Tag: World book day

  • لوگوں کی زندگیاں بدلنے والا مصنف، جو کبھی خود پاگل خانے میں رہا

    لوگوں کی زندگیاں بدلنے والا مصنف، جو کبھی خود پاگل خانے میں رہا

    آج کتاب کا عالمی دن منایا جارہا ہے، آج کے دن آپ اس مقبول مصنف سے ضرور ملنا چاہیں گے جس کی ایک کتاب نے کروڑوں زندگیوں پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    یہ مصنف لوگوں کی زندگیوں میں امید کی نئی کرن جگانے والا پائلو کوئیلو ہے جس کی کتاب ’الکیمسٹ‘ نے پڑھے جانے کے ریکارڈز توڑ دیے۔ کوئیلو کی ابتدائی زندگی بے حد نشیب و فراز سے گزری۔

    کوئیلو کو اس کے والدین لکھنے سے منع کرتے تھے۔ وہ ان کی بات بظاہر تو مان لیتا، لیکن وہ چھپ چھپ کر لکھتا رہا۔ 17 سال کی عمر میں کوئیلو کو اس کے والدین نے پاگل خانے میں داخل کروا دیا۔

    اس نے یہاں سے 3 دفعہ فرار ہونے کی کوشش کی اور اپنی آخری کوشش میں کامیاب رہا۔ اپنی عمر کی دوسری اور تیسری دہائی اس نے ہپیز کی طرح گزاری۔ وہ بغیر کسی مقصد کے کئی شہروں کا سفر کرتا رہا۔

    بالآخر اس نے زندگی کے معنوں کی طرف توجہ کی اور اسے کھوجنے کے لیے اسپین کا سفر کیا۔ یہاں اس نے ایک مقدس مذہبی مقام پر چند دن گزارے۔ کوئیلو نے بدھا کی طرح مراقبے بھی کیے جو روحانی طور پر اس کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔

    30 سال کی عمر کے بعد اسے خیال آیا کہ اپنے خوابوں کی تکمیل کی جائے، اس نے پھر سے قلم سنبھالا اور 40 سال کی عمر میں اپنی پہلی کتاب لکھی۔

    اس کے بعد کوئیلو نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الکیمسٹ لکھی، یہ کتاب اس نے صرف 2 ہفتوں میں لکھی تاہم اس کتاب کو ذرا بھی پذیرائی نہ ملی۔ کوئیلو اس ناکامی سے اداس تو ہوا تاہم اس نے ہمت نہ ہاری۔

    وہ اپنی کتاب لے کر گھر گھر جاتا اور لوگوں سے اسے پڑھنے کی درخواست کرتا۔ جیسے جیسے لوگوں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا، کتاب میں چھپے سحر انگیز پیغام نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔

    لوگوں کو محسوس ہوا کہ یہ ان کی اپنی زندگی کی روداد ہے، وہ خود بھی ساری عمر کسی ایسے خزانے کی تلاش میں رہتے ہیں جو پلک جھپکتے ان کی زندگی بدل دے۔

    اس وقت کوئیلو کی قسمت کا ستارہ چمکا اور کتاب آہستہ آہستہ مقبول ہونے لگی۔ کتاب کی فروخت میں اضافے کے ساتھ اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنے کی ضرورت پیش آئی لیکن ابھی کوئیلو کی جیب اس کی اجازت نہ دیتی تھی۔

    بالآخر اس نے ایسا پبلشر ڈھونڈ لیا جس نے اس کتاب کو دوبارہ چھاپنے کی ہامی بھری۔ لیکن اس پبلشر کا ماننا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کتاب کے لیے ہامی بھر بیٹھا تھا، اس کے اندر سے کسی آواز نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔

    آج اس کتاب کی دنیا بھر میں ساڑھے 6 کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اس کتاب کا 80 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور یہ ادب کی دنیا کا ایک ریکارڈ تھا جس کے بعد اس کتاب کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی شامل کرلیا گیا۔

