Tag: WOMEN

  • جہیز ایک لعنت ہے۔۔ مگر؟

    جہیز ایک لعنت ہے۔۔ مگر؟

    برصغیر پاک و ہند میں تقریباً ہر عورت نے اپنی نوجوانی میں اپنی بزرگ خواتین سے ایک جملہ ضرور سنا ہوگا، ’جو عورت سسرال میں جتنا زیادہ اور بھاری بھرکم جہیز لے کر جاتی ہے، وہ اتنی ہی زیادہ عزت سے رہتی ہے‘۔

    پرانے زمانوں کی لڑکیاں جب شادی ہو کر گئیں تو انہیں بذات خود اس بات کا تجربہ بھی ہوگیا۔ اس کے بعد اسی سوچ کو انہوں نے اپنی اگلی نسلوں میں بھی منتقل کرنا شروع کیا۔

    پھر اکیسویں صدی آئی۔ 90 کی دہائی تک پیدا ہونے والوں نے یہ جملہ اپنے بچپن میں ضرور سنا ہوگا تاہم پھر وقت بدلتا گیا، تعلیم سے واقعتاً لوگوں نے شعور بھی حاصل کرنا شروع کردیا۔

    پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم نے سنا، کہ جہیز ایک لعنت ہے اور اس سلسلے میں خاص طور پر لڑکوں اور ان کے اہل خانہ کے تصور کو بدلنے کا سلسلہ چل نکلا کہ بغیر جہیز کے بھی آپ اپنا بیٹا بیاہ سکتے ہیں، آخر اس کی شادی کر رہے ہیں، اسے بھاری بھرکم جہیز کے عوض فروخت تو نہیں کر رہے۔

    گوکہ صورتحال اب پہلی جیسی بدترین اور بدنما تو نہیں رہی، تاہم کم تعلیم یافتہ علاقوں میں آج اکیسویں صدی میں بھی یہ حال ہے کہ غریب والدین جہیز دینے کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کر پاتے۔

    تاہم چند روز قبل پیشہ ورانہ مصروفیات کے سلسلے میں ایک دورے کے دوران یہ لعنت ایک لازمی رسم کی طرح رائج دیکھنے میں آئی جس نے سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا چند ہزار روپوں کی بے جان اشیا انسانی زندگیوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے؟

    مزید پڑھیں: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر نوری آباد سے قبل واقع ایک علاقہ کوہستان، (جی ہاں ایک کوہستان سندھ میں بھی واقع ہے) دور تک پھیلے صحرا پر مشتمل ایک علاقہ ہے، جہاں سورج اپنی بھرپور تپش کے ساتھ نہایت ہی نامہرباں معلوم ہوتا ہے جب تک کہ آپ کو سر کے اوپر کوئی سایہ دار جگہ میسر نہیں آجاتی۔

    سندھ کے دیگر صحرائی علاقوں کی طرح اس صحرا میں بھی لوگ آباد ہیں۔ دور دور واقع چھوٹے چھوٹے گاؤں اور کمیونٹیز کی صورت میں، اور بنیادی سہولیات سے بالکل محروم لوگ، جن کی حالت زار دیکھ کر انسانیت پر سے بھروسہ اٹھنے لگتا ہے۔

    اس علاقے میں 34 کے قریب گاؤں آباد ہیں جن میں سے ایک گاؤں کا نام حاجی شفیع محمد ہے۔ گاؤں والوں نے مہمانوں کے لیے ایک پکا تعمیر کردہ گھر مختص کر رکھا ہے جو پورے گاؤں کا سب سے اعلیٰ تعمیر کردہ مکان تھا۔ خواتین سے بات چیت ہوئی تو وہی اذیت ناک صورتحال سامنے آئی کہ نہ پانی ہے، نہ بجلی، نہ طبی امداد دینے کے نام پر کوئی چھوٹی موٹی ڈسپنسری یا ڈاکٹر۔

    ان خواتین کی زندگیوں کا سب سے بڑا مقصد دور دراز علاقوں میں واقع پانی کے ذخیروں سے گھر کی ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا تھا۔ 3 سے 5 کلو میٹر تک جانا اور پانی کو بڑے بڑے ڈرموں یا برتنوں میں اٹھا کر پھر واپس لانا، اور یہ کام کم از کم دن میں 3 بار انجام دیا جاتا ہے تاکہ گھر والوں کی پانی کی ضروریات پوری ہوسکیں۔

    اندرون سندھ کے علاقوں کے دورے کرنے والے یا وہاں کی رواج و ثقافت کو سمجھنے والے جانتے ہوں گے کہ گھر کی ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا صرف خواتین کی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری ایسی ہی لازمی ہے جیسے بچے پیدا کرنے کا کام مرد کسی صورت نہیں کرسکتا، صرف عورت کر سکتی ہے تو پانی بھر کر لانا بھی صرف عورت کا ہی کام ہے۔

    مرد گھر میں بے کار بھی بیٹھا ہوگا تو کبھی اس طویل سفر میں عورت کی مدد نہیں کرے گا کیونکہ اسے صدیوں سے یہی بتایا گیا ہے کہ پانی بھر کر لانا صرف عورت کی ذمہ داری ہے۔

    ان علاقوں کی کئی بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں، لیکن وہ بھی اپنی ماؤں کے ساتھ پانی کے ڈول بھر بھر کر لاتی ہیں۔ خود ان کی مائیں حتیٰ کہ باپ اور بھائی بھی ان کی اس خواہش سے واقف ہیں لیکن ان کے سامنے سب سے بڑی مجبوری ہے کہ اگر بچیاں اسکول گئیں تو پانی کون بھر کر لائے گا۔ چھوٹی بچیاں ساتھ جا کر کم از کم اپنے حصے کا پانی تو بھر کر لے ہی آتی ہیں۔

    ابھی اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ نظر مکان کی دیوار سے ساتھ لگے بڑے سے ڈھیر پر جا ٹکی۔ چادر میں چھپائے گئے اس ڈھیر سے کچھ چمکتی ہوئی اشیا باہر جھانکتی دکھائی رہی تھیں۔

    دریافت کرنے پر خواتین نے اس ڈھیر پر سے چادر ہٹا دی۔ یہ ڈھیر سینکڑوں کی تعداد میں خوبصورت کڑھے ہوئے تکیوں، رلیوں (سندھ کی روایتی اوڑھنے والی چیز)، بالوں کی آرائشی اشیا، دیدہ زیب کشیدہ کاری سے مزین شیشوں اور دیواروں پر آویزاں کرنے کے لیے خوش رنگ روایتی کڑھائی سے تیار کی گئی اشیا پر مشتمل تھا۔

