Tag: wildlife

  • ویڈیو: وائلڈ لائف اہلکاروں نے زخمی تیندوے کو ریسکیو کر لیا

    ویڈیو: وائلڈ لائف اہلکاروں نے زخمی تیندوے کو ریسکیو کر لیا

    اسلام آباد: وائلڈ لائف اہلکاروں نے بھاگنے سے معذور ایک زخمی تیندوے کو آزاد کشمیر سے ریسکیو کیا ہے۔

    ترجمان اسلام آباد وائلڈ لائف کے مطابق آزاد کشمیر محکمہ وائلڈ لائف کی درخواست پر اسلام آباد وائلڈ لائف کی ریسکیو ٹیم نے ایک زخمی تیندوے کو بہ حفاظت ریسکیو کیا ہے۔

    وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے مطابق تیندوے کی پچھلی دونوں ٹانگیں زخمی ہیں، یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ تیندوا کیسے زخمی ہوا، تیندوے کا طبی معائنہ شروع کر دیا گیا ہے، ترجمان کا کہنا ہے کہ تیندوے کی ٹانگوں کے ایکسرے کے بعد حقائق سامنے آئیں گے۔

    تیندوے کو آج رات اسلام آباد وائلڈ لائف کے ریسکیو اور بحالی کے مرکز منتقل کیا جائے گا، جب کہ تیندوے کے علاج سے متعلق مزید حکمت عملی طبی ماہرین کی رائے کے بعد مرتب کی جائے گی۔

  • سعودی عرب کا اسمارٹ سٹی ماحولیاتی پناہ گاہ بننے کے لیے تیار

    سعودی عرب کا اسمارٹ سٹی ماحولیاتی پناہ گاہ بننے کے لیے تیار

    ریاض: سعودی عرب کے زیر تعمیر اسمارٹ سٹی نیوم کے مجموعی رقبے کا 95 فیصد حصہ ماحولیات و جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    نیوم الصیلہ میں عربی بارہ سنگھے، عرب صحرائی غزال، پہاڑی غزال اور پہاڑی بکرے کو محفوظ کرنے کے لیے ایک فیسلٹی بھی تیار کرے گا۔

    یہ ریزرو دنیا میں جنگلی حیات کی بحالی کے سب سے بڑے پروگراموں میں سے ایک ہوگا، یہ وزیٹرز کو پودوں اور جنگلی حیات کی ترقی اور بحالی کے لیے نیوم کے پروگراموں کے بارے میں جاننے کی اجازت دے گا۔

    یہ اعلان دوسرے تبوک فورم میں کیا گیا جس کا اہتمام نیوم نے کیا تھا۔

    فورم کے دوران حکام نے مختلف شعبوں میں شروع کرنے والے پروگرامز، جن میں سماجی ذمہ داری، اسپورٹس، سیاحت، میڈیا، کیریئر گائیڈنس منیجمنٹ، انسانی وسائل، معاہدے اور خریداری، مہمان نوازی، تعلیم اور اسکالر شپ شامل ہیں، پر روشنی ڈالی۔

    سعودی عرب نیوم میں دی لائن سٹی جیسے منصوبوں کے ذریعے اپنے عزائم کو بڑھا رہا ہے، یہ شہر 200 میٹر چوڑا، 170 کلومیٹر طویل اور سطح سمندر سے 500 میٹر بلند ہوگا۔

    نیوم کا ڈیزائن زیرو گریویٹی اربنزم کے ایک نئے تصور پر مبنی ہے، رہائشیوں کو شہر میں بغیر کسی رکاوٹ کے تین سمتوں اوپر، نیچے اور دفاتر، اسکولوں، پارکوں اور اس پار تک فوری رسائی فراہم کرنے کے قابل بناتا ہے۔

    دا لائن سٹی سہ جہتی طریقے سے منظم کیا جائے گا، دفاتر، تجارتی مراکز، بنیادی ضروریات فراہم کرنے والے اداروں اور شہریوں کی رہائش کے درمیان کم سے کم فاصلہ رکھا جائے گا۔

