Tag: WHO

  • کرونا وائرس کے خلاف فتح کا اعلان؟

    کرونا وائرس کے خلاف فتح کا اعلان؟

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا وبا کے خلاف فتح کا اعلان قبل از وقت قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈھانم نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی ملک کے لیے کرونا کے آگے ہتھیار ڈالنا یا فتح کا اعلان کرنا قبل از وقت ہے۔

    ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا ہماری آنکھوں کے سامنے اس وائرس کا ارتقائی عمل ہو رہا ہے، یہ بہت خطرناک ہے، اس لیے کچھ ممالک کی طرف سے کرونا پابندیوں کو ختم کرنا قابل تشویش ہے۔

    انھوں نے کہا اومیکرون کے اثرات زیادہ خطرناک نہیں تاہم دنیا کے بہت سے علاقوں میں اموات میں انتہائی تشویش ناک اضافہ دیکھا جا رہا ہے، کرونا کے زیادہ پھیلاؤ کا مطلب زیادہ اموات ہے۔

    عالمی ادارے کے سربراہ کے مطابق اومیکرون کا پہلا کیس رپورٹ ہونے کے بعد سے اب تک 9 کروڑ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جو سال 2020 کے کرونا کے مجموعی کیسز بھی زیادہ ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم ممالک سے لاک ڈاؤن کی صورت حال میں واپس جانے کو نہیں کہہ رہے ہیں، تمام ممالک اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے ویکسین کے ساتھ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

    ڈاکٹر ٹیڈروس نے مزید کہا کہ وائرس شکلیں بدل رہا ہے، ہم اس سے نہیں لڑسکتے جب تک یہ نہ جان جائیں کہ یہ وائرس کیا کر رہا ہے، اس لیے تمام ممالک ٹیسٹنگ اور نگرانی کا عمل جاری رکھیں۔

  • اومیکرون پھیپھڑوں کو کتنا نقصان پہچاتا ہے؟َ ڈبلیو ایچ او نے بتادیا

    اومیکرون پھیپھڑوں کو کتنا نقصان پہچاتا ہے؟َ ڈبلیو ایچ او نے بتادیا

    عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ایسے شواہد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون نظام تنفس کے اوپر حصے کو متاثر کرتی ہے جس کے باعث بیماری کی شدت سابقہ اقسام سے معمول ہوتی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار عابدی محمد نے میڈیا بریفننگ کے دوران ہم مسلسل ایسی تحقیقی رپورٹس کو دیکھ رہے ہیں جن میں بتایا گیا کہ اومیکرون سے نظام تنفس کااوپری حصہ متاثر ہوتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی  رپورٹ کے مطابق  انہوں نے کہا کہ دیگر اقسام کے برعکس جو شدید نمونیا کا باعث بنتی ہیں اومیکرون سے بیمار ہونے پر علامات کی شدت معمولی یا معتدل ہوتی ہے۔

    انہوں نے اسے اچھی خبر قرار دیتے ہوئے انتباہ کیا کہ اومیکرون کے بہت زیادہ متعدی ہونے کا مطلب ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں وہ متعدد ممالک میں کورونا کی غالب قسم ہوگی، جس سے ان ممالک کو خطرہ ہوگا جہاں ابھی آبادی کے بڑے حصے کی ویکسینیشن نہیں ہوسکی۔

    جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اومیکرون کے لیے ایک مخصوص ویکسین کی ضرورت ہوسکتی ہے تو ان کا کہناتھا کہ ابھی اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کے لیے عالمی تعاون کی ضرورت ہوگی اور کمرشل سیکٹر پر یہ فیصلہ نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اب تک کے شواہد کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے پھیپھڑوں کی بجائے گلے کے متاثر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ بظاہر اومیکرون قسم بہت زیادہ متعدی ہے مگر کورونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کم جان لیوا ہے۔

    یہ عندیہ حالیہ 6 تحقیقی رپورٹس میں سامنے آیا جن میں سے 4 رپورٹس 25 دسمبر کے بعد پیش کی گئی اور ان سب میں دریافت ہوا کہ اومیکرون سے مریضوں کے پھیپھڑوں کو اس طرح نقصان نہیں پہنچتا جس طرح ڈیلٹا اور وائرس کی دیگر اقسام پہنچاتی ہیں۔

