں مدافعت پیدا ہونے کے مرحلے تک پہنچنے کے لیے 2021 کے آخر تک انتظار کرنا پڑسکتا ہے۔

    ڈاکٹر سومیا کا کہنا تھا کہ اس وقت تک ہمیں احتیاط کرنا ہوگی، ان تمام اقدامات پر عمل کرنا ہوگا جو وائرس کے پھیلاؤ کو محدود کر سکیں، حالات میں بہتری کے لیے ہمیں اگلے سال کے اختتام تک رکنا ہوگا، تاکہ بہتر تصویر سامنے آسکے، مگر میرے خیال میں اگلے چند ماہ سخت ثابت ہوسکتے ہیں۔

    حال ہی میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی نئی قسم کے بارے میں ڈاکٹر سومیا کا کہنا تھا کہ یہ غیرمعمولی ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں اور اس وجہ سے وہ عام اقسام سے مختلف ہے۔

    انہوں نے کہا کہ زیادہ فکرمندی کی بات یہ ہے کہ 8 میوٹیشنز اسپائیک پروٹین کے حصے میں ہوئیں۔ یہی ممکنہ وجہ ہے کہ اس وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی صلاحیت بڑھ گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ زیادہ بہتر طریقے سے پھیل رہا ہے، ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ بچوں کو بھی بہتر طریقے سے متاثر کررہا ہے، جن کے جسم میں ان ریسیپٹرز کی تعداد کم ہوتی ہے۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم سے متعلق عالمی ادارہ صحت کا اہم بیان

    کرونا وائرس کی نئی قسم سے متعلق عالمی ادارہ صحت کا اہم بیان

    جنیوا: کرونا وائرس کی نئی قسم سے متعلق عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس کے زیادہ خطرناک ہونے کے ثبوت نہیں ملے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور جنوبی افریقا میں کرونا وائرس کی نئی قسم کے نمودار ہونے کا جائزہ لیا جا رہا ہے، یہ نئی قسم پہلے سے زیادہ خطرناک یا زیادہ مہلک ہونے کے ابھی کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔

    اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کے مرکزی آفس میں معمول کی بریفنگ دی گئی ہے، حکام کا کہنا تھا کہ نئی قسم کے کرونا وائرس سے متعلق ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے۔

    حکام نے اجلاس میں بتایا کہ برطانیہ سے موصول شدہ رپورٹس میں مذکور کیا گیا ہے کہ کرونا کی نئی قسم زیادہ تیزی کے ساتھ ایک سے دوسرے میں منتقل ہو رہی ہے۔

    کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے تشویشناک انکشاف

    عالمی ادارہ صحت کے ڈی جی ٹیڈروس ایڈھانم کا کہنا تھا کہ وائرس وقت کے ساتھ ساتھ شکل بدلتا رہتا ہے، ہم سائنس دانوں سے مل کر یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کرونا وائرس میں کس قسم کی جینیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

    ڈائریکٹر جنرل نے لوگوں کو وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا، وائرس کو پھیلاؤ سے جلد ازجلد روکنا ہی سب سے زیادہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا کرونا وائرس کو جتنا پھیلنے دیا جائے گا اتنا ہی اسے تبدیل ہونے کا موقع ملے گا۔

  • عالمی ادارہ صحت کس ویکسین کی منظوری دینے والا ہے؟ دوا ساز ادارے کا دعویٰ

    عالمی ادارہ صحت کس ویکسین کی منظوری دینے والا ہے؟ دوا ساز ادارے کا دعویٰ

    جنیوا : امریکی دوا ساز ادار ے نے ایک بیان میں ا س بات کا دعوٰی کیا ہے کہ عالمی ادارۂ صحت فائزر اور بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووِیڈ19 ویکسین کے ہنگامی استعمال کی جلد اجازت دے دے گا۔

    اس ادارے کی معاون ڈائریکٹر جنرل ماری انجیلا سماؤ نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں گزشتہ روز نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فیصلہ رواں سال کے اختتام تک کیا جاسکتا ہے جس کے بعد جلد ہی ویکیسن کی فراہمی شروع ہو سکتی ہے۔

    اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے علاقائی سربراہ سائنسدان سوما سوامی ناتھن نے کہا ہے کہ ادارے کے کوویکس پروگرام کے تحت ویکسین کی ترسیل جلد از جلد اگلے ماہ سے شروع ہو سکتی ہے۔ یہ پروگرام کورونا وائرس ویکسینوں کی منصفانہ تقسیم کا عالمی ڈھانچہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ایسے ترقی پذیر ممالک جن کے پاس ویکسین کی جانچ پڑتال کے اپنے نظام نہیں ہیں وہ خود اپنے طریقۂ کار کے اندر عالمی ادارۂ صحت کے ہنگامی استعمال کی منظوری سے مستفید ہو سکیں گے۔

  • کورونا ویکسین وبا پر کتنا قابو پاسکتی ہے؟َ عالمی ادارہ صحت نے بتا دیا

    کورونا ویکسین وبا پر کتنا قابو پاسکتی ہے؟َ عالمی ادارہ صحت نے بتا دیا

    جینیوا : عالمی ادارہ صحت کے ریجنل ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ کورونا ویکسین کوئی چاندی کی گولی نہیں جو وبائی بیماری کا خاتمہ کر دے گی، ہمیں بدترین صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

    سوئٹزرلینڈ کے جینیوا میں واقع عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ایک اعلی عہدیدار نے کوویڈ 19 وبا کے درمیان زیادہ سے زیادہ احتیاط برتنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ کورونا ویکسین سے زیادہ امید نہیں ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مغربی بحر الکاہل میں واقع عالمی ادارہ صحت کے علاقائی دفتر کے ریجنل ڈائریکٹر تاکیشی کسائی نے کہا ہے کہ جو بھی تم ہو، جہاں بھی ہو، جب تک کورونا وائرس موجود ہے، ہم سب کو خطرہ لاحق ہے اور ہمیں بدترین صورتحال کے لیے تیاری کرتے رہنا چاہئے۔

    کسائی نے 40 برس سے کم عمر نوجوانوں اور معاشرتی طور پر سرگرم لوگوں سے اپیل کی ہے کہ کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کے باوجود اپنے اور اپنے آس پاس کے ہر فرد کو انفیکشن سے بچنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرو۔

    اعلی عہدیدار نے کہا کہ ‘صحت کے حکام کے مشورے پر عمل کرکے آپ اپنے معاشرے کے لوگوں کی زندگیوں کی تحفظ کر سکتے ہیں اور سال 2021 میں اپنے معاشرے کی معاشیات کی بحالی کے لیے حصہ بن سکتے ہیں۔

    تاکیشی کسائی نے مزید کہا کہ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ان لوگوں کے بارے میں سوچیں جن کو کورونا وائرس سے شدید خطرہ لاحق ہے۔

    انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ ڈاکٹروں اور کارکنان کے بارے میں سوچیں جو تقریباً ایک برس سے مریضوں کے علاج کیلیے دن رات کام کررہے ہیں جو اب کام کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔

    ریجنل ڈائریکٹر نے کہا کہ کوویڈ 19 کی ویکسین کوئی چاندی کی گولی نہیں ہیں جو مستقبل قریب میں وبائی بیماری کا خاتمہ کر دے گی۔

    ایک محفوظ اور مؤثر ویکسین تیار کرنا ایک الگ چیز ہے لیکن اس کو مناسب مقدار میں پیدا کرنا اور اس کی ضرورت ہر ایک مریض تک پہنچنا ایک اور بات ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہاتھوں کو بار بار دھونا، ماسک پہننا، سماجی دوری اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ٹرانسمیشن کا خطرہ زیادہ ہونے والی جگہوں سے گریز کرنا چاہیے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ابھی ہمیں انفرادی طور پر لازمی احتیاط کرتے رہنا چاہئیے جس سے وائرس کی منتقلی میں کمی آئے گی، اپنے اہل خانہ اور اپنی برادریوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ ایسا کرنے سے ہم امید کے ساتھ 2021 میں جاسکتے ہیں۔

  • ویکسین لگوانے کے بعد الرجی کے کیسز پر عالمی ادارہ صحت کی اہم ہدایت

    ویکسین لگوانے کے بعد الرجی کے کیسز پر عالمی ادارہ صحت کی اہم ہدایت

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے فائزر کی کرونا ویکسین کے حوالے سے تشویش پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے مضر اثرات کا جائزہ لیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں فائزر کی کرونا ویکسین کے بڑے پیمانے پر استعمال کے آغاز کے بعد دو لوگوں میں الرجی کا شدید ردعمل ہوا تھا جس کے بعد برطانیہ کی سرکاری ریگولیٹری ایجنسی نے مزید تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی ترجمان مارگریٹ ہیرس نے کہا ہے کہ فائزر کی ویکسین کے مضر اثرات کے حوالے سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کرونا ویکسین کی متعدد امیدوار کمپنیاں موجود ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی ایک قسم کی ویکسین مخصوص افراد کے لیے مناسب نہیں ہے، تو انہیں کوئی اور مناسب ویکسین مل سکتی ہے۔

    دوسری جانب امریکی فوڈ اور ڈرگ اتھارٹی کے مشیروں نے جمعرات کو فائزر کی ویکسین ایمرجنسی میں استعمال کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے جس کے بعد امریکی حکومت کے لیے ویکسین کی منظوری کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی ترجمان کا کہنا ہے کہ ویکسین کی امیداوار کمپنیوں سے حاصل کردہ تیسرے ٹرائل کے ڈیٹا کا جائزہ لیا جا رہا ہے، فی الحال کسی بھی ویکسین کی ایمرجنسی صورتحال میں استعمال کی منظوری نہیں دی گئی۔

    ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ ویکسین کا انسانوں کے لیے محفوظ ہونا ہی عالمی ادارہ صحت کی اولین ترجیح ہے۔

    روئٹرز کے مطابق ویکسین لگانے کے باقاعدہ آغاز کے بعد اینافیلیکسس الرجی کے 2 کیسز سامنے آنے پر دیگر ممالک نے برطانیہ سے اس بارے میں معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    اینافیلیکسس جسم کے مدافعتی نظام کا شدید ردعمل ہے جو ماہرین صحت کے مطابق جان لیوا بھی ہو سکتا ہے، سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اس نوعیت کے الرجی کے ردعمل انتہائی کم واقع ہوتے ہیں، تاہم بڑے پیمانے پر ویکسین لگائے جانے کے دوران ایسا ہونا غیر معمولی نہیں ہے۔

    ویکسین کے منفی اثرات سامنے آنے کے بعد برطانیہ کی سرکاری ریگولیٹری ایجنسی ایم ایچ آر اے (میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی) نے ہدایت جاری کرتے ہوئے ان افراد کو ویکسین لگوانے سے گریز کرنے کا کہا ہے کہ جو کسی موقع پر بھی اینافیلیکسس کے الرجک رد عمل سے گزر چکے ہوں۔

    ایم آر ایچ اے نے تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ویکسین کے حوالے سے مزید معلومات اکھٹی کی جا رہی ہیں جن کی بنیاد پر حفاظتی تجاویز شائع کی جائیں گی۔

    ایم آر ایچ اے نے مزید کہا ہے کہ انتہائی کم کیسز میں ویکسین کے اس نوعیت کے مضر اثرات واقع ہوتے ہیں، اکثر افراد میں اینافیلیکسس کا الرجک ردعمل نہیں ہوگا، تاہم ویکسین کے فائدے اس کے خطرات سے کہیں زیادہ ہیں۔

    اس سے قبل ایم آر ایچ اے نے خبردار کیا تھا کہ اگر کسی بھی شخص میں ادویات، خوارک یا ویکسین کے بعد اینافیلیکسس کا ری ایکشن ہوا ہے تو وہ فائزر کی ویکسین نہ لگوائیں۔ تاہم ایم آر ایچ اے کے مشیر ڈاکٹر پال ٹرنر کا کہنا ہے کہ خوراک کی وجہ سے اتنا شدید ردعمل ممکن نہیں ہے، یہ فائزر ویکسین میں موجود پولی ایتھلین نامی جزو کی وجہ سے ممکنہ طور پر ہو سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پولی ایتھلین ویکسین کی خوارک کو مستحکم کرنے کا کردار ادا کرتا ہے جو دیگر ویکسینز میں موجود نہیں ہوتا۔