    ان عورتوں کے پاس ایسا شاندار ہنر موجود ہے، اگر انہیں شہر تک رسائی دی جائے تو ان کی بنائی یہ اشیا ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوسکتی ہیں تاہم جب اس بارے میں ان سے دریافت کیا گیا تو تمام خواتین نے ٹکا سا جواب دے دیا، ’نہیں یہ بیچنے کے لیے نہیں بنائیں‘۔

    تو پھر اس چمکتے ڈھیر کو بنانے اور جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ بظاہر کوئی گھر ایسا نظر نہیں آرہا تھا جہاں اس قسم کی دیدہ زیب اشیا عام استعمال ہوتی دکھائی دے رہی ہوں۔

    دریافت کرنے پر علم ہوا کہ یہ تمام سامان لڑکیوں کے جہیز کے لیے بنایا جاتا ہے۔

    شاد بی بی نامی ایک خاتون نے کچھ تکیے دکھاتے ہوئے بتایا کہ انہیں بنانے پر 5 ہزار روپے کی لاگت آئی ہے۔ ’یہ پیسہ تو ہم اس وقت سے جوڑنا شروع کردیتے ہیں کہ جب ہمارے گھر لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ ہم اسے دے ہی کیا سکتے ہیں زندگی بھر، لیکن کم از کم اس کی شادی میں یہ خوبصورت اور قیمتی سامان پر مشتمل تھوڑا بہت جہیز دینا تو ضروری ہے‘۔

    گویا ایک جھونپڑی سے دوسری جھونپڑی تک رخصت ہونے والی بیٹی اپنے جہیز میں یہ قیمتی کڑھے ہوئے تکیے اور آرائشی اشیا وغیرہ اپنے ساتھ جہیز میں لے کر آتی ہے۔ مزید کچھ دینے کی استطاعت نہ تو اس کے گھر والوں میں ہے اور نہ اس کے ہونے والے شوہر کی جھونپڑی میں اتنی جگہ کہ وہ شہری جہیز یعنی ٹی وی، فریج، اے سی وغیرہ کی ڈیمانڈ کرسکے یا انہیں رکھ سکے۔

    یہ جہیز شادی کے بعد بمشکل 1 سے 2 ہفتے تک دلہن کو خوشی فراہم کرتا ہے جب اس کی ساس تمام گاؤں والوں کو جمع کر کے انہیں دکھاتی ہے کہ ’ہماری نوہنہ (بہو) یہ جہیز لائی ہے‘۔ نفاست اور خوبصورتی سے کڑھے ان تکیوں اور رلیوں پر کبھی داد و تحسین دی جاتی ہے کبھی اس میں بھی خامیاں نکالی جاتی ہیں۔

    دو ہفتے تک دلہن کو اس کی زندگی میں نئی تبدیلی ہونے کا احساس دلاتی یہ اشیا بالآخر اس وقت اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہیں جب دلہن پہلے کی طرح اپنے سر پر بڑے بڑے برتن اٹھائے پانی بھرنے کے سفر پر نکلتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ پہلے وہ اپنی ماں بہنوں کے ساتھ جاتی تھی، اب اپنی ساس اور نندوں کے ساتھ جاتی ہے۔

    اس کی پیدائش کے وقت سے جمع کیے جانے والے پیسوں اور ان سے بنائی گئی یہ قیمتی اشیا خراب ہونے سے بچانے کے لیے انہیں جھونپڑی کے ایک کونے میں ایک ڈھیر کی صورت رکھ دیا جاتا ہے اور اسے گرد و غبار سے بچانے کے لیے اس پر چادر ڈھانپ دی جاتی ہے۔

    ہمارے شہروں میں دیا جانے والا جہیز کم از کم استعمال تو ہوتا ہے۔ یہ جہیز تو زندگی بھر یوں ہی رکھا رہتا ہے کیونکہ بدنصیب عورتوں کو اتنی مہلت ہی نہیں ملتی کہ وہ اسے استعمال کرسکیں۔

    ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد دن میں 3 بار پانی بھر کر لانا ہے اور دن کے آخر میں جب وہ رات کو تھک کر بیٹھتی ہیں تو ان میں اتنی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ اتنی محنت اور ماؤں کی چاہت سے بنائے گئے جہیز کو چادر ہٹا کر ایک نظر دیکھ لیں، اور خوش ہولیں۔

    اور ہاں یہ جہیز نسل در نسل منتقل نہیں ہوتا، بلکہ ہر نئی بیٹی پیدا ہونے پر اس کے والدین پھر سے پیسہ جوڑنا اور یہ اشیا بنانا شروع کردیتے ہیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کو بھی باعزت طریقے سے رخصت کرسکیں۔

    نسل در نسل سے بیٹی کو تعلیم دینے کے بجائے اسے بے مقصد اور ناقابل استعمال جہیز دینے والے ان بے بسوں کی زندگی شاید اس وقت بدل جائے جب انہیں پانی بھرنے کے طویل سفر کی مشقت سے چھٹکارہ مل جائے، لیکن وہ وقت کب آئے گا، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

  • گوجرانوالہ، خواتین کی سپر اسٹور میں‌ چوری، ویڈیو وائرل

    گوجرانوالہ، خواتین کی سپر اسٹور میں‌ چوری، ویڈیو وائرل

    گوجرانوالہ: سپر اسٹور میں واردات کی ویڈیو مںظر عام پر آگئی، خواتین سپر اسٹور سے بآسانی اشیاء چوری کرکے فرار ہوگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق گوجرانوالہ کے سپر اسٹور میں چوری کی واردات ہوئی جس میں تین خواتین اسٹور سے اشیاء چوری کرکے بآسانی فرار ہوگئیں۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندہ گوجرانوالہ غلام فرید کے مطابق ہمیں موصول ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تین خواتین کس طرح کھانے پینے کی اشیاء اٹھا کر دوپٹے میں چھپا کر فرار ہورہی ہیں جن میں گھی اور دیگر اشیا شامل ہیں۔

    پولیس نے واردات کا مقدمہ درج کرکے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے خواتین کی تلاش شروع کردی ہے۔

  • کراچی:  چاقو بردار ملزم پھر سرگرم،  حیدری میں خاتون پر تیز دھار آلے سے مبینہ حملہ

    کراچی: چاقو بردار ملزم پھر سرگرم، حیدری میں خاتون پر تیز دھار آلے سے مبینہ حملہ

    کراچی: حیدری کے علاقے میں خاتون پر تیز دھار آلے سے مبینہ حملہ کیا گیا ، خاتون کے رشتے دار رپورٹ درج کرانے تھانے پہنچ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں چھرا مار پھر متحرک ، حملہ آور نے علاقہ بدل لیا، کئی دنوں کی خاموشی کے بعد کراچی کے علاقے حیدری میں میں ملزم نے تیز دھار آلے سے وار کرکے خاتون کو زخمی کردیا ، خاتون کے رشتے دار رپورٹ درج کرانے تھانے پہنچ گئے۔

