Tag: win case

  • برطانیہ میں بے نامی جائیداد کا قانون تبدیل کرانے کی کوشش ناکام

    برطانیہ میں بے نامی جائیداد کا قانون تبدیل کرانے کی کوشش ناکام

    لندن : برطانیہ میں بے نامی جائیداد کا قانون تبدیل کرانےکی کوشش ناکام ہوگئی، برطانوی حکومت نے پوری تیاری سے لڑ کر مقدمہ جیت لیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں بے نامی جائیداد سے متعلق قانون چیلنج کرنے والوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، برطانوی حکومت نے عدالت میں بے نامی جائیداد کے قانون کے خلاف دائر مقدمہ جیت لیا۔

    برطانیہ کی قومی انسداد جرائم ایجنسی نے عدالت میں قانون کا بھرپور دفاع کیا، جس کے بعد عدالت نے غیر یورپی سیاسی شخصیت کی قانون میں تبدیلی کی درخواست رد کردی۔

    یاد رہے 22ملین پاؤنڈکی جائیداد بچانے کیلئے نئے قانون کوعدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔

    رواں سال فروری میں  برطانیہ میں غیرقانونی دولت سے بنائی گئی جائیداد کا نیا قانون لاگو کیا گیا تھا ، اس اقدام کا مقصد برطانیہ منتقل کی گئی دولت کی شفافیت میں موجود سقم دور کرنا ہے، نئےقانون کے بعد ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے5متنازع جائیدادوں کی چھان بین کیلئے کہا  تھا۔

    ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے برطانیہ کو پانچ شخصیات اور اداروں کی جائیدادکی فہرست دی تھی، جس میں نوازشریف کی جائیداد بھی شامل تھیں۔

    مزید پڑھیں : برطانیہ میں شریف خاندان کی مشتبہ جائیداد نئے قانون کی زد میں

    ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے مراسلے میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایوان فیلڈ جائیداد کی فوری تحقیقات کی جائیں۔

    نئے برطانوی قانون کو ’’ان ایکسپلینڈ ویلتھ آرڈر‘‘ کا نام دیا گیا تھا، جس کے مطابق برطانوی ایجنسیاں کسی بھی جائیداد کی رقم کی منتقلی اور جائیداد کیلئے حاصل رقم کے بارے میں بھی چھان بین کی مجازہوں گی۔

    خیال رہے برطانیہ میں غیرقانونی طریقے سے بنائی گئی جائیداد ضبط کی جاسکتی ہے۔

  • برطانیہ: پاکستانی ڈرائیور نے اوبر کے خلاف مقدمہ جیت لیا

    برطانیہ: پاکستانی ڈرائیور نے اوبر کے خلاف مقدمہ جیت لیا

    لندن : برطانوی عدالت میں گذشتہ 3 برسوں سے جاری سیلف ایمپلائیڈ مقدمے میں پاکستانی نژاد ڈرائیور نے اوبر کے خلاف دائر مقدمہ جیت لیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی ڈرائیور یٰسین اسلم نے برطانوی عدالت میں اوبر کے خلاف ملازمت کے حوالے لڑے جانے والے مقدمے میں فتح حاصل کرلی ہے۔

    اوبر انتظامیہ گذشتہ تین برس سے اپنے ڈرائیورز کو سیلف امپلائیڈ ثابت کرنے میں میں لگی ہوئی ہے لیکن کامیاب نہ ہوسکی یٰسین اسلم اوبر کے خلاف 19 ملازمین کی جانب سے برطانوی عدالت میں مقدمہ لڑ رہے تھے۔

    یٰسین اسلم نے برطانیہ کی اعلیٰ عدلیہ کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اوبر کا لمب بی ورکر ہے اور اوبر انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے سیلف ایمپلائیڈ کے دعوے کے مخالف ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں، میں نے ٹریڈ یونین کے تعاون سے اوبر کے خلاف درخواست دائر کی تھی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اربوں ڈالر مالیت کی ٹیکسی فرم اوبر کے پاس قابل وکلاء کی پوری ٹیم موجود ہے۔

    یٰسین اسلم کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی فرم کے خلاف مقدمے میں دوسری مرتبہ کامیابی حاصل ملازمین کے لیے کسی سنگ میل سے کم نہیں، تاہم اوبر انتظامیہ نے مذکورہ فیصلے کے خلاف بھی اپیل دائر کررکھی ہے لیکن پوری امید ہے کہ سپریم کورٹ کے جج اوبر ڈرائیوروں کی حمایت میں ہی فیصلہ دینگے۔

    واضح رہے کہ یٰسین اسلم کے ہمراہ یونائیٹڈ پرائیویٹ اوبر ڈرائیورز کی بنیاد رکھنے والے جیمز فرار نے سنہ 2015 میں سب سے پہلے اوبر کے خلاف ایمپلایمنٹ ٹربیونل میں درخواست دائر کی تھی جس میں انہیں فتح حاصل ہوئی تھی۔

    ایمپلایمنٹ ٹربیونل میں جولائی سنہ 2016 میں مقدمے کی پہلی سماعت ہوئی تھی جبکہ اکتوبر 2016 میں فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے جج نے ریمارکس دیئے تھے کہ اوبر سے وابستہ تمام ڈرائیورز سیلف ایمپلائیڈ نہیں ہیں لہذا انہیں ملازمین کے بنیادی حقوق دینے ہوں گے، خیال رہےکہ ملازمت کے بنیادی کے بنیادی حقوق میں اجرمت اور تعطیل کی تنخواہ شامل ہے۔

    یاد رہے کہ سنہ 2017 ستمبر میں اوبر انتظامیہ نے فیصلے کے خلاف ای اے ٹی میں درخواست دائر کی تھی تاہم اس دفعہ بھی عدالت نے فیصلہ ڈرائیور کے حق میں دیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اوبر نے ملازمین کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد دسمبر میں برطانیہ کی سپریم کورٹ میں ٹربیونل کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔ جس کی سماعت اکتوبر سنہ 2018 میں کی جائے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ یٰسین اسلم اور دیگر ڈرائیوروں کو امید ہے کہ سپریم کی جانب سے آئندہ برس کیس کا فیصلہ سنادیا جائے گا۔

    یٰسین اسلم کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لندن کے میئر، وزیر ٹرانسپورٹ اور حکومت کو چاہیئے کے اپنی ذمہ داری ادا کرے اور اوبر کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے ورکرز کے حقوق کا دفاع کرے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر اوبر کو کیس میں کامیابی ہوگئی تو دیگر انڈسٹریوں میں بھی یہ ہی رواج قائم ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ میں بھی مقدمہ لڑوں گا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ دو مرتبہ عدالت میں اوبر کے خلاف فیصلہ آنا اس بات کی تصدیق ہے کہ اوبر انتظامیہ ملازمین کے حقوق غیر قانونی طور پر سلب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    برطانیہ میں ملازمین کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنا بہت ضروری ہے کیوں ادارے ملازمین کو حقوق دینے سے بچنے کے لیے غلط طریقوں کا استعمال کرتے ہیں اور سیلف ایمپلائیڈ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں کامیابی میرے اکیلے کی نہیں ہے بلکہ میری یونین اور کارکنوں کی یکجہتی کی وجہ سے فتح ہوئی ہے، میں اور میرے ساتھی یونینسٹ کے طور پر اپنی ذمہ داری نبھاتے رہیں گے کیوں کہ دوسروں کا بھی ہم پر حق ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں