Tag: WOMEN

  • خیبرپختونخواہ میں جنگلات کی رائلٹی اب خواتین کو بھی ملے گی

    خیبرپختونخواہ میں جنگلات کی رائلٹی اب خواتین کو بھی ملے گی

    چترال : خیبر پختونخوا حکومت نے جنگلات کی رائلٹی میں پہلی مرتبہ خواتین کو بھی حصہ دار بنا دیا ہے اور خواتین کی معاشی بہبود کے اس اہم منصوبے کا آغاز سب سے پہلے دور افتادہ ضلع چترال سے کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اب چترال کے سب ڈویژن دروش میں خواتین بھی مردوں کی طرح جنگلات کی رائلٹی کی حقدار ہوں گی ‘ اب تک ہر گھر کے صرف مردوں کو جنگلات کی رائلٹی میں حصہ دیا جاتا تھا لیکن اب خواتین کو اس میں شامل کر دیا گیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں یہ اقدام مالاکنڈ ڈیویژن میں کیا جائے گا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ضلع چترال میں انتظامیہ، محکمہ جنگلات اور مقامی حکومتوں کی خواتین کونسلرز کے درمیان اجلاس منعقد ہو چکے ہیں جس میں خواتین کو رائلٹی میں حصہ دار بنانے کے لیے اقدامات پر غور کیا گیا تھا۔

    برطانوی  نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سوڈر نےکو بتایا کہ ’’جنگلات سے ہونے والی آمدن میں ساٹھ فیصد مقامی کمیونٹی اور چالیس فیصد حکومت کا حصہ ہوتا ہے۔ مقامی کمیونٹی میں اب تک خاندان کے صرف مرد افراد کو ہی حصہ ملتا تھا خواتین اس میں شامل نہیں تھیں‘‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’’صرف مرد حضرات پر مشتمل ایک گھرانے کو لگ بھگ ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے ملتے تھے، اس میں خواتین شامل نہیں تھیں لیکن اب خواتین کو شامل کرنے کے بعد دوبارہ سے تقسیم کا عمل ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ضلعی انتظامیہ کے پاس تقریباً ساڑھے گیارہ کروڑ روپے پڑے ہیں جو ان لوگوں میں تقسیم کیے جائیں گے‘‘۔

    ایک مقامی افسرکا کہنا تھا کہ اس علاقے میں ایسی خواتین ہیں جن کے شوہر اور بیٹے نہیں ہیں، اس لیے وہ اس حق سے محروم تھیں جبکہ وہ خاندان جن کے ہاں بیٹیاں ہیں وہ بھی یہ حق حاصل نہیں کر سکتے تھے لیکن اب ایسے خاندان بھی اس سے متفید ہو سکیں گے۔

    یہ فیصلہ چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا نے دور افتادہ علاقوں میں آباد لوگوں کو ان کا حق پہنچانے کے لیے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ایسے علاقے ہیں جہاں سے گیس اور تیل کے پیدا ہوتی ہیں لیکن اب تک ان علاقوں کے بارے میں اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • سعودی عرب: ماں بیٹے سے زیادتی اور قتل، چار پاکستانیوں کا سرقلم

    سعودی عرب: ماں بیٹے سے زیادتی اور قتل، چار پاکستانیوں کا سرقلم

    ریاض: سعودی حکومت نے ماں بیٹے کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا الزام ثابت ہونے پر چار پاکستانیوں کے سرقلم کردیے۔

    سعودی وزارتِ داخلہ سے جاری اعلامیے کے مطابق چار افراد ریاض میں رہائش پذیر خاتون کے گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوئے اور انہوں سونے اور نقدی سمیٹنے کے بعد خاتون اور بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    وزارتِ داخلہ کے مطابق چاروں ملزمان  نے خاتون اور بچے کو زیادتی کے بعد گھر میں ہی قتل کیا اور وہاں سے نقدی لے کر فرار ہوگئے تھے مگر پولیس نے شواہد اکھٹے کر کے چاروں مجرمان کو حراست میں لیا۔

    مزید پڑھیں: سعودی عرب: 1 پاکستانی اور 5 سعودی باشندوں‌ کے سرقلم

    سعودی وزارتِ داخلہ کے مطابق گرفتاری کے بعد چاروں پاکستانیوں کو صفائی کا موقع فراہم کیا گیا مگر انہوں نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کیا جس کی بنیاد پر انہیں جمعرات 8 فروری 2018 کے روز سزائے موت (سر قلم) دی گئی۔

    واضح رہے کہ سعودی حکومت نے رواں سال کے آغاز کے بعد سے اب تک 20 افراد کے سر قلم کیے جبکہ گزشتہ برس 141 لوگوں کو سزائے موت دی گئی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں دو افراد کا سرقلم، ایک پاکستانی شہری بھی شامل

    خیال رہے کہ گزشتہ برس جولائی کے مہینے میں سعودی عدالت نے 6 پاکستانیوں پر انسانی اسمگلنگ کا الزام ثابت ہونے پر سزا سنائی تھی علاوہ ازیں پانچ سعودی باشندوں کے بھی سر قلم کیے گئے تھے۔

    یاد رہے کہ سعودی عرب میں سر قلم کیے گئے افراد کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے جن افراد کے سرقلم کیے جاتے ہیں ان میں منشیات کی اسمگلنگ، دہشت گردی، قتل، زیادتی، مسلح ڈکیتی کے جرائم شامل ہیں۔

    اسے بھی پڑھیں: سعودی عرب: دہشت گردی میں ملوث 4 افراد کے سرقلم

    برطانیہ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ برس سعودی عرب میں ان جرائم پر 153 افراد کو سر قلم کی سزا دی گئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کی اسٹیڈیم آمد

    سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کی اسٹیڈیم آمد

    ریاض : سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بارخواتین کو کھیل کے میدانوں میں میچ دیکھنے کی اجازت ملنے کے بعد خواتین کی بڑی تعداد اسٹیڈیم پہنچیں اورفٹبال میچ سے لطف اندوز ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روزسعودی عرب کے شہرجدہ میں مقامی پروفیشنل لیگ میں الاھلی کلب اور الباطن کلب کے درمیان کھیلے گئے میچ کو دیکھنے کے لیے خواتین کی بڑی تعداد اسٹیڈیم میں موجود تھی۔

    عرب میڈیا کے مطابق اسٹٰیڈیم میں خواتین کے لیے الگ جگہ مختص کی گئی تھی جہاں خواتین پر مشتمل علمے کی جانب سے وقتاََ فوقتاََ میچ دیکھنے کے لیے آنے والی خواتین کو رہنمائی فراہم کی گئی۔