    تیزدھار آلے سے حملے کا واقعہ الفتح پارک کے باہر پیش آیا ، پولیس تحقیقات کے لئے جائے واردات پر پہنچ گئی ہے۔

    دوسری جانب پولیس کا اپنے مؤقف میں کہنا ہے کہ موٹرسائیکل سوار خاتون سے ٹکرایا تھا، موٹرسائیکل ٹکرانے سے خاتون سمجھی کہ حملہ ہوا ہے۔


    مزید پڑھیں : کراچی، چاقو بردار ملزم سرگرم، تین گھنٹے کے دوران پانچ خواتین پر وار


    یاد رہے کہ گلستان جوہر میں خواتین پر تیز دھار آلے سے حملے کرنے کے واقعات 25 ستمبر سے شروع ہوئے اور اب تک 15 خواتین کو حملوں میں زخمی کیا جاچکا ہے، جن میں سے بیشتر کے جسم پر ٹانکے آئے ہیں۔

    چھرا مار ملزم کے شبے میں 15 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے ، جنہیں تفتیش کے بعد رہا کردیا گیا، اب یہ 16 واں ملزم ہے جسے حراست میں لیا گیا لیکن اصل ملزم اب تک گرفت میں نہ آسکا۔

    گلستان جوہر اور گلشن اقبال میں ایک درجن سے زائد خواتین پر تیز دھار چاقو سے حملہ کرنے والے ملزم کی گرفتاری سے متعلق اہم پیشرفت سامنے آئی، جس کے تحت ایک اہم ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔


    مزید پڑھیں : خواتین پر چاقو کے وار، اہم ملزم گرفتار، پولیس کا دعویٰ


    ایڈیشنل آئی جی کراچی نے چاقو بردار شخص کے حوالے سے ایک اہم شخص کی گرفتاری کا دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزم کے نہایت قریب پہنچ گئے ہیں گرفتار ملزم سے تحقیقات کا عمل جاری ہے۔

    خیال رہے خواتین پر چھری سے حملہ کر کے ان کو زخمی کرنے والے ملزم کی گرفتاری میں ناکامی پرپولیس نے عوام سے تعاون کی درخواست کی ہےاور انعامی رقم میں اضافہ کردیا، چھلاوے کی گرفتاری میں مدد دینے والے کو 5 کے بجائے 10 لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔

    واضح رہے کہ سنہ 2013 میں چیچہ وطنی میں اسی نوعیت کے واقعات پیش آئے تھے جب چیچہ وطنی میں وسیم ملاح نامی ایک ذہنی بیمار شخص نے 207 خواتین کو چاقو کے وار کرکے زخمی کیا تھا‘ پولیس کی جانب سے گھیرا تنگ کیے جانے پر اس نے ساہیوال کا رخ کیا اور یہاں بھی اسی نوعیت کی 36 وارداتیں کی تھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خواتین خوف زدہ نہ ہوں، چاقو مار کو گرفتار کرکے فوری سزاے موت دی جائے، نادیہ حسین

    خواتین خوف زدہ نہ ہوں، چاقو مار کو گرفتار کرکے فوری سزاے موت دی جائے، نادیہ حسین

    کراچی : شہر قائد میں چھرا مار گروپ کیخلاف معروف ماڈل نادیہ حسین میدان میں آگئیں اور کہا کہ خواتین پر حملوں کے ملزم کو سزائے موت دی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں چاقو مار گروپ کی پہ در پہ کاروائیوں پر معروف ماڈل نادیہ حسین نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو خوف طاری نہیں کرنا چائیے اور ملوث فرد کو فوری گرفتار کیا جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہماری سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ اب تک اس کو گرفتار کیوں نہیں کرپائی ہے۔

    خواتین کو حوصلہ بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ بلکل بھی نہ گھبرائیں انہوں نے کہا کہ چاقو مار کو فوری گرفتار کرکے فوری سزاے موت دی جائے۔

    دوری جانب خواتین کا کہنا ہے کہ آخر ایک چھلاوے کے آگے پولیس کیوں بے بس ہوگئی ہے، اس کو جلد سے جلد گرفتار کیا جائے ورنہ خواتین کا گھروں سےنکلنا مشکل ہوجائے گا۔


    مزید پڑھیں : چاقو بردار ملزم سرگرم، تین گھنٹے کے دوران پانچ خواتین پر وار


    یاد رہے کہ کراچی میں خواتین پر حملے شروع ہوئے بارہ دن گزر گئے، اور اب تک 15 خواتین کو حملوں میں زخمی کیا جاچکا ہے جن میں سے بیشتر کے جسم پر ٹانکے آئے ہیں۔

    پولیس نے اس سلسلےمیں 16 مشکوک افراد کو حراست میں لیاتھا تاہم اس کے بعد بھی ان واقعات کا سلسلہ جاری ہے‘ پولیس کو شک ہے اس واقعے میں کوئی ایک شخص نہیں بلکہ پورا گروہ ملوث ہے۔

    واضح رہے کہ سنہ 2013 میں چیچہ وطنی میں اسی نوعیت کے واقعات پیش آئے تھے جب چیچہ وطنی میں وسیم ملاح نامی ایک ذہنی بیمار شخص نے 207 خواتین کو چاقو کے وار کرکے زخمی کیا تھا‘ پولیس کی جانب سے گھیرا تنگ کیے جانے پر اس نے ساہیوال کا رخ کیا اور یہاں بھی اسی نوعیت کی 36 وارداتیں کی تھیں۔


    مزید پڑھیں : خواتین پر چاقو کے وار، کیا ساہیوال کے ملزم نے کراچی کا رخ کرلیا ؟


    پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد عدالت نے اسے ذہنی مریض ہونے اور خواتین کو معمولی زخمی ہونے کی بنا پر محض آٹھ ماہ کی سزا سنائی تھی۔

    کراچی پولیس نے ان خطوط پر کام کرتے ہوئے جب وسیم کے گھر کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے گھر والوں کو بھی نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے اور کس شہر میں رہ رہا ہے‘ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ کراچی میں خواتین پر ہونے والے حملوں میں یہ شک بھی ملوث ہوسکتا ہے


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خواتین پر حملہ کرنے والوں کونشان عبرت بنایاجائے،بلاول

