Tag: WHO

  • ملیریا ویکسین : عالمی ادارہ صحت نے بڑا فیصلہ کرلیا

    ملیریا ویکسین : عالمی ادارہ صحت نے بڑا فیصلہ کرلیا

    عالمی ادارہ صحت نے بچوں کے لیے ملیریا کی پہلی ویکسین سے متعلق بڑا فیصلہ کرلیا، ڈبلیو ایچ او نے بچوں کے لیے آرٹی ایس، ایس /اے ایس 01 ملیریا ویکیسن کی منظوری دی ہے۔

    فرانسیسی خبررساں ادارے (اے ایف پی) کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم کا کہنا ہے کہ ملیریا کی پہلی ویکسین کی دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال کی منظوری دے دی گئی ہے۔

    مچھر سے پھیلنے والی بیماری، جس کی وجہ سے افریقی ممالک میں بچوں سمیت دنیا میں سالانہ چار لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کے خلاف یہ پہلی ویکسین ہے۔

    دنیا بھر میں ہر سال 4 لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں جن میں بڑی تعداد 5 سال سے کم عمر بچوں کی ہوتی ہے،فوٹو: فائل

     رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے یہ فیصلہ گھانا، کینیا اور مالدیپ میں 2019 میں تشکیل دیے گئے ایک پائلٹ پروگرام کے جائزے کے بعد کیا۔

    جہاں ویکسین کی 20 لاکھ سے زائد خوراکیں دی گئی تھیں، جس کو پہلی مرتبہ فارما سیوٹیکل کمپنی گلیکسو اسمتھ کے لائن نے1987 میں تیار کیا تھا۔

    عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس ایڈہانوم نے کہا کہ مذکورہ ممالک سے حاصل ہونے والے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے ملیریا کی دنیا کی سب سے پہلی ویکسین کے وسیع طور پر استعمال کی تجویز دی ہے۔

    ایک بیان میں ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ افریقی ممالک میں بڑے پیمانے پر بچوں اور دیگر خطوں میں معمولی سے شدید ملیریا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے استعمال کے بعد اس ویکسین کی تجویز دی جا رہی ہے۔

    ملیریا کیلئے دنیا کی پہلی ویکسین تیار - Health - Dawn News

    دنیا میں مختلف بیماریوں اور جراثیم کے سدباب کے لیے کئی ویکسین موجود ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پہلی مرتبہ انسانی وبائی مرض کے خلاف ایک ویکسین کے وسیع پیمانے پر استعمال کی تجویز دی گئی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے گلوبل ملیریا پروگرام کے ڈائریکٹر پیڈرو ایلونسو کا کہنا تھا کہ سائنسی نکتہ نظر سے یہ ایک بہت بڑی پییش رفت ہے۔

    ویکسین پانچ قسم کے وبائی جراثیم اور ان میں سے اکثر بدترین کہلانے والے پلاسموڈیم فیلسیپارم کے خلاف کام کرتی ہے۔ دوسری جانب کہا جارہا ہے کہ افریقی بچوں تک تجویز کردہ ویکسین پہنچنے سے قبل اگلا قدم فنڈنگ کا ہوگا۔

    عالمی ادارہ صحت کے شعبہ امیونائزیشن، ویکسین اور بائیولوجیکلز کے ڈائریکٹر کیٹ او برائین کا کہنا تھا کہ یہ اگلے اہم قدم ہوگا پھر ہم خوراک کی فراہمی کا تعین کریں گے اور فیصلہ کریں گے کہ ویکیسن کہاں سب سے زیادہ فائدہ مند ہوگی اور وہاں تک کیسے پہنچایا جائے، ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر دو منٹ بعد ایک بچہ ملیریا کی وجہ سے انتقال کرجاتا ہے۔

