Tag: Work

  • برطانیہ میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں اضافہ

    برطانیہ میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں اضافہ

    لندن : برطانیہ کے ادارہ مالیات کے تحقیق کاروں کا ماننا ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں میں ملازمت پیشہ ماؤں کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں کام کرنے والی ماؤں کی تعداد میں گذشتہ چار دہایئوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    بیشتر نجی برطانوی کمپنیوں کے مالکان حمل اور زچگی کے بارے کافی فکر مند رویے رکھتے ہیں‘ اس معاملے میں ان کے رویے آج بھی یورپ کے دورِ جہالت میں زندگی گزارنے والے کمپنی مالکان سے چنداں مختلف نہیں ہیں ۔

    ادارہ برائے مالیات کی سروے رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔

    سروے رپورٹ کے مطابق برطانوی خواتین بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی پرورش کے ساتھ ساتھ اپنی ملازمت بھی جاری رکھتی ہیں، جس کے باعث برطانیہ میں ملازمت کے طریقوں میں بھی کافی حد تک تبدیلی آئی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کی وہ خواتین جن کے شوہر بھاری تنخواہ پر ملازمت کررہے ہوتے ہیں وہ بچوں کی پیدائش کے دوران ملازمت کو ترک کردیتی ہیں۔


    مزید پڑھیں:برطانوی کمپنیاں ’حاملہ خواتین‘ کو بوجھ سمجھتی ہیں: تحقیق


    برطانوی ٹھنک ٹینک کے مطابق 24 سے 54 سالہ عمر کی ملازمت پیشہ ماؤں کی تعداد میں سنہ 1975 سے 2015 تک 50 فیصد سے بڑ کر 72 فیصد ہوگئی ہے۔

    ادارہ مالیات کے تحقیق کاروں کا کہنا تھا کہ غیر شادی شدہ خواتین کی نسبت ان ملازمت پیشہ خواتین تعداد میں زیادہ اضافہ ہوا ہے جن کے بچے پرائمری کلاسوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں۔

    سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کے دیگر شہروں کی نسبت لندن میں حاملہ خواتین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔

    تحقیق کاروں کا کہنا تھا کہ سنہ 1975 میں لندن ملازمت کرنے والی حاملہ خواتین کی شرح 63 فیصد تھی اور سنہ 2017 تک ملازمت کی شرح میں تیزی سے اضافے کے بعد 74 فیصد ہے جو پورے برطانیہ میں سب سے کم ہے۔ ملازمت کی شرح میں لندن اور شمالی آئرلینڈ برابری کی سطح پر ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • صبح 10 بجے سے قبل کام شروع کرنا جسمانی تشدد کے برابر

    صبح 10 بجے سے قبل کام شروع کرنا جسمانی تشدد کے برابر

    ہم میں سے ہر شخص روز صبح 7، 8 یا 9 بجے سے اپنے اسکول، کالج یا دفاتر میں اپنے کام کا آغاز کردیتا ہے۔ یہ ایک عام رواج ہے جو دنیا بھر میں قانون کی شکل میں رائج ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے ایسا کرنا دراصل خود کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق صبح 10 بجے سے قبل کام کا آغاز کرنا دراصل جسمانی تشدد کی ایک قسم ہے۔

    دراصل ہمارے جسم کے اندر ایک قدرتی خود کار گھڑی نصب ہے جسے سرکیڈین ردھم کہا جاتا ہے۔ یہ گھڑی ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں کس وقت سونا، کس وقت جاگنا، اور ہمارے دماغ کو کس وقت کیا کام کرنا ہے۔

    مزید پڑھیں: کارکردگی میں اضافے کے لیے 3 دن کا ویک اینڈ؟

    یہ گھڑی ہمارے جسم کی توانائی اور ہارمونز کے افعال میں باقاعدگی پیدا کرنے کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے۔

    ہر روز 8 گھنٹے کام کرنے کا اصول 18 ویں صدی میں بنایا گیا جب سرمایہ دار طبقے کا مقصد صرف اور صرف اپنے کاروبار کو وسعت اور ترقی دینا تھا اور اس وقت انسانی جسم کی ضروریات کو بالکل نظر انداز کردیا گیا۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق اگر ہم سورج نکلنے کے بعد اپنے کام کا آغاز کریں تو ہمارا جسم اس وقت کام کے لیے آمادہ ہوتا ہے۔ صبح 10 بجے سے قبل کام کرنا دراصل سوئے ہوئے جسم اور دماغ سے زبردستی کام کروانا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی گھڑی کے اوقات کار میں خلل ڈالنا ایسا ہی ہے جیسے کسی کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ اس کے بدترین جسمانی و نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس سے قبل تحقیقی تجربے کے تحت اسکول کے اوقات کار میں رد و بدل کیا اوربچوں نے صبح 10 بجے کے بعد اپنی پڑھائی کا آغاز کیا۔

