Tag: WHO

  • پاکستان میں بیماریوں اور اموات کا خطرہ ہے، ڈبلیو ایچ او نے خبردار کر دیا

    پاکستان میں بیماریوں اور اموات کا خطرہ ہے، ڈبلیو ایچ او نے خبردار کر دیا

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں بیماریوں اور اموات کا سخت خطرہ لا حق ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹر ڈبلیو ایچ او ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا ہے کہ سیلاب کے بعد پاکستان میں بیماریوں اور اموات کی صورت میں دوسری آفت کا خطرہ ہے۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد بیماریوں کا سامنا ہے، ڈبلیو ایچ او 10 ملین ڈالر کے بعد امداد کے لیے نئی اپیل کرے گا۔ ٹیڈروس ایڈھانم نے کہا کہ عطیات دینے والوں سے زندگیاں بچانے کے لیے دل کھول کر امداد کی گزارش ہے۔

    ادھر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف نے بھی پاکستان میں ہنگامی امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب میں گھرے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

    یونیسیف کے مطابق تقریباً 34 لاکھ سیلاب زدہ بچے فوری امداد کے منتظر ہیں۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ سیلاب میں پھنسے بچوں کو بھوک کے ساتھ بیماریوں نے گھیر لیا ہے، ملیریا اور ڈینگی کے ساتھ پیٹ کے امراض ان پر حملہ آور ہیں۔

    یونیسیف نے کہا کہ بچے اور بچیاں اس موسمیاتی تباہی کی قیمت چکا رہے ہیں، جس میں وہ حصے دار ہی نہیں ہیں، سیلاب سے متاثرہ بچوں کی مائیں غذائی قلت کا شکار ہو کر دودھ پلانے سے بھی قاصر ہیں۔

    خیال رہے کہ سندھ میں سیلاب متاثرین کو بیماریوں نے جکڑ لیا ہے، خواتین اور بچے مختلف امراض کا شکار ہونے لگے ہیں، سرکاری اسپتال مریضوں سے بھر گئے، ڈاکٹرز اور دواؤں کی بھی کمی کا سامنا ہے۔

    جیکب آباد کے گاؤں پارو کھوسو کے متاثرین بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، ٹنڈو محمد خان میں سیلاب متاثرین حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔

    سیلاب کے بعد متاثرین کی بحالی ایک بڑا امتحان بن چکا ہے، بلوچستان میں متاثرین خوراک اور دواؤں کے لیے پریشان پھر رہے ہیں، اپنی چھت دوبارہ قائم کرنا جوئے شیر لانے جیسا ہو گیا، ریلیف کیمپوں میں بھی صحت کے مسائل سنگین ہو گئے، ڈائریا اور ہیضہ کے مریضوں میں ہولناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

    پینے کے پانی میں آلودگی کے باعث جلدی بیماریاں بھی جنم لینے لگی ہیں، متاثرین مدد کے منتظر ہیں اور حکومت سے اقدامات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

  • کرونا کی وبا کا خاتمہ قریب آ گیا: سربراہ عالمی ادارہ صحت

    کرونا کی وبا کا خاتمہ قریب آ گیا: سربراہ عالمی ادارہ صحت

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ نے کہا ہے کہ کرونا کی وبا کا خاتمہ قریب آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ ٹیڈروس ایڈھانم نے بدھ کے روز کہا کہ دنیا کبھی بھی COVID-19 کے وبائی مرض کو ختم کرنے کے لیے اس سے بہتر پوزیشن میں نہیں رہی۔

    انھوں نے ورچوئل پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ ابھی کرونا وبا ختم نہیں ہوئی لیکن اب اس کا خاتمہ جلد نظر آ رہا ہے۔

    یہ اقوام متحدہ کے اس ادارے کی طرف سے سب سے زیادہ حوصلہ افزا بیان ہے، ڈبلیو ایچ او نے جنوری 2020 میں بین الاقوامی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اور تین ماہ بعد کووِڈ نائنٹین کو عالمگیر وبا (پینڈیمک) کے طور پر بیان کرنا شروع کیا، جس سے اب تک دنیا بھر میں 65 لاکھ سے زائد انسان مر چکے ہیں۔

    دنیا بھر میں کووِڈ سے ہونے والی ہفتہ وار اموات کی تعداد مارچ 2020 کے بعد سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے، ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی اس کا ذکر کیا، اور کہا ہمیں اختتام نظر آ رہا ہے اور ہم اچھی پوزیشن میں بھی ہیں، مگر ابھی رک نہیں سکتے اور اپنے کام کو جاری رکھنا ہوگا۔

