Tag: wildlife

  • دو سر والے حیرت انگیز کچھوے کی پیدائش

    دو سر والے حیرت انگیز کچھوے کی پیدائش

    دنیا بھر میں 2 سر والے جانوروں کی پیدائش ایک عام بات ہے تاہم تھائی لینڈ میں ایک ننھے سے کچھوے نے سب کو حیران کردیا جس کے دو سر موجود تھے۔

    یہ انوکھا کچھوا تھائی لینڈ کے ایک کچھوا پالنے والے شخص کے پاس موجود ہے جو کچھوؤں کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہے۔

    اس کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں بے شمار نایاب کچھوے دیکھے لیکن 2 سر والا ننھا کچھوا جس کی عمر اب 3 ماہ ہے انہوں نے پہلی بار دیکھا ہے۔

    سبز رنگ کا یہ منفرد کچھوا علاقے کے تمام افراد کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

    اس کے مالک نے اس کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا، ’لوگ کہتے ہیں کہ کچھوے سست ہوتے ہیں، مگر یہ کچھوا نہایت تیزی سے حرکت کر رہا ہے‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نیند کے وقت پانڈا کے ننھے بچوں کی موج مستیاں

    نیند کے وقت پانڈا کے ننھے بچوں کی موج مستیاں

    بیجنگ: چین میں 7 ننھے ننھے پانڈا کے بچوں کو سونے کے لیے الگ سے جگہ مہیا کی گئی تاہم سونے کے لیے رکھے گئے یہ ڈبے دیکھ کر پانڈوں کی نیند اڑن چھو ہوگئی اور انہوں نے کھیلنا شروع کردیا۔

    ان 7 پانڈوں کو سونے کے لیے آرام دہ جگہ مہیا کرنے کی خاطر ان کے علیحدہ کمرے میں کچھ باکسز بنائے اور سوچا گیا کہ پانڈا یہاں اطمینان سے آرام کریں گے۔

    مگر جیسے ہی انہیں ان باکسز میں ڈالا گیا، انہیں لگا کہ شاید انہیں کھیلنے کے لیے یہاں رکھا گیا ہے چنانچہ انہوں نے سونے کے بجائے ایک دوسرے کے باکسز میں تاک جھانک اور موج مستی شروع کردی۔

    ہر پانڈا کی کوشش تھی کہ کسی طرح وہ اس باکس سے باہر نکل آئے۔ اس کوشش میں ایک پانڈا دوسرے پانڈا کے باکس میں گھس آیا جبکہ کونے میں موجود پانڈا اپنے باکس میں سے دھڑام سے گر پڑا۔

    پانڈوں کی معصومانہ حرکات پر مبنی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بے حد وائرل ہوگئی۔

    یاد رہے کہ پانڈا صرف چین میں پایا جاتا ہے جہاں اس کی معدوم ہوتی نسل کو دیکھتے ہوئے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد اب پانڈا کی نسل مستحکم درجے پر آگئی ہے۔

    چین اب اسے امریکا سمیت دوسرے ممالک میں بھی بھیج رہا ہے جسے پانڈا ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔

    اس سے ایک طرف تو چین کے بین الاقوامی تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں، دوسری جانب پانڈا کی ختم ہوتی نسل کو بھی دیگر مقامات اور آب و ہوا سے متعارف کروایا جاتا ہے تاکہ وہ مختلف موسموں سے مطابقت کرتے ہوئے اپنی نسل میں اضافہ کریں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پالتو چیتے کی دلچسپ سرگرمیاں

    پالتو چیتے کی دلچسپ سرگرمیاں

    بعض دولت مند افراد شیر یا چیتے پالنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک دولت مند شخص اپنے پالتو چیتے کی وجہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹا گرام پر بے حد مقبول ہورہا ہے جس کے پالتو چیتے کی سرگرمیاں کافی دلچسپ ہیں۔

    روس کے اس دولت مند شخص نے اپنے پالتو چیتے مہل ٹائیگر کے نام سے ایک صفحہ بنا رکھا ہے جس پر وہ اکثر و بیشتر پالتو شیروں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پالتو جانور رکھنے کے حیران کن فوائد

    تصاویر اور ویڈیوز میں دکھائی دینے والا چیتا اس قدر معصوم اور دوستانہ مزاج کا حامل نظر آتا ہے کہ اس نرم ملائم سے شیر کو دیکھ کر بے ساختہ اس پر پیار آنے لگتا ہے۔

