شیخوپورہ : خوفناک اژدہے نے دہشت پھیلادی،15فٹ لمبا اژدہا دیکھ کر لوگوں کے اوسان خطا ہوگئے، اینیمل ریسکیو کی ٹیم نے اژدہے کو زندہ پکڑ کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق شیخوپورہ کے علاقے ٹھٹہ تارڑاں فیصل آباد روڑ پر نہر کے پل پر بڑا سانپ (ازدہا) نکل آیا، جس سے علاقے میں خوف وہراس پھیل گیا۔
اژدہے کی لمبائی پندرہ فٹ اور وزن پچاس کلو گرام تھا، علاقہ مکینوں کی فوری اطلاع پر اینیمل ریسکیو ٹیم جلد ہی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی،1122ریسکیو ٹیم کے رضاکاروں نے کافی تگ و دو کے بعد اژدہے کو زندہ پکڑ کر قید کر لیا, ریسکیو ٹیم کا کہنا ہے کہ اژدھا وائلڈ لائف کے حوالے کردیا جائے گا۔
بدلتے ہوئے موسموں اور شکار کے لیے خطرناک جدید تکنیکوں کے استعمال کے بعد جنگلی حیات کی آبادی میں خطرناک کمی واقع ہورہی ہے اور بہت سے جانداروں کی معدومی کا خدشہ ہے۔
تاہم ایک جانور ایسا بھی ہے جو اپنی نسل کا واحد معلوم رکن ہے اور ابھی تک اس نسل کے مزید جانور نہیں دیکھے گئے۔
بندر سے ملتا جلتا ایک جانور اورنگٹن خود بھی ایک نایاب جانور ہے جو صرف ملائیشیا اور انڈونیشیا میں پایا جاتا ہے۔ اس کی نسل جسے البینو اورنگٹن کہا جاتا ہے، اس کا صرف ایک ہی رکن اب تک دیکھا جاسکا ہے۔
عام اورنگٹن
یہ اورنگٹن البانزم نامی بیماری کا شکار ہے۔ یعنی اس کے جسم میں رنگ پیدا کرنے والے پگمنٹس کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہ عام اورنگٹن کی طرح بھورا ہونے کے بجائے سفید ہے۔
البانزم کی یہ بیماری انسانوں اور دوسرے جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔
تاہم جانوروں میں یہ بیماری انہیں اپنے ہم نسلوں سے ممتاز اور منفرد بنا دیتی ہے۔
اس وقت دنیا میں واحد البینو اورنگٹن البا نامی مادہ اورنگٹن ہے۔ اسے ایک شخص کی قید سے رہائی دلائی گئی تھی جس نے اسے پنجرے میں قید کر رکھا تھا۔
البا کو جنگل میں نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ اپنے سفید بالوں اور انفرادیت کی وجہ سے یہ شکاریوں کا خاص ہدف بن سکتی ہے۔
اسے ایک جزیرے پر منتقل کیا گیا ہے جس کا ماحول تقریباً اس کی قدرتی رہائش گاہ جیسا ہی ہے۔
البا اس جزیرے پر دوسرے اورنگٹنز کے ساتھ مزے سے رہ رہی ہے جہاں وہ دل بھر کے اپنے پسندیدہ پھل کھاتی ہے۔
آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔
اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، سال کے سب سے لمبے دن یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔
زمین پر پایا جانے والا سب سے طویل القامت جاندار زرافہ ایک بے ضرر جانور ہے جو افریقہ کے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرتآئی یو سی این نے زرافے کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔
زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟
ایک عام خیال ہے کہ زرافہ دراصل اپنی غذائی عادات کے باعث اس قد تک پہنچا۔
درختوں کی اونچی شاخوں سے پتے کھانے کے لیے زرافے نے خود کو اونچا کرنا شروع کیا اور ہر نسل پچھلی نسل سے لمبی ہوتی گئی۔ یوں زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ نظریہ غلط ہے۔
کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زرافے کی گردن ممکنہ طور پر جنسی وجوہات کے باعث لمبی ہوئی۔
تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ممکن ہے زرافے مادہ زرافوں کے حصول کے لیے آپس میں لڑتے ہوں، لڑنے کے دوران وہ اپنی گردنیں آپس میں بھڑاتے ہوں اور اسی وجہ سے ان کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔
رپورٹ میں 1968 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نر زرافوں کے سینے سے اوپر کے حصہ کی عجیب ساخت ان کے کسی خاص قسم کی لڑائی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔
سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق تو نہیں کی کہ زرافوں کی آپس کی لڑائی صرف مادہ کے حصول کے لیے ہی ہوتی تھی، تاہم وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے بیچ کوئی وجہ تنازعہ تھا جس کے باعث یہ آپس میں لڑتے تھے۔
آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔
کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔
رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔
آئی یو سی این کیسرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔
علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔
اقوام متحدہ نے منتبہ کیا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔
عالمی ادارے کے مطابق مندرجہ بالا تمام عوامل مل کر ہماری زمین پر ایک اور عظیم معدومی کو جنم دے سکتے ہیں جو اس سے قبل آخری بار اس وقت رونما ہوئی جب ساڑھے 6 کروڑ سال پہلے زمین سے ڈائنو سارز کا خاتمہ ہوا۔
یاد رہے کہ ہماری کائنات میں اس سے قبل 5 عظیم معدومیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں جن میں زمین سے 70 فیصد سے زائد زندگی کا خاتمہ ہوجاتا تھا۔ اس کے بعد زندگی نئے سرے سے جنم لیتی تھی اور اس کا ارتقا ہوتا تھا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
زرافہ زمین پر پایا جانے والا سب سے طویل القامت جانور ہے۔ انسانوں کے لیے بے ضرر یہ جانور افریقی جنگلات میں پایا جاتا ہے اور سیاحوں کے لیے خاصی کشش کا باعث ہے۔
ایک عام خیال ہے کہ زرافے کا لمبا قد اس کی غذائی عادات کی وجہ سے ہے۔
درختوں کی اونچی شاخوں سے پتے کھانے کے لیے زرافے نے خود کو اونچا کرنا شروع کیا اور ہر نسل پچھلی نسل سے لمبی ہوتی گئی۔ یوں زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ نظریہ غلط ہے۔
کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زرافے کی گردن ممکنہ طور پر جنسی وجوہات کے باعث لمبی ہوئی۔
تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ممکن ہے زرافے مادہ زرافوں کے حصول کے لیے آپس میں لڑتے ہوں، لڑنے کے دوران وہ اپنی گردنیں آپس میں بھڑاتے ہوں اور اسی وجہ سے ان کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔
رپورٹ میں 1968 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نر زرافوں کے سینے سے اوپر کے حصہ کی عجیب ساخت ان کے کسی خاص قسم کی لڑائی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔
حال ہی میں نیشنل جیوگرافک نے زرافوں کے لڑنے کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں دو زرافے آپس میں لڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔
جس طرح سے یہ زرافے آپس میں لڑ رہے ہیں اور زوردار طریقے سے ایک دوسرے کو اپنی گردن مار رہے ہیں، ماہرین کے مطابق اگر ان میں سے ایک فریق زرافے کی جگہ کوئی دوسرا جانور ہو تو ایک ہی ٹکر میں اس کی گردن ٹوٹ سکتی ہے۔
لیکن زرافے کی گردن خاصی لچکدار ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے جارحانہ حملوں میں بھی اپنی گردن صحیح سلامت بچانے میں کامیاب رہتا ہے۔
ایسی لڑائیوں میں جیت ہمیشہ اسی فریق کی ہوتی ہے جس کا سر دوسرے فریق کے سر سے زیادہ مضبوط ہو اور وہ اسے گزند پہنچانے میں کامیاب رہے۔
When giraffes fight, slamming their heads and necks against each other, the impact can be heard from a hundred meters away pic.twitter.com/XMaTXvIzTF