    خواتین پر حملہ کرنے والوں کونشان عبرت بنایاجائے،بلاول

    کراچی : چئیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو ک کہنا ہے کہ خواتین پر حملہ کرنے والوں کونشان عبرت بنایاجائے۔

    تفصیلات کے مطابق چئیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کراچی میں خواتین پر حملہ کرنے والوں کونشان عبرت بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماؤں اوربہنوں پر حملے کرنے والے رعایت کے مستحق نہیں۔

    بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلزپارٹی معصوم خواتین پر حملے برداشت نہیں کرے گی ۔

    چئیرمین پیپلزپارٹی نے خواتین پر حملوں کے پے درپے واقعات کانوٹس لیتے ہوئے وزیراعلی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی ہے اور کہا کہ ملزم کو فوری گرفتار کیا جائے۔

    دوسری جانب کراچی خواتین پر حملوں میں تیزی آنے پر وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ آئی جی اےڈی خواجہ پر برس پڑے، مرادعلی شاہ نے اے ڈی خواجہ سے رابطہ کیا اور پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے، کیا حملہ آور نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے، جو پولیس کونظر نہیں آرہا؟

    وزیراعلیٰ سندھ نے حملہ آور کی فوری گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے کہا اس طرح تو فلموں میں ہوتا ہے، کوئی مجرم ہیلمٹ پہن کر چھرے سے حملہ کرے اور نکل جائے۔

    ایم کیوایم پاکستان نے خواتین پر حملوں کیخلاف احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔


    مزید پڑھیں : کراچی، چاقو بردار ملزم سرگرم، تین گھنٹے کے دوران پانچ خواتین پر وار


    یاد رہے کہ گذشتہ ملزم نے چند گھنٹوں کے دوران گلشن ٹاؤن میں پانچ خواتین کو چُھرے مار کر خوف پھیلادیا، پولیس نے متعدد علاقو ں میں چھاپہ مار کاروائی کے بعد متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

    واقعات گلشن جمال، نیپا،یونیورسٹی روڈ، گلشن چورنگی اور ویلفیئرسوسائٹی میں پیش آئے۔

    پے درپےحملوں کے بعد کراچی کی خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں، پولیس روایتی تفتیش سےآگے نہ بڑھ سکی، متاثرہ خواتین کے بیانات قلمبند کئے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی: پاکستان افریقی ممالک سے بھی بدتر پوزیشن پر

    پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی: پاکستان افریقی ممالک سے بھی بدتر پوزیشن پر

    جیسے جیسے زمانہ آگے کی جانب بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے پرانے ادوار کے خیالات و عقائد اور تصورات میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے۔

    ایک وقت تھا کہ گھروں سے باہر نکل کر کام کرنے والی خواتین کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ تاہم اب وقت بدل گیا ہے۔ اب خواتین ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

    ایسا ہی کچھ حال سیاست کا بھی ہے۔

    اگر آپ پرانے ادوار میں چلنے والی سیاسی تحریکوں کی تصاویر دیکھیں تو ان میں خال ہی کوئی خاتون نظر آئے گی، تاہم خواتین اب سیاست میں بھی فعال کردار ادا کر رہی ہیں اور فی الحال دنیا کے کئی ممالک کی سربراہی خاتون صدر یا وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہی ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا پر حکمرانی کی دوڑ میں خواتین مردوں سے آگے

    سیاست میں خواتین کے اسی کردار کی جانچ کے لیے عالمی اقتصادی فورم نے ایک فہرست مرتب کی جس میں جائزہ لیا گیا ہے کہ کس ملک کی پارلیمنٹ میں خواتین کی کتنی تعداد موجود ہے۔

    فہرست میں حیرت انگیز طور پر امریکا، برطانیہ یا کسی دوسرے یورپی ملک کے مقابلے میں افریقی ممالک کے ایوانوں میں خواتین نمائندگان کی زیادہ تعداد دیکھنے میں آئی۔

    اس فہرست میں افریقی ملک روانڈا سرفہرست رہا جس کی پارلیمنٹ میں خواتین ارکان اسمبلی کی شرح 63.8 فیصد ہے۔

    بدقسمتی سے عالمی اقتصادی فورم کی مذکورہ فہرست میں صف اول کے 10 ممالک میں کوئی ایشیائی ملک شامل نہیں۔

    اس بارے میں دنیا بھر کی پارلیمان اور ایوانوں کا ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے انٹر پارلیمنٹری یونین کی ویب سائٹ کا جائزہ لیا گیا تو پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد کے حوالے سے موجود فہرست میں پاکستان 89 ویں نمبر پر نظر آیا۔

    مذکورہ فہرست کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی صرف 20.6 فیصد ہے۔ یعنی 342 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں صرف 70 خواتین موجود ہیں جو ملک بھر کی 10 کروڑ 13 لاکھ سے زائد (مردم شماری کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق) خواتین کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

    اس معاملے میں افغانستان جیسا قدامت پسند ملک بھی ہم سے آگے ہے جو 27.7 فیصد خواتین اراکین پارلیمان کے ساتھ 53 ویں نمبر پر موجود ہے۔

    افغان پارلیمان

    فہرست میں پڑوسی ملک بھارت 147 ویں نمبر پر موجود ہے جس کی 542 نشستوں پر مشتمل لوک سبھا میں صرف 64 خواتین موجود ہیں۔

    صنفی ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی سازی کے عمل اور قومی اداروں میں خواتین کی شمولیت اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ ملک کی ان خواتین کی نمائندگی کرسکیں جو کمزور اور بے سہارا ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیلری کلنٹن کی شکست کی وجہ خواتین سے نفرت؟

    کسی ملک میں خواتین کو کیا مسائل درپیش ہیں، اور ان سے کیسے نمٹنا ہے، یہ ایک ایسی خاتون سے بہتر کون جانتا ہوگا جو نہ صرف اپنی انتخابی مہم کے دوران ان خواتین سے جا کر ملی ہو اور ان کے مسائل سنے ہوں، بلکہ خود بھی اسی معاشرے کی پروردہ اور انہی مسائل کا شکار ہو۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شیخ یہ عبایہ کیسا ہے؟ سعودی عالم دین کے بیان پر خواتین برہم

    شیخ یہ عبایہ کیسا ہے؟ سعودی عالم دین کے بیان پر خواتین برہم

    ریاض: سعودی عرب میں ایک عالم دین کو خواتین نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ خواتین کو ڈیزائن والا عبایہ اور میک سے گریز کرنا چاہیے۔

