Tag: withdrawal

  • افغانستان سے انخلاء کا عمل اسی ماہ مکمل کرلیں گے، امریکی صدر

    افغانستان سے انخلاء کا عمل اسی ماہ مکمل کرلیں گے، امریکی صدر

    واشنگٹن : امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان سے افواج کے انخلا کاعمل مکمل رواں ماہ 31تاریخ تک مکمل کرلیں گے، جتنا جلدی ختم کریں گے اتنا بہتر ہوگا۔

    وائٹ ہاؤس میں افغانستان کی صورتحال پر خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر انخلا کا عمل مکمل کر رہے ہیں۔

    امریکی صدر نے کہا کہ طالبان انخلا کے عمل میں بھرپور تعاون کر رہے ہیں اور متعدد پرتشدد واقعات کے باوجود وہاں سکیورٹی برقرار ہے۔

    صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ امریکہ اس آخری تاریخ سے پہلے انخلا کا ہدف کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ عسکریت پسندوں کے حملوں کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک نازک صورتحال ہے، وقت گزرنے کے ساتھ اس کے ٹوٹنے کا شدید خطرہ ہے، افغانستان سے امریکا آنے والوں کا بیک گراؤنڈ چیک کیا جارہا ہے،

    ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ طالبان کے بیانات نہیں بلکہ ان کا طرز عمل دیکھیں گے، جس کو دیکھ کر آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔

    جوبائیڈن نے کہا کہ موجودہ حالات2001سے بہت مختلف ہیں، متحد ہوکر انخلا کاعمل مکمل کریں گے، ساتھ دینے پر تمام اتحادی ممالک کا شکر گزار ہوں۔

    واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں افغانستان کی نئی صورتحال سامنے آنے کے بعد امریکہ اپنے فضائی آپریشن میں تیزی لایا ہے تاکہ امریکی شہریوں سمیت ان ہزاروں لوگوں کا انخلاء مکمل کیا جا سکے جنہیں طالبان سے انتقام کا خوف ہے اور جو ملک چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • طالبان نے مجموعی طور پر معاہدے کی پاسداری کی، جوبائیڈن

    طالبان نے مجموعی طور پر معاہدے کی پاسداری کی، جوبائیڈن

    امریکی صدرجوبائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے معاملے پر افغان طالبان نے مجموعی طور پر معاہدے کی پاسداری کی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ طالبان کہہ چکے ہیں وہ قانونی حیثیت کے حصول کےخواہش مند ہیں، اب تک طالبان نے امریکی افواج کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔

    واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں جاری افواج کے انخلا آپریشن میں اب تیزی آرہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ انخلا کے معاملے پر طالبان نے مجموعی طور پرمعاہدے کی پاسداری کی ہے، امید ہے افغانستان سے افواج کا انخلا31اگست تک مکمل ہوجائے گا۔

    امریکی صدر نے پریس کانفرنس کے دوران صحافی کی جانب سے کیے گئے ایک سوال پر جواب دیا کہ ضرورت پڑنے پر انخلا کی ڈیڈلائن میں ممکنہ توسیع پر بات چیت جاری ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ افغانستان سے ہزاروں افراد کےانخلا میں پیشرفت ہورہی ہے، 36 گھنٹے سے بھی کم وقت میں11ہزار افراد کو کابل سے بحفاظت باہر نکالا گیا ہے۔

    جوبائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ ہماری پہلی ترجیح امریکی شہریوں کو جلد اور محفوظ طریقے سےنکالنا ہے، انخلا میں مدد کرنے پرعالمی رہنماؤں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

  • افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں: جو بائیڈن

    افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں: جو بائیڈن

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی قوم کی تعمیر نو نہیں تھا، افغان فوج کو سب کچھ دیا لیکن لڑنے کا جذبہ نہیں دے سکتے، افغان فورسز لڑنے کو تیار نہیں، امریکی فوجی کیوں اپنی جانیں گنوائیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی قوم سے خطاب کیا، اپنے خطاب میں جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان جانے کا مقصد تعمیر نو نہیں تھا، افغانستان میں ہمارا مشن دہشت گردی کی روک تھام تھا۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میرے پاس بطور صدر 2 ہی راستے تھے، امن معاہدے پر عمل پیرا ہوتا یا دوبارہ افغانستان میں لڑائی کرتا، ہم نے افغان فوج پر اربوں ڈالرخرچ کیے، ہر طرح کے ہتھیار فراہم کیے، افغانستان سے فوج واپسی کا فیصلہ درست ہے۔

    انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کا تیزی سے خاتمہ حیرت کی بات ہے، افغان فورسز کی تنخواہیں تک ہم ادا کرتے تھے، افغان فوج خود لڑنے کے لیے تیار نہیں تھی، انہوں نے سرینڈر کردیا، افغان فورسز خود نہیں لڑنا چاہیں تو امریکی فوج کیا کر سکتی ہے۔

    جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ اشرف غنی کو مشورہ دیا تھا افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کریں، اشرف غنی نے ہماری تجویز مسترد کی اور کہا افغان فوج لڑے گی، افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ سابق صدر ٹرمپ نے کیا تھا، دوسروں کی غلطیوں کو ہم نے نہیں دہرانا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ چین اور روس نے افغانستان کے لیے کچھ نہیں کیا، چین اور روس کی خواہش ہوگی کہ امریکا افغانستان میں مزید ڈالر خرچ کرے، امریکی فوج وہ جنگ نہیں لڑ سکتی جو افغان فوج خود اپنے لیے نہ لڑے، افغان عوام کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھاتے رہیں گے۔

    جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغان فوج کو سب کچھ دیا لیکن لڑنے کا جذبہ نہیں دے سکتے، افغان فورسز لڑنے کو تیار نہیں، امریکی فوجی کیوں اپنی جانیں گنوائیں۔ افغان جنگ میں مزید امریکی نہیں جھونک سکتے، افغانستان سے اتحادی افغان شہریوں کو نکال رہے ہیں، اگر انخلا روکنے کی کوشش کی گئی تو سخت جواب دیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود امریکیوں کو واپس لایا جائے گا، انسانی حقوق ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیح ہونی چاہئیں، انخلا مکمل ہونے پر امریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا، افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں، افغانستان سے انخلا کا فیصلہ درست اور امریکی عوام کے مفاد میں ہے۔

    جو بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں اپنا سفارتخانہ بند کر دیا ہے اور عملے کو واپس بلا لیا ہے، اگر طالبان نے امریکی مفادات پر حملے کیے تو سخت جواب دیں گے، افغان عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔

    بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی قوم کی تعمیر نو نہیں تھا، ہم 20 سال پہلے واضح اہداف کے ساتھ افغانستان گئے تھے، ہمارا ہدف 11 ستمبر کو حملے کرنے والوں کو پکڑنا تھا اور القاعدہ کو حملوں کے لیے افغانستان کو بطور بیس استعمال سے روکنا تھا۔

    ٹویٹ میں صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ ہم نے ایک دہائی پہلے ہی افغانستان میں اہداف حاصل کر لیے تھے، افغانستان میں جو واقعات دیکھ رہے ہیں وہ افسوسناک ہیں، امریکی فوج کی چاہے کتنی بھی تعداد ہو وہ افغانستان کو مستحکم و محفوظ نہیں بنا سکتی، جو آج ہو رہا ہے وہ 5 سال پہلے بھی ہو سکتا تھا اور 15 سال بعد بھی۔

  • امریکا پر بھاری ٹیکس عائد کرنے پر ٹرمپ کی بھارت کو تنبیہ

    امریکا پر بھاری ٹیکس عائد کرنے پر ٹرمپ کی بھارت کو تنبیہ

    واشنگٹن : امریکاپر بھاری ٹیکس عائد کرنے پرصدرڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کوتنبیہ کرتے ہوئے کہا حالیہ دنوں میں ٹیکسوں میں مزید اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں بھارت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بھارت کئی سالوں سے امریکی مصنوعات پر زیادہ ٹیرف عائد کر رہا ہے، اس معاملے پر بھارتی وزیراعظم مودی سے بات کروں گا۔

    ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی درآمدات پر بھارتی ٹیرف ناقابل قبول ہے، بھارت اسے واپس لے۔

    خیال رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ پیغام ایسے وقت میں جاری کیا ہے کہ جب سیکریٹری خارجہ مائک پومپیو بھارت کے دورے پر نئی دہلی میں موجود ہیں جہاں ان کی اعلیٰ حکومتی و ریاستی حکام سے ملاقاتیں جاری ہیں۔ مائیک پومپیو طے شدہ شیڈول کے مطابق نئی دہلی ہی سے جاپان کے شہر اوساکا کے لیے روانہ ہوں گے۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر اور بھارتی وزیراعظم جاپان میں جی 20 اجلاس میں شرکت کریں گے، جہاں دونوں رہنماؤں کی سائیڈ لائن ملاقات بھی طے ہے۔

