Tag: WHO

  • اومیکرون دنیا کے لئے شدید خطرہ قرار

    اومیکرون دنیا کے لئے شدید خطرہ قرار

    عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا کہ کرونا وائرس کی نئی قسم دنیا کے لیے "انتہائی” خطرناک ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے جنوبی افریقا میں دریافت ہونے والے متغیر کرونا وائرس ‘اومیکرون’ کو شدید خطرہ قرار دے دیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا کہ کرونا وائرس کی نئی قسم دنیا کے لیے "انتہائی” خطرناک ہے، ویرئنٹ کتنا خطرناک اور کس حد تک متاثر کر سکتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا؟۔

    دوسری جانب ڈبلیو ایچ او نے دنیا کو کرونا وائرس جیسی وبا سےبچانےکیلئےعالمی معاہدے کا مسودہ تیار کرلیا ہے، امریکا، یورپ کی مشاورت سے ڈبلیو ایچ اونے یہ مسودہ تیار کیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: کورونا کی نئی قسم؛ امریکی صدر کا بڑا دعویٰ

    ادھر صدر جوبائیڈن نے کہا کہ نئی قسم اومیکرون کامقابلہ کرنےکیلئےویکسین کی نئی خوراکوں کی ‏ضرورت ہوگی وقت پڑنےپر ہم پیداوار اور تقسیم کو تیز کرنےکیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

    صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ اومیکرون سےکیسےنمٹیں گے اس متعلق جمعرات کوحکمت عملی کا اعلان کریں ‏گے۔

    یاد رہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم سامنے آنے کے بعد دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے افریقہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگادی ہے، وزرات خارجہ نے اسے جنوبی افریقہ کو سزا دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس نئی قسم میں کووِڈ نائنٹین نے وسیع سطح پر اپنی ہیئت اور شکل تبدیل کر لی ہے، جس سے اس وائرس میں بار بار انفیکشن ہونے کا خطرہ دیگر تمام اقسام سے زیادہ ہو گیا ہے۔

  • پاکستان پر عالمی سفری پابندیوں میں توسیع کا اعلان

    پاکستان پر عالمی سفری پابندیوں میں توسیع کا اعلان

    اسلام آباد : عالمی ادارہ صحت نے پولیو کے باعث پاکستان پر سفری پابندیوں میں 3 ماہ کی توسیع کردی اور کہا پاکستان اور افغانستان پولیو کے عالمی پھیلاؤ کیلئے بدستور خطرہ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے پاکستان پر سفری پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ کرلیا اور پولیو کے باعث پاکستان پر سفری پابندیوں میں 3 ماہ کی توسیع کردی۔

    ڈبلیو ایچ او نے کہا پاکستان، افغانستان پولیو کے عالمی پھیلاؤ کیلئے بدستور خطرہ ہیں، ڈبلیو ایچ او کی ایمرجنسی کمیٹی برائے پولیو کی پابندیوں میں توسیع کی سفارش کی تھی۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی ہنگامی پولیو کمیٹی کا تیسواں اجلاس 9 نومبر کو ہوا، جس میں چین، افغانستان، پاکستان میں پولیو صورتحال پر غور کیا گیا۔

    اجلاس میں ڈبلیو ایچ او نے پولیو صورتحال اور متاثرہ ممالک کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا۔

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی آئی ہے ، پاکستان کے سیوریج میں وائرس کی موجودگی میں نمایاں کمی آئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ پاکستان میں رواں برس پولیو کا ایک کیس سامنے آیا ہے ، پاکستان میں پولیو ویکسینیشن سے انکاری والدین اور پاکستانی حساس ایریاز میں پولیو ویکسین سے محروم بچے چیلنج ہیں۔

    اعلامیے کے مطابق پولیو ویکسین سے محروم بچوں کیلئے پاکستانی انتظامات تسلی بخش ہیں، پاکستان پولیو ویکسین سے محروم بچوں کیلئے خصوصی اقدامات کر رہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی پاکستان منتقلی پولیو کے پھیلائو کا زریعہ بن سکتی ہے، پاکستانی بے گھر افراد اور مہاجرین پولیو کے حوالے سے خطرہ ہیں جبکہ پولیو ویکسین سے محروم افغان بچے پاکستان کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ پاکستان کی پولیو بارے سرویلنس مزید تین ماہ جاری رہے گی، پاکستان سے بیرون ملک جانے والے افراد کی پولیو ویکسینیشن لازمی ہو گی، ڈبلیو ایچ او تین ماہ بعد انسداد پولیو کیلئے پاکستانی اقدامات جانچے گا۔

