Tag: WHO

  • کرونا وائرس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ ڈبلیو ایچ او نے اہم قدم اٹھا لیا

    کرونا وائرس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ ڈبلیو ایچ او نے اہم قدم اٹھا لیا

    جنیوا: کرونا وائرس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش نے پتا لگانے کی ٹھان لی ہے، اور ایک بار پھر چین پر دباؤ ڈالنے لگا ہے۔

    فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے بیجنگ پر زور دیا ہے کہ وہ کووِڈ 19 کی ابتدا کے بارے میں مزید معلومات پیش کرے، ٹیڈروس ایڈھانوم گیبرئیس نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ادارہ دوسری ٹیم بھیجنے کے لیے تیار ہے۔

    وبا کو 3 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم ابھی تک یہ علم نہیں ہو سکا ہے کہ کووِڈ نائنٹین وائرس انسانوں میں کیسے منتقل ہوا، چین کے شہر ووہان میں پہلے کیسز سامنے آنے کے باوجود ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس وائرس کا ماخذ کیا ہے۔

    ٹیڈروس نے کہا ’’مکمل رسائی حاصل کرنے کے لیے ہم چین پر دباؤ ڈال رہے ہیں، اور ہم دیگر ممالک سے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی دوطرفہ ملاقاتوں میں اس معاملے کو اٹھائیں تاکہ بیجنگ پر تعاون کے لیے دباؤ پڑے۔‘‘

    انھوں نے کہا ’’ہم بیجنگ سے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ تحریری طور پر ہمیں معلومات فراہم کرے، اور اگر وہ ہمیں اجازت دیں تو ہم وہاں ایک ٹیم بھیجنے کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘

    امریکا نے فائزر اور موڈرنا کی اپ ڈیٹ کرونا ویکسینز کی منظوری دے دی

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے امید ظاہر کی ہے کہ چین اس سلسلے میں تعاون کرے گا۔ واضح رہے کہ کرونا کیسز میں ایک بار پھر اضافے کے بعد کرونا کی ویکسینز کو اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے، اور اگرچہ سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا اب اس وبائی مرض کے شدید مرحلے سے نکل چکی ہے، تاہم عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ انتہائی تبدیل شدہ BA.2.86 اور دیگر ذیلی اومیکرون اقسام کی نگرانی میں اضافہ کرنا چاہیے۔

    ڈبلیو ایچ او کے سربراہ طویل عرصے سے چین پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ کرونا وائرس کے ماخذ کے بارے میں اپنی معلومات کا اشتراک کرے، کیوں کہ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس سلسلے میں مفروضوں پر بات ہوتی رہے گی، اور مختلف نظریات تقویت پکڑتے رہیں گے۔ اس وائرس کی شناخت پہلی بار دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں ہوئی تھی، بہت سے لوگوں کو شبہ ہے کہ یہ سب سے پہلے زندہ جانوروں کی منڈی میں پھیلا تھا، اور اس کے بعد اس نے دنیا بھر میں تقریباً 70 لاکھ افراد مار دیے۔

  • کوورنا کا نئی قسم : عالمی ادارہ صحت نے دنیا کو خبردار کردیا

    کوورنا کا نئی قسم : عالمی ادارہ صحت نے دنیا کو خبردار کردیا

    عالمی ادارہ صحت نے کورونا کے نئے ویرینٹ ایرس کے حوالے سے دنیا کو خبردار کردیا، ڈبلیو ایچ او نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ کورونا کی احتیاطی تدابیر کو برقرار رکھا جائے۔

    ایرس نامی کورونا کے نئے ویرینٹ میں بظاہر دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ بیماری قوت مدافعت کے خلاف بھی مزاحمت کرسکتی ہے تاہم یہ نئی قسم زیادہ سنگین علامات کا باعث نہیں بنتی۔

    ماہرین صحت نے اومیکرون ویرینٹ کے ’’ای جی فائیو ایرس‘‘ ذیلی قسم کی طرف اشارہ کیا ہے جو پہلی بار نومبر 2021 میں ظاہر ہوا تھا۔

    حالیہ رپورٹ کے مطابق متحدہ امریکہ، یورپ اور ایشیا میں کوویڈ 19 کے انفیکشن اور ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے وضاحت کی ہے کہ ای جی فائیو کی دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ قریب سے نگرانی کی جانی چاہیے کیونکہ یہ زیادہ متعدی یا شدید ہوسکتا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے ممالک کو متنبہ کیا کہ کورونا کی نئی ذیلی قسم ایرس جس میں تقریباً اومیکرون جیسی علامات ہیں، کا اب تک 51 ممالک میں پتہ چلا ہے۔

  • انسانوں میں برڈ فلو پھیلنے کی شرح خطرناک ہوگئی

    انسانوں میں برڈ فلو پھیلنے کی شرح خطرناک ہوگئی

    پرندوں میں پھیلنے والی بیماری برڈ فلو انسانوں میں بھی خطرناک شرح سے پھیلنا شروع ہوگئی ہے جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ برڈ فلو کے انسانوں میں بڑھتے کیسز تشویش ناک ہیں، ڈبلیو ایچ او نے یہ بیان کمبوڈیا میں وائرس سے متاثرہ 11 سالہ لڑکی کی موت کے بعد جاری کیا ہے۔

    کمبوڈیا کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ مرنے والی لڑکی کے والد کا وائرس کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے جس سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ برڈ فلو انسانوں کو ایک دوسرے سے لگ سکتا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے وبا اور اس سے نمٹنے کی تیاریوں کے پروگرام کے ڈائریکٹر سلوی بریانڈ نے بتایا کہ ان کا ادارہ کمبوڈیا میں حکام سے قریبی رابطے میں ہے اور مرنے والے لڑکی کے قریبی افراد کے ٹیسٹ کروائے گئے ہیں۔

    جنیوا میں پریس کانفرنس میں ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس وقت یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ انسانوں میں ایک دوسرے سے پھیلا یا پھر متاثرہ تمام افراد اس خاص ماحول کا حصہ رہے جہاں وائرس تھا۔

    ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انسانوں میں یہ وائرس پایا جائے، عام طور پر متاثرہ پرندوں سے براہ راست رابطے میں آنے والے افراد برڈ فلو کا شکار ہوتے ہیں۔

    سنہ 2021 کے اواخر میں جب یہ وائرس دنیا بھر میں پھیلا تھا اور دسیوں لاکھ مرغیوں کو تلف کیا گیا، اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں جنگلی پرندے ہلاک ہوئے۔ یہ وائرس بعد ازاں دیگر دودھ پلانے والوں جانوروں تک بھی پھیلتا گیا۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ عالمی طور پر برڈ فلو کا پھیلاؤ پریشان کن ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں پرندوں کے بعد اب دیگر جانوروں اور انسانوں میں بھی پایا جا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او اس خطرے کو سنجیدگی سے دیکھتا ہے اور دنیا کے تمام ملکوں کی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے، ان کا کہنا تھا کہ انسانوں میں اس وائرس سے اموات کی شرح 50 فیصد ہے۔

  • ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے حکومت کا شعبہ صحت سے متعلق ملک گیر سروے کرانے کا فیصلہ

    ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے حکومت کا شعبہ صحت سے متعلق ملک گیر سروے کرانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: حکومت نے ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے شعبہ صحت سے متعلق ملک گیر سروے کرانے کا فیصلہ کیا ہے، عالمی ادارے اور تنظیمیں جے ای ای سروے نتائج کی بنیاد پر مختلف ممالک کو فنڈنگ فراہم کرتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے صحت کے شعبے سے متعلق ملک گیر سروے کرانے کا فیصلہ کر لیا، سروے کے دوران وبائی و غیر متعدی امراض کی تشخیص اور تدارک کی حکومتی صلاحیت کی جانچ کی جائے گی۔

    وزارت قومی صحت کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ’جوائنٹ ایکسٹرنل ایویلوایشن‘ نامی ملک گیر سروے عالمی ادارہ صحت کے اشتراک سے کرایا جائے گا، پاکستان کی درخواست پر ہونے والے سروے کے لیے 50 کروڑ سے زائد فنڈز عالمی ادارہ صحت فراہم کر رہا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جوائنٹ ایکسٹرنل ایویلوایشن سروے کے لیے پاکستانی ماہرین کی ٹریننگ جاری ہے، اسلام آباد میں ڈبلیو ایچ او ایمرو ریجن کے ماہرین ملک بھر سے آئے پاکستانی ماہرین صحت کو سروے سے متعلق تربیت فراہم کر رہے ہیں۔

    تربیت یافتہ پاکستانی ماہرین بارڈرز اور اندرن ملک لائیو اسٹاک سمیت شعبہ صحت کے 19 ایریاز اور وبائی و غیر متعدی امراض کی تشخیص اور تدارک سے متعلق حکومتی صلاحیتوں کی جانچ کر کے رپورٹ تیار کر یں گے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین دوبارہ ٹریننگ کے لیے مارچ میں پاکستان آئیں گے، عالمی ادارہ صحت کے ماہرین آئندہ ماہ پاکستانی ٹیموں کے ہمراہ ملک گیر سروے کا حصہ بنیں گے۔