    یہ سب تحقیقی رپورٹس اب تک کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی مگر لندن کالج یونیورسٹی کے وائرلوجی پروفیسر ڈینان پلائے نے بتایا کہ اومیکرون میں موجود تمام میوٹیشنز سابقہ اقسام سے مختلف ہیں جس کے نیتجے میں اس کی مختلف خلیات کو متاثر کرنے کی صلاحیت تبدیل ہوئی۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ نئی قسم نظام تنفس کی نالی کے اوپری حصے یعنی حلق کے خلیات کو زیادہ متاثر کرتی ہے اور پھیپھڑوں کے مقابلے میں وہاں اپنی نقول زیادہ تیزی سے بناتی ہے۔ یہ سب ابتدائی ہیں مگر سب تحقیقی رپورٹس میں اسی بارے میں توجہ دلائی گئی ہے۔

    اگر وائرس اپنی زیادہ نقول حلق میں بناتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ زیادہ متعدی ہوسکتا ہے جس سے اومیکرون کے بہت تیزی سے پھیلنے کی ممکنہ وضاحت بھی ہوتی ہے۔

    اس کے مقابلے میں پھیپھڑوں کے ٹشوز کو زیادہ بہتر طریقے سے متاثر کرنے والا وائرس کم متعدی مگر زیادہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔لیور پول یونیورسٹی کی ایک تحقیق 26 دسمبر کو جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ اومیکرون سے چوہوں میں بیماری کی شدت بہت زیادہ نہیں تھی۔

    اس تحقیق میں چوہوں کو اومیکرون سے متاثر کیا گیا تو ان کا جسمانی وزن کم ہوگیا مگر وائرل لوڈ کم تھا جبکہ نمونیا کی شدت بھی کم تھی۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ معمے کا ایک ٹکڑا ہے، یعنی جانوروں کے ماڈل سے عندیہ ملتا ہے کہ ڈیلٹا اور اصل وائرس کے مقابلے میں اومیکرون سے متاثر ہونے پر بیماری کی شدت زیادہ نہیں ہوتی، وہ تیزی سے کلیئر ہوتی ہے اور چوہے بہت تیزی سے ریکور ہوئے۔

    اسی طرح دوسری تحقیق بیلجیئم کی لیووین یونیورسٹی کی Neyts Lab کی تھی جس میں بھی اسی طرح کے نتائج جانوروں میں دریافت ہوئے یعنی وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں پھیپھڑوں میں کم وائرل لوڈ۔

    محققین نے بتایا کہ ممکنہ طور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نیا وائرس جانوروں کی بجائے انسانوں کو زیادہ بہتر طریقے سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نظام تنفس کی نالی کے اوپری حصے کو ہدف بناتا ہے یا اس سے ہونے والی بیماری کی شدت ہی دیگر اقسام کے مقابلے میں کم ہے۔

    امریکا کے محققین کی جانب سے جریدے نیچر میں جمع کرائی گئی ایک پری پرنٹ تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا کہ اومیکرون سے متاثر ہونے پر چوہوں کا جسمانی وزن کم ہوگیا مگر پھیپھڑوں میں وائرل لوڈ کم تھا۔

    یونیورسٹی آف گلاسگو کے سینٹر فار وائرس ریسرچ کی تحقیق میں بھی ایسے شواہد دریافت ہوئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ اومیکرون نے جسم میں داخل ہونے کا طریقہ بدل لیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق اومیکرون ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کی مدافعت پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھنے والی قسم ہے مگر بوسٹر ڈز سے مدافعت میں جزوی بحالی ممکن ہے۔

    اس سے قبل ہانگ کانگ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا تھا کہ پھیپھڑوں میں اومیکرون سے ہونے والی بیماری شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں ویکسنیشن کرانے کے بعد اومیکرون سے متاثر ہونے والے مریضوں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال میں دریافت ہوا کہ یہ نئی قسم ویکسینز سے بننے والی مدافعت پر حملہ آور ہوسکتی ہے مگر پھیپھڑوں کے خلیات میں داخل ہونے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوتی۔