    مزید پڑھیں: موسیقی سننا ملازمین کی کارکردگی میں اضافے کا سبب

    انہوں نے دیکھا کہ عام اوقات کار کے برعکس ان اوقات کار میں بچوں کی ذہنی کارکردگی اور صلاحیتوں میں اضافہ ہوا۔ بچوں کی حاضری میں اضافہ اور ان کی تعلیمی کارکردگی میں بھی بہتری آئی۔

    ماہرین نے تجویز دی کہ اس تحقیق کے نتائج پر غور کرتے ہوئے کام کرنے کے اوقات کار میں تبدیلی لانے کے بارے میں سوچا جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • زیادہ کام کرنے سے دماغی صحت کو خطرہ

    زیادہ کام کرنے سے دماغی صحت کو خطرہ

    کیا آپ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق ہر وقت ’کام، کام اور کام ‘کے مقولے پر یقین رکھتے ہیں؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو جان جایئے کہ آپ اپنی دماغی صحت کو شدید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

    آسٹریلیا میں میلبرن انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اور سوشل ریسرچ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق 40 سال کی عمر سے زائد وہ افراد جو ہفتہ میں 25 گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں، ان کی دماغی صلاحیت میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ہفتہ میں 25 گھنٹے یا اس سے کم وقت کام کرنے سے بڑی عمر کے افراد کا دماغ متحرک رہتا ہے۔ یہ اثر مرد و خواتین دونوں میں دیکھا گیا۔ 25 گھنٹے کام کرنے سے دماغ اپنے تمام افعال خوش اسلوبی سے انجام دے سکتا ہے۔

    لیکن اس سے زیادہ کام کرنا جسمانی اور نفسیاتی دباؤ پیدا کر سکتا ہے جس کا اثر دماغ کی کارکردگی پر ہوگا۔

    ریسرچ کے سربراہ کولن مک کنز نے بتایا کہ 20 سال کی عمر کے بعد دماغ میں موجود مائع جو معلومات کو ذخیرہ کرتا ہے کی کارکردگی کم ہونے لگتی ہے۔ ایک اور مادہ جو کسی چیز کو سیکھنے میں مدد دیتا ہے، 30 سال کی عمر کے بعد غیر فعال ہونے لگتا ہے۔

    ان کے مطابق 40 سال کی عمر کے بعد لوگ ذہنی مشقوں میں ناکام اور یادداشت کے حوالے سے مسائل کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

    مک کولنز نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کئی ممالک میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا جاچکا ہے جبکہ کئی ممالک اس پر غور کر رہے ہیں۔ یہ عمل ملکوں کی معیشت پر منفی اثر ڈالے گا کیونکہ ان کے پاس کام کرنے والے افراد ذہنی مسائل کا شکار ہوں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کارکردگی کو متاثر کرنے والی نقصان دہ عادات

    کارکردگی کو متاثر کرنے والی نقصان دہ عادات

    ہم اپنے کام کے وقت بہترین کارکردگی دکھانا اور کامیاب ہونا چاہتے ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کام کے دوران ہمارا ارتکاز ٹوٹ جاتا ہے اور ہم بہترین کام نہیں کر پاتے۔

    دراصل ہماری کچھ عادات ایسی ہوتی ہیں جو ہماری لاعلمی میں ہماری کارکردگی اور دماغ کو سست کردیتی ہیں اور ہم بہترین کام نہیں کر پاتے۔ آئیں دیکھیں وہ کون سی عادات ہیں جو ہماری کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دماغ کی بہترین کارکردگی کا وقت کون سا ہے؟


    سونے سے قبل اسمارٹ فون کا استعمال

    ہمارے اسمارٹ فونز ہماری زندگی پر اس قدر حاوی ہوگئے ہیں کہ یہ ہر لمحے ہمارے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ ہم رات سونے سے قبل اور صبح جاگنے کے بعد سب سے پہلے اپنا اسمارٹ فون دیکھتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اسمارٹ فون کی نیلی روشنیاں ہماری دماغی صحت اور نیند کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    یہ روشنی نیند کے خلیات کو متاثر کرتی ہے جس سے ہم رات کو بھرپور نیند نہیں لے پاتے نتیجتاً صبح ہم پر غنودگی اور سستی چھائی رہتی ہے اور کام کرنے کا دل نہیں چاہتا۔


    توجہ بھٹکنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی کام پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے 15 منٹ درکار ہوتے ہیں۔ 15 منٹ بعد ہمارا ذہن رواں ہوجاتا ہے اور اس کے بعد ہم مکمل ارتکاز اور دلچسپی کے ساتھ وہ کام کرنے لگتے ہیں۔

    لیکن اس دوران اگر آپ کسی چیز سے مخل ہوئے، آپ نے کام سے توجہ ہٹا کر فیس بک، ٹویٹر یا کسی دوسری شے کی طرف مبذول کرلی تو آپ کا ارتکاز ٹوٹ جائے گا۔

