Tag: wildlife

  • مادہ پانڈا کو دھوکا دے کر اس کے بچے بدل دیے گئے

    مادہ پانڈا کو دھوکا دے کر اس کے بچے بدل دیے گئے

    چین میں پانڈا کے تحفظ کے لیے بنائے جانے والے ایک سینٹر میں ایک مادہ پانڈا کو بے خبر رکھ کر اس کے بچوں کی پرورش کروائی جارہی ہے۔

    چین کے شہر چنگژو میں اس مادہ پانڈا نے دراصل جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے۔ مادہ پانڈوں کی اکثریت زیادہ تر جڑواں بچوں کو ہی جنم دیتی ہیں تاہم پیدائش کے بعد وہ ایک بچے کو لاوارث چھوڑ دیتی ہیں۔

    خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایسا اس لیے کرتی ہیں کیونکہ وہ بیک وقت دو بچوں کو دودھ نہیں پلا سکتیں اور نہ ان میں اتنی توانائی ہوتی ہے کہ 2 بچوں کی نگہداشت کرسکیں۔

    تاہم اس سینٹر میں کوشش کی جارہی ہے کہ پانڈا کے دونوں بچے اپنی ماں کے زیر نگہداشت ہی بڑھ سکیں۔

    اس کے لیے سینٹر کی انتظامیہ کچھ وقت کے بعد ایک بچے کو دوسرے سے بدل کر ماں کے قریب رکھ دیتی ہے۔ یوں مادہ پانڈا دونوں بچوں کو دودھ پلاتی ہے اور ان کا خیال رکھتی ہے۔

    مزے کی بات یہ ہے کہ مادہ پانڈا اب تک اس دھوکے میں ہے کہ اس کا ایک ہی بچہ ہے جسے وہ پال رہی ہے۔

    اس عمل کے لیے سینٹر کی انتظامیہ کو نہایت تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ دن میں تقریباً 10 سے 11 بار بچے بدلنے کا یہ عمل انجام دیتے ہیں۔

    سینٹر کی انتظامیہ کا یہ عمل دراصل پانڈا کی آبادی میں اضافے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔

  • کینیا میں کرنسی سکوں پر جانوروں کی شبیہہ کندہ

    کینیا میں کرنسی سکوں پر جانوروں کی شبیہہ کندہ

    افریقی ملک کینیا میں کرنسی سکوں پر سے صدور کی شبیہیں ہٹا کر جنگلی حیات کی شبیہیں کندہ کردی گئیں۔ اقدام کا مقصد ان صدور کی جانب سے ذاتی شہرت کے لیے شروع کیے گئے اس عمل کا خاتمہ اور ملک کی معدوم ہوتی جنگلی حیات کے تحفظ کی طرف توجہ دلانا ہے۔

    اس سے قبل سکوں پر کینیا کے 3 صدور جومو کینیاتا، ڈینیئل ارپ موئی اور موائی کباکی کی شبیہیں کندہ تھیں۔ یہ تینوں صدور سنہ 1963 سے باری باری کینیا پر حکمران رہے جب یہ ملک برطانیہ سے آزاد ہوا تھا۔

    ان میں سے ڈینیئل ارپ موئی طویل ترین عرصے یعنی 24 سال تک اقتدار میں رہے۔ ان کے بعد موائی کباکی نے ان کی جگہ مسند اقتدار سنبھالا۔

    کینیا کی کرنسی پر ہمیشہ سے برسر اقتدار حکمران کی تصاویر شائع کی جاتی رہی تاہم اس عمل کو کینیا کی عوام نے سخت ناپسند کیا۔ ان کا خیال تھا کہ کرنسی پر اپنی تصاویر چھاپنے کا مقصد دراصل ذاتی تشہیر اور ملک کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھنا ہے۔

    سنہ 2002 میں جب موائی کباکی اقتدار میں آئے تو انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ کرنسی پر اپنی تصاویر نہیں چھپوائیں گے لیکن جلد ہی انہوں نے اپنا وعدہ توڑ دیا۔

