Tag: wildlife

  • چڑیا گھر میں سرخ پانڈا کے ننھے بچوں کا استقبال

    چڑیا گھر میں سرخ پانڈا کے ننھے بچوں کا استقبال

    برطانیہ کے چڑیا گھر میں ایشیائی علاقوں میں پائے جانے والے جانور سرخ پانڈا نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا جس سے ماہرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

    سرخ پانڈا، پانڈا کی ایک نایاب نسل ہے جو مغربی چین، بھارت، لاؤس، نیپال اور برما کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اسے سرخ بھالو بلی بھی کہا جاتا ہے اور اس کی خوراک میں بانس کے علاوہ انڈے، پرندے اور کیڑے مکوڑے بھی شامل ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق سرخ پانڈا کو اپنی پناہ گاہوں یا رہائشی مقامات میں کمی کے باعث بقا کا خطرہ لاحق ہے۔

    گزشتہ 50 برس میں اس پانڈا کی آبادی میں 40 فیصد کمی آئی ہے جس کے بعد دنیا بھر میں اس پانڈا کی تعداد اب صرف 10 ہزار ہے۔ اسے اس کے نرم فر (بالوں) کی وجہ سے غیر قانونی طور پر شکار بھی کیا جاتا ہے۔

    برطانیہ میں اس پانڈا کی افزائش نسل بھی کی جارہی ہے اور انہی اقدامات کے تحت انگلینڈ کے چیسٹر زو میں موجود سرخ پانڈا نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے۔

    ان بچوں کی پیدائش نے سرخ پانڈا کو لاحق خطرات پر متفکر ماہرین میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔

  • 90 سالہ کچھوے سے ملیں

    90 سالہ کچھوے سے ملیں

    اپنی سست روی کے لیے مشہور کچھوا اپنی طویل العمری کی وجہ سے بھی مشہور ہے، آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک طویل عمر پانے والے کچھوے سے ملوا رہے ہیں جس کی عمر 90 سال ہے۔

    امریکی ریاست ٹیکساس کے سان مارکوس دریا میں فلمبند کیا گیا یہ کچھوا پہلی نظر میں کوئی عجیب الخلقت سا جانور معلوم ہوتا ہے اور اس کی وجہ اس کے جسم پر اگ آنے والی کائی ہے۔

    اسی کائی کی بنیاد پر لگائے گئے ماہرین کے اندازے کے مطابق اس کچھوے کی عمر لگ بھگ 90 سال ہے۔ کچھوے کو ایک طالبہ نے فلمبند کیا جو اپنے یونیورسٹی اسائنمنٹ کے سلسلے میں وہاں موجود تھی۔

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    کچھوا دنیا کے تمام براعظموں پر پایا جاتا ہے سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    دراصل کچھوے سرد خون والے جاندار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجہ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔

  • معدومی تیز رفتار چیتے کو پچھاڑنے کے قریب

    معدومی تیز رفتار چیتے کو پچھاڑنے کے قریب

    دنیا بھر میں آج چیتوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، تحفظ جنگلی حیات کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دنیا بھر کے جنگلات میں اس وقت صرف 3 ہزار 900 چیتے موجود ہیں۔

    امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق چیتوں کی معدومی کے خطرے کی وجوہات میں ان کی پناہ گاہوں (عموماً گھنے جنگلات) میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کے شکار (دیگر جنگلی حیات) میں کمی اور ان کا اپنا شکار ہوجانا شامل ہے۔

    چیتے کا شکار ان کے جسمانی اعضا کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے، بعض اوقات ننھے چیتوں کو زندہ پکڑ کر ان کی غیر قانونی تجارت کی جاتی ہے، یہ وہ تجارت ہے جس میں خطرناک جنگلی جانوروں کو گھروں میں پال کر ان کی جنگلی جبلت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

    چیتوں کے لیے ایک اور خطرہ ان کے غیر قانونی فارمز بھی ہیں۔ یہ فارمز ایشیائی ممالک میں موجود ہیں جو چڑیا گھروں سے الگ قائم کیے جاتے ہیں اور بظاہر ان کا مقصد چیتوں کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن درحقیقت یہاں چیتوں کو ان کے جسمانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کے لیے رکھا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ چیتوں کے جسمانی اعضا دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ایشیا میں تقریباً 200 چیتوں کے فارمز موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر چین، ویتنام اور تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ ان فارمز میں 8000 کے قریب چیتے موجود ہیں جو جنگلوں اور فطری ماحول میں رہنے والے چیتوں سے دگنی تعداد ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ان فارمز میں انسانوں کی صحبت میں پلنے والے چیتے آرام دہ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ ان فارمز کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں بند کرنے کا مطالبہ تو کیا جارہا ہے تاہم عالمی ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ان فارمز کی بندش سے پہلے چیتوں کی رہائش کے لیے متبادل جگہ قائم کی جائے۔