    دلچسپ امر ہے کہ امریکہ کی یہی تجارتی چپقلش چین کے ساتھ بھی جاری ہے، عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں ممالک ایک دوسرے کی تجارتی اشیا پر بھاری ٹیرف عائد کررہے ہیں جس سے درآمدات اور برآمدات متاثر ہورہی ہیں جو تلخی کا سبب بن رہی ہیں۔

  • شام سے فوجی انخلاء پر امریکی سینیٹرز مخالفت کردی، 400 سینیٹرز کے پٹیشن پر دستخط

    شام سے فوجی انخلاء پر امریکی سینیٹرز مخالفت کردی، 400 سینیٹرز کے پٹیشن پر دستخط

    واشنگٹن: امریکی سینیٹرز نے شام میں انتہا پسند جماعتوں کے دوبارہ سر اٹھانے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی افواج کے انخلاء کے خلاف ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں۔ 

    تفصیلات کے مطابق امریکی کانگریس کے سیکڑوں ارکان نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شام میں تعینات فوج واپس نہ بلائیں۔

    ان ارکان کا کہنا ہے کہ ہمیں شام میں انتہا پسند جماعتوں کے دوبارہ سر اٹھانے کے حوالے سے تشویش ہے، اس لیے شام میں فی الحال امریکی فوج کی موجود گی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں ضروری ہے۔

    امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں سینٹ اور ایوان نمائندگان کے 400 ارکان نے شام سے فوج واپس نہ بلانے کے مطالبے کے ساتھ کہا ہے کہ خطے میں ہمارے بعض اتحادی ممالک اس وقت خطرے کی زد میں ہیں۔

    امریکا اس وقت اپنے اتحادیوں کے حوالے سے اہم کردار ادا کررہا ہے۔بیان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ شام میں ایران اور روس کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کرے اور لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو بھی کنٹرول کرے۔

    ارکان کانگریس جن میں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹس دونوںشامل ہیں کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس دسمبر میں جب صدر ٹرمپ نے اچانک شام میں تعینات 2000 فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تو ان کے اس اعلان پر امریکا کے اتحادیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔

    مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوج واپس بلانے کا اعلان کردیا

    یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ ہم نے داعش کو شکست دے دی، اور آئندہ 30 دنوں میں امریکی فورسز شام سے نکل جائیں گی۔

    مزید پڑھیں : صدر ٹرمپ سے اختلافات، امریکی وزیر دفاع مستعفی ہوگئے

    شام سے امریکی فوج کے انخلا سے متعلق ٹرمپ کے بیان پر امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس اور دولت اسلامیہ مخالف اتحاد کے خصوصی ایلچی بریٹ میکگرک نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    خیال رہے کہ داعش کے خلاف شام میں صدر باراک اوبامہ نے پہلی مرتبہ سنہ 2014 میں فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر باضابطہ شام کی خانہ جنگی میں حصّہ لیا تھا۔

  • وینزویلا میں فوجی کارروائی خارج از امکان نہیں، مائیک پومپیو

    وینزویلا میں فوجی کارروائی خارج از امکان نہیں، مائیک پومپیو

    واشنگٹن : امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وینزویلا میں فوجی کارروائی زیر غور ہے‘ صدر اس حوالے سے بالکل واضح ہیں اگر ضرورت پڑی تو فوجی کارروائی ممکن ہے اور امریکا ایسا کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے وینزویلا کی صورت حال پر روس اور کیوبا کی مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حوالے سے فوجی کارروائی ممکن ہے، امریکی ٹی وی کو ایک انٹرویو میں پومپیو کا کہنا تھا کہ وینزویلا میں فوجی کارروائی زیر غور ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ صدر اس حوالے سے بالکل واضح ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو فوجی کارروائی ممکن ہے اور امریکا ایسا کرے گا۔

    وینزویلا میں جاری اپوزیشن کے احتجاج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ اپنی جمہوریت کے دفاع کے لیے سڑکوں پر ہیں۔

    خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیوبا پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ وینزویلا کے صدر نکولس مدورو کی حمایت کر رہا ہے جس سے حالات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں اور اگر وینزویلا کی فوج حالات کو قابو کرنے میں ناکام رہی تو ملک کو پابندیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ٹرمپ کے بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پومپیو نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے کیوبا کے تعاون کو روکنے کے لیے اضافی اقدامات کیے ہیں اور اس حوالے سے مزید کام جاری رکھیں گے۔