    وزارت قومی صحت جے ای ای سروے رپورٹ ڈبلیو ایچ او کو پیش کرے گی، ذرائع کے مطابق یہ سروے انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کے تحت منعقد کیا جاتا ہے، عالمی ادارے اور تنظیمیں جے ای ای سروے نتائج کی بنیاد پر مختلف ممالک کو فنڈنگ فراہم کرتی ہیں۔

    ذرائع کے مطابق پاکستان جوائنٹ ایکسٹرنل ایویلوایشن سروے کرانے والا دنیا کا چوتھا ملک ہوگا، پاکستان کو 2016 میں ہونے والے جے ای ای سروے میں 46 پوائنٹس ملے تھے۔

  • عالمی ادارہ صحت کا کرونا وائرس کے حوالے سے اہم بیان

    عالمی ادارہ صحت کا کرونا وائرس کے حوالے سے اہم بیان

    گزشتہ 3 سال سے دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے بے شمار پابندیاں نافذ ہیں جن میں اب نرمی ہورہی ہے، اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے اہم اعلان کیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے واضح کیا ہے کہ تین سال گزر جانے کے باوجود اب بھی کرونا وائرس عالمی ایمرجنسی ہے مگر رواں سال کے اختتام تک اس کے ایمرجنسی کے خاتمے کا امکان ہے۔

    دنیا بھر میں کرونا کے کم ہوتے کیسز کے پیش نظر حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے اس کے ہنگامی حالات کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے سے متعلق اہم اجلاس بلایا، جس میں صورتحال کی سنگینی کا جائزہ لیا گیا۔

    کرونا کا آغاز دسمبر 2019 میں چین سے ہوا تھا، جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے جنوری 2020 میں کورونا کو گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا تھا۔

    بعد ازاں وبا میں تیزی کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے کرونا کو مارچ 2020 میں عالمی وبا قرار دیا تھا، جس کے بعد دنیا بھر میں اس سے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کیے گئے، لاک ڈاؤن نافذ کیے گئے، سفری پابندیاں عائد کی گئیں اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے پر مجبور کیا گیا۔

    گزشتہ تین سال سے تاحال دنیا کے متعدد ممالک میں کرونا سے تحفظ کے لیے لاک ڈاؤن سمیت دیگر بعض پابندیاں نافذ ہیں مگر دنیا بھر کے لوگوں کا خیال ہے کہ اب کرونا ختم ہوچکا۔

    تاہم اب عالمی ادارہ صحت نے واضح کیا ہے کہ کرونا اب بھی عالمی ایمرجنسی ہے مگر اس میں ماضی کے مقابلے میں بہت تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں اور انہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ رواں سال کے اختتام تک کرونا عالمی ایمرجنسی نہیں رہے گا۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ اب بھی کرونا عالمی ایمرجنسی ہی ہے۔

    ادارے کے مطابق کرونا اس وقت تبدیلی کے مراحل سے گزر رہا ہے، جس وجہ سے اس پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ مزید نہ پھیلے۔

    حکام کے مطابق کورونا پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر میں اٹھائے گئے اقدامات اور اس سے بچاؤ کی ویکسینز کی فراہمی کے بعد اس میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور اس کی حالیہ تبدیلیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ رواں سال کے اختتام تک کرونا عالمی ایمرجنسی نہیں رہے گا۔

    ادارے نے واضح کیا کہ کرونا کے عالمی ایمرجنسی رہنے یا نہ رہنے سے متعلق فوری طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا، تاہم اس وقت اسے پھیلنے سے روکنا اہم ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کرونا سے متعلق حالیہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں کرونا کی قسم اومیکرون کی مزید نئی قسمیں سامنے آئی ہیں۔

    اس وقت کرونا سب سے زیادہ چین میں پھیل رہا ہے جبکہ امریکا میں حالیہ کچھ ہفتوں میں وہاں کرونا کی قسم اومیکرون کی نئی قسم کے پھیلنے میں تیزی دیکھی گئی ہے۔

    کرونا سے اس وقت دنیا بھر میں 70 لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ اس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک جا پہنچی ہے۔