    سعودی عرب میں سنیما انڈسٹری آئندہ برس بحال ہوگی


    اسٹیڈیم میں موجود خواتین کا غیرملکی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آج ہم بہت خوش ہیں، سعودی عرب میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے، اس موقع پر دیگر خواتین نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔

    خیال رہے کہ وژن 2025 کے تحت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے بڑے اقدامات کیے جارہے جس سے خواتین کو خودمختار بنانے کے ساتھ ملکی معیشت ودیگر سرگرمیوں میں آگےلایا جا رہا ہے۔


    سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت مل گئی


    یاد رہے سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبد العزیز نے گزشتہ سال 27 ستمبر کو خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کے اجازت دی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ہمیشہ خوش رہنے والی خواتین کے کچھ راز

    ہمیشہ خوش رہنے والی خواتین کے کچھ راز

    خواتین کو بہت سے مسئلے درپیش ہوتے ہیں۔ خاص طور پر اگر وہ ورکنگ وومین ہیں تو انہیں گھر اور باہر دونوں سے نمٹنا ہوگا۔

    زندگی کتنی ہی مصروف کیوں نہ ہو اپنے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ کچھ خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جو اتنی مصروف زندگی میں بھی اپنا خیال رکھتی ہیں اور خوش رہتی ہیں۔ آئیے آپ بھی ان کے کچھ راز جانیئے کہ وہ کیسے فٹ اور خوش رہتی ہیں۔


    اپنی صبحوں کو خوشگوار بنائیں

    w1

    صبح اٹھ کر ورزش کریں، مراقبہ کریں اور ایک بھرپور ناشتہ کریں۔ اگر آپ کی صبح کا آغاز اچھا ہوگا تو سارا دن اچھا گزرے گا۔


    متوازن غذا کھائیں

    w2

    جنک فوڈ آپ کو بلڈ پریشر سمیت کئی بیماریوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔ جنک فوڈ توانائی میں اضافہ نہیں کرتا بلکہ جسم کو سست کردیتا ہے۔ ایک بھرپور دن گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پروٹین، سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل غذا اپنائیں۔


    پانی کا استعمال

    w3

    اگر آپ خود کو تھکا ہوا محسوس کر رہی ہیں تو اس کا فوری حل پانی ہے۔ دماغ کی تھکن بعض دفعہ ڈی ہائیڈریشن کا نتیجہ ہوتی ہے لہٰذا کثیر مقدار میں پانی پیئیں۔


    اپنے جسم کی سنیں

    w7

    خوش باش لوگ اپنے جسم کی سنتے ہیں۔ جب ان کا جسم کھانے سے منع کرے تو وہ مزید نہیں کھاتے۔ جب ان کے جسم کو ریلیکس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ یوگا کلاس لیتے ہیں۔

    اگر آپ اپنے جسم کی سنیں تو وہ بہت کچھ کہتا ہے جسے سننے کی ضرورت ہے۔


    فٹنس اور صحت پر توجہ دیں

    فیشن اور شاپنگ پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی صحت اور فٹنس پر خرچ کریں۔ یہ آپ کو آخر عمر تک فائدہ دے گی۔


    شکر گزار بنیں

    w6

    زندگی میں موجود نعمتوں کو گنیں اور شکر گزار بنیں۔ اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھیں اور سوچیں کہ ان کے پاس وہ کچھ نہیں جو آپ کے پاس ہے۔ یہ آپ کے اندر شکر گزاری پیدا کرے گی۔


    مسکرائیں


    مسئلے مسائل زندگی کا حصہ ہیں۔ ان کی وجہ سے مسکرانا مت چھوڑیں۔ ہنسنا مسکرانا دماغ کو سکون پہنچاتا اور زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کی قوت پیدا کرتا ہے۔

    اسے پڑھنے کے بعد کیا آپ کا شمار بھی ایسی ہی خواتین میں ہوگا جو ہمیشہ خوش رہتی ہیں؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2017: خواتین کے لیے تبدیلی کا سال

    سنہ 2017: خواتین کے لیے تبدیلی کا سال

    سال 2017 میں یوں تو ہر سال کی طرح بے شمار خواتین نے قابل فخر کارنامے انجام دے کر دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا، تاہم اس سال کو خواتین کے لیے تبدیلی کا سال اس لیے بھی کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار پوری دنیا کی خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسمنٹ کے خلاف متحد ہو کر آواز اٹھائی اور پوری دنیا کو اس مسئلے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے پر مجبور کیا۔

    اس سے قبل یہ موضوع ممنوع سمجھا جاتا تھا جس پر بات نہیں کی جاسکتی تھی تاہم جب ہالی ووڈ کی معروف اداکاراؤں نے ہدایتکار ہاروی وائنسٹن پر جنسی ہراسمنٹ کا الزام عائد کیا، اور ان کے ساتھ بے شمار دیگر اداکارؤں نے بھی اپنی آواز بلند کی، تو دنیا بھر میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر کے ذریعے ’می ٹو‘ نامی مہم کا آغاز ہوگیا جس کے تحت خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسمنٹ کے تجربات بیان کیے اور ان کے خلاف آواز اٹھائی۔

    دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے والی خواتین

    ہر سال کی طرح اس سال بھی بے شمار پاکستانی خواتین نے مختلف شعبہ جات میں اپنی بہترین قابلیت اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا لوہا منوایا اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام سربلند کیا۔

    آئیے ان خواتین کے بارے میں مختصراً جانتے ہیں۔

    جنوری کی ایک صبح دنیا کی 7 بلند ترین پہاڑی چوٹیاں سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ثمینہ خیال بیگ کی سربراہی میں 8 حوصلہ مند خواتین نے اب تک سر نہ ہونے والی چوٹی بوئیزم کو سر کیا۔

    شمشال کی در بیگ، فرزانہ فیصل، تخت بی بی، شکیلہ، میرا جبیں، گوہر نگار، حفیظہ بانو اور حمیدہ بی بی نے 17 سو 50 میٹر بلند بوئیزم چوٹی سر کرکے ایک ریکارڈ قائم کردیا۔

    فروری کے ایک روشن دن 16 سالہ انشا افسر دنیا بھر کی نظروں کا مرکز بن گئی جب اس نے ایک ٹانگ پر برفانی پہاڑوں پر اسکینگ کر کے دنیا کو انگشت بدانداں کردیا۔ انشا سنہ 2005 کے ہولناک زلزلے میں اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھی تھی۔

    پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی کپتان ثنا میر ایک روزہ میچز میں 100 وکٹیں حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کرکٹر بن گئیں۔

    اسی ماہ پاکستانی نژاد حبہ رحمانی نے ناسا میں راکٹ انجینئر کے فرائض انجام دے کر پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔

    خواتین کے عالمی دن کے موقع پر شہر قائد میں خواتین کے لیے پہلی بار پیکسی ٹیکسی سروس متعارف کروائی گئی جس میں خاتون ڈرائیورز تھیں اور یہ صرف خواتین مسافروں کے لیے مختص کی گئیں۔

    وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والی آمنہ ضمیر گلگت بلتستان کی پہلی خاتون سول جج بن گئیں۔

    گوگل کے اشتراک سے شروع ہونے والے بلیک باکس انٹر پرینیور شپ پروگرام کے لیے پاکستانی نژاد برطانوی خاتون ثنا فاروق کو منتخب کرلیا گیا۔

    پاکستانی نژاد کینیڈین خاتون سبرینہ رحمٰن کو کینیڈا کے بہترین ماہر تعلیم کے اعزاز سے نوازا گیا۔

    صوبہ خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون سب انسپکٹر رضوانہ حمید کو پشاور سرکل میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) تعینات کر دیا گیا۔

    خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی عظمیٰ یوسف 7 ہزار 27 میٹر بلند اسپانٹک چوٹی سر کرنے والی پہلی خاتون کوہ پیما بن گئیں۔

    صحرائے تھر میں جاری کول پاور پلانٹ کے تعمیراتی کام کے لیے تھر کی خواتین کو ہیوی ڈمپرز چلانے کی تربیت دی گئی۔ 2 ماہ کی تربیت کے بعد یہ خواتین میدان عمل میں آئیں اور انہوں نے پہلی بار ہیوی ڈمپرز چلا کر تاریخ قائم کردی۔

    صوبہ خیبر پختونخواہ کی سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے ایک اور بین الاقوامی اعزاز آنا پولیتکو فسکایا ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔

    پہلی بار پاکستانی نژاد خاتون شبنم چوہدری کو برطانیہ کی اسکاٹ لینڈ یارڈ میں تفتیشی سپریٹنڈنٹ مقرر کردیا گیا۔

    دنیا بھر کی خواتین بھی پیچھے نہ رہیں

    پاکستان کے علاوہ بھی دنیا کے تمام خطوں میں بلند حوصلہ خواتین نے اپنی ہمت اور جدوجہد سے کوئی نہ کوئی کارنامہ سرانجام دے کر اپنی اہمیت منوائی۔

    رواں برس عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں پہلی بار افغانستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کے آرکسٹرا زہرا نے اپنے فن کا مظاہرہ کر کے تمام حاضرین کو مبہوت کردیا۔

    دبئی کی شہزادی موزہ المکتوم شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون پائلٹ بن گئیں۔

    برطانیہ کی میٹرو پولیٹن پولیس میں 188 سال بعد پہلی بار خاتون چیف پولیس کمشنر کو تعینات کردیا گیا۔

    یوکرین سے تعلق رکھنے والی الیگزینڈرا کیوٹس نامی ایک معذور ماڈل نے پہلی بار ریمپ پر وہیل چیئر کے ساتھ کیٹ واک کر کے ماڈلنگ کے لیے قائم آئیڈیل ماڈل کا تصور اپنی وہیل چیئر کے پہیوں تلے کچل ڈالا۔

    امریکا کی نوعمر مسلمان باکسر عمایہ ظفر کی طویل جدوجہد کے بعد بالآخر اسے امریکی باکسنگ ایسوسی ایشن نے باحجاب ہو کر کھیل میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔

    شام سے ہجرت کے دوران اپنی جان جوکھم میں ڈال کر دیگر افراد کی جان بچانے والی 19 سالہ یسریٰ ماردینی کو اقوام متحدہ کا خیر سگالی سفیر مقرر کردیا گیا۔

    افغانستان میں پہلی بار ایک نئے ٹی وی چینل پر کام شروع کیا گیا جس کا زیادہ تر عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔ زن (خواتین) ٹی وی افغان معاشرے کی روایتی سوچ کے برعکس صرف خواتین کے لیے قائم کیا جارہا ہے۔

    شامی فوج میں پہلی بار بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ایک خاتون کو تعینات کردیا گیا۔ وہ پہلی خاتون ہیں جو فوج کے اس اعلیٰ عہدے تک پہنچی ہیں۔

    مصر کے النور والعمل (روشنی اور امید) نامی 44 نابینا خواتین پر مشتمل آرکسٹرا نے اپنی معذوری کو پچھاڑ کر جدوجہد کی نئی مثال قائم کی۔

    اینی دیویا نامی بھارتی خاتون صرف 30 سال کی عمر میں بوئنگ 777 طیارہ اڑانے والی دنیا کی کم عمر ترین پائلٹ بن گئیں۔

    شمالی افریقی ملک تیونس میں خواتین پر تشدد کے خلاف تاریخی قانون منظور کرلیا گیا۔ مذکورہ قانون میں خواتین پر تشدد کی جدید اور وسیع تر تعریف کو استعمال کیا گیا جس کے تحت خواتین کے خلاف معاشی، جنسی، سیاسی اور نفسیاتی تشدد کو بھی صنفی تشدد کی قسم قرار دے کر قابل گرفت عمل قرار دیا گیا۔

    تیونس میں اس نئے قانون کی منظوری کے بعد اس سے قبل رائج کثرت ازدواج کا قانون بھی کالعدم ہوگیا جس کی وجہ سے ملک میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کا رجحان فروغ پارہا تھا۔

    امریکی خلاباز پیگی وٹسن نے دنیا کی معمر ترین خاتون خلا باز ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ یہی نہیں وہ خلا میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والی پہلی خاتون خلا باز بھی بن گئیں۔

    سنگاپور کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون حلیمہ یعقوب کو صدر منتخب کرلیا گیا۔ حلیمہ اس سے قبل پارلیمنٹ کی اسپیکر بھی رہ چکی ہیں۔

    پولینڈ میں پہلی بار دنیا بھر کی معذور حسیناؤں کا مقابلہ حسن منعقد ہوا جس میں روسی دوشیزہ الیگزینڈرا پہلی مس وہیل چیئر ورلڈ بن گئیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ای کی جانب سے پہلی بارعرب خاتون ریسلر شاہدہ بسیسو کے ساتھ معاہدہ کرلیا گیا۔

    سعودی عرب کے لیے بھی تبدیلی کا سال

    سال 2017 سعودی عرب کے لیے بھی تبدیلی کا سال رہا۔ یہ تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب سعودی شاہی خاندان کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اعلان کیا کہ سعودی عرب کی کمزور ہوتی معیشت کو بچانے کے لیے ہمیں خواتین کو معاشی عمل کا حصہ بنانا ہوگا اور ملک کو جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا۔

    اس تبدیلی کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہوا جب جنوری میں سعودی خواتین گلوکاروں کے ایک گروپ کی میوزک ویڈیو سامنے آئی جس میں انہوں نے ملک میں رائج ’سرپرستی نظام‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

    فروری میں سعودی عرب کے 2 اہم کاروباری اداروں کے سربراہان کے عہدے پر خواتین کو فائز کیا گیا۔

    ستمبر میں سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبد العزیز نے بالآخر خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی۔

    مدینہ منورہ کی بلدیاتی حکومت نے خواتین کی خود مختار شہری کونسل کے قیام کا اعلان کردیا۔

    دسمبر میں سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی کے بعد ٹرک اور موٹرسائیکل چلانے کی اجازت دینے کا بھی اعلان کردیا گیا۔

    اسی روز پیٹرولنگ اور چیکنگ کے لیے خواتین پولیس اہلکار بھرتی کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

    چند روز قبل سعودی عرب میں پہلی بار خاتون سفیر کی تعیناتی کی گئی جنہیں بیلجیئم حکومت کی جانب سے منتخب کیا گیا۔

    دنیا کو ہلا دینے والا جنسی اسکینڈل

    رواں سال اکتوبر میں ہالی ووڈ کے معروف ہدایتکار ہاروی وائنسٹن پر 22 معروف اداکاراؤں بشمول انجلینا جولی نے جنسی ہراسمنٹ کا الزام عائد کیا۔ یہ ایسا الزام تھا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور ہالی ووڈ میں بھی ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔

    ہالی ووڈ اداکاراؤں کے اس الزام کے بعد ہاروی وائنسٹن کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔

    ہاروی سے منسلک کئی کمپنیوں نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیا جبکہ اسے آسکر اور بافٹا ایوارڈز کی جیوری کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔

    لیکن یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ ہاروی وائنسٹن کے بعد یکے بعد دیگرے کئی افراد بھی اسی الزام کی زد میں آئے اور اداکاراؤں اور عام خواتین نے کئی معروف ناموں پر اپنے ساتھ جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا۔

    اس ضمن میں ہالی ووڈ ریمبو سلویسٹر اسٹالون کا نام بھی سامنے آیا جن پر ایک مداح نے الزام عائد کیا کہ انہوں نے اپنے کیرئیر کے عروج میں اپنے گارڈ کے ساتھ مل کر انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    ان تمام افراد کے خلاف تحقیقات اور ان کے نتائج سامنے آنے ابھی باقی ہیں، تاہم اس دوران جنسی ہراسمنٹ کے خلاف مزاحمت کا ایک طوفان پوری دنیا میں کھڑا ہوچکا تھا جس کا آغاز ٹوئٹر پر ’می ٹو‘ نامی ہیش ٹیگ مہم سے شروع ہوا۔

    اس ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان سمیت دنیا بھر کی خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ کے تلخ تجربات بیان کیے اور ان کے خلاف آواز اٹھائی۔

    مزید پڑھیں: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    مندرجہ بالا واقعات کو دیکھتے ہوئے اگر کہا جائے کہ سنہ 2017 خواتین کے لیے تبدیلیوں کا سال ثابت ہوا تو غلط نہ ہوگا۔ یہ کہنا ناممکن ہے کہ آئندہ آنے والے سالوں میں خواتین کے لیے مزید آسانیاں اور سازگار حالات پیدا ہوسکیں گے جس کے بعد وہ بھرپور طور پر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرسکیں گی۔

  • سعودی خواتین کو ٹرک اورموٹرسائیکل چلانے کی اجازت

    سعودی خواتین کو ٹرک اورموٹرسائیکل چلانے کی اجازت

    ریاض :سعودی عرب نے کار کے بعدخواتین کوٹرک اورموٹرسائیکل چلانے کی اجازت دینے کااعلان کردیا جبکہ پٹرولنگ اور چیکنگ کیلئے خواتین اہلکار بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی حکومت کی جانب سے خواتین کے لئے ایک اور بڑا اعلان کردیا گیا ، کار کے بعد خواتین کو ٹرک اور موٹرسائیکل چلانے کی اجازت دیدی گئی۔

    سعودی روڈ سیفٹی مینجمنٹ کے مطابق خواتین قواعد اورضوابط کوپورا کرکے ٹرک اورموٹرسائیکل چلاسکیں گی جبکہ خواتین ڈرائیوزکی چیکنگ اورپیڑولنگ کے لئے لیڈزپولیس اہلکار بھی بھرتی کی جائیں گی۔


    سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت مل گئی


    واضح  رہے کہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے 26 ستمبر 2017 کوشاہی فرمان میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا حکم دیا تھا اور سعودی حکومت کی جانب سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت کے فیصلے کو بہت سراہا گیا تھا۔،

    جس کے بعد سعودی عرب میں خواتین اگلے سال جون سے ڈرائیونگ کرسکیں گی۔

    یاد رہے دو ماہ قبل سعودی عرب نے پہلی بار خواتین کو اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔

    بعد ازاں سعودی حکومت نے روشن خیالی کی سمت ایک اور قدم آگے بڑھاتے ہوئے سرکاری چینل پر عرب لیجنڈ گلوکارہ ام کلثوم کا میوزک کنسرٹ نشر کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ماہرہ خان اور مومنہ ایشیائی پرکشش خواتین کی فہرست میں شامل

    ماہرہ خان اور مومنہ ایشیائی پرکشش خواتین کی فہرست میں شامل

    لندن: پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان ایک بار پھر ایشیاء کی پرکشش خاتون کی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئیں جبکہ فہرست میں گلوکارہ مومنہ مستحسن کا نام بھی شامل ہے۔

    برطانوی جریدے ایسٹرن آئی کی جانب سے  سال 2017 کی خوبصورت خواتین کی فہرست جاری کی گئی جس کے مطابق بالی ووڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا ایشیاء کی پرکشش خواتین کی فہرست میں اول نمبر پر رہیں جبکہ ماہرہ خان پاکستان کی پہلی اور ایشیاء کی پانچویں پرکشش خاتون قرار پائیں۔

    فہرست کے مطابق بھارتی اداکارہ نہیا شرما دوسرے جبکہ دپیکا پڈوکون تیسرے اور چوتھے نمبر پر عالیہ بھٹ جگہ بنانے میں کامیاب رہیں۔

    ایسٹر ن آئی کے مطابق گزشتہ برس پرکشش خواتین کی فہرست میں اول آنے والی اداکارہ دپیکا پڈوکون کی درجہ بندی میں تنزلی ہوئی جس کے بعد وہ تیسرے نمبر پر آگئیں۔

    علاوہ ازیں پاکستانی گلوکارہ مومنہ مستحسن بھی پرکشش خواتین کی فہرست میں 37 ویں نمبر پر رہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق لندن کے جریدے نے 2017 میں پرکشش نظر آنے والی ایشیائی خواتین کے حوالے سے سروے کروایا جس میں سب سے زیادہ ووٹ پریانکا چوپڑا نے حاصل کیے۔

    اس موقع پر بالی ووڈ اداکارہ نے اعزاز ملنے پر اپنے والدین اور مداحوں کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ پانچویں بار یہ اعزاز ملنے کا سہارا ان ہی لوگوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ برس برطانوی جریدے کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں ماہرہ خان 9 ویں نمبر پر آئیں تھیں تاہم اس بار انہوں نے 4 درجے ترقی کی اور بالی ووڈ اداکارؤں کو پیچھے چھوڑ دیا جبکہ دو سال قبل جاری ہونے والی فہرست میں پاکستانی اداکارہ کا 10 واں نمبر تھا۔

    خیال رہے پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان نے مختلف پاکستانی ڈراموں میں شاندار کارکردگی حاصل کر کے خوب داد وصول کی جس کے بعد بالی ووڈ فلم کے ہدایت کاروں نے ان سے رابطہ کر کے فلم میں کام کرنے کی  پیش کش کی۔

    ماہرہ خان نے بھارتی فلموں میں کام کرنے کی حامی بھری تو قسمت اُن پر مہربان ہوئی جس کے بعد وہ کنگ خان کے ساتھ فلم ’’رئیس‘‘ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • خواتین پر تشدد معمول کی بات، مگر کیا کبھی متاثرہ خواتین کے بارے میں سوچا گیا؟

    خواتین پر تشدد معمول کی بات، مگر کیا کبھی متاثرہ خواتین کے بارے میں سوچا گیا؟

    دنیا بھر میں آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد خواتین اور دنیا بھر میں ہر 3 میں سے 1 خاتون زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں تشدد کا نشانہ بننے والی ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا، جنسی طور پر ہراساں کرنا، بدکلامی کرنا، اور ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے تشدد کی اقسام ہیں اور یہ نہ صرف خواتین بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہیں۔

    اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اس میں چند مزید اقسام، جیسے غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، (جس کے واقعات ملک بھر میں عام ہیں) اور خواتین کو تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سالانہ سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم منظر عام پر آ پاتے ہیں۔

    خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاونڈیشن کے مطابق سنہ 2013 میں ملک بھر سے خواتین کے خلاف تشدد کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 7 ہزار 8 سو 52 ہے۔

    پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سنہ 2014 میں 39 فیصد شادی شدہ خواتین جن کی عمریں 15 سے 39 برس کے درمیان تھی، گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔

    کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں 1 ہزار سے زائد خواتین قتل ریکارڈ پر آئے جو غیرت کے نام پر کیے گئے۔

    دوسری جانب ایدھی سینٹر کے ترجمان کے مطابق صرف سنہ 2015 میں گزشتہ 5 برسوں کے مقابلے میں تشدد کا شکار ہوکر یا اس سے بچ کر پناہ لینے کے لیے آنے والی خواتین میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔

    تشدد کا شکار خواتین کی حالت زار

    ہر سال کی طرح اس سال بھی اقوام متحدہ کے تحت آج کے روز سے 16 روزہ مہم کا آغاز کردیا گیا ہے جس کے دوران خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی طور پر آگاہی و شعور اجاگر کیا جائے گا۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ مستقل تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کئی نفسیاتی عارضوں و پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    تشدد ان کی جسمانی صحت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور وہ بلڈ پریشر اور امراض قلب سے لے کر ایڈز جیسے جان لیوا امراض تک کا آسان ہدف بن جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے بنگلہ دیشی اشتہار

    دوسری جانب ذہنی و جسمانی تشدد خواتین کی شخصیت اور صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور انہیں ہمہ وقت خوف، احساس کمتری اور کم اعتمادی کا شکار بنا دیتا ہے جبکہ ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بھی ختم کردیتا ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

    تشدد واقعی ایک معمولی مسئلہ؟

    تشدد کا شکار ہونے والی خواتین پر ہونے والے مندرجہ بالا ہولناک اثرات دیکھتے ہوئے یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ایک معمولی یا عام مسئلہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے نصف سے زائد دنیا میں اسے واقعی عام مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ سوچ تشدد سے زیادہ خطرناک ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک نہایت عام بات اور ہر دوسرے گھر کا مسئلہ سمجھی جاتی ہے جسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    مزید یہ کہ انہیں یہ احساس بھی نہیں ہو پاتا کہ انہیں لاحق کئی بیماریوں، نفسیاتی پیچیدگیوں اور شخصیت میں موجود خامیوں کا ذمہ دار یہی تشدد ہے جو عموماً ان کے شوہر، باپ یا بھائی کی جانب سے ان پر کیا جاتا ہے۔

    تشدد سے کیسے بچا جائے؟

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔

    تشدد ہونے سے پہلے اسے روکا جائے۔

    ایک بار تشدد ہونے کے بعد اسے دوبارہ ہونے سے روکا جائے۔

    قوانین، پالیسیوں، دیکھ بھال اور مدد کے ذریعے خواتین کو اس مسئلے سے تحفظ دلایا جائے۔

  • صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    بارش، ساون، برکھا رت، برسات، آنسو، اردو ادب کا جزو لازم ہیں، لیکن یہ آب یعنی پانی صرف اردو ادب کا ہی نہیں بلکہ زندگی کا بھی جزو لازم ہے کہ جہاں پانی ہے وہاں حیات ہے۔