    اس دولت مند شخص کے پاس صرف یہ چیتے ہی نہیں بلکہ سفید چیتے اور دیگر جنگلی جانور بھی موجود ہیں۔

    اس کا پالتو چیتا کبھی اس کے ساتھ گھومنے کے لیے جانا چاہتا ہے۔

    With money you can have any pet you want Courtesy of @mihail_tiger

    A post shared by The Luxury Kids (@theluxurykids) on

    کبھی وہ سوئمنگ پول میں ڈبکیاں لگاتا دکھائی دیتا ہے۔

    بعض اوقات وہ دلچسپ کھیل کھیلتا دکھائی دیتا ہے۔

    کھیل ہی کھیل میں وہ لان میں لگی اشیا کو نقصان بھی پہنچا دیتا ہے جن پر بعد میں پشیمان بھی ہوتا ہے۔

    اور بعض دفعہ یہ کھلے سمندر میں بھی شوق سے تیرتا دکھائی ہے۔

    اور جب اس چیتے کے بچے درخت پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا مالک انہیں زنجیر سے باندھ دیتا ہے کہ کہیں وہ گر نہ پڑیں۔

    اس شخص کے گھر میں موجود تمام جانور آپس میں بھی ایک دوسرے کے دوست ہیں اور یہ تمام خطرناک جانور نہایت امن سے وہاں رہتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دادی پانڈا کی 35 ویں سالگرہ

    دادی پانڈا کی 35 ویں سالگرہ

    بیجنگ: چین میں 35 سالہ مادہ پانڈا کی سالگرہ دھوم دھام سے منائی گئی۔ اس مادہ پانڈا کے بچوں اور ان سے پیدا ہونے والے مزید بچوں کی تعداد 118 ہے۔

    جنوب مغربی چین کے شہر چونگ کنگ کے چڑیا گھر میں موجود اس مادہ پانڈا کی 35 ویں سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی گئی۔

    اس موقع پر پانڈا کی کیک اور اس کی پسندیدہ خوراک بمبوز یعنی بانس سے اس کی تواضع کی گئی۔ پس منظر میں ہیپی برتھ ڈے ٹو یو کا گانا بھی بجایا گیا۔

    سنہ 1982 میں پیدا ہونے والی زنگ زنگ دنیا کی طویل العمر مادہ پانڈا میں سے ایک ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ اس کی اولادیں اور ان کی اولادیں امریکا، کینیڈا اور جاپان سمیت دنیا بھر کے 20 مختلف ممالک میں پرورش پا رہی ہیں۔

    سنہ 2002 میں زنگ زنگ نے 20 سال کی عمر میں حاملہ ہو کر پانڈا کی سب سے طویل العمری میں ہونے والے حمل کا ریکارڈ توڑ دیا۔ اس وقت اس نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا تھا۔

    چڑیا گھر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس پانڈا کو نہایت خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور باقاعدگی سے طبی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ تاحال اسے ایسا کوئی طبی مسئلہ نہیں جو اس کے لیے جان لیوا بن سکتا ہو۔

    یاد رہے کہ پانڈا کی مجموعی طبعی عمر 15 سے 20 سال تک ہوتی ہے۔ تاہم اگر انہیں دیکھ بھال کے ساتھ انسانی نگرانی میں رکھا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ 30 سال تک جی سکتے ہیں۔

    پانڈا کی یہ عمر انسانوں کی 90 سال کی عمر کے برابر ہوتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جیپ کے پہیوں میں پھنسی مادہ کوالا معجزاتی طور پر بچ گئی

    جیپ کے پہیوں میں پھنسی مادہ کوالا معجزاتی طور پر بچ گئی

    سڈنی: آسٹریلیا کا ایک مقامی جانور کوالا ایک جیپ کے پہیوں میں جا پھنسا اور جیپ کے 10 میل تک سفر کے باوجود معجزاتی طور پر زندہ بچ گیا۔

    یہ مادہ کوالا کسی طرح جیپ کے پہیوں کے درمیان خالی جگہ میں جا بیٹھی تھی اور سفر کے دوران جھٹکوں اور پہیوں کی رگڑ سے مسلسل اذیت کا شکار تھی حتیٰ کہ ڈرائیور نے اس کی کراہنے کی آوازیں سنیں۔