  • کورونا ویکسین : عالمی ادارہ صحت نے خوشخبری سنادی

    کورونا ویکسین : عالمی ادارہ صحت نے خوشخبری سنادی

    عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کی ویکسین سے متعلق سائنسی دعووں کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ویکسین کے نتائج ممکنہ طور پر ’گیم چینجر‘ ثابت ہو سکتے ہیں۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے علاقائی ڈائریکٹر برائے یورپ نے کہا ہے کہ ویکسین کے ذریعے موجودہ حالات میں خاطر خواہ تبدیلی آنے کا امکان ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر ہانس کلیوج نے جمعرات کو بریفنگ کے دوران ویکسین سے متعلق سائنسدانوں کے دعووں کو حیران کن قرار دیا ہے۔

    ڈاکٹر ہانس کلیوج کا کہنا تھا کہ ابتدائی مراحل میں ویکسین کی سپلائی انتہائی محدود ہونے کے باعث ممالک کو اپنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔

    انہوں نے کہا کہ بڑھتے ہوئے اتفاق رائے کے مطابق عمر رسیدہ افراد اور طبی عملے کے علاوہ پیچیدہ امراض کا شکار افراد کو سب سے پہلے ویکسین لگنی چاہیے۔

    واضح رہے کہ برطانیہ نے امریکی دواساز کمپنی فائزر کی جانب سے تیار کی جانے والی کورونا ویکسین استعمال کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اس پیشرفت کے بعد برطانیہ ویکیسن استعمال کرنے کی اجازت دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔

    برطانیہ کی جانب سے پہلے ہی چار کروڑ خوراکوں کا آرڈر دیا جا چکا ہے جو دو کروڑ آبادی کو فی کس دو خوراکیں مہیا کرنے کے لیے کافی ہے تاہم امریکہ اور یورپ نے فائزر کمپنی کی ویکسین کے استعمال کی فی الحال منظوری نہیں دی۔

    عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ روز بدھ کو کہا تھا کہ وہ فائزر اور موڈرنا کی ویکسین کے حوالے سے ملنے والے ڈیٹا کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ ایمرجنسی کے دوران اس ویکسین کا استعمال ممکن بنایا جا سکے۔

  • کورونا ماسک کب اور کیسے پہنا جائے؟ عالمی ادارہ صحت نے بتا دیا

    کورونا ماسک کب اور کیسے پہنا جائے؟ عالمی ادارہ صحت نے بتا دیا

    نیو یارک : عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے لیے فیس ماسک کے استعمال کے لیے حوالے سے نئی سفارشات جاری کی ہیں۔

    اس سے قبل عالمی ادارے نے رواں سال جون میں فیس ماسک کے حوالے سے سفارشات جاری کرتے ہوئے حکومتوں پر زور دیا تھا کہ عوامی مقامات کے اندر اور باہر ہر ایک کو فیس ماسک استعمال کرایا جائے، بالخصوص ان حصوں میں جہاں وائرس کا خطرہ زیادہ ہے۔

    اب کورونا وائرس کی دوسری لہر میں تیزی آئی ہے، جس کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے زیادہ تفصیلی سفارشات جاری کی ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او نے ان سفارشات میں کہا ہے کہ جن علاقوں میں یہ وائرس پھیل رہا ہے، وہاں12 سال یا اس سے زائد عمر کے تمام افراد فیس ماسک کو دکانوں، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں ہوا کی نکاسی کا نظام ناقص ہونے کی صورت میں لازمی استعمال کریں۔

    سفارشات کے مطابق ایسے مقامات جہاں ہوا کی نکاسی کا نظام اچھا نہیں وہاں گھروں کے اندر بھی مہمانوں کے آنے پر فیس ماسک کا استعمال کیا جائے۔

    سفارشات میں کہا گیا کہ باہر اور ہوا کی اچھی نکاسی والے مقامات کے اندر بھی فیس ماسک کو اس وقت لازمی استعمال کیا جائے گا جب کم از کم ایک میٹر تک جسمانی دوری کو برقرار رکھنا ممکن نہ ہو۔

    ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ فیس ماسک بیماری کی بجائے وائرس کے پھیلاؤ سے تحفظ فراہم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ دیگر احتیاطی تدابیر جیسے ہاتھ دھونے پر بھی عمل کیا جانا چاہیے۔

    عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ وہ علاقے جہاں کووڈ 19 پھیل رہا ہے، وہاں طبی مراکز میں ہر ایک کو میڈیکل ماسکس کا استعمال کرنا چاہیے۔

    اس پابندی کا اطلاق ان مراکز میں آنے والے افراد، معمولی حد تک بیمار، کیفے ٹیریا اور عملے کے کمروں میں بھی ہونا چاہیے۔

    عالمی ادارے نے کہا کہ طبی عملے کو کووڈ 19 کے مریضوں کی دیکھ بھال کے دوران ممکن ہو تو این 95 ماسک کا استعمال کرنا چاہیے۔

    سفارشات میں مزید کہا گیا کہ سخت جسمانی مشقت کرنے والوں کو فیس ماسک پہننے سے گریز کرنا چاہیے بالخصوص دمہ کے مریضوں کو، کیونکہ ان کو چند خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    عالمی ادارے کے مطابق جم میں ہوا کی مناسب نکاسی، جسمانی دوری اور زیادہ چھوئی جانے والی اشیا کی صفائی کا خیال رکھا جانا چاہیے یا عارضی طور پر بند کردینا چاہیے۔

    ڈبلیو ایچ او کی سفارشات اس وقت سامنے آئی ہیں جب گزشتہ ماہ امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) نے فیس ماسک کے حوالے سے اپنی سفارشات کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کپڑے کے فیس ماسک درحقیقت دوطرفہ تحفظ فراہم کرتے ہیں، یعنی پہننے والے اور اس کے ارگرد موجود افراد دونوں کو۔

    امریکی ادارے نے اپنی گائیڈلائنز میں کہا کہ دیگر افراد کے منہ سے خارج ہوکر ہوا میں موجود وائرل ذرات سے کپڑے کے ماسک پہننے والوں کو تحفظ ملتا ہے۔

    سی ڈی سی نے کہا کہ متعدد تہیں اور دھاگوں کی زیادہ تعداد والے کپڑے کے ماسک ۔ایک تہہ اور کم دھاگے والے ماسک کووڈ 19 سے زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

    ادارے کے مطابق کچھ کیسز میں تو یہ ماسک ہوا میں موجود لگ بھگ 50 فیصد چھوٹے ذرات کو بھی فلٹر کردیتے ہیں۔ نئی گائیڈلائنز میں سی ڈی سی نے فیس ماسکس کے دوطرفہ تحفظ کے لیے متعدد تحقیقی رپورٹس کا حوالہ دیا۔

    سی ڈی سی کا کہنا تھا کہ فیس ماسک کے فوائد اس وقت بڑھتے ہیں جب کسی برادری کے زیادہ تر افراد ان کا استعمال کریں۔ ادارے کے بقول درحقیقت فیس ماسک کا استعمال لازمی بناکر مستقبل میں لاک ڈاؤنز سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے، جس کے ساتھ

    دیگر احتیاطی تدابیر سماجی دوری، ہاتھوں کی صفائی اور ہوا کی نکاسی کے مناسب نظام کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ اس سے قبل متعدد تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ فیس ماسک کا استعمال لازمی قرار دینے سے نئے کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی آتی ہے۔

    فیس ماسک کیوں ضروری ہے؟

    اگر آپ کو معلوم نہ ہو تو جان لیں کہ کورونا وائرس کے بیشتر کیسز ایسے ہوتے ہیں جن میں متاثرہ افراد میں علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں یا کئی دن بعد نظر آتی ہیں۔

    مگر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کے مریض علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی اس بیماری کو دیگر صحت مند افراد میں منتقل کرسکتے ہیں، اب وہ کھانسی، چھینک کے ذرات سے براہ راست ہو یا ان ذرات سے آلودہ کسی ٹھوس چیز کو چھونے کے بعد ہاتھ کو ناک، منہ یا آنکھوں پر لگانے سے۔