    خدا کی اس وسیع و عریض کائنات میں زمین اب تک کا وہ واحد معلوم سیارہ ہے جہاں پانی موجود ہے، اور پانی ہی کی وجہ سے حیات بھی موجود ہے۔ اب تک سائنس دانوں نے جتنے بھی سیارے دریافت کیے ان میں اب تک حیات نہ دیکھی جاسکی، ہاں البتہ جہاں پانی کے آثار ملے وہاں صرف ایک امکان ظاہر کیا گیا کہ یہاں حیات موجود ہوسکتی ہے۔

    گویا ہماری زندگی دولت، شہرت، ملازمت اور کامیابی سے بھی زیادہ پانی کی مرہون منت ہے اور حضرت انسان کی عقل دیکھیں کہ پانی کو اس قدر بے دردی سے لٹا رہا ہے کہ دنیا بھر میں موجود پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، گویا انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی موت بلا رہا ہے۔

    روز بروز نئی نئی سامنے آتی تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان جو سنہ 1990 کے بعد سے آبی قلت کا شکار ہونا شروع ہوا ہے تو بہت جلد وہ وقت بھی آنے والا ہے جب پاکستان خشک سالی کا شکار ہوجائے گا، اور یہ وقت زیادہ دور بھی نہیں، صرف 8 برس بعد یعنی سنہ 2025 میں۔

    گویا اب ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال ہے کہ پانی کا مستقبل کیا ہے؟ اور چونکہ ہماری زندگی پانی کے بغیر ممکن نہیں تو ہمارا اور ہماری زندگیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟؟

    یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ پاکستان کو اس مقام پر لانے کی وجہ عرصہ دراز سے حکومتی غفلت ہے جو اگر چاہتیں تو ابتدا سے ہی ڈیمز یا دیگر ذخائر کی صورت میں پانی کو ذخیرہ کر کے رکھ سکتی تھیں۔ پاکستان کوئی بارش یا مون سون کی کمی کا شکار ملک نہیں۔ یہاں بے شمار آبی ذخائر بھی موجود ہیں (جو بدقسمتی سے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں) جبکہ ہر سال ہونے والی بارشیں سیلاب بن کر ہمارے نصف انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرجاتی ہیں۔

    لہٰذا آج ہم آپ کو ایک ایسے مقام پر لیے جارہے ہیں جہاں بظاہر حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی، اور جب وہاں حکومت نہیں تو حکومتی غفلت بھی نہیں۔ چنانچہ چند مخیر حضرات اور سماجی اداروں کی بدولت اس مقام پر قلت آب کا مسئلہ خاصی حد تک نہ صرف حل ہوچکا ہے، بلکہ ترقی یافتہ شہروں کے لیے بھی ایک مثال ہے کہ جب دلوں میں احساس اور انسانیت سے محبت زندہ ہو تو کس طرح آنے والے کل کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

    سندھ کا پیاسا کوہستان

    کوہستان کا نام سنتے ہی ذہن میں صوبہ خیبر پختونخواہ کا ضلع کوہستان در آتا ہے جو آبی ذخائر، قدرتی وسائل، اور خوبصورت فطری نظاروں سے بھرپور ایک حسین مقام ہے۔ جہاں جانے کے بعد خیال آتا ہے، ’گر فردوس بریں بہ روئے زمیں است، ہمیں است ہمیں و ہمیں است‘۔

    لیکن جس کوہستان کی ہم بات کر رہے ہیں وہ صوبہ سندھ کا ایک پیاسا اور بنیادی ضروریات سے محروم گاؤں ہے جہاں وقت ابھی بھی 19 ویں صدی میں ٹہرا ہوا ہے۔

    صوبائی حلقہ بندی میں پی ایس 85 ٹھٹہ 2 کے درمیان کہیں موجود یہ گاؤں پیپلز پارٹی کی رہنما سسی پلیجو کے حلقہ انتخاب میں آتا ہے مگر گمان یہی ہے کہ سندھ سے پہلی بار انتخابات سے براہ راست فاتح بن کر اسمبلی پہنچنے والی پہلی خاتون سسی پلیجو نے شاید اس گاؤں میں قدم بھی نہ رکھا ہو۔

    ٹھٹہ کی طرف جاتے ہوئے ایک کچا راستہ آپ کو اس صحرا نما گاؤں کی طرف لے جاتا ہے جس کا نام کوہستان ہے۔ جابجا اڑتی خاک سے اٹا ہوا یہ کوہستان اس کوہستان سے بالکل مختلف ہے جہاں کوہ (پہاڑ) ہیں، پانی ہے، ہریالی ہے اور خوشی ہے۔ اس کوہستان میں چہار سو ریت ہے، ویرانی ہے، غربت ہے اور شاید ناامیدی بھی۔

    گو کہ اب یہاں حالات پہلے سے نسبتاً بہتر ہیں، لیکن ہم آپ کو اس زندگی کی ایک جھلک ضرور دکھائیں گے جو یہاں پانی کی ’آمد‘ سے پہلے تھی۔

    صنف نازک کے نازک کاندھوں پر بھاری بوجھ

    جس طرح خالق کائنات نے زندگی کو جنم دینے کی ذمہ داری ہر صورت عورت کو دے رکھی ہے اور چاہے کچھ بھی ہوجائے مرد اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا تو دور اس کا حصہ بھی نہیں بن سکتا، اسی طرح خواتین پر ایک اور خود ساختہ ذمہ داری عائد ہے جو زمین کے خداؤں نے اس پر لازمی قرار دے رکھی ہے۔ اور وہ ذمہ داری ہے پانی بھر کر لانا، چاہے اس کے لیے کتنا ہی طویل سفر کیوں نہ کرنا پڑے۔

    اندرون سندھ میں رہنے اور وہاں کے حالات سے واقفیت رکھنے والوں کو یقیناً علم ہوگا کہ سندھ کے گاؤں دیہات میں پانی بھر کر لانا عورتوں کی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری ایسی ہے جس سے فرار کسی صورت ممکن نہیں۔ چاہے کوئی بیمار ہو، کمزور ہو یا حاملہ ہو، اسے ہر صورت پانی بھرنے جانا ہے۔

    حتیٰ کہ بعض حاملہ عورتیں پانی بھرنے کے اس سفر کے دوران بچوں کو جنم دیتی ہیں اور تھوڑی دیر کے وقفے کے بعد پھر سے ہمت باندھ کر اپنا سفر شروع کرتی ہیں اور اب جب وہ پانی کے مٹکے لے کر گھر پہنچتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں ایک نومولود بچہ بھی ہوتا ہے۔ آخر کو دونوں ’ذمہ داریاں‘ عورت کی ہی ہیں اور ہر صورت اسی کو نبھانی ہیں۔