    دنیا بھر میں 15 کروڑ افراد کا ماننا ہے کہ اس کتاب نے ان کی زندگی پر نہایت مثبت اثرات مرتب کیے اور اس وقت انہیں امید کی کرن دکھائی جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوچکے تھے۔

    کوئیلو سمجھتا ہے کہ جب آپ کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پوری کائنات اسے حاصل کرنے میں آپ کی مدد کرتی ہے۔

    کامیاب ہونے کے بعد کوئیلو نے اپنے والدین سے بھی تعلقات بحال کرلیے جو ایک وقت میں اسے غیر ضروری جان کر پاگل خانے میں چھوڑ گئے تھے۔

    کوئیلو کہتا ہے، ’زندگی میں خطرات (رسک) مول لینے پڑتے ہیں، ہم زندگی کے معجزات کو صرف اسی وقت مکمل طور پر سمجھ سکتے ہیں جب ہم غیر متوقع چیزوں کو رونما ہونے دیتے ہیں‘۔

    کیا آپ نے اس شاندار کتاب کو پڑھا ہے؟

  • پاکستان سمیت دنیا بھرمیں کتاب کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھرمیں کتاب کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے

    دنیا بھر میں آج کتاب کا عالمی دن منایا جارہا ہے اورعلم دوست معاشروں میں ایسے دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، جن معاشروں کے اذہان بوسیدہ ہوجاتے ہیں وہاں کتب بینی کا رجحان ختم ہونے لگتا ہے۔

    اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسکو نے آج سے 22 سال قبل آج کے دن کو کتاب کا عالمی دن کے طور پرمنانے کا فیصلہ کیا تھا‘ آج کا دن منتخب کرنے کی ایک وجہ آج کے دن کا عظیم مفکر اورادیب ولیم شیکسپئر کے انتقال سے منسوب ہونا بھی ہے۔

    آج کے دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں کتب بینی کے رحجان کو ترویج دینا ہے بالخصوص آئندہ نسل جو کہ ڈیجیٹل دنیا میں پیدا ہوئی ہے اسے کتاب پڑھنے کا ذوق اورشوق ودیعت کرنا ہے۔

    اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کی آئندہ نسلیں کتاب سے دور نہ ہوں تو ضروری ہے کہ انہیں کتب بینی کا عادی بنایا جائے‘ انہیں ترغیب دی جائے کہ زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھیں‘ انہیں کتابیں مہیا کی جائیں اور مہنگی اور معیاری کتب تک انہیں آسان رسائی دی جائے۔

    آج کے دن کی مناسبت سے ہم آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں کچھ ایسی کتابوں کا تعارف جو یقیناً حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔

    راموز – جون ایلیا

    راموز‘ بے مثل و بے بدل شاعر ادیب اور فلسفی جون ایلیا کی معرکتہ الآرا تصنیف کا نام ہے، جون محض ایک شخص نہیں بلکہ اردو ادب کا ایک دور ہیں جن سے آج اور آنے والے وقت کے اردو دانوں کو مفر ممکن نہیں ہوسکے گا۔

    کہتے ہیں کہ اپنی زندگی میں ہی شہرت کے بام ِعروج پرپہنچے والے ادیب زمان ومکاں کی سرحدوں سے ماورا صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور جب بات جون ایلیا جیسے مصنف کی ہو تو ان کے مداح اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ جون وہ شاعرو ادیب ہیں کہ جو اپنی زندگی میں لازوال شہرت کے حامل تھے۔

    جون ایلیا کی کتاب ’راموز‘ کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ جون ایلیا کی زندگی کی یہ کتاب اردو ادب میں تحقیق کے نئے ابواب وا کرے گی۔ راموز اٹھارہ الواح پرمشتمل ایک رزمیہ نظم ہے جو کہ اردو شاعری کو ایک نئی جہت اور نئی وسعت عطا کرے گی۔