  • اومیکرون کی نئی قسم سب سے زیادہ پھیلنے والی قرار

    اومیکرون کی نئی قسم سب سے زیادہ پھیلنے والی قرار

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا اومیکرون کی نئی قسم ایکس بی بی 1.5 کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے واضح کیا ہے کہ کرونا اومیکرون کی نئی قسم ایکس بی بی 1.5 اب تک کی سب سے تیزی سے پھیلنے والی قسم ہے، تاہم یہ لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    ایکس بی بی 1.5 اومیکرون کی قسم ایکس بی بی ون سے تبدیل شدہ قسم ہے جو چند ماہ سے دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    اس وقت ایکس بی بی 1.5 کی قسم سب سے زیادہ امریکا میں پھیل رہی ہے، تاہم یہ قسم دنیا کے دیگر 29 ممالک میں بھی موجود ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے عہدیداروں کے مطابق اب تک کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایکس بی بی 1.5 تیزی سے پھیلنے والی اومیکرون کی نئی قسم ہے مگر ڈیٹا سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہ قسم لوگوں کو زیادہ بیمار نہیں بنا رہی۔

    ساتھ ہی ادارے نے واضح کیا کہ جلد ہی ایکس بی بی 1.5 کے اثرات اور اس کے کیسز کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جاری کی جائے گی مگر دستیاب ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم میں مبتلا افراد زیادہ بیمار نہیں ہو رہے۔

    ساتھ ہی ڈبلیو ایچ او کے عہدیداروں نے کرونا سے ہونے والی انتہائی کم اموات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ممکنہ طور پر نئی قسم سے بھی اموات کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا، کیوں کہ کرونا سے بچاؤ کے اقدامات کام کر رہے ہیں۔

    ادارے کے عہدیداروں کے مطابق اب تک ایکس بی بی 1.5 کے کیسز 29 ممالک میں رپورٹ ہو چکے ہیں، تاہم یہ قسم سب سے زیادہ امریکی ممالک میں پھیل رہی ہے اور امریکا میں ہر ہفتے اس کے کیسز میں دگنا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایکس بی بی 1.5 اومیکرون کی دو قسموں یعنی ایکس بی بی اور ایکس بی بی ون کی تبدیل شدہ قسم ہے۔ ایکس بی بی اور ایکس بی بی ون کے کیسز پاکستان میں بھی رپورٹ ہو چکے ہیں، تاہم تاحال پاکستان میں ایکس بی بی 1.5 کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

    اس وقت دنیا بھر میں ایکس بی بی کی تینوں اقسام کے علاوہ چین میں بی بی ایف سیون کی قسم بھی پھیل رہی ہے۔

    بی بی ایف سیون اومیکرون کی پہلے سے موجود بی اے 5.2.1.7 اور بی اے فائیو قسموں کی تبدیل شدہ قسم ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں اومیکرون کی متعدد قسمیں سامنے آ چکی ہیں، جن میں عام قسمیں درج ذیل ہیں۔

    بی اے ون ۔ بی اے ٹو ۔ بی اے تھری ۔ بی اے فور ۔ بی اے فائیو

    بی اے ۔4 ۔ بی اے ۔5 ۔ بی اے ۔3

    بی کیو ون ۔ بی کیو 1۔1 ۔ ایکس ای

    بی اے 12۔2 ۔ بی اے 75۔2 ۔ بی اے 2۔75۔2 ۔ بی بی ایف سیون

    ایکس بی بی ۔ ایکس بی بی ون ۔ ایکس بی بی 1.5

  • ایک اور وبا پھیلنے کا خطرہ : عالمی ادارہ صحت نے خبردار کردیا

    ایک اور وبا پھیلنے کا خطرہ : عالمی ادارہ صحت نے خبردار کردیا

    جنیوا : عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے تیس ممالک میں موذی مرض کی وباء تیزی سے پھیل رہی ہے، اس کا سب سے بڑا سبب موسمیاتی تبدیلی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ایک عہدیدار نے جنیوا کے مرکزی دفتر میں پریس بریفنگ کے دوران بتایا ہے کہ خطہ افریقہ کے 30 ممالک اور ہیٹی میں ہیضے کی وباء کے پھیلاؤ میں شدت اور تیزی کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔

    موسمی تبدیلیاں امسال ہیضے کی وبا کو کہیں زیادہ موذی اور جان لیوا بنا نے کا سبب بن رہی ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال اوسطاً 13 لاکھ سے40 لاکھ کے درمیان ہیضے کے کیسز سامنے آتے ہیں اور ہیضے کی وجہ سے 21,000 سے 143,000 کے درمیان اموات واقع ہوتی ہیں۔