    بی بی سی کے مطابق سعودی عالم دین محمد الرافع نے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ اے میری بیٹی، ایسا عبایہ مت خریدو جس پر کوئی آرائش ہو، کوئی سجاوٹ یا کڑھائی ہو یا کوئی چاک ہو، براہ مہربانی بیٹی کوئی میک اپ نہ ظاہر کرو اور (اسلام سے قبل) زمانہِ جہالت جیسا میک اپ نہ کرو۔‘‘

    جواب میں خواتین نے انہیں کافی تنقید کا نشانہ بنایا، کچھ خواتین نے ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپنی تصاویر شیئر کیں جس میں وہ اپنا عبایہ دکھا رہی ہیں اور طنزیہ پوچھ رہی ہیں کہ شیخ، کیا ہم یہ عبایہ استعمال کرسکتے ہیں؟

    ایک خاتون نے ٹوئٹ میں اپنا عبایہ دکھایا اور استفسار کیا کہ میرا عبایہ کیسا ہے؟ آئندہ کوشش کروں گی کہ رنگ برنگے عبایے خریدوں اور ایسے عبایے جو اسلام سے قبل بھی نہیں پہنے گئے۔

    ایک اور خاتون نے ٹوئٹ کیا کہ میں اپنے انتہائی خوبصورت عبایے دکھانا چاہوں گی۔

    ایک اور صارف نے پوچھا کہ میں اپنے عبایہ پر انتہائی شوخ آرائش کر رہی تھی تو کیا یہ ٹھیک ہے؟

    ایک خاتون نے تو عالم دین کی تصویر فوٹو شاپ کرکے انہیں عبایا پہنادیا اور تصاویر انہیں ٹوئٹ کردیں۔

  • دلہے کا ناگن ڈانس، دلہن کا شادی سے انکار

    دلہے کا ناگن ڈانس، دلہن کا شادی سے انکار

    نئی دہلی: بھارت میں ناگن رقص کرنے پر ایک دلہن نے شادی سے انکار کردیا، بارات کو واپس جانا ہی پڑا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں شادی کے روز عجیب و غریب واقعات کا ہونا کوئی نئی بات نہیں حال ہی میں بھارت میں ایک دلہے کو شادی کے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ ناگن ڈانس کرنا مہنگا پڑ گیا۔

    یہ واقعہ دو روز قبل پیش آیا جب جب دلہا نشے میں دھت بارات کے لے کر دلہن کے گھر پہنچا، سجی سنوری دلہن کو جب یہ پتا چلا کہ دولہے میاں زمین پر لوٹ لوٹ کر رقص کر رہے ہیں تو دلہن نے شادی سے ہی انکار کر دیا۔

    رقص کی ویڈیو:

    پریانکا ترپاٹھی اور اس کے گھر والوں کے لیے انوبھ مشرا کا اس طرح کا روپ پہلی بار سامنے آیا جسے وہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔

    تئیس سالہ پریانکا ترپاٹھی نے اپنی فیملی اور دوستوں سے مشاورت کرنے کے بعد اگلے ہی روز ایک دوسرے شخص سے شادی کرلی۔

    سروے کے مطابق بھارت میں 15 سے 34 سال کی عمر کے لوگ ارینج میرج کرتے ہیں‌ جبکہ صرف چھ فیصد لوگ ہی پسند کی شادی کرتے ہیں.

    یہ بھی پڑھیں: گٹکا کھانے والے سے بیاہ نہیں‌ کروں‌ گی، دلہن کا شادی کی تقریب میں انکار

    واضح رہے کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں ناگن ڈانس بھارت میں عام سی بات سمجھی جاتی ہے، بھارت میں اس سے قبل 2015ء میں دلہے کو اس وقت شادی سے ہاتھ دھونا پڑے تھے جب وہ ایک حساب کے آسان سوال کا جواب نہ دے پایا تھا۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں گوشت کی ڈش نہ ہونے پر دلہا کا شادی سے انکار


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خواتین کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب کے لیے الیکشن کمیشن کی آگاہی مہم

    خواتین کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب کے لیے الیکشن کمیشن کی آگاہی مہم

    اسلام آباد: ملک میں اگلے برس عام انتخابات منعقد کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے خواتین میں ان کے ووٹ کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں مختلف جامعات اور کالج کے طلبا کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو رضا کارانہ خدمات انجام دیں گے۔

    خواتین میں ووٹ ڈالنے کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے سیمینارز، مباحثوں، اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کروایا جائے گا جن کے ذریعے خواتین کو ترغیب دی جائے گی کہ وہ بطور ووٹر اپنے آپ کو رجسٹر کروائیں اور انتخابی مہم میں حصہ لیں۔

    الیکشن کمیشن کی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نگہت داد نے جامع پنجاب کے جینڈر اسٹڈیز کے شعبے کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے شعبہ کی چیئر پرسن ڈاکٹر رعنا ملک سے اس سلسلے میں گفت و شنید کی۔

    مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی

    یاد رہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 9 کروڑ 70 لاکھ ہے جن میں سے خواتین کی تعداد 4 کروڑ 24 لاکھ ہے۔

    سب سے زیادہ خواتین ووٹرز صوبہ پنجاب سے رجسٹرڈ ہیں جبکہ سب سے کم تعداد فاٹا میں ہے جہاں 17 لاکھ 51 ہزار خواتین بطور ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔

    فاٹا اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں خواتین کا ووٹ ڈالنا ممنوع ہے اور عمائدین علاقہ اس سلسلے میں متفقہ طور پر خواتین کو ان کے بنیادی آئینی حق سے محروم کرچکے ہیں۔

    دو سال قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے کئی علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی کا ان دیکھا چہرہ ۔ نواحی علاقوں کی خواتین کی زندگی کیسی ہے؟

    کراچی کا ان دیکھا چہرہ ۔ نواحی علاقوں کی خواتین کی زندگی کیسی ہے؟

    آپ کے خیال میں کراچی کی حد کہاں پر ختم ہوتی ہوگی؟ ٹول پلازہ؟ نیشنل ہائی وے؟ یا پھر حب ریور روڈ پر کراچی اختتام کو پہنچ جاتا ہوگا؟ اگر آپ واقعی ایسا سوچتے ہیں تو چلیں آج آپ کو کراچی کی ایک ایسی حد پر لے چلتے ہیں جس کا آج سے قبل آپ نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔

    اس کے لیے آپ کو کراچی سے باہر نکلنے کے راستے پر سفر کرتے رہنا ہوگا، آپ کے سفر میں سنسان راستے ہوں گے، جہاں آپ کے علاوہ کوئی ذی روح نہ دکھائی دیتا ہوگا، بنجر زمین ہوگی، صحرا ہوگا، پتھریلے اور مٹی کے پہاڑ بھی دکھائی دیں گے، اور ہاں راستے میں آپ کو 1 فٹ لمبی چھپکلیاں بھی ملیں گی جنہیں مقامی زبان میں ’نوریڑو‘ کہا جاتا ہے۔