  • پاکستان میں کرونا ویکسینیشن، ڈبلیو ایچ او کا اعتراف

    پاکستان میں کرونا ویکسینیشن، ڈبلیو ایچ او کا اعتراف

    اسلام آباد: پاکستان میں کرونا ویکسینیشن کی رفتار کی تعریف کرتے ہوئے عالمی ادارۂ صحت کے کنٹری سربراہ نے کہا ہے کہ اب بھی چند ایسے ممالک ہیں جہاں 2 فی صد آبادی کی بھی ویکسینیشن نہ ہو سکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں سربراہ ڈبلیو ایچ او پاکستان پلیتھا ماہی پالا نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ پاکستان ویکسین لگانے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے، چند ایسے ممالک ہیں جہاں 2 فی صد آبادی کو ویکسین نہیں لگائی گئی۔

    پلیتھا ماہی نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا پاکستان ایک روز میں 10 لاکھ ویکسین لگا رہا ہے، پاکستان کی ویکسین لگانے کی مہم تیز اور مؤثر ہے۔

    کنٹری سربراہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان میں مکمل ویکسینیٹڈ افراد کی تعداد 20 فی صد سے زائد ہو چکی ہے، جب کہ جزوی ویکسینیٹڈ افراد کی تعداد 40 فی صد سے زائد ہے۔

    پلیتھا ماہی پالا نے اعتراف کیا کہ پاکستان نے کرونا وبا میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، این سی او سی نے بھی بہترین کام کیا، پاکستان میں کرونا رسپانس میں بہترین کوآرڈینیشن رہی، اور ملک میں کرونا انفیکشن کے باعث اموات کی شرح کم رہی۔

  • ہر سال 70 لاکھ لوگ قبل از وقت کیوں مر جاتے ہیں؟

    ہر سال 70 لاکھ لوگ قبل از وقت کیوں مر جاتے ہیں؟

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت نے فضائی آلودگی کو انسانی صحت کے لیے موسمی تبدیلی سے بھی بڑا خطرہ قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ فضائی آلودگی انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے سالانہ 70 لاکھ کے قریب لوگ قبل از وقت مر جاتے ہیں۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ فضائی آلودگی تمباکو نوشی اور غیر صحت مند غذائیں کھانے سے زیادہ خطرناک بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی پہلے کے خیال سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیوں کہ یہ اہم آلودگیوں جیسے نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی محفوظ سطح کو کم کر دیتا ہے۔

    عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، ادارے نے اپنے 194 رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کریں اور موسمیاتی تبدیلیوں پر کارروائی کریں۔

    یاد رہے کہ فضائی آلودگی دل اور فالج جیسی بیماریوں سے منسلک ہے، بچوں میں یہ پھیپھڑوں کی نشوونما کو کم کر سکتا ہے اور بڑھتے ہوئے دمہ کے مرض کا سبب بن سکتا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کا یہ بھی کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کے مضر اثرات موسمی تبدیلی کے منفی اثرات کے برابر ہیں۔

  • کورونا ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم ، عالمی ادارہ صحت کا بڑا انکشاف

    کورونا ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم ، عالمی ادارہ صحت کا بڑا انکشاف

    جنیوا : دنیا بھر میں کورونا ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے لیکن کچھ غریب ممالک میں ویکیسن نہ پہنچنے کے باعث لوگ ابھی تک ویکسی نیشن نہیں کراسکے۔

    اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے کورونا ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تک دنیا بھر میں تقسیم ہونے والے ویکسین کی کل دو فیصد مقدار افریقا تک پہنچ سکی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کے امیر ممالک کورونا ویکسین افریقہ نہیں جانے دے رہے کیونکہ سرمایہ دار ممالک نے کورونا ویکسین کے افریقہ پہنچنے کا راستہ بند کیا ہوا ہے۔

    ینگ جرنسلٹ کلب کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈھانوم نے کورونا ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم کو دنیا کے لئے کلنک کے ٹیکے سے تعبیر کیا ہے۔

    یاد رہے کہ دنیا بھر میں کورونا ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم پر عالمی ادارہ صحت اور دیگر عالمی ادارے بارہا اعتراض کرچکے ہیں لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