    ہیضہ اور اسہال جیسی بیماریوں کی تحقیقات کرنے والی ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کے سربراہ فلپ باربوزا نے کہا کہ ہیضے کی وباء میں اضافہ مکمل طور پر غیرمعمولی ہے۔ وسیع پیمانے پھیلنے والی یہ وباء پچھلے سالوں کے مقابلے میں زیادہ مہلک ہے۔

    ہیضے کی وبا کے کیسز اور اموات میں ہونے والا اضافہ گزشتہ چند سالوں میں کمی کے بعد دیکھا گیا ہے کے حوالے سے باربوزا نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں اس بیماری کے پھیلاؤ اور اموات میں اضافے میں براہ راست اثر انداز ہورہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ امسال لبنان، صومالیہ اور نائجیریا کے مہاجر کیمپوں میں بھی ہیضے کی وبا پھیلی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے افسر نے بتایا ہے کہ ہیضے کی وبا واضح طور پر غربت اور عدم تحفظ کے ماحول سے تعلق رکھتی ہے۔

  • کیا کرونا وبا ختم ہو گئی ہے؟ عالمی ادارہ صحت کی وضاحت جاری

    کیا کرونا وبا ختم ہو گئی ہے؟ عالمی ادارہ صحت کی وضاحت جاری

    کیا کرونا وبا ختم ہو گئی ہے؟ عالمی ادارہ صحت نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا اب بھی ایک ’گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی‘ ہے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا کے جلد ختم ہونے کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تین سال قبل شروع ہونے والی وبا ابھی تک صحت کا عالمی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

    دنیا بھر کے لوگوں کا خیال ہے کہ اب کرونا ختم ہو چکا ہے، روئٹرز کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے کرونا وبا کے خاتمے کا سوچنے والے افراد پر واضح کیا ہے کہ دنیا کے بعض خطوں میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کرونا وبا ختم ہو چکی ہے لیکن ایسا نہیں، یہ اب بھی گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی بنی ہوئی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی ’ایمرجنسی‘ کمیٹی نے واضح کیا کہ تاحال کرونا دنیا کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے، اس کے ختم ہونے کے خیالات درست نہیں۔

    یاد رہے کہ کرونا وبا کا آغاز دسمبر 2019 میں چین سے ہوا تھا، جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے فروری 2020 میں کرونا کو ’گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی‘ قرار دے دیا تھا۔ بعد ازاں وبا میں تیزی کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے کرونا وبا کو مارچ 2020 میں عالمگیر وبا قرار دے دیا۔

    اس کے بعد دنیا بھر میں کرونا وائرس سے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کیے گئے، لاک ڈاؤن نافذ کیے گئے، سفری پابندیاں عائد کی گئیں اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے پر مجبور کیا گیا۔

    گزشتہ تین سال سے تاحال دنیا کے متعدد ممالک میں کرونا سے تحفظ کے لیے لاک ڈاؤن سمیت دیگر بعض پابندیاں نافذ ہیں۔

    وبا کے آغاز سے لے کر اب تک دنیا بھر میں کرونا وائرس انفیکشن سے 63 کروڑ 15 لاکھ 41 ہزار 300 افراد متاثر ہو چکے ہیں، جب کہ وائرس نے 65 لاکھ 77 ہزار انسانوں کی جانیں نگلی ہیں۔

  • خطۂ بحیرۂ روم شرقی میں صحت کے حوالے سے بڑی سرگرمی

    خطۂ بحیرۂ روم شرقی میں صحت کے حوالے سے بڑی سرگرمی

    قاہرہ: خطۂ بحیرۂ روم شرقی میں صحت کے حوالے سے بڑی سرگرمی شروع ہو گئی، وزیر صحت قادر پٹیل عالمی ادارہ صحت ایسٹ میڈیٹیرینین ریجن کی 69 ویں کانفرنس میں شرکت کے لیے قاہرہ پہنچ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے وزیر صحت قادر پٹیل نے قاہرہ میں سربراہ ڈبلیو ایچ او سے ملاقات کی، انھوں نے کہا کہ وہ کانفرنس میں دنیا کو پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے آگاہ کریں گے۔

    وزارت قومی صحت کے ترجمان کے مطابق قاہرہ میں ہونے والی ڈبلیو ایچ او ایمرو ریجن کی انہتر ویں کانفرنس میں سعودی عرب اور کویت سمیت َخلیجی اور افریقی ممالک کے وزرائے صحت  شریک ہوں گے۔