    سیکریٹری اسٹیٹ نے روس کو بھی صورتحال کا مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ہم اسی طرح کے اقدامات روس کے ساتھ بھی کریں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ روس کو اس اقدام کی قیمت چکانی پڑے گی، اس لیے جو کچھ ہم کر سکتے ہیں اسی پر ہماری توجہ ہے کیونکہ وینزویلا کے منتخب صدر جووان گوئیڈو کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔

    گوئیڈو کی حمایت کا عزم کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مدورو ملک چھوڑ کر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں روس اور کیوبا کی جانب سے روکا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ روس اور کیوبا کی جانب سے وینزویلا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جارہی ہے۔

    دوسری جانب روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے مائیک پومپیو کی جانب سے وینزویلا کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا۔

    روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سرگئی لاروف اور مائیک پومپیو کے درمیان فون پر رابطہ ہوا تھا جس کے لیے پہل امریکا کی جانب سے کی گئی تھی۔

  • شام سے امریکی افواج کی واپسی سے متعلق ٹرمپ کا اہم بیان سامنے آگیا

    شام سے امریکی افواج کی واپسی سے متعلق ٹرمپ کا اہم بیان سامنے آگیا

    واشنگٹن : امریکی صدر نے شام سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے متعلق کہا ہے کہ امریکی افواج کی واپسی آہستہ آہستہ ہوگی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ پر ٹویٹ کیا ہے کہ ’ہم اپنے فوجیوں کو اپنے فوجیوں کو ان کے اہل خانہ کے پاس آہستہ آپستہ گھر بھیجیں گے۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ فوجی اہلکار انخلاء کے ساتھ ساتھ بیک وقت داعش نے لڑتے بھی رہیں گے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ کی وضاحت نے ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم کے تبصرے کی تصدیق کردی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ شام میں تعینات تمام امریکی فوجی واپس آرہے ہیں۔

    خیال رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے اتحادیوں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت حیران کر دیا تھا جب انھوں نے گذشتہ ماہ خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے امریکی افواج کے انخلا کا حکم دیا تھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر امریکی وزیر دفاع جم میٹس اور شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ مخالف اتحاد کے خصوصی نمائندے بریٹ مک گرک نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے سے شام کے شمال میں موجود امریکا کے کرد اتحادی ترکی کے حملوں کی زد میں آ جائیں گے۔

    یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ ہم نے داعش کو شکست دے دی، اور آئندہ 30 دنوں میں امریکی فورسز شام سے نکل جائیں گی۔

    مزید پڑھیں : امریکی افواج کے انخلاء کے حکم نامے پر دستخط کی تصدیق ہوگئی

    یاد رہے کہ 24 دسمبر کو امریکی حکام نے خانہ جنگی کا شکار ملک شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے حکم نامے پر مستعفی ہونے والے وزیر دفاع جیمز میٹس کے دستخط کرنے کی تصدیق کی تھی۔

  • وائٹ ہاوس نے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کی تردید کردی

    وائٹ ہاوس نے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کی تردید کردی

    واشنگٹن : امریکی حکام نے صدر ٹرمپ کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں تعینات امریکی فوج کو واپس بلانے کا حکم نہیں دیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق وائٹ ہاوس کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پینٹاگون کو افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے لیے کوئی حکم صادر نہیں کیا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے غیر ملکی میڈیا کی جانب سے ایسی متضاد خبریں موصول ہوئی تھیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے محکمہ دفاع کو 7 ہزار فوجی اہلکار افغان تنازع سے نکالنے کی ہدایت کی تھی۔

    امریکا کی نیشنل سیکیورٹی کے ترجمان گیرٹ مارکیوس کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے وزارت دفا کو بھی افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کے احکامات نہیں دئیے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تعینات بین الاقوامی فورسز کے کمانڈر جنرل اسکوٹ ملر کا کہنا تھا کہ انہیں فوجیوں کی تعداد میں تبدیلی سے متعلق کوئی احکامات موصول نہیں ہوئے۔

    مزید پڑھیں : ڈونلڈ ٹرمپ کا افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد آدھی کرنے کا فیصلہ

    یاد رہے کہ امریکی میڈیا خبر شائع کی تھی کہ افغانستان میں امریکہ کے 14 ہزار فوجی تعینات ہیں جن میں سے 7ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلایا جائے گا۔

    امریکی میڈیا کا کہنا تھا کہ افغانستان سے 7 ہزار فوجیوں کے انخلا میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