    جل پری – سعود عثمانی

    جب کبھی اردو شاعری پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس کے دامن میں حقیقی قوت تخیل کے حامل اذہان کا قحط پڑ گیا ہے‘ تب تب ایسے شعرا ءسامنے آتے ہیں جو کہ ایسے الزامات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔معروف شاعر سعود عثمانی کا تیسرا شعری مجموعہ ’جل پری‘ بھی کچھ ایسا ہی تاثر پیش کرتا ہے۔

    سعود عثمانی اس سے قبل دو شعری مجموعے ’قوس ‘اور’بارش ‘شائع کرچکے ہیں اور ان کا تیسرا شعری مجموعہ جل پری ہے جو رواں برس منظرِ عام پر آیا ہے۔

    جل پری سعود عثمانی کا تیسرا شعری مجموعہ ہے اور اس عنوان نے انہیں اس وقت سے اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے جب وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے اور سردیوں کی کپکپاتی رات میں انگھیٹی کنارے بیٹھے جل پریوں کی ایک کہانی پڑھ رہے تھے۔

    سعود عثمانی اپنی کتاب کے دیباچے میں رقم طراز ہیں کہ ’’اس عمرمیں بھی وہ ( کم عمر سعود عثمانی) جل پری کے سحر سے زیادہ اس کی دل گرفتہ اداسی اور کرب سے آشنا ہوا۔ دو جہانوں میں رہنے والی جل پری کسی ایک جہان میں نہیں رہ سکتی تھی اور یہ بہت الگ زندگی تھی‘‘۔

    ڈیورنڈ لائن کا قیدی – فیض اللہ خان

    ڈیورنڈ لائن کا قیدی نامی یہ کتاب معروف صحافی فیض اللہ خان کی یادداشتوں پر مبنی ہے جس میں وہ تحریک طالبان پاکستان کےسربراہ کے انٹرویو کے لیے افغانستان جانے اور پھر وہاں قید ہونے سے لے کر رہائی تک کی اپنی داستاں بیان کررہے ہیں۔

    فیض اللہ خان بنیادی طور پر صحافی ہیں اور سادہ زبان لکھنے کے عادی ہیں۔ ان کا یہی اندازِ تحریر کتاب میں بھی نظر آتا ہے ۔ کتاب میں انہوں نے اپنی داستان انتہائی سادہ اور سلیس اندازمیں بیان کی ہے اور ادبی اصلاحوں اور تصنع کے بغیر کتاب عام قاری کے لیے انتہائی آسان فہم ہے۔

    فیض اللہ نے کو شش کی ہےکہ ’ڈیورنڈ لائن کا قیدی ‘ میں خود پر بیتے جانے والے واقعات کو وہ من و عن ایسے ہی بیان کردیں کہ جس طرح سے وہ ان پر بیتے‘ اوریقینی طور پر وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔

    ضرور پڑھیں رسیدی ٹکٹ – امرتا پریتم

    امرتا اپنی زندگی میں ایک بے باک ‘ نڈر اور صاف گو شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھیں اور یہی لہجہ انہوں نے اپنی پہلی آپ بیتی ’رسیدی ٹکٹ‘ مرتب کرتے ہوئے اپنایا ہے اور اس میں وہ تمام باتیں بھی تحریر کی ہیں جن کا اعتراف شائد اس کتاب کے شائع ہونے کے اکتالیس سال بعد کی عورت بھی کرنے سے گریزکرتی ہے۔

    امرتا کی زندگی دکھوں سے عبارت تھی اور یہی دکھ ان کی نظموں اورناولوں سےجھلکتے ہیں اور جب وہ اپنی آپ بیتی لکھنے بیٹھیں تو گویا دل چیرکررکھ دیا اور اپنے حزیں قلب پر لگا ہر ایک داغ اپنے قارئین کے سامنے کردیا کہ دنیا جان لے کہ وہ مصنف اورشاعرجوان کے غموں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر دنیا کے سامنے لاتی ہے اور انہیں نئے سرے سے جینےکا حوصلہ دیتی ہے اس کی اپنی زندگی کتنے دکھوں سے عبارت ہے۔

    رسیدی ٹکٹ کو امرتا نے آپ بیتی لکھنے کے مروجہ طریقہ کار سے انحراف کرتے ہوئے خیالات کے بہاؤ کو ضبطِ تحریر کیا ہے اور یہ کمال ’پنجر‘ جیسے معروف ناول کی مصنف ہی دکھا سکتی تھیں۔ا مرتا کی آب بیتی ہمیں تقسیم کے قبل کے پنجاب میں لے جاتی ہے جہاں کا ایک مخصوص معاشرتی نظام تھا اور ہم امرتا کے ساتھ اس سفر میں شریک ہوکر گجرانوالہ میں آباد سکھوں کی بود وباش جینے لگتے ہیں اورجس لمحے کمسن امرتا کے لبوں سے رب العزت کے حضور یہ دعانکلتی ہے کہ’ میری ماں کو نا مارنا‘‘ – کہتے ہیں کہ بچوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں لیکن اس دن امرتا کی دعا عرش سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے اورماں مرجاتی ہے۔ اس لمحے امرتا کے ساتھ ہم بھی اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس کرتے ہیں اوردل میں ایسا کرب اٹھتا ہے جسے بیان کرنا انہی کا خاصہ ہے۔

    الجھے سلجھے انور – عمرانہ مقصود

    معروف ادیب و افسانہ نگار انور مقصود کی سوانح حیات پر مبنی کتا ب ’’الجھے سلجھے انور‘‘کی رونمائی کی گئی۔ کتاب کی مصنفہ ان کی شریکِ حیات عمرانہ مقصود ہیں‘ جنہوں نے انور مقصود کی 75 سالہ زندگی کا تفصیلی جائزہ انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مکتبۂ دانیال کی جانب سے شائع کردہ معروف ڈرامہ و افسانہ نگار اور کمپیئر انور مقصود کی سوانح حیات کی رونمائی کراچی میں ہوئی، یہ کتاب انور مقصود کی اہلیہ نے تحریر کی اور اسے ’’الجھے سلجھے انور‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے متعلق ناقدین کی رائے ہے کہ انور مقصود کے اس سے زیادہ مستند سوانح حیات نہیں ہوسکتی۔

    اس موقع پر انور مقصود کا خود بھی یہی کہنا تھا کہ ’’میری سوانح عمری میری ہمسفر نے تحریر کی‘ میرے بارے میں میری بیگم سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا۔ تقریب کے شرکاء نے کتاب کی رونمائی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری زندگیوں میں سیکھنے کے عمل کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

  • کتاب کا عالمی دن‘ 5 انتہائی دلچسپ کتابیں پڑھیں

    کتاب کا عالمی دن‘ 5 انتہائی دلچسپ کتابیں پڑھیں

    دنیا بھر میں آج کتاب کا عالمی دن منایا جارہا ہے اورعلم دوست معاشروں میں ایسے دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، جن معاشروں کے اذہان بوسیدہ ہوجاتے ہیں وہاں کتب بینی کا رجحان ختم ہونے لگتا ہے۔

    اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسکو نے آج سےاکیس سال قبل آج کے دن کو کتاب کا عالمی دن کے طور پرمنانے کا فیصلہ کیا تھا‘ آج کا دن منتخب کرنے کی ایک وجہ آج کے دن کا عظیم مفکر اورادیب ولیم شیکسپئر کے انتقال سے منسوب ہونا بھی ہے۔

    آج کے دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں کتب بینی کے رحجان کو ترویج دینا ہے بالخصوص آئندہ نسل جو کہ ڈیجیٹل دنیا میں پیدا ہوئی ہے اسے کتاب پڑھنے کا ذوق اورشوق ودیعت کرنا ہے۔

    اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کی آئندہ نسلیں کتاب سے دور نہ ہوں تو ضروری ہے کہ انہیں کتب بینی کا عادی بنایا جائے‘ انہیں ترغیب دی جائے کہ زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھیں‘ انہیں کتابیں مہیا کی جائیں اور مہنگی اور معیاری کتب تک انہیں آسان رسائی دی جائے۔

