Tag: workforce

  • جرمنی میں ملازمتوں کے مواقع، لاکھوں ہنرمندوں کی ضرورت

    جرمنی میں ملازمتوں کے مواقع، لاکھوں ہنرمندوں کی ضرورت

     یورپی ملک جرمنی کو اپنے ملک کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کے لیے سالانہ 4 لاکھ غیر ملکی باصلاحیت ہنرمندوں کی ضرورت ہے

    جرمن میں کم ہوتی تازہ دم ورک فورس اور زیادہ ریٹائرمنٹ کی شرح نے ملک میں ہنرمندوں کی کمی پیدا کردی ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے جرمنی کو سالانہ 4 لاکھ غیر ملکی ہنرمندوں کی ضرورت ہے۔

    جرمنی کی نئی اتحادی حکومت نے ملک میں آبادی کے عدم توازن اور کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد مختلف شعبوں میں کام کے لیے ہر سال بیرون ملک سے 4 لاکھ باصلاحیت ہنرمندوں کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔

    جرمن حکومت کی اتحادی جماعت فری ڈیموکریٹس کے پارلیمانی لیڈر کرسچن ڈیوئر نے ایک بزنس میگزین کو بتایا کہ ملک میں ہنرمندوں کی کمی اس قدر سنگین ہوچکی ہے کہ یہ ہماری معیشت کو ڈرامائی طور پر سست کررہی ہے۔

    ڈیوئر نے مزید کہا کہ زائد العمر لیبر کی سنگین صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمارے پاس ایک ہی حل ہے کہ جلد ایک جدید امیگریشن پالیسی بنائیں جس کے تحت ہم بیرونی ممالک سے سالانہ 4لاکھ باصلاحیت ہنرمندوں کو اپنی طرف راغب کریں۔

    اس حوالے سے جرمن چانسلر اولف شولز اور انکے اتحادیوں نے یورپی یونین سے باہر دیگر ممالک سے باصلاحیت لوگوں کو جرمنی کی طرف راغب کرنے کے لیے کچھ نکات پر اتفاق کیا ہے اور جرمن کو زیادہ ملازم دوست ملک بنانے کے لیے فی گھنٹہ اجرت کو 12 یورو (13.60 ڈالر) تک بھی بڑھایا گیا ہے۔

    جرمنی میں لیبر فورس کی قلت کی سنگینی کا اندازہ جرمن اکنامک انسٹیٹیوٹ کی اس تجزیاتی رپورٹ سے بھی ہوتا ہے جس میں رواں سال لیبر فورس میں 3 لاکھ سے زائد افراد کم ہونے کا تخمینہ ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ لیبر مارکیٹ میں نئی اور جوان فیلڈ فورس آنے کی نسبت بڑی عمر کے کارکن زیادہ ریٹائر ہوں گے۔

    میگزین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ فرق 2029 میں بڑھ کر ساڑھے 6 لاکھ سے زائد ہوجائے گا، جس سے 2030 میں کام کرنے کی عمر کے لوگوں کی کمی 5 ملین تک ہوجائے گی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں کئی دہائیوں کی کم شرح پیدائش اور غیر مساوی ہجرت کے بعد ایک سکڑتی ہوئی لیبر فورس جرمنی کے عوامی پنشن کے نظام کے لیے آبادیاتی ٹائم بم بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

  • 6 لاکھ سعودی خواتین عملی میدان میں سرگرم

    6 لاکھ سعودی خواتین عملی میدان میں سرگرم

    ریاض : سعودی وزارت مزدور و سماجی بہبود نے کہا ہے کہ ’ہم سعودی خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کیلئے مختلف شعبوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں‘۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے وژن 2030 کے تحت سعودی خواتین کو ڈرائیونگ اور کھیل سمیت مختلف شعبوں میں اپنے صلاحیتیں دکھانے کا موقع پر دیا جس کے بعد خواتین نے ہر شعبے میں اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوایا۔

    وزارت مزدور کی نمائندہ نوال عبداللہ التیبعان کا کہنا تھا کہ وژن 2030 کے تحت خواتین کو آزادی دینے کے بعد سے اب تک چھ لا کھ سعودی خواتین جاب مارکیٹ کا حصّہ بن چکی ہیں۔

    التیبعان کا کہنا ہے کہ سعودی خواتین کی ورک فورس متعدد رکاٹوں اور چیلنجز کے باوجو نہ صرف پیداواری اور تخلیقی شعبوں میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے۔

    وزارت مزدور مکہ برانچ کی ڈائریکٹر نوال عبداللہ التیبعان نے کنگ عبداللہ یونیورسٹی میں محمد بن سلمان کے وژن 230 سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزارت مزدور نے خواتین کو ملازمت مواقع فراہم کرنے کےلیے 68 نئی اسکیمیں شروع کیں ہیں۔

    کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں خواتین کی خود مختاری اور ملازمتوں کے حوالے سے منعقدہ  سیمینار میں ریاست مکہ کی منسٹری برانچ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل نوال عبداللہ التیبعان نے کہا کہ سعودی عرب کی خواتین ملازمین نہ صرف محنت سے آگے بڑھ رہی ہیں بلکہ وہ ایسے کام بھی سر انجام دے رہی ہیں جو ان کے لیے ایک چیلنج تھے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ سعودی حکومت نے خواتین کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے 344 ارب ریال کی سرمایہ کاری سے 499 نئے پروجیکٹ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

    اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے مطابق اس وقت سعودی حکومت 4 سے زائد بچوں کی والدہ خواتین ملازمین کو مراعتیں بھی فراہم کر رہی ہے۔

    مزید پڑھیں : عدوا الدخیل سعودی عرب کی پہلی خاتون پائلٹ بن گئیں

    یاد رہے کہ گزشتہ برس تین جون کو ایک تاریخ سا ز فیصلے کے نتیجے میں سعودی خواتین کو گاڑی چلا نے کی اجازت ملی تھی جو کہ ایک قدامت پسند معاشرے میں بڑا اقدام تھا، جس کے بعد متعدد شعبوں میں خواتین اپنی صلاحتیوں کا لوہا منواتی رہیں۔

    عرب میڈیا کے مطابق رواں ماہ سعودی خاتون عدوا الدخیل نے بلندی سے گرنے کے خوف کو شکست دیتے ہوئے پہلی سعودی خاتون پائلٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