Tag: women protest

  • بجلی کے حصول کی خاطرچترال کی خواتین پہلی بارسڑکوں پر نکل آئیں

    بجلی کے حصول کی خاطرچترال کی خواتین پہلی بارسڑکوں پر نکل آئیں

    چترال: تاریخ میں پہلی بار علاقہ ورڈب کی خواتین نے بجلی کے حصول کے لیے تحصیل دروش کے مضافات میں گاؤں ورڈب کے لوگوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنا دیا۔

     مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس جدید دور میں بھی ان کے لوگ بجلی اور پینے کی صاف پینے جیسے نعمت سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں گولین کے مقام پر 106میگا واٹ کا پن بجلی گھر مکمل ہوچکا ہے جس سے وافر مقدار میں بجلی چترال سے باہر اضلاع میں بھی فراہم کی جاتی ہے مگر چراغ تلے اندھیرا کے مصداق پر گاؤں ورڈب کے سینکڑوں مکین اس بجلی سے ابھی تک محروم ہیں۔

    اس کے علاوہ اس گاؤں میں پینے کی صاف پانی ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں ہے اور لوگ دریا کا گندا پانی پینے پرمجبور ہیں جس سے وہ گردوں اور دیگر موذی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ دروش کے سماجی کارکن حاجی انذر گل نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ گاؤں ورڈب میں گوجر، پٹھان، چترالی اور مختلف قوموں کے لوگ رہتے ہیں مگر ان کو ابھی تک بجلی سے محروم رکھا گیا ہے۔

    ایک خاتون نے کہا کہ یہاں پینے کا صاف پانی بھی نہیں ہے اور دریائے چترال سے گندا پانی مٹکوں میں سروں پر  رکھ پہاڑی علاقے میں آباد اپنے گھروں  میں  لاتے ہیں جس سے ان کے گردے خراب ہورہے ہیں اور بچے متعدد بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔

    اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے پشاور الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی (پیسکو) کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر محمد امجد خان سے فون پر رابطہ کرکے ان سے پوچھا کہ ابھی تک یہ علاقہ بجلی سے محروم کیوں رہا ان کا کہنا تھا کہ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر چترال ہمیں تحریری طور پر لکھے گا تو ہمارا ٹیم جاکر اس کا تحمینہ لگائے  گی ۔اس کے بعد ڈی سی چترال صوبائی یا مرکزی حکومت کی فنڈ سے پیسکو کو مطلوبہ رقم ادا کرے گا تو ہماری  ٹیم اس علاقے میں بجلی کی لائن بچھائے  گی۔

    مظاہرین کے کیمپ کا دروش کے اسسٹنٹ کمشنر عبدالولی خان نے بھی دورہ کرکے ان کے ساتھ مذاکرات کی اور ان سے دس دن کی مہلت مانگی۔ مظاہرین نے اس شرط پر اپنا احتجاج حتم کرنے کا عندیہ دیا کہ اگر ان کو دس دن میں بھی بجلی نہیں ملی تو پھر وہ بڑے پیمانے پر احتجاج کریں گے۔

  • ڈنمارک میں نقاب پر پابندی کے خلاف خواتین کا مظاہرہ

    ڈنمارک میں نقاب پر پابندی کے خلاف خواتین کا مظاہرہ

    کوپن ہیگن: ڈنمارک میں خواتین کے نقاب کرنے پر پابندی کے خلاف خواتین نے احتجاجی ریلی نکالی اور قانون پر نظرثانی کا مطالبہ کردیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں خواتین کے نقاب پر پابندی کے خلاف خواتین نے احتجاجی ریلی نکالی، مظاہرین نے پارلیمان کے اس ظالمانہ قانون کو رد کردیا۔

    خواتین مظاہرین کا کہنا ہے کہ اسلام کے خلاف نفرت اور بنیاد پرستی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے جبکہ پردہ عین عورت کا حسن اور تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، مظاہرین خواتین نے ریلی میں نقاب پہن رکھے تھے۔

    مظاہرین نے پارلیمان کے اس ظالمانہ قانون کو رد کردیا اور مطالبہ کیا کہ وہ خواتین کی حرمت اور تقدس کا خیال رکھتے ہوئے اپنے قانون پر نظر ثانی کریں، احتجاجی ریلی اہم شاہراہوں سے گزرتی ہوئی پرامن انداز میں اختتام پذیر ہوگئی۔

    دوسری جانب ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں مسلمان مخالف گروپوں نے عوامی مقامات پر چہرے پر مکمل نقاب کرنے کے خلاف مظاہرہ کیا، نقاب پہننے والی خواتین نے مظاہرے کو افسوسناک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔

    یاد رہے مئی میں ڈنمارک کی پارلیمنٹ نے عوامی مقامات پر خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی کے قانون کی منظوری دی تھی، پابندی کے حق میں 75 جبکہ مخالفت میں 30 سے زائد ووٹ آئے تھے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل آسٹریا، فرانس اور بیلجیم میں اسی طرح کا قانون منظور ہوچکا ہے اور اب ڈنمارک بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے جہاں خواتین کے برقعہ پہننے پر پابندی عائد ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