    دا لائن کے باشندوں کو کسی بھی مطلوبہ پوائنٹ تک جانے کے لیے پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگیں گے، یہ سڑکوں اور معمول کی مواصلات سے متعلق بنیادی ڈھانچے سے آزاد شہر ہوگا۔

    لائن کا منفرد ماڈیولر ڈیزائن اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پانچ منٹ کی واک میں تمام سہولتوں تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

    ایک جدید ڈیزائن کا استعمال کرتے ہوئے جس میں کم سے کم جگہ اور کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے، ہائیڈروپونکس باغات روایتی زراعت کے طریقوں کے نصف وقت میں پھل، سبزیاں اور پھول اگائیں گے۔

    نیوم میں کئی میگا پراجیکٹس جاری ہیں جن میں سے ایک تروجینا ہے جو عراقی برطانوی آرکیٹیکٹ زاہا حدید کی جانب سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

    یہ ایک سال بھر کے موسم سرما کے سپورٹس کمپلیکس ہے، یہ گلف کوآپریشن کونسل کے علاقے میں پہلا آؤٹ ڈور سکی ریزورٹ ہوگا جو 2029 میں ایشین ونٹر گیمز کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔

  • مانیٹرنگ کیمرے میں بھالو کی 400 سیلفیاں!

    امریکا میں جنگلی حیات کی حفاظت کے لیے لگائے گئے ایک کیمرے نے ایک پرتجسس بھالو (ریچھ) کی 400 سیلفیاں کھینچ ڈالیں جسے دیکھ کر ماہرین مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔

    یہ واقعہ امریکی ریاست کولوراڈو کے شہر بولڈر میں پیش آیا، شہر میں 46 ہزار ایکڑ پر پھیلے ایک وائلڈ لائف ایریا میں جانوروں کی مانیٹرنگ کے لیے 9 ٹریل کیمرے لگائے گئے تھے جن کی ہفتہ وار بنیادوں پر چیکنگ کی جاتی تھی۔

    ایک دن ایک کیمرے سے ڈھیروں کی تعداد میں نہایت دلچسپ چیز برآمد ہوئی۔

    ایک کیمرے نے قریب آنے والے بھالو کی 400 سیلفیاں کھینچ ڈالی تھیں جو نہایت تجسس سے اس کے قریب آ کر کیمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔

    بھالو کی حرکت محسوس ہوتے ہی کیمرے نے ایک کے بعد ایک تصویر کھینچ ڈالی یوں کیمرے میں موجود 580 تصاویر میں سے 400 بھالو کی سیلفیاں جمع ہوگئیں۔

    وائلڈ لائف کی انتظامیہ نے کچھ تصاویر ٹویٹر پر شیئر کیں جس پر صارفین نے بھی دلچسپ ردعمل دیا۔

    انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پارک میں لگائے گئے کیمرے موشن ڈیٹیکٹو ہیں یعنی اپنے آس پاس ذرا سی حرکت پر فعال ہوجاتے ہیں، ان کیمروں کی مدد سے علاقے میں جنگلی حیات کی نقل و حرکت یا انہیں لاحق کسی ممکنہ خطرے سے آگاہی حاصل ہوتی رہتی ہے۔

  • پختونخواہ میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اہم اقدام

    پختونخواہ میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اہم اقدام

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے چیک پوسٹیں قائم کرنے کی منظوری دے دی گئی، تمام چیک پوسٹوں کو محکمہ جنگلات کی اراضی پر قائم کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں صوبے میں جنگلی حیات کو تحفظ دینے کے لیے چیک پوسٹیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    اعلامیے میں کہا گیا کہ غیر قانونی شکار اور اسمگلنگ سے بچاؤ اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 22 چیک پوسٹیں قائم کی جائیں گی، چیک پوسٹیں ڈی آئی خان، ہری پور، چترال اور ایبٹ آباد میں قائم ہوں گی۔