    اس وقت چیتوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں موجود ہے جہاں 2 ہزار 226 چیتے ہیں۔ چیتوں کی آبادی والے دیگر ممالک میں روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیپال، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، ویتنام، لاؤس اور میانمار شامل ہیں۔

  • کچھوؤں کا عالمی دن

    کچھوؤں کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں کچھوے کی اہمیت اور اس کے تحفظ کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے کچھوے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    اس کی اوسط عمر بھی بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    کچھوا دنیا کے تمام براعظموں پر پایا جاتا ہے سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    بدقسمتی سے اس وقت کچھوؤں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق دنیا بھر میں کچھوؤں کی 300 میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔

    کچھوؤں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔

    مزید پڑھیں: کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

  • عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے ’پروٹیکٹ اور اسپیشیز‘ یعنی مختلف انواع کا تحفظ۔

    انسانوں کی صنعتی ترقی اور ماحولیاتی وسائل کے بے دریغ استعمال نے اس وقت زمین پر رہنے والے ہر جاندار کی زندگی داؤ پر لگا دی ہے، چاہے وہ مختلف جانور ہوں یا درخت اور پودے۔

    زمین پر موجود تمام جانوروں اور پودوں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور یا پودے کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    کچھ عرصہ قبل لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ان کے علاوہ بھی جانوروں کی کئی اقسام معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    یہی صورتحال درختوں اور جنگلات کی ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 1 کروڑ 87 لاکھ ایکڑ رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    عظیم معدومی

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کے مطابق ہم انسان جس خود غرضانہ طریقے سے صرف اپنے لیے زمین اور اس کے وسائل کو استعمال کر رہے ہیں، قوی امید ہے کہ زمین سے جنگلی حیات اور دیگر انواع کا خاتمہ ہوجائے، لیکن یہاں یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ اتمام انواع ہی انسان کی بقا کی ضانت ہیں اور ان انواع کا خاتمے کے بعد انسان کی بقا کی امید رکھنا خام خیالی ہے۔

  • کینیا میں جانوروں کا شکار کرنے پر سزائے موت کا فیصلہ

    کینیا میں جانوروں کا شکار کرنے پر سزائے موت کا فیصلہ

    نیروبی: افریقی ملک کینیا میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کا شکار کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان کردیا گیا۔

    کینیا کے وزیر برائے سیاحت و جنگلی حیات نجیب بلالا نے اعلان کیا ہے کہ جنگلی حیات کا شکار کرنے پر موجودہ سزائیں ناکافی ہیں اور اب جلد شکار کرنے پر سزائے موت کا قانون بنا دیا جائے گا۔

    نجیب بلالا کا کہنا تھا کہ اب تک جنگلی حیات کا شکار کرنے پر عمر قید کی سزا اور 2 لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد تھا تاہم یہ بھی جنگلی حیات کا شکار روکنے کے لیے ناکافی رہا جس کے بعد اب سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    کینیا کے اس اقدام کے بعد اسے اقوام متحدہ میں مخالفت اور تنازعے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ دنیا کے تمام ممالک میں کسی بھی جرم پر سزائے موت کی سخت مخالف ہے۔

    خیال رہے کہ کینیا میں متنوع جنگلی حیات پائی جاتی ہے جس میں شیر، زرافے، زیبرا، شتر مرغ، گینڈے اور دریائی گھوڑے شامل ہیں۔ یہ جانور کینیا سمیت دیگر افریقی ممالک کی سیاحت کا بڑا سبب ہیں۔

    گزشتہ کچھ عرصے سے افریقی جانوروں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد ان جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ان جانوروں کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    تاہم کینیا اور دیگر افریقی ممالک میں اس شکار کو روکنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کیے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ کینیا میں شکار کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں 78 فیصد جبکہ گینڈوں کے شکار میں 85 فیصد کمی آئی۔

    حکام کو امید ہے کہ سزائے موت کے بعد اب ان جانوروں کے شکار میں مزید کمی آتی جائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ یہ شکار بند ہوجائے گا۔

  • کینیا میں سیاہ تیندوا منظر عام پر

    کینیا میں سیاہ تیندوا منظر عام پر

    آپ نے ہالی ووڈ کی ریکارڈ ساز سپر ہیرو فلم بلیک پینتھر تو ضرور دیکھی ہوگی، افریقی ملک کینیا میں بھی بلیک پینتھر کا نظارہ دیکھا گیا لیکن یہ بلیک پینتھر ہالی ووڈ کی فلم سے کہیں زیادہ شاندار اور قابل دید تھا۔