    دوسری جانب امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظبی میں امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں قیام امن اور جنگ کے خاتمے مذاکرات ہوئے تھے جس کے بعد زلمے خلیل زاد سیاسی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے ملاقاتوں کے لیے افغانستان پہنچے تھے۔

    مزید پڑھیں: امریکی افواج کے انخلاء کے حکم نامے پر دستخط کی تصدیق ہوگئی

    واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شام میں امریکی فوج کا ہدف داعش کو شکست دینا تھا اور ہمارا یہ مقصد پورا ہوگیا ہے اور اب وہاں پر مزید امریکی فوج کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، دوسری جانب ان کے اس فیصلے پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

  • امریکی افواج کے انخلاء کے حکم نامے پر دستخط کی تصدیق ہوگئی

    امریکی افواج کے انخلاء کے حکم نامے پر دستخط کی تصدیق ہوگئی

    واشنگٹن : امریکی حکام نے خانہ جنگی کا شکار ملک شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے حکم نامے پر دستخط کرنے کی تصدیق کردی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی حکام نے کہا ہے کہ  شام میں تعینات امریکی فوجیوں کے انخلاء کے حکم نامے پر مستعفی ہونے والے وزیر دفاع جیمز میٹس نے دستخط کیے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ حکم نامے پر امریکی افواج کا شام سے نکلنے کا مکمل شیڈول بھی درج ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں شام سے فوجیوں کی واپسی شروع ہوجائے گی جو چند ہفتے تک جاری رہے گی۔

    یاد رہے کہ کچھ روز قبل امریکی وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ شام سے امریکی فوج کی واپسی کا عمل شروع ہوچکا ہے، اور سو دن میں یہ عمل مکمل کرلیا جائے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دنیا کے لیے خطرہ بننے والی دہشت گرد تنظیم داعش کو شام میں بری طرح شکست دے دی۔

    مزید پڑھیں : صدر ٹرمپ سے اختلافات، امریکی وزیر دفاع مستعفی ہوگئے

    شام سے امریکی فوج کے انخلا سے متعلق ٹرمپ کے بیان پر امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس ناراض ہوئے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیردفاع جیمزمیٹس اگلے سال فروری میں ریٹائر ہوجائیں گے۔

    خیال رہے کہ داعش کے خلاف شام میں صدر باراک اوبامہ نے پہلی مرتبہ سنہ 2014 میں فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر باضابطہ شام کی خانہ جنگی میں حصّہ لیا تھا۔

  • پیوتن نے روسی فوج کے شام سے انخلا کا حکم دے دیا

    پیوتن نے روسی فوج کے شام سے انخلا کا حکم دے دیا

    ماسکو: روسی صدر ولادی میر پیوتن نے شام سے اپنی فوج کے جزوی انخلا کا حکم دے دیا ہے۔ یہ حکم انھوں نے شام میں روس کے زیر استعمال حمیمیم ایئربیس کے دورے کے موقع پر دیا۔

    روسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پیوتن نے اپنے وزیر دفاع اور چیف آف جرنل اسٹاف کو روسی فوجی دستوں کی واپسی کا حکم دیتے ہوئے یہ یقین ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد شام میں تعینات روسی دستوں کی بڑی تعداد گھر لوٹ جائے گی۔

    واضح رہے کہ روس نے رواں برس کے اوائل میں شام میں اپنی فوجی کی تعداد میں کمی شروع کر دی تھی۔

    ولادی میر پیوتن کا شام کا یہ پہلا باقاعدہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب بشار الاسد کی فوج نے روس کے تعاون سے شام کے بڑے حصہ پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

    یاد رہے کہ حمیمیم کا فوجی اڈا ستمبر2015 سے روسی فوج کے زیر استعمال ہے، جب پوتن نے اسد کی عسکری حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ فوجی اڈا امریکا اور کئی عرب ممالک کی شام سے ناراضی کا بھی سبب بنا۔

    شام ہی کے معاملات پر اختلافات کے باعث گذشتہ برس پیوتن نے اپنا فرانس کا دورہ موخر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    روسی صدرنے فرانس کا دورہ مؤخرکردیا*

    واضح رہے کہ روسی صدر نے رواں برس دسمبر میں چوتھی بار صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

    تجزیہ کار انھیں دنیا کا طاقتور ترین آدمی قرار دیتے ہیں۔ ان کے اس حکم کو عراقی وزیر اعظم کی جانب سے دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں فتح کے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