    ماہرین کے مطابق یہ واضح ہوچکا ہے کہ گھر سے باہر نکلنے پر فیس ماسک کے استعمال سے چین، جنوبی کوریا، جاپان اور دیگر ممالک میں کیسز کی شرح میں کمی لانے میں مدد ملی۔ درحقیقت فیس ماسک سے صرف آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو بھی تحفظ ملتا ہے۔

    منہ کو ڈھانپنا ایسی رکاوٹ کا کام کرتا ہے جو آپ کو اور دیگر کو وائرل اور بیکٹریل ذرات سے تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ بیشتر افراد لاعلمی میں دیگر افراد کو بیمار کردیتے ہیں یا کھانسی یا چیزوں کو چھو کر جراثیم پھیلا دیتے ہیں۔

    امریکی ادارے سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ ریڈفیلڈ کے مطابق ہوسکتا ہے کہ آپ کورونا وائرس سے متاثر ہوں اور علامات محسوس نہ ہوں مگر پھر بھی آپ وائرس کی منتقلی میں کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فیس ماسک کا استعمال ایک اچھا خیال ہے۔

  • ہالیڈے کے بعد امریکیوں کی گھروں کو واپسی پر کرونا کیسز میں اضافے کا خدشہ

    ہالیڈے کے بعد امریکیوں کی گھروں کو واپسی پر کرونا کیسز میں اضافے کا خدشہ

    واشنگٹن: کو وِڈ 19 کی دوسری لہر میں امریکا میں خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے، تھینکس گیونگ ہالیڈے کے بعد لاکھوں امریکیوں کی گھروں کو واپسی کے بعد کو وِڈ کیسز میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کی دوسری لہر نے بھی امریکا کو لپیٹ میں لے لیا ہے، تھینکس گیونگ ہالی ڈے کے موقع پر ایک بار پھر کرونا کیسز میں بڑا اضافہ ہو سکتا ہے۔

    نیویارک کے میئر نے 7 دسمبر سے سرکاری اسکول کھولنے کا اعلان کر دیا ہے، حالاں کہ نیویارک میں کیسز 3 فی صد سے زیادہ ہونے پر اسکول 2 ہفتے قبل بند کیےگئے تھے۔

    دوسری طرف برطانیہ میں ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے طلبہ پر اب تک ایک لاکھ 70 ہزار پاؤنڈ جرمانہ کیا جا چکا ہے، برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پابندیوں پر مؤثر عمل نہ ہوا تو سالِ نو میں تیسری لہر کا سامنا ہو سکتا ہے، برطانیہ نے وبا سے اپنے شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کو وِڈ 19 موڈرنا ویکسین کی مزید 20 لاکھ خوراکیں حاصل کر لی ہیں۔

    ادھر فرانس میں عدالت نے گرجا گھروں میں 30 سے زیادہ افراد کے اجتما ع پر پابندی میں نرمی کا حکم جاری کر دیا ہے۔ آسٹریلین ریاست وکٹوریہ میں ایک ماہ میں نیا کیس نہ آنے پر پابندیوں میں نرمی کا فیصلہ کر لیا گیا۔ جمہوریہ چیک میں وبا میں کمی پر جمعرات سے ریسٹورنٹس اور دیگر کاروبار کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    ہانگ کانگ میں 4 ماہ بعد نئے کیسز کی بلند ترین سطح کے ساتھ 115 نئے کیسز سامنے آ گئے۔ ترکی میں کو وِڈ 19 سے اموات میں مسلسل چوتھے روز بھی اضافہ جاری ہے، 24 گھنٹوں کے دوران مزید 185 افراد لقمہ اجل بن گئے۔

    لبنان نے کرسمس سے قبل کو وِڈ 19 سے متعلقہ پابندیوں میں نرمی کا اعلان کر دیا ہے، لبنان میں 2 ہفتے قبل سخت قواعد و ضوابط لاگو کیے گئے تھے، ریسٹورنٹس کو نصف گنجائش کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے، تاہم نائٹ کلبز اور بار بند رہیں گے۔

    کو وِڈ کیسز میں اضافے کے باعث عالمی ادارہ صحت نے غزہ کے لیے 15 وینٹی لیٹرز کا عطیہ بھیج دیا ہے۔