    افریقہ کے جنگلات میں عکس بند کیا جانے والا یہ سیاہ تیندوا، تیندوے کی نایاب ترین نسل ہے۔

    اس سے تقریباً 100 سال قبل ایک سیاہ تیندوا دیکھا گیا تھا اور اس کی موجودگی کے بارے میں صرف اندازے قائم تھے، تاہم اب اس خوبصورت جانور کی صاف تصاویر نے ماہرین کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔

    اس کی تصاویر کھینچنے والے وائلڈ لائف فوٹو گرافر ول لوکس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں اس خوبصورت جانور کی موجودگی کے بارے میں سنا تھا، تاہم انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ اسے دیکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔

    یہ تیندوا اتنا انوکھا کیوں ہے؟

    اس بارے میں ماہر جنگلی حیات نکولس پلفولڈ کا کہنا ہے کہ یہ تیندوا ایک نایاب جینیاتی مرض میلینزم کا شکار ہے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں البانزم (یا برص) کا مرض موجود ہوتا ہے۔ یہ مرض انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔

    اس مرض میں جسم کو رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد جسم کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔

    اس مرض کا شکار انسان یا جانور سفید رنگت کے حامل ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: البانزم کا شکار سفید بارہ سنگھا

    اس کے برعکس میلینزم میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں جس کے باعث یا تو جسم پر گہرے یا سیاہ رنگ کے دھبے پڑجاتے ہیں، یا پھر پورا جسم سیاہ ہوجاتا ہے۔

    البانزم کی نسبت میلینزم نایاب ترین مرض ہے اور اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ اس تیندوے کے والدین میں بھی یہ مرض موجود ہو، البتہ ان کی جینیات میں اس کا امکان ضرور ہوسکتا ہے جو ان کی آنے والی نسل میں ظاہر ہوتا ہے۔

  • صدر ٹرمپ کی دیوار بھی ماحول اور جنگلی حیات کے لیے دشمن

    صدر ٹرمپ کی دیوار بھی ماحول اور جنگلی حیات کے لیے دشمن

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میکسیو اور امریکا کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا عزم مصمم کیے ہوئے ہیں، دیوار کی تعمیر سے ایک طرف تو بے شمار مسائل کھڑے ہونے کا خدشہ ہے تو دوسری طرف دونوں ممالک کی جنگلی حیات اور ماحول بھی بری طرح متاثر ہوگی۔

    میکسیکو اور امریکا کے درمیان موجود سرحد 2 ہزار میل طویل ہے جس میں 3 پہاڑی سلسلے، شمالی امریکا کے 2 بڑے صحرا، وسیع مویشی خانے، اور ریو گرانڈے کا دریا موجود ہے۔

    یہ علاقے ماحولیاتی اعتبار سے نہایت زرخیز ہے اور بے شمار جنگلی حیات کا مسکن ہے۔

    ان علاقوں میں زیادہ انسانی آبادی موجود نہیں جس کی وجہ سے یہاں جنگلی حیات کی فراوانی ہوگئی، اس حصے میں 100 میل کا علاقہ ایسا بھی ہے جسے محفوظ قرار دے دیا گیا ہے۔

    یہاں پر دو نایاب اقسام کی بلیوں، پرندوں کی 400 اقسام، مختلف پودوں اور درختوں کی بے شمار اقسام جبکہ سینکڑوں اقسام کی تتلیوں سمیت کئی اقسام کی جنگلی حیات موجود ہے۔

    دیوار کی تعمیر سے ان کی نقل و حرکت محدود ہوجائے گی، جبکہ جنگلی حیات کے کئی مقامات تعمیر کے دوران تباہ بھی ہوجائیں گے۔ اسی طرح کئی اقسام کے درخت اور پودے بھی کنکریٹ کی دیوار تعمیر کرنے کے لیے اکھاڑ دیے جائیں گے۔

    امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر مشن میں 100 ایکڑ پر مشتمل نیشنل بٹر فلائی سینٹر قائم ہے جہاں تتلیوں کی افزائش کی جاتی ہے۔

    دیوار کی تعمیر کے بعد یہ سینٹر 2 حصوں میں تقسیم ہوجائے گا جس کے بعد تتلیوں کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات متاثر ہوں گے۔

    اس سینٹر نے دیوار کے خلاف عدالت میں درخواست بھی دائر کر کھی ہے کہ ان کی ذاتی املاک کا حق پامال کیا جارہا ہے۔