    اجلاس میں چیف کنزرویٹر جنگلی حیات کو چیک پوسٹ بنانے کا اختیار دے دیا گیا، 8 چیک پوسٹوں کو محکمہ جنگلی حیات اور محکمہ جنگلات مشترکہ طور پر استعمال کریں گے، تمام چیک پوسٹوں کو محکمہ جنگلات کی اراضی پر قائم کیا جائے گا۔

    تمام چیک پوسٹوں کی کیمروں سے نگرانی کی جائے گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے چیک پوسٹیں قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

  • جنگلات اور جنگلی حیات کو گرمی سے بچانے کے لیے اہم قدم

    جنگلات اور جنگلی حیات کو گرمی سے بچانے کے لیے اہم قدم

    پشاور: محکمہ جنگلات، ماحولیات و جنگلی حیات خیبر پختون خوا نے شدید گرمی کی لہر کے پیش نظر جنگلات اور جنگلی حیات کو گرمی سے بچانے کے لیے ایڈوائزری جاری کر دی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق محکمہ موسمیات اور نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے اتوار 8 مئی 2022 سے ایک ہفتے کے لیے شدید ہیٹ ویو کے حالات کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے، محکمہ جنگلات نے جانوروں کی حفاظت کے لیے اس عرصے میں خصوصی اقدامات کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

    اعلامیے کے مطابق متعلقہ کنزرویٹر، ڈویژنل فارسٹ آفیسر، محکمہ وائلڈ لائف کے افسران جنگلات، نرسریز، نیشنل پارکس، پشاور چڑیا گھر اور دیگر چڑیا گھروں، فیزنٹریز اور وائلڈ لائف پارکس کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے افسران خود ذمہ دار ہوں گے۔

    واضح رہے کہ محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں اور خصوصی طور پر خیبر پختون خوا میں اتوار سے ہفتے کے دن تک گرمی کی شدت میں 5 سے 7 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔

    ترجمان محکمہ جنگلات لطیف الرحمٰن نے بتایا کہ شدید گرمی کی لہر کی وجہ سے جنگلی حیات کے عملے کو جانوروں اور پرندوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے پہلے سے ہدایات جاری کیے گئے ہیں، متعلقہ افسران کو جانوروں کو تازہ پانی کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر دو بار (صبح اور دوپہر) تالابوں/ ٹبوں/ برتنوں میں پانی کی باقاعدگی سے تبدیلی کو یقینی بنانے کی ہدیت کی گئی ہے۔

    یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ چڑیا گھر میں برڈ ایویری میں فراہم کردہ پانی کے چشمے کو فعال رکھا جائے تاکہ پرندے نہا سکیں اور خود کو گیلا کر سکیں، نیز فوری طور پر جہاں ضرورت ہو، گھاس کے مواد اور سبز چادروں کا استعمال کرتے ہوئے اوپر اور اطراف میں پناہ کے ساتھ پنجرے فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے۔

    لطیف الرحمٰن نے بتایا کہ انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ پنجروں میں پانی کے چھڑکاؤ کو یقینی بنایا جائے تاکہ پرندوں اور جانوروں پر ٹھنڈا اثر پڑے، چڑیا گھر میں ٹھنڈک کے لیے جانوروں کے گھروں اور پناہ گاہوں میں پنکھے اور کولر بھی لگائے جائیں گے۔

    یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے بیماری کی صورت میں دوائیں پانی میں ملا کر دی جائیں، مخصوص جانوروں کو کھانے اور ان کے جسم کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے رسیلی خوراک جیسے پھل فراہم کیے جائیں۔

    وائلڈ لائف عملے کو ہدایت کی گئی ہے کہ گرمی کی لہر یا شدید موسم کے دوران کسی بھی جانور یا پرندے کو منتقل نہیں کیا جائے گا، عملے کو دھوپ سے بچانےکے لیے ٹوپیاں فراہم کی جائیں گی، مختلف مقامات پر واٹر پوائنٹس کے ذریعے زائرین اور عملہ دونوں کو ٹھنڈے پانی کی سہولت کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