    سنہ 2010 میں عوام کے بے تحاشہ دباؤ پر جہاں آئین میں کئی تبدیلیاں کی گئیں وہیں اس شق کو بھی شامل کیا گیا کہ کرنسی پر کسی انفرادی شخصیت کی تصویر نہیں چھاپی جائے گی۔

    مرکزی بینک کی جانب سے نئے سکے جاری کیے جانا اسی شق پر عملدر آمد کا حصہ ہے اور بہت جلد ایسے ہی نئے کرنسی نوٹ بھی جاری کردیے جائیں گے۔

    نئے جاری کیے جانے والے سکوں پر افریقہ میں پائے جانے والے جانور شیر، ہاتھی اور زرافہ اور رائنو کی شبیہیں کندہ کی گئی ہیں۔

    مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ سکوں پر جنگلی حیات کی شبیہیں کندہ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ کینیا اب اپنے ماحول اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔

  • اکیلے شیر پر افریقی بلیوں کا حملہ

    اکیلے شیر پر افریقی بلیوں کا حملہ

    ویسے تو ببر شیر اپنی خونخواری اور خطرناکی کی وجہ سے مشہور ہے تاہم بعض اوقات شیر کو بھی مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے اور وہ بھی گھر سکتا ہے۔

    بی بی سی ارتھ کی ایک ویڈیو میں ایسے ہی ایک شیر کی مشکل عکسبند کی گئی ہے جو افریقی بلیوں سے ملتی جلتی قسم ہائینا کے غول میں گھر گیا ہے۔

    ہائینا افریقہ میں پائی جانے والی ممالیہ نسل ہے جو بظاہر کتے سے ملتا جلتا ہے لیکن ماہرین کے مطابق عادات و خصلتوں میں یہ بلیوں کے زیادہ قریب ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ڈھیر سارے ہائینا نے ببر شیر کو گھیر لیا ہے اور اس کی دھاڑ سے خوفزدہ ہوئے بغیر اس پر جھپٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    یہ ویڈیو بی بی سی ارتھ کے نئے ٹی وی پروگرام ’ڈائنسٹیز‘ کے تحت عکسبند کی گئی ہے۔

    معروف محقق اور ماہر ماحولیات ڈیوڈ ایٹنبرو کا پیش کردہ پروگرام ’ڈائنسٹیز‘ جو کچھ عرصہ قبل ہی شروع کیا گیا ہے، بہت تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ ڈیوڈ اس سے قبل پلینٹ ارتھ اور بلیو پلینٹ نام کی سیریز بھی پیش کرچکے ہیں۔

    اب ان کی نئی سیریز زمین کے سب سے زیادہ خطرے کا شکار 5 جانوروں پینگوئن، بن مانس، ببر شیر، چیتے اور شکاری کتے کی ایک قسم پینٹڈ وولوز کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔

    اس سیریز کی تیاری میں 4 سال کا عرصہ لگا ہے جبکہ سیریز میں ان جانوروں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا جارہا ہے۔

  • قلت آب کے باعث جانوروں کی خونخوار لڑائی

    قلت آب کے باعث جانوروں کی خونخوار لڑائی

    ماں چاہے انسان کی ہو یا جانور کی اپنے بچے کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر حد تک جا سکتی ہے، ایسا ہی ایک معرکہ بھارت کے ایک نیشنل پارک میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں ایک ریچھنی اپنے بچے کو بچانے کے لیے چیتے سے بھڑ گئی۔

    بھارتی ریاست مہاراشٹر میں واقع تڈوبا نیشنل پارک رواں برس سخت گرمیوں کا شکار رہا جس کی وجہ سے وہاں موجود پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہوگئی۔

    پانی اب پارک میں موجود چند ہی تالابوں میں بچا ہے جسے پینے کے لیے ہر قسم کے جانور ایک ہی جگہ پر اکٹھے ہوجاتے ہیں اور یہیں سے خرابی کا آغاز ہوا۔

    ایسے ہی ایک دن ایک ریچھنی اپنے بچے کو لیے تالاب پر پہنچی تو وہاں پہلے سے موجود چیتے کی ریچھ کے بچے کو دیکھ کر رال ٹپک پڑی۔

    لیکن ریچھنی نے پہلے ہی اس کا ارادہ بھانپ لیا اور چیتے پر حملہ کردیا۔ یہ خونخوار لڑائی کم از کم 15 منٹ تک جاری رہی۔