    خیال رہے پاکستان پر پولیو کی وجہ سے سفری پابندیاں مئی 2014 میں عائد ہوئی تھیں۔

  • کورونا ویکسی نیشن : ڈبلیو ایچ او نے دنیا کو بڑے خدشے سے آگاہ کردیا

    کورونا ویکسی نیشن : ڈبلیو ایچ او نے دنیا کو بڑے خدشے سے آگاہ کردیا

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے سال 2022 میں کورونا ویکسی نیشن کے لئے سرنجوں کی قلت کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

    اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کی جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2022 میں کورونا ویکسینیشن اور بچوں کی امیونائزیشن سمیت تقریباً 2 بلین سرنجیں کی ضرورت پیش آئی گی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا ویکسینیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث سرنجوں کی قلت کا خدشہ ہے۔

    اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ئی ممالک میں سرنجوں کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ابھی سے پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے۔

    اس حوالے سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ماہر لیزا ہیڈ مین کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت میں ویکسین لگانےکے عمل اور لوگوں کی زندگیاں بچانے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس حوالے سے قبل از وقت اقدامات کئے جائیں۔

    لیزا ہیڈ مین نے واضح کیا کہ سرنجوں کی قلت عالمی سطح پر پیدا ہونے کا امکان بڑھ رہا ہے اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یقینی طور پر یہ ایک انتہائی پریشان کن صورت حال پیدا کر دے گا۔ ڈبلیو ایچ او کی ماہر نے اس امکانی معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

  • یورپ میں کورونا ویکسین وائرس پر قابو نہ پاسکی، عالمی ادارہ صحت

    یورپ میں کورونا ویکسین وائرس پر قابو نہ پاسکی، عالمی ادارہ صحت

    جنیوا : عالمی ادارہ صحت نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ بدقسمتی سے اب ویکسین بھی یورپ میں وائرس کو نہیں روک پا رہی۔

    اطلاعات کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی کے سربراہ ڈاکٹر مائیکل ریان نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یہاں بہت سی ویکسین دستیاب ہوں لیکن ویکسین کی تقسیم یکساں نہیں رہی۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ویکسین کی مناسب فراہمی کے باوجود یورپ میں کورونا وائرس کے انفیکشن کے کیسز میں 50 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے اور یورپ وبا کا مرکز بن رہا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی کے سربراہ ڈاکٹر مائیکل ریان نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یہاں بہت سی ویکسین دستیاب ہوں لیکن ویکسین کی تقسیم یکساں نہیں رہی۔

    انہوں نے یورپی حکام سے ویکسینیشن کے خلا کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے کہا کہ جن ممالک نے اپنی 40 فیصد آبادی کو ویکسین لگائی ہے انہیں اب روکنا چاہیے اور ایسے ترقی پذیر ممالک کو ویکسین کا عطیہ دینا چاہیے جو اپنے شہریوں کو ویکسین کی پہلی خوراک اب تک نہیں دے سکے ہیں۔

    اس سے قبل عالمی ادارہ صحت کے علاقائی دفتر کے سربراہ ڈاکٹر ہنس کلوگ نے ​​کہا تھا کہ یورپ اور وسطی ایشیا کے 53 ممالک خطے میں کورونا وائرس کی ایک اور لہر کے خطرے سے دوچار ہیں یا پہلے ہی وبا کی نئی لہر کا سامنا کر رہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ کورونا کیسز کی تعداد دوبارہ بڑھ کر ریکارڈ سطح کے قریب پہنچ گئی ہے، خطے میں انفیکشن کے پھیلاؤ کی رفتار انتہائی تشویشناک ہے۔

  • کرونا وائرس کا خاتمہ، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کردیا