    عالمی ادارہ صحت کے اعلیٰ عہدے داروں نے سرمایہ دار ممالک منجملہ امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ویکسین کی تیسری ڈوز اپنے عوام کو دینے کے بجائے اُسے کوویکس پروگرام کے حوالے کر دے تاکہ ویکسین کو مالی لحاظ سے کمزور ممالک تک پہنچایا جا سکے۔

    اس سے قبل بھی عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی غیر منصفانہ تقسیم، اس کی ذخیرہ اندوزی، اس کی درآمدات و برآمدات میں محدودیت، منصفانہ تقسیم کے لئے مناسب انفرااسٹرکچر کے فقدان اور اس کے لئے ناکافی بجٹ کی عدم تخصیص کو حالیہ دور کے بڑے چیلنجوں میں شمار کیا تھا۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم  سے متعلق عالمی ادارہ صحت کا  بڑا بیان

    کرونا وائرس کی نئی قسم سے متعلق عالمی ادارہ صحت کا بڑا بیان

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کو مانیٹر کیا جا رہا ہے جس کی شناخت جنوری میں لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا میں ہوئی تھی۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق ’مو‘ نامی نئے کرونا ویریئنٹ کا سائنسی نام ’بی.1.621‘ ہے، عالمی اداراہ صحت کا کہنا ہے کہ مو ویریئنٹ میں ہونے والی جنیاتی تبدیلیوں کے خلاف ویکسین کے مؤثر نہ ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ مو وائرس میں اس قسم کی تغیراتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جن میں مدافعاتی عمل کو نظر انداز کرنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ وائرس کی اس نئی قسم کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی جائے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق مو وائرس کی کولمبیا میں شناخت کے بعد یورپ اور دیگر جنوبی امریکی ممالک میں بھی اس کے کیسز سامنے آئے ہیں، وائرس کی عالمی سطح پر موجودگی کی شرح 0.1 فیصد سے کم ہے، جبکہ کولمبیا میں 39 فیصد ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور قسم دریافت

    دوسری جانب کرونا وائرس کی نئی اقسام بالخصوص ڈیلٹا ویریئنٹ کے حوالے سے دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے جس کے باعث متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

    یاد رہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ نے ان افراد کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی ہوئی تھی یا جن علاقوں میں وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات پر سختی سے عمل نہیں کیا جا رہا تھا۔

    عالمی ادارہ صحت کووڈ نائٹین کی چار اقسام کی شناخت کر چکا ہے جن میں سے ایلفا ایک سو ترانوے ممالک میں جبکہ ڈیلٹا وائرس ایک سو ستر ممالک میں موجود ہے،جبکہ مو سمیت دیگر پانچ اقسام کو فی الحال مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے۔

  • ذہنی صحت پر کرونا کے اثرات سے متعلق عالمی ادارہ صحت کا تشویش ناک بیان

    ذہنی صحت پر کرونا کے اثرات سے متعلق عالمی ادارہ صحت کا تشویش ناک بیان

    برسلز: کرونا وائرس کے ذہنی صحت پر طویل المدت اثرات سے متعلق عالمی ادارہ صحت نے تشویش ناک بیان جاری کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت (WHO) نے خبردار کیا ہے کہ ذہنی صحت پر کووِڈ 19 کے اثرات طویل عرصے تک برقرار رہیں گے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق لاک ڈاؤن، قرنطینہ، بے روزگاری اور معاشی خطرات ایسے معاملات ہیں جن سے لوگوں کے ذہن پر طویل المدت اثرات مرتب ہوئے ہیں، ان اثرات کو ڈبلیو ایچ او نے ذہنی صحت کے لیے اہم قرار دیا ہے۔

    صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ مذکورہ صورت حال میں وبا کی وجہ سے ذہنی صحت پر پڑنے والے اثرات طویل المیعاد ہوں گے۔ ڈبلیو ایچ او کے یورپی ریجنل ڈائریکٹر ہنس کلوگی نے اس تناظر میں ذہنی صحت کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرنے پر زور دیا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق یورپ اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگ کووڈ نائنٹین کے نتائج سے نبردآزما ہیں، جب کہ چالیس لاکھ سے زائد لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، بے شمار کاروبار تباہ ہو گئے، جس کی وجہ سے وبا سے مینٹل ہیلتھ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