    جیپ کے ڈرائیور نے گاڑی روک کر جب کوالا کو وہاں پھنسا ہوا پایا تو اس نے پہلے فائر بریگیڈ کو مدد کے لیے طلب کیا۔

    تاہم بعد ازاں جنگلی حیات کے اہلکار بھی وہاں آ پہنچے اور جیپ سے مذکورہ پہیہ نکال کر مادہ کوالا کو آزاد کیا گیا۔

    ایک وائلڈ لائف اہلکار کے مطابق مادہ کوالا کے بالوں سے جلنے کی بو بھی آرہی تھی۔

    گو کہ کوالا کو فوری طور پر طبی امداد دے دی گئی اور اس کی جان بچ گئی، تاہم وائلڈ لائف کا کہنا ہے کہ یہ کوالا دودھ پلانے والی مادہ ہے اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہم بالکل بے خبر ہیں کہ اب اس کے بچے کہاں اور کس حال میں ہیں۔

    مادہ کوالا کی کچھ دن دیکھ بھال کرنے کے بعد اسے جنگل میں چھوڑ دیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق کوالا کو بھالو کی نسل سے سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک کیسہ دار (جھولی والا) جانور ہے اور کینگرو کی طرح اس کے پیٹ پر بھی ایک جھولی موجود ہوتی ہے جہاں اس کے نومولود بچے پرورش پاتے ہیں۔

    صرف آسٹریلیا میں پایا جانے والا یہ ممالیہ جانور معدومی کے خطرے کا شکار بھی ہے اور گزشتہ چند سالوں میں ان کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دنیا کے نایاب ترین گمشدہ پرندے کا سراغ مل گیا

    دنیا کے نایاب ترین گمشدہ پرندے کا سراغ مل گیا

    سڈنی: آسٹریلیا میں دنیا کے ایک نایاب ترین پرندے کا پر پایا گیا ہے۔ ماہرین جنگلی حیات کے مطابق یہ گزشتہ ایک صدی میں اس پرندے کی موجودگی کا پہلا سراغ ہے۔

    نائٹ پیرٹ نامی اس پرندے کو دنیا کی نایاب ترین اڑنے والی حیات کا درجہ حاصل ہے اور اسے معدوم خیال کیا جارہا تھا حتیٰ کہ سنہ 2013 میں آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ ریاست سے ایک ماہر جنگلی حیات نے اس کے تصویری ثبوت پیش کیے۔

    بعد ازاں اس پرندے کو مغربی آسٹریلیا میں بھی دیکھا گیا۔

    دو آسٹریلوی ماہرین جنگلی حیات کی جانب سے حال ہی میں کی جانے والی یہ دریافت ایک نواحی قصبے آئر کی جھیل میں ہوئی جہاں زیبرا فنچ نامی پرندے کے گھونسلے میں ایک مختلف قسم کا زرد و سبز سا پر نظر آیا۔

    ان کے مطابق یہ پر زیبرا فنچ نامی ان پرندوں کا ہرگز نہیں تھا جو وہاں پر رہائش پذیر تھے۔

    زیبرا فنچ

    مزید تحقیق کے بعد انکشاف ہوا کہ انہیں معدوم سمجھے جانے والے نائٹ پیرٹ کا سراغ ملا ہے اور یہ پر اسی کا ہے۔ اب اس بارے میں مزید تحقیقات کی جائیں گی۔

    سنہ 2012 میں اسمتھ سنین نامی میگزین نے نائٹ پیرٹ کو دنیا کے 5 پراسرار ترین پرندوں میں سے ایک قرار دیا تھا جن کے بارے میں مصدقہ اطلاعات نہیں تھیں کہ آیا یہ اب اپنا وجود رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔

    عالمی تنظیم برائے تحفظ حیات آئی یو سی این نے بھی اس پرندے کو معدومی کے خطرے کا شکار پرندہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ سائنسی اندازوں کے مطابق دنیا بھر کے مختلف جنگلات میں ان کی تعداد 50 سے 250 کے درمیان ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جنگلی حیات سے محبت کرنے والے چلتن مارخور کی حفاظت کے لیے کوشاں

    جنگلی حیات سے محبت کرنے والے چلتن مارخور کی حفاظت کے لیے کوشاں

    کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں کوہ چلتن نامی پہاڑ بھی شامل ہے جو دلکش مناظر کے ساتھ پہاڑی بکروں کی ایک نایاب نسل کا خوبصورت مسکن ہے۔