    اس سفر میں آپ کو لگ بھگ 3 گھنٹے گزر جائیں گے، اور بالاآخر آپ جس جگہ پہنچیں گے، آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ وہ بھی کراچی کا ہی حصہ ہوگا۔

    یہ ایک خاصا ’عجیب و غریب‘ سفر ثابت ہوسکتا ہے، اور اس وقت مزید عجیب ہوجائے گا جب آپ کو علم ہوگا کہ کراچی سے بہت دور آنے کے بعد ایسا صحرا، جہاں کوئی انجان شخص بھٹک جائے تو ساری زندگی بھٹکتا رہے، ایک جیسے پتھریلے راستوں سے کبھی صحیح سمت کا اندازہ نہ لگا سکے، ضلع ملیر کا حصہ ہے۔

    مجھے یقین ہے کہ اس مقام کا علم کراچی کے میئر اور ملیر کے بلدیاتی و صوبائی اسمبلی کے نمائندوں کو بھی نہ ہوگا۔ جب کسی شے کا اکثریت کو علم نہ ہو، تو وہ گمنام ہوجاتی ہے، اور جدید دنیا سے اس کا تعلق کٹ جاتا ہے۔

    کراچی سے کئی میل دور ۔ ایک اور کراچی

    کراچی کے مرکز سے شروع ہونے والا یہ سفر جب اختتام پذیر ہوتا ہے تو اس سفر کو لگ بھگ 4 گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں۔ راستے کی ویرانی، بنجر پن، صحرا، اور صحرا میں جا بجا بکھرے ببول کے پودوں کو دیکھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید ہم راستہ بھٹک چکے ہیں۔ یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر واقعی صحیح راستے پر جارہے ہیں، تو وہ کون لوگ ہیں جو دوسری طرف رہتے ہیں اور جنہیں شہر کی سہولیات تک پہنچنے میں ہی گھنٹوں گزر جاتے ہوں گے۔

    یہ سفر کراچی (کے مرکز) سے تقریباً 170 کلومیٹر دور احسان رضا گوٹھ پر اختتام پذیر ہوتا ہے، اور یہاں سے دکھوں، غربت، بے بسی اور لاچاری کا نیا سفر شروع ہوتا ہے۔

    گاؤں کا سربراہ احسان رضا برفت نامی شخص ہے جو پہلی بات کرتے ہی ایک نہایت مہذب، باشعور اور ذہین شخص معلوم ہوتا ہے۔

    چار خانوں والا رومال آدھا کندھے اور آدھا سر پر ڈالے، اور سندھی ٹوپی پہنے یہ شخص نہ صرف اپنے بلکہ آس پاس موجود دیگر گاؤں کی فلاح کے لیے بھی نہایت متحرک اور سرگرم عمل ہے۔

    جس وقت ہم وہاں پہنچے اس وقت گاؤں والے سخت دھوپ میں اپنی جھونپڑیوں سے باہر کھلی دھوپ میں راشن تقسیم کیے جانے کے انتظار میں بیٹھے تھے جو چند مخیر حضرات کی مہربانی سے انہیں میسر آیا تھا۔

    راشن کے منتظر ان افراد میں بزرگ خواتین و مرد اور عورتیں بھی تھیں۔ کچھ لوگ ایک اور قریب موجود گاؤں سے بھی آئے تھے۔

    تقسیم کے اس عمل کے دوران میں نے وہاں موجود جھونپڑیوں کا جائزہ لیا۔ ایک ہی دائرے میں پھیلے 20 سے 25 گھروں میں ایک ہی خاندان کے افراد آباد تھے۔

    گاؤں کے سربراہ احسان رضا کے بقول اس گاؤں سمیت دیگر کئی گاؤں میں آبادی اسی طرح خاندانوں پر مشتمل تھی۔ کچھ جھونپڑیوں کے اندر نہایت ہی ضعیف خواتین موجود تھیں جو ناتوانی کے باعث راشن کی لائن میں نہیں بیٹھ سکتی تھیں۔

    جھونپڑیوں کا جائزہ لینے کے دوران ایک خاتون میرے ہمراہ ہوگئیں۔ مجھے پتہ چلا تھا کہ وہاں موجود افراد شہر سے کم تعلق کے باعث نہایت ٹوٹی پھوٹی اردو میں گفتگو کرتے ہیں، لیکن یہ خاتون نہایت صاف اردو میں بات کر رہی تھیں۔

    گفتگو شروع ہوئی تو میں نے وہاں پر بنیادی ضرورتوں، اسپتال اور اسکول وغیرہ کے بارے میں دریافت کیا، لیکن بانو نامی اس خاتون کے پاس ہر سوال کا ایک ہی جواب تھا، نفی میں ہلتا ہوا سر اور ’کچھ بھی نہیں‘۔

    پوچھنے پر پتہ چلا کہ گاؤں والے چھوٹی موٹی بیماریوں کا تو خود ہی علاج کر لیتے تھے، البتہ کسی شدید تکلیف دہ صورتحال یا خواتین کی زچگی کے موقع پر ’شہر‘ سے مدد بلوائی جاتی تھی۔

    معروف مصنف مشتاق احمد یوسفی اپنی ایک کتاب میں رقم طراز ہیں، ’پرانے زمانوں میں ڈاکٹر کو اسی وقت بلوایا جاتا تھا جب یقین ہوجاتا تھا کہ اب مریض کے انتقال کو بس تھوڑی ہی دیر باقی ہے‘۔

    یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی جب مریض درد سے تڑپتا موت کی سرحد پر پہنچ جاتا، تو اپنی یا شاید مریض کی تسلی کے لیے شہر سے ڈاکٹر یا ایمبولینس بلوائی جاتی لیکن عموماً مریض مسیحا کی مسیحائی سے پہلے ہی موت سے شکست کھا جاتا تھا۔

    شہر سے مدد بلوانے کے لیے پی ٹی سی ایل کا ایک عدد ٹیلی فون وہاں نصب تھا۔ اس ٹیلی فون سے شہر میں ایمبولینس کو کال کی جاتی جس کے بعد شہر سے ایمبولینس روانہ ہوتی اور صحرا کے پتھریلے راستوں پر ڈولتی، ہچکولے کھاتی، یہاں تک پہنچتی، اس وقت تک اگر مریض میں جان ہوتی تو اسے لے کر دوبارہ اسی جھٹکے کھاتی 3 گھنٹے کے طویل سفر پر روانہ ہوجاتی۔