    صدر ٹرمپ اس سے قبل بھی ماحول دشمن اقدامات کر چکے ہیں جن میں سرفہرست دنیا کے کاربن اخراج میں کمی کے معاہدے سے دستبرداری ہے۔ یہ دستبرداری امریکیوں سمیت دنیا بھر کی عوام کے غم و غصے اور احتجاج کے باوجود عمل میں لائی گئی۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار صدر ٹرمپ عوام کے تحفظات کا ادراک کریں گے یا ہر بار کی طرح وہی کریں گے جو ان کا دل چاہے گا۔

  • دنیا کا تیز رفتار ترین جاندار کون سا ہے؟

    دنیا کا تیز رفتار ترین جاندار کون سا ہے؟

    ہم عموماً چیتے کو دنیا کا سب سے تیز رفتار جاندار سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی چیتا تیز رفتار ترین جاندار ہے؟

    آج ہم آپ کو دنیا کے تیز رفتار ترین جانداروں کے بارے میں بتا رہے ہیں جن میں سے کچھ چیتے سے بھی زیادہ تیز ہیں۔

    تیز رفتار جانداروں کی فہرست کا آغاز شیر سے ہوتا ہے۔ شیر 50 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    اس کے بعد شتر مرغ، مچھلی کی ایک قسم سورڈ فش، اور دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ ہمنگ برڈ 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار رکھتے ہیں۔

    آبی حیات کی ایک اور قسم سیل فش 68 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تیر سکتی ہے۔

    اس کے بعد چیتا 75 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتا ہے۔

    بڑے پروں والا ہنس 88 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ سکتا ہے۔

    اس کے بعد ہارس فلائی 90 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتی ہے جسے تیز رفتار ترین کیڑے کا اعزاز حاصل ہے۔

    اور ہماری فضاؤں میں اڑنے والا کبوتر بھی تیز رفتار ترین پرندہ ہے جس کی رفتار 92 میل فی گھنٹہ ہے۔

    میکسیکو میں پائی جانے والی ایک چمگادڑ جو تیز ترین ممالیہ ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہے، 99 میل فی گھنٹہ کی رفتار رکھتی ہے۔

    اس سے دگنی رفتار سنہری عقاب کی ہے جو 200 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتا ہے۔

    سب سے تیز رفتار باز کی ہوتی ہے جو 242 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔

    اور ہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہماری زمین پر سب سے تیز رفتار انسان کا اعزاز رکھنے والے کھلاڑی یوسین بولٹ جن کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی درج ہے، صرف 28 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتے ہیں۔

  • معصوم کوالا پیاس سے مرنے لگے

    معصوم کوالا پیاس سے مرنے لگے

    کیا آپ کوالا جانور کے بارے میں جانتے ہیں؟

    گلہری کے ہم شکل کوالا کو بھالو کی نسل سے سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک کیسہ دار (جھولی والا) جانور ہے اور کینگرو کی طرح اس کے پیٹ پر بھی ایک جھولی موجود ہوتی ہے جہاں اس کے نومولود بچے پرورش پاتے ہیں۔

    یہ جانور صرف آسٹریلیا میں پایا جاتا ہے۔

    مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے مشاہدے کے مطابق کوالا کی پیاس میں اچانک بے حد اضافہ ہوگیا ہے یہاں تک کہ پیاس سے ان کی اموات بھی واقع ہورہی ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ کوالا کی بنیادی خوراک یوکلپٹس (درخت) کے پتے ہیں جو ان کے جسم کو نہ صرف توانا رکھتا ہے بلکہ ان کے جسم کو درکار پانی کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔ تاہم موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث یوکلپٹس کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔

    یوکلپٹس کے تازہ پتوں میں پرانے پتوں کی نسبت زیادہ نمی ہوتی ہے لہٰذا کوالا بہت شوق سے یوکلپٹس کے تازہ پتے کھاتے ہیں۔

    تاہم اس درخت کی پیداوار میں کمی سے ایک تو تازہ پتوں کی بھی کمی واقع ہورہی ہے، دوسری جانب کلائمٹ چینج کے اثرات کے باعث نئے یوکلپٹس کے پتے پہلے کی طرح ترو تازہ اور نمی سے بھرپور نہیں ہوتے جو کوالا کی پیاس بجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔

    آسٹریلوی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوالا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے جو اسے معدوم کرسکتا ہے۔ ان کے مطابق آسٹریلیا کے جنگلات میں اب 1 لاکھ سے بھی کم کوالا رہ گئے ہیں۔

    دوسری جانب موسم گرما کی شدت میں اضافہ اور ہیٹ ویوز بھی ان معصوم جانوروں کے لیے مزید زحمت ثابت ہوتا ہے اور اس موسم میں ان کی اموات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کی جانب سے جنگلات میں کوالا کی پناہ گاہوں کے قریب پانی کے باقاعدہ ذخائر بنا دیے گئے ہیں اور یہی ایک واحد ذریعہ ہے جس سے کوالا کو معدوم ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