دنیا میں بدلتے موسموں کی وجہ سے تقریباً تمام جانداروں کو خطرات لاحق ہیں اور انہی میں سے ایک جانور گوریلا بھی ہے جس کی نسل کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق افریقی جنگلی حیات کا اہم حصہ گوریلا کی آبادی میں پچھلی 2 دہائیوں میں خطرناک حد تک کمی آگئی ہے جس کے بعد آئی یو سی این نے اسے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ یہ درجہ معدومی سے قبل کا آخری درجہ ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق گوریلا کی ایک نسل گروئر گوریلا کی آبادی میں 77 فیصد کمی آ چکی ہے اور سنہ 1995 سے اب تک ان کی تعداد 7 ہزار سے گھٹ کر 3 ہزار 800 ہوگئی ہے۔
صرف براعظم افریقہ میں پایا جانے والا گوریلا مغربی افریقہ کے متعدد ممالک کے جنگلات میں رہتا ہے اور ماہرین کے مطابق گوریلاؤں کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ان افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیاں ہیں جن کے باعث گوریلا کے زیر رہائش جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اور صرف ایک گوریلا ہی نہیں، ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق پچھلے 14 سالوں میں افریقی جانوروں کی آبادی میں 24 فیصد کمی آچکی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان کا بے دریغ شکار ہے۔
دوسری جانب گوریلا کی ایک اور قسم پہاڑی گوریلا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کے مطابق ان گوریلاؤں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں جو بار آور ہو رہے ہیں۔
یو این ای پی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مختلف افریقی ممالک میں پہاڑی گوریلاؤں کی تعداد 300 سے بڑھ کر 880 ہوگئی ہے۔
نارویجیئن سیاستدان اور یو این ای پی کے سربراہ ایرک سولہیئم کا کہنا ہے کہ گوریلا انسانوں سے بے حد مماثلت رکھتے ہیں اور ان کا ڈی این اے 99 فیصد انسانوں سے مشابہہ ہوتا ہے۔ ’انسانوں سے اس قدر مشابہت بندر سمیت کسی اور جانور میں نہیں‘۔
افریقی حکام کا کہنا ہے کہ ان گوریلاؤں کا تحفظ افریقہ کی سیاحت میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے جو دنیا بھر میں اپنے فطری حسن اور متنوع جنگلی حیات کی وجہ سے ہی مشہور ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
جنگلی حیات ہماری زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زمین پر موجود جانور، پرندے، پودے اور ایک ایک چیز آپس میں منسلک ہیں اور اگر کسی ایک شے کو بھی نقصان پہنچا تو اس سے پورے کرہ ارض کی زندگی متاثر ہوگی۔
تاہم موسمیاتی تغیرات اور شکار میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے جنگلی حیات کی کئی اقسام تیزی سے معدومی کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سنہ 2020 تک ہماری زمین سے ایک تہائی جنگلی حیات کا خاتمہ ہوجائے گا جس سے زمین کا توازن بری طرح بگڑ جائے گا۔
آج ہم نے مختلف جنگلی حیات کی کچھ منفرد تصاویر جمع کی ہیں۔ وائلڈ لائف فوٹو گرافرز کی جانب سے کھینچی گئی ان تصاویر میں جانوروں کی زندگی کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ آئیے آپ بھی ان تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔
ایک شہد کی مکھی ایک پھول سے پولن اکٹھے کر رہی ہے۔
ایک بگلا گھونسلا بنانے کے لیے جھاڑیاں لے کر جارہا ہے۔
آسٹریلیا میں ایک زخمی پینگوئن کو علاج کے بعد بحفاظت ساحل پر چھوڑ دیا گیا۔
ایک روبن چڑیا درختوں پر اگ آنے والی فنگس پر بیٹھی ہے۔
کچھوے کا نومولود بچہ سمندر کی طرف جاتے ہوئے۔
ارجنٹینا میں ایک وہیل 2 سگ ماہیوں کا پیچھا کرتے ہوئے۔
آسٹریلیا میں ایک 4.7 میٹر لمبے مگر مچھ کو بندرگاہ پر گھومتے دیکھا گیا جس کے بعد وائلڈ لائف اہلکاروں نے اسے پکڑ لیا۔
شام کے وقت فلیمنگوز کی گھر واپسی کا سفر۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
آپ نے بچپن میں پڑھا ہوگا بلی شیر کی خالہ ہے۔ لیکن کیا واقعی بلی اور شیر کا آپس میں کوئی رشتہ ہے؟