    وادی کوئٹہ کے جنوب مغرب میں واقع کوہ چلتن میں 100 سے زائد اقسام کے نایاب جنگلی جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں جن کے تحفظ کے لیے 27 ہزار سے زائد ایکڑ پر محیط اس پہاڑی سلسلے کو سنہ 1980 میں ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا ہے۔

    اس پہاڑی سلسلے میں مارخور کی ایک نایاب نسل بھی موجود ہے جو پاکستان کے قومی جانور سلیمان مارخور اور بلوچستان کے جنگلی بکرے کے اختلاط (کراس بریڈ) سے وجود میں آیا ہے۔

    چلتن مارخور

    مقامی افراد اسے چلتن مار خور کے نام سے جانتے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق چلتن مارخور دنیا بھر میں معدومی کے خطرے کا شکار ہے تاہم پاکستان میں اس کے تحفظ کے لیے سرکاری و انفرادی دونوں سطحوں پر کام کیا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ دونوں اقسام کے مارخوروں میں سینگوں کا فرق ہے۔ قومی جانور سلیمان مارخور کے سینگ بل کھاتے ہوئے ہیں جبکہ چلتن مارخور کے سینگ سیدھے ہیں۔

    پاکستان کا قومی جانور ۔ سلیمان مارخور

    کوہ چلتن ۔ قدرت کا شاہکار

    کوہ چلتن کی خوبصورتی چاروں موسموں میں بے مثال ہے۔

    یہاں بسنے والے لومڑی، بھیڑیے، خرگوش اور پہاڑی بکرے اس مقام کو ایک خوبصورت مقام میں تبدیل کردیتے ہیں جہاں فطرت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

    یہاں موجود جنگلی انجیر، دیگر پھلوں کے درخت اور مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں اس مقام کے حسن کو مزید دوبالا اور ماحول کو معطر کیے رکھتی ہیں جبکہ جنگلی پرندوں کی چہچاہٹ دلوں کو خوشی سے بھردیتی ہے۔

    کوہ چلتن کا شمار بلوچستان کے بلند پہاڑوں میں ہوتا ہے جو کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔

    بلوچستان کے لوک گیتوں میں بہادری اورخوبصورتی کے لیے چلتن کے نام کو بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس پہاڑ سے مختلف کہانیاں بھی منسوب ہیں۔ یہ ایک حسین تحفہ ہے جو قدرت نے اس سرزمین کو نوازا ہے۔

    خصوصی رپورٹ: منظور احمد رپورٹر کوئٹہ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جدید ٹیکنالوجی سے جانوروں پر ظلم کے نئے طریقے دریافت

    جدید ٹیکنالوجی سے جانوروں پر ظلم کے نئے طریقے دریافت

    ذرا اس تصویر کو غور سے دیکھیئے۔

    یہ آپ کو کون سا جانور لگتا ہے؟ شاید اسے کوئی بیماری ہے، بیمار سا لگ رہا ہے، آنکھوں میں بھی بے بسی کے تاثرات ہیں۔

    یہ جانور برفانی لومڑی یا آرکٹک فاکس کہلاتا ہے۔ کیا آپ اس کی اصل تصاویر دیکھنا چاہیں گے؟ ذرا دیکھیئے۔

    اور اب اس بیمار لومڑی کی مکمل حالت ملاحظہ فرمائیں۔

    کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس معصوم اور بے ضرر جانور کی یہ حالت کس نے اور کیوں کی؟ یقیناً جاننا چاہیں گے۔

    دعا دیجیئے ہماری جدید ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم کو، جس نے حضرت انسان کو اپنے فائدے کے لیے جانوروں پر ظلم کے ایسے ایسے طریقے دریافت کروا دیے، کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

    دراصل اس لومڑی میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جینیاتی تبدیلیاں کردی گئی ہیں، چنانچہ اس کے جسم پر موجود فر میں اضافہ ہوگیا جو عمر کے ساتھ ساتھ مزید جاری ہے۔

    اس اضافی فر نے ایک طرف تو اس جانور کو بد ہیئت بنا دیا، دوسری جانب اسے بے انتہا جسمانی تکلیف میں بھی مبتلا کردیا۔ غیر فطری تبدیلیوں سے گزرنے والی حیات یقیناً کسی صورت صحت مند نہیں رہ سکتی۔