    لڑائی کے اختتام تک دونوں فریق شدید زخمی ہوگئے تاہم ریچھنی اپنے بچے کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی اور چیتے کو ہار مان کر پیچھے ہٹنا پڑا۔

  • میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    میرے کمرے میں بندر کیسے آگیا؟

    یورپی ملک آئس لینڈ میں تحفظ جنگلی حیات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بنائی جانے والی شارٹ فلم پر سیاسی طور پر متنازعہ ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی، تاہم اس کے باوجود عام افراد کی جانب سے اسے پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

    شارٹ فلم ایک ننھی بچی اور بندر سے ملتے جلتے ایک جانور اورنگٹن پر مشتمل ہے۔ بچی اپنے کمرے میں اورنگٹن کو دیکھ کر پریشان ہے جو اس کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور اس کی چیزوں کو پھینک رہا ہے۔

    دروازوں اور کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے اورنگٹن نے کمرے کی کئی قیمتی چیزیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ اس کے بعد جب وہ میز پر بیٹھتا ہے تو وہاں بچی کا شیمپو رکھا ہے جو پام (پھل) سے بنا ہے۔ اسے دیکھ کر اورنگٹن ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے۔

    ادھر بچی اورنگٹن کو دیکھ کر سخت پریشان ہے اور وہ اسے فوراً اپنے کمرے سے نکل جانے کو کہتی ہے، اورنگٹن دل گرفتہ ہو کر کمرے سے باہر جانے لگتا ہے جس کے بعد بچی اس سے پوچھتی ہے کہ وہ اس کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: اپنی نسل کا وہ واحد جانور جو دنیا بھر میں کہیں نہیں

    اورنگٹن اپنی داستان سناتا ہے کہ وہ جنگلات میں رہتا تھا۔ ایک دن وہاں انسان آگئے جن کے پاس بڑی بڑی مشینیں اور گاڑیاں تھیں۔ انہوں نے درخت کاٹ ڈالے اور جنگل کو جلا دیا تاکہ وہ اپنے کھانے اور شیمپو کے لیے وہاں پام اگا سکیں۔

    ’وہ انسان میری ماں کو بھی ساتھ لے گئے اور مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے بھی نہ لے جائیں چنانچہ میں چھپ گیا‘۔

    اورنگٹن کہتا ہے کہ انسانوں نے میرا پورا گھر جلا دیا، میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے سو میں نے سوچا کہ میں تمہارے ساتھ رہ جاتا ہوں۔

    اورنگٹن کی کہانی سن کر بچی اچھل پڑتی ہے اور وہ عزم کرتی ہے کہ وہ اس اورنگٹن کی کہانی ساری دنیا کو سنائے گی تاکہ پام کے لیے درختوں کے کٹائی کو روکا جاسکے اور اورنگٹن کی نسل کو بچایا جاسکے۔

    اورنگٹن کی نسل کو کیوں خطرہ ہے؟

    جنوب مشرقی ایشیائی جزیروں بورنو اور سماترا میں پایا جانے والا یہ جانور گھنے برساتی جنگلات میں رہتا ہے۔

    تاہم ان جنگلات کو کاٹ کر اب زیادہ سے زیادہ پام کے درخت لگائے جارہے ہیں جو دنیا کی ایک بڑی صنعت کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

    پام کا پھل کاسمیٹک اشیا، مٹھائیوں اور دیگر اشیائے خوراک میں استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے تیل کی مانگ بھی بہت زیادہ ہے۔

    اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کئی ایشیائی اور یورپی ممالک میں جنگلات کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کے بعد وہاں پام کے درخت لگائے جاتے ہیں۔ آگ لگنے کے بعد وہاں موجود جنگلی حیات بے گھر ہوجاتی ہے اور ان کی موت کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اورنگٹن بھی انہی میں سے ایک ہے جو اپنی پناہ گاہوں کے تباہ ہونے کا باعث معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہے۔

    دوسری جانب آئس لینڈ اب تک وہ پہلا ملک ہے جو مقامی برانڈز پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنی اشیا میں سے پام کا استعمال ختم کردیں۔