    مرد اس ذمہ داری سے تو آزاد ہیں ہی، ساتھ ہی خواتین کو یہ خیال چھو کر بھی نہیں گزرتا کہ مرد بھی کبھی اس مشقت میں ان کا ہاتھ بٹا لیا کریں۔ یعنی وہی بات کہ جب ازل سے لکھا گیا کہ بچہ پیدا کرنا عورت کا کام ہے تو یہ کام کسی مرد سے کیسے کہا جاسکتا ہے، تو یہ ذمہ داری بھی ازل سے عورت پر عائد ہے کہ پانی بھر کر لانا ہے تو اسی نے لانا ہے، ورنہ مرد گھر میں فارغ بھی ہوں گے تو بھی اس کام کے لیے نہیں جائیں گے۔

    یہ سفر دن میں ایک بار نہیں ہوتا۔ اسے کم از کم دن میں 3 بار انجام دینا پڑتا ہے تاکہ اہل خانہ کی پانی کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ جب چھوٹی بچیاں کچھ وزن اٹھانے کے قابل ہوجاتی ہیں تو انہیں بھی ایک چھوٹا سا برتن پکڑا کر ہم سفر بنا لیا جاتا ہے کہ چلو کم از کم اپنے حصے کا پانی ہی بھر کر لے آئیں گی۔

    سروں پر پانی کے وزنی مٹکے اور ڈرم بھر کر لانے سے خواتین کی جو حالت ہے وہ تو جسمانی ساخت سے عیاں ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی انہیں کئی سنگین طبی مسائل لاحق ہوجاتے ہیں جیسے ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا اپنی جگہ سے کھسک جانا، ہڈیوں جوڑوں اور پٹھوں کا درد، وزن میں کمی، قوت مدافعت میں کمی۔

    ایسے گاؤں دیہاتوں میں خال ہی کوئی عورت خوبصورت بالوں کی مالکہ نظر آئے گی کیونکہ روز اول سے لکھی اس مشقت نے ان کے بالوں کی قربانی لے لی ہے اور بہت کم عمری میں ان کے بال جھڑنا شروع جاتے ہیں۔

    یہ صورتحال کم و بیش سندھ کے ہر اس گاؤں میں نظر آئے گی جہاں آبی ذخائر کی کمی ہے۔

    ضلع ٹھٹھہ کا علاقہ کوہستان بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہاں بھی عورتوں کو چند مٹکے پانی بھرنے کے لیے 3 سے 5 کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے اور دور دور واقع عارضی ندی نالوں سے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔ یہ کام دن میں کم از کم 3 بار انجام دیا جاتا ہے۔

    جب وہاں موجود بچیوں کی ڈھیر ساری تعداد کو دیکھ کر سوال کیا گیا کہ کیا یہ بچیاں اسکول نہیں پڑھنے جاتیں؟ تو ان کے والدین کا جواب تھا، ’وقت نہیں ہے جی۔ پڑھنے جائیں گی تو پانی کون بھر کر لائے گا‘۔

    والدین خاص طور پر مردوں کی اکثریت اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتی ہے لیکن وہ ایک سماجی ذمہ داری جو ان کی لڑکیوں اور عورتوں پر عائد کردی گئی ہے وہ خود بھی اس کے آگے مجبور ہیں۔ انہوں نے اپنے نانا، دادا کے خاندان میں کسی مرد کو اپنی عورت کے ساتھ جا کر پانی بھرتے نہیں دیکھا، چنانچہ وہ اس خیال کو بھی معیوب سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ جا کر پانی بھریں۔

    اپنی خاندانی روایت کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے اپنی نئی نسل کو بھی یہ نہیں سکھایا کہ وہ اپنی ماؤں بہنوں اور بیویوں کے ساتھ جا کر پانی بھریں، البتہ ان کے خیالات میں اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے، ’وقت بدل رہا ہے، ہمارے لڑکوں کو اگر خود ہی احساس ہوجائے اور وہ اس مشقت میں اپنی ماں بہنوں کا ہاتھ بٹانے لگیں تو ہم بھلا کیوں روکیں گے‘۔

    اپنے نہ جانے کی وہ ایک تاویل یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر ہم پانی بھرنے جائیں تو کام دھندے پر کون جائے گا۔ تاہم ان کی یہ تاویل قابل قبول نہیں تھی کیونکہ اکثر گھروں میں مرد بے روزگار فراغت سے بیٹھے ہوئے تھے یا جابجا سجی ہوئی مردوں کی محفلیں بتارہی تھیں کہ انہیں غم روزگار سے کوئی واسطہ نہیں۔

    تبدیلی کیسے آئی؟

    کہتے ہیں جس کا زمین پر کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا ہوتا ہے۔ یہاں حکومتی غفلت بھی ان لوگوں کے لیے ایک رحمت ثابت ہوئی کہ اگر یہاں حکومتی افراد آ بھی جاتے تو بھی وعدے اور تسلیاں دلاسے دے کر چلے جاتے، کام کبھی نہیں ہونا تھا۔ اس کی مثال گاؤں میں 8 برس قبل لگایا گیا وہ آر او پلانٹ ہے جو تاحال فعال نہ ہوسکا۔

    خیر خدا نے ان پیاسوں پر نظر کرم کی اور ایک سماجی تنظیم کو ان کی مدد کا وسیلہ بنایا جو کسی طرح یہاں آ پہنچی۔

    انڈس ارتھ ٹرسٹ نامی اس تنظیم نے بین الاقوامی مشروب ساز کمپنی کے تعاون سے ’واٹر فار وومین‘ یعنی ’پانی ۔ خواتین کے لیے‘ کے نام سے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا۔

    جب انہوں نے اس کام کا آغاز کیا تو خود وہاں کے لوگوں اور سوشل میڈیا پر بھی ان سے سوال کیا گیا کہ صرف خواتین کے لیے ہی پانی کیوں؟ کیا مردوں کو پانی کی ضرورت نہیں؟ اور ادارے کا جواب تھا، کہ جب پانی بھر کر لانا صرف خواتین ہی کی ذمہ داری ہے تو پھر پانی تک رسائی کے لیے کیا جانے والا کام بھی خواتین ہی کے لیے ہوگا۔

    کوہستان میں پانی کا ذریعہ وہ دور دراز واقع تالاب تھے جو بارشوں کے موقع پر بھر جاتے۔ تاہم گرمیوں کی تیز چلچلاتی دھوپ ان تالابوں کو بہت جلد خشک کردیتی۔