بلی یوں تو جسامت میں چھوٹی ہے لیکن بڑے بڑے ببر شیر، چیتے، تیندوے وغیرہ بلی کی نسل سے ہی ہیں جنہیں بڑی بلیاں کہا جاتا ہے۔ آج جنگلی حیات کے عالمی دن کا موضوع انہی بڑی بلیوں کے تحفظ اور بچاؤ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔
یہ دن منانے کی قرارداد سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کی تھی۔ رواں سال کا موضوع بڑی بلیوں کو بچانا ہے جس میں شیر کی 5 اقسام شیر، ببر شیر، چیتے، تیندوے اور جیگوار شامل ہیں۔ اس فہرست میں برفانی چیتا بھی شامل ہے اگرچہ کہ یہ دھاڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
بڑی بلیوں کی بقا کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ان کے مساکن (رہنے کی جگہ) میں کمی واقع ہونا ہے۔ بڑی بلیاں گھنے جنگلات میں رہتی ہیں لیکن دنیا بھر میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہورہی ہے جس سے شیروں کی بڑی تعداد چھدرے جنگلات یا میدانوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
کھلی جگہوں پر رہنے سے ان کے باآسانی شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے بڑی بلیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔
عالمی ادارہ برائے جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی بڑی بلیوں کی صرف 13 فیصد تعداد محفوظ مقامات پر رہائش پذیر ہے۔ بقیہ تعداد نہایت غیر محفوظ علاقوں میں ہے جہاں باآسانی ان کا شکار کیا جاسکتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت صرف 3 ہزار 8 سو 90 چیتے موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات اور جنگلی حیات کی بہبود کے لیے کام کرنے والے مختلف اداروں کا کہنا ہے کہ اگر بڑی بلیوں کے تحفظ کے لیے ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو بہت جلد یہ ہماری زمین سے معدوم ہوسکتے ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
جانوروں کا خیال رکھنا، ان کی غذا کا خیال رکھنا اور ان سے نرمی سے پیش آنا معمول کی بات ہے لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جانور ذہنی امراض کا شکار بھی ہوسکتے ہیں اور انہیں اس کے علاج کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے؟
ممبئی کے چڑیا گھر میں 3 ڈاکٹرز جانوروں کی ذہنی صحت پر کام کر کر رہے ہیں۔
ان ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ قید میں رکھے گئے جانور حد سے زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، اور یہ ان کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ ڈاکٹرز باقاعدگی سے چڑیا گھر کے جانوروں کا چیک اپ کرتے ہیں اور کسی بھی جانور کو تکلیف میں پاتے ہیں تو فوری طور پر اس کا علاج کرتے ہیں۔
ڈاکٹرز کی ہدایت پر پنجروں کے باہر بورڈ بھی آویزاں کیے گئے ہیں جن میں چڑیا گھر آنے والے افراد کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جانوروں کو تنگ کرنے یا انہیں کچھ کھلانے سے پرہیز کریں۔
جانوروں کے لیے روزانہ کی بنیاد پر تازہ کھانا، سبزیاں اور پھل منگوایا جاتا ہے۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ قید میں رہنے والے جانور عام جانور کی بہ نسبت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں ایسے میں انہیں مزید پریشان کرنا ان کی جان سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
قدیم حکایات میں کچھوا کائنات کی علامت تھا۔ مشہور صوفی شاعر وارث شاہ اپنی نظم ’ہیر‘ میں لکھتے ہیں کہ دریا ہماری کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ ایک فانی انسانوں کی سرزمین، اور دوسرا حصہ محبوب کا دیار۔ وہ اپنی شاعری میں جب ہیر کے دریا میں سفر کی منظر کشی کرتے ہیں، تو ہیر کی کشتی کو ایک کچھوا سہارا دیے ہوتا ہے۔