    مذکورہ شارٹ فلم بھی آئس لینڈ میں موجود ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کی جانب سے بنائی گئی ہے تاہم نشریاتی بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ چند نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔

    اس اینیمیٹڈ فلم کو سوشل میڈیا پر بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ فلم کو ان 25 اورنگٹنز کے نام کیا گیا ہے جو ہر روز اپنی پناہ گاہیں کھونے کے بعد اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

    فلم کے آخر میں ننھی بچی اورنگٹن کو گلے لگاتے ہوئے کہتی ہے، ’مستقبل لکھا ہوا نہیں ہے، لیکن میں اسے یقینی بناؤں گی کہ وہ ہمارا ہو‘۔

  • انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کو یوں تو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے تاہم یہ اشرف المخلوقات دیگر جانداروں کے لیے کس قدر نقصانات کا باعث بن رہا ہے اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق انسان نے صرف 50 سال کے اندر زمین اور اس پر رہنے والے جانداروں کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صرف 50 سال کے اندر زمین پر رہنے والے 60 فیصد جنگلی حیات، دنیا بھر کے گہرے سمندروں میں پائی جانے والی نصف مونگے کی چٹانیں، اور دنیا کے سب سے بڑے برساتی جنگل ایمیزون کا پانچواں حصہ ختم ہوچکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس تمام نقصان کی سب سے بڑی وجہ آبی و فضائی آلودگی، موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کی بربادی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 1970 سے 2014 کے درمیان 4 ہزار اقسام کی جنگلی حیات اور جنوبی اور وسطی امریکا میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 89 فیصد جاندار ختم ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    اس کی وجہ ان جانوروں کی پناہ گاہوں یعنی جنگلوں کی بے تحاشہ کٹائی تھی تاکہ وہاں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زراعت کی جاسکے۔

    ماہرین کے مطابق انسان اس زمین پر چھٹی عظیم معدومی کا آغاز کر چکا ہے۔

    یاد رہے کہ زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اگلے 50 سال تک جانوروں کا شکار کرنا، آلودگی پھیلانا اور جنگلات کی کٹائی بند کردیں تب بھی زمین کو اپنی اصل حالت میں واپس لوٹنے کے لیے 30 سے 50 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

  • برفانی الو کا برفیلا جھولا

    برفانی الو کا برفیلا جھولا

    شمالی امریکا میں واقع اونٹاریو جھیل پر برفانی الو دیکھا گیا جو جھیل کی برف پر بیٹھا تھا، اس نایاب منظر نے دیکھنے والوں کو دنگ کردیا۔

    امریکی شہر نیویارک اور کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے سنگم پر واقع اس جھیل میں نہایت حسین منظر دیکھنے میں آیا جب ایک برفانی الو یہاں بیٹھا ہوا دیکھا گیا۔

    برفانی الو جھیل کی جھولتی ہوئی برف پر بیٹھا رہا جس نے دیکھنے والوں کی حیران کردیا۔

    برفانی الو عام الو کی نسل سے ہی تعلق رکھتا ہے اور یہ نایاب پرندہ آرکٹک اور امریکا کے برفانی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

    یہ الو سارا سال آرکٹک کے کناروں پر گزارتے ہیں تاہم سردیوں کے موسم میں یہ غذا کی تلاش میں کینیڈا اور امریکا کی سرحد پر آجاتے ہیں۔

  • معذور کچھوے کے لیے لیگو وہیل چیئر

    معذور کچھوے کے لیے لیگو وہیل چیئر

    کھلونوں کی مشہور بین الاقوامی کمپنی لیگو ایک معذور کچھوے کو سہارا دینے کا سبب بن گئی۔

    18 سال کا یہ کچھوا سڑک کنارے اس حالت میں پایا گیا کی اس کا سخت خول ٹوٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے یہ ٹھیک سے چل نہیں پارہا تھا۔

    گو کہ کچھوؤں کا خول بہت سخت ہوتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں اگر یہ کسی کشتی سے ٹکرا جائیں تو ان کا خول باآسانی ٹوٹ جاتا ہے۔