    محققین نے بتایا کہ یہ مانا جاتا ہے کہ پھیپھڑوں کے ٹشوز میں گہرائی میں بیماری کے پہنچنے کے نتیجے میں زیادہ سنگین بیماری کا سامنا ہوتا ہے۔

  • اومیکرون کی شدت کے حوالے سے عالمی ادارۂ صحت کی باقاعدہ تصدیق

    اومیکرون کی شدت کے حوالے سے عالمی ادارۂ صحت کی باقاعدہ تصدیق

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بڑھتے ہوئے ثبوتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے تصدیق کر دی ہے کہ اومیکرون ویرینٹ ہلکی علامات کا سبب بنتا ہے۔

    عالمی ادارۂ صحت نے کرونا وائرس کی اومیکرون ویرینٹ کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کیا ہے، تاہم منگل کے روز اس نے تصدیق کی کہ اس متغیر قسم سے معتدل علامات پیدا ہوتی ہیں۔

    ادارے کے حکام نے کہا کہ اومیکرون تنفس کی نالی کے اوپر والے حصے کو متاثر کرتا ہے، لیکن ویکسینز کی وجہ سے لوگوں کو اسپتال میں داخل ہونے، شدید علیل پڑنے یا موت کے منہ میں جانے سے تحفظ حاصل ہوا ہے۔

    پبلک ہیلتھ ماہرین کے مطابق اومیکرون، دیگر متغیر اقسام سے زیادہ متعدی ہے، کئی شہروں میں یہ وائرس ہفتوں کے اندر ہی سب سے زیادہ وبائی بن چکا ہے۔

    جن علاقوں میں آبادی کا بھاری تناسب ابھی تک ویکسینیشن سے محروم ہے وہاں اس کا پھیلاؤ ہیلتھ سسٹمز کے لیے باعث خطرہ قرار دیا گیا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ لوگ بھی بیمار پڑ سکتے ہیں جو ویکسین لگوا چکے ہوں یا ماضی میں کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہوں۔

  • کرونا وائرس کا خاتمہ: عالمی ادارہ صحت نے خوشخبری سنا دی

    کرونا وائرس کا خاتمہ: عالمی ادارہ صحت نے خوشخبری سنا دی

    کرونا وائرس کی وبا کو 2 سال گزر چکے ہیں اور اب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے خوشخبری سنائی ہے کہ 2022 کرونا وائرس کی وبا کا کے خاتمے کا سال ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرسکے بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود عالمی ادارہ صحت نے امید ظاہر کی ہے کہ 2022 میں کرونا وائرس کی وبا کا اختتام ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا کے پاس اب اس سے نمٹنے کے لیے آلات موجود ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈ روس ایڈہانم نے جمعرات کو لنکڈ ان پر اپنی پوسٹ میں خبردار کیا کہ عدم مساوات جتنے طویل عرصے تک برقرار رہے گا، یہ وبا اتنی ہی طویل عرصے تک جاری رہے گی۔

    ٹیڈ روس نے افریقہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وبا کو آئے 2 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے درکار چیزیں اور آلات مناسب طریقے سے برابری کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیے گئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ افریقہ میں محکمہ صحت کے عملے کی اب بھی ہر چار میں سے تین کی مکمل ویکسی نیشن نہیں ہوئی جبکہ یورپ میں لوگوں کو ویکسین کے تیسری خوراک بطور بوسٹر لگ رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس خلا کی وجہ سے نئے ویریئنٹ کے پھیلنے کے مواقع مزید بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہم دوبارہ سے جانی نقصان، پابندیوں اور مشکلات کے سائیکل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    ٹیڈ روس نے کہا کہ اگر ہم عدم مساوات ختم کرتے ہیں تو اس وبا کو بھی ختم کردیں گے اور اس عالمی ڈراؤنے خواب کا بھی خاتمہ کردیں گے جس میں ہم جی رہے ہیں اور یہ یقیناً ممکن ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے نئے سال کی آمد کے موقع پر عہد کیا کہ ہم حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ عالمی اقدامات کے تحت ویکسین کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومتیں اس حوالے سے مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کریں تو ہم 50 لاکھ سے زائد جانیں لینے والی اس وبا کو ختم کر سکتے ہیں جبکہ اس کے لیے لوگوں کو بھی انفرادی سطح پر ویکسینیشن کے ساتھ ساتھ حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ 2022 کے وسط تک دنیا کی 70فیصد آبادی کو ویکسین لگا دیں۔