    ہنس کلوگی نے ایک انٹرویو کے دوران نئے کرونا وائرس کے لیبارٹری میں تیاری کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سارس 1 وائرس کے منبع کی تلاش میں ماہرین کو تقریباً 2 سال لگے تھے، اس کے بعد وائرس اور ابتدائی میزبان کے درمیان تعلق کا تعین کیا جا سکا تھا، اس لیے یہ نارمل ہے کہ اس میں وقت لگتا ہے۔

  • ریمڈیسیور اور ہائیڈراکسی کلوروکوئن سے متعلق عالمی ادارۂ صحت کا انکشاف

    ریمڈیسیور اور ہائیڈراکسی کلوروکوئن سے متعلق عالمی ادارۂ صحت کا انکشاف

    جینوا: عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس کو شکست دینے میں ریمڈیسیور اور ہائیڈراکسی کلوروکوئن دوائیں ناکام ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک نئی تحقیق کے بعد ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ نہ تو ریمڈیسیور اور نہ ہی ہائیڈراکسی کلوروکوئن کووِڈ 19 کے سبب اسپتال میں داخل مریضوں کو ٹھیک کرنے میں مدد کرتی ہے۔

    خیال رہے کہ کرونا وبا کے آغاز میں ریمڈیسیور اور ہائیڈراکسی کلوروکوئن کو لے کر لوگ بہت پُر امید نظر آ رہے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ ان دونوں دواؤں کا کرونا مریضوں پر کچھ خاص مثبت اثر نہیں ہوتا۔

    اب عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک تحقیق میں بھی اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ نہ تو ریمڈیسیور اور نہ ہی ہائیڈراکسی کلوروکوئن (ایچ سی کیو) کرونا کے سبب اسپتال میں داخل مریضوں کو ٹھیک کرنے میں مدد کرتی ہے۔

    کرونا کے علاج کے لیے دوائیوں کی فہرست سے اہم دوا خارج

    یہ تحقیق ناروے میں اوسلو یونیورسٹی اسپتال کے محققین کی قیادت میں کی گئی، نتائج میں دیکھا گیا کہ ریمڈیسیور اور ایچ سی کیو نے نظام تنفس کے ناکام ہونے یا سوزش پر کوئی اثر مرتب نہیں کیا، گلے میں سارس کووڈ 2 کے لوڈ میں ہر علاج گروپ میں پہلے ہفتے کے دوران قابل ذکر کمی آئی، تاہم مریض کی عمر، علامات کے دورانیے، وائرل لوڈ کی سطح اور کرونا کے خلاف اینٹی باڈیز کی موجودگی کے باوجود ان دو ادویات کا اینٹی وائرل اثر دکھائی نہیں دیا۔

    اس ریسرچ کے لیے محققین کی ٹیم نے ناروے کے 23 اسپتالوں میں داخل 181 مریضوں پر ریمڈیسیور اور ایچ سی کیو کے اثرات کا جائزہ لیا، محققین نے اسپتال میں داخل ہونے کے دوران شرح اموات میں علاج گروپ کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں پایا، یہ نتائج اینلز آف انٹرنل میڈیکل میں شائع ہوئے ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس نومبر کے آخر میں عالمی ادارہ صحت نے ریمڈیسیور کو دوائیوں کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔

  • کورونا ویکسین سے محروم ممالک کیلئے عالمی ادارۂ صحت کا اہم بیان

    کورونا ویکسین سے محروم ممالک کیلئے عالمی ادارۂ صحت کا اہم بیان

    عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ جن ملکوں میں عوام کی بڑی تعداد کو ویکسین لگ چکی ہے، انہیں مزید خوراک (بوسٹر شاٹس) حاصل کرنےکے لیے آرڈر نہیں دینے چاہئیں کیونکہ اِس وقت دنیا کے کئی ممالک کو کووِیڈ-19 ویکسین سرے سے نہیں ملی۔