    یہ کام یورپی ملک فن لینڈ میں سر انجام دیا گیا جہاں اس نرم فر کی خرید و فروخت نہایت منافع بخش صنعت ہے اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    جانوروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے چھپ کر ان کی ویڈیو بنائی جس کے بعد یہ لرزہ خیز ظلم سامنے آیا۔

    فن لینڈ یورپ میں فر کا سب سے بڑا پیداوار کنندہ ہے اور سنہ 2014 میں اس فر کے حصول کے لیے 18 لاکھ سے زائد لومڑیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

    گو کہ مختلف ممالک میں مختلف تنظیمیں فر کی مصنوعات خصوصاً لباسوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان خوبصورت لومڑیوں کا قتل عام رکوانے کی کوششیں کر رہی ہیں، تاہم یورپ کے کئی ممالک میں یہ کام قانونی یا غیر قانونی طور پر جاری ہے۔

    برطانیہ میں سنہ 2010 میں ان لومڑیوں کی اس ظالمانہ فارمنگ پر پابندی عائد کردی گئی، تاہم بیرون ملک سے فر کی درآمد تاحال جاری ہے۔

    تنظیم کے مطابق ایک عام آرکٹک لومڑی جو 3 سے 4 کلو وزنی ہوتی ہے، جینیاتی تبدیلی کے بعد اضافی فر کی وجہ سے 20 کلو وزنی ہوجاتی ہے۔

    یہ لومڑی اس قدر وزن اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی، چنانچہ اسے سانس لینے اور دیکھنے میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے نازک پاؤں بھی اس کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوجاتے ہیں جس کے باعث یہ بہت کم اپنی جگہ سے حرکت کر پاتی ہے۔

    جینیاتی تبدیلیوں کرنے کے بعد لومڑی کی 3 سال تک اذیت ناک پرورش کرنے کے بعد بجلی کے کرنٹ کے ذریعے اس کے منہ یا بڑی آنت کے نچلے حصے (جہاں سے فضلے کا اخراج ہوتا ہے) سے ایک ہی جھٹکے میں سارا فر کھینچ لیا جاتا ہے تاکہ فر بے داغ رہے اور اس پر کوئی خراش نہ آئے۔

    اس لرزہ خیز اور درد ناک ظلم کی داستان سننے کے بعد کیا آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرمندگی تو محسوس نہیں ہو رہی؟

    تصاویر بشکریہ: ڈیلی میل

  • کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوا بظاہر ایک سست مگر ہمارے ماحول کے لیے نہایت فائدہ مند جانور ہے۔ اس کی حیثیت پانی میں ویسی ہی ہے، جیسے خشکی میں گدھ کی ہے، جسے فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے۔

    گدھ دراصل جابجا پھینکے جانے والے مردہ اجسام (جانور، انسان) کو کھا جاتا ہے جس کے باعث ان اجسام سے تغفن پھیلنے یا خطرناک بیماریاں پھوٹنے کا خدشہ نہیں رہتا۔

    یہی کام کچھوا پانی کے اندر کرتا ہے۔ یہ پانی کے اندر مضر اشیا اور جراثیم کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا۔

    سندھ وائلڈ لائف میں کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان کے مطابق کراچی میں کچھ عرصہ قبل عفریت کی طرح پھیلنے والا نیگلیریا وائرس دراصل ان کچھوؤں کی عدم موجودگی کے باعث ہی پھیل سکا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوے کی اسمگلنگ پر تفصیلی رپورٹ

    ان کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک کچھوؤں کی تعداد میں بے تحاشہ کمی واقع ہوگئی تھی اور یہ وہی وقت تھا جب پانی میں نیگلیریا وائرس کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ تاہم کچھوؤں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد ان کی آبادی مستحکم ہوگئی۔

    کچھوے کی اسی خصویت کے باعث اسے چاول کی کھڑی فصلوں میں بھی چھوڑا جاتا ہے جب فصلوں میں کئی فٹ تک پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں پانی کے مختلف کیڑے یا جراثیم فصل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، تاہم کچھوے کی موجودگی ان کیڑوں یا جراثیموں کو طاقتور ہونے سے باز رکھتی ہے۔

    کچھوا ہمارے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت حیران کن جانور بھی ہے۔ آج ہم آپ کو اس کی زندگی کے متعلق ایسے ہی کچھ حقائق بتانے جارہے ہیں جو آپ کے لیے معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہیں۔

    زمین کے قدیم جانوروں میں سے ایک

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    طویل العمر جاندار

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحر الکاہل کے ٹونگا جزیرے میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔

    پیٹ پر خول

    کچھوا اپنی پشت پر سخت خول کی وجہ سے مشہور اور منفرد سمجھا جاتا ہے، لیکن شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ ایک خول کچھوے کے پیٹ پر بھی موجود ہوتا ہے جو پلاسٹرون کہلاتا ہے۔

    کچھوے کے دونوں خول بے شمار ہڈیوں سے مل کر بنتے ہیں۔

    تمام براعظموں پر پایا جانے والا جانور

    کچھوے دنیا کے تمام براعظموں پر پائے جاتے ہیں سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    گو کہ کچھوے سرد خون والے جاندار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجہ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔

    انڈے دینے کا عمل

    تمام کچھوے بشمول سمندری کچھوے خشکی پر انڈے دیتے ہیں۔

    انڈے دینے کے لیے مادہ کچھوا جب ریت پر آتی ہے تو سب سے پہلے ریت میں گڑھا کھودتی ہے۔ اس عمل میں اسے لگ بھگ 1 گھنٹہ لگتا ہے۔ گڑھا کھودنے کے بعد وہ اندر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔

    مادہ کچھوا ایک وقت میں سے 60 سے 100 کے درمیان انڈے دیتی ہے۔ انڈے دینے کے بعد وہ گڑھے کو ریت یا دوسری اشیا سے ڈھانپ کر غیر نمایاں کردیتی ہے تاکہ انڈے انسانوں یا جانوروں کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔

    انڈے دینے کے بعد مادہ کچھوا اس جگہ سے دور چلی جاتی ہے اور واپس پلٹ کر نہیں آتی۔ بچے خود ہی انڈوں سے نکلتے اور اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔

    سمندری کچھوے چونکہ انڈے سے نکلتے ہی سمندر کی طرف جاتے ہیں لہٰذا اس سفر کے دوران زیادہ تر کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اندازاً 100 میں سے 1 یا 2 سمندری کچھوے ہی بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔

    اس کے برعکس خشکی پر رہنے والے کچھوؤں میں زندگی کا امکان اور زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔

    جائے پیدائش کی طرف واپسی

    یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مادہ کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے، انڈے دینے کے لیے اسی ساحل پر لوٹ کر آتی ہے۔

    آپ کو ایک اور دلچسپ بات سے آگاہ کرتے چلیں۔ کراچی کے ساحل پر سندھ وائلڈ لائف اور ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف، جو کچھوؤں کے تحفظ کے لیے قابل تعریف اقدامات کر رہے ہیں، ننھے کچھوؤں کے سمندر میں جانے کے دوران علاقے کو روشنیوں سے نہلا دیتے ہیں۔

    یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ رات کے وقت سمندر میں جانے والے ننھے کچھوے تیز روشنی میں اس علاقے کو اچھی طرح دیکھ لیں اور وہ ان کے ذہن میں محفوظ ہوجائے۔ بعد میں مادہ کچھوؤں کو انڈے دینے کے لیے اپنی جائے پیدائش کی طرف لوٹتے ہوئے بھٹکنے، یا بھولنے کا خطرہ نہ رہے۔

    افزائش نسل کی انوکھی خصوصیت

    مادہ کچھوا نر کچھوے سے ملاپ کے کافی عرصے بعد بھی انڈے دے سکتی ہے۔ یہ اسپرمز کو اپنے جسم کے مخصوص حصوں میں کئی سالوں تک محفوظ رکھ سکتی ہے اور حالات موافق ہونے کے بعد انڈے دے سکتی ہے۔

    موسم جنس کی تعین کا ذمہ دار

    کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔

    اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجہ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔ معتدل موسم نر کچھوؤں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔

    یہ انوکھی خصوصیت کچھوؤں کے علاوہ کسی اور جاندار میں نہیں پائی جاتی۔

    ننھے کچھوؤں پر پروٹین کا خول

    کیا آپ جانتے ہیں، ماں کی جانب سے چھوڑ دیے جانے کے بعد ننھے کچھوے اپنی غذائی ضروریات کیسے پوری کرتے ہیں؟ قدرت نے ان معصوموں کے لیے غذا کا نہایت بہترین انتظام کر رکھا ہے۔

    پیدائش کے وقت ننھے کچھوؤں کی پیٹھ پر جو خول موجود ہوتا ہے وہ پروٹین سمیت مختلف غذائی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے پروٹین اسپاٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کچھوؤں کو غذا فراہم کرتا ہے۔