معروف صحافی و شاعر مصدق سانول کے مجموعے ’یہ ناتمام سی اک زندگی جو گزری ہے‘ کا پس ورق۔ مصور: صابر نذر
وارث شاہ کی اس لازوال نظم کے علاوہ حقیقت میں بھی کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔
اپنے اندر بے شمار انوکھی خصوصیات رکھنے والا یہ جاندار آہستہ آستہ معدومی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گو کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن ان انڈوں میں سے نکلنے والے 1 یا 2 بچے ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔
کچھوے کی بقا کیوں ضروری؟
کچھوے کو آبی خاکروب کا نام دیا جاتا ہے۔ کچھوے سمندر میں موجود کائی، غیر ضروری گھاس اور آبی حیات کے لیے دیگر مضر صحت اجسام کو کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے سمندر یا دریا صاف ستھرا رہتا ہے۔
کچھوؤں کی خوراک میں جیلی فش بھی شامل ہے جو آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں باآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
کچھوے اس جیلی فش کو کھا کر سمندر کو ان سے محفوظ رکھتے تھے تاہم اب جیلی فش میں اضافے کی ایک وجہ کچھوؤں کی تعداد کا کم ہونا بھی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کچھوے پانی کی کائی اور گھاس کو نہ کھائیں تو سمندر میں موجود آبی حیات کا نظام زندگی اور ایکو سسٹم غیر متوازن ہوسکتا ہے جس کا اثر پہلے آبی حیات اور بعد میں انسانوں تک بھی پہنچے گا۔
سندھ وائلڈ لائف کے مطابق کراچی میں 2 سے 3 سال قبل نگلیریا وائرس کے پھیلنے کی وجہ بھی کچھوؤں کی تعداد میں کمی تھی۔ اس وقت اگر بڑی تعداد میں کچھوے سمندروں اور آبی ذخائر میں چھوڑ دیے جاتے تو وہ پہلے ہی اس وائرس کو کھا کر اسے طاقتور ہونے اور انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بننے سے روک دیتے۔
کچھوا معدومی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟
کچھوے کی تیزی سے رونما ہوتی معدومی کی وجہ جاننے کے لیے آپ کو ان کی افزائش نسل کا مرحلہ سمجھنا ہوگا۔
دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں سمندری کچھوؤں کی 7 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے 2 اقسام سبز کچھوا (گرین ٹرٹل) اور اولیو ریڈلی ٹرٹل کچھوا پاکستانی ساحلوں پر پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ان کچھوؤں کے انڈے دینے کے مقامات میں صوبہ سندھ کے شہر کراچی کا سینڈز پٹ اور ہاکس بے کا ساحل، جبکہ صوبہ بلوچستان میں جیوانی، استولا جزیرہ اور ارماڑا کا ساحل شامل ہیں۔
مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔
اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔
اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔
اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔
لیکن خطرہ کیا ہے؟
تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔
مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔
وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔
کچھوؤں کی نسل کو لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے جب کراچی کے سینڈز پٹ ساحل کا دورہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ وہاں آوارہ کتوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
یہ کتے تفریح کے لیے آنے والے افراد کی جانب سے پھینکے گئے کچرے کے لالچ میں یہاں کا رخ کرتے ہیں اور یہیں انہیں کچھوے کے انڈے بیٹھے بٹھائے کھانے کو مل جاتے ہیں۔
جیسے ہی مادہ کچھوا انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے، یہ کتے اس گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔
مداخلت کے باعث مادہ کچھوا کے گڑھا کھلا چھوڑ جانے کے بعد کتوں نے اس کے انڈے کھا لیے
اگر کچھ خوش نصیب انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔
کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
ایسے موقع پر اگر بدقسمتی سے وہاں کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔
ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوا کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
چاندنی راتوں میں ساحل پر انڈے دینے کے لیے آنے والے کچھوے جب ساحل پر چہل پہل اور لوگوں کی آمد و رفت دیکھتے ہیں تب وہ سمندر سے ہی واپس پلٹ جاتے ہیں یوں ان کے انڈے ان کے جسم کے اندر ہی ضائع ہوجاتے ہیں۔
پلاسٹک خطرہ جان
صرف کراچی یا پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ساحلوں پر پھینکا گیا کچرا خصوصاً پلاسٹک کچھوؤں سمیت دیگر آبی حیات کے لیے موت کا پروانہ ہے۔
اس پلاسٹک کو کھا کھا کر یہ آبی جانوروں کے جسم میں جمع ہونے لگتا ہے، جس کے بعد ان آبی جانوروں کا جسم پھولنے لگتا ہے اور وہ کچھ اور نہیں کھا سکتے نتیجتاً ان کی موت اس طرح واقع ہوتی ہے کہ ان کا پیٹ بھرا ہوتا ہے لیکن وہ بھوک سے مرجاتے ہیں۔
کچھ جانور اس پلاسٹک میں پھنس جاتے ہیں اور ساری عمر نہیں نکل پاتے جس کی وجہ سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنسنے سے کچھوؤں اور دیگر آبی جانداروں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندر، سمندری حیات کی جگہ پلاسٹک سے بھرے ہوں گے۔
گو کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے پھیلاؤ کو روکنے اور کچھوے سمیت دیگر آبی جانداروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، لیکن پلاسٹک کے بے تحاشہ استعمال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔
مغربی جاپان میں سیاحوں کا پسندیدہ ہرن اس وقت مقامی انتظامیہ کی زد میں ہے جس نے ان ہرنوں کو پکڑنے کے لیے جگہ جگہ آہنی شکنجے نصب کردیے ہیں۔
مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ ہرن اپنے مخصوص مقامات کے علاوہ کہیں اور دکھائی دیے تو انہیں پکڑ لیا جائے گا۔
جاپان کے شہر نارا سے منسوب نارا ہرن اپنی معصومیت، نرم دلی اور انسانوں کو جھک کر تعظیم دینے کی انوکھی عادت کی وجہ سے سیاحوں اور مقامی افراد کے محبوب ترین جانور کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سنہ 1957 میں جاپانی حکومت نے قدرتی ورثہ قرار دے کر انہیں حفاظتی درجہ دیا تھا اور ان کے شکار پر پابندی عائد کردی تھی۔
اس کے بعد اس ہرن کی نسل میں اضافے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد نارا کے علاقے میں ان ہرنوں کی بہتات ہوگئی۔
اب یہ ہرن انسانی آبادی میں گھس آتے ہیں اور فصلوں اور درختوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ حکام کے مطابق گزشتہ برس ان ہرنوں نے مقامی زراعت کو 5.4 کروڑ ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔
علاوہ ازیں یہ ہرن جارح مزاج بھی ہوتے جارہے ہیں اور گزشتہ برس انہوں نے 121 سیاحوں کو زخمی بھی کیا۔
اس مسئلے کے حل کے لیے مقامی انتظامیہ نے اب اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکام نے ہرنوں کے لیے مخصوص جگہ پر باڑھ لگانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس باڑھ سے باہر جو ہرن پایا جائے گا اسے پکڑ لیا جائے گا۔
اتنظامیہ کے فیصلے کے بعد انہیں مقامی افراد کی جانب سے ہزاروں فون کالز موصول ہوئیں جو ان کے اس فیصلے پر سراپا احتجاج تھے۔
مقامی حکومت نے واضح نہیں کیا کہ وہ پکڑے جانے والے ہرنوں کا کیا کریں گے، تاہم کہا جارہا ہے کہ ان ہرنوں کو ہلاک کر دیا جائے گا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