    خول چونکہ کچھوے کے پورے جسم کو حفاظت فراہم کرتا ہے لہٰذا خول ٹوٹنے سے کچھوے کے جسم کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں اور شدید زخمی ہونے کے باعث ان کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    سڑک کنارے پائے جانے والے اس زخمی کچھوے کو ویٹرنری کلینک لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے دیکھا کہ کچھوے کا خول کسی شدید تصادم کی وجہ سے 7 مقامات سے ٹوٹا ہوا تھا۔

    ڈاکٹرز نے ابتدائی امداد فراہم کرنے کے بعد کچھوے کے لیے ایک وہیل چیئر بنا دی جس کے لیے لیگو بلاکس کو کام میں لایا گیا۔

    ہلکی پھلکی سی یہ وہیل چیئر کچھوے کو توازن اور سہارا فراہم کر رہی ہے اور اس کے باعث کچھوا پھر سے رینگنے کے قابل ہوگیا ہے۔

    کچھوے کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • دنیا کا سب سے قوی الجثہ کچھوا

    دنیا کا سب سے قوی الجثہ کچھوا

    دنیا کے سب سے قوی الجثہ کچھوے نے سمندر سے نمودار ہو کر ہلچل مچا دی، لوگ اس کی جسامت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔

    وسطی امریکا کے ایک جزیرے پر نمودار ہونے والا یہ کچھوا لیدر بیک نامی قسم سے تعلق رکھتا تھا۔ کچھوے کی یہ قسم عام کچھوؤں سے جسامت میں بڑی ہوتی ہے تاہم مذکورہ کچھوے کی جسامت حیرت انگیز تھی۔

    یہ مادہ کچھوا انڈے دینے کے موسم میں ساحل پر انڈے دینے آئی تھی اور گڑھا کھود کر انڈے دینے کے بعد واپس جا رہی تھی۔

    اپنے بڑے بڑے ہاتھوں سے ساحل پر رینگتی ہوئی یہ پانی کی طرف گئی اور کبھی نہ آنے کے لیے غائب ہوگئی۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔

    مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سینکڑوں انڈے دینے والی مادہ کچھوا اپنی نسل کو بچانے سے قاصر

    اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔

    اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔

    اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔

  • جانوروں میں ’انسانیت‘ کی انوکھی مثال

    جانوروں میں ’انسانیت‘ کی انوکھی مثال

    بعض جانور آپس میں جانی دشمن ہوتے ہیں لیکن ان کے علاوہ دیگر جانوروں میں محبت، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جو جذبہ ہوتا ہے وہ انسانوں کو بھی دنگ کردیتا ہے۔

    ایسا ہی ایک منظر افریقہ کے جنگلات میں دیکھنے میں آیا جہاں ہاتھی نے ایک خونخوار شیرنی کی مدد کر کے انوکھی مثال قائم کردی۔

    ہوا کچھ یوں کہ تپتی دوپہر میں ایک شیرنی اپنے ننھے سے بچے کے ساتھ کسی سایہ دار جگہ پر جانا چاہتی تھی مگر ننھا شیر کچھ بیمار بھی تھا اور گرم زمین پر چل نہیں پارہا تھا۔

    ایسے میں ہاتھی نے انہیں دیکھا تو ننھے شیر کو اٹھا کر اپنی سونڈ پر رکھ لیا اور شیرنی کے ساتھ چلتا ہوا سایہ دار مقام پر پہنچ گیا۔

    گو کہ شیرنی شکار کے معاملے میں ہاتھی کو بھی نہیں بخشتی اور اس پر حملہ کردیتی ہے لیکن ہاتھی کے اس ہمدردانہ جذبے کے بعد یقیناً وہ ساری زندگی کسی ہاتھی پر حملہ کرنے سے گریز کرے گی۔

    یہی نہیں وہ اپنے بچے کو بھی یہ بتائے گی کہ کس طرح اس کے بچپن میں ایک ہاتھی نے اس کی مدد کی لہٰذا وہ کبھی ہاتھیوں پر حملہ نہ کرے۔

    مدد اور ہمدردی کا یہ جذبہ دیکھ کر کیا آپ اب بھی ان کو جنگلی جانور کہیں گے؟