    جنگلات کی حفاظت بھی ضروری ہے

    محکمہ جنگلات کے ترجمان لطیف الرحمٰن نے بتایا کہ شدید گرمی میں جانوروں کے ساتھ جنگلات کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے، اس لیے ہم نے اضلاع کی سطح پر محکمہ جنگلات کے افسران کو ہدایات جاری کی ہیں کہ پودوں خصوصی طور پر نرسریوں میں لگے چھوٹے پودوں کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔

    انھوں نے کہا چھوٹے پودے جن کی جڑیں کمزرو ہوتی ہیں، انھیں گرمی سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے، اس لیے ہم نے افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ نرسریوں میں عملے کی موجودگی یقینی بنائے اور پودوں کو بروقت پانی دی جائے تاکہ کوئی پودا گرمی کی وجہ سے متاثر نہ ہو۔

    لطیف الرحمٰن کے مطابق نرسریوں میں ٹیوب شفٹنگ کو فوری طور پر روکنے کا کہا گیا ہے اور جون کے مہینے تک پودوں کے بیچ نہ بونے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

    افسران کو کہا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122، فیلڈ اسٹاف، پولیس کے ساتھ کوآرڈینیشن کو مضبوط بنایا جائے، کنزرویٹرز اور ڈویژنل فارسٹ آفیسرز اور محکمہ جنگلی حیات کے افسران ان 7 دنوں کے دوران ہینڈ آن مانیٹرنگ اور منیجمنٹ کے لیے فیلڈ میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔

  • براعظم افریقہ کا حسن، جنگلی جانور معدوم ہونے کے قریب

    براعظم افریقہ کا حسن، جنگلی جانور معدوم ہونے کے قریب

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ براعظم افریقہ میں جنگلی جانور معدوم ہو رہے ہیں، تحقیق کے مطابق انسانی سرگرمیوں کے باعث سنہ 2100 کے اواخر تک افریقی ممالیہ جانوروں اور پرندوں کی نصف نسلیں معدوم ہوسکتی ہیں۔

    دنیا بھر سے 550 ماہرین کی تیار کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیاتی نظام کے تنوع میں کمی سے انسانی کا معیار زندگی متاثر ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں یورپ اور وسطی ایشیا میں زمین پر بسنے والے جانوروں اور پودوں میں 42 فیصد کمی آئی ہے۔

    یہ اعداد و شمار دنیا کے آخری نر شمالی سفید گینڈے کی موت کے بعد سامنے آئے ہیں۔ ان انکشافات کے باوجود تحقیق میں کئی جنگلی حیات میں کامیاب اضافے کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

    انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آف بائیو ڈائیورسٹی ایںڈ ایکوسسٹم سروسز (آئی پی بی ای ایس) کے مطابق چین اور شمال مشرقی ایشیا میں سنہ 1990 اور 2015 کے درمیان برساتی جنگلوں میں 20 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا کہ ماضی میں معدومی کا شکار ہونے والے آمور تیندوے کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    کولمبیا میں بائیو ڈائیورسٹی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی سائنس دان سر رابرٹ واٹسن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس عمل کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور قدرت کے غیرمستحکم استعمال سے پلٹنا ہوگا ورنہ پھر ہم جو مستقبل چاہتے ہیں اس کو خطرے کا سامنا ہوگا۔

    اس تحقیق میں 10 ہزار سے زائد سائنسی مضامین کا جائزہ لیا گیا اور اسے سنہ 2005 کے بعد حیاتی نظام پر سب سے جامع تحقیق کہا جا رہا ہے۔

    خوراک اور پانی کے حوالے سے لاحق خطرات میں آلودگی، موسمی تبدیلی اور جنگلات کا کٹاؤ سر فہرست ہیں۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے حکومتیں، کاروبار اور انفرادی طور پر افراد جب کھیتی باڑی، ماہی گیری، جنگلات، کان کنی یا انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے فیصلے کریں تو وہ ان کے حیاتی نظام پر اثرات کو بھی ضرور ملحوظ خاطر رکھیں۔

  • جنگلی حیات کے تحفظ کا جنون: جب شہزادہ فلپ نے شیر کا شکار کیا

    جنگلی حیات کے تحفظ کا جنون: جب شہزادہ فلپ نے شیر کا شکار کیا

    لندن: ملکہ برطانیہ کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ گزشتہ روز 99 برس کی عمر میں چل بسے، شہزادہ فلپ نے ساری عمر ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے دیوانہ وار کام کیا۔

    گزشتہ روز شاہی خاندان کو سوگوار چھوڑ جانے والے شہزادہ فلپ فطرت سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انہیں اس کی حفاظت کا جنون تھا۔

    انہوں نے تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کے لیے اس وقت بات کی جب کسی کا دھیان اس طرف نہیں تھا، شہزادے نے دنیا بھر کے دورے کیے جن کا مقصد دنیا کو وہاں ہونے والی ماحولیاتی آلودگی، درختوں کی کٹائی اور شکار کی وجہ سے جانوروں کو لاحق خطرات کی طرف متوجہ کرنا تھا۔

    شہزادے نے ہمیشہ دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنسز میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں تحفظ ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کی افریقہ میں ہاتھیوں کو کھانا کھلاتی، چین میں پانڈا کے ساتھ وقت گزارتی اور انٹارکٹیکا میں پانی کی بلی کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی تصاویر جنگلی حیات سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    سنہ 1961 میں جب ماحولیات کی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) قائم کی گئی تو شہزادہ فلپ کو اس کا پہلا صدر بنایا گیا۔ اس تنظیم کے ساتھ انہوں نے دنیا بھر میں دورے کیے اور جنگلی حیات اور ماحول کے تحفظ کا شعور اجاگر کیا۔

    لیکن اسی سال ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا، شہزادہ فلپ نے ملکہ برطانیہ کے ساتھ نیپال کا دورہ کیا جہاں دونوں نے ہاتھیوں پر بیٹھ کر گینڈے اور شیر کے شکار میں حصہ لیا۔

    اسی سال موسم گرما میں شاہی جوڑے نے بھارت کا دورہ بھی کیا جہاں شہزادہ فلپ نے ایک ٹائیگر کا شکار کیا، ٹائیگر کے مردہ جسم کے ساتھ فخریہ کھڑے ان کی تصویر نے دنیا بھر میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔

    دنیا جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں ان کے قول و فعل کے تضاد پر چیخ اٹھی، لیکن اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اس کی وضاحت یوں کی کہ ان کے خیال میں جانوروں کا شکار کرنا دراصل اس جانور کا وجود قائم رکھنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جب آپ کسی جانور کا شکار کرتے ہیں تو آپ چاہتے ہیں کہ اگلے سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسان اپنی فصل کو کاٹ ڈالے تاکہ وہ اگلے سال دوبارہ اگے، ہاں لیکن وہ اس فصل کو مکمل طور پر تباہ نہیں کرے گا جو کہ خود اس کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    ان کی یہ توجیہہ کسی حد تک اس لیے بھی قابل قبول خیال کی گئی کیونکہ اس وقت ٹائیگر آج کی طرح معدومی کے خطرے کا شکار نہیں تھا، اور اس کی تعداد مستحکم تھی۔

    بعد ازاں برطانیہ میں لومڑی کے شکار پر پابندی کی بحث چلی تو شہزادے نے شکار کرنے والوں کا دفاع کیا، اس پر بھی تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والے افراد اور ادارے ان سے خاصے ناراض ہوئے۔