    ٹیڈ روس نے ویکسین کی وافر سپلائی یقینی بنانے کے لیے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظور شدہ ویکسین بنانے والی کمپنیوں سے درخواست کی کہ وہ انسانی بنیادوں پر ٹیکنالوجی اور ویکسین بنانے کا طریقہ بڑی کمپنیوں سے شیئر کریں تاکہ ویکسین زیادہ تیزی سے بنائی جا سکیں۔

    انہوں نے نئے سال کے لیے اپنے عہد کے ساتھ ساتھ تمام حکومتوں سے بھی درخواست کی کہ وہ اپنے صحت کے شعبے میں بھرپور سرمایہ کاری کریں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا کہ اگر ہم یہ اہداف حاصل کرتے ہیں تو ہم 2022 کے اختتام پر دوبارہ وبا سے قبل والی اپنی معمول کی زندگی کی طرف واپسی کا جشن منا رہے ہوں گے اور اس وقت ہم اپنے پیاروں کے ساتھ مل کر اپنی خوشیاں کھل کر منا سکیں گے۔

  • اومیکرون کے ‘طوفان’ سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا اہم بیان

    اومیکرون کے ‘طوفان’ سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا اہم بیان

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اومیکرون ویرینٹ کے ایک طوفان کے آنے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ یورپ میں اومیکرون کا ایک طوفان آنے کا خدشہ ہے، اس لیے حکومتوں کو کرونا کے نئے ویرینٹ سے متعلق تیاری کر لینی چاہیے۔

    ڈبلیو ایچ او کے اعلیٰ افسر علاقائی ڈاریکٹر ڈاکٹر ہینس کلوز نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اومیکرون پہلے ہی کئی ممالک میں حاوی ہو چکا ہے، ہم ایک اور طوفان کو آتے دیکھ سکتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ کچھ ہی ہفتوں میں اومیکرون یورپ اور دیگر ممالک میں بری طرح پھیل جائے گا جس کی وجہ سے ہیلتھ سروسز شدید طور پر متاثر ہوں گی۔

    اومیکرون سب کے گھروں‌ پر دستک دینے والا ہے: بل گیٹس کی پیشگوئی

    ڈاکٹر ہینس کلوز کا کہنا تھا کہ یورپ کے 38 ممالک میں اومیکرون وائرس پہلے ہی پایا جا چکا ہے جب کہ برطانیہ، ڈنمارک اور پرتگال میں یہ پہلے ہی زبردست طریقے سے پھیل چکا ہے۔

    ڈاکٹر ہینس کے مطابق یورپی یونین میں رواں برس کرونا وائرس سے 27 ہزار لوگ جان گنوا چکے ہیں اور اس کے 26 لاکھ کیسز سامنے آئے، کیسز کی یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فی صد زیادہ ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نئے سال اور کرسمس کی تقریبات کے حوالے سے بھی لوگوں کو خبردار کر چکی ہے۔

  • ایک اور امریکی کورونا ویکسین ڈبلیو ایچ او کی فہرست میں شامل

    ایک اور امریکی کورونا ویکسین ڈبلیو ایچ او کی فہرست میں شامل

    عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے امریکی دوا ساز کمپنی نووا ویکس کی تیار کردہ کورونا وائرس ویکسین کووا ویکس کو ہنگامی استعمال کی ویکسینوں کی اپنی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نے سیفٹی اور اثر پذیری کی تصدیق کے بعد جمعہ کے روز کووا ویکس ویکسین کو مذکورہ فہرست میں شامل کرلیا۔

    سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا نوواویکس کمپنی کے اجازت نامے کے تحت بھارتی ویکسین تیار کررہا ہے۔ عام استعمال کے ریفریجریٹر میں ذخیرہ کیے جا سکنے کی خاصیت کے سبب اس ویکسین کو ترقی پذیر ممالک میں استعمال کے لیے موزوں خیال کیا جا رہا ہے۔

    اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ نوواویکس کمپنی کی تیار کردہ ایک دوسری کوویڈ19 ویکسین کا اس وقت جائزہ لیا جارہا ہے۔