    کرونا وائرس کا خاتمہ، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کردیا

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں کرونا وائرس کا بحران ختم ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق کرونا سے متعلق بنائی گئی کمیٹی کا ہر تین ماہ بعد اجلاس ہوتا ہے ، یہ کمیٹی 19 ارکان پر مشتمل ہے، ورچوئل اجلاس میں کرونا وبا پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔

    طویل ورچوئل اجلاس کے بعد ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کرونا ویکسین لگوانے اور علاج کے ذریعے پیشرفت دیکھی گئی ہے لیکن موجودہ حالات کے تجزیئے اور پیش گوئی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی وبا ختم ہونے کا ابھی کوئی امکان نہیں۔

    کمیٹی نے دوبارہ استعمال کیے جانے والے ماسک، سانس لینے کے آلات اور آئندہ نسل کے لیے ویکسین اور تشخیص و علاج کے حوالے سے مزید تحقیق کا مطالبہ کیا تاکہ طویل عرصے تک عالمی وبا پر کنٹرول کیا جاسکے۔

    بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کرونا وائرس کی منتقلی کو کم کرنے کے لیے ماسک کا استعمال، جسمانی فاصلہ، ہاتھوں کو صاف رکھنا اور انڈور سطح پر ہوا کے گزر کا بہتر نظام اب بھی ضروری ہے۔کمیٹی کا کہنا تھا کہ طویل عالمی وبا نے انسانی ایمرجنسی، وسیع پیمانے پر ہجرت اور دیگر بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، لہٰذا ممالک کو چاہیے کہ اپنی تیاری اور رد عمل کے منصوبوں پر نظرثانی کریں۔

    عالمی اداراہ صحت نے افریقا میں عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے درپیش چیلنجز پر تشویش کا اظہار کیا جس میں ویکسین تک رسائی، ٹیسٹ اور علاج کے ساتھ ساتھ عالمی وبا کے ارتقا کی نگرانی کے لیے اعداد و شمار جمع کرنا اور ان کا تجزیہ شامل ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: فیس ماسک پہننے کی بڑی افادیت منظر عام پر

    اعداد و شمار کے مطابق افریقا میں ہر 100 افراد میں 14 ویکسین کی خوراکیں لگائی گئی ہیں ، یہ تعداد امریکا اور کینیڈا میں ہر سو افراد میں 128 خوارکیں، یورپ میں 113، لا طینی امریکا اور کیریبین ممالک میں 106، بحر الکاہل میں 103، ایشیا میں 102 اور مشرق وسطیٰ ہر سو افراد میں 78 خوراکیں لگائی گئی ہیں۔

    کمیٹی نے ممالک سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے منظور شدہ تمام ویکسینز کو تسلیم کریں جبکہ بین الاقوامی سفر کے لیے ویکسی نیشن کا ثبوت لازمی نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی یہ واحد شرط ہونی چاہیے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ شرط عالمی دنیا تک رسائی محدود کرتی ہے اور کرونا وائرس کی ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم کو فروغ دیتی ہے، ممالک کو شرط کے بجائے بین الاقوامی سفر کے لیے خطرات کے نقطہ نظر سے اقدامات اٹھانے چاہیئں، جس میں ٹیسٹ اور قرنطینہ جیسے اقدامات شامل ہیں جب یہ مناسب ہوں

  • کورونا اور ٹی بی کا کیا تعلق؟ اموات سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا اہم انکشاف

    کورونا اور ٹی بی کا کیا تعلق؟ اموات سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا اہم انکشاف

    جنیوا : کورونا وائرس کی عالمی وباء نے نہ صرف پوری دنیا میں خود تباہی پھیلائی ہے بلکہ اس کی وجہ سے دیگر امراض میں مبتلا افراد بھی لقمہ اجل چکے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں ٹی بی (تپِ دِق) سے اموات میں اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ کورونا وائرس کے باعث طبی سہولیات کی فراہمی میں پیش آنے والی رکاوٹیں ہیں۔

    عالمی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم نے اس حوالے سے کہا ہے کہ یہ ایک تشویش ناک خبر ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے اپنی2020 کی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا کی وجہ سے ٹی بی کے خاتمے کی طرف پیش رفت متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے بڑھتے ہوئے کیسز کی تشخیص اور علاج مناسب طریقہ کار کے تحت نہیں ہو پا رہا ہے۔

    عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً 41 لاکھ افراد ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں اور یہ تعداد 2019 کے ڈیٹا کے مطابق کافی زیادہ ہے۔ 2019 میں ٹی بی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد کا تخمینہ 29 لاکھ لگایا گیا تھا۔

    ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم کے مطابق یہ رپورٹ ہمارے ان خدشات کی تصدیق کرتی ہے کہ وبائی امراض کی وجہ سے صحت کی سہولتوں میں پیدا ہونے والی رکاوٹ ٹی بی کے خلاف برسوں کی پیش رفت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق 2020 میں ٹی بی کی وجہ سے دنیا بھر میں 15 لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے دو لاکھ 14 ہزار افراد ایڈز کے مرض میں بھی مبتلا تھے۔

    اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں ٹی بی کی وجہ سے دنیا بھر میں 12 لاکھ اموات ہوئی تھیں جن میں سے دو لاکھ 9 ہزار افراد ایڈز سے بھی متاثرہ تھے۔

    عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی بی سے ہلاکتوں میں اضافہ 30 ممالک میں دیکھا گیا ہے جہاں اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

  • کروڑوں افراد بینائی چھن جانے کے خطرے کا شکار

    کروڑوں افراد بینائی چھن جانے کے خطرے کا شکار

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں مناسب اقدامات نہ اٹھائے جانے کے باعث سنہ 2050 تک بینائی سے محروم افراد کی تعداد تین گنا ہونے کا خدشہ ہے۔

    سائٹ سیورز پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر منزہ گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد لوگوں کو اندھے پن سے بچایا جاسکتا ہے اور اگر فوری طور پر اس بیماری کو روکنے کے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو لاکھوں لوگ اس کا شکار ہو سکتے ہیںَ

    انہوں نے کہا کہ اندھا پن قابل علاج مرض ہے لیکن آنکھوں کے علاج کی سہولیات نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے اس مرض پر قابو پانے کی کوششوں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پوری دنیا میں 2.2 ارب سے زائد افراد آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں متاثرہ افراد کی تعداد ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے جبکہ متاثرہ افراد میں سے نصف کا مرض قابل علاج ہے۔

    پوری دنیا میں نابینا افراد کی تعداد 2050 تک 11 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جس کے سالانہ نقصان کا تخمینہ 410.7 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

    منزہ گیلانی نے کہا کہ پاکستان میں آنکھوں کے علاج کی سہولیات کو عالمی معیار کے مطابق بنانا ہوگا تاکہ اندھے پن کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

    ان کا کہنا کہ سائٹ سیورز نے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر آنکھوں کی بینائی کے مختلف منصوبوں پرکام کیا ہے اوران منصوبوں کے ذریعے ملک میں آنکھوں کے علاج کی سہولیات میں بہتری آئے گی۔

  • ڈبلیو ایچ او کا کرونا ویکسین کی تیسری ڈوز سے متعلق اہم مشورہ

    ڈبلیو ایچ او کا کرونا ویکسین کی تیسری ڈوز سے متعلق اہم مشورہ

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت نے مشورہ دیا ہے کہ کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو کرونا ویکسین کی تیسری ڈوز دی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ویکسینیشن ماہرین کے اسٹریٹیجک ایڈوائزری گروپ کا کہنا ہے کہ مدافعتی نظام کمزور ہونے کے باعث لوگوں میں ویکسینیشن کے بعد بھی بیماری یا اچانک انفیکشن کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ویکسین ڈائریکٹر کیٹ اوبرائن نے بتایا کہ ویکسین کی تیسری ڈوز کا مشورہ شواہد کی بنیاد پر دیا گیا ہے، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کمزور مدافعتی نظام والے افراد میں اچانک انفیکشن کی زیادہ شرح دیکھنے میں آئی ہے۔

    عالمی ادارے کے پینل نے سائنوفام یا سائنوویک کی مکمل ویکسینیشن کروانے والے 60 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے ایک سے 3 ماہ بعد بوسٹر ڈوز کا مشورہ دیا، کیوں کہ تحقیق میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ وقت کے ساتھ ویکسینیشن سے ملنے والا تحفظ کم ہو جاتا ہے۔

    خود مختار ماہرین کے پینل نے کہا کہ سائنوفارم اور سائنوویک ویکسینز استعمال کرنے والے طبی حکام کو پہلے معمر آبادی میں ویکسینز کی 2 ڈوز کی کوریج کو مکمل کرنا چاہیے اور پھر تیسری ڈوز دینے پر کام کرنا چاہیے۔

  • امریکا جانے والے مسافروں کے لئے بڑی خوشخبری

    امریکا جانے والے مسافروں کے لئے بڑی خوشخبری

    اقوام متحدہ کی منظور شدہ چھ کرونا ویکسین لگوانے والوں کو امریکا کے سفر کی اجازت مل گئی۔

    امریکی حکام کا کہنا ہے کہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈ منسٹریشن ( ایف ڈی اے ) اور ڈبلیو ایچ او کی منظور شدہ کرونا ویکسین کی خوراکیں لگوانے والوں کو امریکا آنے دیا جائے گا۔

    امریکی ریگولیٹر ایف ڈی اے فائزر، موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن کی منظوری دے چکی ہے۔

    واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس نے 33 ممالک پر سے سفری پابندیاں اٹھانے کا اعلان 20 ستمبر کو کیا تھا۔

    قبل ازیں گزشتہ ماہ ستمبر میں وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے کہا تھا کہ مکمل ویکسین والے مسافر نومبر سے امریکا میں داخل ہوسکیں گے۔

    عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکا گزشتہ سال سے سفری پابندی کے شکار ملکوں سے غیر امریکی شہریوں کو ملک میں آنے کی اجازت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    اس کے علاوہ امریکا اپنی کرونا وائرس سفری پابندیوں میں نرمی کے ساتھ ، برطانیہ ، یورپی یونین اور دیگر ممالک کے مسافر کو آنے کی اجازت دے گا، نئے قواعد کے تحت ، غیر ملکی مسافروں کو پرواز سے پہلے ویکسینیشن کے ثبوت دکھانے ، سفر کے تین دن کے اندر منفی کوویڈ 19 ٹیسٹ کا نتیجہ حاصل کرنے اور اپنے رابطوں کی معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی۔

    اس وقت بیشتر غیر امریکی شہریوں کے داخلے پر پابندی عائد ہے جو گزشتہ 14 دنوں میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک ، چین ، بھارت ، جنوبی افریقہ ، ایران اور برازیل میں رہے ہیں۔

  • عالمی ادارۂ صحت کا روسی ویکسین سے متعلق اہم اعلان

    عالمی ادارۂ صحت کا روسی ویکسین سے متعلق اہم اعلان

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت روسی ویکسین کی منظوری دینے کے لیے دوبارہ جائزہ لے گا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کرونا کے لیے روس کی سپوتنک V ویکسین کی منظوری سے قبل اس کے تجزیے کا عمل دوبارہ شروع کرے گی۔

    دواؤں، ویکسینز اور دوا سازی تک رسائی کے لیے ڈبلیو ایچ او کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ماریانجیلا سماؤ نے کہا ہے کہ سپوتنک V کی منظوری کے عمل کو قانونی طریقہ کار کی کچھ کمی کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔

    تاہم عالمی ادارۂ صحت نے جمعرات کو کہا ہے کہ وہ روس کی سپوتنک V ویکسین کی منظوری کا عمل دوبارہ شروع کرنے والی ہے۔

    ماریانجیلا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ روسی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں یہ مسئلہ حل ہونے والا ہے، جیسے ہی قانونی طریقہ کار مکمل ہو جائے گا ، ہم اس عمل کو دوبارہ شروع کر سکیں گے۔

    یو اے ای نے اسپوتنک لائٹ ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی

    واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او کی ہنگامی استعمال کی لسٹنگ دراصل ایک گرین سگنل ہے جو ممالک، فنڈز، خریداری کرنے والی ایجنسیوں اور کمیونٹیز کو یقین دہانی کراتی ہے کہ ویکسین بین الاقوامی معیار پر پورا اترتی ہے۔

    اے ایف پی کے مطابق روس کے گمالیہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے تیار کردہ سپوتنک V کے لیے ایسے وقت میں ڈبلیو ایچ او کی اجازت طلب کی گئی ہے جب وہ پہلے ہی 45 ممالک میں استعمال ہو رہی ہے۔