    انھوں نے کہا اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا تو ہمیں وائرس کی مزید اقسام، مز ید اموات اور مزید غیر یقینی صورت حال کے خطرے کا سامنا ہو سکتا ہے، تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہی ہوگا۔

    واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او نے کرونا وائرس کے حوالے سے 6 پالیسی پیپر بھی جاری کیے ہیں، ڈاکٹر ٹیڈروس کے مطابق یہ پالیسی پیپرز دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ہیں تاکہ وہ اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے کر انھیں مضبوط بنا سکیں۔

  • کار کی پچھلی نشست پر سیٹ بیلٹ باندھنا کیوں ضروری ہے؟ ڈبلیو ایچ او نے بتا دیا

    کار کی پچھلی نشست پر سیٹ بیلٹ باندھنا کیوں ضروری ہے؟ ڈبلیو ایچ او نے بتا دیا

    عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھنے والے افراد بھی اگر حفاظتی بیلٹ باندھ لیں تو حادثات کے دوران ہلاکتوں اور شدید زخمی ہونے والوں کی تعداد میں 25 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔

    ہندوستان کے معروف صنعت کار اور تاجر سائرس مستری پچھلے دنوں ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد سیٹ بیلٹ باندھنے کا معاملہ ایک بار پھر زور پکڑ گیا۔

    پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حادثے میں ہلاک ہونے والے سائرس مستری اور ان کے دوست پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے اور دونوں نے سیٹ بیلٹ نہیں لگائی تھی جبکہ ڈرائیونگ سیٹ اور ان کے بغل میں بیٹھے افراد شدید زخمی تو ہوئے لیکن فی الحال ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

    بھارت میں بالعموم سیٹ بیلٹ پہننے کو اہمیت نہیں دی جاتی اور پچھلی سیٹ پر بیٹھے مسافر تو اکثر اس حفاطتی اقدام کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔

    سیٹ بیلٹ کی کیا اہمیت ہے؟
    بھارت کے سرکاری ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی جانب سے شائع کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 ء میں بھارت میں سڑک حادثات میں کم از کم 1.55 لاکھ افراد کی جانیں چلی گئیں یعنی روزانہ اوسطاً 426 افراد یا ہرگھنٹے 18 افراد سڑک حادثات میں ہلاک ہوئے۔

    اگر سیٹ بیلٹ استعمال کریں تو ہلاکتوں اور سنگین زخمیوں کی تعداد میں 25 فیصد تک کمی آسکتی ہے

    کسی ایک سال میں بھارت میں سڑک حادثات میں اموات کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ گزشتہ برس بھارت میں ہونے والے چار لاکھ سے زائد سڑک حادثات میں کم از کم تین لاکھ ستر ہزارافراد زخمی بھی ہوئے۔

    عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ
    یہ اعدادو شمار سیٹ بیلٹ کے استعمال کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جون میں جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پچھلی سیٹ پر بیٹھنے والے افراد سیٹ بیلٹ پہنیں تو ہلاکتوں اور سنگین زخمیوں کی تعداد میں 25 فیصد کمی آسکتی ہے۔

     کارحادثے میں  ہلاک ہونے والے بھارت کے معروف صنعت کار  سائرس مستری اور ان کے دوست پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے

    ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈرائیور اور اگلی سیٹ پر بیٹھنے والے افراد اگر سیٹ بیلٹ استعمال کریں تو ہلاکتوں اور سنگین زخمی ہونے کی تعداد میں 45 تا 50 فیصد کی کمی آسکتی ہے اسی طرح پچھلی سیٹ پر بیٹھنے والے افراد اگر سیٹ بیلٹ استعمال کریں تو ہلاکتوں اور سنگین زخمیوں کی تعداد میں 25 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔

    قانون ہے لیکن عمل درآمد نہیں
    بھارت میں اگلی اور پچھلی دونوں نشستوں پر بیٹھے افراد کے لیے سیٹ بیلٹ پہننا لازمی ہے۔ ایسا نہ کرنے پر 1000روپے جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں : سعودی عرب میں سیٹ بیلٹ قانون کے حوالے سے اہم وضاحت

    بڑے شہروں میں ڈرائیونگ قوانین پر نسبتاً زیادہ عمل ہوتا ہے تاہم وہاں بھی پولیس پچھلی سیٹ پر بیلٹ لگانے کے قانون کو بالعموم نظر انداز کردیتی ہے، چھوٹے شہروں میں تو ان قوانین کا نفاذ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔

  • سیلاب متاثرین کی بھرپور سپورٹ جاری رکھیں گے: عالمی ادارہ صحت

    سیلاب متاثرین کی بھرپور سپورٹ جاری رکھیں گے: عالمی ادارہ صحت

    اسلام آباد: عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر احمد المندھاری نے وزیر صحت عبد القادر پٹیل سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب متاثرین کی بھرپور سپورٹ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر احمد المندھاری نے وزیر صحت عبد القادر پٹیل سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا، ریجنل ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیلاب سے جانی و مالی نقصان کا بے حد افسوس ہے۔

    وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے عالمی ادارہ صحت کا شکریہ ادا کرتا ہوں، صحت کے شعبے میں عالمی ادارہ صحت کا کلیدی کردار ہے۔

    وزیر صحت نے ریجنل ڈائریکٹر کو پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا، انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سیلاب کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سیلاب سے صحت کے بنیادی نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے ریجنل ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کی بھرپور سپورٹ جاری رکھیں گے۔

  • پاکستان میں‌ کرونا وبا کے حوالے سے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ

    پاکستان میں‌ کرونا وبا کے حوالے سے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ

    کراچی: عالمی ادارۂ صحت نے 2 جولائی تک پاکستان میں کرونا وبا سے متعلق اعداد و شمار جاری کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے ایک رپورٹ میں پاکستان میں کرونا وبا کی صورت حال کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان میں کرونا کی پہلی لہر سے اب تک 30 ہزار اموات رپورٹ ہوئیں۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں کرونا وائرس سے اب تک مجموعی طور پر 15 لاکھ37 ہزار 297 افراد متاثر ہوئے ہیں۔

    ویکسینیشن کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں 58 فی صد آبادی مکمل طور پر ویکسینیشن کرا چکی ہے۔

    دو جولائی کو جاری رپورٹ میں چوبیس گھنٹوں کی صورت حال بھی بتائی گئی، عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دو جولائی کو پاکستان میں 818 نئے کرونا کیسز سامنے آئے، اور 4 اموات رپورٹ ہوئیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 675 نئے کرونا کیسز سامنے آئے ہیں، جب کہ اس دوران 14 ہزار 632 ٹیسٹ کیے گئے۔

    گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس سے 2 افراد کا انتقال ہوا، جب کہ تشویش ناک مریضوں کی تعداد 153 ہے۔

  • کورونا وائرس ایک بار پھر آگیا، ڈبلیو ایچ او کا انتباہ

    کورونا وائرس ایک بار پھر آگیا، ڈبلیو ایچ او کا انتباہ

    نیویارک: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس گیبرئیس نے کہا ہے کہ دنیا میں کورونا وائرس نے مختلف شکلوں میں پھر سر اٹھا لیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ڈاکٹر ٹیڈروس گیبرئیس نے انکشاف کیا کہ دنیا کے 6 میں سے 3 خطوں میں کورونا کی وجہ سے اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

    110ممالک میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے جو وائرس کی بی اے فور اور بی اے فائیو مختلف شکلوں سے چل رہے ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس گیبریئس نے جنیوا میں ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر میں اس کا انکشاف کیا کہ مختلف حالتوں میں مجموعی طور پر 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کے 6 میں سے 3 خطوں میں اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی اس شک میں نہیں رہنا چاہیے کہ کورونا وائرس ختم ہو گیا ہے یا ہونے والا ہے بلکہ یہ وبائی بیماری میں بدل رہی ہے ختم نہیں ہو رہی۔

    ڈائریکٹر ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ صرف حکومتوں، بین الاقوامی ایجنسیوں اور پرائیویٹ سیکٹر کے ٹھوس اقدامات سے ہی ہم بدلتے ہوئے چیلنجوں کو حل کر سکتے ہیں۔ وائرس کو ٹریک کرنے کی ہماری صلاحیت خطرے میں ہے کیونکہ رپورٹنگ اور جینومک سیکونسز کم ہو رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں 12 ارب سے زیادہ ویکسین تقسیم کی جا چکی ہیں اور دنیا کے 75 فیصد ہیلتھ ورکرز اور 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔

  • ڈبلیو ایچ او نے نئی وبا کے پھیلاؤ میں تیزی کا خدشہ ظاہر کر دیا

    ڈبلیو ایچ او نے نئی وبا کے پھیلاؤ میں تیزی کا خدشہ ظاہر کر دیا

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے نئی وبا منکی پاکس کے پھیلاؤ میں تیزی کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ مختلف ممالک میں منکی پاکس کے مزید کیسز سامنے آ سکتے ہیں، اس خدشے کے پیش نظر ان ممالک کی نگرانی بھی بڑھا دی گئی ہے، جہاں ابھی تک یہ بیماری رپورٹ نہیں ہوئی۔

    روئٹرز کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ہفتے کو 12 رکن ممالک سے منکی پاکس کے 92 مصدقہ اور 28 مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں جہاں یہ وائرس پہلے سے موجود نہیں تھا۔

    ڈبلیو ایچ او نے مزید کہا کہ وہ آئندہ دنوں میں منکی پاکس کے پھیلاؤ سے روکنے سے متعلق رہنمائی اور مشورے بھی فراہم کریں گے، دستیاب معلومات کے مطابق یہ وائرس انسانوں سے دوسرے انسانوں کو قریبی جسمانی رابطے کے باعث لاحق ہو رہا ہے۔

    نئی وبا کے حوالے سے سعودی وزارت صحت کا اہم بیان

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار یہ وائرس افریقی ممالک سے نکل کر دنیا بھر میں پھیلنے لگا ہے اور اس کی تشخیص ایسے افراد میں بھی ہو رہی ہے جو کبھی افریقی ممالک گئے ہی نہیں۔

    واضح رہے کہ منکی پاکس ایک ایسا وائرس ہے جو جنگلی جانوروں خصوصاً زمین کھودنے والے چوہوں اور بندروں میں پایا جاتا ہے اور اکثر ان سے انسانوں کو بھی لگ جاتا ہے، اس وائرس کے زیادہ تر کیسز ماضی میں افریقہ کے وسطی اور مشرقی ممالک میں پائے جاتے تھے جہاں یہ بہت تیزی سے پھیلتا تھا۔

  • کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    کرونا کی وبا ذہنی امراض میں خطرناک اضافے کا باعث بنی

    گزشتہ 2 برس میں کرونا وائرس کی وبا کے دوران ذہنی امراض میں بے حد اضافہ ہوا ہے، عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے پہلے سال کے دوران دنیا بھر میں ڈپریشن اور اینگزائٹی (ذہنی بے چینی یا گھبراہٹ وغیرہ) کی شرح میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔

    عالمی ادارے نے کہا کہ یہ اس بے نظیر تناؤ کی وضاحت کرتا ہے جس کا سامنا کرونا کی وبا کے دوران سماجی قرنطینہ سے ہوا۔ تنہائی، بیماری کا ڈر، اس سے متاثر ہونا، اپنی اور پیاروں کی موت، غم اور مالیاتی مسائل سب ایسے عناصر ہیں جو ڈپریشن اور اینگزائٹی کی جانب لے جاتے ہیں۔

    یہ سب باتیں عالمی ادارے کی جانب سے کووڈ کے اثرات کے حوالے سے جاری نئی رپورٹ میں بتائی گئی، اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نوجوانوں اور خواتین پر زیادہ اثر انداز ہوئی ہے۔

    مزید براں جو افراد پہلے سے کسی بیماری سے متاثر تھے ان میں بھی ذہنی امراض کی علامات کا خطرہ بڑھا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ جن افراد میں پہلے ہی کسی ذہنی بیماری کی ابتدا ہوچکی تھی، ان میں نہ صرف کووڈ 19 میں متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے بلکہ اسپتال میں داخلے، سنگین پیچیدگیوں اور موت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

    عالمی ادارے کے مطابق وبا کے دوران دنیا بھر کے ممالک میں ذہنی صحت کے مسائل کے لیے طبی سروسز متاثر ہونے سے بھی اس مسئلے کی شدت بڑھی۔

    ادارے کا کہنا تھا کہ دنیا کی ذہنی صحت پر کووڈ 19 کے اثرات کے بارے میں ہمارے پاس موجود تفصیلات تو بس آئس برگ کی نوک ہے، یہ تمام ممالک کے لیے خبردار کرنے والا لمحہ ہے کہ وہ ذہنی صحت پر زیادہ توجہ مرکوز کریں اور اپنی آبادیوں کی ذہنی صحت کے لیے زیادہ بہتر کام کریں۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق حالیہ سروسز میں عندیہ ملا ہے کہ 90 فیصد ممالک کی جانب سے کووڈ 19 کے مریضوں کی ذہنی صحت اور نفسیاتی سپورٹ کی فراہمی پر کام کیا جارہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے دنیا سے ذہنی صحت کے ذرائع پر سرمایہ کاری کے عزم کا مطالبہ بھی کیا۔