    کووا ویکس کو ڈبلیو ایچ او کی زیر قیادت کورونا وائرس ویکسینوں کی تیاری اور تقسیم کے لائحہ عمل کوویکس فیسیلیٹی کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔

    توقع کی جا رہی تھی کہ مذکورہ لائحہ عمل رواں سال ویکسین کی دو ارب خوراکیں تقسیم کرے گا لیکن امیر ممالک کی جانب سے ویکسین عطیات میں تعطل آنے سے اب تک صرف 70 کروڑ خوراکیں ہی فراہم کی جا سکی ہیں۔

  • کیا کرونا وائرس 2022 میں ختم ہو جائے گا؟

    کیا کرونا وائرس 2022 میں ختم ہو جائے گا؟

    عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک خاتون اہل کار نے امید دلائی ہے کہ کرونا وائرس اگلے سال تک ختم ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارۂ صحت کے کرونا سے متعلقہ تکنیکی وفد کی سربراہ ماریا وان کرخوف نے کہا ہے کہ اس بات کا قومی امکان ہے کہ وائرس اگلے سال ختم ہو جائے گا۔

    انھوں نے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے منعقدہ خصوصی سیشن میں کرونا کی نئی قسم اومیکرون سے متعلق سوالوں کے جواب میں اس بات کا اظہار کیا۔

    انھوں نے کہا کہ ہمیں کافی امید ہے کہ یہ وائرس اگلے سال تک ختم ہو سکتا ہے جس کے لیے ہمارے پاس شرح اموات، وبائی اثرات اور اسپتالوں سے رجوع میں کمی کے مواقع دستیاب ہیں۔

    دوسری جانب یورپی مرکز برائے انسداد امراض کا کہنا ہے کہ اگلے سال کے ابتدائی دو مہینوں میں اومیکرون کے واقعات بڑھ سکتے ہیں۔

    مرکز نے اپنی جائزاتی رپورٹ میں اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ یہ نئی قسم تیزی سے یورپ میں پھیل سکتی ہے، ڈائریکٹر انڈریا آمون نے خدشہ ظاہر کیا کہ اموات اور مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

    باور رہے کہ عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریوسس نے بتایا تھا کہ اومیکرون اس وقت 77 ممالک میں پھیل چکا ہے جس سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

  • کیا اومیکرون سے بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں؟

    کیا اومیکرون سے بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں؟

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر سومیا سوامیناتھن نے کہا کہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ جنوبی افریقا میں بچے زیادہ اومیکرون سے متاثر ہو رہے ہیں۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سوامیناتھن نے خبردار کیا کہ فی الحال بچوں کے لیے زیادہ ویکسینز دستیاب نہیں ہیں اور صرف چند ممالک نے بچوں کے لیے ویکسین شروع کی ہے، جس کی وجہ سے کیسز میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ بہت کم ممالک بچوں کو ویکسین دے رہے ہیں، جب کیسز بڑھتے ہیں تو بچے اور ٹیکے نہ لگوانے والے انفیکشن کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں، ہم اب بھی اعداد و شمار کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ بچوں پر اومیکرون کے مختلف اثرات کا نتیجہ نکالا جا سکے۔

    عالمی ادارہ صحت کی سائنس دان نے کہا کہ تمام ممالک کو عمر اور علاقے کے لحاظ سے ویکسین کے ڈیٹا کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان لوگوں کا اندازہ لگایا جا سکے جو چھوٹ گئے ہیں اور ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ 18 سال سے زیادہ عمر کے تمام لوگوں کو ویکسین لگائی جائے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکے۔

    ڈاکٹر سومیا نے کہا کہ ہم وبائی مرض میں مزید ڈیٹا شیئرنگ چاہتے ہیں اور ہمیں ان ممالک کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو مختلف اقسام اور ڈیٹا کو ظاہر کر رہے ہیں، اس کے لیے ہمیں ممالک کے درمیان ایک مربوط معاہدے کی ضرورت ہے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اومیکرون انفیکشن کی طبی خصوصیات کو سمجھنے کے یہ ابھی ابتدائی دن ہیں، کیسز میں اضافے اور اسپتال میں داخل ہونے کے درمیان ایک وقفہ ہے، اسپتال میں داخل ہونے کی شرحوں کا مطالعہ کرنے کے لیے دو سے تین ہفتوں تک انتظار کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ بیماری کتنی شدید ہے۔