    ڈبلیو ایچ او کے علاقائی سربراہ حمد المندہاری نے ایمرو ریجن کے وزرائے صحت کو پاکستان میں سیلاب پر بریفنگ  دی، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، ڈبلیو ایچ او سیلاب متاثرین کے لیے بھرپور امداد فراہم کر رہا ہے، مشکل کی اس گھڑی میں علاقائی ممالک بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

    کانفرنس کے دوران علاقائی صحت عامہ کو درپیش ہنگامی صورت حال سمیت حفاظتی ویکسین سے متعلقہ امور زیر غور آئیں گے۔ ترجمان وزارت صحت کے مطابق کانفرنس کے دوران عالمی صحت عامہ سے متعلق مستقبل کی جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔

    کانفرنس کے موقع پر وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈھانوم اور ڈبلیو ایچ او کے علاقائی سربراہ احمد المندہاری سے ملاقات کی، جس می پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سمیت پولیو اور دیگر وبائی امراض کی صورت حال پر گفتگو کی گئی۔

    عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ سیلاب سے تین کروڑ سے زائد افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں، لاکھوں پاکستانیوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا سامنا ہے، سیلاب سے سندھ اور بلوچستان کے پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ سسٹم کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بچوں اور بوڑھے افراد سمیت ساڑھے چھ لاکھ سے زائد حاملہ خواتین موجود ہیں، جن کی محفوظ ڈیلیوری اور مناسب دیکھ بھال بڑا چیلنج ہے، تاہم حکومت پاکستان تمام تر چیلنجز کے باوجود سیلاب متاثرین کو ہر ممکن طبی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔

  • سیلاب زدہ علاقوں کے لیے مزید 81 ملین ڈالر امداد کی اپیل

    سیلاب زدہ علاقوں کے لیے مزید 81 ملین ڈالر امداد کی اپیل

    اسلام آباد: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر پلیتھا ماہی پالا کا کہنا ہے کہ عالمی برادری سے پاکستان کے لیے 81.5 ملین ڈالر امداد کی اپیل کی ہے، عالمی امداد سے متاثرہ علاقوں میں طبی سہولیات کو بہتر بنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر پلیتھا ماہی پالا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے پاکستان کے 84 اضلاع متاثر ہوئے ہیں، سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں، 1700 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 70 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔

    ڈاکٹر پلیتھا کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او سیلاب زدہ علاقوں میں اضافی طبی عملہ بھجوا رہا ہے، ماہرین 10 اکتوبر کو سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریں گے، ڈبلیو ایچ او سیلاب زدہ علاقوں کی مستقل مانیٹرنگ کر رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستانی ہیلتھ اسٹرکچر کی بہتری کے لیے اقدامات جاری ہیں، سیلاب زدہ علاقوں میں ایڈیشنل 330 ویکسی نیشن ٹیمز تشکیل دی ہیں، انسداد خسرہ ویکسی نیشن کے لیے بھی ٹیمز بنا دی گئی ہیں۔ پاکستان کو 9 ملین ڈالرز کی ادویات اور دیگر اشیا فراہم کر چکے ہیں۔ مراکز صحت کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر معاونت کریں گے۔

    ڈاکٹر پلیتھا کے مطابق سیلاب سے 2 ہزار سے زائد مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے، سیلاب زدہ علاقوں میں ہیلتھ ورکرز بہترین کام کر رہے ہیں۔ سیلاب کے دوران ہائی لیول ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا تھا، سیلاب سے سندھ اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں 5 ہزار سے زائد میڈیکل کیمپس قائم ہیں، میڈیکل کیمپس میں 30 لاکھ متاثرین کو طبی سہولیات فراہم کی گئی ہیں، سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض کا پھیلاؤ جاری ہے، ہیضہ، ملیریا، ڈینگی اور جلدی امراض میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ پاکستان میں دسمبر تک ملیریا کیسز 20 لاکھ تک پہنچ سکتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں غذائی قلت کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

    ڈاکٹر پلیتھا کا مزید کہنا تھا کہ عالمی برادری سے پاکستان کے لیے 81.5 ملین ڈالر امداد کی اپیل کی ہے، عالمی امداد سے متاثرہ علاقوں میں طبی سہولیات کو بہتر بنایا جائے گا۔ تاحال ڈبلیو ایچ او نے نصیر آباد، سکھر اور حیدر آباد میں آپریشنل حب قائم کیے ہیں، متاثرہ علاقوں میں 10 ایمرجنسی آپریشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