    اس کا مطلب ہے کہ آپ کو کام پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے مزید 15 منٹ درکار ہیں۔ کام کے دوران تمام سوشل میڈیا سائٹس کے نوٹی فکیشن بند کردیں اور موبائل بھی سائلنٹ پر کردیں۔


    ہر وقت جواب دینا

    آپ کے فون پر آنے والے پیغامات اور آپ کو موصول ہونے والی ای میلز فوری جواب کی متقاضی نہیں ہوتیں۔

    پھر بھی اگر آپ ہر گھنٹے بعد اپنا موبائل اور ای میل چیک کرتے ہیں اور ضروری و غیر ضروی پیغامات کا فوری جواب دیتے ہیں تو یہ عمل آپ کی کارکردگی کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    اس کے بجائے ای میل اور موبائل فون چیک کرنے کے لیے ایک مخصوص وقت رکھ لیں۔ یہ وقت دن میں 2 بار بھی ہوسکتا ہے۔

    مکمل توجہ سے کام کریں اور مخصوص وقت میں اپنا موبائل اور ای میل دیکھ کر ضروری پیغامات کا جواب دیں۔


    ناپسندیدہ افراد کے بارے میں سوچنا

    ہم سب کی زندگیوں میں کچھ افراد ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کی عادات اور گفتگو کی وجہ سے ہم انہیں سخت ناپسند کرتے ہیں اور ان کی موجودگی میں ہم سخت الجھن اور بے زاری محسوس کرتے ہیں۔

    ایسے افراد کے بارے میں تنہائی میں سوچنا بھی آپ کے دماغ کو منفی خیالات سے بھر سکتا ہے۔ جن لوگوں کو آپ پسند نہیں کرتے انہیں نظر انداز کردیں اور ان کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی نہ کریں۔


    میٹنگ کے دوران مختلف کام سر انجام دینا

    جب بھی آپ کسی میٹنگ میں شریک ہوں تو یاد رکھیں کہ میٹنگ ایسی ہو جو آپ کی مکمل توجہ کی متقاضی ہو۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ میٹنگ میں کی جانے والی گفتگو آپ کے لیے غیر ضروری ہے تو ایسی میٹنگ میں شریک ہو کر وقت ضائع نہ کریں۔

    یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ کسی میٹنگ میں جائیں اور وہاں بیٹھ کر اسمارٹ فون یا ٹیب پر اپنا کوئی ادھورا کام نمٹائیں۔ یہ رویہ کام سے آپ کی عدم دلچسپی کو ظاہر کرے گا۔


    گپ شپ سے پرہیز کریں

    آپ نے سابق امریکی خاتون اول ایلینور روز ویلیٹ کا وہ مقولہ ضور سنا ہوگا، ’عظیم لوگ خیالات کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، اوسط درجے کے لوگ واقعات جبکہ عام افراد دیگر افراد کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں‘۔

    کام کے دوران اگر آپ کے پاس وقت ہے تو اسے ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ میں ضائع کرنے کے بجائے کسی سینیئر کے پاس جا کر بیٹھ جائیں اور ان کے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کریں۔


    بہترین کا انتظار کرنا

    اگر آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے مکمل مہارت حاصل کرنے کا انتظار کر رہے ہیں تو آپ وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ کام شروع کردیں، مہارت خود بخود آتی جائے گی۔

    شروع میں آپ کا کام کم معیار کا ہوگا لیکن آہستہ آہستہ اس کا معیار بہتر ہوتا جائے گا۔

    بعض مصنفین یا دیگر لکھنے والے افراد بھی یہی حرکت کرتے ہیں۔

    جب بھی ان کے ذہن میں کچھ نیا آتا ہے وہ اسے الگ سے لکھ کر ایک جگہ رکھ دیتے ہیں لیکن کبھی ان صفحات کو ضم کر کے مکمل کتاب کی شکل دینے کی کوشش نہیں کرتے، کیونکہ وہ کسی بہترین آئیڈیے اور اس کے مکمل ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔

    انتظار کرنے والے لوگ ہمیشہ انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ ایک مصنف نے ایسی ہی صورتحال کے لیے کہا ہے، ’ایک برے لکھے ہوئے صفحے کی درستگی کی جاسکتی ہے، لیکن ایک خالی صفحے کی درستگی نہیں کی جاسکتی‘۔

    لہٰذا انتظار چھوڑیں اور جو کرنا چاہتے ہیں آج ہی سے اس کا آغاز کریں۔


    دوسروں سے مقابلہ کرنا

    جب بھی آپ کوئی کامیابی حاصل کریں تو خوش ہوں، اور اس کا مقابلہ کسی دوسرے شخص سے مت کریں کہ کاش وہ مل جاتا جو اسے ملا۔

    یہ سوچ آپ کی خوشی اور مزید کام کے لیے حوصلہ افزائی کو ختم کردے گی اور آپ کامیابی پر خوش ہونے کے برعکس مایوس اور بد دل ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