  • اومیکرون سے اب تک کوئی موت واقع نہیں ہوئی

    اومیکرون سے اب تک کوئی موت واقع نہیں ہوئی

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ ابھی تک کرونا کے اومیکرون ویرینٹ سے کی کوئی موت واقع نہیں ہوئی، اگرچہ یہ دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے جمعے کو کہا کہ اب تک 38 ممالک میں اومیکرون ویرینٹ کا پتا چلا ہے لیکن ابھی تک کسی کی موت کی اطلاع نہیں ملی ہے، دوسری جانب دنیا بھر کے حکام انتباہات جاری کر رہے ہیں، کہ اومیکرون کے پھیلاؤ سے عالمی اقتصادی بحالی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے جائیں۔

    ادھر اومیکرون ویرینٹ کے شکار ملکوں میں امریکا اور آسٹریلیا بھی شامل ہو گئے ہیں جہاں مقامی سطح پر یہ لوگوں کو منتقل ہوا ہے، جب کہ جنوبی افریقا میں اس کے کیسز کی مجموعی تعداد 30 لاکھ سے بھی بڑھ گئی ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے متنبہ کیا ہے کہ یہ تعین کرنے میں ہفتوں لگ سکتے ہیں کہ اس ویرینٹ میں انفیکشن پیدا کرنے کی کتنی صلاحیت ہے، آیا یہ زیادہ شدید بیماری کا باعث بنتا ہے یا نہیں، اور موجودہ دستیاب علاج اور ویکسینز اس کے خلاف کتنی مؤثر ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ اس نے ابھی تک اومیکرون سے متعلق اموات کی کوئی رپورٹ نہیں دیکھی، لیکن نئی قسم کا پھیلاؤ اس وارننگ کا باعث ضرور بنا ہے کہ یہ اگلے چند مہینوں میں یورپ کے نصف سے زیادہ کووِڈ کیسز کا سبب بن جائے گی۔

    بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا نے جمعہ کو کہا کہ نئی قسم عالمی اقتصادی بحالی کو بھی سست کر سکتی ہے، جیسا کہ ڈیلٹا کے تناؤ نے کیا تھا۔

  • اومیکرون کیسے آیا؟ عالمی ادارہ صحت نے بڑی وجہ بتا دی

    اومیکرون کیسے آیا؟ عالمی ادارہ صحت نے بڑی وجہ بتا دی

    جنیوا : عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دنیا کے وہ ممالک جو ڈیلٹا کو روکنے کے لیے مناسب بندوبست نہیں کررہے ہیں تو وہ اومیکرون کو بھی نہیں روک سکیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام صحت کو مضبوط بنایا جائے اور جاری کردہ ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

    ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم نے کہا ہے کہ پوری دنیا اس بات کو یقینی بنائے کہ سب سے پہلے کمزور افراد کو ویکسین لگائی جائے۔

    ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں کورونا کے نئے ویرینٹ کی وجہ سے پریشانی پائی جاتی ہے، عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا ہے کہ ہمیں ڈیلٹا ویریئنٹ سے نمٹنے کے لیے موجود طریقہ کار کو استعمال کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم یہ کرلیں تو ہم اومیکرون کے پھیلاؤ کو بھی روک سکتے ہیں۔

    خبر رساں ایجنسی کے مطابق ڈاکٹر تیدروس نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر ویکسینیشن بھی کم ہو رہی ہے اور ٹیسٹنگ میں بھی کمی دکھائی دے رہی ہے جو نئی اقسام کو جنم دینے کا بنیادی سبب ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے واضح کیا کہ اسی وجہ سے ہم پوری دنیا سے اپیل کر رہے ہیں کہ ویکیسن کی تقسیم اور ٹیسٹنگ پوری دنیا میں یکساں اور مساوی بنیادوں پر کی جائے۔

    عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم نے واضح طور پر کہا ہے کہ ڈیلٹا کو روکنے سے اومی کرون کو بھی روکنے میں مدد ملے گی۔