    اگر کوئی مریض سفر کی طوالت اور اذیت ناک جھٹکوں کے باوجود شہر کے اسپتال پہنچنے تک زندہ رہتا (اور ایسا بہت کم ہوتا تھا) تو سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر تک پہنچنے کا انتظار اسے ماردیتا، گویا ہر صورت موت ہی اسے نصیب تھی۔

    یہ اذیت ناک کرب اور انتظار کی تکلیف مختلف مریضوں کے علاوہ ہر اس زچہ خاتون کو بھی اٹھانی پڑتی جن کا دائی کے ہاتھوں کیس بگڑ جاتا اور وہ یا ان کا بچہ موت کے دہانے پر پہنچ جاتا۔ موت اور درد سے لڑتی ایک عورت کا ان جان لیوا راستوں پر سفر اور ایسے وقت میں جب ایک لمحہ بھی ایک عمر بن کر گزرتا محسوس ہوتا ہے، 3 سے 4 گھنٹوں کے طویل عبرت ناک انتظار کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    لیکن ان عورتوں میں سے بمشکل ہی کوئی ڈاکٹر تک پہنچ پاتی ہے۔ عام حالت میں بھی انسانی برداشت کی حد سے گزرنے والا تخلیق کا درد جب اپنے عروج پر پہنچتا ہوگا تو ایسے میں اس تکلیف کو سہنے سے زیادہ آسان ملک الموت کا آنا ہی ہوتا ہوگا اور قدرت بھی یہ بات جانتی ہے لہٰذا ایسی عورتیں نصف راستے میں ہی دم توڑ کر ابدی نجات پالیتی ہیں۔

    بانو کے بقول گاؤں میں عموماً گھروں میں ہی زچگی کا عمل انجام پاتا ہے۔ یہ ایک عام بات ہے اور جب گاؤں میں کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے تو وہ اور اس کے گھر والے دعا مانگتے ہیں کہ شہر سے مدد بلوانے اور اسپتال جانے کی ضرورت نہ پیش آئے۔

    وہ جانتے ہیں کہ شہر سے ایمبولینس آنے کے بعد جو اس ایمبولینس میں لیٹ کر ان راستوں کی طرف جاتا ہے، وہ شاذ ہی واپس آتا ہے۔ شہر کی طرف جانے والے یہ راستے ان کی لیے گویا موت کی وادی میں جانے کے راستے تھے۔

    گاؤں کے بیچوں بیچ ’پبلک‘ باتھ روم

    اس سے قبل میں نے جتنے بھی گاؤں دیہاتوں کے دورے کیے تھے وہاں کا ایک اہم مسئلہ بیت الخلا کی عدم موجودگی بھی ہوتا تھا، لیکن شاید وہ میرے لیے اہم تھا، وہاں رہنے والوں کے لیے نہیں، کیونکہ بظاہر یوں محسوس ہوتا تھا کہ گاؤں والوں کو بیت الخلا کی موجودگی یا عدم موجودگی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔

    البتہ خواتین کے لیے باتھ روم کا استعمال ایک پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ جہاں باتھ روم نہیں ہوتے وہاں خواتین کو علیٰ الصبح اور شام ڈھلنے کے بعد کھیتوں میں جانا پڑتا تھا، یا جہاں ٹوٹے پھوٹے باتھ روم موجود ہوتے تھے، وہ شام ڈھلتے ہی سانپوں اور مختلف کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ بن جاتے تھے لہٰذا خواتین شام ہونے کے بعد واش رومز استعمال کرنے سے احتیاط ہی برتتی تھیں۔

    احسان رضا گوٹھ میں البتہ مجھے چند باتھ روم ضرور دکھائی دیے۔ گاؤں میں مصروف عمل ایک فلاحی تنظیم کاریتاس کی معاونت سے بنائے گئے یہ باتھ روم تعداد میں 2 سے 3 تھے اور ہر باتھ روم چند گھروں کے زیر استعمال تھا۔

    کچے گھروں سے دور صحرا کے وسط میں کھڑے یہ باتھ روم بہت عجیب دکھائی دیتے تھے لیکن گاؤں والوں کی زندگی کا اہم حصہ تھے۔ اس کی بدولت مرد و خواتین دونوں کو کھیتوں میں جانے کی زحمت سے چھٹکارہ حاصل تھا۔

    خواتین اور بچے معاشی عمل کا حصہ؟

    گاؤں میں اسکول کے بارے میں دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ وہاں کوئی اسکول یا استاد نہیں تھا جو بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتا۔

    دراصل گاؤں کا سب سے بڑا مسئلہ پانی تھا۔ یہاں پر پانی کا ذریعہ اس علاقے میں ہونے والی بارشیں تھیں جو گزشتہ 2 سال سے نہیں ہوئی تھیں۔ تاہم یہ مسئلہ اب خاصی حد تک حل ہوچکا تھا۔

    کاریتاس کی کوششوں کے سبب چند ایک ارکان صوبائی اسمبلیوں نے یہاں کا دورہ کیا تھا اور ان کی ذاتی دلچسپی کے سبب اب یہاں پانی کی موٹر نصب کردی گئی تھی جو زمین سے پانی نکال کر گاؤں والوں کی ضروریات کو پورا کر رہی تھی۔ کچھ ضرورت ہینڈ پمپس سے بھی پوری ہورہی تھی۔

    اس اہم مسئلے کے حل کے بعد اب گاؤں والوں کی زندگی خاصی مطمئن گزر رہی تھی اور انہیں اپنی زندگی میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔

    میں نے خواتین سے دریافت کیا کہ کیا وہ معاشی عمل کا حصہ ہیں اور کوئی کام کرتی ہیں؟ تو جواب نفی میں ملا۔

    بانو نے بتایا کہ خواتین سندھ کی روایتی کڑھائی سے آراستہ ملبوسات اور رلیاں (جو مختلف رنگین ٹکڑوں کو جوڑ کر بستر پر بچھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے) بناتی تو ہیں مگر وہ خود ہی استعمال کرتی ہیں، انہیں شہر لے جا کر فروخت نہیں کیا جاتا۔

    گفتگو کے دوران ایک اور خاتون نے شامل ہوتے ہوئے کہا، ‘ کڑھائی کرنا مشکل کام ہے یہ ہاتھ سے نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ہمیں سلائی مشینیں لا دیں تو ہم انہیں بنا کر شہر میں بیچیں گے’۔