    مذکورہ تنظیم نے کوہستان کے 34 گاؤں میں پانی کی فراہمی کا کام کرنے کی ٹھانی۔

    منصوبے کے تحت سب سے پہلے بارش کے پانی کو طویل المدتی بنیادوں پر ذخیرہ کرنے پر کام شروع کیا گیا۔ اس کے لیے کوہستان میں موجود 18 بڑے تالابوں کو گہرا کیا گیا تاکہ ان میں زیادہ سے زیادہ بارش کا پانی محفوظ ہوسکے۔

    بعد ازاں پانی جمع ہوجانے والے راستوں پر مزید 10 ریزروائرز یا ذخیرہ گاہ بنائے گئے۔ ان ذخیرہ گاہوں کو 30 فٹ تک گہرا کیا گیا ہے۔

    اس کے بعد جب مون سون کا موسم آیا اور بارشیں شروع ہوئیں تو کوہستان کی سرحد پر واقع کیرتھر کی پہاڑیوں سے پانی بہہ کر ان ذخیرہ گاہوں میں جمع ہونے لگا اور ایک وقت آیا کہ تمام ذخائر پانی سے لبا لب بھر گئے۔

    بعد ازاں ان ذخائر کے کناروں پر ہینڈ پمپس بھی لگا دیے گئے تاکہ جب پانی کی سطح نیچی ہوجائے تو خواتین کو پانی بھرنے میں مشکل کا سامنا نہ ہو۔

    انڈس ارتھ اب دیہاتوں کے قریب 20 کے قریب کنویں تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تاکہ خواتین کو پانی کے حصول کے لیے میلوں کا سفر نہ طے کرنا پڑے۔

    اس تمام عمل سے اب کوہستان پانی کے معاملے میں خود کفیل ہوگیا ہے جہاں سارا سال پانی دستیاب رہے گا۔ اس پانی سے مستفید ہونے والے 34 دیہاتوں کے 15 ہزار افراد پانی کی فراوانی سے نہایت خوش ہیں اور اب اپنے علاقے میں شجر کاری اور زراعت کا آغاز بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس صحرائی علاقے کے بنجر پن اور خشکی کو کم کیا جاسکے۔

    خواتین کے لیے ایک اور سہولت

    جب انڈس ارتھ ٹرسٹ نے یہاں کام کرنا شروع کیا تو دیگر مخیر افراد کی نظروں میں بھی یہ گاؤں بالآخر آ ہی گیا۔ ایسے ہی ایک مخیر شخص کے تعاون سے یہاں خواتین کی سہولت کے لیے ایک اور شے متعارف کروادی گئی۔

    یہ واٹر وہیلز تھے یعنی پانی کے گیلن جو باآسانی کھینچ کر لائے جاسکتے تھے۔ گاؤں والوں کو بڑی تعداد میں ان کی فراہمی کے بعد اب خواتین کا سروں پر پانی بھر کر لانے کا مسئلہ بھی خاصا حل ہوچکا ہے۔

    عام مٹکوں یا ڈرموں میں ایک سے 2 لیٹر پانی کے برعکس اس واٹر وہیل میں 40 لیٹر تک پانی بھرا جاسکتا ہے جو ایک گھر کی پورے دن کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ گویا خواتین کو دن میں کئی بار سفر کرنے کی اذیت سے بھی نجات مل گئی ہے۔


    یہ سفر جو ایک اداسی اور نا امیدی کا سفر تھا اپنے اختتام پر امید کی بھرپور روشن کرن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ گاؤں والوں کے چمکتے چہرے بتا رہے تھے کہ ان کی زندگیاں کس قدر تبدیل ہوچکی ہیں۔ اب یقیناً وہ اپنی بچیوں کو پڑھنے بھی بھیج سکتے ہیں، اور اپنا وقت بچا کر دیگر صحت مند سرگرمیوں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔

    گو کہ ان گاؤں والوں کی مدد کے لیے اللہ نے کسی اور کو سیلہ بنا کر بھیجا، لیکن ہم تمام تر وسائل کے ہوتے ہوئے اسے اپنے لیے ایک مثال بھی سمجھ سکتے ہیں جس کے بعد کوئی امکان نہیں رہے گا کہ ہماری بارشوں کا پانی سیلاب بنے، ضائع ہو، اور پھر ہم خشک سالی کا شکار ہوجائیں۔

  • خاوند کے قتل کے الزام سے اٹھارہ سال بعد خاتون بری

    خاوند کے قتل کے الزام سے اٹھارہ سال بعد خاتون بری

    لاہور: ہائی کورٹ نے خاوند کے قتل میں عمر قید کی سزا کاٹنے والی رانی بی بی کو18 سال بعد بری کر دیا‘ رانی بی بی کی والدہ کو اسی مقدمے میں سولہ سال قبل بری کردیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق حسٹس عبدالعزیز نے رانی بی بی کی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے خاوند کے قتل کے الزام میں اٹھارہ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار دینے والی رانی بی بی کو لاہورہائی کورٹ نے بری کردیا ۔

    عدالت کی جانب سے جاری کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رانی بی بی کے خلاف خاوند کے قتل کے ثبوت نہیں ملے۔ جن وجوہات پر ملزمہ کی ماں منظوراں بی بی بری ہوئی، اس پر رانی بی بی کو عمر قید کیسے ہو سکتی ہے‘ رانی بی بی کو بھی 2001 میں بری کر دینا چاہیے تھا۔

    فیصلے میں مزیدکہا گیا ہے کہ بدقسمت خاتون جیل انتظامیہ کے رویے کی وجہ سے طویل عرصہ انصاف سےمحروم رہی۔

    فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خاتون جب گرفتار ہوئی تو 24 سال کی تھی مگر اس نے اپنی زندگی کی دو دہائیاں جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں گزار دیں ‘ عدالت خاتون کے قیمتی بیس سالوں کی تلافی کرنے میں اپنے آپ کو بے بس سمجھتی ہے تاہم آئی جی جیل خانہ جات یقینی بنائیں کہ اس طرح غفلت کی وجہ سے بےگناہوں کی زندگی ضائع نہ ہوں ۔

    رانی بی بی پرسنہ 1998 میں اپنے خاوند کے قتل کا الزام مقتول اصغر کے بھائی کی جانب سے عائد کیا گیا تھا‘ مقدمے میں رانی بی بی اور دیگر 2 ملزمان کو نامزد کیا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے 2001 میں اس کی ماں ملزمہ منظوراں بی بی کو بری کر دیا جبکہ رانی بی بی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