    شہزادہ فلپ 1982 میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کی صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے، لیکن وہ ذاتی طور پر طویل عرصے تک ادارے کی کئی مہمات کا حصہ بنے رہے۔ وہ پانڈا کو بچانے کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی مہم میں ایک سرگرم رکن کے طور پر کام کرتے رہے۔

    علاوہ ازیں انہوں نے سمندری آلودگی اور ضرورت سے زیادہ ماہی گیری کے خلاف مہمات کی بھی بھرپور حمایت کی اور مختلف مواقع پر اس پر بات کرتے نظر آئے۔

    اپنے ایک انٹرویو میں آنجہانی شہزادے نے کہا تھا، ’یہ ایک بہت خوبصورت بات ہے کہ ہماری زمین پر مختلف نوع کی حیات موجود ہے اور سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ہم انسانوں کے پاس دوسری حیات کو زندگی بخشنے یا ان کی جان لینے، انہیں معدوم کرنے یا انہیں بچا لینے کی طاقت ہے، تو ہمیں کوئی بھی کام کرنے سے قبل اخلاقی حس کو کام میں لانا چاہیئے‘۔

  • جب جان لیوا کرونا وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی کی امید بنا!

    جب جان لیوا کرونا وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی کی امید بنا!

    دنیا بھر میں آج جنگلی حیات کا دن منایا جارہا ہے، اس وقت جب دنیا بھر میں جان لیوا کرونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، وہیں یہ وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی اور امید کی کرن بھی ثابت ہوا ہے۔

    جنگلی حیات کا عالمی دن منانے کی قرارداد سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کی تھی، اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس دن کا مقصد خطرے کا شکار جنگلی حیات کے تحفظ کے سلسلے میں شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس یہ دن ’زمین پر ہر نوع کی زندگی برقرار رکھنے کی کوشش‘ کے تحت منایا جارہا ہے۔

    جانوروں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    لیکن بدقسمتی سے ہماری زمین پر موجود جانور تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جانداروں کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے ہوئے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے۔ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ صورتحال جانوروں کے لیے نہایت تشویش ناک ہے جو صدیوں سے یکساں درجہ حرات میں افزائش پانے کے عادی ہیں۔

    اس کے علاوہ ان کو لاحق خطرات میں ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، اور مختلف استعمالات کے لیے ان کا بے تحاشہ شکار شامل ہے۔

    ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    کرونا وائرس ۔ امید کی کرن

    گزشتہ برس کے اختتام پر سامنے آنے والے جان لیوا کرونا وائرس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اب تک اس وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 90 ہزار جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد 3 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ وائرس چینی شہریوں کے ہر قسم کے گوشت کے بے تحاشہ غیر ذمہ دارانہ استعمال کے باعث سامنے آیا ہے اور یہیں یہ وائرس جنگلی حیات کے لیے امید کی کرن ثابت ہوا ہے۔

    چین میں گوشت کی اس کھپت کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار اور پھر چین میں ان کی تجارت کی جاتی ہے کیونکہ چین اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

    تاہم اب کرونا وائرس کے زبردست جھٹکے کے بعد چین اب جنگلی حیات کے حوالے سے قوانین میں تبدیلیاں کر رہا ہے جس سے جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت اور شکار میں کمی آئے گی۔

    چین میں کرونا وائرس سے سب سے متاثرہ شہر ووہان میں جس پہلے شخص میں اس وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا اس کا تعلق ایک ایسے علاقے سے تھا جہاں جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت کی منڈی واقع ہے۔

    یہیں سے سائنسدانوں کی توجہ جانورں پر مرکوز ہوئی، پہلے سور اور پھر چمگادڑ کو اس وائرس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا بالآخر اب سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا نامی وائرس کے پھیلاؤ کی اہم وجہ پینگولین بنا۔

    چین میں اس وقت پینگولین کے علاوہ، چیتے اور رائنو سارس کی غیر قانونی تجارت عروج پر ہے، ان جانوروں کی کھالیں اور مختلف اعضا فر، ملبوسات، اور چینی دوائیں بنانے کے کام آتی ہیں۔