    خاتون کے مطابق بہت پہلے گاؤں کے کسی ایک گھر میں سلائی مشین ہوا کرتی تھی جس پر تمام خواتین سلائی سیکھا کرتیں اور اپنے لیے خوبصورت ملبوسات تیار کرتیں، تاہم اب وہ واحد سلائی مشین خستہ حال اور ناکارہ ہوچکی ہے۔

    پہاڑ کے اوپر ایک اور دنیا

    احسان رضا گوٹھ کے بالکل سامنے ایک پہاڑ نظر آرہا تھا جس کے دوسری طرف صوبہ بلوچستان کا مول نامی قصبہ واقع ہے۔

    ہمیں پتہ چلا کہ اس پہاڑ کے اوپر بھی چند گاؤں واقع ہیں۔ ’اوپر والے ضروریات زندگی کے لیے نیچے کیسے آتے ہیں؟‘ یہ پہلا سوال تھا جو ہمارے ذہنوں میں آیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ پہاڑ کے اوپر ایک کچا راستہ تعمیر کیا گیا ہے جس کے بعد گاؤں والوں کی زندگی اب نسبتاً آسان ہوگئی ہے۔

    پہاڑ کے اوپر کو لے جانے والے راستے کی تعمیر بھی بذات خود ایک کہانی ہے۔ اس کچے راستے کی تعمیر سے قبل گاؤں والے پیدل پہاڑ سے اترا کرتے تھے۔ احسان رضا گوٹھ میں چند ایک افراد کے پاس موٹر سائیکل تھی جو اس موقع پر کام آتی۔

    اس پہاڑ کے اوپر رہنے والے بیماروں اور میتوں کی تدفین کے لیے پلنگ اور رسی کا استعمال کرتے تھے اور مریضوں اور مردہ شخص کو پلنگ سے باندھ کر نیچے لایا جاتا جس کے بعد اسے اسپتال یا قبرستان لے جایا جاتا۔

    مذکورہ پہاڑ سے نیچے اتر کر 1 سے 2 گھنٹے میں احسان رضا گوٹھ تک پہنچنا، اس کے بعد مزید 3 گھنٹوں کا سفر کر کے شہر تک پہنچنا، درمیان میں راستے کی اونچ نیچ، پتھر، صحرا یہ سب جاں بہ لب مریض کے دنیا سے منہ موڑنے کے لیے کافی تھے۔ ہاں جو مرجاتے وہ نسبتاً سکون میں تھے کیونکہ ان کے لیے گاؤں والوں نے ذرا دور ایک قبرستان بنا رکھا تھا۔

    تاہم یہ مشکل کچھ آسان اس طرح ہوئی کہ کاریتاس کی وساطت سے سابق رکن سندھ اسمبلی فرزانہ بلوچ نے یہاں کا دورہ کیا اور ان کے احکامات کے بعد پہاڑ سے نیچے اترنے کے لیے ایک کچا راستہ تعمیر ہوسکا۔

    اس ساری داستان کو جاننے کے بعد اب ہمارا سفر پہاڑ کے اوپر کی طرف تھا۔ ہم گاڑی میں سوار ہچکولے کھاتے، رکتے، چلتے اور صحرا کے حیرت انگیز نظارے دیکھتے اوپر پہنچے۔ یہ راستہ 5 سے 6 کلومیٹر کی طوالت پر مشتمل ہے۔

    پہاڑ کے اوپر سب سے پہلا گاؤں مٹھو (سندھی زبان میں میٹھا) گوٹھ تھا۔ مٹھو گوٹھ سمیت یہاں کوئی 5 سے 6 گاؤں موجود تھے جن میں مجموعی طور پر 200 کے قریب گھر آباد تھے۔

    ہر گاؤں کی طرح یہاں بھی دور تک غربت، بیماری اور مسائل کا راج تھا۔ جگہ جگہ زمین پر مختلف بانس گاڑ کر ان سے گائے بیلوں اور بکریوں کو باندھا جاتا تھا۔ یہ مویشی گاؤں والوں کے لیے صرف اتنے مددگار تھے کہ انہیں بیچ کر کچھ عرصے کا راشن خریدا جاسکتا۔

    مٹھو گوٹھ میں 2 کمروں پر مشتمل اسکول کی ایک عمارت بھی کھڑی تھی جو اس وقت کھنڈر کا منظر پیش کر رہی تھی۔ کیونکہ اول تو حکومت کا مقرر کردہ کوئی استاد یہاں آتا ہی نہیں تھا، اور اگر کوئی آ بھی جاتا تو گاؤں کے مردوں کو اس سے کوئی نہ کوئی شکایت پیدا ہوجاتی یوں وہ چند دن بعد وہاں سے جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا۔

    محرومیوں کا شکار لیکن مطمئن لوگ

    گاؤں کی خواتین نے مجھے اپنے ہاتھ سے کڑھی ہوئی چادریں، ملبوسات اور رلیاں وغیرہ دکھائیں۔

    میں نے دریافت کیا کہ وہ ان اشیا کو شہر میں فروخت کر کے اپنی معاشی حالت میں بہتری کیوں نہیں لاتیں؟ آخر راشن لانے اور جانوروں کو فروخت کرنے کے لیے بھی تو ان کے مرد شہر کی طرف جاتے ہی ہیں، تب ان خواتین کا جواب ٹالنے والا سا تھا۔ صائمہ نامی ایک خاتون نے کہا، ’ہمارے مرد نہیں لے کر جاتے‘۔

    صائمہ کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ خود تو گردوں کے مرض کا شکار ہے اور بیمار رہتی ہے، لہٰذا وہ زیادہ کام نہیں کر سکتی البتہ جو دیگر عورتیں ہیں وہ بس اپنے لیے ہی سلائی کڑھائی کرتی ہیں۔ ‘ہم بس نہیں بیچتے۔ ہم بنا کر خود ہی استعمال کرتے ہیں’۔

    اس کے پاس اس بات کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی، شاید وہ سب اپنی غربت اور مسائل سے گھری زندگی میں مگن اور خوش تھے۔

    واپسی میں پھر وہی کئی گھنٹوں کا سفر تھا، صحرا تھا، ویرانی تھی، اور اونچے نیچے راستے تھے۔ ان سب کو پاٹ کر جب ہم ’شہر‘ میں داخل ہوئے تھے تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک کا سفر نہیں تھا، بلکہ دو زمانوں کا سفر تھا۔

    ایک جدید دور کا تمام سہولیات سے آراستہ زمانہ، اور دوسرا کئی صدیوں قبل کا جب سائنس عام افراد کی پہنچ سے بہت دور تھی اور ہر طرف دکھ تھے، مسائل تھے، جہالت تھی، تکلیفیں تھیں، اور شام ڈھلتے ہی گھپ اندھیرا ہوا کرتا تھا۔