    جیسے جیسے کچھوے بڑے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے خول کی ساخت مختلف ہوتی جاتی ہے۔ کچھوؤں کے اپنی غذا خود تلاش کرنے کی عمر تک پہنچنے کے بعد یہ خول صرف حفاظتی ڈھال کا کام انجام دینے لگتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    میٹھے پانی کے شوقین

    کچھوے اپنے پیئے جانے والے پانی کو قدرتی طریقے سے میٹھا بنا دیتے ہیں۔

    دراصل سمندری کچھوؤں کے گلے میں خصوصی قسم کے غدود موجود ہوتے ہیں جو اس پانی سے نمک کو علیحدہ کردیتے ہیں، جو کچھوے پیتے ہیں۔

    حساس ترین جانور

    کچھوؤں کی دیکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت نہایت تیز ہوتی ہے۔ ان کی لمس کو محسوس کرنے اور سننے کی صلاحیت بھی اول الذکر دونوں صلاحیتوں سے کم، تاہم بہترین ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ گہرے رنگوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا تحقیقاتی مقاصد یا تحفظ کے اقدامات کے سلسلے میں کچھوؤں پر گہرے رنگوں سے نشانات لگائے جاتے ہیں۔

    بقا کی جدوجہد میں مصروف

    بدقسمتی سے اس وقت کچھوؤں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق دنیا بھر میں کچھوؤں کی 300 میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔

    کچھوؤں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔

  • گاؤں والوں نے 80 فٹ گہرے کنویں میں گرنے والے شیر کے بچے کو بچا لیا

    گاؤں والوں نے 80 فٹ گہرے کنویں میں گرنے والے شیر کے بچے کو بچا لیا

    نئی دہلی: بھارتی ریاست مہاراشٹر میں 80 فٹ گہرے کنویں میں گرنے والے ایک شیر کو بچے کو بچا لیا گیا۔

    یہ واقعہ مہاراشٹر کے گاؤں سومناتھ میں پیش آیا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ شیر کا یہ 2 سالہ بچہ کئی ماہ سے گاؤں میں دیکھا جارہا تھا اور گاؤں والے اسے پکڑنے کی کوششوں میں تھے تاکہ وہ ان کے جانوروں کو نقصان نہ پہنچا سکے۔

    ایسی ہی ایک صبح گاؤں میں گھومتے ہوئے یہ شیر گہرے کنویں میں جا گرا۔

    مزید پڑھیں: سفید شیر نئی زبان سیکھنے پر مجبور

    ایک شخص نے شیر کو کنویں میں گرتے ہوئے دیکھ لیا جس کے بعد اس نے دیگر افراد کو اس سے مطلع کیا۔ اس کے مطابق شیر کے بچے کو کنویں کے اندر زندگی کے لیے جدوجہد کرتے دیکھنا نہایت دکھ بھرا لمحہ تھا۔

    گاؤں والوں نے محکمہ جنگلی حیات کو مدد کے لیے طلب کیا جس کے بعد وائلڈ لائف اہلکار لوہے کا پنجرہ لیے آن پہنچے۔ ایک اہلکار کو کنویں میں اتارا گیا جہاں اس نے شیر سے کچھ فاصلے پر رہتے ہوئے اسے کمند پہنائی۔

    بعد ازاں اسی کمند کو اوپر کھینچا گیا اور جیسے ہی شیر کنارے پر پہنچا اسے فوری طور پر لوہے کے پنجرے میں منتقل کردیا گیا۔

    یہ تمام عمل 2 گھنٹے کے عرصے میں انجام پایا۔

    وائلڈ لائف کے مطابق یہ شیر اس نایاب نسل سے تعلق رکھتا ہے جسے ایشیاٹک لائن کہا جاتا ہے اور یہ صرف بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پورے بھارت میں ان کی تعداد 500 کے قریب ہے۔

    یاد رہے کہ بھارت میں شیروں اور چیتوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ اکثر گاؤں دیہاتوں میں آنکلتے ہیں جس کے بعد یہ مویشیوں کو کھا جاتے ہیں۔

    اکثر شیر کنوؤں میں گر کر ہلاک بھی ہوجاتے ہیں تاہم جس طرح ان گاؤں والوں نے اس شیر کو بچانے کی کوششیں کیں وہ قابل تعریف ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