Tag: WOMEN’S RIGHTS

  • دنیا کے کسی ملک میں خواتین کو مکمل حقوق حاصل نہیں، اقوام متحدہ

    دنیا کے کسی ملک میں خواتین کو مکمل حقوق حاصل نہیں، اقوام متحدہ

    جنیوا : خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور حقوق سے محرومی آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پوری دنیا کا سنگین ترین مسئلہ ہے۔

    اس حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے خواتین کی جانب سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں اہم انکشاف کیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک نے ابھی تک مکمل صنفی مساوات حاصل نہیں کی ہے۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ میں پہلی بار خواتین اور لڑکیوں کی انسانی ترقی میں پیش رفت کی ایک جامع تصویر پیش کی گئی ہے۔

    صنفی مساوات اور بین الاقوامی ترقی کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے اداروں کی جانب سے شائع کردہ ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے بہت سے حصوں میں خواتین کی کم اختیاری اور بڑے پیمانے پر صنفی فرق عام ہے۔

    یو این ویمن اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی فنڈ (یو این ڈی پی) کی اس رپورٹ میں 114 ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جن میں سے کسی ایک میں بھی مکمل صنفی مساوات نہیں پائی جاتی۔

    مزید برآں، دنیا بھر میں ایک فیصد سے بھی کم خواتین اور لڑکیاں ایسے ممالک میں رہتی ہیں جہاں خواتین بہت زیادہ بااختیار ہیں اور صحت و تعلیم کے شعبے میں صنفی فرق بھی بہت کم ہے۔

    3.1بلین خواتین اور لڑکیاں یا دنیا میں خواتین کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی کا تعلق ایسے ممالک سے ہے جہاں خواتین بہت کم حد تک بااختیار ہیں اور صنفی فرق بہت بڑا ہے۔

    یہ رپورٹ دنیا بھر میں خواتین کو درپیش پیچیدہ مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے دو نئے اشاریے متعارف کراتی ہے اور اس حوالے سے مخصوص اقدامات اور پالیسی سے متعلق اصلاحات کے لیے لائحہ عمل مہیا کرتی ہے۔

    خواتین کی بااختیاری سے متعلق اشاریہ (ڈبلیو ای آئی) صحت، تعلیم، شمولیت، فیصلہ سازی اور خواتین کے خلاف تشدد کے معاملات میں فیصلے لینے اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کے حوالے سے خواتین کی طاقت اور آزادی کا اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے۔

  • طالبان نے خواتین کو حقوق دینے کی ہدایت کردی

    طالبان نے خواتین کو حقوق دینے کی ہدایت کردی

    افغانستان پر کنٹرول رکھنے والے طالبان نے اپنے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوانزادہ کے نام سے ایک فتویٰ جاری کیا ہے کہ جس میں وزارتوں سے خواتین کے حقوق پر سنجیدہ کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے تاہم فتوے میں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔

    خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگست میں افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان کے سپریم لیڈر کی جانب سے یہ اپنی نوعیت کا پہلا فتویٰ ہے۔

    فتوے میں طالبان کے لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ نے کہا ہے کہ امارت اسلامیہ کی لیڈرشپ تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت کرتی ہے کہ خواتین کو حقوق دلانے کے لیے سنجیدہ کارروائی کریں۔

    فتوے میں شادی اور بیواؤں کے حقوق کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کوئی شخص زبردستی کسی خاتون سے شادی نہیں کر سکتا۔اسی طرح بیوہ خاتون کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو شوہر کی وراثت میں سے حصہ دیا جائے گا۔

    طالبان کے سپریم لیڈر کی جانب سے وزارت ثقافت و اطلاعات کو حکم دیا گیا ہے کہ خواتین کے حقوق پر مواد شائع کیا جائے تاکہ جاری حق تلفی کو روکا جا سکے۔

    خیال رہے کہ عالمی امدادی ایجنسیوں نے امداد کی بحالی کے لیے خواتین کے حقوق کے احترام کو اہم شرط کے طور پر طالبان کے سامنے رکھا ہے۔

    طالبان کے سپریم لیڈر کے فتوے میں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا جس کو عالمی برادری افغانستان کے ایک اہم مسئلے کے طور پر دیکھتی ہے۔

    خیال رہے کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں لڑکیوں کی سیکنڈری تعلیم اور خواتین کی ملازمتوں پر تاحال پابندی ہے۔طالبان کے  پہلے دورِ اقتدار میں سال 1996 سے سال 2001 کے دوران خواتین پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔

  • سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکاروں کی پہلی مرتبہ عدالت میں پیشی

    سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکاروں کی پہلی مرتبہ عدالت میں پیشی

    ریاض : سعودی حکام نے انسانی حقوق کےلیے سماجی خدمات انجام دینے والے دس خواتین کو ایک سال قید میں رکھنے کے بعد عدالت میں پیش کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے انسانی حقوق کی علمبردار متعدد خواتین کو ایک برس قبل سعودی حکومت کے خلاف اور خواتین کی آزادی کےلیے آواز اٹھانے پر گرفتار کیا تھا جن میں سے دس رضاکار خواتین کو گزشتہ روز عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ گرفتار خواتین کو سعودی عرب کی کرمنل کورٹ میں پیش کیا گیا، حکام نے عدالت میں غیر ملکی سفیروں اور صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی تاہم مذکورہ خواتین کے اہلخانہ کو عدالت میں آنے کی اجازت تھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ کرمنل کورٹ میں پیش کی گئیں خواتین رضاکاروں میں لجین الھذلول اور عزیزہ الیوسف سمیت دس خواتین شامل تھیں۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ کا کہنا ہے کہ مذکورہ خواتین کو طویل عرصے سے قید میں رکھا ہوا تھا لیکن ان پر کوئی مقدمہ چلایا جارہا ہے اور نہ ہی نہیں کسی وکیل تک رسائی کا حق حاصل ہے۔

    خیال رہے کہ کچھ ماہ قبل برطانیہ کی انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب سے متعلق اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے صوبے جدہ کی دھابن جیل میں قید انسانی حقوق کی عملبردار خواتین کو دوران تفتیش جنسی زیادتی، تشدد اور دیگر ہولناک زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    سعودیہ میں قید خواتین رضاکاروں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    ایمنسٹی انٹرنینشل نے اپنی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گرفتار خواتین رضاکاروں کو دوران تفتیش بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور اس قدر کوڑے مارے گئے ہیں کہ متاثرہ خواتین کھڑی ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں۔

    جاری رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ تفتیش کاروں نے کم از کم 10 خواتین کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تفتیش کاروں نے جبراً ایک دوسرے کو بوسہ دینے پر مجبور کیا گیا۔

  • سعودی حکومت حقوق نسواں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے ہرممکن اقدام کرے گی، بندر العیبان

    سعودی حکومت حقوق نسواں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے ہرممکن اقدام کرے گی، بندر العیبان

    ریاض : سعودی عرب کی ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین بندر العیبان کا کہنا ہے کہ خواتین نے سعودیہ کو ترقی کی جانب گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سعودی عرب کی ہیومن رائٹس کمیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ خواتین سعودی عرب کی ترقی میں کےلیے سفر جاری رکھیں گی اور حکومت خواتین کو بااختیار بنانے کا عمل جاری رکھے گی۔

    چیئرمین ہیومن رائٹس کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کو محفوظ بنانے کےلیے ہر ممکن کوشش کریں گے، خواتین نے ریاست کی فلاح و بہبود میں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑے ہیں۔

    بندر العیبان کا کہنا تھا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 میں سعودی خواتین اہم جُز ہیں اور یہ زبانی کلامی باتیں نہیں ہیں، حکومت شعبوں کو مضبوط و مستحکم کرنے کےلیے خواتین کی خدمات حاصل کرتی رہے گی۔

    چیئرمین بندر العیبان کا کہنا تھا کہ سعودی خواتین کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس کےلیے شاہی فرامین بھی موجود ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کی تعمیر و ترقی اور معاشی استحکام کےلیے مختلف شعبوں میں خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنانے کےلیے اپنی اقدامات جاری رکھے گی۔

    چیئرمین انسانی حقوق کمیشن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے سرکاری محمکوں سمیت کئی شعبوں میں خواتین کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

    مزید پڑھیں : عدوا الدخیل سعودی عرب کی پہلی خاتون پائلٹ بن گئیں

    مزید پڑھیں : 6 لاکھ سعودی خواتین عملی میدان میں سرگرم

    یاد رہے کہ گزشتہ برس تین جون کو ایک تاریخ سا ز فیصلے کے نتیجے میں سعودی خواتین کو گاڑی چلا نے کی اجازت ملی تھی جو کہ ایک قدامت پسند معاشرے میں بڑا اقدام تھا، جس کے بعد متعدد شعبوں میں خواتین اپنی صلاحتیوں کا لوہا منواتی رہیں۔

    عرب میڈیا کے مطابق رواں ماہ سعودی خاتون عدوا الدخیل نے بلندی سے گرنے کے خوف کو شکست دیتے ہوئے پہلی سعودی خاتون پائلٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

  • بھارتی عدالت نے بن بیاہی ماں کو بچے کاسرپرست مقررکردیا

    بھارتی عدالت نے بن بیاہی ماں کو بچے کاسرپرست مقررکردیا

    نئی دہلی: بھارتی عدالت عظمیٰ نے ایک بن بیاہی ماں کو باپ کا نام ظاہرکئے بغیراس کےبچے کا قانونی سرپرست قراردےدیا۔

    تفصیلات کے مطابق بن بیاہی ماں نے اپنے بچے کی سرپرستی کے لئے ماتحت عدالتوں سے مایوسی کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا کیونکہ ماتحت عدالتوں نے اس سے تقاضا کیا کہ سرپرستی حاصل کرنے کے لئے اسے بچے کے والد کا نام ظاہرکرنا ہوگا۔

    خاتون کا موقف تھا کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے بچے کے والد کی جانب سے بغیرکسی مدد کے بچے کی پرورش کررہی ہے، اس کا کہناتھا کہ بچے کی ولدیت ظاہر کرنے سے بچے کے لئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

    اس دلچسپ مقدمے کی سماعت جج وکرم جیت سین اور ابھے منوہر نے کیاور فیصلہ دیاکہ بچے کے وسیع تر مفاد میں خاتون کو بچے کا سرپرست قراردیا جاسکتا ہے۔

    عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ خاتون کو بچے کے والد کا نام ظاہر کرنے پر مجبور کرنا خاتون کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

    واضح رہے کہ بھارتی قانون میں کسی بھی بچے کی سرپرستی حاصل کرنے کے لئے اس کے والد کی اجازت درکارہے۔

    وکلاء اور سماجی رہنماؤں کی جانب سے فیصلے کو بے پناہ سراہا گیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ خواتین کے مساوی حقوق کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