    دنیا بھر کے ماہرین جنگلی حیات اور ماہرین ماحولیات پرامید ہیں کہ چین کی جانب سے جنگلی حیات سے متعلق قوانین میں تبدیلی ان جانوروں کی بقا میں اہم کردار ادا کرے گی۔

  • کیا ہوا جب شیر نے کچھوے کا شکار کرنا چاہا؟

    کیا ہوا جب شیر نے کچھوے کا شکار کرنا چاہا؟

    کسی بھی انسان کی زندگی میں تیز رفتاری، اور عقلمندی دو ایسے عوامل ہیں جو اس کی بقا کے ضامن ثابت ہوتے ہیں۔ جب زندگی اور موت کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو کوئی بھی ایسا کام کر گزرتا ہے جس کی عام حالات میں اس سے توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔

    ایسا ہی کچھ احوال جانوروں کا بھی ہے جو اپنی محدود صلاحیت و عقل میں اپنی بقا کی راہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جانور انسانوں کی طرح اشرف المخلوقات نہیں لہٰذا قدرت نے انہیں فطری طور پر ایسے اعضا و صلاحیتیں دی ہوئی ہیں جو انہیں مشکل حالات سے بچا سکتی ہیں۔

    ایسا ہی ایک منظر اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک شیر نے اپنے سے کمزور کچھوے کو اپنا نوالہ بنانے کی کوشش کی۔ اپنی سست رفتاری کے لیے مشہور کچھوا بھاگ کر یا چھپ کر اپنی جان کیا بچاتا، ایسے میں خدا کا دیا ہوا ایک تحفہ اس کے کام آگیا۔

    کچھوے نے اپنی ڈھال یعنی سخت خول میں پناہ لے لی۔ شیر نے بہت کوشش کی کہ خول کے اندر سے کچھوے کا منہ پکڑ کر باہر نکالے لیکن سخت خول اس کی راہ کی رکاوٹ بنا رہا۔

    تھک ہار کر شیر نے کچھوے کو، جو اس کے لیے اب ایک پتھر جیسا تھا، پھینکا اور دوسرے شکار کی تلاش میں چل پڑا۔ کچھوے نے کچھ دیر بعد خول سے اپنا منہ اور بازو نکالا اور پھر سے اپنی منزل کی جانب رینگنے لگا۔

  • بغیر دھاریوں والا انوکھا زیبرا

    بغیر دھاریوں والا انوکھا زیبرا

    دھاری دار جسم کا حامل زیبرا براعظم افریقہ میں پایا جاتا ہے، حال ہی میں ایک انوکھے زیبرا کو کیمرے نے عکسبند کیا جسے دیکھ کر ماہرین خوشگوار حیرت میں پڑ گئے۔

    کینیا کے ایک ریزرو میں دیکھا جانے والا یہ ننھا زیبرا اپنے خاندان کے دیگر زیبروں سے کچھ مختلف ہے۔ اس کے جسم پر سیاہ و سفید دھاریوں کے بجائے سفید دھبے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق زیبرے کے جسم کی یہ انفرادیت ایک نایاب جینیاتی بگاڑ میلینزم کی وجہ سے ہے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں البانزم (یا برص) کا مرض موجود ہوتا ہے۔ یہ مرض انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم کو رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد جسم کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔

    اس مرض کا شکار انسان یا جانور سفید رنگت کے حامل ہوتے ہیں۔

    اس کے برعکس میلینزم میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں جس کے باعث یا تو جسم پر گہرے یا سیاہ رنگ کے دھبے پڑجاتے ہیں، یا پھر پورا جسم سیاہ ہوجاتا ہے۔

    البانزم کی نسبت میلینزم نایاب ترین مرض ہے اور اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ زیبرا اس بگاڑ کے باعث نہایت انفرادیت کا حامل ہے اور یہ اس طرح کا، اب تک دیکھا جانے والا واحد زیبرا ہے۔