    آج کے دن کی مناسبت سے ہم آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں کچھ ایسی کتابوں کا تعارف جو یقیناً حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کے جھونکے کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔


    راموز – جون ایلیا


    راموز‘ بے مثل و بے بدل شاعر ادیب اور فلسفی جون ایلیا کی معرکتہ الآرا تصنیف کا نام ہے، جون محض ایک شخص نہیں بلکہ اردو ادب کا ایک دور ہیں جن سے آج اور آنے والے وقت کے اردو دانوں کو مفر ممکن نہیں ہوسکے گا۔

    کہتے ہیں کہ اپنی زندگی میں ہی شہرت کے بام ِعروج پرپہنچے والے ادیب زمان ومکاں کی سرحدوں سے ماورا صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور جب بات جون ایلیا جیسے مصنف کی ہو تو ان کے مداح اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ جون وہ شاعرو ادیب ہیں کہ جو اپنی زندگی میں لازوال شہرت کے حامل تھے۔

    جون ایلیا کی کتاب ’راموز‘ کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ جون ایلیا کی زندگی کی یہ کتاب اردو ادب میں تحقیق کے نئے ابواب وا کرے گی۔ راموز اٹھارہ الواح پرمشتمل ایک رزمیہ نظم ہے جو کہ اردو شاعری کو ایک نئی جہت اور نئی وسعت عطا کرے گی۔

    جل پری – سعود عثمانی

    جب کبھی اردو شاعری پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس کے دامن میں حقیقی قوت تخیل کے حامل اذہان کا قحط پڑ گیا ہے‘ تب تب ایسے شعرا ءسامنے آتے ہیں جو کہ ایسے الزامات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔معروف شاعر سعود عثمانی کا تیسرا شعری مجموعہ ’جل پری‘ بھی کچھ ایسا ہی تاثر پیش کرتا ہے۔

    سعود عثمانی اس سے قبل دو شعری مجموعے ’قوس ‘اور’بارش ‘شائع کرچکے ہیں اور ان کا تیسرا شعری مجموعہ جل پری ہے جو رواں برس منظرِ عام پر آیا ہے۔

    جل پری سعود عثمانی کا تیسرا شعری مجموعہ ہے اور اس عنوان نے انہیں اس وقت سے اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے جب وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے اور سردیوں کی کپکپاتی رات میں انگھیٹی کنارے بیٹھے جل پریوں کی ایک کہانی پڑھ رہے تھے۔

    سعود عثمانی اپنی کتاب کے دیباچے میں رقم طراز ہیں کہ ’’اس عمرمیں بھی وہ ( کم عمر سعود عثمانی) جل پری کے سحر سے زیادہ اس کی دل گرفتہ اداسی اور کرب سے آشنا ہوا۔ دو جہانوں میں رہنے والی جل پری کسی ایک جہان میں نہیں رہ سکتی تھی اور یہ بہت الگ زندگی تھی‘‘۔

     ڈیورنڈ لائن کا قیدی – فیض اللہ خان

    ڈیورنڈ لائن کا قیدی نامی یہ کتاب معروف صحافی فیض اللہ خان کی یادداشتوں پر مبنی ہے جس میں وہ تحریک طالبان پاکستان کےسربراہ کے انٹرویو کے لیے افغانستان جانے اور پھر وہاں قید ہونے سے لے کر رہائی تک کی اپنی داستاں بیان کررہے ہیں۔

    فیض اللہ خان بنیادی طور پر صحافی ہیں اور سادہ زبان لکھنے کے عادی ہیں۔ ان کا یہی اندازِ تحریر کتاب میں بھی نظر آتا ہے ۔ کتاب میں انہوں نے اپنی داستان انتہائی سادہ اور سلیس اندازمیں بیان کی ہے اور ادبی اصلاحوں اور تصنع کے بغیر کتاب عام قاری کے لیے انتہائی آسان فہم ہے۔