  • ڈبلیو ایچ او کے نمائندے کی پاکستان کے معروف تحقیقاتی ادارے کی تعریف

    ڈبلیو ایچ او کے نمائندے کی پاکستان کے معروف تحقیقاتی ادارے کی تعریف

    کراچی: عالمی ادارۂ صحت کے نمائندے نے پاکستان کے معروف تحقیقاتی ادارے آئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی کا دورہ کیا، اور بین الاقوامی مرکز کی سائنسی و تحقیقی سرگرمیوں کو قابلِ تعریف قرار دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر پلیتھا گوناراتھنا ماہی پالا نے جمعہ کو پاکستان کے معروف تحقیقی ادارے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کا دورہ کیا، اور ادارے کے انفرا اسٹرکچر اور یہاں کی سائنسی اور تحقیقی سرگرمیوں کی تعریف کی۔

    ادارے کے سربراہ اور کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے نمائندے کو صحت کی نگہداشت کے شعبے میں ہونے والی تحقیقی سرگرمیوں کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔

    پروفیسر عطا الرحمن اور پروفیسر اقبال چوہدری نے ڈبلیو ایچ او پاکستان کو تجویز پیش کی کہ ادارے کے ساتھ مل کر صحت سے متعلق مشترکہ تحقیقی، تعلیمی اور تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں، جن میں مریضوں کی حفاظت، ڈیزاسٹر منیجمنٹ، ون ہیلتھ اور صحت کی نگہداشت سے متعلق فنانسنگ پر سرٹیفیکٹ اور ڈپلومہ کورسز بھی شامل ہوں۔

    ڈاکٹر پلیتھا ماہی پالا نے اس تجویز کو سراہا اور جِلدی مرض کوٹینیس لشمینیسس کی روک تھام اور علاج کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر دل چسپی ظاہر کی۔ واضح رہے کہ کوٹینیس لشمینیسس دنیا میں لشمینیسس کی سب سے عام قسم ہے، جو پروٹوزون پیراسائٹ لشمینیسس کی 15 انواع کے سبب سے ہوتا ہے، جب کہ اس کا پھیلاؤ متاثرہ سینڈ فلائی سے ہوتا ہے، یہ مرض دنیا کے کئی ممالک میں بہت سنجیدہ مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔

    اجلاس میں یہ طے ہوا کہ ڈبلیو ایچ او اور بین الاقوامی مرکز جامعہ کراچی مشترکہ طور پر لشمینیسس کے موضوع پر سالانہ اجلاس منعقد کریں گے۔

  • اومیکرون سب پر حاوی ہوچکا، عالمی ادارہ صحت

    اومیکرون سب پر حاوی ہوچکا، عالمی ادارہ صحت

    عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون بڑی حد تک دنیا بھر میں دیگر اقسام پر حاوی ہوچکا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ہفتہ وار کوویڈ 19 اپ ڈیٹ رپورٹ میں ہفتہ وار کوویڈ 19 کیس اور اموات کی شرح میں اضافہ اور اومیکرون ویریئنٹ کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

    24 سے 30 جنوری کے درمیان عالمی سطح پر کووڈ 19 کے واقعات اس سے پہلے کے ہفتے کے مقابلے میں تقریباْ اسی شرح سے بڑھے لیکن جانی نقصان میں 9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

    گزشتہ ہفتے دنیا بھر میں 2کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ نئے کورونا کیسز ریکارڈ ہوئے اور 59 ہزار سے زائد لوگ اس وبا سے ہلاک ہوئے ہیں۔

    اپ ڈیٹ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ کورونا کے الفا، بیٹا، گیما، ڈیلٹا، لمبڈ اور میو ویریئنٹس میں عالمی سطح پر کمی آئے ہے اور اومیکرون نے تقریباْ تمام پرانی اقسام کی جگہ لے لی ہے۔

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت نے رواں سال کے آغاز میں ہی انتباہ دیا تھا کہ اومیکرون کو معمولی نہ سمجھا جائے۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ اومیکرون نے دنیا بھر میں صحت کے نظٓم کو پھر دباؤ میں ڈال دیا ہے۔

    مزید پڑھیں:اومیکرون کو معمولی نہ سمجھیں ، عالمی ادارہ صحت نے دنیا کو خبردار کردیا