    بوسٹر شاٹ کا مطلب ہے مکمل ویکسین لگوانے کے بعد ایک ڈوز مزید لگوانا ہے، اس توقع کے ساتھ کہ اس سے قوتِ مدافعت میں اضافہ ہوگا اور کرونا وائرس کے نت نئے ویرینٹس کے خلاف تحفظ ملے گا۔

    ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈانوم گیبریسوس نے کہا کہ کووِڈ-19 کی وبا سے اموات ایک مرتبہ پھر بڑھ رہی ہیں، ڈیلٹا ویرینٹ تیزی سے پھیل رہا ہے اور کئی ممالک ایسے ہیں جنہیں ابھی اپنے صحت کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے بھی ویکسین نہیں ملی۔

    ٹیڈروس نے کہا کہ "کووِڈ-19 ویکسین سپلائی ناہموار اور عدم مساوات کی شکار ہے، چند ممالک تو لاکھوں بوسٹر ڈوز منگوا رہے ہیں جبکہ دیگر ممالک ابھی تک اپنے صحت کے شعبے سے وابستہ اور زد پر موجود آبادی کو بھی ویکسین نہیں لگوا پائے۔

    انہوں نے کہا کہ ویکسین بنانے والے ادارے فائزر اور ماڈرنا ان ممالک کو بوسٹر شاٹس دے رہے ہیں جہاں پہلے ہی ویکسینیشن کی شرح بہت زیادہ ہے حالانکہ انہیں کوویکس کے لیے ڈوز فراہم کرنے چاہئیں، جو درمیانی آمدنی رکھنے والے اور غریبوں ملکوں کے لیے ایک ویکسین شیئرنگ پروگرام ہے اب ترجیح ان لوگوں کو ملنی چاہیے جنہیں ویکسین کا کوئی ڈوز نہیں ملا۔

    میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ عملے کو حفاظتی ساز و سامان کے بغیر آگ بجھانے کے لیے کون بھیجتا ہے؟ اس وقت کووِڈ-19 کے لپکتے شعلوں کی زد میں سب سے زیادہ کون ہے؟ صحت کے شعبے سے وابستہ وہ عملہ جو صفِ اول میں کام کر رہا ہے اور بزرگ شہری۔

    عالمی ادارۂ صحت کی اہم سائنس دان سومیا سوامی ناتھ کہتی ہیں کہ عالمی ادارۂ صحت کو ابھی تک ایسا ثبوت نہیں ملا کہ ویکسین کا کورس مکمل کرنے کے بعد بوسٹر شاٹ لگوانے کا کوئی فائدہ بھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ کسی وقت یہ فائدہ مند ثابت ہو، لیکن فی الحال ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ سائنس اور ڈیٹا کرے گا، کوئی کمپنی نہیں کہ آپ کو بوسٹر ڈوز لگوانے کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔

    ادارے کے سربراہ برائے ایمرجنسی پروگرامز مائیک راین کہتے ہیں کہ اگر ملکوں نے قیمتی ویکسین محض بوسٹر شاٹس پر ضائع کر دیں تو مستقبل میں سر جھکا کر اور شرم سے ماضی کی طرف دیکھنا پڑے گا کیونکہ اس وقت اس ویکسین کی ضرورت دنیا بھر کے ان لوگوں کو ہے، جو کووِڈ-19 کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا کیک حاصل کرنا اور کھانا چاہتے ہیں اور پھر انہیں مزید کیک کی طلب ہو رہی ہے۔

  • کورونا ویکسین : عالمی ادارہ صحت کی امیر ممالک سے اہم اپیل

    کورونا ویکسین : عالمی ادارہ صحت کی امیر ممالک سے اہم اپیل

    عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ایسے وقت میں جب کئی ممالک کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین موصول نہیں ہوئی، امیر ممالک کو اپنے شہریوں کو بوسٹر شاٹس یا تیسری خوراک نہیں دینی چاہیے۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم نے کہا ہے کہ کورونا کی وبا سے ایک بار پھر اموات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ کورونا وائرس کا نیا ڈیلٹا ویریئنٹ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک کو اب تک اپنے ہیلتھ ورکرز کو وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے کورونا ویکسین کی خوراک کی کافی مقدار موصول نہیں ہوئی۔

    ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کورونا وائرس کے نئے کیسز اور اموات میں اضافہ ہوا ہے۔
    انہوں نے بتایا کہ تیزی سے پھیلنے والا ڈیلٹا ویریئنٹ سب سے پہلے انڈیا میں سامنے آیا تھا اور اب یہ ایک سو چار سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے بتایا کہ عالمی سطح پر ویکسین کی فراہمی بہت حد تک ناہموار اور غیر منصفانہ ہے۔

    انہوں نے ویکسین بنانے والی کمپنیوں فائزر اور موڈرنا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ امیر ممالک کو ویکسین کی تیسری یا بوسٹر خوراکیں فراہم کرنے کے بجائے کوویکس کو بھیجیں۔ کوویکس کے تحت درمیانی آمدنی والے اور غریب ممالک کو ویکسین فراہم کی جاتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو ابھی تک ایسے ثبوت نہیں ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ ویکسین کا مکمل کورس کرنے والوں کو بوسٹر خوراکوں کی ضرورت ہو۔ اگرچہ ایک دن بوسٹر یا تیسری خوراک ضروری ہو سکتی ہے تاہم ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ اس کی ابھی ضرورت ہے۔

    اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے سربراہ مائیک ریان کا کہنا ہے کہ اگر ممالک ویکسین کی قیمتی خوراکیں بوسٹر شاٹ کے طور پر ایسے وقت میں استعمال کریں جب لوگ اب بھی ویکسین لگائے بغیر مر رہے ہیں تو ہم غصے میں پیچھے مڑ کر دیکھیں گے اور ہمیں پیچھے مڑ کر دیکھنے پر شرمندہ ہونا ہو گا۔

  • کورونا وائرس "ڈیلٹا” کا پھیلاؤ : عالمی ادارہ صحت نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    کورونا وائرس "ڈیلٹا” کا پھیلاؤ : عالمی ادارہ صحت نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    جنیوا : عالمی ادارہ صحت "ڈبلیو ایچ او” نے بتایا ہے کہ کورونا وائرس کی سب سے پہلے بھارت میں دریافت ہونے والی قسم ڈیلٹا کے متاثرین کی ایک سو سے زائد ممالک اور خطوں سے اطلاعات ملی ہیں۔

    ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز تک 104 ممالک اور خطوں نے وائرس کی ڈیلٹا قسم کی تصدیق کی ہے، یہ تعداد گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں7 زائد ہے۔

    عالمی ادارہ صحت رواں سال اپریل سے بھارت سے شروع ہونے والی کورونا وائرس کی اس متغیر قسم "ڈیلٹا” کے پھیلاؤ سے متعلق دنیا کو تازہ ترین اطلاعات فراہم کر رہا ہے۔

    اطلاعات کے مطابق27اپریل تک بھارت اور امریکہ سمیت کم از کم 17 ممالک نے اس متغیر قسم کے کیسز کی اطلاع دی تھی۔ اس کے بعد مئی کے اواخر تک یہ تعداد 60 ممالک اور خطوں تک جبکہ جون کے اواخر تک 96 تک پہنچ گئی تھی۔

    وائرس کی دیگر متغیر اقسام کی منگل تک کی صورتحال یہ ہے کہ سب سے پہلے برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم الفا کی موجودگی کی اطلاع 173 ممالک سے تھی، جو ایک ہفتے قبل کے مقابلے میں ایک کا اضافہ ہے۔

    سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی قسم بِیٹا کی تصدیق والے ممالک کی تعداد 3 کے اضافے کے بعد 122 تک، جبکہ پہلی بار برازیل میں پائی جائے والی متغیر قسم گاما کی تصدیق 2 کے اضافے کے بعد 74 ممالک میں ہوئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں وائرس کی متغیر اقسام کی نگرانی بدستور جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسلسل دو ہفتوں سے دنیا بھر میں نئے وائرس متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