    فیض اللہ نے کو شش کی ہےکہ ’ڈیورنڈ لائن کا قیدی ‘ میں خود پر بیتے جانے والے واقعات کو وہ من و عن ایسے ہی بیان کردیں کہ جس طرح سے وہ ان پر بیتے‘ اوریقینی طور پر وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔

    ضرور پڑھیں رسیدی ٹکٹ – امرتا پریتم

    امرتا اپنی زندگی میں ایک بے باک ‘ نڈر اور صاف گو شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھیں اور یہی لہجہ انہوں نے اپنی پہلی آپ بیتی ’رسیدی ٹکٹ‘ مرتب کرتے ہوئے اپنایا ہے اور اس میں وہ تمام باتیں بھی تحریر کی ہیں جن کا اعتراف شائد اس کتاب کے شائع ہونے کے اکتالیس سال بعد کی عورت بھی کرنے سے گریزکرتی ہے۔

    امرتا کی زندگی دکھوں سے عبارت تھی اور یہی دکھ ان کی نظموں اورناولوں سےجھلکتے ہیں اور جب وہ اپنی آپ بیتی لکھنے بیٹھیں تو گویا دل چیرکررکھ دیا اور اپنے حزیں قلب پر لگا ہر ایک داغ اپنے قارئین کے سامنے کردیا کہ دنیا جان لے کہ وہ مصنف اورشاعرجوان کے غموں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر دنیا کے سامنے لاتی ہے اور انہیں نئے سرے سے جینےکا حوصلہ دیتی ہے اس کی اپنی زندگی کتنے دکھوں سے عبارت ہے۔

    رسیدی ٹکٹ کو امرتا نے آپ بیتی لکھنے کے مروجہ طریقہ کار سے انحراف کرتے ہوئے خیالات کے بہاؤ کو ضبطِ تحریر کیا ہے اور یہ کمال ’پنجر‘ جیسے معروف ناول کی مصنف ہی دکھا سکتی تھیں۔ا مرتا کی آب بیتی ہمیں تقسیم کے قبل کے پنجاب میں لے جاتی ہے جہاں کا ایک مخصوص معاشرتی نظام تھا اور ہم امرتا کے ساتھ اس سفر میں شریک ہوکر گجرانوالہ میں آباد سکھوں کی بود وباش جینے لگتے ہیں اورجس لمحے کمسن امرتا کے لبوں سے رب العزت کے حضور یہ دعانکلتی ہے کہ’ میری ماں کو نا مارنا‘‘ – کہتے ہیں کہ بچوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں لیکن اس دن امرتا کی دعا عرش سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے اورماں مرجاتی ہے۔ اس لمحے امرتا کے ساتھ ہم بھی اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس کرتے ہیں اوردل میں ایسا کرب اٹھتا ہے جسے بیان کرنا انہی کا خاصہ ہے۔

    الجھے سلجھے انور – عمرانہ مقصود

    معروف ادیب و افسانہ نگار انور مقصود کی سوانح حیات پر مبنی کتا ب ’’الجھے سلجھے انور‘‘کی رونمائی کی گئی۔ کتاب کی مصنفہ ان کی شریکِ حیات عمرانہ مقصود ہیں‘ جنہوں نے انور مقصود کی 75 سالہ زندگی کا تفصیلی جائزہ انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مکتبۂ دانیال کی جانب سے شائع کردہ معروف ڈرامہ و افسانہ نگار اور کمپیئر انور مقصود کی سوانح حیات کی رونمائی کراچی میں ہوئی، یہ کتاب انور مقصود کی اہلیہ نے تحریر کی اور اسے ’’الجھے سلجھے انور‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے متعلق ناقدین کی رائے ہے کہ انور مقصود کے اس سے زیادہ مستند سوانح حیات نہیں ہوسکتی۔

    اس موقع پر انور مقصود کا خود بھی یہی کہنا تھا کہ ’’میری سوانح عمری میری ہمسفر نے تحریر کی‘ میرے بارے میں میری بیگم سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا۔ تقریب کے شرکاء نے کتاب کی رونمائی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری زندگیوں میں سیکھنے کے عمل کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